اقبال نے کہا تھا ’’دیو استبداد ہے جمہور ی قبا میں پایہ کوب ‘‘ یعنی انتخابات سے اس بار برآمد ہوا مسلم دشمنی کا عفریت عالمآِشوب ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ایک بات تم ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو۔ یہ حیرت سرائے کائنات اس قدر حیرت انگیز عجوبہ خیز ہے کہ واقعہ کو وجود میں لانے والا ہی صرف اس کے وقوع کے مقصد کو جان سکتا ہے۔یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال دیا گیا تھا، سلسلہ اسباب کو ایسی جگہ پہنچانا تھا جہاں حضرت یوسف تخت مصر پر جلوہ افروز نظر آئیں، لیکن کیا حضرت یوسف کو اس کا علم تھا کہ ان کو کنویں میں اس لئے ڈالا جا رہا ہے اور کیا ان کو علم تھا کہ ان کو مصر کے بازار میں فروخت کیا جائے گا ،اور پھر ایک دن آئے گاجب وہ مصر کے تاج وتخت اور اقبال وبخت کے مالک ، اور فرما روائے سلطنت مصر بن جائیں گے ۔اللہ کی مشیّت کو کون جان سکتا ہے۔
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
گلستان میں جب خزاں آتی ہے اور پھول کھلنا بند ہوجاتے ہیں تو شاخوں کو نہیں معلوم ہوتا ہے کہ خزاں کے پیچھے ایک بہار بھی پوشیدہ ہے۔ جس طرح کرہ ارضی لیل ونہار کی کروٹیں بدلتا ہے اور جس طرح چمن میں کبھی بہارکاموسم آتا ہے اور کبھی اس پر خزاں چھاجاتی ہے اسی طرح سے سیاست کی دنیا میں بھی انقلاب آتے ہیں کبھی ایسے لوگ برسر اقتدار آتے ہیں جو انصاف پرور، شریف اور سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں اور کبھی ایسے لوگ حکومت پر فائز ہوجاتے ہیں جو انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔
اب جب کہ الیکشن کے نتائج سامنے آچکے ہیںمسلمانوں کے اندر اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے اس کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ بھی ذکر کردینا مناسب ہے کہ اللہ تعالی دنیا کے تمام مسلمانوں کو عقیدہ وعمل کی اعتبار سے آزماتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ان کا طرز عمل درست ہے یا نہیں وہ دین پر ثابت قدم رہتے ہیں یا نہیں اور اس کے لئے قربانیاں دینے کے لئے تیار رہتے ہیں یا نہیں۔جو اضطراب ہندوستان میں مسلمانوں کے اندر سیاسی تبدیلی کی وجہ سے ہے اس سے زیادہ شام، مصر اور عراق کے مسلمانوں میں ظالم حکمرانوں کے ظلم واستبداد کی وجہ سے ہے جہاں دار ورسن کیآزمائش در پیش ہے اورجہاںموج خوں ان کے سروں پر سے ہر روز گزر جاتی ہے ، شام میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے۔مصر میں دینی جماعت اخوان المسلمین کی جمہوری اور دستوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، ہزاروں کو جیل میں ڈال دیا گیا، ہزاروں کی زندگی کاچراغ گل کردیا گیا اور سیکڑوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ جو اضطراب مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے مستقبل کے بارے میں ہے، وہی اضطراب ہندوستان کے مسلمانوں کو ساری دنیا کے مسلمانوں کے بارے میںبھی ہونا چاہئے کیونکہ حدیث کی رو سے دنیا کے تمام مسلمان ’جسد واحد‘ کے مانند ہیں ۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ راہ شوق میں ہزاروں غم ہیں اور عالمی حالات ایسے ہیں کہ اضطراب اور پریشانی کا شکار صرف ہندوستانی مسلمان نہیں ہیں ، بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے مسلمان ہیں اور ان کی بھی آزمائش ہو رہی ہے اور ہم سے بھی زیادہ ہورہی ہے ۔ موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کرنے کے کام کیا ہیں انہیں اب ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے۔
استقامت فی الدین اور لذت کردار
جو لوگ رسوخ فی العلم رکھتے ہیں ان کی طرف سے ’’ پس چہ باید کرد‘‘ کا جواب یہ سامنے آتا ہے یا سامنے آنا چاہئے کہ ہمیں ہر حال میں ایمان اور استقامت کا ثبوت دیناہے:
الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکۃ أو لاتخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون ، نحن أولیائکم فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرۃ (حم سجدہ :۳)
’’جو لوگ ایمان اور استقامت کا ثبوت دیتے ہیں ان پررحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں ڈھارس دیتے ہیں ،ان کی دست گیری کرتے ہیں اور انہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی کی خوش خبری سناتے ہیں ۔‘‘
دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے :
لا تہنوا ولا تحزنوا انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین؎ (آل عمران۲۹)
’نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کھاؤ تم ہی سربلند ہوگے اگر تم ایمان والے ہو ۔‘
قرآن میں ایک جگہ ہے:
ولا تک فی ضیق مما یمکرون ٭ ان اللہ مغ الذین اتقوا والذین ہم محسنون ٭ (سورۃ النحل)
’’اے نبی! (ـﷺ ) یہ کافر لوگ جو تمہارے لئے مکرو فریب اور سازشیں کر رہے ہیں ان سے آپ تنگ دل نہ ہوں بلا شبہ اللہ تعالی ٰ ان کے ساتھ ہے جو تقوی والی زندگی اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو اچھے کام کرنے والے ہیں ۔‘‘
قرآن کی اس آیت سے بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے:
یا ایہا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ ان اللہ مع الصابرین ( البقرۃ )
’’اے ایمان والو! صبرو صلوۃ سے مدد چاہو ، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘
صبر کا مطلب ہے اپنے موقف پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنا ۔ یعنی اللہ تعالی مسلمانوں سے یہ کہتا ہے دین وشریعت پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہو اوراستقامت سے اور نمازوں سے اللہ سے مدد چاہو۔
قرآن مجید میں ایک نہیں متعدد بلکہ بے شمار مقامات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین وشریعت پر استقامت دکھانے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے خصوصی مدد نازل ہوتی ہے بلکہ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناسازگار حالات اکثر بطور تازیانہ پیش آتے ہیں تاکہ ہم اپنا قبلہ درست کرلیں اور اللہ کی طرف رجوع ہوں :
وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ (السجدہ :۲۱)
’’ہم ضرور چکھائیں گے انہیں کم تر عذاب بڑے عذاب سے پہلے شاید وہ (میری طرف) رجوع ہوں۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں اصل مسٔلہ اپنے ایمان کو مضبوط اور اپنے کردار کو درست کرنے کاہے ـ ایک صاحب ایمان اور صاحب کردار کو حالات سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں اور ایمان اور کردار کو درست کرنا صرف دنیا کی زندگی کے لئے نہیں بلکہ آخرت کے ہولناک دن کی ہولناکی سے بچنے کے لئے بھی ہے اور اگر ہم صاحب ایمان اور صاحب قرآن بن گئے تو پھر کسی طوفان سے ڈرنے کی ضرورت ہی نہیں ، بقول اقبال :
کانپتاہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
نا خدا تو بحرتو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
اس وقت فرداً فرداً ہر شخص کو اور خاص طور پر خواص کو ایمانی اور روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اخلاص عمل کی دولت کے حصول کی شدید حاجت ہے ہمارے لئے ضابطہ اخلاق کا تابع رہنا وجوب کے درجہ میں ہے اگر ہم اپنی نجات چاہتے ہیں، اس لئے سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم اس ملک میں دین وشریعت کے چھوٹے سے چھوٹے جز سے بھی دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہمیں ہر قیمت پر اس ملک میں اپنی شناخت کو باقی رکھنا ہے ہمیں اپنے دین پر عمل کرنے کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ اہتمام کرنا ہے اپنی عبادتوں کو اور اپنے کردار کو پہلے سے زیادہ بہتر بنا نا ہے ۔ شعر اقبال کی زبان میںگیسوئے تابدار کو اور بھی زیادہ تابدار کرنا ہے ۔
اتحاد اور عزم عمل
ہمیں اپنے اپنے پیشہ اور کام میں ہر روز آٹھ دس گھنٹے محنت کرکے برادران وطن سے ممتاز ہونا ہے اور ہمیں ہر حال میں اتحاد و اتفاق کا ثبوت دینا ہے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر رہنا ہے۔ اتحاد کا حکم ایک منصوص حکم ہے اور ہر حال میں اس پر عمل واجب ہے۔ خاص طور پر اس وقت جو حالات ہیں وہ ایمر جنسی کے حالات ہیں اگر اس وقت بھی مسلمانوں میں مسلکی تحزب اور تعصب پایا گیا تو پھر گویا ان کی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستا نوں میں ۔مسلمان علماء اور قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اتحاد کو یقینی بنائیں ، علمی اختلاف ہمیشہ ممکن ہے ، لیکن اس اختلاف کو مخالفت میںہرگز تبدیل نہ ہونے دیں ۔ اتحاد مسلمانوں کا بہت اہم محاذ ہے اور اس میں رخنہ اندازی کی کوئی گنجائش نہیں ۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے جو مسلمانوں کا باوقار ادارہ ہے یا اصحاب بصیرت علماء کی جانب سے جو ہدایت نامہ جاری ہو اس کی پیروی کرنی ہے ۔ ہمیں اب ایسی قوم بن کر دکھانا ہے جو متحد ہو، جو جدت افکار کے ساتھ جدت کردار سے بہرہ یاب ہو جو تعلیم میں بہتر ،تہذیب میں روشن تر، جستجو میں گرم تر اور گفتار میں نرم تر اور پاک دل وپاک باز ہو ۔ ہمارے کردار میں ایسی کمزوری سامنے نہیں آنی چاہئے جسے منافقت کہتے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ اس منافقت کی اس وقت تلقین شروع ہو گئی ہے یعنی یہ تلقین شروع ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کو چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا کرنی چاہئے، یہ نصیحت کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو برسراقتدار گروہ سے مل جانے کیلئے اور اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا نے کے لئے تیار رہنا چاہئے،اقبال نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’’ گر زمانہ باتو نہ سازد تو بزمانہ ستیز ’’ یعنی اگر زمانہ تمہارا ساتھ نہیں دیتا ہے تو تم زمانہ سے پنجہ آزمائی کرو ‘‘۔
اصحاب اقتدار کے سامنے نمائندگی اور دعوت کی صلاحیت
اس وقت ضروری ہےمسلم قیادت حکمراں عنصرسے گفتگو کرے ،یہ گفتگو ہر سطح پر ہونی چاہئے ، یہی حکم تھا جو حضرت موسی علیہ السلام کو دیا گیا تھا ، قرآن میں ہے:
اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰي (طہ ۲۴)
’’جاؤ فرعون کے پاس اس نے بیشک سرکشی اختیار کی ہے ‘‘
حاکم وقت کے سامنے اپنی قوم کا مسئلہ لے جانا اور اس کو مطمئن کرنا اورمسئلہ کے حل کا مطالبہ کرنا بھی قرآن سے ثابت ہے ، خود حضرت موسی نے فرعون سے یہ مطالبہ کیا تھا:
فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَا تُعَذِّبْہُمْ (طہ :۴۷)
’’ ہمارے ساتھ بنو اسرائیل کو روانہ کرو اور انہیں تکلیف نہ پہونچا۔‘‘
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ جو علماء گفتگو کریں وہ حاکم وقت اور سوسائٹی کے تعلیم یافتہ طبقہ کی زبان میں گفتگو کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ قرآن میں ہے :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ (ابراہیم: ۴)
’’ہم نے نہیں بھیجا کوئی پیغمبر مگر یہ کہ وہ اپنی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے والا تھا ۔‘‘
ہمیں مرکزی اور ریاستی سطح پربڑی تعداد میں ایسے باصلاحیت اہلِ علم درکار ہیں جو اصحاب اقتدار سے ، عوام اور خواص سے ان کی زبان میں گفتگو اورشریعت کے بارے میں انہیں مطمئن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اگر ہمارے معاشرہ میں ایسے لوگ نہیں ہیں تو یہ دینی مدارس اور ان کے نصاب تعلیم کا نقص ہے اس کو دور کرنے کی اب فوری ضرورت ہے، مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے اور غیر مسلموں کی سوسائٹی میں گفتگو کے لئے ان کے مذہب اور تہذیب کا عمیق مطالعہ بھی ضروری ہے وقت کے ان تقاضوں کو پورا کرنا ہمارے ان دینی مدارس کی ذمہ داری ہے جنہیں اسلام کے قلعے کہا جاتاہے۔ہمیں اب ایک ایسی نسل کی ضرورت ہے جو مدعو کی زبان سے اور حاکمان وقت کے مذہب سے واقف ہو اور پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہم کلام ہوسکتی ہو اور اسے زبان غیر سے شرح آرزو کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ غیر ضروری کتابوں کو ہم داخل نصاب کرلیتے ہیں اور مطالعہ مذاہب کا کوئی انتظام نہیں کرتے ۔اور یہ اس لئے کہ ہمارے یہاں سے دعوتی اسپرٹ ختم ہو گئی ہے۔مطالعہ مذاہب کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
تعلیم اور صلاحیتوں کافروغ
ان بدلے ہوئے حالات میں دین پر استقامت اور ثابت قدمی اور حسن عمل اور حسن کردار کے ساتھ اور برادران وطن کی زبان و مذہب سے واقفیت کے علاوہ جو ایک اور اہم چیز مسلمانوں سے مطلوب ہے وہ تعلیم اور ہنر مندی کے میدان میں ان کا دوسروں سے ممتاز اور ممیز ہونا ہے ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کی مطابق مسلمان دلتوں سے بھی پس ماندہ ہیں ، وہ جو کبھی شاہ زمن اور خسروئے اقلیم وطن تھے، وہ جاروب کشوں کے درجہ تک پہونچ گئے ہیں، اب بدلے ہوئے حالات میں جب مسلم مخالف نقطہ نظر کے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہونچ گئے ہیں اس چیلنج کو خود مسلمانوں کو قبول کرنا ہو گا ، ان کی مدد کیلئے حکومت پہلے بھی کچھ نہیں کرسکی اور اب نئی حکومت تو اور بھی کچھ نہیں کرسکے گی۔ یہ کام خود مسلمانوں کو انجام دینا ہوگا، مسلمانوں کو اس کے لئے تیار ہونا ہوگا کہ وہ روکھی سوکھی روٹی کھائیں گے لیکن اپنی اولاد کی تعلیم سے غافل نہیں ہوں گے اور تعلیم میں ممتاز ہونے کیلئے وہ دوسروں سے زیادہ اور دوگنی محنت کریں گےاور اپنا امتیاز ثابت کریں گے عام طور پر تعصب وہیں کام کرتا ہے جب مقابلہ برابر کا ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص عام اور متوسط سطح سے بہت بلند ہوجاتا ہے تو پھر لوگ اس کی صلاحیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اعلی تعلیم بھی ایک ڈھال ہے جس سے وہ سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے کہ آدمی دشمن کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔ اسی طرح کاروبار اور تجارت میںبھی مسلمانوں کو پیش قدمی کرنی چاہئے ۔
سرکاری عدالتوں کے بجائے عائلی معاملات میں دار القضاء سے رجوع ہونا
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ پرسنل لا سے متعلق ہمارے معاشرے میں جو مسائل بھی پیش آئیںگے انہیں ہم صرف دار القضا میں لے جائیں گے اور وہاں سے جو فیصلہ ہوگا ہم اس پر راضی رہیں گے اور ہم کسی حال میں سرکاری عدالتوں میں اپنا کیس نہیں لے جائیں گے اور جولوگ لے جائیں گے مسلم معاشرہ ان کا بائیکاٹ کرے گا ۔کیونکہ عدالت کے فیصلے شاید آئندہ مسلم پرسنل لا کے مطابق نہیں ہوں گے اس وقت بھی بہت سے فیصلے مسلم پرسنل لا کے خلاف ہوچکے ہیں۔
انگریزی اور دوسری زبانوں میں لٹریچر کی تیاری
موجودہ حالات میں ایمان،حسن عمل، تقوی اور پرہیزگاری کے ساتھ ایسے لائق انگریزی اور مقامی زبانوں کے اہل قلم کی ضرورت ہے جومسلم پرسنل لا اوراسلامی قانون کا دوسرے قوانین کے ساتھ تقابلی مطالعہ کریں اور اسلامی قانون کی برتری ثابت کریں پھر یہ مضامین انگریزی اور مقامی زبانوں کے اخبارات میں شائع کئے جائیں، کتابچہ کی شکل میں برادران وطن کے درمیان تقسیم کئے جائیں ، مسلم پرسنلا لا بورڈ کو اس نئے کام کا چیلنج قبول کرنا ہوگا ، حالات کتنے ہی سخت ہوں مسلمان اپنے شرعی قوانین کے کسی جزؤ سے دست بردار ہونے کیلئے تیار نہ ہوں،کسی حال میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مسلمان ان بدلے ہوئے حالات میں اللہ کے نازل کئے ہوئے اور پیغمبر کے بتلائے ہوئے قانون سے دست بردار ہو جائیں، جب مسلمان شریعت اسلامی کے چھوٹے سے چھوٹے جز سے بھی دست بردارہونے کیلئے نہیں تیار ہوں گے اور اپنے اندر ایمانی صفات پیدا کریں گے تو اللہ کی مدد نازل ہوگی۔
اس وقت ہمارا خطاب مسلمانوں سےہے جن کے اندر اضطراب پایا جاتا ہے ۔قرآن کی روشنی ہم مسلمانوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی مالک الملک ہے ، تمام حکومتوں کا مالک وہی ہے ، وہی جسے چاہتا ہے اقتدار عطاکرتا ہے اور اسے زمین کا وارث بناتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار وحکومت چھین لیتاہے وہ جسے چاہتا ہے عزت وسیادت سے سرخرو کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں خیر ہے ۔اقتدار کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے ،مسلمانوں کو اللہ سے خیر و عافیت مانگنا چاہئے باطل کے سامنے سر نگونی سے پر ہیز کرنا چاہئے۔اور خود کو اخلاقی اور علمی اعتبارسے بلندکرنا چاہئے۔اچھا مسلمان بننا چاہئے۔تعلیم یافتہ غیر مسلموں تک اسلام کا لٹریچر پہونچانا چاہئے۔
صبر کی ضرورت
یہ حقیقت مسلمانوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ زندہ قومیں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں اور ان ہی سے ان کی قوت اور زندگی کا اظہار ہوتا ہے ان ہی سے ان کے اندر مدافعانہ قوت کی نشو ونما ہوتی ہے ، جو لوگ سخت سردی یا سخت گرمی کے موسم میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں ان کی جسمانی قوت مدافعت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ افراد کی طرح قومیں بھی مخالفت کی آندھیوں کے درمیان رہ کر خودکو زیادہ طاقتور اور ناقابل تسخیر اور حوصلوں سے معمور بنالیتی ہیں ان کے لئے سخت اور جاںگسل حالات قدرت کی طرف سے انعام ہوتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے مکی دور میں بہت سی پریشانیاں برداشت کیں، لیکن مشکلات کے خار دار صحراء میں وہ ثابت قدم رہے یہ ان کی ثابت قدمی کی برکت تھی کہ مدینہ میں ان کی وہ طاقتور حکومت قائم ہوئی جسے کوئی زیر نہیں کر سکا ۔ ایمان اور حسن کردار (عمل صالح) اگر موجود ہوتا ہے تو خدا کی مدد نازل ہوتی ہے اس لئے سب سے پہلے ایمان سے اپنے دل کو اور حسن اخلاق سے اپنے کردار کو سنوار نے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کو خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں صرف مثبت اور تعلیمی اور تعمیری کاموں میں مصروف ہونے کی ضرورت ہے ۔ اگر مسلمان اپنی قومی زندگی اور تاریخ کے اس نازک موڑ پر یہ عہد کرلیں کہ وہ اپنے دین کے کسی جزء سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں اور یہ عہد کرلیں کہ وہ حسن عمل اور اخلاق میں ممتاز بنیں گے اور اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کریں گے، اور اپنے وقت کو ضائع نہیں کریں گے او ر اس ملک میں برادران وطن سے زیادہ فائق اور ممتاز بن کر رہیں گے تو وہ اس ملک میں بوجھ نہیں ہوں گے اور ان کی قدر ومنزل میں اضافہ ہوگا،ان کے مسائل حل ہوں گے ۔ تعلیم کے میدان میں پیش رفت سے اقتصادی حالات بھی بہتر ہوں گے ، اور اقتصادی حالات کی بہتری سے تعلیم کے میدان میں پیش رفت ہوگی، مسلمان اپنے تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ، تعلیم اور اقتصادیات ایک دوسرے سے مربوط اور ہمرشتہ ہیں۔ تعلیم کے بغیربہتراقتصادیات کا حصول ممکن نہیں اور بہتر اقتصادیات کے بغیر اعلی درجہ کی تعلیم ممکن نہیں۔ راستہ کی تمام رکاوٹوں کے باوجود ہمیں اپنی منزل تک پہونچنے کی کوشش کرنا ہے ۔ہمیں مضبوط قوت ارادی کے ساتھ قدم آگے بڑھانا ہے ۔ ہم میں سے ہر فرد کو اپنا رول ادا کرنا ہے ۔
داعیانہ کردار
کسی بھی ملک میں صرف اپنی جگہ بنانے کیلئے نہیں بلکہ قائدانہ اور رہبرانہ مقام حاصل کرنے کیلئے اور سب سے بلند اور مرکزی حیثیت حاصل کرنے کے لئے اور تابع نہیں بلکہ متبوع اور مقتدی نہیں بلکہ مقتدا کا درجہ پانے کے لئے اور کوئی انقلاب لا نے کے لئے داعیانہ کردار بہت اہم چیز ہمیں بہترین اخلاق کا نمونہ پیش کرنا ہے، قرآن میں ہے:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ( حمم سجدہ ۳۴)
’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی برائی کا مقابلہ اعلی درجہ کی بھلائی سے کرو پھر تم دیکھو گے وہ شخص جو تمہارا دشمن تھا وہ تمہارا گہرا دوست بن گیا ۔‘‘
اس ملک میں ایک ایسی نئی نسل کی ضرورت ہے جو تعلیم یافتہ ہو صاحب ایمان واخلاق ہوجو اپنے کرادار سے اسلام کا نمونہ پیش کرسکے، قرآن وسنت پر اس کی گہری نظر ہو وہ برادران وطن کے مذہب سے، تہذیب سے روایات سے اور ان کی زبان سے واقف ہو اور ان سے گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ داعیانہ کردارکا ان خصوصیات کے بغیر کما حقہ ادا کرنا ممکن نہیں۔ ملک کے گوشہ گوشہ میں بہت بڑی تعداد میں ایسے علماء کی ضرورت ہے جن کی حیثیت روشنی کے مینار کی ہو جو ہندو مذہب کی کتابوں سے واقف ہوں جو غیر مسلموں سے ان کی زبانوں میں ڈائیلاگ کر سکتے ہوں ان کی زبانوںمیں ان کو اسلام کی تعلیمات بتاسکتے ہوں، قرآن میں ہے کہ ہم نے پیغمبروں کو ان کی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے والا بناکر بھیجا:
وما ارسنا من رسول الا بلسان قومہ
موجودہ حالات میںاس عظیم الشان مشن کی ذمہ داری دینی مدارس کو اٹھانی چاہئے۔ کئی ہزار کی تعداد میں دینی مدارس اس ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہر سال مدارس سے فارغ ہونے والے علماء سند فضیلت لے کر نکلتے ہیں ،لیکن ان میںسے کوئی ایک بھی اس لائق نہیں ہوتا ہے جو غیر مسلموں سے ان کی زبان میں گفتگو کرسکے ،کسی کوبھی انگریزی نہیں آتی اور مقامی زبان سے بھی وہ واقف نہیں ہوتے غیر مسلموں کے درمیان کام کرنے کا نہ ان کا مزاج ہوتا ہے نہ ذوق، اس لئے وہ داعیانہ کردار ادا کرنے کے لائق نہیں ہوتے ہیں۔
داخلی محاذ یہ ہے کہ ہم اصلاح اور احتساب کی طرف متوجہ ہوں عبادات کی پابندی کریں اور اللہ کی فرماںبرداری اور خوشنودی کا ہمہ وقت خیال رکھیں، معاصی سے اجتناب کریں، اتحاد اور تعلیم وترقی اور تجارت کے تمام ذرائع استعمال کریں اور اس میں غفلت نہ برتیں ہمارا خارجی محاذ یہ ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے اور برادران وطن سے تعلقات رکھیں، ان کے درمیان اسلام کا تعارف کرائیں۔ ہم اپنے ہم خیال اور صاف ذہن کےبرادران وطن کے ساتھ مل کر اس ملک کی دستوری اور جمہوری خصوصیات کو باقی رکھنے کی کوشش کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک کا نظام دستور کے مطابق چلے نہ کہ کسی گروہ کی مرضی کے مطابق ۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014