محمد بن سعید: سنو میرے بھائی!اللہ سے ڈرو۔ اس طرح تو یہ نیک آدمی موت کا نوالہ بن جائے گا۔ اگر ایسا ہوا توخداکی قسم اس کے خون کا گناہ تمہارے ہی سرآئے گا۔ خدا کا خوف کھاؤ۔ اسے اپنی سرائے سے مت نکالو، یہ اجنبی ہے، وطن سے دور ہے، اس نے صحرانوردی کی ہے، سمندرکا سفر کیا ہے اور مشرق سے مغرب تک کی دوری طے کی ہے۔
سرائے مالک: کیا بقی بن مخلد نے مشرق سے مغرب تک دوری طے کی ہے؟
محمد بن سعید: جی ہاں،تم کیاسمجھ رہے ہوکہ میںنے اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میںکبھی سفارش کی ہے؟ میں نے اس سے پہلے تم سے کوئی حاجت طلب نہیں کی، تو کیا تم میری یہ درخواست پوری کرو گے؟دیکھو وہ ایک جلیل القدر محدث ہیں،وہ حدیثوں کے راوی ہیں، تو کیا یہ مناسب ہے کہ ہم انھیں بیچ راستے میں دم توڑتا چھوڑ دیں؟
سرائے مالک: تو اس کے ساتھ میں کیا کروں؟ میں نے تو اسے اپنی سرائے میں پورے دو سال ٹھکانا فراہم کیا، نہ اس سے کوئی قیمت وصول کی، نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ اس کی کسی بات کی خلاف ورزی کی، تو کیا میرا بدلہ یہی ہے کہ میں اس کی تیمار داری کرتا رہوں یہاں تک کہ جب وہ دم توڑد ے اور اسے میری سرائے سے قبر لے جایا جائے تو لوگ میری سرائے سے بدشگونی لیں اور اس میں آنا بند کردیں اور میں کنگال ہو جاؤں؟ وہ تو ایسا بیمار ہے کہ پیہم درد نے اسے لاغر بنا دیا ہے اور بخار نے اسے لبِ دم تک پہنچا دیا ہے اور ماہر اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے ہیں، مجھے یقین ہے کہ آج شام یا کل صبح تک وہ مرجائے گا۔ ۔ ۔ اس لیے مجھ پر رحم کھاؤ، مجھے اس سے چھٹکارا دلاؤ، مجھے اس کی چنداں ضرورت نہیں۔ وہ گھڑی کتنی منحوس تھی جب میں نے اسے یہ گھر کرایہ پر دیا تھا، یقیناً یہ وہ گھڑی تھی جبکہ کوئی فرشتہ بھی نہ آسکا!
محمد بن سعید: ارے بھائی! ٹھہرو، سمجھ داری سے کام لو، تم اس آدمی کی صورت میں اتنی عظیم نعمت سے مالامال ہو کہ اگر اس کی قدر جان لو تو اس پر خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے ساری رات عبادت میں گزار دو۔ تمھیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالی نے کیسا خیر تمھیں عطاکیا ہے اور کیسا اجر تمہارے لیے لکھ دیا ہے، تمھیں توخود کو اس کی خدمت میں لگادینا چاہیے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے، اگر تم ایسا کرلو تو میں تمھارے لیے جنت کی تمنا کروں گا۔
سرائے مالک: بخدا میں بڑی مصیبت میں پھنسا ہوں، اگر آپ اس کی سنگینی کو جان لیں تو مجھ پر ملامت کرنا چھوڑ دیں۔ آپ اس شخص کے بارے میں نہیں جانتے کہ یہ کیسا آدمی ہے۔ میں اس کے بارے میں آپ سے بتاتا ہوں: یہ جب بھی میرے یہاں رات گزارتا تو لوگوں سے مانگنے کے لیے پھٹے پرانے اور سوراخ والے کپڑے پہن کر، ڈونگی اور لاٹھی لے کر نکل جاتا۔ ۔ ۔ اے ابن سعید! آخر آپ میری بات پر ہنس کیوں رہے ہیں؟ کیا آپ میرا مذاق اڑارہے ہیں؟
محمد بن سعید: نہیں تو،میں تو بس یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمھیں اس آدمی کا مقام ومرتبہ نہیں معلوم۔
سرائے مالک: اس حالت میں پڑے اس شخص کا بھلاکیا مقام ہو گا؟
محمدبن سعید: تم کیسی بات کررہے ہو!یہ وہ آدمی ہے جس نے اندلس کے باغوں، اس کے چمن زاروں، اس کے چشموں، اس کی نہروں،اور وہاں پر اپنا اثر و رسوخ اوراپنا بلند رتبہ، سب کچھ چھوڑ دیا،یہ وہ آدمی ہے جس نے اندلس میں اپنے اہل و عیال، دوست یار، بڑا خاندان اور بڑی جائیداد، سب کو الوداع کہہ دیااور پھر سمندروں،صحراؤوں اور سنسان علاقوں کی خاک چھانتا رہا تاکہ بغداد پہنچ جائے، اس نے ایسا نہ مال کی لالچ، نہ شہرت کی طلب، نہ کسی دوست سے ملاقات، نہ کسی عورت سے شادی اور نہ کسی لذت کی چاہت کے لیے کیا، بلکہ اس نے ایسا صرف اور صرف حصول علم، محبت حدیث اور ابو عبداللہ سے شوق ملاقات کی غرض سے کیا۔
سرائے والا ابو عبداللہ سنتے ہی چونک گیا، اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور اس کے چہرے پر اس امام کے تئیں بے پناہ دلی محبت اور بے پناہ تعظیم کے آثار نمایاں ہو گئے۔ بقی بن مخلد کے تئیں اس کے دل کا سارا میل صاف ہو گیا، کیونکہ وہ ابو عبداللہ سے بے پناہ محبت رکھتا تھا، پھر اس نے بڑے نرم لہجے میں کہا: کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آدمی امام احمد بن حنبل سے ملاقات کے لیے اندلس سے آیا ہے؟
محمد بن سعید: جی، ہاں۔
سرائے مالک: یہ دنیا اور آخرت میں کتنے شرف کی بات ہے! کیا وہ ان سے مل چکا ہے؟ بتائیں تو ذرا کہ اس نے ان سے کیسے ملاقات کی؟
محمد بن سعید: وہ تمہارے یہاں اس سرائے میں آیا،اپنا سامان رکھااورابو عبداللہ یعنی امام احمد کی تلاش میں نکل گیا، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابتلاء و آزمائش کے دن تھے، لوگ ابو عبداللہ کا نام لینے کی جرأت نہیں کرتے تھے، وہ اکیلے رہتے، اگر ان سے کوئی ملاقات کرنے آتا تو بادشاہ کے جاسوس اسے پکڑ لے جاتے اور اسے سخت سزا دی جاتی۔ اس آدمی کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اسے اتنا غم لاحق ہوا کہ بس خدا ہی جانتا ہے، تب اس نے محدثین سے سماعت کی خاطر (رصافہ) کی جامع مسجد کا رخ کیا، وہ درس کے مختلف حلقوں کے پاس سے گزرتا رہا یہاں تک کہ ایک پروقار اورشاندار حلقے کے پاس پہنچا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، اسے اجنبی بھیس میں دیکھنے والا پہلا شخص میں ہی ہوں، میں نے اسے سلام کیا تاکہ اس کی اجنبیت دور ہو جائے، اس نے پوچھا: یہ شیخ کون ہیں؟ میں نے کہا: یہ یحییٰ بن معین ہیں۔ وہ انھیں جانتا تھا، اور کون ہوگا جو یحییٰ بن معین کو نہ جانتا ہو؟ وہ کچھ دیر کھڑا رہا، پھر اس نے ایک کشادہ جگہ دیکھی اور وہاں جاکر کھڑا ہو گیا، اس وقت شیخ اسماء الرجال پر گفتگو فرمارہے تھے، کسی کو قوی اور کسی کو ضعیف قرار دیتے، کسی کی جرح اور کسی کی تعدیل کرتے، اس نے کہا: اے ابو زکریا! اللہ آپ پر رحمت کی بارش کرے، میں ایک اجنبی آدمی ہوں، بہت دور سے آیا ہوں، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، براہ کرم آپ مجھے حقیر سمجھ کر میری باتوں کو ہلکے میں نہ لیں، تو شیخ نے کہا: پوچھو۔
تواس نے حدیث کے بعض ایسے راویوںکے بارے میں پوچھنا شروع کیا جن سے وہ ملاقات کر چکا تھا، شیخ نے بعض کی جرح کی اور بعض کی تعدیل۔ پھر اس نے ہشام بن عمار کے بارے میں پوچھا، تو شیخ نے فرمایا: ابو الولید ہشام بن عمار تو دمشق کے بڑے پکے نمازی اور حد سے زیادہ ثقہ راوی ہیں، اگر ان کے یہاں کبر(بڑائی)نام کی چیز بھی ہوتی تو ان کی بھلائی اور فضیلت کی وجہ سے ان کی شخصیت ذرا بھی مجروح نہ ہوتی۔
(اتنا پوچھنا تھا) کہ حلقہ درس کے لوگوں نے زور سے پکار کر کہا: خدا کے واسطے بس کرو، بس کرو! تمہارے علاوہ بھی لوگوں کے پاس سوالات ہیں۔ مگروہ کھڑا ہی رہا اور شیخ سے پوچھا: کیا انہوں نے آپ سے امام احمد بن حنبل جیسے شخص کے بارے میں کچھ بتایا ہے؟
اس نے جیسے ہی یہ کہا لوگوں پر سناٹا چھا گیا اور شیخ پر اداسی چھاگئی، انھوں نے اس کی طرف حیرت کی نظروں سے دیکھا، گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں: کیا احمد کے بارے میں کوئی پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے؟ کیا تم احمد کا ذکر کرنے کی جرأت کر رہے ہو؟ شیخ کو کچھ گھبراہٹ سی ہوئی، مگر ان کا ایمان غالب آگیا، انھوں نے بادشاہ اور اس کے غیظ وغضب کی پروا کیے بغیر سائل سے کہا: اے آدمی! تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ احمد بن حنبل کے بارے میں ہم زبان کیوں کر کھول سکتے ہیں؟
یہ کہہ کر کچھ دیر خاموش ہو گئے پھر اتنی جرأت مندی سے بولے کہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے اور شیخ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے، وہ شیخ کو اس اندیشے سے دیکھ رہے تھے کہ کہیں بادشاہ کے سپاہی انھیں اچک نہ لیں۔ ۔ ۔ شیخ نے فرمایا: وہ امام المسلمین ہیں، وہ لوگوں میں سب سے بہتر ہیں، وہ لوگوں میں سب سے باکمال ہیں۔
پھر وہ آدمی لوگوں سے ابو عبداللہ کے گھر کا پتہ معلوم کرنے کے لیے نکل پڑا، ان میں سے بعض تو اس ڈر سے اس سے رخ پھیر لیتے کہ کہیں وہ بادشاہ کا جاسوس نہ ہو اور بعض ہمت کرکے اس کے ساتھ چند قدم چلتے۔ اس طرح وہ احمد بن حنبل کے گھر پہنچ گیا۔ سرائے والے کو بڑا تعجب ہوا، اس نے حیرت سے پوچھا: کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس آدمی نے آزمائش کے دنوں میں احمد بن حنبل کی زیارت ان کے گھر پر کی؟
محمد بن سعید: ہاں،وہ ان کے گھر گیا، دروازے پر دستک دی اور جب دروازہ کھلا تو کہا: میں ایک اجنبی آدمی ہوں،آپ کے پاس بڑی دور دراز سے چل کر آیا ہوں۔
ابو عبداللہ: خوش آمدید، تمہارا وطن کہاں ہے؟
آدمی: اندلس۔
ابو عبداللہ: کیا افریقہ؟
آدمی: نہیں، بلکہ اس سے دور، میں افریقہ سے سمندرکا سفر طے کر کے اپنے وطن پہنچتا ہوں۔
ابو عبداللہ: یقینا وہ بہت دور ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہاری ضرورت کیا ہے؟
آدمی: میں آپ سے حدیث کی سماعت اور روایت کرنا چاہتا ہوں۔
ابو عبداللہ: مگر تمھیں معلوم ہے کہ میں نہ تو کسی سے مل سکتا ہوں اور نہ بادشاہ کے آدمی کسی کو مجھ سے ملنے دینا چاہتے، تم جو مجھ سے ملنے آئے ہو تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تمھیں کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔
آدمی: مجھے آپ سے حصول علم کی راہ میں نہ تو کسی اذیت کی کوئی پروا ہے اور نہ تو کسی سزا کی۔
ابو عبداللہ: اگر وہ تمہیں روک دیں تو؟
آدمی: ایک تدبیر اپناؤں گا، وہ یہ کہ میں آپ کے پاس سائل کے بھیس میں آؤں گا اور آواز لگاؤں گا: اللہ کے نام پر کچھ دے دو، اللہ اچھا بدلہ دے گا۔ ۔ ۔ تو آپ دروازہ کھول دیجیے گا اور مجھ سے حدیث بیان کردیجیے گا۔
ابو عبداللہ: ٹھیک ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حلقہ درس میں اس کا اظہار مت کرنا ورنہ لوگ تمہیں پہچان لیں گے۔
آدمی: شرط منظور ہے۔
محمد بن سعید: اس طرح وہ احمد بن حنبل کے پاس جاتا اور استفادہ کرتا اور تم یہ سمجھتے کہ وہ لوگوں سے بھیک مانگنے جاتا ہے۔
سرائے والے کی نگاہ میں اس آدمی کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی گویا کہ وہ جس کمرے میں رہتا ہے وہ کسی بادشاہ یا وزیرکا ہو، وہ وثوق حاصل کرنے کے لیے محمد بن سعید سے مزید پوچھتا ہے: تو کیا وہ احمد بن حنبل کے لوگوں میں سے ہے؟
محمد بن سعید: جی، احمدبن حنبل اسی حالت سے دوچار رہے مگر جب اللہ نے آزمائش کے دن ٹال دیے اور متوکل نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی تو انھوں نے اہل سنت کے مذہب حق کو زندہ کیا اور بدعت کا خاتمہ کیا، اللہ تعالیٰ احمد کو ان کے صبر کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ امت کے امام تھے، اللہ نے ان کے ذریعے دین کی اسی طرح تائید فرمائی جس طرح ارتداد کے زمانے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اپنے دین کو تقویت پہنچائی تھی، وہ اس آدمی کی حقیقت سے واقف تھے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کرتے: یہ ہے وہ جس پر طالب علم کانام صادق آتاہے۔ (اسے کہتے ہیں حقیقی طالب)
سرائے مالک: اے ابن سعید! اللہ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے، بیشک آپ نے اس آدمی کی سچائی اور حقیقت سے مجھے آگاہ فرمایا، تو آئیے چلتے ہیں اس کے پاس۔
بقی بن مخلد اندلسی اپنے کمرے میں تنہا پڑیرہتے، درد کے مارے کروٹیں بدلتے اور بخار سے تڑپتے۔ بیماری نے ان کی کمر توڑدی تھی اور پیہم درد نے ان کے اعضاء کو کم زورکوکردیا تھا، وہ کھوکھلی لکڑی کاایک ڈھانچہ بن کر رہ گئے تھے جس میں ہوا کے سوا کچھ نہ ہو۔ ان سب سے کہیں زیادہ ان پرشاق گزررہی تھی وطن کی شدید محبت اور اہل وعیال سے ملاقات کی بے پناہ چاہت۔
گھر میں صرف ایک نمدہ(اون کا بچھونا) تھا جس پروہ لیٹے رہتے اور ایک تکیہ تھی جس پر وہ اپنا سر رکھ لیتے، ضرورت کی کتابیں ان کے ارد گرد رہتیں،جب ذرا ہوش آتا تو ان پر ایک نظر ڈال لیتے، اور جب تکلیف کی وجہ سے ہوش کھودیتے تو انھیں وہیں چھوڑدیتے۔ جب سرائے مالک اور محمد بن سعید ان کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ ہاتھ میں لیے ایک کتاب پڑھ رہے ہیں۔ دونوں ان کے پاس کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے اور تسلی دیتے رہے۔ اتنے میں انھیں قریب سے ایک شور سنائی دیا،انھیں لگا کہ وہ شور ہوٹل تک پہنچ گیا ہے اور ہوٹل شور میں ڈوب گیا ہے، انھوں نے کھڑکی سے جھانک کردیکھا توانھیں وہ میدان اور راستے جہاں سے آواز آرہی تھی لوگوں سے کھچاکھچ بھرے ہوئے نظر آئے، توآدمی کوبے چینی ہوئی، وہ نیچے اترا اورپوچھنے لگا:بات کیا ہے؟ اس نے محسوس کیاکہ لوگ کہہ رہے ہیں:وہ آگئے۔ ۔ ۔ وہ راستے میں ہیں۔ تب اسے یقین ہوگیا کہ وہ خلیفہ ہی ہے،لیکن اس نے خلیفہ کا قافلہ تو بارہا دیکھاتھا مگر اس دن جیسا منظر اس نے کبھی نہیں دیکھا،تو وہ لوگوں کے پاس کھڑے ایک بزرگ کے قریب جاکر پوچھا: کون آنے والا ہے اور کہاں جانے والا ہے؟ بزرگ نے فرمایا:وہ ابوعبداللہ ہیں،وہ خلیفہ کے پاس نہیں جاتے، وہ اس سرائے میں ایک بیمار شخص کی عیادت کرنے آرہے ہیں۔
یہ سنتے ہی اس نے حیرت بھرے انداز میں زور سے کہا:ابو عبداللہ میری سرائے آرہے ہیں،ابوعبدللہ؟!
پھر وہ چیخنے اور اچھلنے لگا،اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کیا کرے اور کیا کہے،اس پر کوئی توجہ بھی نہیں دے رہا تھا کیونکہ لوگ نظریں اٹھا ئے راستہ تک رہے تھے، لوگوں کا تانتا بندھا ہواتھا، نہ دوکان میں کوئی قصّاب رہ گیا تھا، نہ بازار میں کوئی تاجر تھا، نہ حلقہ درس میں کوئی طالب علم تھا، ان سب کی ہلکی ہلکی اور گونج دار آواز آرہی تھی۔
سرائے والے کو جب ہوش آیاتو دیکھا کہ اللہ کی قدرت سے لوگوں سے ٹھاٹھیں مارتا یہ سمندر امڈ پڑا ہے،سب لوگ خاموش ہیں،ان پر سناٹا چھایا ہوا ہے، امام صاحب نظر آرہے ہیں اورپورے بغدادسے ان کے ارد گرد طالبان علم جمع ہیں، وہی بغداد جہاں بیس لاکھ لوگ رہتے ہیں،جن کے ہاتھوں میں کاغذ اور قلم رہتا ہے،جو امام صاحب کی زبان سے نکلی ہوئی ہربات قلم بند کرلیتے ہیں۔ امام صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور بیمار کے پاس کھڑے ہوکر فرماتے ہیں: اے ابو عبد الرحمٰن!اللہ کے اجر سے خوش ہوجاؤ،اللہ تمھیں عافیت سے نوازے اور اپنے دستِ شفاسے تمہاری بیماری دور کردے۔ امام صاحب کی زبان سے نکلی ہوئی ان تمام باتوں کولوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا اور لکھ لیا۔
اس کے بعد نہ جانے کتنے سال گزر گئے مگر لوگ آج بھی اس تاریخی دن کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ رہی سرائے تو وہ اس زیارت کے بعد بڑی بڑی شخصیتوں اور بڑے بڑے علماء کا مرکزتوجہ بن گئی اور سرائے والے پرکثرت سے رزق کی بارش ہونے لگی۔ اوررہے بقی بن مخلد تو اللہ نے انھیں صحت کی دولت سے نوازدیااور انھیں اندلس واپس لوٹادیااورانھوں نے اندلس کو علم کی روشنی سے منور کر دیا۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2019