سیکولرزم: تاریخی اور نفسیاتی تجزیہ

تیونس کے رہنما جناب راشد الغنوشی نے ۲/مارچ ۲۰۱۳ء  کو ’سیکولرزم‘ کے عنوان پر ایک اہم خطاب کیا۔ اس خطاب کا اہتمام تیونس کے ادارے ’’مرکز برائے مطالعہ اسلام و جمہوریت‘‘ ﴿Centre for Study of Islam and Democracy﴾ نے کیا تھا۔ موصوف کے خطاب کے بنیادی نکات یہ تھے:

  1.  سیکولرزم کسی ایک تصور کا نام نہیں ہے، بلکہ متعدد روپ رکھتا ہے۔ اس طرح اسلام کی تعبیریں بھی بہت سی ہیں۔
  2.  بظاہر سیکولرزم ایک فلسفہ معلوم ہوتا ہے، لیکن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یوروپ میں سیکولرزم بعض عملی مسائل کے حل کے لیے وجود میں آیا جو وہاں کے سماج کو درپیش تھے۔ مسائل اس لیے پیدا ہوئے تھے کہ یوروپ کے روایتی مذہب کے کلمہ  جامعہ ہونے کی حیثیت ختم ہوچکی تھی اور ایک متبادل کلمہ جامعہ کی تلاش تھی۔
  3.  سیکولرزم کا سب سے اہم عنصر اس امر پر اِصرار ہے کہ ریاست کو مذہب کے تئیں غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ یعنی ’’ایک فرد کیا عقیدہ رکھے‘‘ اس معاملے میں ریاست مداخلت نہ کرے۔
  4.  مندرجہ بالا تصور سے قریبی تعلق رکھنے والا دوسرا تصور یہ ہے کہ ریاست افراد کو اُن کی مذہبی آرائ کے سلسلے میںبھی آزادی دے اور سیاسی آرائ کے سلسلے میں بھی۔ وہ کسی پارٹی کی طرف دار نہ ہو۔
  5.  میثاقِ مدینہ میں مذہبی اعتبار سے مسلمانوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے ممتاز گروہ سمجھا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود سیاسی اعتبار سے وہ ایک نیشن سمجھے گئے تھے۔ مذہب و سیاست کے درمیان یہ امتیاز قابلِ غور ہے۔
  6.  اسی طرح فقہائ نے ’’عبادات‘‘ اور ’’معاملات‘‘ میں امتیاز کیا ہے۔ اُن کے نزدیک معاملات میں اصل اہمیت مصالح و مقاصد کی ہے۔
  7.  عموماً مسلمانوں نے دینی امور میں مسلمان حکمرانوں کی مداخلت کو پسند نہیں کیا ہے۔ جب کسی حکمراں نے کسی خاص فقہ کے نفاذ کی کوشش کی تو یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔
  8.  اسلام میں کوئی چرچ نہیں ہے، چنانچہ قانون سازی کا آخری اختیار اُن نمائندوں کو ہونا چاہیے جنھیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہوگا کہ یہ نمائندے اسلامی تعلیمات اور اقدار سے بخوبی واقف ہوں۔

مندرجہ بالا خطاب پرکوئی تبصرہ پیش کرنے کے بجائے اِس تحریر میں اُن تاریخی اور نفسیاتی عوامل کا جائزہ لینا پیشِ نظر ہے جو سیکولرزم کی ابتداء  اور فروغ کا باعث بنے۔ اس تجزیے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اگر سیکولرزم کو جدید ریاست کا مطلوبہ وصف قرار دیا جائے ﴿جیسا کہ موجودہ دنیا کا عام رجحان ہے﴾ تو اس کی تعریف متعین کرنے میں اس کے مخصوص تاریخی و نفسیاتی پس منظر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بالفاظِ دیگر سیکولرزم کی کسی ایسی تعریف کو جو اس پس منظر کے مغائر ہو، یا تو فریب خوردگی کہا جائے گا یا سادہ لوحی۔ سیکولر حلقوں کو مطمئن کرنے کے لیے اگر کوئی مسلمان ملک اپنے نظام کو سیکولر کہے تو اندیشہ ہے کہ رفتہ رفتہ اُسے سیکولرزم کی اُن تمام خصوصیات کو بھی قبول کرنا پڑے جو سیکولرزم کے تاریخی سفر کا ناقابلِ انکار جُز بن چکی ہیں۔اِس سفر کاجائزہ درج ذیل ہے۔

مذہب اور فطرتِ انسانی:

بعض سوالات ایسے ہیں، جن کو ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں ضرور دریافت کرتا ہے، ممکن ہے یہ کام خاموشی کے ساتھ دل ہی دل میں ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان سوالات کو الفاظ کا جامہ پہنائے اور دوسروں کے سامنے بھی ان سوالات کو رکھے۔

﴿الف﴾ کیا میں محض ’’جسم‘‘ ہوں یا ’’روح‘‘ اور ’’جسم‘‘ دونوں ہوں؟

﴿ب﴾    اگر روح کا وجود ہے تو میرے پیدا ہونے سے قبل وہ روح کہاں تھی۔ یا وہ میرے ساتھ ﴿یعنی جسمانی وجود کے ساتھ ہی﴾ وجود میں آئی؟

﴿ج﴾     مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا روح کو بھی موت آجائے گی یا اس کا کوئی اور انجام ہوگا؟

﴿د﴾       اس کائنات کا مالک اور فرماں روا ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو میرا اس سے کیا تعلق ہے؟

﴿ہ﴾        کائنات کی اور موجودات کے ساتھ میرا صحیح تعلق کیا ہے؟ ﴿بالفاظِ دیگر، انسانوں کا اور دوسری موجودات کا باہمی تعلق کس نوعیت کا ہے؟﴾

ان سوالات کو مذہبی نوعیت کے سوالات کہا جاسکتا ہے۔ انسانوں کی بڑی اکثریت ہر زمانے میں ان سوالات کا جواب مثبت انداز میں دیتی آرہی ہے۔

مثلاً انسانوں کی بڑی تعداد روح کے وجود کی قائل ہے، اور روح کو جسم سے پہلے موجود سمجھتی ہے۔ اس طرح عام طور پر انسان خدا کی ہستی کے قائل ہیں، جو کائنات کا خالق، مالک اور فرماں روا ہے۔ اس طرح انسانوں کا عام خیال یہ ہے کہ جسمانی موت کے ساتھ روح کی موت واقع نہیں ہوتی اور وہ اپنے سابق اعمال کے مطابق اچھے یا برے انجام سے دوچار ہوتی ہے۔

انسانوں کی بڑی اکثریت کے مندرجہ بالا خیالات کو مذہبی خیالات کہا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ انسان عام طور پر مذہبی خیالات کے حامل ہوتے ہیں اور ان خیالات کا کچھ نہ کچھ اثر کم یا زیادہ ان کی عملی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ اس واقعے کے بالکل برعکس ایک دوسری حقیقت بھی ہے، جس کا تعلق پچھلے چار سو سال کی تاریخ سے ہے۔

اس تاریخ کے تذکرے سے قبل مندرجہ بالا حقیقت سے جو اہم نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے، اس کا تذکرہ ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ ’’انسان کی فطرت مذہبی واقع ہوئی ہے۔‘‘

یوروپ کی نشاۃِ ثانیہ:

البتہ انسان کی فطرت کے مذہبی ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مذہب کے تحت جو تفصیلی تصورات بھی انسانوں کے سامنے پیش کردیے جائیں لوگ بہرحال، ان کو اطمینانِ قلب کے ساتھ قبول ہی کرلیں۔ چنانچہ یوروپ کی تاریخ میں ایسا ہی ایک اہم واقعہ پیش آیا۔ جدید دنیا کی تاریخ پر یوروپ کے اِس واقعے کا جو اثر پڑا، وہ غیرمعمولی ہے۔ جدید دنیا کو سمجھنے کے لیے اس واقعے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

ہوا یہ کہ ’’مذہب‘‘ کے عنوان کے تحت یوروپ میں انسانوں کو جو کچھ ملا وہ عیسائیت کے تصورات تھے۔ یہ تصورات ان تعلیمات کے آئینہ دار نہ تھے، جن کو عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا، بلکہ آپؑ  کی تعلیمات میں تحریف کرکے ایک نیا دین بنالیا گیا تھا ﴿اور اسے ’’عیسائیت‘‘ کہا جانے لگا تھا﴾۔ مذہب عیسائیت کے تصورات درج ذیل تھے:

﴿الف﴾ تثلیث کا تصور:

توحید کے ساتھ تثلیث کاتصور یعنی خدا کو ایک بھی سمجھا جاتا تھا اور اس ایک خدا کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام اور روح القدس ﴿حضرت جبرئیل﴾ کو خدائی میں شریک بھی ٹھہرایا جاتا تھا۔ اس عجیب و غریب ملغوبے کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی تھی، بلکہ الفاظ میں اسے قابلِ فہم انداز میں بیان کرنا بھی مشکل تھا۔

﴿ب﴾ اربابِ مذہب کا گروہ:

مذہبی افراد ﴿یا ’’اربابِ مذہب‘‘﴾ کے ایک گروہ کی موجودگی ﴿جن کے لیے انگریزی اصطلاحClergyاستعمال ہوتی ہے﴾، اس طبقے میں پادری، احبار اور رہبان شامل تھے۔ ان کی پوزیشن عام انسانوں سے بالا تر تھی۔ کلامِ الٰہی کو سمجھنا اور اس کی تشریح کرنا ان کا کام تھا اور عام انسانوں کو اس کا حق نہ تھا کہ ان کی بیان کردہ تشریح کے علی الرغم کلامِ الٰہی کی تفہیم میں اپنی عقل کو بھی استعمال کرسکیں۔اپنی اغراض کے لیے اور لوگوں کا مال حاصل کرنے کے لیے یہ ’’اربابِ مذہب‘‘ کلامِ الٰہی کی من مانی تشریح کرتے تھے اور اس میں لفظی و معنوی تحریف کرکے اپنے مفادات کی خدمت کرتے تھے۔

ان اربابِ مذہب کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ مذہبی رسومات تنہا وہی انجام دے سکتے تھے۔ عام انسانوں کو اس کا حق نہ تھا مثلاً شادی کی رسم ان کے بغیر انجام نہ پاسکتی تھی۔ مزید برآں لوگ ان کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرکے اپنی نجات کے خواہاں ہوتے تھے۔ عام انسانوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ براہِ راست اپنے خدا سے رجوع کرسکیں اور اپنی خطائیں معاف کرائیں۔

رفتہ رفتہ اس طبقے نے تقدس کا ایک ہالہ اپنے گرد قائم کرلیا۔ ان کے لیے Holiness کی صفت بطور لقب استعمال ہونے لگی اور اکثر اوقات اپنے اخلاق و کردار کی پستی کے باوجود ان کے تقدس پر کوئی حرف نہ آتا تھا۔

﴿ج﴾ رہبانیت:

مذہب عیسائیت کا تیسرا تصور ’’رہبانیت‘‘ تھا۔ روحانی انتہا پسندی اور غلو کے نتیجے میں یہ خیال پیدا ہوا اور مقبول بھی ہوگیا کہ مثالی اور معیاری مذہبی زندگی کے لیے رہبانیت یعنی ترکِ دنیا ضروری ہے۔ اس خیال کے نتیجے میں ایک طبقے نے، جو روحانی بلندی کا خواہش مند تھا، رہبانیت اختیار کرلی اور یہ واقعہ ہے کہ اس طبقے کے بعض افراد کے اندر اعلیٰ روحانی صفات پیدا بھی ہوئیں، لیکن دوسری طرف اس کا یہ نتیجہ بھی نکلا کہ عام لوگوں میں مذہب کے ناقابلِ عمل ہونے کا خیال پیدا ہوگیا۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ مذہب ایسے مطالبات کرتا ہے، جن کو پورا کرنا ہم عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے اور جہاں تک ہم عام انسانوں کا تعلق ہے، ہم کو بس اس پر قناعت کرنی چاہیے کہ چند مذہبی رسومات انجام دے دیا کریں اور ’’اربابِ مذہب‘‘ کی حتی المقدور خدمت کرتے رہیں۔

﴿د﴾ غیر عملی اخلاقی اقدار:

’’مذہب کے ناقابلِ عمل ہونے‘‘کے اس خیال کو مزید تقویت ایک چوتھے عنصر سے ملی، عیسیٰ علیہ السلام کے بعض اقوال کو سیاق سے الگ کرکے ﴿اور ان میں تحریف کرکے﴾ ایسے معانی بیان کیے گئے، جن میں اخلاقی قدروں کا ایک غیرعملی تصور پیش کیا گیا۔

مثلاً ایک مشہور قول بیان کیا جاتا ہے کہ ’’جو تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے اسے دوسرا گال بھی پیش کردو۔‘‘ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اس ہدایت کا انتساب صحیح بھی ہو تو یہ بات کسی خاص سیاق میں کہی گئی ہوگی۔ اس کو عموم پر قیاس کرکے ’’لامحدود عفوودرگزر‘‘ کی ایک ایسی اخلاقی قدر پیش کی گئی جو ناقابلِ عمل تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تو نہیں نکلا کہ عیسائی سماج فی الواقع اس ’’غیر مشروط اور لامحدود عفوودرگزر‘‘ کے رویے پر عمل کرنے لگا ہو۔ اس کے برعکس نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ عملی زندگی کے لیے اخلاقی حسن و قبح کے سوال کو ہی سرے سے غیر متعلق (Irrelevant)سمجھنے لگے۔ اورعملی زندگی کی بنیاد انھوں نے مفاد پرستی پر رکھی۔

﴿ہ﴾ شریعت کی منسوخی:

اس رجحان کو مزید تقویت ایک دوسری بڑی تحریف سے ملی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے ظاہری مذہبیت کی نفی کی تھی اور مذہب کی حقیقی روح کے احیائ پر زور دیا تھا۔ اس ’’نفی‘‘ کو تحریف کرنے والوں نے شریعت کی نفی کے معنوں میں لیا اور سینٹ پال کے بعد عام عیسائی دنیا میں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ شریعت منسوخ ہوچکی ہے۔

عام عیسائی نے جب یہ بات سنی کہ شریعت منسوخ ہوگئی ہے کہ تو اُس نے اپنے آپ کو شریعت کی پابندی سے آزاد کرلیا۔ اس طرح اخلاقی اقدار کے ساتھ احکامِ شریعت کا تعلق بھی عملی زندگی سے کٹ گیا۔ گویا اب مذہب ناقابلِ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ’’غیر واجب العمل‘‘ بھی قرار پایا۔ ذہنوں سے یہ خلش بھی مٹ گئی کہ شریعت کی خلاف ورزی کرکے وہ کسی گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔

﴿و﴾ کفارہ:

اس رجحان کو اپنی آخری حد تک پہنچانے کا کام ’’کفارے‘‘ کے تصور نے کیا۔ یہ خیال پیش کیا گیا کہ جو لوگ ایک خدا کے ساتھ اس کے ’’بیٹے‘‘ پر ایمان کا باطل عقیدہ بھی اختیار کرلیں، ان کے گناہ اپنے آپ بخش دیے جائیں گے اس لیے کہ ﴿اس باطل خیال کے مطابق﴾ عیسیٰ علیہ السلام نے سولی پر چڑھ کی سب ایمان لانے والوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے۔کفارے کے عقیدے کے بعد اس امر کی کوئی خاص ضرورت باقی نہ رہی کہ لوگ گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں، اس لیے کہ کفارے کے ذریعے گناہوں کی بخشش تو ہوہی جائے گی۔

ردِ عمل:

عیسائیت کے ان تصورات کا جو شخص بھی جائزہ لے گا،اس کا تاثر یہ ہوگا کہ ﴿الف﴾ یہ تصورات عقل کے خلاف ہیں ﴿ب﴾یہ تصورات مذہب اور اخلاق کا رشتہ انسانی زندگی سے بہت کمزور کردیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ رشتہ عملاً کٹ جاتا ہے۔

یہ تو وہ تاثر ہے، جو ان تصورات کے سرسری جائزے سے سامنے آجاتا ہے، لیکن جن لوگوں نے ان تصورات کو عمل کے جامے میں دیکھا ان پر مزید یہ حقیقت بھی کھلی کہ ان تصورات کے نتیجے میں انسان دو طبقات میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ ایک عام انسانوں کا طبقہ اور دوسرا ’’اربابِ مذہب‘‘ کا طبقہ۔ اس دوسرے طبقے کو پہلے طبقے پر نمایاں برتری حاصل ہوتی ہے۔ اس کا اقتدار لوگوں کے ذہنوں اورقلوب پر قائم ہوتا ہے اور اس اقتدار کے نتیجے میں عام انسانوں کا مال بھی اس کے ہاتھ آتا ہے، پھر سیاسی اقتدار بھی یا تو براہِ راست اس طبقے کو مل جاتا ہے یا حکمراں اس کی تائید کے محتاج اور اس کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔

چنانچہ ان تصورات کا ردِ عمل ہوا اور چار صدی قبل یوروپ کے اہلِ دانش نے ’’مذہب عیسائیت‘‘ سے بغاوت کردی۔ وہ ایسے مذہب کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جو عقل سے ٹکراتا ہو اور انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کا غلام بنادیتا ہو۔ اس بغاوت کا نتیجہ کشمکش کی شکل میں نکلا۔ جس میں ایک طرف ’’اربابِ مذہب‘‘ تھے اور دوسری طرف ’’اہلِ عقل و دانش‘‘۔ ان دونوں رجحانات کا مقابلہ علمی دنیا میں بھی ہوا اور سیاسی دنیا میں بھی اور بالآخر اربابِ مذہب نے شکست کھائی اور یوروپ میں یہ بات عام طور پر تسلیم کرلی گئی کہ ’’انسانی رویے کی بنیاد عقل پر ہونی چاہیے نہ کہ مذہب پر۔‘‘ یہ کشمکش شدید بھی تھی اور جاں گسل بھی اس لیے رفتہ رفتہ دونوں جانب انتہا پسندانہ رویے اختیار کیے گئے۔

سیکولرزم کی ابتدا:

’’اہلِ دانش‘‘ نے آغاز میں عیسائیت سے بغاوت سے کی تھی لیکن بالآخر انھوں نے خود ’’نفسِ مذہب‘‘ کو غیر معقول ٹھہرایا اور اسے رد کردیا۔ پھر یہ رجحان آگے بڑھا اور ہر ایسے تصور، رویے یا قدر کو ’’خلاف عقل‘‘ اور ’’قابلِ رد‘‘ ٹھہرایا گیا جس کا تعلق غیبی حقائق سے ہو اور جس کا ’’محسوسات کی دنیا‘‘ میں براہِ راست مشاہدہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ مذہب اور حقائق غیبی کو خلاف عقل اور ناقابلِ قبول قرار دینے کے اس رویے کا نام ’’سیکولرزم‘‘ ہے۔

فطری تقاضوں کا باہم ٹکراؤ:

یوروپ میں مذہب کے نام پر انسانوں کا استحصال ہورہا تھا اور انسانوں پر اپنے ہی جیسے انسانوں کی جو حکومت قائم تھی، اس سے بچنے کے لیے وہاںکے اہلِ دانش نے مذہب کو قابلِ رد ٹھہرایا اور اپنے اس طرزِ فکر کے لیے ’’سیکولرزم‘‘ کا عنوان تجویز کیا۔ اس طرح یوروپ میں فطرتِ انسانی کے دو پہلو آپس میں ٹکرا گئے۔

﴿الف﴾ فطرتِ انسانی کا یہ پہلو کہ وہ ’’مذہبی‘‘ واقع ہوئی ہے یعنی انسان فطرتاً روح کے وجود کا قائل ہے اور اسی طرح خالقِ کائنات کو اس کی فطرت پہچانتی ہے اور ماننا بھی چاہتی ہے۔

﴿ب﴾     دوسری طرف فطرتِ انسانی کا یہ دوسرا پہلو کہ انسان ایسا معاشرہ چاہتا ہے، جس میں انسان برابر ہوں، ایک انسان دوسرے پر خدائی نہ کرے، معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو، انسانوں کا استحصال نہ ہو اور ان کو غیر معقول باتیں ماننے پر مجبور نہ کیا جائے۔

ان دونوں پہلوؤں کے ٹکراؤ کی وجہ یہ تھی کہ جو مذہب یوروپ میں موجود تھا ﴿یعنی مذہب عیسائیت﴾ وہ غیرمعقول اور غیر عادلانہ تصورات کا حامل تھا۔ یوروپ کے اہلِ دانش اس مشکل سے دوچار تھے اگر وہ مذہب کو قبول کرتے ہیں ﴿جس کا تقاضا ان کی انسانی فطرت کرتی ہے، جو مذہبی واقع ہوئی ہے﴾تو ان کو غیر معقول باتوں کو ماننا پڑتا ہے اور ’’مذہبی طبقے‘‘ کی حکمرانی قبول کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بالمقابل اگر وہ عقل اورمعقولیت پر اصرار کرتے ہیں، تو انھیں مذہب کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے پر یورپ کے دانشوروں نے مذہب کو چھوڑنا گوارا کرلیا اور اس خیال کی بنیاد رکھی کہ ’’انسانی رویے کی بنیاد صرف عقل اور تجربے پر ہونی چاہیے‘‘ اور یہ کہ غیب اور غیبی حقائق کے نام سے جو بات بھی پیش کی جائے، وہ قابلِ رد ہے اس لیے کہ ایسی کوئی بات ’’عقل اور مشاہدے‘‘ کے ذریعے ثابت نہیں کی جاسکتی اور جو کچھ ’’محسوس مشاہدے‘‘ کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا، وہ تسلیم کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔

اگر اس مرحلے پر یوروپ کے اہلِ دانش کے سامنے اسلام کاصحیح تصور آجاتا تو وہ اس مشکل سے بچ سکتے تھے۔اسلام فطرت کے دونوں تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ ایک طرف وہ انسان کاتعلق خدا سے قائم کرتا ہے اور اس کے مذہبی جذبات کی تسکین کا مکمل سامان فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف اسلام میں کوئی ’’مذہبی طبقہ‘‘ نہیں ہے، بلکہ تمام انسان اس کے اہل ہیں کہ براہِ راست خدا کی عبادت کریں، اس کی ہدایت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ اسلام انسانوں کے درمیان مساوات اور بھائی چارہ قائم کرتا ہے اور انسانوں پر انسانوںکی خدائی کی کسی شکل کو گوارا نہیں کرتا۔ اسلام نے جو باتیں بھی پیش کی ہیں، وہ سب کی سب معقول اور مدلل ہیں اور وہ کسی غیر معقول بات کو تسلیم کرانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اسی طرح اسلامی تعلیمات کے اندر انسانوں کے استحصال کی اور ظلم و ستم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ ’’کلامِ الٰہی‘‘ محفوظ ہے اور اس کو پڑھنا اور سمجھنا ہر طالبِ ہدایت کا حق ہے اور فرض بھی۔ اس کلامِ الٰہی کے محفوظ و مامون ہونے کی بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ اس میں تحریف کی جاسکے یا اس کی مان مانی تشریحات کرکے ایک طبقہ دوسروں پر اپنا تسلط قائم کرسکے، جو فرد یا طبقہ بھی انسانوں پر اپنی خدائی قائم کرنا چاہے گا، وہ اسلام کے حوالے سے ایسا نہ کرسکے گا بلکہ اس کو اسلام سے بغاوت کرنی ہوگی۔لیکن تاریخی و نفسیاتی اسباب کی بنا پر اہلِ یوروپ اسلام پر غور نہ کرسکے اور اس لیے یہ تاریخی حادثہ رونما ہوا کہ یورپ کی جدید صنعتی تہذیب کی بنیاد ’’خدا، مذہب اور غیب سے بغاوت‘‘ پر رکھی گئی۔

سمجھوتہ:

یہ سیکولرزم کی ابتدا تھی جس میں مذہب کو رد کیا گیا۔ چنانچہ اس سیکولر رویہ اور طرزِ فکر کو الحاد کے ہم معنی قرار دیا جاسکتا ہے۔

لیکن الحاد کو انسانی فطرت قبول نہیں کرتی۔ انسانی فطرت کے اندر مذہب کی جو شدید پیاس موجود ہے وہ کسی ایسے نظامِ فکر سے نہیں بجھ سکتی جو مذہب کی نفی پر مبنی ہو۔ اس لیے سیکولرزم کا یہ مفہوم ﴿جو الحاد کا ہم معنی تھا﴾ صرف ایک محدود طبقے کے لیے ہی قابلِ قبول ہوسکا۔ عام طور پر جو مفہوم قابلِ قبول قرار پایا وہ یہ تھا کہ ’’مذہب‘‘ کو اجتماعی معاملات سے الگ کردیا جائے۔

سیکولرزم کے دو مفہوم:

چنانچہ سیکولرزم کے دو مفہوم ہیں:

﴿۱﴾       پہلا مفہوم یہ ہے کہ مذہب غیر معقول اور غلط ہے اس لیے ہر معقول انسان کو چاہیے کہ مذہب کو رد کردے۔

﴿۲﴾      دوسرا مفہوم یہ ہے کہ مذہب کی معقول تشریح نہیں کی جاسکتی، لیکن اس کے باوجود یہ انسان کی فطرت کا جز ہے۔ اس لیے مذہب کو رد کرنے کے بجائے اس کے دائرے کو محدود کردینا چاہیے اور تمام اجتماعی معاملات کو ’’مذہب‘‘ کے اثر سے آزاد رکھنا چاہیے۔ اس طرح اجتماعی معاملات مذہب کی غیرمعقولیت کے برے اثرات سے محفوظ رہیں گے اور عقل و تجربے کی بنیاد پر چلائے جائیں گے۔

سیکولرزم کا یہ دوسرامفہوم دراصل ایک سمجھوتہ ہے۔ چونکہ مذہبی جذبات کا خاتمہ اور استیصال ممکن نہیں ہے، لیکن مذہب کی غیرمعقولیت بھی عیاں ہے اس لیے یہی راستہ بچتا ہے کہ مذہب کے لیے بھی کچھ گنجائش نکال لی جائے۔ لیکن بہرحال اجتماعی معاملات کو مذہب سے الگ رکھنا چاہیے۔

انسانی فطرت کا سیکولر تصور:

اس سمجھوتے کے پسِ منظر میں انسانی فطرت کا جو تصور ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ:

  • ﴿۱﴾فطرتِ انسانی متضاد عناصر کا مجموعہ ہے۔
  • ﴿۲﴾ایک طرف انسانی فطرت مذہبی ہے ﴿یعنی روح، خدا اور غیب کی قائل ہے﴾ اور مذہبی جذبات کی تسکین چاہتی ہے، لیکن ’’امرِ واقعہ‘‘ یہ ہے کہ یہ سارے تصورات غیر معقول ہیں، اس لیے کہ مشاہدے سے ثابت نہیں کیے جاسکتے چنانچہ انسانی فطرت بعض غیرمعقول تصورات کی قائل ہے۔
  • ﴿۳﴾دوسری طرف انسانی فطرت ’’معقول‘‘ بھی واقع ہوئی ہے، یعنی انسان بالعموم معاملات کو سمجھنا چاہتا ہے ، دلائل دیتا ہے اور دلائل طلب کرتا ہے اور اجتماعی زندگی میں انسان مل جل کر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے جب تک کہ ایک دوسرے کو اپنے موقف کے بارے میں مطمئن نہ کردیں ﴿جبرو اکراہ کی بات دوسری ہے﴾۔

لیکن جو اصحابِ فکر ’’سیکولرزم‘‘ کے ﴿یعنی اس کے دوسرے مفہوم کے﴾ قائل ہیں وہ مجبور ہیں کہ انسانی فطرت کا یہ عجیب و غریب تصور اپنائیں جو دو متضاد عناصر پر مشتمل ہے۔

سیکولرزم اور اسلام:

اسلام سیکولرزم کو ﴿اس کے دونوں معنوں میں﴾ غلط سمجھتا ہے اور رد کرتا ہے۔

پہلا تصور سیکولرزم یہ ہے کہ ’’مذہب سرے سے غیرمعقول اور ناقابلِ قبول ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ اسلام کا یہ موقف نہیں ہے۔ اسلام مذہب کو ﴿یعنی دینِ حق کو ﴾ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔

رہا دوسرا ’’تصورِ سیکولرزم‘‘ تو وہ یہ ہے کہ ’’اجتماعی معاملات کو مذہب سے الگ رکھا جائے۔‘‘ اسلام کے نزدیک یہ تصور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ اسلام کے نزدیک اللہ کی ہدایت، زندگی کے ہر معاملے میں واجب الاتباع ہے۔ اس ہدایت کو زندگی کے بعض گوشوں تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔

اس موقف پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اورہمیشہ رہا ہے۔ ہر دور کے علماء  نے اس کی صراحت کی ہے کہ دین کا تعلق پوری زندگی سے ہے، جس میں عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات، معیشت، معاشرت، تعلیم، قانون، صلح و جنگ، طرزِ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات سمیت تمام شعبے شامل ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے سیکولرزم کو قبول کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، خواہ سیکولرزم کا کوئی بھی مفہوم لیا جائے۔

سیکولر اسٹیٹ:

سیکولر اسٹیٹ کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے اس امرِ واقعہ کو سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ زمانے کی اکثر ریاستیں اپنے تصور کے مطابق ’’نیشن اسٹیٹ‘‘ (Nation State) ہیں۔ یوں تو ہر ریاست، زمین کے کسی علاقے تک محدود ہوتی ہے، لیکن نیشن اسٹیٹ کا مفہوم صرف اتنا نہیں ہے کہ وہ ایک خطے تک محدود ہو کیونکہ ایک خطہ زمین تک محدود ہونا تو صرف ایک امرِ واقعہ ہے۔

نیشن اسٹیٹ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ وہ اصولاً صرف اپنی حدود میں رہنے والے ’’اصل باشندوں‘‘ کو ہی اپنا شہری سمجھتی ہے اور صرف ان کو ہی شہری حقوق دیتی ہے ﴿جن میں ’’انتظام ملکی میں شرکت‘‘ کا حق بھی شامل ہے﴾۔

نیشن اسٹیٹ کے بالمقابل اصطلاح ’’نظریاتی ریاست‘‘ (Ideological State) کی ہے۔ نظریاتی ریاست کی مکمل مثال تو صرف ’’اسلامی ریاست‘‘ ہے البتہ کسی حد تک کمیونسٹ ریاست بھی نظریاتی کہلاسکتی ہے۔ نظریاتی ریاست بھی ﴿کسی ایک خاص وقت میں﴾ ایک خطہ زمین تک محدود ہوتی ہے۔ لیکن اس کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شہریت کی بنیاد ’’نظریے سے وابستگی‘‘ ہوتی ہے نہ کہ محض ایک خطہ زمین کا باشندہ ہونا۔ چنانچہ اصولاً ہر مسلمان اسلامی ریاست کا مکمل شہری ہوتا ہے۔ ﴿بشرطیکہ وہ ہجرت کرکے اس کی حدود میں آجائے﴾ اور ایک غیرمسلم اگرچہ اسلامی ریاست کے اندر رہ سکتا ہے، لیکن وہ انتظامِ ملکی کے کلیدی کام میں شریک نہیں ہوتا ﴿اگرچہ دوسرے تمام شہری حقوق اس کو حاصل ہوتے ہیں﴾۔

’’نیشن اسٹیٹ‘‘ کی تعریف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اصولاً اپنے شہریوں کے درمیان مذہبی فرق کو ناقابلِ لحاظ سمجھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے نزدیک ’’مذہب ایک ناقابلِ لحاظ چیز ہے۔‘‘ یہی سیکولر نقطہ نظر ہے ﴿جس کے مطابق مذہب کو اجتماعی معاملات سے الگ رکھا جانا چاہیے﴾۔چنانچہ نیشن اسٹیٹ کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘ بن جائے۔ اس لیے موجودہ زمانے کی قومی ریاستوں ﴿Nation States﴾ کا سیکولر ریاست ہونا کوئی اتفاقی بات (Accident)نہیں ہے بلکہ نیشن اسٹیٹ ہونے کا عین تقاضا ہے۔ اگر کوئی ریاست نظریاتی ریاست نہیں ہوگی تو وہ لازماً نیشن اسٹیٹ ہوگی۔

﴿جو قارئین نیشن اسٹیٹ کی اس خصوصیت کے سلسلے میں مطالعہ کرنا چاہیں، ان کے لیے گری لال جین کا مضمون دلچسپی کا باعث ہوگا جو The Hindu Phenomenonمیں شائع ہوا ہے﴾

سیکولر نیشن اسٹیٹ کی پیچیدگی:

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کسی ریاست کے نیشن اسٹیٹ کے بنیادی معنی یہ ہیں کہ اس میں شہریت کی بنیاد، صرف اس خطۂ زمین کا باشندہ ہونا ہے۔ چنانچہ کسی شخص کا مذہب اس کی شہریت کے سلسلے میں زیرِ بحث نہیں ہوتا، اور ہر شہری کو بلا لحاظِ مذہب انتظامِ ملکی میں شرکت کا حق حاصل ہوتا ہے۔

نیشن اسٹیٹ کی تعریف سے یہ معنیٰ بھی نکلتے ہیں کہ جس طرح ہر شہری کو ملکی انتظام میں شرکت کا حق حاصل ہے، خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو، اسی طرح خواہ اس کا نظریہ (Ideology)کچھ بھی ہو، اسے ملکی انتظام میں شرکت کا حق حاصل ہوگا۔

مندرجہ بالا خصوصیت کا یہ تقاضا ہے کہ نیشن اسٹیٹ کا خود کوئی نظریہ نہ ہو۔ اگر اس کا اپنا کوئی نظریہ ہو تو وہ مخالف نظریات رکھنے والے شہریوں کو انتظامِ ملکی میں شرکت کے مساوی حقوق نہیں دے سکتی۔

اس نکتے کو سمجھ لینے کے بعد نیشن اسٹیٹ کی عملی پیچیدگی بیان کی جاسکتی ہے جس کا ہر نیشن اسٹیٹ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اصولاً ’’نیشن اسٹیٹ‘‘ کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ سادہ جمہوری نیشن اسٹیٹ ہوتی ہے ﴿جس میں ہر شہری کو حق حاصل ہوتا ہے کہ جس نظریے کا رنگ بھرنا چاہے، بھرنے کی کوشش کرے﴾۔ لیکن عملاً تاریخی اسباب کی بنا پر ہوتا یہ ہے کہ ہر ریاست اپنا ایک ’’نظریاتی رنگ‘‘ رکھتی ہے ﴿خواہ وہ تسلیم کرے یا نہ کرے﴾ اور یہ نظریاتی رنگ اس ریاست کے دستور، نظامِ تعلیم، سرکاری میڈیا، پالیسیوں، تقریبات اور نعروں غرض ہر چیز میں جھلکتا ہے۔ اس ’’نظریاتی رنگ‘‘ میں ریاست کے تمام باشندوں کو رنگنے کے لیے ریاست کی پوری مشنری (Machinery)کوشش کرتی ہے۔ جو باشندے اس نظریاتی رنگ سے اتفاق نہ رکھتے ہوں وہ اصولاً تو سارے شہری حقوق رکھتے ہیں، لیکن عملاً زمین ان کے لیے تنگ ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسا صرف کسی تعصب کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ ’’نظریاتی رنگ‘‘ کی موجودگی کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ ریاست ان نظریات کو مٹانے کی کوشش کرے، جو اس کے اپنے پسندیدہ نظریے سے مختلف ہوں۔

ہندوستان کی سیکولر اسٹیٹ:

مثال کے طور پر آپ یہ جائزہ لے سکتے ہیںکہ ہندوستان کی سیکولر نیشن اسٹیٹ کا ’’نظریاتی رنگ‘‘ کیا ہے؟ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظریاتی رنگ کئی عناصر کا مجموعہ ہے، جن میں باہم متضاد عناصر بھی شامل ہیں:

﴿۱﴾  وطنی قومیت کا تصور

﴿۲﴾   مشترک کلچر کا تصور ﴿جو کلچرل نیشنلزم کی طرف مائل ہوجاتا ہے﴾

﴿۳﴾    حاکمیتِ جمہور

﴿۴﴾  گاندھی ازم

﴿۵﴾   مغرب کے لبرل تصورات خصوصاً برطانیہ اور فرانس کی جمہوری روایات

﴿۶﴾  مذہب اور اجتماعی معاملات کی علیحدگی کا تصور

ہندوستان کی ریاست پوری کوشش کرتی ہے کہ اپنے مندرجہ بالا ’’نظریاتی رنگ‘‘ میں پوری آبادی کو رنگ دے۔ ظاہر ہے کہ وہ باشندے جو خود اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں، ان کے لیے ریاست کی یہ کوششیں تکلیف دہ بھی ہیں اور پریشان کن بھی۔ البتہ ریاست کا یہ ظلم ایسا ہے کہ اس کو ظلم ثابت کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے کے ’’سیکولر نیشن اسٹیٹ‘‘ کو ایک صحیح نظام تسلیم کرلینے کے بعد ریاست کو اپنے اختیارات کے استعمال سے نہیں روکا جاسکتا۔

اب سیکولر نیشن اسٹیٹ چونکہ ’’جمہوری‘‘ ہے اس لیے وہ اپنے کو عوام کا نمائندہ کہتی اور سمجھتی ہے۔ چنانچہ ریاست کے جو بھی اقدامات ہیں وہ خود عوام کے اقدامات قرار پاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عوام کا ایک طبقہ ان اقدامات پر کیسے احتجاج کرسکتا ہے جو خود ’’عوام‘‘ نے ہی کیے ہوں۔

اس ساری پیچیدگی کی بنیا دیہ غلط مفروضہ ہے کہ ریاست کے تمام باشندے اپنے خیالات اور طرزِ فکر میں ایک جیسے ہیں اور ان کے درمیان مذہب یا نظریے کا فرق محض جزوی و فروعی نوعیت رکھتا ہے۔ اور ناقابلِ لحاظ ہے۔ واقعہ اس مفروضے کی تصدیق نہیں کرتا۔ ریاست میں فی الواقع متعدد مذاہب کے پیرو موجود ہیں اور ان کے درمیان طرزِ زندگی اور تصورات کا فرق فروعی نہیں ہے، بلکہ اساسی اور بنیادی ہے۔

اب ہوتا یہ ہے کہ بادلِ ناخواستہ سیکولر اسٹیٹ ان مذاہب اور نظریات کے وجود کو تسلیم بھی کرلیتی ہے، جو ریاست کے ’’نظریاتی رنگ‘‘ سے مختلف کوئی تصورِ حیات رکھتے ہیں۔ البتہ ایسے گروہوں کو ’’اقلیت‘‘ کہتی ہے۔ ان گروہوں کو ’’نظریاتی گروہ‘‘ کہنے کے بجائے ’’اقلیت‘‘ کہنا اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے کچھ دستوری و قانونی تحفظات فراہم کرنا دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ

﴿۱﴾       ایک ’’اکثریت‘‘ بھی موجود ہے ﴿ورنہ ’’اقلیت‘‘ کی اصطلاح کے کوئی معنی نہیں ہیں ﴾ اس ’’اکثریت‘‘ سے ظلم و زیادتی عین متوقع ہے، چنانچہ کچھ ’’تحفظات‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتوں کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔

﴿۲﴾      یہ مفروضہ کہ باشندگان ملک طرزِ حیات کے اعتبار سے یکساں ہیں حقیقتاً غلط ہے لیکن اس غلطی کو سیکولر ریاست صاف صاف تسلیم نہیں کرتی بلکہ اقلیتوں کو کچھ حقوق بادلِ ناخواستہ دے دیتی ہے۔

﴿۳﴾      اس بے دلی کی بنا پر یہ حقوق ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیںاور یہ اندیشہ ہر وقت رہتا ہے کہ یہ حقوق ختم کردیے جائیں۔

﴿۴﴾      اگر حقوق ختم نہ بھی کیے جائیں، تب بھی بے دلی کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں، اس لیے کہ ریاست کے بنیادی تصور ﴿یعنی نیشنلزم﴾ سے یہ حقوق متصادم ہیں۔اس رویے کی بنا محض تعصب نہیں ہے بلکہ ریاست کی نوعیت اسی رویے کی ترغیب دیتی ہے۔

﴿۵﴾      اقلیتوں پر مستقل یہ احسان جتایا جاتا رہتا ہے کہ ان کو کچھ حقوق سیکولر ریاست نے ’’ازراہِ عنایت‘‘ دے رکھے ہیں اور یہ اس کی بڑی فیاضی ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے اور کسی فرد یا ریاست کو یہ حق نہیں ہے کہ انسانوں کی آزادی سلب کرلے ﴿جس میں عقیدے اور دین کی آزادی شامل ہے﴾۔ اگر وہ آزادی سلب نہ کرے اور انسانوں کو ان کے حقوق دے دے تو یہ کوئی احسان نہیں ہے۔

﴿۶﴾      اقلیت کی اصطلاح میں زور کسی گروہ کی ’’تعداد‘‘ پر ہے نہ کہ اس کے نظریے پر۔ جس گروہ کو ’’اقلیت‘‘ کہا جاتا ہے اس کی اپنی نگاہ میں اس کی تصویر یہ بنتی ہے کہ ’’وہ محض ایک قلیل التعداد گروہ ہے۔‘‘ اس کی یہ تصویر نہیں بنتی کہ ’’وہ ایک نظریے کا علم بردار ہے۔‘‘ حالانکہ یہ ممکن ہے کہ اگر نظریے میں قوت ہو تو ایک قلیل التعداد گروہ بھی مؤثر کردارادا کرسکے۔ نظریہ کو یہ ثانوی اور فروعی مقام دینا نیشن اسٹیٹ کے تصور کے عین مطابق ہے۔

مسلمانوں کو جو دقتیںہندوستان میں پیش آتی ہیں، اس کی اصل وجہ سیکولر نیشن اسٹیٹ کا ’’نظریاتی رنگ‘‘ ہے، جس میں وہ مسلمانوں کو بھی رنگنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان دقتوں میں مزید اضافہ اس تعصب سے ہوتا ہے جب یہاں موجود ہے۔ لیکن بہرحال دقتوں کی اصل وجہ تعصب نہیں ہے۔ بلکہ سیکولر نیشن اسٹیٹ کی مخصوص نوعیت ہے۔

سیکولر اسٹیٹ نہ ہو تو کیا ہو:

سوال کیا جاسکتا ہے ﴿اور کیا جاتا ہے﴾ کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوںوہاں سیکولر اسٹیٹ کے قیام کے علاوہ آخر اور کیا چارہ کار ہے؟ بالفاظِ دیگر سیکولر اسٹیٹ کا متبادل کیا ہے؟

اِس سوال کے جواب میں عرض کیا جاسکتا ہے کہ سیکولر اسٹیٹ کا متبادل یہ ہے:

﴿۱﴾       ریاست کو روایتی معنوں میں جمہوری کہنے کے بجائے اُسے مختلف مذہبی گروہوں کی مشترکہ ریاست سمجھا جائے جس کی بنیاد اِن گروہوں کے درمیان آزاد معاہدے پر ہو۔

﴿۲﴾      ریاست اپنی حدود میں مختلف مذاہب اور ان کے پیروگروہوں کی موجودگی کشادہ دلی کے ساتھ تسلیم کرے نہ کہ ایک ناگوار واقعے کے طور پر۔ ﴿اس کے معنی یہ ہیںکہ وہ وطنی قومیت اور مشترک کلچر و تہذیب کے نصب العین سے دست بردار ہوجائے اور سوسائٹی کو Secularizeکرنے کا خیال چھوڑ دے﴾۔

﴿۳﴾       ہر مذہبی گروہ کے لیے مذہب پر عمل کی انفرادی آزادی کے علاوہ اپنے گروہ کی اجتماعی زندگی کو مذہب کے مطابق منظم کرنے کی آزادی بھی تسلیم کی جائے۔

﴿۴﴾      ہر گروہ کو یہ حق ہو کہ وہ اپنانظامِ تعلیم اپنے کنٹرول میں رکھ سکے اور عام وسائل ریاست سے اس کو اتنا حصہ مل جائے، جو اس کی آبادی کے متناسب ہو۔

﴿۵﴾      کسی شخص کو از روئے قانون یا حکومتی دباؤ سے کام لے کر ایسے کام پر مجبور نہ کیا جائے جو اس کے دین کے منافی ہو۔

ہندوستان میں مسلمانوں کو چاہیے کہ سیکولرزم کی علمی تردید کے علاوہ ریاست پر زور دیں کہ وہ مذہبی گروہوں کے وجود کو تسلیم کرے اور ان کے لیے مذہب پر عمل کے انفرادی حق کے علاوہ اجتماعی حق کو بھی تسلیم کرے۔ اس طرح ایک منصفانہ صورت قائم ہوسکے گی۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2013

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau