اسلام کی اجنبیت میں اسلام کا ساتھ دیں

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے اور بہت مشہور ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: شروع میں اسلام اجنبیت کی حالت میں تھا، دوبارہ وہ اسی طرح اجنبیت کی حالت میں ہوجائے گا۔ تو خوش خبری ہے اس اجنبیت میں اس کا ساتھ دینے والوں کے لیے۔

عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ: بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیبًا، وَسَیعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِیبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ. (صحیح مسلم)

آج اسلام پھر اجنبی ہو گیا ہے۔ دنیا کے انسانوں کی بڑی تعداد کفر و شرک اور الحاد میں مبتلا ہے۔ خدا، رسول، آخرت اور کتاب سے ناواقف ہے۔ گمراہیوں اور ضلالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ ہر طرف ظلم و ستم، خوں ریزی، قتل، بدکاری و بے حیائی عام ہے۔ اسلام سے دنیا نا واقف ہے۔ اس کے تعلق سے غلط فہمیاں بڑے پیمانے پر پھیلائی جا رہی ہیں۔ عام انسان اس سے (اسلام اور مسلمانوں) سے نفرت کرتا ہے۔ اسلاموفوبیا کی آڑ میں مسلمانوں کا سماجی و معاشرتی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔

آج امت مسلمہ کی بھی ایک بڑی تعداد دین کی بنیادی باتوں سے ناواقف ہے۔ بد عقیدگی و گمرہی ان میں داخل ہو گئی ہے۔ وہ شرکیہ اعمال میں مبتلا ہے۔ نماز، روزہ و زکوة جیسے اہم فرائض سے غفلت برت رہی ہے۔ حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں رہ گئی ہے۔ خرید و فروخت کے معاملات میں گڑبڑی آ گئی ہے۔ جھوٹے مقدمات، بددیانتی، جھوٹی گواہی جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا ہے۔ بے شرمی کی باتیں، بے حیائی اور فحش عام ہے۔ ارتداد بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔

یہود و نصاری کی طرح اکابر پرستی بڑھی ہوئی ہے اور مذہبی پیشواؤں کو خدائی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ان کی ہر بات بغیر کسی تحقیق کے سچ مان لی جارہی ہے۔

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد اسلام سے ناواقف ہے۔ جو واقف ہیں ان میں بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ماحول سے متاثر ہونے کی وجہ سے اسلام کے مطابق عمل کرنے میں شرماتے ہیں۔ جب اسلام کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو تعجب سے کہتے ہیں کہ کیا یہ بھی اسلام ہے؟ گویا اسلام اجنبی ہو گیا ہے۔

اسلام شروع میں اجنبی تھا لیکن پھر چند سالوں میں اسلام دنیا کے بیشتر حصہ میں پھیل گیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد اہل مدینہ نے اجتماعی طور سے اسلام کو قبول کر لیا، بہت قلیل مدت میں پورے جزیرة العرب میں لوگ اسلام سے واقف ہو گئے۔ عرب اور اس کے اطراف میں اسلام کو مقبولیت حاصل ہو گئی۔ کفر و شرک ایک عرصہ تک کمزور اور مغلوب رہا ہے۔

پھر مسلمانوں میں اضمحلال اور کمزوری بتدریج پیدا ہوتی رہی۔ اہل اسلام کی کثرت کے باوجود دین سے دوری، اللہ کی کتاب سے بے رغبتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے بے توجہی نے انھیں کمزور و پست کر دیا۔ وہ دنیا میں مگن ہو گئے۔ دنیا کی طرف ایسے مائل ہوئے کہ دنیا کی کامیابی کو ترجیح دینے لگے۔ دھن دولت، مال و جائداد اور وسائلِ دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر ان پر غالب ہو گئی۔ دین کے غلبہ سے بے رخی برتی جس کے نتائج یہ ہوئے کہ اسلام دشمنوں نے ان میں دار اندازی کی اور وہ مسلمانوں پر غالب ہوتے چلے گئے۔ آج مسلمان ذلیل اور بدترین صورت حال سے گزر رہے ہیں۔

ہم ذیل کی سطور میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتائیں گے کہ اسلام کی موجودہ اجنبیت میں اسلام کا ساتھ دینے والوں پر کیا ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں:

دین سے واقفیت

موجودہ دور میں اسلام کے اجنبی ہونے کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد دین اسلام سے واقف نہیں ہے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے ضروری ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ اس کے لیے لازم ہےکہ مسلمان اسلام کی تعلیمات سے واقفیت حاصل کریں۔ واقفیت کی تین سطحیں ہیں۔

(الف) اسلام کی تعلیمات: عقائد، عبادات، معاشرت، معیشت، حقوق و فرائض، معاملات کا ضروری علم ہر مسلمان حاصل کرے تاکہ زندگی میں روز مرہ پیش آنے والے معاملات میں قرآن و سنت کی روشنی میں عمل پیرا ہو سکیں۔

(ب) دین کا فہم: دوسری سطح علم کی یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کا فہم و شعور حاصل کیا جائے۔ فہم دراصل انسان کے عقائد میں پختگی اور عمل میں استقامت بخشتا ہے۔ اسلام کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے کی صلاحیت و حوصلہ پیدا کرتا ہے۔

(ج) تحقیق و بصیرت: احکام الٰہی کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کرکے اس میں درک حاصل کرنا۔ احکامات الٰہی کو دلیل سے مستحکم کرنا۔ باطل نظریات کا منھ توڑ جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ دین میں بصیرت حاصل کی جائے۔ باطل کا خمیر ہمیشہ سے یکساں رہا ہے البتہ اصطلاحات، شکلیں، رنگ و روپ بدلتا رہا ہے۔ باطل کو سمجھنے اور اس کے نقصانات سے بچنے، حق کی بابت اس کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے دین میں بصیرت ضروری ہے۔

اسلام کی تعلیمات کے مآخذ قرآن و سنت رسولؐ ہیں مسلمانوں کو انفرادی و اجتماعی طور سے ان دونوں سے وابستہ کرنا لازم ہے۔ آج ملت ان دونوں ہی چیزوں سے جیسا تعلق ہونا چاہیے وہ نہیں رکھ سکی ہے۔ عقیدت ہے مگر زبانی، پڑھتی ہے مگر محض ثواب کے لیے، شعور اور دلائل و حقائق کو سمجھنے اور عمل سے دور دور کا وابستہ نہیں ہے۔ امت کی تباہی و بربادی اور تمام خرابیوں کی جڑ یہی ہے۔ اسلام کے اجنبی ہونے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے بہت ہی واضح انداز میں امت کو نصیحت فرمائی تھی۔

تركت فیكم أمرین لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنة نبیه (موطا امام مالک)

(میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم انہیں مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت)

اسلام کے تئیں اخلاص

اسلام کے اجنبی ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اخلاص نہیں ہے۔ اللہ کا اقرار کرتے ہیں، رسول سے محبت کا دعوی کرتے ہیں مگر ان کی وفاداریاں اہل باطل اور اہل کفر سے وابستہ ہیں۔ ایسے لوگوں سے وابستہ ہیں جو اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

انفرادی زندگیاں اعمال صالحہ سے غفلت، احکامات الٰہی سے بغاوت اور رسولؐ کی اتباع سے بے زاری سے عبارت ہیں۔ امت کی اس مجموعی صورت حال نے اسلام کو اجنبی بنا کر رکھ دیا۔ شرک، بدعقیدگیاں، گمراہی، رسم و رواج کی بیڑیاں مسلمانوں کی ایسی تصویر پیش کرتی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان سادہ لوح مسلمانوں نے اپنے جاہلانہ افکار و رسوم کو اسلام کا نام دے رکھا ہے۔

اسلام کی سربلندی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بنیں۔ اسلام کو عملًا برتیں، اللہ و رسول کی اطاعت کو مکمل طور سے قبول کریں۔ اللہ و رسول کے تئیں سچی وفاداری اپنے اندر پیدا کریں۔ ایمان دراصل دل کی تصدیق، زبان سے اقرار اور عمل سے اظہار ہے۔ اللہ تعالی نے مومنین کو تاکید کی ہے کہ وہ عبادات، معاشرت، معاملات، اخلاقیات ہر معاملہ میں اسلام کی مکمل پیروی کریں۔

یٰأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ كَافَّةً [سورة البقرة:۲۰۸]

(اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ)

اتحاد امت

اسلام کی اجنبیت کا ایک سبب ملت اسلامیہ کا اندرونی انتشار ہے۔ اسلام کو عام و خواص میں پہنچانے کے لیے امت کے اندر اتحاد کا ہونا نہایت ناگزیر ہے۔ آپسی فقہی بحثیں، فروعی مسائل میں پڑنے اور عوام کو اس میں الجھانے کے بجائے اسلام کی سربلندی کے لیے اسلامی اخوت و تعاون کے اصول پر متحد ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسلام نے متحد ہونے اور انتشار سے بچنے کا حکم دیا ہے۔

انما المؤمنون اخوۃ [الحجرات:۱۰]

(مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔)

تعاونوا علی البر و التقوی [المائدہ:۲]

(جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو)

امت کی سطح پر مختلف مسالک و مکاتب کی کمیٹیاں بنائی جائیں جو مل جل کر ان اصولوں پر متحد ہو کر اقامت دین اور دین کی سربلندی کے لیے کام کریں۔ ہر مسلک کے لوگ اپنے مسلک پر رہتے ہوئے ملت کے ملی امور اور دین کی بنیادی باتوں و کاموں کی انجام دہی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں اور ملت کی مشترکہ رہنمائی کی شکل پیدا ہو سکے۔

ملت کا اپنا لائحہ عمل و منصوبہ

اسلام کی سربلندی کے لیے ملت کا اپنا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ اس وقت ملت کی صورت حال یہ ہے کہ اسلام مخالف طاقتیں ہمارا ایجنڈا طے کرتی ہیں۔ عالمی اور ملکی سطح پر یہی ہو رہا ہے۔ بحیثیت ملت مسلمانوں کا اپنا کوئی لائحہ عمل اور ویژن نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسجد و مندر، مطلقہ کا نان و نفقہ، طلاق، اوقاف کو ختم کرنا، فسادات، الیکشن، مدارس کا خاتمہ و پابندیاں، بلڈوزر، معصوم و بے گناہوں کو قید کر لینا، ماب لنچنگ جیسے پیچیدہ مسائل امت کے سامنے لاکر کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ امت ان میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ ان مسائل سے نپٹنا بہرحال ضروری ہے۔ اس صورت حال میں امت کی کیفیت دفاعی رہتی ہے جب کہ ہمارے اپنے ایجنڈے کو لے کر بڑھنے اور اس کے حق میں رائے عامہ کو بنانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کا طویل المدتی منصوبہ اور لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس کے مرکزی کاموں کے ساتھ ساتھ جزوی طور پر بھی عملی کاموں کی تفصیلات طے کر کے امت کو اسے انجام دینے کے لیے ابھارا جائے۔ تمام مکاتبِ فکر کے علما و ائمہ، دانشوران، پیشہ وار ماہرین اس کے حصول کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کریں تاکہ امت سماج پر اثر انداز ہو سکے۔

میڈیا

میڈیا اپنی بات دوسرے لوگوں تک وسیع پیمانے پر پہنچانے کے لیے موجودہ زمانے میں ایک اہم ذریعہ ہے۔ باطل طاقتوں اور اسلام دشمنوں نے اس کا اسلام کے خلاف خوب استعمال کیا ہے۔ آئے دن اسلامی تعلیمات پر وار کرنا، صاف و شفاف اسلامی تعلیمات کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنا، نبیؐ اور آپ کی ازواج مطہرات کی پاک زندگیوں کے سلسلے میں اوچھے و گندے خیالات کو اچھالنا۔ اپنی غلط اور ظلم و زیادتی پر مبنی پالیسیوں کو درست قرار دینا اور  اس کے حق میں عوام کی ذہن سازی کرنا، میڈیا کا وہ استعمال ہے جو باطل طاقتیں روز مرہ کرتی ہیں۔

امت مسلمہ کے پاس عالمی سطح پر کوئی میڈیا کا نظم نہیں ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے پاس وسائل ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو یہ کام کر سکتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو عام کرنے، عوام کی ذہن سازی، باطل کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا مثبت و موثر جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ امت کے پاس میڈیا ہاؤس ہو جس میں پروفیشنل اور تکنیکی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں، نئے افراد کو اس میدان میں تیار کیا جائے۔

نبیؐ نے اپنے زمانے کے ہر ذریعہ اور وسیلے کو استعمال کیا تھا۔ آج اسلام اور امت مسلمہ کی بقا و استحکام، تبلیغ و اشاعت، اسلامی تعلیمات کی اہمیت و فوائد سے واقف کرانے کے لیے میڈیا کا استعمال بڑے وسیع پیمانے پر کیا جائے۔

تعلیمی نظام

کسی بھی فکر و نظریہ، عقائد و خیالات، تہذیب و ثقافت کو آگے بڑھنے میں تعلیمی نظام بڑا رول ادا کرتا ہے۔ اسلام کی اشاعت آئندہ نسلوں میں منتقل کرنے اور سماج کی رائے تبدیل و ہموار کرنے کے لیے امت کو اپنا تعلیمی نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تعلیمی نظامہائے تعلیم مغرب و یورپ سے مستعار ہیں۔ ہندوستانی پس منظر میں غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی حکمرانی کے دور کے بعد جب انگریزوں کا ہندوستان پر غلبہ ہوا تو انہوں نے اپنا تعلیمی نظام نافذ کیا جس کا مقصد محض اپنی حکومت چلانے کے لیے کل پرزے تیار کرنا تھا۔ ملک آزاد ہو جانے کے بعد بھی ملک کا تعلیمی نظام بنیادی طور پر ابھی تک اسی طرز کا رہا ہے۔ اسی نظام کے بالمقابل مسلمانوں نے اپنے بچوں کو دین سے وابستہ رکھنے کے لیے مکاتب و مدارس کا نظام از سر نو قائم کیا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں جو مدارس ہوتے تھے وہ صرف مذہبی تعلیم گاہیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ تمام علوم و فنون کے مراکز ہوتے تھے۔ اس کے فارغین زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی خدمات پیش کرنے کے اہل ہوتے تھے۔ مسلمان بادشاہوں کی انہیں سرپرستی حاصل رہتی تھی۔ انگریزوں نے ہنوستان پر تسلط پانے کے بعد ان مدارس کو تباہ و برباد کر دیا اور جو کچھ بچے رہ گئے تو انہوں نے معاشی تنگ دستی و بحران سے شکار ہو جانے کی وجہ سے از خود دم توڑ دیا۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں مدارس کا نظام قائم کیا گیا۔ یہ خالص دینی تعلیم کا نصاب تشکیل دے کر جاری کیا گیا تاکہ ملت اسلامیہ کے نو نہالوں کو الحاد و شرک سے محفوظ رکھا جاسکے۔ دونوں ہی نظام موجودہ دور میں ملت اسلامیہ کی ضرورت کو پورا نہیں کرتے۔ حکومت یا مدارس اسلامیہ کے نظام کے فارغین کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ سامنے آتا ہے کہ مروجہ نظام تعلیم دینی نقطہ نظر سے ہمارے موافق نہیں ہے۔ اس کے فارغین دین سے نابلد و ناآشنا رہ جاتے ہیں اور دینی مدارس کے نظام تعلیم سے فارغین عمومی طور پر اس لائق نہیں ہو پاتے ہیں کہ وہ سماج کے مختلف میدانوں میں خدمات و رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔

ملت انسانوں کی قیادت کرے، زندگی میں درپیش مسائل کو اسلام کی روشنی میں عملی طور پر حل کرنے اور حل کی تجاویز رکھنے کی اہل ہو سکے، یہ بات ایک نئے طرز تعلیم کا تقاضا کرتی ہے۔ اس نئے طرز تعلیم کے بنیادی مقاصد یہ ہوں:

  • مسلمان اسلام کی اساس و نصوص قرآن و سنت سے واقف ہو سکیں۔
  • زندگی کے مختلف میدانوں میں اسلام کی رہنمائی سے واقف اور اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔
  • دین اسلام کی حقانیت ذہن نشین ہو سکے اور اس کی سربلندی کے جذبہ سے سرشار ہو سکیں۔
  • زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام کی تعلیمات کو مضبوط دلائل کے ساتھ نئے آہنگ و اسلوب میں پیش کرنے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔

ان مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے تین سطح میں نظام تعلیم کو تقسیم کرکے نافذ کیا جائے۔ سطح کی تقسیم فطری ہے۔ حصول علم کے لیے آنے والے طلبہ کی سطحیں مختلف ہوتی ہیں۔ ہر ایک کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ سب کی صلاحیتیں جداگانہ ہوتی ہیں۔ سب کے لیے ایک نصاب اور اس کو مکمل اور لازم کرنا غیر فطری عمل ہے، جس کی وجہ سے بہت سے مسائل و مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

  • پہلی سطح یہ ہونی چاہیے کہ عصری و جدید اور دینی تعلیم کی بنیادی تعلیم سے ہر طالب علم آشنا ہو سکے۔
  • دوسری سطح یہ ہونا چاہیے کہ میٹرک یا گریجوشن کی سطح کی عصری تعلیم اور دینی تعلیم اس حد تک ہو کہ اسلام کی نصوص سے اتنی واقفیت ہو سکے کہ اس کی روشنی میں اپنی زندگی میں براہِ راست رہنمائی حاصل کر سکے۔ دعوت و اصلاح کا فریضہ اور سماجی خدمات انجام دے سکیں۔
  • تیسری سطح اختصاص کی ہونی چاہیے۔ مختلف عصری علوم کی تعلیم دی جائے کہ جدید نظام و نظریات کی خرابیاں دلائل سے واضح ہو سکیں اور اسلامی تعلیمات کی برتری کو جاننے اور ثابت کرنے کی اہلیت پیدا ہو سکے۔

خدمت خلق

خدمت خلق ایک بہت اہم کام ہے۔ یہ دینی و سماجی دونوں لحاظ سے اہم و مؤثر ذریعہ ہے۔ اسلام کے آغاز میں اسلام کی توسیع میں اس کا ایک اہم رول رہا ہے اور آج بھی ہوسکتا ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طور پر مطلوب ہے۔ فرد کی کامیابی و نجات سماج میں امن و محبت کی فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مسلمان کی پہچان سماج کے خیر خواہ کی ہونی چاہیے۔ مسلمان انفرادی طور پر عام انسانوں کے کام آنے والے بنیں۔ ان کی پریشانیوں اور مسائل کو حل کرنے میں رہنمائی، مدد و تعاون کرنے والا رویہ اختیار کریں۔ اجتماعی طور پر بھی غربت، تعلیم، صحت، کمزوروں، بے روزگاروں، یتیموں، بوڑھے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے اجتماعی پروجیکٹ عمل میں لائے جائیں ۔ بلا تفریق مذہب و ملت سب کی خدمت اور سماج کی فلاح و بہبود کے کام انجام دیے جائیں۔

نوجوانوں اور خواتین کا کردار

آج امت مسلمہ کے نوجوان بے سمتی اور مایوسی سے دو چار ہیں۔ نہ زندگی کا کوئی مقصد اور نہ زندگی جینے کا کوئی حوصلہ۔ نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ قوم کے عروج و زوال میں اس کا کردار اہم رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کی اس قوت کا صحیح استعمال کیا جائے۔ نوجوانوں کو مقصد زندگی سے روشناس کراکے زندگی کا سمت سفر طے کیا جائے۔ ان کی بے پناہ صلاحیتیں و قوتیں جو یونہی ضائع ہو رہی ہیں ان کو دین کی سربلندی کے لیے کھپانے کے جذبے سے سرشار کر دیا جائے۔

طلبہ و طالبات ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس مادی نظام تعلیم کے نتائج میں ملت اسلامیہ کا یہ قیمتی سرمایہ مادیت پرستی کا شکار ہو کر اپنی ملی ذمہ داری سے غافل ہے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے ضروری ہے کہ اس سرمایے کو اسلام کے کاز کے لیے کارآمد و مفید بنایا جائے۔

نئی نسل کی پرورش خواتین کی گود میں ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلام کی سربلندی و نشاة ثانیہ کے لیے ضروری ہے کہ امت کی خواتین کو دین سے واقف کرایا جائے اور اسلام کی سربلندی کے جوش ولولہ سے ان کو بھرپور کر دیا جائے۔

خیر کی دعوت

اسلام کے عروج کے لیے ضروری ہے کہ ملت اپنی ذمہ داری کو نبھائے۔ اس کی جدوجہد کی جائے۔ امت کی حیثیت خیر امت کی ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ عام انسانوں کو الٰہی تعلیمات سے واقف کرائے۔ آج مسلمانوں نے بحیثیت ملت اس کام کو ترک کر دیا ہے۔ ملت جب اس کام کو کرے گی تب ہی لوگوں کی اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے گا، تب ہی لوگ اللہ رب العزت کے دین رحمت سے آشنا ہو سکیں۔ دعوت دین جہاں امت کا دینی فریضہ ہے وہیں آج یہ ملت کے مسائل کا حل، تحفظ و بقا کا بھی ذریعہ ہے۔ اس کے لیے حکمت و دانائی کے ساتھ دعوت دین کا کام کیا جائے۔ ملکی و مقامی زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کو سمجھ کر ان کی زبان و اسلوب میں بات رکھنے کا فن سیکھ کر بات کو مؤثر انداز میں پہنچانے کی کارگر جدوجہد کی جائے۔

ادْعُ إِلَىٰ سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ [سورہ النحل:۱۲۵]

(اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔)

اس کے لیے درج ذیل امور اختیار کیے جائیں۔

  • ملت کے اندر جذبہ دعوت کو بیدار کرنا
  • برادران وطن سے انسانی بنیادوں پر خاندانی روابط قائم کرنا
  • سماجی و معاشرتی مسائل پر مشترکہ عمومی پروگرام منعقد کرنا
  • بڑے پیمانے پر برادران وطن سے انفرادی روابط رکھنا
  • اسلام سے متعلق بڑے پیمانے پر لٹریچر کی تقسیم کرنا
  • مختلف مذاہب، طبقات کے لوگوں کے ساتھ خیر سگالی پروگرام اور مکالمے رکھنا
  • سماجی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے مختلف مذاہب، گروہوں، برادریوں کے ساتھ مل جل کر عملی کوششیں کرنا۔

یہ کچھ عملی اقدامات ہیں جنہیں اجنبیت سے دوچار اسلام کا ساتھ دینے کے لیے اختیار کرنا ضروری ہے۔ جوشخص جتنا زیادہ ان کاموں کو انجام دے گا، وہ اتنا ہی زیادہ طوبی للغرباء کی خوش خبری کا مستحق ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ جون 2025

مزید

حالیہ شمارے

Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223