میں اجتماعِ ارکان کے قیام کے دوران میں سردی سے بچنے کے لیے کرناٹکا کیمپ سے مرکز کی نئی عمارت میں منتقل ہوگیاتھا۔ عمارت کے اندرون حصے میں ایک بڑے کمرے میں میراقیام تھا۔ دوسرے روز کچھ دوسرے افراد آئے، اُن میں مولانا ابوالبیان حماد عمری بھی تھے۔ صبح اجتماع کے آعاز سے قبل اور رات میں کھانے کے بعد تھوڑی دیر مولانا سے گفتگو ہوتی رہی۔ اسی دوران گفتگومیں معلوم ہواکہ امیرجماعت محترم مولانا سیدجلال الدین عمری دامت برکاتہم، مولانا حماد صاحب کے شاگرد رشید ہیں۔
ایک دن صبح میں نے مولانا حماد سے ناشتے کی فراغت کے سلسلے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آج ناشتہ محترم امیر جماعت کے گھر پرہوگا۔ وہ کسی کے انتظار میں تھے،جو انھیں محترم امیرجماعت کے گھر لے جائے گا۔ اس گفتگومیں، میں اور دیگر ساتھی بیٹھے ہوئے تھے کہ محترم امیرجماعت، دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ جن میں ایک محترم کے فرزند بھی تھے، کمرے میں داخل ہوئے۔ مولاناحماد صاحب بڑی پھرتی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پرتپاک معانقہ کرتے ہوئے کہنے لگے ’آپ کیوں آئے ، میں ہی آجاتا۔ آپ کے تو بے شمار مصروفیات رہتی ہیں۔‘ اس کے جواب میں محترم امیر جماعت نے خود سے ملنے کی چاہت کااظہار کیا۔ سب کے ساتھ ہم بھی کھڑے تھے۔ دونوں معمّر بزرگانِ ملّت کے پُراخلاص جذبۂ محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
پھر مولانا حماد صاحب اپنی جگہ پربیٹھ گئے۔ محترم امیر جماعت،مولانا کے سامنے دوزانوہوکرباادب بیٹھ گئے۔ محترم امیر جماعت اپنے استاذ کو نگاہ اٹھاکر دیکھ بھی نہیں رہے تھے۔ نگاہوں کو نیچی کیے ہوے نہایت دھیمی آواز میں ان سے گفتگو کررہے تھے۔ استاذ کی یہ محبت اور شاگرد کایہ ادب واقعی میرے دل کو چھوگیا۔ استاذ و شاگرد کے رشتے پر ایک لمبی تقریر اور لمبے مقالے سے زیادہ اثر انگیز تھا یہ منظر۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن بزرگوں کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2011