شہر ہبلی کے قدیم رکن جماعت اسلامی ہند محمد یعقوب مکاندار صاحب رحلت فرماگئے۔ مرحوم ۱۹۵۷ء میں ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ کتابچے کا مطالعہ کیا اور جماعت اسلامی ہند سے متعارف ہوئے ۔ ۱۹۶۰ء میں کل ہند اجتماع دہلی میں شرکت کی اور ۱۹۶۴ء میں باقاعدہ رکن جماعت اسلامی ہند بن کر آخری سانس تک اقامت دین کی ذمےداری نبھاتے رہے۔
مرحوم محمد یعقوب مکاندار صاحب ۱۹۲۴ء میں ضلع شموگہ کے ایک چھوٹے سے دیہات اَڑگن میں پیدا ہوئے۔ اس وقت انگریزوں کا بول بالا تھا۔ دیہات کے اکثر مسلمانوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہی تھا۔ برہمن طبقہ تعلیم کے میدان میں آگے تھا۔ مرحوم کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی دلچسپی ، تڑپ، لگن و جستجو تھی۔ ابتدائی انگریزی تعلیم دیہات میں حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۴۰ء میں ہبلی تشریف لائے، یہاں کے انگریزی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور انگریزی لکھنے پڑھنے اور بولنے میں عبور حاصل کرلی۔ اسی دوران والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ والدہ گائوں میں اکیلی تھیں۔ انہیں بھی اپنے پاس ہبلی بلوا لیا۔ مرحوم ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولی جہاں پر شرک اور بدعت کا رواج تھا۔ سن بلوغ کو پہنچتے ہی ہمیشہ فکرمند رہتے یہ سوچ کرکے یہ شرک اور بدعت سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ مرحوم کہتے تھے میں جب جماعت سے متعارف ہوا تو خالص توحید پرست بن گیا۔ ہبلی میں ۱۸۸۵ء کا قائم کیاگیا بہت بڑا ریلوے ورکشاپ ہے۔ اس وقت ورکشاپ میں بھی انگریزوں کاغلبہ تھا۔ انگریزوں کوانگریزی لکھنے ، پڑھنے اور بولنے والوں کی سخت ضرورت پیش آئی۔ مرحوم کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ نے وہ خوبیاں عطا کی تھیں۔ یہ دیکھتے ہوئے انگریزوں نے ۱۹۴۵ء میں مرحوم کو ملازمت دے دی۔ مرحوم drafting کرنے ، Statements بنانے اور Records تیار کرنے میں غیرمعمولی مہارت رکھتے تھے۔ انہیں کے تیار کردہ Statements اور ریکارڈس جب مدراس اور سکندر آباد پہنچے تو وہ لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اس وقت انہیں انعامات سے نوازا
گیا اور انہیں کے بنائے ہوئے Statements اور ریکارڈس کو نقل کرکے اپنے اپنے ریلویز میں جاری کیا۔ مرحوم کو پہلے ہی سے مطالعے کا شوق کے علاوہ دینی وسماجی اور خدمتِ خلق کے کاموں میں دلچسپی تھی۔ اس وقت ہبلی میں جماعت اسلامی ہند کا ابتدائی دور تھا۔ بس مٹھی بھر مجاہدین کا قافلہ تھا مرحوم بھی اس قافلے میں جڑ گئے۔ مرحوم مسلم کلب کے ممبر رہے۔ اسلامیہ لائبریری چلانے اور قائم رکھنے میں آپ کا اہم رول رہا۔ بڑی مسجد گنیش پیٹ میں ۱۵ سالوں تک سکریٹری کے ذمے داری کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ اسی دوران جماعتی کاموں کوفروغ ملااور بڑی حد تک جماعت کی آبیاری ہوئی۔ مسجد میں ۔مسجد کے باہر چوراہے پر، مسلم کلب میں جماعت کے انگنت پروگرامس انجام پائے۔ اسی مسجد کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہفتہ واری اجتماعات ہوا کرتے تھے۔بچھانے کے لئے بس ایک یا دو چٹائیاں تھیں۔ مرحوم اپنے گھر سے چٹائی اور جھاڑو لے کر کمرے کی صاف صفائی کرتے اورکبھی یہ کام کرنے کے لئے اپنے چھوٹے بچوں کو لگاتے۔ اجتماع کے لئے کمرہ تیار رکھتے۔مرحوم اپنی تحریکی زندگی میں ، پتھر بھی کھائے اور کیچڑ بھی اچھالا گیا اور مخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ پھر بھی تحریک سے چمٹے رہے۔شروع شروع میں جماعت عیدالاضحی کے موقع پر چرم وصولی کا نظم کیاکرتی تھی۔ مرحوم اپنے فرزند کو ساتھ لے کر سائیکل پر چرم اکٹھا کرتے اور دفتر جماعت پہنچاتے۔ جو بھی ذمےداری دی جاتی اسے بڑے سلیقے ،بہترین اور احسن طریقے سے کیا کرتے۔ غالباً دو میقات تک مرحوم نے مقامی سکریٹری کی ذمےداری کو سنبھالا۔ ریکارڈس اور حساب کتاب Maintain کرنے کا طریقہ بڑا ہی صاف ستھرا اور منفرد تھا۔ ریکارڈ حلقہ کو بھیجتے یا ذمے داران ہبلی آتے تو دعائیں دیتے اورستائش کرتے اور کہتے ۔ کسی مقام پر اتنا detail اور صاف ستھرا ریکارڈ ہم نے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو بہت سی خوبیاں اور صلاحیتیں عطا کی تھیں ۔ آپ سچے ،ایماندار، دیانتدار ،مہذب ،نفاست پسند، نظم وضبط کا پاس و لحاظ اوروقت کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ مرحوم اپنی ۵۵سالہ تحریکی زندگی میں ہفتہ واری اجتماعات اور دیگر پروگرامس میں اجتماع گاہ دس منٹ پہلے پہنچ جاتے۔ آخری وقت تک انفاق اور اعانت بلا ناغہ ادا کیا۔ مرحوم کے آفس میں برادران وطن (برہمنوں) کی تعداد تین تھی۔ دو انگریز، دو تیلگو اور دو مسلمان تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو بلا کا حافظہ عطا کیا تھا۔ اسلامی تاریخ ، ہندوستان کے راجائوں اور بادشاہوں کی تاریخ اور مہا بھار ت اور رامائن کی تاریخ کا اچھا خاصا علم تھا۔ تحریکی فرد تھے آفس میں گفتگو ہوتی۔ سوالات کی بوچھار ہوتی۔ سوالات کے جوابات اور گفتگو قرآن اور حدیث کی روشنی میں بڑے ہی احسن انداز میں سامنے والے کو مطمئن کرتے ۔ مرحوم توحید کا پیغام پہنچانے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی،لٹریچر بھی دیا اور بحث ومباحثہ بھی کیا۔غالباً حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ اگر رائے اور مشورہ کرنا ہے تو ایسے شخص سے کرو جو اللہ سے ڈرنے والا ہو، مصداق کے مطابق مرحوم رشتے داروں ،پڑوسیوں اور دوست واحباب کے بہت سے رشتے اور شادیاں کیں اور ازدواجی زندگی کے مسائل اور جائداد کے مسائل کا تصفیہ بڑے ہی حکمت اور احسن طریقے سے حل کیا کرتے ۔ بہت سے نوجوانوں کو نوکریاں لگوانے میں مرحوم کا بڑا حصہ رہا ہے۔ غریبوں، یتیموں، بیوائوں اور حاجتمندوں کی ضروریات کو پورا کرکے خوشی اوراطمینان محسوس کرتے۔ صدقہ،خیرات اور اعانت دینا مرحوم کی زندگی کا معمول تھا۔ دس سال پہلے اچانک کھڑے کھڑے گرگئے،جس کی وجہ سے ایک پیر میں فریکچر ہوگیا، پھربھی لکڑی اور Walker کا سہارا لے کر ہفتہ واری اجتماعات اور دوسرے پروگراموں میں ضرور شرکت کرتے۔ تقریباً تین سالوں سے کمر اور ریڑھ کی ہڈی کی تکالیف کی وجہ سے چلنا پھرنا بند ہوگیا۔ ہر اتوار اجتماع کے بعد ان کے فرزند یا رفقاء ملاقات کے لئے جاتے تو سب سے پہلی بات یہی پوچھتے کہ آج درسِ قرآن کس نے دیا۔ آیتیں کونسی تھیں۔ درسِ حدیث کا عنوان کیا تھا۔ اور پوچھتے حالاتِ حاضرہ پر امیر مقامی یا کوئی رفیق نے اظہار خیال کیا یا نہیں؟ کیونکہ مرحوم حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے تھے۔ایمرجنسی میں آپ کے ساتھی رفقاء جیل میں تھے مگر آپ اپنے گھر میں جیل کی ضرورت کی چیزیں ایک تھیلی میں تیار ہی رکھا تھا۔ ایمرجنسی اور ۱۹۹۲ء میں جب جماعت پر پابندی لگی۔ اجتماعات اور دوسری سرگرمیاں تقریباً رک گئیں مگر مرحوم کا معمول یہ تھا کہ اتوار کے دن ٹھیک صبح گیارہ بجے (جو ہفتہ واری اجتماع کا معمول کا وقت تھا) اجتماع کے مقام پر تشریف لے جاتے اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وہاں پر کچھ افراد موجود ہوں تو الگ انداز سے گفتگو کرتے۔ موقع محل کے حساب سے خاندان والے جمع ہوتے تو قرآن وحدیث ، اسلامی تاریخ کے درخشاں باب اور ہندوستان کی تاریخ کے ایسے ایسے واقعات سناتے کہ سننے والے دنگ رہ جاتے۔ رفقاء یا ذمے داران جب بھی ملاقات یا عیادت کی غرض سے جاتے پندرہ سے بیس منٹ تک ضرور دینی و حالات حاضرہ پر اظہار خیال کرتے‘‘۔ انتقال کے تین دن پہلے جب مقامی امیر عیادت کے لئے دواخانے تشریف لے گئے تومرحوم ماہ نامہ زندگی نو کے اشارات جو امیر جماعت اسلامی ہند محترم مولانا سید جلال الدین عمری صاحب کے دورۂ پاکستان کی ایک تقریر پر مشتمل ہے گفتگو کی اور مولانا محترم کی تقریر کو سراہا اور کہا کہ مولانا نے اپنی تقریر میں تحریک اسلامی کے لئے بہت ہی مفید اور کارآمد باتیں بتائی ہیں ، اس پر ہمیں عمل کرنا چاہئے اور وہ چاہتے تھے کہ ان اشارات کو ہفتہ واری اجتماع میں ضرور پڑھیں۔ دوا خانے میں بھی وہ ڈاکٹروں، نرسوں اور آیا خواتین کو دینی قصہ اور واقعات سناتے رہے۔ تحریک اسلامی کے تعلق سے ہمیشہ مثبت سوچ تھی ۔ ہمیشہ جماعت اسلامی ہند کا دفاع کیا کرتے۔ اپنی ساری تحریکی زندگی میں کبھی بھی اور کسی بھی وقت ایک بھی رفیق کی شکایت زبان پر نہیں لائی۔ (حالانکہ چار سالوں تک اجتماعات میں شریک نہیں رہے، بہت کم رفقاء ملاقات و عیادت کوآتے)۔
ایک مرتبہ دعوت وتبلیغ کا ایک عجیب طریقہ اور حکمت کو اپناتے ہوئے رفقاء نے ایک تجربہ کیا۔ وہ تجربہ مرحوم نے ہمیں سنایا۔ غالباً ۱۹۶۸ء میں شہر ہبلی میں ایک اجتماع عام ٹائون ہال میں رکھا گیا ۔ دعوت نامہ کے مضمون میں آخر میں یہ جملہ لکھا ہوا تھا: ’’اجتماع میں شریک ہونے والوں کو ایک تحفہ دیا جائے گا‘‘۔ ظاہر ہے دعوت نامہ پڑھنے کے بعد ہال لوگوں سے کھچاکھچ بھر گیا۔ اجتماع کے اختتام پر جب لوگ جانے لگے تو سبھی کے ہاتھوں میں ایک بند لفافہ تھما دیاگیا۔ لوگوں نے جب لفافہ کھولا تو اندر ایک کاغذ تھا اوراس پر بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر جلی حرفوں سے لکھاہوا تھا۔
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا کیا ہی صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہا جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
مرحوم کو جماعت اسلامی ہند سے والہانہ محبت تھی۔ انتقال سے دو دن پہلے حالت بہت بگڑ چکی تھی۔ کمزوری حد درجہ ہوگئی تھی ، ہوش بھی کم تھا۔ زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ زبان پر کئی مرتبہ یہ کلمات جاری تھے۔ جماعت اسلامی، جماعت اسلامی، اے جماعت اسلامی والو کہاں ہو، جماعت اسلامی والوآجائو۔ اپنے فرزند کو بھی نام سے نہیں پکارا۔ کہا اے جماعت اسلامی والے اِدھر آ۔ آخر کار ۳؍دسمبر ۲۰۱۲ء بروز اتوار دوپہر ایک بج کر دس منٹ پر روح پرواز کرگئی۔اور یہ مجاہد اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔ مرحوم آخر تک کرایے کے مکان میں رہے۔ نہ جائداد نہ ہی بینک بیلنس، جاتے جاتے ایک اثاثہ تحریکی خاندان چھوڑ گئے۔ پسماندگان میں چار بیٹے اوردو بیٹیاں ہیں۔عمر ۸۹ سال تھی۔ جسمانی طور پر کمزور تھے۔ مگر مرتے دم تک حوصلےبلند تھے۔ دل جوان تھا۔ سوچ وفکر جوان تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرے۔ قبر کو نور سے بھردے۔ ان کے نیک اعمال کو قبول فرمائے۔ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور تحریک کو نعم البدل عطا فرمائے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ جنوری 2014