اس مضمون میں ہم تہذیب اور تمدن کے سلسلے میں مغربی لٹریچر کے حوالے سے مغرب کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کریں گے۔ انگریزی میں تہذیب کے لیے کلچر اور تمدن کے لیے سیویلائزیشن کے الفاظ مستعمل ہیں۔ تاہم ان اصطلاحات کے استعمال میں بڑی پیچیدگیاں بھی پائی جاتی ہیں۔قاری پر یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ تہذیب و تمدن مترادفات ہیں یا دو مختلف عنوانات ہیں جو دو مختلف النوع مضامین بیان کرتے ہیں۔ کبھی تہذیب کہہ کر تمدن بیان کیا جاتا ہے اور کبھی تمدن لکھ کر تہذیب کی شرح بیان کی جاتی ہے۔ انگریزی لٹریچر میں تہذیب و تمدن دونوں اصطلاحات کو کبھی استقرار نہیں ملا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ دو صدی سے زیادہ وقفے میں پھیلے ہوئے لٹریچر میں نہ صرف یہ کہ ان دونوں اصطلاحات کے بارے میں تذبذب پایا جاتا رہا بلکہ وہ تہذیب کو تمدن اور تمدن کو تہذیب کے معنوں میں بھی استعمال کرتے رہے جس کے نتیجے میں تہذیب اور تمدن کے معنوں کو سمجھنے میں مشکل پیش آگئ[1]۔ بہرحال محققین یہ بتاتے ہیں کہ لٹریچر، میڈیا، سیاست اور عام بول چال میں تہذیب اور تمدن کے مفہوم کو گنجلک ہی رکھا گیا [2]۔ اس کا اثر یہ ہے کہ اردو زبان میں بھی ان دونوں الفاظ کے ترجموں میں خلطِ مبحث پایا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم ان اصطلاحات کا انگریزی لٹریچر کے حوالے سےجائزہ لیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ اس تذبذب کی بنیاد کیا ہے اور ان کا پس منظر کیا ہے۔
اس مضمون کے مطالعے سے قاری یہ جان سکے گا کہ
مغرب نے اپنے طرز زندگی کو تہذیب کا نام دیا باقی اقوام کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ وحشیانہ حالت میں جی رہے ہیں۔ اپنی دانست میں انھیں مہذب بنانے کا بیڑہ بھی انھوں نے اٹھا رکھا تھا۔ اس طرح سے ان کی تنگ نظری،سفاکی اور ظلم کے باوجود وہ تہذیب یافتہ شمار ہونے لگے۔
مغربی لٹریچر میں کلچر اور سویلائزیشن کی اصطلاحوں کو اس طرح سے الٹ پلٹ کر کے استعمال کیا جاتا رہا کہ پڑھنے والا کنفیوژن کا شکار ہوتا رہا اور آج بھی ان میں تذبذب پایا جاتا ہے۔ اس کا راست اثر اردو ترجموں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
الحاد نے بھی ان اصطلاحات پر اپنے اثرات ڈالے۔ مغرب میں جس زمانے میں نظریہ ارتقا کا دور دورہ تھا اس میں انسان کسی کی مخلوق نہیں بلکہ ایک ترقی یافتہ جانور قرار پایا۔ دین، مذہب اور روحانیت قدامت پسندی قرار پائی۔ بس جو کچھ ہے وہ یہی دنیا کی زندگی ہے۔ اس دنیا کی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پرتعیش بنانے کے تمام امکانات و اقدامات کو کلچر کا نام دیا گیا۔
انسان دنیا میں جو کچھ کرتا ہے اس کے پیچھے ایک ورلڈ ویو ہوتا ہے۔ اس کائنات، حیات اور انسان کے بارے میں اس کا جیسا تصور ہوگا، اسی کی بنیاد پر بیرونی زندگی کی عمارت کا نقشہ بنے گا۔ اس تصور میں اگر خدا پایا جاتا ہو تو بیرونی زندگی میں اخلاقی ضابطہ، اقدار، ضمیر، روحانیت اور اس کے اظہار میں شاعری، نظمیں، نغمہ گوئی، آرٹ وغیرہ دکھائی دیں گے۔ یہاں تک کہ ان کی تعمیرات، ان کے شہر، ان کے رفاہی ادارے اور ان کی انتظامیہ میں اس کا نمایاں اثر نظر آئے گا۔ اگر خدا نہیں ہے تو پھر سائنسی ترقی، ایجادات، جنگیں، زمینی وسائل پر قبضے، پرتعیش زندگی کا فروغ ہی ان کا مطمحِ نظر ہوگا اور سب کچھ مارکیٹ ہی نظر آئے گا۔
مغربی سماج اور لٹریچر میں تہذیب اور تمدن کے حوالے سے ان چار پہلوؤں کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔
آمریت تمدن قرار پائی
یوروپ مرکزیت مضامین میں تمدن،civilization کا لفظ وہ اپنے لیے ان اقوام کے بالمقابل استعمال کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کا طرز عمل بربریت پر مشتمل ہے۔ گویا تمدن بربریت کی ضد ہے[3]۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یوروپ میں عوام کا جو طبقہ بربر اور غیر متمدن مانا جاتا تھا، جب وہاں سے اس کا انخلا ہوا اور امریکہ اور آسٹریلیا کے ساحلوں پر پہنچا تو وہ وہاں متمدن کہلایا جانے لگا[4]۔
یورپی آمریت کو civilization یعنی تمدن کہا گیا، اس لیے کہ اس میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کو یورپ کے چند توسیع پسندوں اور کالونی آبادکاروں کے آلہ کار اور خدمت گزار کی حیثیت سے کام کرنے کے مواقع مل رہے تھے۔ دوسری طرف یورپ کی نسل پرست تہذیب نے culture کا نام پایا۔ اس کی مثال بیسویں صدی کا جرمن ہے۔ ہٹلر کے جرمن کو اپنے اعلیٰ نسل و اشرافیہ ہونے کا زعم تھا۔ اس برتری کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے حیاتیاتی برتری کا ایک جعلی نظریہ بھی گھڑ لیا تھا[5]۔ اور اس کا انھیں وقتی فائدہ بھی مل رہا تھا۔ ایک مزعومہ روحانی نظام کی برتری کے تصور اور اس کے تحفظ کی خاطر دنیا کو جو کچھ انھوں نے دیا وہ آج تاریخ کا عبرت ناک حصہ ہے[6]۔ اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں یورپ کے لوگوں نے کالونیاں بنائیں یا خود امریکہ میں کالی نسل کے خلاف یورپ کی مہاجر گوری نسل کی قوم نے بے انتہا مظالم ڈھائے تھے، لیکن پھر بھی تاریخ میں وہ متمدن (civilized) قوم قرار پائیں۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظلم و چیرہ دستی کا نام تہذیب اور انسانوں کی حریت پر قدغن لگا کر عوام کی گردنوں پر مسلط ہونے کا نام تمدن رکھ لیا گیا۔ آج بھی غالب قوتیں اصطلاحات کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ کرتی رہتی ہیں۔ ظالم امن کے پیامبر اور جمہوریت کے فرستادہ بن کر دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ پیش کرتے ہیں اور مظلوم کو دنیا کے سامنے دہشت گرد بناکر پیش کرنے کا بھی فن انھیں آتا ہے۔ اسی طرح کارپوریٹس کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور قوانین بنائے جائیں گے مگر انھیں اس طرح سے پیش کیا جائے گا کہ عوام اور غریبوں کے لیے یہ ایک مخلصانہ اقدام ہے۔
کیا تعلیم یافتہ ہونا مہذب ہونا ہے؟
لفظ تہذیب علم سماجیات کی ایک اصطلاح ہے۔ لوگ اس کا مفہوم بیان کرنے میں یہ غلطی بھی کر جاتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہونے کو مہذب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ بات چیت میں، طور طریقوں میں اور طرز لباس اور رہن سہن میں نفاست کا اظہار کرتے انھیں بھی مہذب مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے cultured کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ خواہ ان کا اندرون کتنا ہی کالا کیو ں نہ ہو، دل سخت، مزاج اکڑفوں، خدا، مذہب اور روح کے منکر اور دیگر انسانوں کے سلسلے میں ان کا رویہ ظالمانہ ہی کیوں نہ ہو۔ جب کہ حقیقت میں تہذیب نفس وہ عمل ہے جس سے شخصیت کی تراش خراش ہوتی ہے اور اس پوری کائنات میں اسے اس کا صحیح مقام دیتی ہے۔لفظ تہذیب کے اس غلط استعمال کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ایک ڈگری یافتہ آدمی اس شخص سے مہذب مانا جائے گا جس کے پاس ڈگری موجود نہیں ہے، یا یہ کہ جس نے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے کا فن سیکھ لیا ہو وہ اس شخص سے زیادہ مہذب مانا جائے گا جس نے یہ سب کچھ نہیں سیکھا ہو۔ ذاتی نفاست کا نام تہذیب نہیں ہے۔ تہذیب انسان کی اونچی فکر اور گروپ کے اعلیٰ مقاصد میں پنہاں ہوتی ہے۔ اس اونچی فکر، اعلیٰ مقاصد، انسانیت نوازی اور انسان کی ذہن سازی کا اظہار مذہب، فلسفہ،آرٹ وغیرہ سے ہوتا ہے۔
تہذیب و تمدن کے معنوں میں کنفیوژن
یہ دونوں اصطلاحات ہم روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ عوامی مباحثے اور جرنلزم میں بھی کثرت سے ان دونوں الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جن کی جڑیں لاطینی و یونانی زبان میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تہذیب تمدن کے مقابلے میں بہت قدیم لفظ ہے۔
تہذیب کی ایک تعبیر یہ ہے کہ اس کو مادی معنوں میں لیا جائےجس سے انسان کی مادّی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہو۔ بعضوں نے اس کے بالکل برخلاف دوسرا مفہوم پیش کیا۔ یعنی مادّی امور سے متعلق رویے کو تمدن اور زندگی کے باطنی امور کی اصلاح کو تہذیب کہا ہے۔
انگریزی زبان کے دو سو سالہ لٹریچر پر جنھوں نے نگاہ ڈالی ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ دانستہ طور پر ان دونوں اصطلاحات کے استعمال میں خلط ملط کیا گیا۔ اس کنفیوژن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علم بشریات کے ایک ماہر نے یہ نظریہ دیا کہ تہذیب اور تمدن حقیقت میں دونوں ایک ہیں۔ جیسے افراد کے خیالات میں ارتقا ہوتا ہے اسی طرح الفاظ کے معنی و مفہوم میں بھی ارتقا ہوتا رہتا ہے۔تہذیب کا لفظ زیادہ تر فرنچ اور جرمن زبانوں میں ۱۸ ویں صدی میں استعمال ہونے لگا۔ تمدن کا لفظ مدنیت اور شہریت سے متعلق امور کے لیے استعمال ہونے لگا۔ ان زبانوں میں تمدن کا لفظ مادّے پر کنٹرول، ٹیکنیکل علوم کی دریافت اور معاشیات و غیره جیسے امور اور تہذیب کا لفظ روحانی میدان، دانش وری اور آرٹ کے رجحانات کی طرف نشان دہی کرتا ہے[7]۔
تحقیقات بتاتی ہیں کہ یونانی زبان میں بھی اٹھارویں صدی میں تہذیب پینٹنگ، موسیقی،ڈانس، ڈرامہ، شاعری سے متعلق امور و سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ تعلیم میں گراوٹ اور لائبریریوں کے فقدان کے لیے بھی تہذیب کی پسماندگی کا لفظ استعمال ہونے لگا اور کبھی بھاری بھرکم فیکٹریوں کے ہونے کو اس ملک کی شاندار تہذیب سے تعبیر کیا گیا[8]۔
تہذیب سے عاری تمدن کی بنیاد پر نسل پرستی پروان چڑھی۔ مزعومہ متمدن قومیں ان قوموں کو متمدن بنانےکا بیڑا اٹھاتی تھیں جن کے طرز فکر اور مزاج میں یہ بات شامل تھی کہ وہ برتر ہیں۔اپنےمقابلے میں مفتوح قوموں کو وہ پست اور غیر مہذب مانتی تھیں۔ اس طرز فکر سے اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں کے لیے نفرت کی ایک فضا قائم ہوتی اور اس کے باوجود وہ متمدن کے متمدن رہے۔ امریکہ میں کالی نسل کے خلاف نسل پرستی پروان چڑھی۔ اس کے پیچھے یہ خیال کار فرما رہا کہ یہ کالے لوگ اپنی فطرت کے لحاظ سے ” مہذب ” کے درجے پر کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح نازی نسل پرست جرمنی کا تہذیبی آئیڈیا یہ تھا کہ یہودی نسل ان کی شاندار تہذیب کے چہرے پر کلنک کا داغ ہے۔ اس داغ کی دھلائی سے نازی نسل پرستی کا چہرہ صاف وشفاف اور درخشاں ہو جائے گا۔ اسی مستعار آئیڈیا پر ہندوستان میں ہندو احیا پرست تحریک پروان چڑھی ہے۔
الفاظ کے معانی میں ارتقا اور تبدیلی
الفاظ کے معنوں میں ارتقا اور ردو بدل ہونے کا ایک پراسیس ہے جو اس وقت اس مضمون میں زیر بحث نہیں ہے۔ الفاظ کو معانی دینے میں کتابوں اور ناولوں سے زیادہ میڈیا بڑا رول ادا کرتا ہے۔ اس مضمون کو بآسانی آج کے میڈیا کو سامنے رکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے انھوں نے بربریت، لاقانونیت تشدد اور دہشت گردی کو ایک خاص مذہب سے جوڑ دیا۔ جب کہ جھوٹ،دجل و فریب نفرت و تعصب کا زہر اگلنے کو قومیت کے خوب صورت لفظ کا جامہ پہنا دیاگیا۔
سموئیل ہنٹنگٹن نے جب Clash of Civilization نامی کتاب لکھی تو اس نے تہذیب کو اپنے نقطہ نظر سے اس طرح سے لکھا ہے کہ اس لفظ تہذیب کی وسعتیں اور گہرائیاں ختم ہوگئیں۔ تصور کائنات، حیات اور انسان کے پیمانے پر اس نے انسانی سماج کے آٹھ حصے کیے جن میں اسلام ایک طرف اکیلا اور بے لچک کھڑا ہے اور دوسری جانب حیات انسانی سے متعلق تمام نقطہ ہائے نظر ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ اس نے لفظ تہذیب کی سادہ کاری (simplification)کر دی۔ جس کے نتیجے میں غلط نقطہ نظر کو ذہنوں میں پیوست کردیا۔ یہ عام بات ہے کہ اقتدار اور جنگوں میں الفاظ کے ساتھ سادہ کاری سے کام لیا جاتا ہے[9]۔
بیسویں صدی زبردست ٹیکنالوجی ہتھیاروں، اقتدار اور جنگوں کی صدی تھی۔ وہ مادیت کی صدی تھی، جس میں زبردست تمدنی ترقی رونما ہوئی۔ اس صدی کے اختتام پر لوگوں کی دل چسپیاں انسانوں اور ان کی زندگی سے متعلق ہونے لگیں۔ روزمرہ کے حالات اور حوادث نے درد مند لوگوں کو اس جانب متوجہ کیا۔ امرتیہ سین کے مطابق انسانی سماج کی ترقی کے لیے انسانوں کی آزادی، مواقع کی آزادی، معاشی ترقی، قرض کی دستیابی، غربت سے آزادی، تعلیم کی وسیع تر فراہمی کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔ یہ تمام پہلو انسان کی روح، انسانی آزادی، تکریم انسانیت، اور حیات کی معنویت سے متعلق ہیں[10]۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ تمام امور تہذیبی امور ہیں۔
تہذیب وہ کلید ہے جس سے انسانی حیات اور ممات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے انسانی زندگی کے منظم اور مربوط ہونے کا علم ہوتا ہے۔ تہذیبی مطالعہ سے انسانی حیات کی معنویت اور انسانی زندگی کی قدر کا اندازہ ہوتا ہے[11]۔
الحاد کے اثرات تہذیب کے مفہوم پر
اوپر کی گفتگو سے تہذیب و تمدن کے دو معنی سامنے آئے۔ ایک نقطہ نظریہ سامنے آیا کہ دونوں اصطلاحات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تہذیب کا تعلق ثقافت، روایات، روحانیت، حیات اور نفس انسانی کے بننے اور سنورنے جیسے باطنی امور سے متعلق ہے۔ دوسری طرف یہ دونوں اصطلاحات اپنے آخری تجزیہ اور مفہوم میں ایک دوسرے کی مترادف ہیں۔ الفاظ دونوں استعمال کیے جائیں مگر سب کا مفہوم ایک ہی ہوگا۔ اس تعبیر میں ذہنی الجھاؤ ہے چوں کہ اس کی تاریخ ہی گنجلک ہے۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے آئی کہ انگریزی لٹریچر میں ایک کنفیوژن کی کیفیت رہی ہے۔اس کی ایک وجہ الحاد ہے،جس کا تجزیہ ذیل میں آرہا ہے۔ جب کہ دوسری زبانوں میں کسی حد تک تہذیب اور تمدن کے جداگانہ مفہوم قدرے صاف سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔
ٹائیلر کا نظریہ
تہذیب و تمدن سے متعلق ایڈورڈ پی ٹائیلر (Edward B Taylor)نے ایک نیا آئیڈیا دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ٹائیلر کا تصور سیویلائزیشن زندگی کی ان دونوں ترتیبوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے جسے ہم تہذیب اور تمدن کہتے ہیں۔ یعنی۔ ٹائیلر کی یہ چاہت تھی کہ سوبلائزیشن ان اجزا کو بھی اپنے اندر شامل کرلے جسے جرمن لوگ ” کلچر” کہا کرتے تھے۔ اس سے مسئلہ صاف ہونے کے بجائے کچھ اور پیچیده ہوگیا اس لیے کہ اب تہذیب و تمدن کا حقیقی معنیٰ گم ہوگیا اور اس کے برعکس اضافی معنی سامنے آیا۔ جرمن قوم جن عناصر کو تہذیب کہتی تھی ٹائیلر اسے بھی تمدن ہی مانتا ہے۔ اس کے نزدیک سویلائیزیشن وہ لفظ ہے جس میں انسانی زندگی کے میکانکی، سائنسی امور اورجمالیاتی حس سب شامل ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ارتقائی نظریے کا حامل تھا اس لیے اس کے نزدیک انسانیت کی تاریخ بھی نیچر کے ارتقا کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ یہاں تک کہ ہماری سوچ ارادہ اور عمل کے بھی ویسے ہی قوانین ہوتے ہیں جیسے لہروں کی حرکت کے قوانین ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اجزا جو مذہب،روحانیت اوراس سے متعلق امور سے ہوں، اسے بھی وہ مادی زندگی کا حصہ مانتا ہے اس لیے وہ اسے تمدن کا حصہ قرار دیتا ہے۔ ٹائیلر کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ تہذیب کو وہ قدیم اور قدامت پسند سمجھتا تھا اس لیے اس نے ایک نیا زاویہ اور ایک نئی تعریف دے دی۔ جب زندگی کے دو پہلو ؤں کے درمیان سے اس نے تمیز ختم کردی تو اب اس کے نزدیک تہذیب کی پیمائش بھی ویسے ہی کی جاسکتی ہے جیسے تمدن کے اجزا کے ارتقا کی پیمائش کی جا تی ہے۔ بہرحال یہ ایک پیچیدہ بحث ہے۔ مگر اس نے تہذیب و تمدن کی جو تعریف کی وہ بہت مقبول عام ہوئی۔
تہذیب کے اس غبار آلود مفہوم کو مزید تقویت ان ماہرین علم بشریات کی اس تعبیر سے ملی کہ تہذیب اور تمدن اصل میں دونوں ایک ہیں جیسا کہ ٹائیلر کے حوالے سے ہم نے اوپر بتایا ہے۔ عمومًا تہذیب کا لفظ مذہب کے تجزیے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جو مذہب دشمن تھے انھوں نے اس لفظ کو مادی معنوں میں جان بوجھ کر استعمال کیا،جس کی مثال سگمنڈ فرائیڈ ہے۔ وہ بھی اپنی ایک کتاب میں تمدن کا لفظ لکھتا ہے اور واضح طور پر تہذیب مراد لیتا ہے[12]۔
انسانی سماج میں تہذیب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانیت کی ہے۔ اور تہذیب کا مذہب سے چولی دامن کا رشتہ ہے۔لیکن دہریہ مفکرین اور ماہرین نے تہذیب سے اس کی روح کو نکال کر ایک نیا معنی دینےکی کوشش کی جس نے بتایا کہ انسانی سماج میں کچھ طور طریقے اور کچھ صلاحیتیں ہوتی ہیں جن سے انسان سماج میں پیوست ہوتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی حیوانی تعبیر ہے یا اسے ایک فطری امر مانا جاتا ہے جس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ انسانی تاریخ نیچر کا ایک حصہ ہے اور یہ کہ ہمارے افکار، ارادے اور اعمال قانونِ فطرت کے مطابق ویسے ہی صادر ہوتے ہیں جیسے موجوں کی روانی کا ایک قانون ہوتا ہے[13]۔
جنگیں تمدن کے لیے لڑی جاتی ہیں مگر نام تہذیب کا
جنگیں آبادیوں پر حکم رانی اور ذخائر پر قبضہ کے لیے ہوتی ہیں۔ بڑی قوتوں،غاصب قوموں اور ان کے حکم رانوں کی دل چسپی اس سے ہوتی ہے کہ دیگر ممالک میں پائے جانے والے قدرتی ذخائر پر ان کا کنٹرول ہو، ان سے پیدا ہونے والی دولت کا فائدہ ا نہیں ہو اور ممالک کو مجبور کر رکھا جائے کہ ان کے چنگل سے آزادانہ طور پر ان کی اپنی دولت سے بھی وہ استفادہ نہ کرسکیں بلکہ بڑی قوتوں کے باجگزار بن کر رہیں۔ پرانے زمانے میں ڈاکوؤں کا ٹولہ قبیلوں پر ڈاکے ڈالتا تھا اور گھوڑوں کی پیٹھ پر دولت سمیٹ کر لے دوڑتا تھا۔ یہ ایک مذموم حرکت تھی اور بہت سے قبیلے ڈاکو ہونے کی بنا پر بد نام تھے۔ مگر آج کے لٹیرے قوموں پر دھاوا بولتے ہیں تو ان کی نیت ہوتی ہے کہ وہاں ان کے لیے پٹرول کے کنووں پر قابض ہونا ممکن ہو سکے، روڈ بچھانے کا کنٹریکٹ مل سکے، جدیدیت اور ٹیکنالوجی کی درآمد کی راہیں کشادہ ہوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شاخوں کا قیام ہو سکے، برگر پیزا پیپسی کوکا کولا اور جینس وغیرہ کی مصنوعات کی کھپت کے لیے مارکیٹ میسر آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ جنگیں خالصتاً مادی اسباب پر کنٹرول کے لیے ہوتی ہیں۔ اس سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ “جنگ برائے تمدن” ہو تی ہیں۔ مگر دنیا کے سامنے اپنے کالے چہرے کو چھپانے کے لیے یہ تاویل کی جاتی ہے کہ ان کے پاس ایک بہت خوب صورت نظام حیات ہے۔ ان کے کندھوں پر انسانیت نوازی کا ایک قرض ہے اور وہ اسے ادا کرنا چاہتے ہیں۔ روشن خیالی، انسانی آزادی اور جمہوریت کی قدروں سے وہ مفتوح علاقے کے انسانوں کی زندگیوں کو مالامال کرنا چاہتے ہیں اور انھیں دہشت گردی، قدامت پسندی اور سماج کو مذہبی تعلیمات کی چیرہ دستیوں سے چھڑانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اچھے انسان بن سکیں۔ اس کے لیے وہ جنگ لڑنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ وہ اپنی جنگوں کو “جنگ برائے تہذیب” کا نام دیتے ہیں۔ رابرٹ فسک اپنی کتاب The Great War For Civilization میں لکھتا ہے کہ اس کا باپ جنگ عظیم اول کا ایک سپاہی تھا۔ فرانسیسی فوج کی طرف سے وہ لڑ رہا تھا۔ بوسنیا اور سراجیو پر اس نے گولے داغے۔ اس کی موت کے بعد اس کے اعزازات، تمغوں اور میڈلس کی وہ جانچ کر رہا تھا، اس میں ایک مڈل پر لکها تھا The Great War For Civilization۔ افغانستان پر جب روس نے حملہ کیا تو اس کے فوجی لڑتے ہوئے یہی سمجھتے تھے کہ ان کی یہ عالمی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو دہشت گردی سے پاک کریں۔ اسرائیلی دنیا کی بدترین غاصب قوم ہیں۔ ان کی ساری لڑائیاں دوسروں کی زمین پر ناجائز قبضہ کے لیے ہوئیں، مگر دنیا کو وہ یہی باور کراتے ہیں کہ ان کی لڑائی قیام امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیےہے[14]۔
رابرٹ فسک کی زیر بحث کتاب ۱۱۱۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس نے بڑی تفصیل کے ساتھ روس اور افغانستان کی جنگ، جنگ عظیم اول کی بہت سی جنگوں، ایرانی انقلاب، امریکہ اور ایران کی دشمنی، جنگ عظیم اول کے موقع پر ترکی و عراق وغیرہ پر حملے، عراق اور کویت کی جنگ، ایران اور عراق کی جنگ، خلیجی جنگ، فلسطینی جنگ، لبنان کی جنگ اور اسی طرح سے بہت سی جنگوں کا نقشہ کھینچا ہے اوریہ بتایا ہے کہ ان میں کسی بھی جنگ کا مقصد نہ انسانوں کی بھلائی تھی، نہ انسانی سماج کو امن اور عدل سے ہم کنار کرنا تھا اور نہ ہی کوئی اعلیٰ مقاصد ان کے پیش نظر تھے۔ بلکہ ان سب کے صرف تمدنی مقاصد تھے۔ اس لیے اس کے مصنف نے کتاب کا نام “عظیم جنگ برائے تمدن ” رکھا۔ کتاب کے نام میں جو لفظ civilization ہے اس کا ترجمہ تہذیب سے یا تمدن سے کیا جائے اس کا تعلق اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے اندر کا مضمون کیا ہے۔ جب اس کے اندر کا مضمون جنگ ہتھیار، علاقوں پر قبضہ، معاشی کنٹرول وغیرہ ہو تو لامحالہ civilization کا ترجمہ تمدن ہی سے کیا جائے گا۔
نئیل فرگوسن کی ایک مشہور کتاب ہے جس کا نام ہے Civilization: The West and the Rest۔ اس کتاب میں سیویلایزیشن سے کیا مراد ہے خود کتاب کے اندر کا مضمون بتاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اس کتاب میں میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جو چیز مغرب کو باقی اقوام سے ممتاز کرتی ہے–عالمی طاقت کا سرچشمہ–وہ قابل شناخت شان دار عمارتیں، ادارے اور ان کے منسلک نظریات اور طرز عمل ہیں۔ سادہ انداز بتانے کے لیے میں ان کا خلاصہ چھ عنوانات کے تحت کرتا ہوں۔
۱۔مقابلہ ۲۔ سائنس ۳۔ جائیداد کے حقوق ۴۔ دوا ۵۔ صارف معاشرہ ۶۔ کام کی اخلاقیات[15]
یہ تعریف اپنے آپ میں اظہر من الشمس ہے کہ یہاں سویلائزیشن سے مراد مذہب، الہی تعلیمات، ضمیر کی آواز، آرٹ پینٹنگ نغمہ گوئی، ڈرامے اور انسانی نفس کی تہذیب نہیں ہے بلکہ دنیا اور دنیوی زندگی کو بہتر بنانے سے متعلق ہے۔
مالک بن نبی کا نقطہ نظر
تہذیب کے بطن سے تمدن جنم لیتا ہے اس لیے دونوں ایک ہیں کا نظریہ تہذیب و تمدن کے اصطلاحی مفہوم کو سمجھنے اور ان دونوں کے درمیان فرق کو معلوم کرنے کی جستجو میں ہمارے سامنے ایک اہم نقطہ نظر آتا ہے۔ وہ ہے مشہور ماہر سماجیات مالک بن نبی کا۔ وہ ٹائیلر کی طرح اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ تہذیب اور تمدن در اصل دونوں ایک ہی ہیں۔ مالک بن نبی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمدن دراصل تہذیبی تبدیلی کا نتیجہ ہے جو تمدن کی تعمیر کے لیے ضروری ایجنٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس عمل سے ایک نئی ترکیب کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے تہذیبی تبدیلی کا کام ایک تمدنی منصوبے کی شکل میں ترکیب پاتا ہے اور اس عمل کو رخ فراہم کرتا ہے جو معاشرے کی ابتدائی تاریخ کو متاثر کر سکتا ہے۔[16]
چوں کہ مغربی اسکالر مذہب اور روح کے وجود کے قائل نہ تھے اس لیے انھوں نے تہذیب کے اندر پنہاں روحانی پہلو کو اس لفظ کے مفہوم سے خارج کر دیا اور اس کی کچھ ایسی تاویل کر نے لگے اور دنیا کو یہ سمجھا تے رہےکہ دونوں حقیقتاً ایک ہیں۔ مالک بن نبی مذہبی اور روحانی وجود کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیں انسان کے ان پہلوؤں کا بڑا گہرا اثر اس سوسائٹی پر پڑتا ہے جہاں تہذیبی تبدیلی واقع ہو رہی ہوتی ہے یا تہذیب کی نئی بنیادیں رکھی جارہی ہوتی ہیں۔ سوسائٹی ہی تاریخ کو جنم دیتی ہے اور بیرون کی دنیا میں ایک تمدن کو وجود میں لاتی ہے۔ اس طرح سے تہذیب و تمدن کے الگ الگ وجودہونے کے باوجود ایک دوسرے پر ان کا اتنا گہرا اثر پایا جاتا ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے نتیجے میں تمدن وجود میں آتا ہے اور کسی تمدن کو اس کی تہذیب سے الگ سمجھا نہیں جا سکتا۔ تمدن کے اندر اس تہذیب کی شناخت پائی جاتی ہے جس میں دنیا اور فرد کے سلسلے میں اس کا اپنا ایک مختلف نقطہ نظر ہوتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تمدن حقیقت میں تہذیبی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔
”بن نبی کا خیال ہے کہ تمدن تہذیبی تبدیلی کا نتیجہ ہے جو تمدن کی تعمیر کے لیے ضروری ترکیب کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔ اس لحاظ سے ثقافتی تبدیلی کا کام انسانی تمدن کی توانائی کو ایک تمدنی پروجیکٹ کی شکل میں ترکیب کرنا اور اس کا رخ کرنا ہے جو معاشرے کے ابتدائی تاریخی زور کو متاثر کر سکتا ہے۔“[17]
اس گفتگو سے ایک نیا زاویہ ہمارے سامنے آتا ہے اور ہمیں تہذیب اور تمدن کے درمیان مماثلت اور فرق کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس تمدن کی تعمیر کا خواب ہمارے ذہنوں میں ہو اس کے لیے سب سے پہلے تہذیبی تبدیلی کا لانا نہایت اہم اور ضروری ہے۔ اس لیے کہ تہذیبی تبدیلی ہی وہ اہم ترین ایجنٹ ہے جو ہمارے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں سے انسانی تمدن کی ترقی، نشوونما اور فروغ میں ہم کوئی تاریخی رول ادا کر سکتے ہیں۔
بن نبی کا یہ بھی نقطہ نظر ہے کہ تمدن کی پرداخت کے لیے تہذیبی تبدیلی کا رونما ہونا ضروری ہے۔ اور یہ عمل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وسیع تر معنوں میں انسان کی شخصیت (جس میں انسانی روح، شعور اور عمل،سماجی تعلقات اور طرز زندگی شامل ہیں) میں ایک تبدیلی نہ آجائے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اس بڑے پروجکٹ کے لیےانسان کی تشکیل نواور اس کی ذات کی ایک نئی آرائش ہو۔
اوپر جو بات کہی گئی وہ عین اسلامی اور قرآنی فلسفے کے مطابق ہے۔ امت مسلمہ کا عروج اور اس کے اندر تجدید کے لیے قوت کا اصل ماخذ قرآن اور سنت ہیں۔ تہذیبی احیا کی کوششیں کوئی الگ تھلگ (isolated event) سرگرمی نہیں ہے، بلکہ تاریخ میں اس کا تسلسل ملتا ہے۔ تمام مجددین کے وژن اور مشن میں نمایاں فرق محسوس نہیں ہو گا، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی طرف مراجعت کی دعوت، سماج کی تعمیر کے قرآنی ماڈل کی پیش کش اور فرد کی اصلاح و تربیت کی تحریکیں تھیں۔ مستقبل قریب میں تہذیبی احیاکی کوششوں میں یہ بات لازماً شامل ہونی چاہیے کہ روحانی اور اخلاقی قوتوں کو بروئے کار لایا جائے، مادی وسائل کا استعمال ہو اور ٹیکنالوجی کی قوت سے استفادہ کیا جائے.[18] اس موضوع پر اگلے کسی مضمون میں تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔
تہذیب انسان کو آفاق، اپنے ماحول اور تعلقات کی بنیادی رہ نمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کائنات کے بارے میں جو بھی نقطہ نظر انسان اپناتا ہے وہ اس کی تہذیب کا حصہ بنتا ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی تہذیب اسے بتاتی ہے کہ یہ کائنات بے خدا ہے یا مختلف خداؤں کی رزم گاہ ہے یا اس کائنات کا ایک خالق ہے جس کے اشارے پر تکوینی قوانین اپنا کام کرتے ہیں اور انسان کے لیے نفع کا سامان کرتے ہیں۔ اس طرح نقطہ نظر کے مختلف ہونے سے تہذیبیں مختلف ہو جاتی ہیں۔
حوالہ جات و حواشی:
- Comparative Civilizations Review, 66, No. 66 Spring 2012, Article 4, “What is the difference between culture and civilization? Two Hundred Fifty Years of Confusion”, by Thorsten Botz-Bornstein p. 25
- Ibid, 1
[3] www.nationalgeographic.org/encyclopaedia/civilizations
The International Journal of the Humanities, “Meaning of the Terms Culture and Civilization in the Greek Newspapers Macedonia and “Thessaloniki”, by Konstantinis etal , Vol 4, 2006. p. 1.
https://en.wikipedia.org/wiki/master_race
[4] The International Journal of the Humanities, “Meaning of the Terms Culture and Civilization in the Greek Newspapers Macedonia and “Thessaloniki”, by Konstantinis etal , Vol 4, 2006. p. 1.
[5]https://en.wikipedia.org/wiki/master_race
[6] فرانسیسی ماہر نفسیات Arthur de Gobineay اور اطالوی مصنفین Vilfredo Pareto & Gaentano Mosca میں نسل پرستی نظریے کے دلیل کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ سب انسان برابر نہیں ہوتے ۔عوام اپنی فطرت میں ایک تباہ کن طاقت ہیں۔لہذا اشرافیہ کا کام ہے اپنی نسلی برتری کی وجہ سے عوام کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ دیکھیے:
Vititnev, Sergey, and Anna Shmeleva. “Political ideology of fascism: essential characteristics, mental prerequisites, key components.” E3S Web of Conferences. Vol. 210. EDP Sciences, 2020.
اسی طرح نازی مفکر الفریڈ روزنبرگ نے یہ نظریہ دیا کیا جس کے مطابق جرمن/آریائی انسانی نسلوں میں سب سے اعلی اور اشرف ہیں اور توسیع پسندی ان کا بنیادی حق ہے۔اسی پالیسی کا شاخسانہ تھا کہ جرمن نژاد کی ایک آریائی سند ہوا کرتی تھی۔ اسے حاصل کرنے کے لیے انھیں ثابت کرنا پڑتا تھا کہ ان کے آبا و اجداد آریائی تھے۔ اور کم از کم 1750 سے اس تسلسل کو ثابت کرنا پڑتا تھا۔ اس کے برعکس سلیوز، جیپسیس اور یہود کم تر نسل کے مانے جاتے تھے اور وہ آریائی / جرمن نسل کی بالا تری کے لیے خطرہ ہیں۔ اس لیے نازی ایجنسیوں کی خفیہ پلاننگ کی تھی کہ ان آبادیوں کا وسطی یورپ سے انخلا ہو ، انھیں غلام بنایا جائے ،بھوکوں مار دیا جائے یا ان کی نسل کشی کردی جائے۔
[7] Comparative Civilizations Review, Vol. 66, No. 66 Spring 2012, Article 4, “What is the difference between culture and civilization?: Two Hundred Fifty Years of Confusion”, by Thorsten Botz-Bornstein, pp.13- 14.
[8] The International Journal of the Humanities, “Meaning of the Terms Culture and Civilization in the Greek Newspapers Macedonia and “Thessaloniki”, by Konstantinis et al, Vol. 4, 2006. p. 7.
[9] Culture Civilization and Human Society, Vol. 1, Herbert Arlt, Scientific Director, INST, Austria, p. 4
ہنٹنگٹن نے جس بات کو حقیقت کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہ دراصل اس کا اپنا نقطہ نظر تھا اور اس کی تسہیل کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایک تصادم کا ماحول اس نے پیدا کیا یا تصادم کے لیے ایک تھیوری پیش کر دی۔ یہ کتاب اب ریفرنس اور جواز بن گئی ہے جہاں کہیں بھی اقتدار کی کشمکش یا جنگ ہو رہی ہے۔
[10] Development As Freedom, Dr. Amartya Sen, Oxford University Press, New York.
[11] Culture Civilization and Human Society, Vol. 1, Herbert Arlt, p. 2.
[12] Civilization and Its Discontents (Das Unbehagen in der Kultur, Internationaler Psychoanalytischer Verlag Wien.
پوری کتاب میں اس نے لفظ سولائزیشن لکھا ہے مگر مراد کلچر لیتا ہے۔ اس کتاب میں اس نے مذہب پر تنقید کی ہے، انسانی وجود کے مقصد پر جن لوگوں نے لکھا ہے ان کی تضحیک کی ہے۔کہا کہ یہ سب انسانوں کو ڈرانے کی باتیں ہیں ، دیکھیے ص 15 تا 17
مزید مثال
“And ethics in fact deal predominantly with the point which is easily seen to be this sorest of all in any scheme of Civilization. Ethics must be regarded, therefore, as a therapeutic effort”, p. 83.
[13] The Origin of Culture, Taylor, Edward Burnett, Harper & Row ,1, New York, 1958
[14] The Great War for Civilization : Preface
[15]Civilization the West and the Rest, p. 12.
[16] Intellectual Discourse, Abdul Aziz Berghout, “The concept of culture and cultural transformation: views of Malik Bin Nabi”, 2001, Vol. 9 No. 1, pp.67 -83.
[17] Ibid
[18] Muslim Civilization the Causes of Decline and the Need for Reform, M Umar Chhapra, p.x
مشمولہ: شمارہ جنوری 2022