قرآن مجید پوری انسانیت کو مخاطب کرکے کہتا ہے: یاأَیهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ [البقرة: 21](لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت ہوسکتی ہے۔ )
اللہ کے تمام رسولوں کو بھیجے جانے کا مقصد یہی ہے کہ انسانیت کے رشتہ کو اس کے خالق سے استوار کیا جائے ۔
پندرہ ہجری مطابق سال 636 عیسوی کوجنگ قادسیہ کی جنگ سے پہلے جب ایران کے سپہ سالار رستم نے حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم عرب لوگ صحراسے نکل کر ہماری سلطنت پر کیوں چڑھ آئے ہو؟ تو حضرت ربعی رضی اللہ عنہ نےایک تاریخی جملہ کہا:
’’اللہ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں، دنیا کی تنگی سے نکال کر وسعت کی طرف، اور ادیان کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عدل کی طرف لائیں۔‘‘
یہ قول دعوت اسلامی اور رسالت کے مقصد کو نہایت خوبصورتی اورجامع انداز میں بیان کرتا ہے۔
بندگی رب کیا ہے؟
بندگی رب کا مطلب ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی کو، ظاہر و باطن کو، دل و دماغ کو، اعمال و افکار کو، صرف اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی رضا کے تابع کرے۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحْیای وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ [الأنعام: 162]
کہو! بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
اس جملہ کو زبان سے آسانی سے ادا کیا جاسکتا ہے مگر انسان کو فکر جس بات کی ہونی چاہیے وہ یہ کہ یہ وصف انسان کی شخصیت میں کیسے پیدا ہوتا ہے کہ اس کا عقیدہ ، نظریہ حیات، اخلاق ، کردار ، تہذیب، روایات ،آداب اور رکھ رکھاؤ، مقاصد ، نیت، خواہشات، طرز زندگی، رویہ اور سلوک، مزاج اقدار،رحجان،زاویہ ، محرکات ، ترجیحات ، برتاؤ ، سب دین اسلام کے مطابق ہوں ۔ بالفاظ دیگر اس کا فکر وعمل دین اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے۔
فکر و عمل کو دین اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کےلیے سب سے پہلے ذاتی نظریاتی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ۔ جسے ہم عقیدے کی اصلاح کہہ سکتے ہیں۔
ذاتی نظریاتی اصلاح کیا ہے؟
یہ ذاتی نظریاتی اصلاح ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں انسان اپنے خیالات، تفکرات، جذبات، عقائد، پسند و ناپسند کو پاک کرتا ہے اور انھیں دینِ اسلام کی تعلیمات اور اصولوں کے مطابق ڈھالتا ہے۔ یہ عمل گہری خودشناسی ، تنقیدی غور و فکر ، اور سچے دل سے اپنے باطن کو اللہ کے احکامات کے مطابق سنوارنے کی کوشش پر مبنی ہوتا ہے۔
یہ ذاتی نظریاتی اصلاح کوئی وقتی عمل نہیں بلکہ ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا زندگی کا سفر ہے جو تعمیرِ ذات ، اخلاقی تربیت اور سچائی سے وابستگی کا تقاضا کرتا ہے۔
اس کے لیے چار باتیں ضروری ہیں ۔ (SWOT analysis) میں بھی یہ چار پہلو ذکر کیے جاتے ہیں لیکن خالص مادی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر۔
فطری کمزوری کاادراک اورعاجزی
ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی فطری کمزوریوں اور محدود صلاحیتوں کو پہچانے اور اپنے خالق کے حضور عاجزی و انکسار اختیار کرے۔
اس پہلوکو (SWOT) میں (WEAKNESS) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
نعمتوں پر شکرگزاری
انسان کو جو بھی نعمتیں اور قوتیں عطا ہوئی ہیں، ان پر وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے، کیونکہ ہر نعمت اسی کی عطا ہے۔
اس پہلو کو (SWOT)میں (STRENGTH)سے تعبیر کیا گیا ہے۔
توبہ اور استغفار
ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ ان پر نادم ہو کر اپنے پروردگار سے توبہ کرے، جو نہایت رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
اس پہلو کو (SWOT)میں (THREATS)سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سعی اور توکل
انسان کو اپنی زندگی کی (الف) ضروریات کے حصول، (ب) مسائل کے حل،اور (ج) جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں، وسائل اور ذرائع کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔
لیکن نتیجہ کے لیے مکمل امید اور بھروسا صرف اس ذات پر رکھنا چاہیے جو ’’حیّ و قیّوم‘‘ ہے ۔ یعنی زندہ جاوید ہستی جو پوری کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔
اس پہلو کو (SWOT) میں (OPPRTUNITIES)سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ تصور انسان کو آغاز ہی سے دیا گیا تھا، اور چودہ سو سال قبل قرآن مجید کی تعلیمات میں بھی خاص طور پراسی بات پر زور دیا گیا ہے۔
ساری انسانیت کو خالق کائنات کا بندہ بنانا ، اس مقصد کےحصول میں جہاں مثبت پہلوؤں کے عوامل موجود ہیں تو اسی وقت منفی پہلوؤں سے بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔
مثبت پہلو
ہندوستان ایک مذہب پسند ملک ہے، اور یہ ایک مثبت پہلو ہے جو معاشرتی ہم آہنگی، روحانیت اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔
ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں: ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، جین، بدھ، اور دیگر۔ ہر مذہب کو آزادی اور احترام کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے۔
عید، دیوالی، گُرو پرب، کرسمس ،یہ سب قومی سطح پر منائے جاتے ہیں اور سبھی مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔
سرکاری تعطیلات بھی مختلف مذاہب کے تہواروں کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہیں۔
ہندوستانی عوام عمومی طور پر عبادات، دعا، مراقبہ، اور مذہبی رسومات کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔
صبح کے وقت مندروں میں بھجن، مساجد میں اذان، گرودواروں میں کیرتن، چرچ میں دعائیں—یہ سب روزمرہ کی زندگی میں شامل ہیں۔
یوگا یہاں کی اکثریت کے نزدیک ایک روحانی عمل ہے، جو یہاں کے معاشرے میں نہ صرف مقبول ہے بلکہ اسے بین الاقوامی سطح پر واقف کرانے کا عمل بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
ہندوستانی معاشرہ عمومی طور پر خاندانی نظام، سچائی، بڑوں کا ادب، مہمان نوازی جیسے اخلاقی اصولوں کو اہمیت دیتا ہے، جن کی جڑیں مذہبی تعلیمات میں ہیں۔
مہمان خدا ہے ، یہ سنسکرت اصول آج بھی گھروں میں عمل میں لایا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق پڑوسیوں کا خیال رکھنا اور محتاجوں کی مدد کرنا، عبادت ہے، بہت سے ہندوستانی مسلمان ان اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔
ملک میں مذہبی تعلیم کے لیے مدارس، آشرم، گروکل، خانقاہیں، چرچ اور دیگر ادارے فعال ہیں جو لوگوں کو روحانی تربیت فراہم کرتے ہیں۔
دینی مدارس قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے ہیں، وہیں آشرموں میں گیتا اور ویدوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔
بھارت کا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے، اس کی تبلیغ کرے اور مذہبی رسوم ادا کرے۔
ہندوستان کی مذہب پسندی دراصل روحانی توازن، اخلاقی استحکام، اور سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ ہے۔ یہ تمام پہلو نہ صرف ہندوستانی تہذیب کی جڑ ہے بلکہ عالمی دنیا میں ایک پرامن اور متنوع معاشرے کی مثال بھی ہے۔
عام انسانوں تک بندگی رب کی دعوت پہنچانے میں یہ مثبت پہلو بہت ہی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جیسا کہ ماضی میں بزرگانِ دین نے کیا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاءرح، حضرت خواجہ محی الدین چشتی اجمیری رح، حضرت سید شاہ الحمید ناگوری رح، حضرت سید نثار شاہ ترچی اور بھی دیگر بزرگانِ دین نے کیسے کام کیا، اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے لیے ’’اسلام کا سرچشمہ قوت‘‘ نامی کتاب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
جسے مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے جمعیتہ العلماء کے پرچہ ’’الجمعیتہ‘‘ سال 1925 کے اگست کے شمارے میں لکھا تھا ۔آج کل یہ کتاب ’’اسلام کیسے پھیلا‘‘ کے نام سےشائع ہوتی ہے ۔اس کتاب میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں بزرگانِ دین کی خدمات کا تذکرہ بھی ہے(اس کتاب کی پی ڈی ایف دستیاب ہے)
منفی رکاوٹیں
اس وقت بندگی رب کو سمجھنے اور اختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ منفی تصورات ہیں جو کو دینِ اسلام کے متعلق منظم طریقے سے پھیلاکر دنیا بھر میں دین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک رائے عامہ بنادی گئی ہے۔
ایسے حالات میں امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیگر تمام سرگرمیوں کے مقابلے میں اس منفی رائے عامہ کو بدلنے پر زیادہ توجہ دے ۔
رائے عامہ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چلانے میں جو مہم جاری ہے اسے اسلامو فوبیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگرچہ ’’اسلاموفوبیا‘‘ کی اصطلاح باقاعدہ طور پر 1990 کی دہائی میں سامنے آئی۔
جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔
تاریخی اعتبار سے دینِ اسلام سے عداوت اور مسلمانوں کے خلاف منظم سازشوں کا آغاز اُس وقت ہوا جب صلیبی جنگوں میں مسلمانوں نے عیسائی افواج کو شکست دی۔اس کو مزید شہ اس وقت ملا جب ساری دنیا میں الحاد، عقلیت اور اشتراکیت کا غلبہ ہوا۔ مزید امریکہ اور مغربی یورپ کو 1990 میں اشتراکیت کے زوال کے بعد اپنے کو متحد اور متحرک رکھنے کے لیے ایک مشترک دشمن کی ضرورت تھی ۔ اس کے لیے انھوں نے دین اسلام اور مسلمانوں کو منتخب کیا۔ چالاکی کے ساتھ دین اسلام کو سیکولرازم اور جمہوریت کا دشمن بتاکر پوری دنیا کو اپنا ہمنوا بنا لیا ۔
اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام اسلام دشمن قوتوں نے منظم منصوبہ بندی اور سازش کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ایک جال بنا رکھا ہے۔
آج یہ مہم اپنی انتہا کو چھو رہی ہے، جسے مغربی دنیا کی سیاسی سرپرستی ،معاشی بالادستی ، ثقافتی یلغار اور ذرائع ابلاغ کے وسیع استحصال کے ذریعے تقویت دی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں بھی بعض قوتیں عالمی سطح پر موجود اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہے ہیں ۔
اس منظم کوشش کی وجہ سے پورے ملک میں ایک تناؤ اور کشمکش کی فضا قائم ہو چکی ہے اور مسلسل کشمکش اور تناؤ کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں حالات خانہ جنگی کی طرف نہ بڑھ جائیں—العیاذ باللہ۔ ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
اسلامو فوبیا کیا ہے ؟
اسلامو فوبیا یہ ہے کہ انسانیت کودین اسلام سے دور رکھا جائےاور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ زک اور نقصان پہنچایا جائے اس کے لیے جائز اور ناجائز تمام حربوں کااستعمال کیا جارہا ہے مثلًا دین اسلام کو زیادہ سے زیادہ بدنام کیا جائے اس کے لیے خواتین کے حقوق، جائداد کی تقسیم، طلاق اور خلع کے تعلق سے غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا خوف دلاکر وطن پر مسلمانوں کے قبضہ ہوجانے کا ہسٹیریا پیدا کیا جارہا ہے ۔ دہشت گردی کو دین اسلام سے جوڑ کراسلام کے خلاف نفرت پیدا کی جا رہی ہے ۔
عام انسانوں میں اس بات کو باور کرانے کے لیےخوبصورت سے خوبصورت اصطلاحات وضع کی جاتی ہیں، جیسے اسلام تو دہشت گردی کا مذہب نہیں ہے تاہم تمام دہشت گرد مسلمان ہیں۔
دین اسلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں میں انتہا پسندی کا مزاج پیدا کرتا ہے۔
مسلمانوں کے حوصلوں کو پست رکھنے کے لیے فرقہ وارانہ فسادات کا سہارا لیا جارہا ہے۔
مسلمانوں کی داخلی کمزوری کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کرکے مسلمانوں کی شبیہ بگاڑدی گئی ہے کہ مسلمان کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، مسلمان نری جذباتی قوم ہے، مسلمان اتنے تنگ نظر ہیں کہ صرف اپنی قوم کی کرنے والے ہوتے ہیں، انھیں دوسری قوم کی کوئی فکر نہیں، مسلمان صفائی پسند نہیں ہوتے ہیں، مسلمان جھگڑالو اور جنگ جو ہوتے ہیں ۔
یہ تمام عوامل ایک پہلو سے عام انسانوں کو دین اسلام کے مرکزی پیغام ’’بندگی رب‘‘ کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، دوسرے پہلو سے مسلمانوں کی جان، مال، عزت، عبادت گاہوں اور ان کی مذہبی آزادی کو نقصان پہنچا رہے ہیں، تیسرے پہلو سے اس ملک کو بھی نقصان ہورہا ہے۔ عوام کو ہر وقت اپنے جان اور مال کے نقصان کا خوف ہے۔ ملک کی ترقی کی رفتار کم ہوگئی ہے۔ اس تیسرے پہلو کا شعور جتنا ہونا چاہیےاتنا نہیں ہے۔
اس معاملے میں امت مسلمہ کو چاہیے کہ برداران وطن کو یہ باور کرائے کہ اسلامو فوبیا سے مسلمانوں کو نقصان تو ہو ہی رہا ہے ۔ مگر ساتھ ہی اس سے زیادہ اس ملک اور اس کے باشندوں کو بھی نقصان ہورہا ہے۔ اصولی حیثیت سے امن و سکون کی حالت میں جو ترقی ایک ملک کرسکتا ہے وہ تناؤ اور فسادات کےماحول میں نہیں کرسکتا۔
غیر مسلم دانشوروں کو اس کا احساس ہوگیا ہے ۔ وہ بھی اس بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ برادرانِ وطن کے سلیم الفطرت دانشور حضرات نہ صرف مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے باخبر ہیں بلکہ ان کا ضمیربھی اس ظلم پر انھیں جھنجھوڑرہا ہے۔ یہی دونوں عوامل انھیں بےچین اور مضطرب کیے ہوئے ہیں۔
1947 میں ملک کی آزادی کے بعد بھی کچھ اسی قسم کا ماحول دیکھنے میں آیا تھا، لیکن اُس وقت سیکولر قوتوں نے اسلام دشمن عناصر کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا۔ تاہم آج کے دور میں نہ صرف یہ کہ سیکولر قوتیں پہلے کی طرح منظم نہیں رہیں، بلکہ بعض مفادات اور بدعنوانیوں کے باعث ان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ملک کو درپیش نقصان سے بچانے کرنے میں زیادہ مؤثر اور متحرک کردار ادا نہیں کر پار ہے ہیں۔
ایسےمیں مسلمانوں کو ملک کا نجات دہندہ بن کر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے،تاکہ اس ملک میں امن و سکون ہو۔ اور ملک کے وسائل وذرائع ملک کی حقیقی ضرورتوں پر استعمال ہوں۔
ہندوستان کی اکثریت ابھی روٹی، کپڑا اور مکان کے مسئلہ سے پریشان ہے ۔ موجود گھروں کی ایک بڑی تعداد میں ضروری سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
تعلیم اور علاج مہنگا ہوتا جارہا ہے۔
صفائی کا بندوبست نہ ہونے کے برابر ہے۔
سودی قرضوں سے خودکشی کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
اگر ملک کے وسائل کو ہندو مسلم منافرت پھیلانے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کو قابو میں لانے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ملک کو درپیش حقیقی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جائے تو اس ملک کو سونے کو چڑیا بنایا جاسکتا ہے ۔
ملک میں امن، چین، سکون اور ترقی کے لیے اشد ضروری ہے کہ ملک سے حسد، نفرت، بدگمانی، تشدد، احساس کمتری، جھوٹے الزامات کو ختم کیا جائے جو اسلامو فوبیا کے محرکات اور حربے ہیں۔
اس سلسلے میں پہلا کام جو کرنا ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کام نظریاتی طور پر بھی کرنا ہوگا اور میدان عمل کی سطح پر بھی کرنا ہوگا۔
پہلی بات یہ ہے کہ نظریاتی پہلوسے دین اسلام کے افکار،نظریات اور عقائد کو دین فطرت کی حیثیت سے متعارف کرانے اور اس کو ترجیح دینے کے سبب کو واضح کرنے کے لیے یہ بات بتانے کی ضرورت ہے کہ دین اسلام مسلمانوں کی طرف سے خود ساختہ دین نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول حضرت محمد صلی علیہ وسلم کی جانب سے بنایا ہوا نظام ہے ۔ بلکہ یہ دین اس خدا کی جانب سے بھیجا ہوا دین ہے جو ان کا بھی خدا اور رب ہے۔
إِنِّی آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ۔ [یس: 25]
(میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا، تم بھی میری بات مان لو)
دوسری بات یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات کو یک طرفہ پیش کرنے کے بجائے تقابلی مطالعہ کے ذریعے سے بات رکھی جائے کہ انسانی ہدایت کے مقابلے میں الہامی ہدایت کو اختیار کرنےکیا فوائد و برکات ہیں۔
یاصَاحِبَی السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۔ [یوسف: 39]
(اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟)
تیسری بات یہ ہے کہ جب کبھی بحث و مباحثہ کی نوبت آئے تو اس میں شائستگی اور حکمت کے ساتھ احسن انداز میں بات کی جائے۔ مناظرہ بازی سے حتیٰ الامکان گریز کیا جائے، الا یہ کہ کوئی ناگزیر تقاضا درپیش ہو۔
چوتھی بات اسلامو فوبیا کے حامی لوگوں کو ادفع بالتی ھی احسن یعنی برائی کا جواب برائی کے بجائے نرمی کے ساتھ نیک اور احسن طریقے سے دیا جائے ۔
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَینَكَ وَبَینَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِی حَمِیمٌ [فصلت: 34]
(اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔)
اپنے گھروں کی شادی، رمضان المبارک میں افطاری اور عیدین کے مواقع پر برداران وطن کو کھانے کی دعوت دے سکتے ہیں یا ان کو کھانے پینے کی چیزیں بھیج سکتے ہیں۔ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کرنے کے لیےکھانا کھلانے کا عمل سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے۔ اس تجویز پر بے بنیاد قیاس آرائیاں کرنے کے بجائے جو لوگ ایسا کررہے ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
غلط فہمیوں کو دور کرنا بلاشبہ پہلا اور ضروری قدم ہے، مگر یہ عمل محض حفاظتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس سے اسلاموفوبیا کا مکمل سدِ باب ممکن نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم داعیانہ نوعیت کی حکمتِ عملی اختیار کریں تاکہ مثبت انداز میں اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچایا جا سکے۔
داعیانہ نوعیت کاکام یہ ہے کہ ہم دین اسلام کے عقائد—توحید، رسالت اور آخرت—کے نظریات کو واضح انداز میں پیش کریں، اور ساتھ ہی دین اسلام کی تمام تعلیمات کو ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر لوگوں کے سامنے رکھیں، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ الہامی اور آسمانی ہدایت ہونے کی بنا پر دین اسلام نہ صرف اخروی نجات کی ضمانت دیتا ہےبلکہ انسان کے تمام دنیاوی مسائل کا مکمل اور واحد حل فراہم کرتا ہے۔
یہ بات بھی ہمارے شعور میں رہنی چاہیے کہ جو کام ہم داعیانہ جذبہ کے تحت کر یں گے، وہ کام نہ صرف اسلاموفوبیا کے ازالے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ بحیثیت مسلمان یہ ہمارے بنیادی دینی فریضہ کی ادائیگی بھی ہوگی۔
آپ سب واقف ہیں کہ مسلم امت ساری انسانیت کےلیے برپا کی گئی ہے،صرف مسلم امت کی خدمت کے لیے نہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کے مسائل کو مسلم امت غیروں کا نہیں بلکہ اپنا مسئلہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کرے۔
آج انسانیت کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ انسانوں کے رویوں میں افراط و تفریط کاہے۔
اپنی قوم سے محبت اکثر اندھی عقیدت میں بدل جاتی ہے، جب کہ دوسری اقوام کے ساتھ تعلقات میں نفرت، تعصب اور دشمنی کا غلبہ انسانیت، انصاف اور اخلاقی اقدار کو روند ڈالتا ہے۔
قرآن مجید نے ہمیں ’’امتِ وسط‘‘ یعنی اعتدال پسند امت کا مقام عطا کیا ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو ہر پہلو میں اعتدال، توازن اور انصاف کا راستہ دکھائیں، تاکہ انسانیت نفرت و انتہا پسندی سے نکل کر امن، ہم آہنگی اور بھائی چارے کی طرف قدم بڑھا سکے۔
آج انسانیت کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کےفقدان کاہے۔
معاشرتی نظام میں ناانصافی، ظلم اور طاقت کے غلط استعمال نے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے اور معاشرے میں بے چینی کو جنم دیا ہے۔
قرآن ہمیں واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ ہم عدل و انصاف کو ہر حال میں قائم کریں، خواہ وہ ہمارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انسانی معاشرے میں انصاف، مساوات اور حق گوئی کے قیام کے لیے مسلسل جدوجہد کریں، تاکہ ایک پرامن اور متوازن سماج وجود میں آ سکے۔
ہمیں اپنی تمام دینی و اخلاقی ذمہ داریاں اس انداز سے انجام دینی چاہئیں کہ ہمارا طرزِ عمل خود اس بات کی شہادت دے سکے کہ اسلام کوئی انسانی ذہن کی اختراع نہیں، بلکہ یہ دین خالقِ کائنات کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
یہ دین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعے انسانیت تک پہنچایا گیا، جو اللہ کی رضا کا مستند ذریعہ اور آخری پیغامِ ہدایت ہے۔
قرآنِ حکیم ہمیں ’’شہداء علی الناس‘‘ یعنی انسانوں پر گواہ بننے کا منصب عطا کرتا ہے، اور ’’ادعُ إلیٰ سبیل ربّک‘‘ کہہ کر ہمیں یہ دعوتی فریضہ انجام دینے کی تاکید کرتا ہے۔
اس عظیم فریضے کی اصل روح اور اس کے قرآنی اصولوں کو سمجھنے کے لیے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ کی گراں قدر کتاب ’’دینی دعوت کے قرآنی اصول‘‘ کا مطالعہ نہایت ضروری اور مفید ہے۔ ) اس کتاب کی پی ڈی ایف بھی دستیاب ہے)
یہ تمام کام صرف خواہش اور تمنا کرنے سے نہیں ہوجاتا ۔ اس کے لیے مسلسل کوشش اور ہمہ جہتی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس عظیم فریضے کی ادائیگی کا آغاز ہمیں خود اپنی ذات اور اپنے خاندان کی اصلاح سے کرنا ہوگا۔
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِیكُمْ نَارًا [التحریم: 6]
(اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤ)
یہ آیت ہمیں واضح طور پر اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اصلاح کی ابتدا انسان کو سب سے پہلے اپنے آپ سے اور پھر اپنے گھر والوں سے کرنی چاہیے۔
جب گھر کا ماحول دین و تقویٰ کا مظہر بنے گا، تب ہی یہ روشنی دوسروں تک مؤثر انداز میں پہنچائی جا سکتی ہے۔
اپنی اور اپنے خاندان کی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسرا اہم فریضہ ملتِ اسلامیہ کی اندرونی اصلاح ہے۔ خصوصاً اُن پہلوؤں پر توجہ دینا ناگزیر ہے، جنھیں بنیاد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
اگر مسلم معاشرے کی طرف سے کہیں کوئی غلطی سرزد ہو جائے، تو ہمیں اس کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے، تاکہ انصاف، دیانت داری اور خود احتسابی کا پیغام دنیا کے سامنے واضح ہو۔
یہی طرزِ عمل اسلام کے حقیقی چہرے کو نمایاں کرتا ہے اور دعوتِ دین کو مؤثر بناتا ہے۔
تیسرا اہم فریضہ یہ ہے کہ ہم اپنے بردارانِ وطن کے درمیان دینِ اسلام کا صحیح تعارف پیش کریں اور اُن غلط فہمیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مختلف ذرائع سے پھیلائی جا رہی ہیں۔
یہ کام نہ صرف علمی و فکری انداز میں ہونا چاہیے بلکہ ہمارے کردار، اخلاق اور معاملات کے ذریعے بھی اسلام کی سچائی، عدل و رحمت، اور انسان دوستی کو اجاگر ہونا چاہیے۔
برسبیلِ تذکرہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جو بھی کام کیا جائے گا، وہ مکمل طور پر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں، اخلاقی اصولوں اور قانونی دائروں میں رہتے ہوئے انجام دیا جائے گا—خواہ فریقِ مخالف اخلاق و قانون کی پابندی کرے یا نہ کرے، ہماری راہ ہمیشہ اعلی اخلاق اور اصول و ضوابط کی پاس داری کی ہوگی۔
نہ کوئی خفیہ سازش کی جائے گی، نہ ہی کسی قسم کی پوشیدہ منصوبہ بندی،کیونکہ جو عمل خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے، وہ بالآخر خاموشی کے ساتھ خفیہ طریقے سے ختم بھی کر دیا جاتا ہے اور اس کا اثر باقی نہیں رہتا۔
ہم تشدد، فساد، انتشار، یا طاقت کے زور پر کوئی کام نہیں کریں گے۔
نہ ہی ہم لسانی تعصب، ذات پات، فرقہ واریت یا طبقاتی کشمکش کو ہوا دیں گے، کیونکہ اسلام کی بعثت ہی ان تمام امتیازات اور تفریقوں کو مٹانے کے لیے ہوئی ہے۔
اسلام کا پیغام امن، عدل، بھائی چارہ اور انسانیت کی بنیاد پر ہے، اور ہم اسی مشن کو لے کر آگے بڑھیں گے۔
اس تناظر میں سیرتِ طیبہ کا گہرا مطالعہ نہایت ضروری ہے—چاہے وہ مکی دور ہو یا مدنی مرحلہ۔
آپؐ نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی اخلاق و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا، دشمنوں کے ساتھ بھی اعلیٰ ظرفی اور حسنِ سلوک سے پیش آئے، اور ظلم و جبر کے مقابلے میں صبر واستقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو آگے بڑھایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ مبارکہ صبر، حکمت، عدل، رواداری، اور اصول پسندی کی ایک روشن اور زندہ مثال ہے۔ رسول پاک ﷺ کی اتباع میں امت کی بھلائی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025