چند سطور کے بعد جناب سلطان احمداصلاحی صاحب لکھتے ہیں : ’’حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی کی حکومت الٰہیہ کی پوری تھیسس پر جرمن فاشزم کی چھاپ ہے‘‘۔
دین کا کام کرنے والوں کے مخالفین نہ ہوں ایسا ممکن نہیں۔ جب انبیاء ؑ تک کے بدترین مخالفین ہوئے ہیں جو ان کی جان کے درپے ہوئے۔ کتنوں کو شہید کیا گیا تو مولانا مودودیؒ کیا چیز ہیں کہ ان کا کوئی مخالف نہ ہو ۔ ان کے بھی بہت سے مخالفین ہوئے ہیں، لیکن ایسی نادربات شائد کسی نے نہیں کہی ۔ مولانا اصلاحی کا ذہن رسا بہت دور کی کوڑی لایا۔ غالباً بے خیالی میں وہ یہ بات کہہ گئے تھے۔ چنانچہ جب انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے:
’’ہر دور کی شریعت کی طرح آخری محمدی شریعت بھی پوری زندگی کے لئے ہے اور اس میں دین و دنیا کی تقسیم نہیں ہے۔ دین کی اسی تفہیم وتشریح میں برصغیر ہند میں اسلامیات کے دیگر محققین کے ساتھ مفکر اسلام مولانا مودودیؒ کی ان تمام تحریروں سے فائدہ اٹھایا جائے جس میں انھوں نے ’اسلام کو ایک نظام زندگی‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ مفکر اسلام نے اسلام کے اس خاکے میں رنگ بھرنے میں جو دماغ سوزی کی ہے اس کا اجر ان کو بارگاہ ایزدی ہی سے مل سکتا ہے ، جس کے لئے امت سرتاپا ان کی ممنون ہے۔ اس مواد سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور اس کو آگے بڑھایا جائے۔( علم وادب ،اکتوبر ۔ دسمبر ۲۰۱۰ء ،صفحہ ۱۳)
اب اسے کیا کہا جائے کہ پہلی سانس میں الٹی بات ۔ دوسری سانس میں سیدھی بات۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی اور یوں بھی۔ اگر یہ کلیت پسندانہ تصور مولانا مودودی کے ذہن کی پیداوار ہے تو آپ کا یہ کہنا کہ آخری محمدی شریعت پوری زندگی کے لئے ہے اور اس میں دین و دنیا کی تقسیم نہیں کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ کلیت پسندی نہیں ہے اور کیا یہ آپ کے ذہن کی پیداوار ہے۔
مذکورہ بالا بات کہ شریعت محمدی پوری زندگی کے لئے ہے ، یہ کہنے کے بعد وہ پھر پلٹ جاتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں : ’’البتہ اقامت دین بمعنی حکومت الٰہیہ کے قیام کی رٹ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ‘‘۔ پھر اسی بات کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں:’’جماعت اسلامی ہند سیکولر ہندوستان میں مذہبی انقلاب کے ایجنڈے سے دستبردار ہو…. وہ اپنے دستور اور پالیسی اور پروگرام سے اقامت دین اور اس سے متعلق حصے کو بلاتاخیر خارج کرے ‘‘۔ (حوالہ مذکور ، صفحہ ۱۴)
اقامت دین سے چھٹکارا کیوں حاصل کرے اور خارج کیوں کرے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ’’اس لئے کہ اس سے آزمائشیں آئیں گی اور وابستگان جماعت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ملت کو بھی نقصان پہنچے گا‘‘۔ مزید تفصیلی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں: ’’یہ دستور ہند کے خلاف ہے۔ ہندوستان کے سیکولر دستور کے لحاظ سے اس کے باشندوں کی کوئی اکائی اس ملک میں اپنے مذہب کی بنیاد پر انقلاب برپا نہیں کرسکتی‘‘۔ (حوالہ مذکورہ، صفحہ ۱۳)
بالفاظ دیگر جماعت قرآن وسنت اور انبیائی طریق کار کو چھوڑ دے۔ ابھی تک تو اقامت دین سے چھٹکارے کی بات تھی اب وہ چاہتے ہیں کہ دین ہی چھوڑدیا جائے ، نہ دین ساتھ ہوگا او ر نہ اس کی بنیاد پر کوئی انقلاب لایا جائے گا۔ کیا کسی بھی نبی نے کسی بھی زمانے میں جہاں وہ مبعوث کئے گئے وہاں کے تحریری یا غیر تحریری دستور یا وہاں کے سربرآوردہ اور دولتمند باشندوں کی اجازت سے دین کی تبلیغ کی تھی اور کیا پہلے سے جمے جمائے عقائد ونظریات کے خلاف انبیاء ورسل کی دعوت نہیں تھی ۔ یہ تو بڑی عجیب وغریب منطق ہے کہ دستور ہند مذہب پر عمل کی آزادی بھی دے جب بھی دین کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا کام نہ کیاجائے۔ مبادا کہیں مذہبی انقلاب نہ آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک میں پہلے ہی یہ آگاہی دے رکھی ہے ۔ یقیناً انھوں نے بھی اس آیت کو بارہا پڑھا ہوگا۔
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ۔ (البقرہ: ۱۵۵)
’’اور ہم تمہیں ضرور خوف وخطر ،فاقہ کشی ، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔
علم وادب جنوری ۔ مارچ ۲۰۱۴ء کے شمارے میں سلطان احمد اصلاحی صاحب نے پوری تندہی سے کوشش کی ہے کہ کوئی ایسا فردمطعون کرنے سے رہ نہ جائے جس نے عالمی پیمانے پر غلبۂ دین کے لئے مولانا مودودیؒ کے تصور وفکر کی تائید کی ہے۔ تحریک اسلامی کے اکابرین پر لعن طعن کرنے کے بعد بھی ان کی بھڑاس نہیں نکلی تو مصر کی الاخوان المسلمون اور اس کے مایہ ناز مفسر سید قطب شہیدؒ اور مرشد عام حسن الہضیبی کو بھی نہیں بخشا کہ یہ لوگ بھی مولانا مودودیؒ سے متاثر ہوگئے۔
سلطان صاحب لکھتے ہیں: ’’توبہ: ۳۳ کے ذریعے مولانا (مودودیؒ) یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ آخری پیغمبر ؐ دنیا میں مبعوث ہی اس مقصد کے تحت کئے گئے تھے کہ ان کا لایا ہوا دین دنیا کے دوسرے تما م ادیان و مذاہب اور خدا سے بغاوت پر مبنی جملہ نظامہائے زندگی پر غالب آجائے، جیسا کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں اپنے گردوپیش کے خطے میں ایسا کرکے دکھا بھی دیا۔ اس کے بعد انفال: ۳۹ کا پیغام ہے کہ اسی طرح قیامت تک کے لئے آپ کی برپا کردہ امت محمدیہ کا زندگی کاایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ وہ لڑ کر پوری دنیا میں اس دین کاایسا ہی غلغلہ بلند کردے اور دیگر جملہ ادیان و مذاہب اور باطل نظام ہائے زندگی کو دنیا سے اسی طرح نیست ونابود کردے جیسا کہ آخری پیغمبرؐ کے ذریعے اپنے وقت میں اپنے علاقے تک کیاگیا۔ کتاب اللہ کی ان آیات کے ساتھ اس سے زیادہ ظلم اس سے پہلے شاید ہی کیاگیا ہو‘‘۔ (صفحہ ۴۲ ، علم وادب ، جنوری ؍ مارچ ۲۰۱۴ء)
اس کے بعد وہ سورہ انفال ،آیت ۳۹ نقل کرکے اس کا ترجمہ کرتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں:
’’مولانا محترم (مودودیؒ) نے اس آیت (انفال: ۳۹) کو بھی پوری طرح نقل نہیں کیا بلکہ اس کے آخری حصے کو چھوڑ دیا ہے۔ پوری طرح قرین قیاس ہے کہ یہ بھی اتفاقیہ نہیں بلکہ ایسا جان بوجھ کر کیاگیا ہے اس لئے کہ اس حصے کو نقل کرنے سے اس کے محدود پس منظر کے حامل ہونے کا واضح اشارہ نکلتاتھا۔ اس لئے کہ وہ تو اس سے حکومت الٰہیہ کے قیام کے اپنے بین الاقوامی دائمی ایجنڈے کے حق میں استدلال کرناچاہتے تھے اور یہ ٹکڑا اس میں مزاحم ہوسکتا تھا۔ پوری آیت کریمہ یہ ہے:
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہ فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ۔ (انفال: ۳۹)
’’اور (اے مسلمانو!) تم کافروں اور مشرکوں سے جنگ کرو یہاں تک کہ ان کی طرف سے اہل ایمان کو ستائے جانے کا سلسلہ ’فتنہ‘ موقوف ہوجائے اور دین تمام کا تمام اللہ کے لئے ہوجائے (یعنی کہ اس کے معاملے میں انسانوں کا دخل ختم ہوجائے) ہاں اگر وہ باز آجائیں تو بلاشبہ وہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اس کو وہ اچھی طرح دیکھ رہا ہے‘‘۔ (صفحہ ۴۳ ، حوالہ مذکور)
پس زیر نظر آیت کریمہ کے حوالے سے آپؐ کے ذریعے لائے گئے دین کا مادی اور سیاسی غلبہ صرف جزیرۂ عرب اور سرزمین عرب کے لئے خاص تھا اور یہ آپ کی حیات مبارکہ میں واقع ہوکر تاریخ کا حصہ بن گیا۔یہ امت کا کوئی تشنۂ تکمیل ایجنڈا نہیں جس کے لئے وہ بے چین ہو جیسا کہ مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اوپر کی گفتگو کے پس منظر میں اس کو اس کے لئے بے چین دیکھنا چاہتے ہیں ۔ صفحہ ۵۸ حوالہ مذکور) اللہ رب العالمین ہے اس نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا۔ کیا ان کی رحمت صرف جزیرہ عرب تک محدود تھی۔ اس پورے بیان کی تردید میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے اس کے جواب میں خود سلطان صاحب ہی کی تحریر پیش کر رہا ہوں۔
جناب سلطان صاحب اپنی کتاب ’’مذہب کا اسلامی تصور‘‘ میں نظام کفر و شرک کے آخری چیلنج کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’قرآن وحدیث کے مطالعے سے آپؐ کی ایک اور حیثیت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ؐ قیامت تک کے لئے آخری چیلنج ہیں۔ ایک خاص پہلو سے آپ ؐ کی بعثت کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ دنیا کے تمام ادیان اور تمام نظام ہائے فکر وعمل پر آپؐ کے لائے ہوئے دین اسلام کا بہمہ وجوہ غلبہ و استیلا ہوجائے اور تمام ادیان باطلہ اور خدا بیزاری اور انکار خدا پر مبنی افکار ونظریات کے لئے زمین ایسی تنگ ہوجائے کہ ان کے لئے کہیں سرچھپانے کی جگہ نہ رہے۔ پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے مشن کا یہ وہ لازمی اور ناگزیر جز ہے جس کی تکمیل کا ذمہ اس خداوند ارض وسما ء نے لے رکھا ہے جس کے دست قدرت کا اسیر یہ تمام عالم آب وگل ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس مشیت کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت منتظر ہے اور دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کی مجال نہیں جو اس کے کسی ارادے کی تکمیل میں آڑے آنے کی جرأت کرسکے جہاں لازمی تقاضا ہے کہ تمام ادیان اور نظام ہائے فکر وعمل کے بالمقابل علاوہ دلیل وبرہان اور علم ومعرفت کے۔ اس دین برحق کو سیاسی غلبہ اور اقتدار کی قوت وشوکت بھی حاصل ہو۔
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ۔ (توبہ: ۳۳)
’’وہی ہے اللہ جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دین حق دے کر تاکہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کردے خواہ یہ چیز مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو‘‘۔
انھوں نے اپنی بات کی تائید میں علامہ رشید رضا مصری اور امام رازی کی تفسیر اور علامہ ابن قیم کے فرمودات (اس کی تفصیل کتاب میں صفحہ ۳۰۲ سے صفحہ ۳۰۶ تک طوالت کی وجہ سے چھوڑتے ہوئے) پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بعد کے ادوار میں آپ کی اس خصوصیت کے مضمرات کتنے وسیع ہوں گے اور کس طرح شرک وبت پرستی کے ساتھ فکر وعمل کے ان تمام دھاروں کو روئے زمین سے مٹا دینا آپ کے بعد آپ کے امتیوں کے عین فریضہ منصبی میں شامل ہوگا۔ جو کسی بھی انداز اور کسی بھی عنوان سے انسان کو خدا سے دور اور اسے اس سے بیزار کرنے والے ہوں۔ (ص ۳۰۶)
مولانا سلطان صاحب کا یہ بھی فرمانا ہے کہ ’’آخری پیغمبر بزور شمشیر پوری دنیا پر اپنی شریعت کے نفاذ کے لئے نہیں آئے ‘‘۔ (علم وادب جنوری؍ مارچ صفحہ ۵۱) ساتھ ہی ساتھ اس کا جواب جو اس کے برخلاف ہے ان کی زبان سے سنتے چلیں، آگے مزید لکھتے ہیں:’’آپ کی اس حیثیت کا لازمی تقاضا ہے کہ آپ معروف معنوں میں صرف دعوت وتبلیغ اور وعظ و ارشاد ہی کے مرد میدان نہ ہوں بلکہ تلوار کا پرتلو بھی آپ کے ہاتھ میں لازماً موجود ہو اور روئے زمین (صرف جزیرہ عرب نہیں) میں بندگیٔ رب کے نفاذ اور کفر وشرک کے استیصال کے لئے مسلح جدوجہد بھی آپ کے عین فرائض منصبی میں شامل ہو یہی حقیقت ہے جس کی نشاندہی آپ نے دوسری حدیث میں فرمائی ہے:
’’مجھے تلوار دے کر بھیجا گیا ہے یہاں تک کہ ’ پورے روئے زمین پر‘ تنہا اللہ کی بندگی کی جائے اور اس کا کوئی ساجھی نہ ہو اور میری روزی میرے نیزے کے سائے تلے رکھی گئی اور ذلت ورسوائی اس کا مقدر ٹھہرا دی گئی جو میرے معاملے کی مخالف کرے‘‘۔(مسند احمد:۲؍ ۵۰،۹۲)
اس کے بعد اس ذیل کی ایک اور حدیث مسلم شریف سے انھوں نے پیش کی ہے ،اسے درج نہ کرتے ہوئے آگے عرض ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ظاہری طور پر ایمان و اسلام کا اقرار کرکے بھی آدمی اپنے اندر کفرو نفاق کو چھپائے ہوسکتا ہے، اس لئے اس صورت کو تو اللہ تعالیٰ کے حوالے کئے بغیر چارہ نہیں، لیکن اس سے ہٹ کر جب تک لوگ اسلام کے مقابلے اپنے حق خود اختیاری سےدستبردار نہ ہوں گے، اسلام سے ان کی حالت جنگ قائم رہے گی۔ خدا کی سرزمین میں وہ اس کے عطاکردہ دین کی نعمت سے محروم رہ کر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کا حق ہے لیکن شرک و کفر کی غلاظت میں خود گرنے کے ساتھ دوسرے بندگانِ خدا کو انہیں اس میں گرانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اسلام کی عطا کردہ سہولتوں اور رعایتوں کے ساتھ وہ مغلوب و بے اختیار ہوکر توبے شک رہ سکتے ہیں ، لیکن خدا کی زمین پر اس سے منھ موڑنے کے ساتھ اس سے اکڑ کر چلنے کا حق انہیں حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس طور پر کہ اپنے کو جہنم میںگرانے کے ساتھ انہیں دوسرے بندگانِ خدا کو بھی جا ڈھکیلنے کا پورا موقع اور سہولت میسر ہو اگر وہ پرامن طور پر اپنی اس حیثیت کا اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں تو پیغمبر اسلام اور اس کے امتیوں کی تلوار ان کا فیصلہ کرائے گی۔ مسلح جدوجہد سے ان کی قوت و شوکت اس طرح پامال کردی جائے گی کہ خدا کی سرزمین میں ان کے لئے اکڑ کر چلنے اور باغی و سرکش بن کر رہنے اور دوسرے بندگانِ خدا کو اس راہ پر لگانے کا دور دور تک کوئی موقع نہ رہے۔
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیكُوْنَ الدِّینُ لِلہِ۰ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِـمِینَ۔ (بقرہ: ۱۹۳)
’’اور ان سے (دین کے دشمنوں سے) جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے‘‘۔
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیكُوْنَ الدِّینُ كُلُّہٗ لِلہِ۔ (ا نفال: ۳۹)
’’اور ان سے (اعدائےاسلام سے) جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کیلئے ہوجائے‘‘
اس کے بعد کی عبارت سے بات بالکل آئینے کی طرح صاف ہوجاتی ہے اور مولانا سلطان احمد اصلاحی مولانا مودودی کے متبع نظر آتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’صدر اول میں اسلام ان تمام حیثیتوں سے اپنی حقانیت کا لوہا منوا چکا ہے اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، قیامت سے پہلے ایک بار پھر ہمہ گیر شکل میں اس دین کا اقصائے عالم پر بول بالا ہوگا ، زمین کا چپہ چپہ اسلام کا کلمہ پڑھے گا اور روئے زمین پر کہیں کفر و شرک کا نشان نہ ہوگا، لیکن اس سے پہلے بھی اسلام کے نام لیوا جہاں اور جب کہیں اس دین سے اپنی بے آمیز وفاداری کا ثبوت فراہم کرکے زمین پر غلبہ و استیلا کی سنت الٰہی کی شر ط پوری کردیں گے تو یقیناً دیر نہ ہوگی کہ نظام عالم کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوگی اور پوری دنیا پر ان کا پھریرالہرائے گا ۔ نظام کفر وشرک نیست و نابود ہوکر رہے گا اور اس کے نام لیوائوں کے لئے کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ مل سکے گی۔ غلبہ وتسلط اس دین کا خاصہ ہے ۔ اس کے علمبردار جب کبھی اس راہ کی اپنی داخلی رکاوٹوں کو دور کردیں گے ، نصرت و فتح مندی ان کے ہمرکاب اور کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومنے کے لئے منتظر ہوگی۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہر دور اور ہر زمانے کے لئے ہے‘‘۔
الاسلام یعلو ولایعلیٰ
’’اسلام سر اٹھاکر رہنے کیلئے آیا ہے جھک کر رہنے کے لیے نہیں آیا‘‘۔ (مذہب کا اسلامی تصور، صفحہ ۳۰۶تا ۳۰۸)
یہی بات انھوں نے کتاب کے آخر میں جن عنوانات کے تحت کہی ہے وہ ہیں (۱) جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (۲) دین کا غلبہ و نفاذ صفحہ ۵۸۲ (۳) اور جہاد و قتال (صفحہ ۵۸۴)۔ درج بالا سطور کی روشنی میں ذرا ایک بار پھر مولانا سلطان احمد اصلاحی کی بات تازہ کرلیں کہ ’’یہ قیامت تک کے لئے امت محمدیہ کا کوئی بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے جیسا کہ ان آیات سے مفکر اسلام مولانا مودودیؒ نے سمجھا اورسمجھایا ہے ‘‘ اور یہ کہ ان آیات کے ساتھ مولانا نے بڑا ظلم کیا ہے مگر یہاں تو مولانا اصلاحی مولانا مودودی سے دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں۔
اب دیکھئے کہ جناب سلطان صاحب پارلیمنٹ اور اسمبلی میں جانے اور مسلمانوں کو بھیجنے کے لئے کتنے بے تاب ہیں اور اس کے لئے ایک فرسودہ اور پامال شدہ دلیل پیش کرتے ہیں۔
’’حضرت یوسف علیہ السلام جن کی تقریر کا یہ آیت کریمہ یوسف: ۴۰ ایک حصہ ہے جب وہ خود حاکمیت انسان پر مبنی بہ الفاظ دیگر غیر الٰہی اور سیکولر حکومت کے رکن رکین ہوں تو اس آیت کریمہ کا وہ مفہوم کیسے درست اور صحیح ہوسکتا ہے جو صاحب آیت کے اسوے اور نمونے کے خلاف ہو۔ اس لئے کہ تحقیق یہی ہے‘‘۔ (علم و ادب جنوری ؍ مارچ ۲۰۱۴، صفحہ ۷۶)
یہ تحقیق نہیں بلکہ تحقیق کے نام پر کالا دھبہ اور بدنما داغ ہے۔ یہ اس کی تحقیق ہے جسے نہیں معلوم کہ نبوت کا منصب اور مقام کتنا بلند اور نبی کا کردار کتنا پاکیزہ اور عظیم ہوتا ہے۔ صحیح تحقیق یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام حکومت وقت کے رکن رکین یا سلطان صاحب کے الفاظ میں وزارت خزانہ یا وزارت عظمیٰ کے منصب پر نہیں بلکہ سارے اختیارات کے ساتھ مکمل بادشاہ تھے۔ (جیسا کہ آگے ثابت کیا جائے گا) اور فرعونِ وقت ان پر ایمان لاکر ان کا مرید ہوچکا تھا۔ پھر کہاں انسانی حاکمیت پرمبنی غیر الٰہی حکومت رہ گئی۔ اصول وقاعدہ یہ ہے کہ اگر قرآن کے کسی لفظ یا فقرے کے دو مفہوم نکلتے ہوں تو اس کا جو صحیح مفہوم اور بہتر مفہوم ہو وہی لینا چاہئے ۔ قرآن پاک کی یہی ہدایت ہے۔
فَبَشِّرْ عِبَادِالَّذِینَ یسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِینَ ہَدٰىہُمُ اللہُ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ۔ (الزمر:۱۸)
’’پس (اے نبی) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانش مند ہیں‘‘۔
یہی بات مزید وضاحت سے آیت ۵۵ میں بھی کہی گئی ہے ۔ یعنی دانشمند وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کے بہترین پہلو کی پیروی کی اور غیردانشمند وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس سے اپنے مطلب کا مفہوم نکال کر خود بھی گمراہ ہوتے اور عوام کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ گفتگو کو آگے بڑھایا جائے انھوں نے اس کے بعد جو لکھا ہے اسے بھی قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مولانا مودودیؒ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن اور دیگر میں اسوہ یوسفی کی اسی درست تفسیر کا گلا گھونٹا ہے اور مصنف کتاب مولانا سید حامد علی صاحب سمیت پوری جماعت اسلامی قرآن کی اس غلط تفسیر میں مفکر اسلام کی پیروکارہے‘‘۔ (حوالہ مذکور ، صفحہ ۷۶)
اِس سلسلے میں اِس آیت پر غور کرناچاہئے۔
’’حکومت تو اللہ ہی کیلئے ہے اس کا فرمان یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی کرو اور کسی کی نہ کرو یہی سیدھا دین ہے۔ مگر اکثر آدمی ایسے ہیں جونہیں جانتے‘‘۔ (ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد: ترجمان القرآن)
حاکمیت الٰہ کو ثابت کرنے کے لئے قرآن میں اور بھی آیات ہیں لیکن اتنی برمحل اس سے زیادہ صریح اور واضح شاید دوسری آیت نہیں اور سلطان صاحب نے پورا زور یہ باور کرانے پر صرف کردیا ہے کہ حاکمیت الٰہ کے لئے اس سے استدلال صحیح نہیں اور ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علماء سید قطب شہید ؒ وغیرہ کو مطعون کرڈالا ہے۔ گویا ان کے علاوہ کسی نے بھی اس کے مفہوم اور موقع محل کو نہیں سمجھا۔
حضرت یوسف ؑ نے وحدانیت کی تبلیغ کرتے ہوئے اپنے جیل کے ساتھیوں کو حکومت الٰہیہ کی طرف بلایا اور ان کے سامنے یہ اعلان کیا کہ حکومت کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ کیا یہ نری تقریر ہی تقریر تھی جس کا عمل کی دنیا سے کوئی تعلق اور لینا دینا نہیں تھا اور بادشاہِ وقت جو اپنی حکومت چلا رہا تھا وہ غلط نہیں بلکہ جائز تھی۔ گویا حضرت یوسف ؑ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر بن کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان کریں اور دوسری طرف بادشاہ کی حکومت چلانے کے لئے اس کے وزیر بن جائیں۔ اس قومی وعملی تضاد وتناقض کو ایک فاترالعقل ہی ہوگا جو نہ سمجھے۔ کسی ذی شعور آدمی کو یہ تضاد سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی۔
مذکورہ آیت ۴۰ کے مطابق صحیح بات یہ ہے کہ جب حضرت یوسفؑ نے لوگوں کو ایک اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی طرف بلایا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کے برخلاف کسی غیر الٰہی حکومت کو چلانے کے لئے اس کے وزیر بن جائیں۔ یہ صحیح بات چونکہ ان کی خود ساختہ تفسیر کے خلاف پڑ رہی تھی اس لئے انھوں نے بات کو الٹا کرکے بتایا ہے اور اس الٹی تفسیر کے ذریعے دوسرے مفسرین کی تغلیط کی۔ اب وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے ایک غلط تفسیر پر اصرار کر رہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ کے لئے وزارت کا منصب انھوںنے جس آیت سے نکالا ہے وہ سورہ یوسف میں ہی آیت ۵۵ ہے۔
قَالَ اجْعَلْنِی عَلٰی خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ اِنِّىْ حَفِیظٌ عَلِیمٌ۔(یوسف: ۵۵)
’’یوسف ؑ نے کہا مملکت کے خزانوں پر مجھے مختار کردیجئے میں حفاظت کرسکتا ہوں اور میں اس کام کا جاننے والا ہوں‘‘۔ (ترجمہ مولانا آزاد)
خزائن الارض کا مفہوم انھوں نے وزیرخزانہ یا وزیراعظم لیا ہے جو خزائن الارض کی صحیح نمائندگی نہیں کرتا۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا آزاد لکھتے ہیں:
’’اس معاملے نے بادشاہ کا اشتیاق اور زیادہ کردیا اور اس نے خیال کیا کہ جس شخص کی راست بازی، امانت داری اور وفائے عہد کا یہ حال ہے اس سے بڑھ کر مملکت کے لئے کون موزوں ہوسکتا ہے۔ پس کہا: فوراً میرے پاس لاؤمیں اسے کاموں کے لئے خاص کرلوں گا۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ آئے اور وہ پہلی ہی ملاقات میں اس درجہ مسخر ہوا کہ بول اٹھا مجھے تم پر پورا بھروسا ہے تم میری نگاہ میں بڑا مقام رکھتے ہو ، مجھے بتائو اس آنے والی مصیبت سے جس کی خبر خواب میں دی گئی ہے، مملکت کیو نکر بچائی جاسکتی ہے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا: اس طرح کہ ملک کی آمدنی کے تمام وسائل میرے ماتحت کردیے جائیں۔ میں علم وبصیرت کے ساتھ اس کی حفاظت کرسکتا ہوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیااور جب وہ دربار سے نکلے تو تمام مملکت مصر کے حکمراں ومختار تھے۔ (ترجمان القرآن جلد ۳ صفحہ ۷۶۷، ۷۶۸)
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الارض سے مراد یہاں سرزمین مصر اور خزائن سے مراد ملک کے ذرائع پیداوار ہیں ۔ چونکہ اس وقت سب سے بڑی مہم ملک کو پیش آنے والے قحط میں سنبھالنے کی تھی اس وجہ سے حضرت یوسف ؑ نے فرمایا کہ ملک کے تمام ذرائع پیداوار کا اہتمام وانصرام میرےسپرد کردیجئے میں پوری احتیاط سے ہرچیز کی حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور اس ذمے داری کو سنبھالنے کے لئے علم بھی رکھتا ہوں۔ یہ واضح رہے کہ حضرت یوسف ؑ کی طرف سے کوئی درخواست نہیں تھی بلکہ خود بادشاہ کی پیشکش قبول کرنے اور اس کوبروئے کار لانے کے لئے ان کو جو شکل مناسب معلوم ہوئی وہ انھوں نے اس کے سامنے رکھ دی اور ساتھ ہی یہ بات بھی ظاہر فرما دی کہ اس ذمے داری کو سنبھانے کے لئے جس دیانت اور علم کی ضرورت ہے وہ میں اپنے اندر پاتا ہوں۔ حضرت یوسفؑ کی یہ تجویز عین بادشاہ کی آرزو کے مطابق تھی اس وجہ سے وہ مطمئن ہوگیااور اس طرح مصر کی سلطنت گویا حضرت یوسف ؑ کے انگوٹھے کے نیچے آگئی۔ تورات میں ہے کہ ’پھر فرعون نے یوسفؑ سے کہاکہ دیکھ میں نے تجھے ساری زمین مصر پر حکومت بخشی اور فرعون نے اپنی انگشتری اپنے ہاتھ سے نکال کر یوسف ؑ کے ہاتھ میں پہنا دی، تب اس کے آگے منادی کی گئی ، سب ادب سے رہو اور اسنے مصر کی ساری مملکت پر حاکم کیا اور یوسفؑ کو کہا میں فرعون ہوں اور تیرے حکم کے بغیر مصر کی ساری زمین میں کوئی انسان اپنا ہاتھ یا پائوں نہ اٹھائے گا۔ (پیدائش ۴۱۔۴۴)‘‘ مولانا آزاد نے بھی یہی لکھا ہے اور یہ تفسیر قرآن کے عین مطابق ہے۔
پھر آیت ۵۶، ۵۷ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس طرح حضرت یوسفؑ کو پورے ملک میں عملاً وہ تمام اختیار واقتدار حاصل ہوگیا جو بادشاہ کو حاصل تھا۔ نام تو بادشاہ کا ضرور باقی رہا لیکن اپنے اختیارات اس نے سارے حضرت یوسفؑ کو تفویض کردیے‘‘۔ (تدبرقرآن، جلد ۴ ، صفحہ ۲۳۷)
مولانا اشرف علی تھانویؒ اس آیت کی مختصر اور جامع تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’چنانچہ بجائے اس کے کہ ان کو کوئی خاص منصب دیتامثل اپنے پورے اختیارات ہر قسم کے دے دیے گویا حقیقت میں بادشاہ یہی ہوگئے۔ گوبرائے نام وہ بادشاہ رہا۔ ‘‘(صفحہ ۲۹۲، اختصار شدہ بیان القرآن)
یہ تمام تشریحات بتاتی ہیں کہ حضرت یوسفؑ کوئی وزیر نہیں بلکہ تمام اختیارات کے ساتھ حقیقی معنی میں بادشاہ بن گئے۔ جناب سلطان صاحب جیسے لوگوں کو یہ بھی سخت ناگوار لگتا ہے کہ حضرت یوسفؑکو وزیر کے بجائے بادشاہ بنا دیا جائے۔ پہلے تو انھو ںنے حضرت کو مقام نبوت سے ہٹاکر عام آدمی کے روپ میں دکھایا پھر بادشاہ کے بجائے وزیر بنایا۔ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ خزائن الارض کا مفہوم بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ خزائن کالفظ اصطلاحات قرآنی میں غلے کے انبار اور سیم وزر کے ڈھیر کے معنی میں نہیں آتا ،جیسا کہ گمان کیاجاتا ہے۔ اس کے لئے قرآنی اصطلاح ’کنز‘ ’مال‘ اور ’ثمرات‘ وغیرہ کی ہے۔ خزائن الارض کا مطلب سارے ہی ذرائع حکومت ہیں۔ (جو بغیر بادشاہت کے حاصل نہیں ہوسکتے)‘‘
اب یہ ضرور ہے کہ مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد آناً فاناً ملک کے سارے قوانین اور نظام کو بدلا نہیں جاسکتا، بتدریج وہ تمام اعتقادی اور عملی اصلاحات حکم الٰہی کے مطابق نافذ کرتے چلے گئے ہوں گے،جیسا کہ بتدریج نبی ﷺ نے مدینہ پہنچنے کے بعد اصلاحات نافذ کیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام نازل ہوتے رہے اور آپؐ انھیں معاشرے پر نافذ کرتے رہے۔
حقیقت یہ ہےکہ حضرت یوسفؑ کو نظام وقت کا رکن رکین کہہ کر سلطان صاحب نے ایک نبی کی شان نبوت کو داغدار کیا ہے۔ کیا حضرت یوسفؑ نے بادشاہ کے قانون سے وفاداری کا کوئی حلف بھی لیا تھا۔ جیسا کہ سیکولر حکومت میں لیاجاتا ہے۔ بادشاہ وقت تو انھیں دیکھنے کے بعد بقول مولانا آزاد مسخر ہوگیاتھا یعنی وہ خود ان کا تابع فرمان بن گیا۔ ایک پاکیزہ سیرت اور معصوم نبی پر اس سے بڑاظلم اور اتہام کیا ہوگا کہ اسے غیر الٰہی نظام کی چاکری کرتے دکھایا جائے تاکہ مسلمانوں کے لئے پارلیمنٹ اور اسمبلی میں جانے کا جواز پیدا ہوجائے۔ اس معاملے میں انھوںنے کتمان حق بھی کرڈالا ہے ۔ فرماتے ہیں:
’’جب حضرت یوسفؑ شریعت یعقوبی سے ہٹی ہوئی مصری پارلیمنٹ (حالانکہ اس وقت عوام کی منتخب کی ہوئی اس طرح کی پارلیمنٹ کاکوئی وجود بھی نہیں تھا) کے ممبر اور اس کی قانون سازی میں شریک ہوسکتے ہیں تو ہندوستان اور امریکہ جیسے ملکوں کے لئے بھی اس کا دروازہ کھلا ہونا چاہئے۔ وہپ عام طور پر پارٹیاں ان صورتوں کے لئے وہپ جاری کرتی ہیں جہاں حرام وحلال یا مسلمہ انسانی قدر کا معاملہ نہیں ہوتا اور جہاں اس طرح کی قانون سازی میں مسلمان بے بس ہوتو اس ’منکر‘ کو دل سے برا جانے، شریعت کااتنا ہی مطالبہ ہے‘‘(علم وادب ،جنوری ؍مارچ ،ص ۶۳)
گویا وہ شریعت کے تابع نہیں بلکہ شریعت کے احکام ان کی مرضی کے تابع ہیں جتنا چاہیں گھٹا بڑھا دیں ۔ شاید اسی موقع کے لئے علامہ نے کہا تھا ؎
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
شریعت کاپہلا مطالبہ تو یہ ہے کہ منکر کو اپنے ہاتھ یا طاقت سے بدل دو۔ دوسرے درجے کا مطالبہ یہ ہے کہ اگر طاقت نہ ہوتو زبان سے اس کی برائی بیان کرو۔ یہ دونوں مطالبے تو انھوںنے غائب کردیے اور آخری درجے کا مطالبہ جسے ایمان کا سب سے کمزور درجہ کہا گیا ہے۔ ان کے نزدیک بس اتنا ہی شریعت کا مطالبہ ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مولانا کو شریعت کے یہ تینوں مطالبے معلوم نہ ہوں ، لیکن جانتے بوجھتے شریعت کا بس اتنا ہی مطالبہ بتانا کیا کتمان حق نہیں؟
یَااَیہَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ (الصف:۱۔۲)
’’اےلوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔
بغرض محال ہم سلطان صاحب کی تاویلات کو مان بھی لیں تو سوال پیدا ہوتا ہے نبی آخرالز ماں محمدﷺ کو جب مشرکین مکہ نے عرب کی بادشاہت پیش کی تو انھوںنے حضرت یوسفؑ کی پیروی کرتے ہوئے اسے کیوں قبول نہیں کرلیا؟ حضرت یوسفؑ نے تو مطالبہ کرکے بادشاہت حاصل کی تھی ۔ آنحضور ﷺ کو تو بغیر مطالبے کے ہی پیشکش کی گئی تھی پھر آپ نے کیوں بادشاہت ٹھکرا دی۔
واقعہ تو یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ کی پاکیزہ سیرت پر جتنے داغ دھبے اور گردوغبار کی جو دھند چھاگئی تھی مولانا مودودیؒ نے ان کی سیرت کو مجلیٰ مصفیٰ کرکے پیش کیا ہے جس کا دل چاہے وہ تفہیمات دوم میں متعلقہ مضامین ’’رواداری کا غیر اسلامی تصور‘‘ اورحضرت یوسفؑ اور غیر اسلامی حکومت کی رکنیت کے عنوان سے پڑھ لے۔ ان مجموعوں کے بارے میں مولانا سلطان اصلاحی کا قول فصیح و بلیغ یہ ہے:
’’معاصر دنیا اور اس کے افکار ونظریات پر گہری نظر کے ساتھ خالص اسلامیات پر بھی مولانا مودودیؒکا مطالعہ غیرمعمولی طور پر وسیع ہے اور بعض اوربسا اوقات ریسرچ کے روایتی پیمانوں پر پورا نہ اترتے ہوئے بھی اسلامیات پر ان کی تحقیقات کا حصہ کم نہیں ہے۔ جہاں بھرپور طریقے پر انھوں نے جستجو اور تلاش کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے اس سلسلے میں ’حقوق الزوجین‘، ’پردہ‘ اور ’سود‘ وغیرہ کے علاوہ خاص طور پر اس کا نمونہ ان کے دو مجموعہ ہائے مضامین ’تفہیمات‘ اور ’رسائل ومسائل‘ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ عام طور پر تحقیق کے حوالے سے ان دونوں مجموعوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے جس کے وہ فی الواقع مستحق ہیں۔ ان دونوں مجموعہ ہائے مضامین میں اسلامیات پر مولانا کا کنٹری بیوشن اور یجنل ہے اور معاصر دنیا کی ریسرچ کے معروف تکنیکی عنصر سے ہٹ کر وہ پورے طور پر اس کا حق ادا کرتے ہیں اور اس کے پیمانے پر پورے اترتے ہیں۔ (علم وادب، اپریل؍ جون ۲۰۱۲ء،ص ۴۵۔۴۶)
تمام اہم اور ضروری باتوں کا جواب خود سلطان صاحب کی تحریروں کی روشنی میں باتفصیل آگیا جو چھوٹی موٹی باتیں رہ گئی ہیں ان کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے۔
ایک بات انھوں نے یہ کہی ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ حاکمیت الٰہ کی طرح بحیثیت اصطلاح عبادت اور دین کا مفہوم بھی اصلاً محدود ہے ۔ (یہ بات گزشتہ صفحات میں گزر چکی) اور ہرگز ہرگز عبادت اطاعت کےہم معنی نہیں‘‘۔ (صفحہ ۷۷، علم و ادب ،جنوری؍ مارچ ۲۰۱۴ء)
عبادت کے وسیع تصور کے لئے ان کی کتاب کے صفحات ۱۱۹ تا ۱۴۲ دیکھ لئے جائیں۔ دلچسپ بات اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ انھوں نے عبادت کا اتنا وسیع تصور پیش کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ اب وہ ایسا کیوں اور کیسے کہہ رہے ہیں اپنے اس وسیع تصور کی تائید میں حافظ ابن کثیر، علامہ ابن قیم، مولانا فراہی کے ساتھ سید قطب شہید کے بیانات بھی پیش کئے ہیں ، وہی سید قطب جو کل تک ان کے محبوب تھے اور آج معتوب ہیں، حالانکہ مطعون تو علامہ ابن قیم اور مولانا فراہی کو بھی کرنا چاہئے تھا۔ انھیں صفحات میں عبادت اور اطاعت کو بھی ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے حوالے کے ساتھ۔
ایک لایعنی اور فضول بحث انھوںنے طاغوت حقیقی اور مجازی کی کرڈالی ہے۔ (صفحہ۷۸،۷۹، علم وادب ، جنوری؍ مارچ ۲۰۱۴ء)طاغوت طاغوت ہے چاہے حقیقی ہو یا مجازی اس ضمن میں انھوں نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس میں نہ حقیقی ہے نہ مجازی ۔ صاف اور کھری باتیں ہیں جو دماغ سے ہوتی ہوئی دل میں اترجاتی ہیں۔ ان کے متعلقہ عنوانات ’’طاغوت سے اجتناب‘‘ ، صفحہ ۱۴۶ تا ۱۴۹ اور ’’عبادتِ طاغوت‘‘ کے تحت صفحہ ۲۱۱ تا ۲۱۳ دیکھ لیے جائیں۔ بات بالکل صاف ہوجائے گی۔ اس عنوان کے تحت تو انھوں نے حرام کو حلال کرنے والے علماء وفقہاء کو بھی طاغو ت ثابت کیا ہے۔ اب مولانا سلطان اصلاحی صاحب غور فرما لیں وہ کس مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی تحریریں خود انہیں آئینہ دکھاتی ہیں۔ اسی طرح انھوں نے احبار ورہبان میں بھی حقیقی اور مجازی کا الجھاوا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کی وضاحت کے لیے متعلقہ عنوان ’’احبار ورہبان کی خدائی‘‘ صفحہ ۲۰۹ ، ۲۱۰ دیکھ لیے جائیں۔
انسان کی نفسیات میں یہ کمزوری موجود ہے کہ وہ جن مسلمہ عقائد ونصب العین کو صحیح سمجھ کر پورے شعور کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ مرغوبات نفس اور ترغیبات دنیا اس کے فکر وعمل کو رفتہ رفتہ بدل کر اسے بلند ترین مقام سے نیچے لے آتی ہیں اور صبرو استقامت کی صفات اس کا منھ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ شیطانی وسوسے اس کے پختہ مسلمات پر پے درپےحملے کرکے اس کو اعلیٰ مقصدسے ہٹاکر ادنیٰ چیزوں کی طرف مبذول کردیتے ہیں۔ آخرت میں کامیابی کے لئے رضائے الٰہی کے تصور پر دنیا کے مفادات غالب آجاتے ہیں اور نفس کی تاویلات اسے سمجھاتی ہیں کہ یہ تحریک کے لئے ضروری ہے۔ آدمی اگر ہمہ وقت چوکنا نہ رہے اور شروسواس الخناس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ نہ مانگتا رہے تو وہ اسے نیچے پہنچاتے پہنچاتے اسفل السافلین میں گرادیتی ہیں اور آدمی آرزوئوں اورتمنائوں کے نشین میں رہتے رہتے قبر تک پہنچ جاتا ہے۔ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُحَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014