جب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اقامت دین ہی ہر مسلمان کی زندگی کا تنہا مقصد ہے، جب اس فریضہ کی خاطر جد و جہد کرنا ہی اس کے ایمان کی اصل کسوٹی ہے، جب مومن کا اصل مزاج ہی یہ بتایا گیا ہے کہ باطل اور منکر سے اسے ابدی بیر ہے، اور اسے وہ دنیا کے کسی گوشے میں بھی موجود دیکھنا گوارا نہیں کرسکتا، اور جب اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اتباع قرآن کے عہد کا سب سے پہلا اور سب سے آخری مطالبہ ہی یہ ہے کہ مسلمان کی سعی و جہد اس وقت تک نہ رکنی چاہیے جب تک کہ دینِ حق کی کوئی ایک دفعہ بھی معطل ہو یا زمین کا کوئی ایک ذرہ بھی باطل کے پاؤں تلے دبا پڑا ہو—تو ہر مومن کو اپنے طور پر جد و جہد لازماً کرنی ہی پڑے گی، اور ہر حال میں، ہر دور میں، ہر ماحول میں اور ہر جگہ کرنی پڑے گی۔ امام مہدی جب آئیں گے تو وہ اپنا فرض ادا کریں گے نہ کہ میرا اور آپ کا۔ ان کی تمام دوڑ دھوپ صرف اپنے اس بوجھ کو اتارنے کے لیے ہوگی جو اللہ رب العالمین کی طرف سے خود ان پر ڈالا گیا ہوگا، کسی دوسرے کا بوجھ اپنے سر نہ لیں گے اور نہ لے سکیں گے۔ اس لیے ان کی سعی و جہد کسی بھی طرح دوسرے مدعی اسلام کے ادائے فرض کی قائم مقام نہ ہوگی۔ جس طرح وہ کسی دوسرے کی طرف سے نہ تو نمازیں پڑھیں گے، نہ روزے رکھیں گے، اسی طرح وہ کسی کی طرف سے اقامتِ دین کی جد و جہد بھی نہ کریں گے۔ آپ تو آج ہی سے ان کی جد و جہد پر تکیہ کرکے بیٹھ گئے ہیں، جب کہ ان کا وجود عالم تصور اور دنیائے آرزو سے باہر بھی نہیں آیا ہے۔ مگر یقین کیجیے کہ وہ اس وقت کے بھی کسی مسلمان کی طرف سے کوئی دینی فریضہ ادا نہ کریں گے جو ان کے زمانے میں موجود ہوگا۔ اس وقت بھی ہر مسلمان کو اپنا فرض ٹھیک اسی طرح خود ہی ادا کرنا ہوگا جس طرح کہ امام موصوف کو اپنا فرض۔
(فریضۂ اقامتِ دین)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2020