اس وقت ملک کو ایک بڑا معاشی بحران درپیش ہے۔اگست کے ختم پر جب مجموعی گھریلو پیداوار میں نمو (GDP Growth)کے اعداد وشمار سامنے آئے تو پورا ملک چونک گیا۔ چند برسوںمیں پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کا عزم رکھنے والے ملک کی شرحِ ترقی گھٹ کر صرف پانچ فیصد رہ گئی۔ ماہرین کی ایک جماعت کو پانچ فیصد پر بھی شبہ ہے۔جی ڈی پی کے حساب کی جس نئی سیریز کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ماہرین اُس کی صحت پر شبہ کرتے ہیں اور اس وجہ سے اندازہ یہ ہے کہ حقیقی جی ڈی پی گروتھ شاید پانچ فیصد سے بھی خاصی کم ہے۔زراعت میں ترقی کی شرح دو فیصد پر آگئی جبکہ مینوفیکچرنگ میں صفر کے قریب (0.6 فیصد) پہنچ گئی ہے۔بے روزگاری کی شرح چھ فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔شہری علاقوں میں شرح بے روزگاری آٹھ فیصد کے عددکو چھورہی ہے۔ یہ گذشتہ پینتالیس برسوںمیں بے روزگاری کی بدترین صورت حال ہے ۔ گاڑیوں کی صنعت اپنی تاریخ کے شدیدترین بحران سے دوچار ہے۔ فروخت میں چالیس فیصد تک گراوٹ آگئی ہے۔ٹاٹا موٹرز اور اشوک لےلینڈجیسی بڑی کمپنیوں نے اپنے پلانٹ بند کردیے ہیں۔ یہ صنعت ملک کی مینوفیکچرنگ جی ڈی پی کا تقریباً نصف (49فیصد) پیدا کرتی ہے اور تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ صرف گاڑیوں کی صنعت میں تقریباً بارہ تیرہ لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔عام اشیاے ضروریہ (بسکٹ، صابن، مصالحے وغیرہ) کی فروخت میں اضافہ کی شرح بھی حیرت انگیز حد تک کم ہوگئی ہے۔ہندوستان یونی لیور، برٹانیکا، اور ڈابر جیسی کمپنیاں تک سخت دبائو محسوس کررہی ہیں اور اپنا پروڈکشن کم کرنے پر مجبور ہیں ۔ملک میں تقریبا تیرہ لاکھ گھر اور رہائشی اپارٹمنٹ تعمیر ہونے کے بعد خالی پڑے ہیں اور خریدار موجود نہیں ہیں۔ تعمیراتی صنعت پر ڈھائی سو سے زیادہ دیگر صنعتیں منحصر ہوتی ہیں (اسٹیل اور سمینٹ سے لے کر پینٹ اور فرنیچر تک)۔ یہ ساری صنعتیں بری طرح متاثر ہیں۔
یہ چند حقائق، اس اندازے کے لیے کافی ہیں کہ معاشی بدحالی اور روزگار سے اچانک محروم ہوجانے کی صورت حال کس قدر تشویش ناک ہوتی جارہی ہے۔شہروں میں روزگار سے محرومی کے قصے گھر گھر عام ہوگئے ہیں۔ دیہاتوں میں بے روزگاری تو اس سے بھی سنگین ہے۔بازار سنسان پڑے ہیں اورانتہائی مصروف بازاروں اور شاپنگ مالوں میں بھی سناٹا ہے۔ز مینوںکی خرید و فروخت تقریباً بند سی ہوگئی ہے۔سونے کے دام آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ نتیجتاً سونے کی خرید و فروخت بھی متاثر ہے۔
ان معاشی حالات نے بلاشبہ ملک کے کروڑوں عوام کو متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر غریب عوام کی مشکلات بے حد بڑھ گئی ہیں اور اندازہ یہ ہے کہ یہ مشکلات آئندہ اور بڑھیں گی۔ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو اس سے بڑا خلفشار پھیلنے کا امکا ن ہے۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے اور ہر سال تقریباً دوکروڑ نئے نوجوان نوکریوں کی تلاش میں جاب مارکیٹ میں داخل ہورہے ہیں۔یہ تعداد آسٹریلیا کی جملہ آبادی کے مساوی ہے۔ ایسے ملک میں معاشی کساد بازاری اور اس کے نتیجے میںروزگار کے بحران کی صورت حال بہت خطرناک ہوتی ہے۔ ڈیموگرافی کے ماہرین اسے آبادیاتی آفت (demographic disaster) کہتے ہیں۔ نوجوانوں کی اِس بڑی تعداد کو روزگار میسر نہ آئے تو پھیلنے والی مایوسی بہت سے سماجی مسائل پیدا کرتی ہے اور نسل پرستی، فرقہ پرستی، خانہ جنگی، اور فتنہ و فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔
اس صورت حال کے اسباب: ماہرین کی آرا
اس صورت حال کے اسباب کیا ہیں؟ اس سوال پر ماہرین معاشیات دو خیموں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف حکومت اور اس کے حامی ہیں جو اسے کوئی بڑا بحران ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔گروتھ میں کمی کو وہ ’دَوری سست روی‘ (cyclical slowdown)باور کراتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں تیز رفتار ترقی اور سست رفتاری کے دَور (cycles)یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں ۔ اُن کے خیال میں، یہ بھی ایسا ہی ایک دَور یا سائیکل ہے اور کچھ وقت کے بعد تیزرفتار ترقی دوبارہ بحال ہوجائے گی۔ بعض لوگ اسے عالمی معاشی بحران سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔اُن کے مطابق، امریکہ میں معاشی بحران، امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ جس کے نتیجہ میں چینی مصنوعات کی فروخت میں کمی اور چین کی شرح ترقی میں گراوٹ، چین میں قرضوں کا بحران، جرمنی میں کساد بازاری، بریگزٹ وغیرہ جیسے عوامل کے نتیجہ میں ہمارے ملک کی برآمدات کم ہوئیں اور اس کا اثر معاشی ترقی پر پڑا۔ اس طرح یہ سرکاری بیانیہ صورتِ حال کے لیے صرف بیرونی عوامل کو ذمہ دارٹھہراتاہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ بیانیہ بہت کمزور اور بے بنیادہے۔ یہ بحران کوئی دَوری عمل نہیں ہے بلکہ ساختیاتی (structural)ہے،یعنی اس کا تعلق حکومت کی پالیسیوں سے ہے۔ عالمی بحرا ن کے باوجود تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی معیشتوں کی ترقی کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ خود ہمارے پڑوس میں بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ ۲۰۰۸ میں عالمی بحران اس سے کہیں زیادہ شدید تھا لیکن ہمارا ملک اس کے اثرات سے بچا رہا۔ اس بحران کی جڑ برآمدات سے متعلق نہیں ہے بلکہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ برآمدات میں کوئی غیر معمولی کمی نہیں آئی ہے۔ اس مسئلہ کا اصل تعلق، خود اندرونِ ملک طلب (demand ) کی کمی سے ہے۔ اس لیےعالمی بحران کا حوالہ دے کر بچا نہیں جاسکتا۔
دوسرااہم تجزیہ وہ ہے جو اپوزیشن سے متعلق ماہرین پیش کررہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور اہم ترین تجزیہ وہ ہے جو سابق وزیر اعظم اور ممتاز ماہر معاشیات جناب منموہن سنگھ نے اپنے ویڈیو بیان میں کیا ہے۔ اس تجزیے میں اس بحران کی ساری ذمہ داری بی جے پی حکومت کے عاجلانہ اقدامات خصوصاً نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے غیر حکیمانہ اور عاجلانہ نفاذ پر ڈال دی گئی ہے۔اگرچہ سابق وزیر اعظم نے معیشت کے احیا کے لیے جو پانچ نکاتی پروگرام تجویز کیا ہے، اُس کی بعض باتیں نہایت معقول ہیں(ان کا جائزہ ہم اگلی سطروں میں لیں گے) لیکن جس طرح اِس بحران کی مکمل ذمہ داری موجودہ حکومت کے چند ناعاقبت اندیش فیصلوں اور اقدامات پر ڈال دی گئی ہے،اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سنجیدہ معاشی تجزیے سے زیادہ ایک سیاسی بیان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوٹ بندی نہایت نقصان دہ فیصلہ تھا اور اس نے ملک کی معیشت کو شدید زک پہنچائی۔ اسی طرح جی ایس ٹی کو جس عاجلانہ اور بے ہنگم طریقہ سے نافذکرنے کی کوشش کی گئی اس سے بھی معیشت کا ہر شعبہ متاثر ہوا۔ لیکن اِن عوامل نے بحران کی صرف شدت بڑھائی ہے۔ اس بحران کا اصل سبب وہ سرمایہ دارانہ پالیسیاں ہیںجو عالمی استعمار کے دباو میں اختیار کی جاتی رہی ہیں، جو سابقہ حکومتوں کے زمانے میں اختیار کی گئیں اور نئی حکومت نے انہیں اور زیادہ جوش سے اور عالمی استعمار اور دیسی سرمایہ داروں کے ساتھ اور گہری وفاداری کے جذبہ سے آگے بڑھایا۔ ہم ان پالیسیوں کا مختصر تجزیہ کریں گے اور یہ واضح کریں گے کہ اسلام کی معاشی تعلیمات کیسے ان مسائل کو حل کرسکتی ہیں؟ اور اہل اسلام کا کیا رول ہونا چاہیے؟
بحران کا پہلا سبب: غریب دشمن معاشی پالیسیاں
گذشتہ کئی برسوں سے ہمارے ملک میں جو پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں، اُن کا ہدف ملک کے عوام سے زیادہ چند گنے چنے سرمایہ داروں کا مفاد رہا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں نصف سے زیادہ آبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ حکومتوں نے زراعت سے مجرمانہ غفلت کی مسلسل پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ اس لیے کہ زراعت سے سرمایہ دار کوفوری کوئی فائدہ نہیں ہے۔ روزگار کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ چھوٹے کاروبار(retail)ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری، بڑے کارپوریٹ اداروںکے داخلے اور آن لائن کاروبار کے فروغ کی پالیسیوں نے اس شعبے میں بھی روزگار کے شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔ تیسرا بڑا سیکٹر مینوفیکچرنگ کا ہے جو مزدوروںکی ایک بڑی تعداد کو روزگارفراہم کرتا ہے۔یہ سیکٹر بھی بری طرح زوال کا شکار ہے۔ ملک کے بڑے کارپوریٹ اداروں کو زیادہ فائدہ سروس سیکٹر اور حکومت کے بڑے بڑے انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں نظر آتا ہے جن کے کنٹریکٹ سرکار سے سانٹھ گانٹھ کرکے وہ آسانی سے حاصل کرلیتے ہیں۔حکومت بھی انہی شعبوں پر توجہات مرکوز کیے ہوئے ہے۔ان شعبوں میں بڑی تعداد میں عام لوگوں کو روزگار نہیں ملتا۔ اس سے سرمایہ داروں کو ضرورفائدہ ہوتا ہے، جی ڈی پی بھی بڑھتا ہے، لیکن روزگار پیدا نہیں ہوتا۔ایک سو چالیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں حکومت کی توجہ ان شعبوں (labour intensive sectors )پرہونی چاہیے جو زیادہ روزگار پیدا کرتے ہیں۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں غیر رسمی معیشت (informal economy)کا بڑا رول ہے۔ ملک کی معیشت کا بڑا حصہ اسی پر مبنی ہے اور یہی بڑے پیمانہ پر روزگار بھی پیدا کرتا ہے۔ غیر رسمی معیشت کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے معیشت عالمی مالیاتی بازاروں، عالمی کساد بازاری وغیرہ کے اثراتِ بد سے محفوظ رہتی ہے۔ لیکن بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے غیر رسمی زمرے کو کمزور کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرف غربت اور بے روزگاری بڑھی اور دوسری طرف پوری معیشت عالمی سرمایہ داروں کے چنگل میں چلی گئی اور عالمی مالیات کے اتار چڑھائو سے تیزی سے متاثر ہونے لگی۔
انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں معیشت کی ترقی کے باوجود امیری غریبی کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔اس سال کے اوائل میں آکسفام نے جو اپنی رپورٹ جاری کی تھی اس کے مطابق ایک فیصد امیر ترین لوگ اس وقت ملک کی دولت کے تین چوتھائی حصہ پر (73فیصد) قابض ہیں۔امیرترین ایک فیصد آبادی کا یہ حصہ گذشتہ سال 58 فیصد تھا۔ یعنی ایک سال میں ان امیروں کی دولت میں اکیس لاکھ کروڑ روپیوں کا اور ملک کی دولت میں ان کے حصہ میں پندرہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بالمقابل ملک کی پچاس فیصد غریب تر آبادی یعنی ۶۷ کروڑ لوگوں کے پاس ملک کی دولت کا صرف دو فیصد حصہ ہے۔ہمارا ملک دنیا میں ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں معاشی نابرابری سب سے زیادہ ہے اور اس نابرابری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دس برسوںمیں دولت کی غیر معمولی پیداوار کے باوجود غریبی کم کرنے اور عام انسانوں کے مسائل حل کرنے میں اس سے مدد نہیں ملی ہے۔
خدا کا رزق تو ہرگز زمین پر کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے، مگر یہ بانٹنے والے
جب عام لوگ روزگار سے محروم ہوجاتے ہیں تو ان کی قوتِ خرید کم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بازار میں طلب کم ہوجاتی ہے۔ دولت صرف چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میںمرکوزہوجائے تو عام لوگ نہ گاڑیاں خرید سکتے ہیں اور نہ گھر بناسکتے ہیں بلکہ بسکٹ اور صابن کی خریدمیں بھی کٹوتی کرنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بازار ٹھنڈے پڑجاتے ہیں اور کساد بازاری کی فضا عام ہوجاتی ہے۔اس وقت کے بحران کا خلاصہ یہی ہے۔ یہ بات سب لوگ مان رہے ہیں کہ اس بحرا ن کا تعلق طلب سے ہے۔ طلب بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دار کے ساتھ عام آدمی کے ہاتھ میں بھی پیسہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جناب منموہن سنگھ نے اپنی تجاویز میں دوسری اور چوتھی تجویز عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھانے سے متعلق دی ہے یعنی یہ تجویز کہ زرعی معیشت اور دیہی صارفیت کو ترقی دی جائے اوریہ کہ اُن صنعتوں ( labour intensive)کو فروغ یا جائے جو زیادہ لوگوں کو روزگار دے سکتی ہیں۔
اسلام ترقی کا قائل ہے لیکن کچھ شرطوں کے ساتھ۔ جس طرح کمیونزم کا نعرہ مساوات ہے اور کیپیٹلزم کا نعرہ آزادی اور گروتھ ہے، اسلام کا نعرہ عدل ہے۔عدل میں آزادی، مساوات اور گروتھ بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ قدریں غیر مشروط نہیں ہیں بلکہ عدل کے تقاضوں کے ماتحت ہیں۔ نظام سرمایہ داری،سرمایہ اور معاشی ترقی کو آگے اور انسان کو پیچھے رکھتا ہے۔جبکہ اسلام کے نزدیک انسان اصل ہے اور سرمایہ اور ترقی محض انسان کی خدمت کے لیےہے۔ چنانچہ ترقی اور گروتھ سے پہلے انسانیت اور اس کے تقاضے مقدم ہیں۔
باری تعالی کا ارشاد ہے۔ مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ(الحشر: 7 )’’ ان آبادیوں کے جن اموال کو اللہ نے اپنے رسول کو عطا کیا ہے وہ اللہ، اس کے رسول اور رسول کے قرابت داروں، نیز یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کے لیے مخصوص ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ مال ودولت تمہارے صاحب ثروت لوگوں ہی کے درمیان چکر کھاتی رہ جائے۔‘‘ گویا معاشی پالیسی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ مال دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرے بلکہ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف جائے۔اسلامی شریعت نے اس کے لیےسود کی حرمت، زکوۃ کی فرضیت اور وراثت کے احکام جیسے طریقے اختیار کیے ہیں ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان طریقوں کے علاوہ وہ ٹیکسوں کا نظام، خرچ اور رعایتوں کا نظام اور عمومی ترقیاتی پالیسی کو اس طرح تشکیل دے کہ مال امیروں سے غریبوں کی طرف جائے اور ممکنہ حد تک وسائل اور دولت کی مساویانہ تقسیم ہو۔ اشتراکیت کی طرح مساوات کا غیر فطری تصور اسلام نہیں رکھتا لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ پالیسی اقدامات کے ذریعہ ممکنہ حد تک نابرابری کم کی جائے۔
پالیسی کے بعد بھی جو غربت رہ جائے اس کے ازالے کے لیے اسلام انفاق اور صدقات کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور زکوٰۃ کا مہتم بالشان نظام دیتا ہے۔ زکوٰۃ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ غریب لوگوں کے پاس بھی پیسہ رہے اور وہ بھی خرچ کرتے رہیں۔ رمضان میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب لوگ بھی کپڑے خریدتے ہیں۔عید کا سامان خریدتے ہیں۔ اس طرح انفاق فی سبیل اللہ اورزکوۃ کا نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ طلب یعنی ڈیمانڈ ہمیشہ باقی رہے اور اس کے نتیجہ میں معیشت میں کساد کبھی نہ آنے پائے۔زکوۃ کا نظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس کے اندر خود، نابرابری کو کم کرنے اور آبادی کے تمام حصوں کی قوت خرید بڑھانے کی معجزانہ معاشی صلاحیت موجود ہے۔چند سال پہلے (2013میں) مشہور فرانسیسی ماہر معاشیات تھامس پکیٹی (Thomas Piketty)نے اپنی ایک کتاب کے ذریعہ معاشیات کی دنیا میں ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ ان کی کتاب ’سرمایہ اکیسویں صد ی میں‘ (Capital in the Twenty First Century)بہت مشہور ہوئی اور کئی سال تک دنیا میں سب سے ز یادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی رہی۔ اس کتاب میں پکیٹی نے دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی نابرابری کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اُن کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سرمائے پر منافع کی شرح (rate of return on capital)ملک کی معاشی ترقی کی شرح (rate of growth)سے بڑھ جاتی ہے تو دولت چند ہاتھوں میں، یعنی ایک فیصد اور دس فیصد امیر ترین لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہونے لگتی ہے۔ منافع کی شرح اور معاشی ترقی کی شرح میں یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا، ارتکاز دولت کی رفتار اتنی ہی تیز ہوگی۔پکیٹی نے عدم مساوات کے عالمی مسئلہ کاجو حل تجویز کیا ہے، وہ زکوۃ ہی ہے۔ اس نے تجویز کیا ہے کہ آمدنی پر مروج ٹیکسوں کے علاوہ، جملہ اثاثوں (assets)پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ منافع کا کچھ حصہ کم ہو اور شرح منافع، شرح ترقی سے قریب تر اور پھر کم تر ہوجائے۔ یہی کام زکوۃ کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پکیٹی نے اثاثوں پر ٹیکس کی جو شرح تجویز کی ہے وہ بھی زکوۃ کی شرح سے قریب تر ہے۔ پکیٹی کی تجویز کردہ شرح دو فیصد ہے جبکہ زکوۃ ڈھائی فیصد ہوتی ہے۔
بحران کا دوسرا سبب: سود پر مبنی معیشت
اس بحران کا دوسرا سبب معیشت کا سودی قرضوں پر انحصار ہے۔کساد بازاری اور ترقی کے ادوار، سودی معیشت کی لازمی خصوصیت ہے۔ جدید سودی سرمایہ دارانہ معیشت پر سود اور سودی شرحوںکا بہت ہی جابرانہ کنٹرول ہوتا ہے۔ پوری معیشت سود کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ سودی قرضے دراصل، نظام سرمایہ داری کی مکروہ فریب کاریوں کا مظہر ہیں۔ یہ نظام لوگوں کے اندر آمدنی سے زیادہ، خرچ کرنے(consumption)کی لامحدود ہوس پیدا کرتا ہے۔ اور خرچ کرنے کے لیے پیسہ نہ ہوتو سودی قرضوں کا جال بچھاتا ہے ۔جب بنکوں کے پاس رقومات جمع ہوجاتی ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ قرض دینا چاہتے ہیں۔ کم شرح سود پر وہ آسان شرطوں پر قرضے بانٹنے لگتے ہیں۔ لوگ قرض لے کر مصنوعات خریدتے ہیں۔ نتیجہ میں طلب غیر فطری طور پربڑھ جاتی ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لیے کمپنیاں قرض لے کر پروڈکشن بڑھاتی ہیں۔ اس طرح ترقی کا دور چلتا ہے۔یہ دور کچھ ہی عرصہ میں اپنے کمال کو پہنچتا ہے اور پھر سود اپنے کرشمے دکھانا شروع کر تا ہے۔ اور اس کے بعد، اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر،ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔
ڈیمانڈ بڑھنے کی وجہ سے اشیا مہنگی ہونے لگتی ہیں۔ صرف اور پروڈکشن بڑھنے سے قرضوں کا ڈیمانڈ بڑھ جاتا ہے۔جب لوگ زیادہ خرچ کرنے لگتے ہیں تو بچت کم ہوجاتی ہے اور بچت میںکمی کی وجہ سے بنکوں کے پاس سرمائےکی کمی ہونے لگتی ہے۔ سرمائے (بچت) کی کمی اور قرضوں کی طلب میں اضافہ،سود کی شرحیں بڑھنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
سود کی شرح بڑھتے ہی معکوس عمل شروع ہوجاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سود کی بڑھی ہوئی شرح لوگوں کو قرضے لینے اور خرچ کرنے سے روکتی ہے۔ مایوسی اور اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔نتیجتاً لوگ بچت کرنے لگتے ہیں۔ ڈیمانڈ کم ہوجاتی ہے۔ کمپنیوں کا پروڈکشن گھٹ جاتا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوجاتے ہیں۔یہ کساد بازاری کا دور(recession)کہلاتا ہے۔یکے بعد دیگرے خوشحالی اور کساد بازاری کے یہ چکر سود کے ڈائنامکس کا لازمی حصہ ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ملٹن فرائڈ مین کا مقولہ اسلامی معا شیات کے حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے کہا تھا:
’’امریکی معیشت کے اس بے نظیر غلط رویہ کا سبب کیا ہے؟ فوری جواب جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا سبب سودی شرحوں کا غلط رویہ ہے۔‘‘
زیادہ منافع دینے والی صنعتیں بھی ہر طرح کے حالات میں زیادہ منافع نہیں دیتیں ۔چنانچہ خاص طور پرکساد بازاری کے دور میں متوقع منافع، شرح سود سے کم ہوتوکوئی تاجر، تجارت کا رسک لینا نہیں چاہتا۔ نتیجتاً زیادہ نفع کے انتظارمیں سرمایہ بے کار پڑا رہتا ہے۔ اس کیفیت کو Stagflation کہتے ہیں۔ یہ کیفیت بھی سودی نظام کا لازمی خاصہ ہے۔ اس کے نتیجہ میں کساد بازاری کی کیفیت اور شدید ہوجاتی ہے اور پوری معیشت پر سکتہ سا طاری ہوجاتا ہے۔
گذشتہ دس بارہ برسوں کی ہمارے ملک کی معاشی تاریخ بھی اوپر بیان کیےگئے ڈائنامکس کی تائید کرتی ہے۔ جب معیشت ترقی کررہی تھی تو بنکوں نے بڑے پیمانے پر قرضوں کی ہوس پیدا کی۔ قرضوں کا ڈیمانڈ بڑھا تو مالیاتی اداروں نے نئے نئے قرض خواہ تلاش کرنے شروع کیے ۔بینکوں نے سود کے لالچ میں انہیں اپنی سکت سے زیادہ قرضے لینے پر آمادہ کیا ۔پھربنکوں نے مالیاتی اداروں(shadow banking) کے واسطے سے بھی قرضے بانٹنے شروع کیے۔چنانچہ گذشتہ دس برسوں میں ہمارے ملک میں گھریلو قرضے آٹھ لاکھ کروڑ سے بڑھ کر اکیس لاکھ کروڑ ہوگئے۔اب گھریلو قرضے جی ڈی پی کا گیارہ فیصد ہیں جو ہندوستان جیسے غریب ملک کے لیے ایک غیر معمولی بات ہے۔یہ بات مسلم ہے کہ گھریلو قرضے جب بڑھتے ہیں تو کچھ عرصہ بعد کساد بازاری پیدا ہوجاتی ہے۔
جب گروتھ متاثر ہوئی تو بینکنگ سیکٹر اس کی تپش کی زد میں آنے لگا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے بنک کا نظام دنیا کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ خراب قرضے(bad debts) بڑھتے بڑھتے گیارہ لاکھ کروڑ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔غیر کارکرداثاثوں non-perfoming Assets( وہ بنک قرضے جن کی واپسی مشکل ہو) کے اعتبار سے اب ہمارا ملک یونان اور اٹلی جیسے ملکوں کے قریب پہنچ چکا ہے۔ )یہ وہ ممالک ہیں جن کا دیوالیہ ہوچکا تھا اور بڑے یورپی ملکوں نے یورپی یونین کی معیشت کو بچانے کے لیے ان کو بیل آوٹ کیا تھا(اس کے نتیجہ میں بنکوں کی جانب سے قرض جاری کرنے کی صلاحیت کم ہوگئی۔ سودی نظام، سودی قرض کے بغیر چل نہیں سکتا۔ چنانچہ کمپنیوں کو قرض ملنا بند ہوگیا تو انہوں نے پروڈکشن روک دی۔۔ خریدار بھی کنزیومر لون کے ذریعہ خرید کے عادی ہوگئے ہیں۔ لون ملنا مشکل ہوگیا تو خرید بھی متاثر ہوگئی۔ یہ بھی معاشی سست روی کا ایک اہم سبب ہے۔ اب حکومت ٹیکس دہندگان کی محنت کی گاڑھی کمائی کے تقریباً پچاس ہزار کروڑ روپے بنکنگ کے نظام میں داخل کررہی ہے اور سرکاری بنکوں کے انضمام اور انہیں سرکاری خزانہ سے پیسہ فراہم کرکے اس بحران پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے اور خود سرکاری خسارہ کی بھرپائی کے لیے ریزرو بنک کے ریزرو سے پونے دو لاکھ کروڑ حاصل کرلیے ہیں۔
اسلام نے اسی لیے سود پر سختی سے پابندی لگائی ہے۔قرآن مجید نے بہت واضح الفاظ میں سود سے منع کیا ہے:
یاایُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ وَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْن (آل عمران۱۳۰، ۱۳۱)
’’اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
قرآن مجید یہ بھی کہتا ہے کہ سود کے نتیجہ میں مال سے برکت ختم ہوجاتی ہے اور مال چاہے بظاہر بڑھتا ہوا محسوس ہو، لیکن اصل میں کم ہونے لگتا ہے۔
يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (البقرہ ۲۷۶)
’’اور اللہ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اللہ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا(‘‘
سود کی حرمت کا اصول، ایک متبادل نظام کو جنم دیتا ہے جس کی بنیاد نفع ونقصان میں شرکت پر( equity based ) ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ دار اور تاجر، دونوں تجارت کے خطر ے(risk)میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ تجارت اچھی ہوتی ہے تو دونوں کو متناسب فائدہ ہوتا ہے اور جب تجارت گھاٹے کا شکار ہوتی ہے تو سرمایہ دار بھی نقصان اٹھاتاہے۔ اس متبادل مالیاتی نظام کے کئی فائدے ہیں۔
سارا کاروبار نفع ونقصان میں متناسب شرکت کی بنیاد پرہوتاہے اس لیے اُس عدم استحکام (instability) یا کساد بازاری وترقی کے چکر وں کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا جو سودی نظام میں آتے رہتے ہیں۔ مالیاتی نظام کے مختلف افعال،مثلاًمالیہ کی فراہمی، اشیاء کا پروڈکشن اور ان کا صرف، بچت وغیرہ میں ہم آہنگی پیداہوجاتی ہے اور بازار کی ضرورت کے مطابق ان میں توازن (equilibrium)قائم رہتا ہے۔چونکہ کساد بازاری اور ترقی کے چکر نہیں چلتے اس لیے یکایک روزگار میں اضافہ اور یکایک روزگار میں گراوٹ جیسی کیفیات بھی پیدا نہیں ہوتیں ۔ اسی طرح قیمتوں میں توازن رہتا ہے اوریکایک قیمتیں نہیں بڑھتیں۔تاجر کو متعین شرح پر سودادا کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ حقیقی نفع میں سرمایہ دار کو شریک کرتا ہے اس لیے کم شرح ِمنافع کی تجارتیں بھیچلتی ہیں۔ فلاحی کاموں کے لیے بھی سرمایہ دستیاب رہتا ہے۔ اور اگر کسی وقت تجارت زیادہ منافع نہیں دے پارہی ہے تب بھی تجارت جاری رہتی ہے اورسرمایہ بے کار نہیں رہتا۔ اس طرح سرمایہ کے بھر پور استعمال کی وجہ سے’کسادافراطِ زر‘ (stagflation)کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
چونکہ ملک کے کروڑوں بچت کار نفع میں شریک ہوتے ہیں اس لیے اگر تاجر نے زیادہ نفع کمایا تو ان بچت کاروں کو بھی اسی تناسب سے زیادہ منافع ملتا ہے۔ یوں دولت اربوں بچت کاروں سے چند تاجروں کو منتقل نہیں ہوتی۔ اور ویسی عدم مساوات پید انہیں ہوتی جیسی نظام سرمایہ دراری میں نظر آتی ہے۔نفع میں شریک ہونے کی وجہ سے بچت کاروں (جو آبادی کا بہت بڑا حصہ ہوتے ہیں) کی دولت بڑھتی ہے۔ ان کی قوت صرف بڑھتی ہے جس سے اشیاء کا ڈیمانڈ بڑھتا ہے۔ اور پوری معیشت ترقی کرتی ہے۔ اس طرح سود کا خاتمہ معاشی ظلم، استحصال اور نا برابری کے خاتمہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
موجودہ معاشی بحران پر ایک ٹی وی مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے سابق وزیر ملند دیورا نے بہت واضح طور پر کہا کہ شراکت داری (equity finance) کی بنیاد پر جو لوگ کاروبار کر رہے ہیں ان کی تجارتیںاس وقت سب سے زیادہ محفوظ ہیں اور ان کے کاروبار میں سست روی کے آثار بھی بہت کم ہیں۔ جو کاروبار بنکوں اور قرضوں پر منحصر ہیں، وہی متاثر ہیں۔
بحران کا تیسرا سبب:
کرپشن، سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ اور وقتی سیاسی مفادات کی بنیاد پر پالیسی سازی کی لعنت۔
مذکورہ دونوں اسباب کا تعلق ایک اور بڑے سبب سے ہے یعنی کرپشن اور سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کا ناپاک گٹھ جوڑ۔ سرمایہ دار اپنے عارضی فائدہ کی خاطر حکومتوں پر غلط پالیسیوں کے لیے اپنے سرمایہ کی طاقت سے دباو ڈالتے ہیں۔ حکومتیں ا ن کے لیے پالیسیاں بھی بناتی ہیں اور سرکاری بنکوں سے ان کو بھاری قرضے بھی دلاتی ہیں۔
سترہویں جنرل الیکشن میں تقریباً پچاس ہزار کروڑ روپیوںکا خرچ ہوا جو گذشتہ انتخابات کے خرچ کا دوگنا تھا۔ اس میں سے پچاس سے ساٹھ فیصد خرچ صرف ایک جماعت نے کیا جو بعد میں دوبارہ برسر اقتدار آگئی۔ اس خرچ کا ایک بڑا حصہ اُس بدنام زمانہ اسکیم سے حاصل ہوا جو سابق وزیر خزانہ آنجہانی ارون جیٹلی نے تین سال پہلے شروع کی تھی اورجسے الیکٹورل بانڈ کہا جاتا ہے۔ الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کو بے نامی عطیات دے سکتے ہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اس کے بارے میں بہت صحیح کہا کہ یہ کرونی کیپٹلزم کو قانونی جواز فراہم کرنے کا عمل ہے۔
اس وقت جن خراب قرضوں bad debts کی وجہ سے ملک کا سارا بنکنگ نظام بحران کا شکار ہے، آر بی آئی کے مطابق ان کا چوتھائی حصہ صرف بارہ کمپنیوں نے لے رکھاہے(ان کمپنیوں کے نام ظاہر نہیں کیےگئے) ۔بھاری نادہندہ قرضوں میں کمپنیاں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں اور حکمرانوں کے دباو پر بنک انہیں مزید قرضے جاری کردیتے ہیں۔ ابھی اس ہفتہ پنجاب اینڈ مہاراشٹر بنک کا جو بحران سامنے آیا، اس میں یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ بنک نے اپنے جملہ اثاثوں کا تہتر فیصد یعنی ساڑھے چھ ہزار کروڑ روپے، صرف ایک تعمیراتی کمپنی کوقرض میں دے رکھا تھا۔قرض ڈوب گیا اوراب غریب عوام کی زندگی بھر کی کمائی پر مبنی دس ہزار کروڑ سے زائد رقم بنک میں پھنسی ہوئی ہے۔
کرونی کیپٹلزم(crony capitalism) اس وقت ساری دنیاکا نہایت پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ کرونی کپٹلزم اُس کرپٹ نظام کو کہتے ہیں جس میں بزنس، بازار کی آزاد قوت کے ذریعہ نہیں چلتے بلکہ سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ اور اپنے حق میں نامناسب فیصلے کراکے ترقی کرتے ہیں۔ کرونی کیپٹلزم انڈیکس کے اعتبار سے ہمارا ملک دنیا کے بدترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ اور موجودہ کساد بازاری کا ایک سبب یقیناً وہ صورت حال ہے جسے رگھو رام راجن نے مڈل انکم ٹریپ یا درمیانی آمدنی کا جال (middle income trap)کہا ہے اور جسے ترقی پذیر ملکوں کی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قراردیا ہے۔ یعنی جب ممالک ترقی کرتے کرتے درمیانی آمدنی تک پہنچ جاتے ہیں تو سیاستدانوں کی مدد سے چند بڑے سرمایہ دار تمام تجارتوں پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند بڑی کمپنیوں کے آپسی گٹھ جوڑ(oligarchy)اور ان کی سیاستدانوں سے ساز باز کے نتیجہ میں نئی کمپنیوں کے لیے ترقی کے مواقع باقی نہیں رہتے اور اس سے گروتھ کم ہوجاتی ہے اور ترقی رک جاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہمارے ملک کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ چند بڑے کارپوریٹ، دیگر تاجروں اور پوری غیر رسمی معیشت کو راستہ سے ہٹاکر ملک کی معیشت کے سیاہ و سفید کے مالک بن رہے ہیں اور حکومتیں ان کے اشاروں پر کام کررہی ہیں۔
بھاری عطیات دینے والے سرمایہ داروں کے مفاد کے بعد پالیسی سازی کی دوسری اہم بنیاد، سیاستدانوں کے اپنے حقیر اور وقتی سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ پالیسی بناتے ہوئے اورفیصلے کرتے ہوئے عوام کے مفا د کو نہیں بلکہ اپنی فوری سیاسی اغراض کو پیش نطر رکھا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں سیاسی انتقام، بلیک میل اور ٹیکس ٹیررزم کی جو سیاست کھیلی جارہی ہے، اس نے بھی مارکیٹ کے اعتماد کو بری طرح مجبور کیا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے فیصلوں کی پشت پر بھی معاشی محرکات کم اور سیاسی محرکات زیادہ تھے۔حقیر سیاسی مفاد کی بنیاد پر پالیسی سازی کی سب سے نمایاں اور تازہ ترین مثال کشمیر کے موجودہ حالات اورکشمیر سے متعلق کیے گئے فیصلے ہیں۔
جموں کشمیر نے گذشتہ چند برسوںمیں بہت تیز ترقی کی تھی۔خاص طور پر ۲۰۱۶ میں ترقی کی رفتار سترہ فیصد سے متجاوز تھی۔غیریقینی حالات کی طویل تاریخ کے باوجود جموں کشمیر کی فی کس آمدنی بہار اور یوپی جیسی ریاستوں سے زیادہ ہے۔ شرحِ غربت، قومی اوسط سے کافی کم ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے اعتبار سے تو یہ ریاست، گجرات اور کرناٹک جیسی ترقی یافتہ ریاستوں سے بھی آگے ہے۔انڈیا ٹوڈے کے ریاستوں کی صورت حال پر سروے State of the States Surveyکے مطابق ریاست کئی پہلووں سے ملک میں ممتاز مقام کی حامل بن چکی تھی۔مثلاً صحت کی صورت حال کے اعتبار سے جموں کشمیر ملک کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ریاست تھی۔انفراسٹرکچر کے اعتبار سے ۲۰۱۷ میں ملک کی چھٹی، تعلیم کے اعتبار سے آٹھویں سب سے ترقی یافتہ ریاست تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست میں معاشی ترقی کے غیر معمولی مواقع موجود ہیں۔اگر ریاست کو ترقی کے مواقع دیے جاتے تو ریاست اور ریاست کے عوام کا بھی بھلا ہوتا اور پورے ملک کی معیشت کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا۔ لیکن حالیہ سیاسی فیصلے ٹھیک اس وقت کیے گئے جب ریاست میں سیب کی فصل تیار تھی،سیاحت کا موسم شباب پر تھا اور اکتوبر تک ہوٹلوں کی بکنگ ہوچکی تھی۔سیب کی فصل اب پیڑوں پر سڑرہی ہے۔ جموں کشمیر ملک کی سیب کی پیداوار کا دوتہائی پیدا کرتا ہے۔ ساڑھے چھ ہزار کروڑ کی آمدنی صرف سیب کی برآمدات سے ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ملک کو بر آمدات بڑھانے کی سخت ضرورت ہے، اندازہ یہ ہے کہ یہ پوری فصل ضائع ہوجائے گی۔ بارہ لاکھ سیاح جو ریاست کا ہر سال دورہ کرتے ہیں، نہیں کریں گے۔ ریاست کی معیشت کا چالیس فیصد سروس سیکٹر پر منحصر ہے جو پوری طرح غیر کارکرد ہوچکا ہے۔
اس واقعہ سے ہمارے خراب معاشی حالات کا ایک اور سبب سامنے آتا ہے۔ حکمرانوں کے تنگ نظر وقتی مفادات، جو ہمیشہ عوام کے مفادات پر مقدم رہتے ہیں۔اس وجہ سے سیاست ہمیشہ معیشت پر حاوی رہتی ہے۔یہ مسائل پھر ایک دفعہ پوری قوت سے یہ حقیقت آشکار کررہے ہیں کہ جب تک حکمرانوں میں خدا ترسی اور جواب دہی کا احساس پیدا نہیں ہوتا، اس وقت تک حقیقی عدل ممکن نہیں ہے۔
ہماری ذمہ داریاں
یہ حالات اسلام کے نظام عدل و رحمت کی طرف متوجہ کرنے اور اسلام کی معاشی تعلیمات کی برکتوں سے اہل ملک کو روشناس کرانے کا سنہری موقع فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے تحفظ و دفاع کی کوششوں تک محدود رہنے یا وقتی مسائل میں الجھے رہنے کے بجائے،اعتماد و حوصلہ کے ساتھ بحیثیت خیر امت اپنی اصل ذمہ داری کی طرف متوجہ ہوں تو موجودہ حالات کئی پہلوو ں سے اسلام کی دعوت کے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ معاشی صورت حال کے اسباب اور اس کے حل کی بحث میں ہر سطح پر ہم پورے اعتماد اور قوت کے ساتھ حصہ لیں۔ عام لوگوں پر بھی یہ بات واضح کریں کہ ان مسائل کا کوئی شارٹ کٹ حل موجود نہیں ہے۔
اس مسئلہ کا فوری اور آسان حل اگر ممکن ہے تو وہ بس یہ ہے کہ حکومت غریب پرور پالیسیوں پر توجہ دے۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں، غریب عوام کو بہتر ہزار روپے سالانہ کم سے کم آمدنی کا وعدہ کیا تھا۔ اب کانگریس کے قائدین بھی اس تجویز کو نہیں دہراتے۔ حالانکہ اس طرح کی فلاحی اور سماجی اسکیموں کے ذریعہ ہی طلب بڑھائی جاسکتی ہے اور معیشت کو ترقی کے راستہ پر لایا جاسکتا ہے۔
قدرے طویل المیعاد حل یہ ہے کہ حکومت سرمایہ دارانہ استعمار کے دباو میں جو پالیسیاں بنارہی ہے، اُس سے باز آئے۔ دستور ہند کا وژن ایک ویلفیر اسٹیٹ کا وژن ہے۔ جب تک اس وژن کے مطابق پالیسیاں نہیں بنیں گی اور گروتھ کے ساتھ مناسب تقسیم پر توجہ نہیں دی جائے گی، اس طرح کے حالات آتے رہیں گے۔
لیکن اصل اور دیر پا حل یہ ہے کہ سود کے خاتمہ، قمار کے خاتمہ، زکوۃ کے نظا م جیسی اصلاحات پر ملک کے عوام سنجیدگی سے غور کریں۔ یہ خالق کائنات کی تجویز کردہ تدابیر ہیںاور حالات زمانہ نے متعدد بار یہ واضح کردیا ہے کہ ان تدابیر کو اختیار کیے بغیر جدید معیشت کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانا ممکن نہیں ہے۔ کرپشن جیسے مسائل کا خاتمہ اور مذکورہ تدابیر کی صحیح اسپرٹ کے ساتھ عمل آوری خدا ترسی اور خدا کے سامنے جواب دہی کے احساس کا تقاضہ کرتی ہے۔
ان باتوں کو زبانی زیر بحث لانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اہل اسلام، اسلام کے معاشی، تجارتی اور مالیاتی ماڈل بھی ممکنہ حد تک سامنے لانے کی کوشش کریں۔ملک کے مختلف مقامات پر تحریک اسلامی کے افراد بلاسودی مائکروفینانس کے جو مختلف تجربات کررہے ہیں وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ جو رپورٹیں آرہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے عام لوگ بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ماڈل کسانوں کی خودکشیوں کو روک سکتا ہے۔غریب تاجروں اور چھوٹے صنعتکاروں کو سودی قرضوں کے چنگل میں لامتناہی طور پر پھنسنے سے روک سکتا ہے۔ سودی قرضوں سے انہیںنجات دلاکر،چھوٹی تجارتوں میں تیزرفتار گروتھ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یقیناً مائکرو فینانس ایک بہت ہی چھوٹا معاملہ ہے اور پوری معیشت پر اثرانداز ہونے میں اس سے کوئی مدد نہیں مل سکتی لیکن اس ممکن العمل تجربہ سے اسلامی مالیات کا ایک چھوٹا نمونہ ملک کے سامنے آسکتا ہے اور لوگوں پر قرآن مجید کی اس بات کی عملی شہادت ہوسکتی ہے کہ سود سے پاک معاشی نظام خیر و برکت کا اور معیشت میں افزائش و ترقی کا باعث ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بلاسودی مائکروفینانس کی اس مہم میں امت کے اور طبقات بھی حصہ لیں اور اس سے برادران وطن بھی بڑے پیمانہ پر مستفیدہونے لگیں۔ خاص طور پر دیہاتوں اور کسانوں میں اسے فروغ دیا جائے۔ اگر یہ ہوسکا تو یہ اہل اسلام کی ملک کے لیے بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے معیشت کو تھوڑا بہت سہارا بھی ملے گا، اسلام کے متبادل مالیاتی نظام کی طرف ملک متوجہ ہوسکے گا اور اسلام کے حق میں مثبت راے عامہ بنانے اور نفرت اور تفریق کی فضا کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ان شاء اللہ۔اس مقصد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مائکروفینانس کی یہ اسکیمیںاسلام کے اصولوں کی ہی نہیں بلکہ اس کے مقاصد اور اسلامی معاشیات کی اصل روح کی بھی سختی سے پابندی کرتے ہوئے چلائی جائیں۔ شراکت داری کے اصل اسلامی اصول غالب رہیں اور وقتی حیلوں اور شارٹ کٹ راستوں سے ممکنہ حد تک بچتے ہوئے، اسلام کے اصل فلسفہ کی معنویت کو عملی تجربات کے ذریعہ دنیا کے سامنے لانے کی سنجیدہ کوشش ہو۔
اسی طرح اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق تجارت کے عملی ماڈل بھی ملک کے سامنے آئیں۔ اس پر، یعنی تجارت کے مطلوبہ اسلامی ماڈل کے فروغ کی کوششوں پر آئندہ کسی وقت گفتگو ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019