یہ حقیقت ہم سب پر واضح ہے کہ پروردگارِ عالم نے کرّہ ارض پر انسانوں کو بسا کر یہ دیکھنا چاہا ہے کہ کون بندگی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور کون سرکشی دکھاتا ہے۔اللہ تعالیٰ بند گی اختیار کرنے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی سے نوازیں گے اور سرکشی دکھانے والوں کو سزا دیں گے۔ دنیوی زندگی کو اس امتحان کے لیے سازگار بنانے کی خاطر شریعت دی گئی تاکہ زندگی کا نظم ونسق بھی چلے اور افراد کی آزادیِ اختیار بھی باقی رہے۔ذیل کی سطورمیںہم اس بات پر غور کریں گے کہ مقصدِ تخلیق اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اسلامی تحریکات کا کیا رول ہونا چاہیے۔ اسلامی تحریکات سے ہماری مراد وہ تحریکات ہیں جو گزشتہ دو سو سال سے سرگرم ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے زوال کو عروج سے اور مغلوبیت کو غلبہ سے بدلنا چاہتی ہیں۔ چوںکہ اس سوال کا جواب (کہ اسلامی تحریکات کیا طریق کار اختیار کریں) آنے والے دنوں سے متعلق ہے اس لیےپہلے ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ مستقبل کیسا ہوگا۔
آنے والے حالات
یہ خیال عام ہے کہ آنے والے دن گزرے دنوں سے مختلف ہوں گے ، ہم چاہتے ہیں آپ کے ساتھ مل کر سوچیں کہ کیوں اور کس حد تک۔ مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے انداز بدل کر نئے تقاضو ں کے مطابق طور طریقے اختیار کر سکیں ۔اس امید کے ساتھ کہ بدلے ہوئے طریقے تحریک اسلامی کو اپنے مقصد،یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے میں کامیابی کی طرف لے جائیں گے۔ سب سے پہلے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دنیا آج کی دنیا سے کن باتوں میں مختلف ہوگی؟ آبادی بڑھے گی، دیہات سے شہر منتقلی بڑھے گی،مواصلات اور نقل و حمل کی تیزی بڑھے گی،ہر ملک میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والے ساتھ رہیں گے۔ غریبی اور محتاجی کم ہو گی مگر دولت اور آمدنی میں فرق بڑھتا جائے گا۔ حکمرانی میں عوام کی شرکت بڑھے گی،مقامی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کا رول بڑھے گا،قومی حکومتوں کا دخل اور دور دورہ کم ہو گا۔ خاندان کی گرفت ڈھیلی پڑتی جائے گی،اوسط انسانی عمر میں اضا فہ ہوگا،لوگ لمبی عمر تک زندہ رہیں گے۔ صحتیں پہلے سے بہتر ہوں گی۔ ہر آدمی،مرد ہویا عورت،اپنی فکر میں لگا رہے گا، خود غرضی بڑھےگی ۔ باہمی تعاون میں کمی آ ئیگی۔ بڑھتی تعداد میں لین دین کےمعاملات درمیانی واسطوں کے بغیر براہ راست ہوں گے ،(مثلاً انٹرنٹ کے ذریعہ۔) زرِ نقد، کا استعمال کم سے کم ہوگا۔ بڑے کارپوریشنوں کا زوال ہوگا، فنانس میں بھی بڑے اداروں کی جگہ جو درمیانی واسطوں کا کام کرتے ہیں،براہ راست فنانس فراہم کرنے والوں اور فنانس کے ضرورت مندوں کے ربط باہم کا رواج بڑھے گا۔ ماحولیاتی تحفّظات کے سبب شرح نمو کم ہوگی، ہو سکتا ہے معیار زندگی بھی کمی کی طرف مائل ہو۔ دنیا کی چودھراہٹ کی دوڑ اور بڑی طاقت والوں کی باہمی کشاکش بڑھے گی یا کم ہوگی کچھ کہنا مشکل ہے۔ اگرچہ امن عالم کے بارےمیں کچھ کہنا اس سوال کا جواب دیئے بغیر ممکن نہیں۔ رہا معاملہ عدل کا تو کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے۔ سماجی عدل کا ا نحصار نا برابری میں کمی اور کفالت عامّہ و شاملہ پر ہے، اور معاملات میں انصاف تب ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیّار ہوں اور حکومت استحصالی ہو نے کی بجائے عوام کی خدمت میں مخلص ہو۔ دونوں باتوں کا تعلّق اخلاقی اقدار اور روحانی تصوّرات سے ہے(زندگی کیوں،کہا ں سے، کدھر کو؟) جب کہ باقی مذکورہ بالا باتوں کا تعلّق ٹکنالوجی سے ہے۔د یکھنا یہ ہے کہ تکنالوجی بدلنے سے ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیئے کیا کرنا ہے اوردوسروں کے ساتھ عد ل و انصاف سے پیش آنے کے لیئے لوگوں کو کیسے آمادہ کیا جائے۔ استحصالی حکمرانی کی جگہ خدمتگار حکمرانی لانے کا مسئلہ، مستقبل کے سیاق میں، خصوصی غور و فکر کا طالب ہے۔
تحصیل مقاصد اور مستقبل
اسلام لوگوں کی آزادیاں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ٹکنالوجی ہو یا اس میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، اصولا ًلوگ آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ البتّہ کچھ مقاصد ہیں جن کو سامنے رکھنا چاہیے ، کچھ حد یں ہیں جن کے اندر رہنا ہوگا۔ یہ حدود اور مقاصد انسانوں کی اپنی بھلائی کے لیئے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ان حدود و مقاصد کو جاننے کے لیئے کن مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ حدود و مقاصد دائمی ہیں یا اُن میں تبد یلی ہوسکتی ہے۔اگر ان میں لچک ہے تو اس کا معیار کیا ہے۔ ایک اور پہلو جو قابل توجّہ ہے، حدود اور مقاصد کے رول کو ایک دوسرے سے ممتاز کر کے سمجھنا ہے۔
مقاصد اور حدود
پہلے آخری سوال کو لیتے ہیں۔یقیناً مقاصد حدود سے زیادہ اہم ہیں۔ اس لیے کہ حدیں اصلاً مقرّر کی گئی ہیں مقاصد میں یک گونہ ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے اورمؤثر بنانےکے لیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقاصد دائمی ہیں مگر حدیں لچک رکھتی ہیں۔ مقاصد میں اگر کوئی لچک ہے تووہ درجہ تحصیل سے متعلّق ہوگی(یعنی مقداری لچک۔)خود مقاصد نہیں بدلتے۔ گویا مقاصد معیار کا درجہ رکھتے ہیں۔ وسائل کم ہوں تو درجہ تحصیل کم ہوگا،وسائل فراواں ہوں تو درجہ تحصیل زیادہ ہوگا۔ البتہ حدوں میں لچک مقداری (QUANTITATIVE) اور وصفی(QUALITATIVE) دونوں طرح کی ہوتی ہے،تاکہ بدلتے حالات میں تحصیل مقاصد ممکن ہوسکے۔ ہم اس بات کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ سارے انسانوں کو کھانا پینا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ ملے یہ مقصود ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر اس فرد کو جو کام کرسکتا ہے محنت کرنا چاہیے۔ جوافراد کم عمری، بڑھاپے، یا کسی معذوری کی وجہ سے اپنی ضروریات خود نہ پوری کر سکتے ہوں ان کی ذمّہ داری ،پہلے قدم پر، خاندان کے قریبی ان رشتہ داروں پر ڈالی گئی ہے جو اس کی قدرت رکھتے ہوں۔ جن خاندانوں میں اس فارمولے پر عمل سے کام نہ چلے، یا جب خاندان بکھر چکے ہوں(جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے) تو ان معذوروں اور ضرورت مندوں کے لیئے اجتماعی بند و بست درکار ہے ۔ اکثر حالات میں غیر سرکاری ادارے مثلاً یتیم خانے وغیرہ یہ ذمّہ داری سنبھال لیتے ہیں۔ آخری چارہ کار ریاستی طور پر ضرورت کی تکمیل ہے۔ ہر صورت میں ضرورت کی تکمیل کا معیار اس ملک یا آبادی کو میسّر وسائل پر منحصر ہے۔ اس ذمّہ داری کی ادائیگی کے لیئے اسلام نے حکمراں کو امیروں سے ، زکوٰۃ ناکافی ہونے کی صورت میں مزید ٹیکس لینے کا بھی اختیار دیا ہے۔ ( جہاں تک عمل کا سوال ہے ،پندرہ سو سالوں میں اس ذمّہ داری کی ادائیگی یا اس کی ادائیگی میں کوتاہی کی بے شمار مثالیں مسلمان ملکوں میں ملیں گی۔ ) نبی ﷺ کی حاجت روائی مشہور ہے ۔ ضرورت پڑی تو آپ نے مکّہ والوں کو غذائی امداد بھیجی حالا ں کہ اس وقت تک مکّہ والے اسلام میں نہیں داخل ہوئے تھے۔دوسرے خلیفہ،سیّدنا عمرؓ نے قحط کے زمانے میں مدینہ کی عام آبادی کو کھانا کھلانے کا انتظام کیا تھا۔ ترقّی یافتہ ممالک میں جب سے فلاحی ریاست کے تصوّر نے جڑ پکڑی اس بارے میں ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ آج بعض ممالک میں ہر شہری کو مفت تعلیم،علاج، نقل و حمل اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ جدید اسلامی معاشرہ کو مقامی حالات اور عالمی معروفات کی روشنی میں اپنا موقف اختیار کرنا ہوگا۔
یہ مثال نسبۃً سادہ سی تھی جس کے بارے میں زیادہ اختلاف کی گنجائش نہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پیش کریں گے جس کی تفصیلات میں اختلاف کی کافی گنجائش ہے۔ انسانی عزّو شرف بھی ایک مقصد ہے جس کے ایک تقاضے کے طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ اجتماعی امور باہمی مشورہ سے طے کیے جائیں۔ تکریم بنی آدم کا مقصد استبداد سے ابا کرتا ہے۔ یہ بات کہ کچھ لوگ دوسروں پر حکم چلائیں، نسلی بادشاہی ہو، کچھ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے فیصلوں میں شرکت سے محروم کردیئے جائیں اسلام کو منظور نہیں۔ اس طریقہ پر عمل درآمد کی کچھ مثالیں عہد نبوی اور خلافت راشدہ کے زمانے میں ملتی ہیں۔ نبی ﷺ جب مکّہ سے مدینہ آئے تو آپ نے آبادی کے مختلف گروہوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ا یک ایسا دستور بنایا جس میں آپ حکمران تھے مگر غیر مسلم بھی اس وفاق میں برابر کے شریک تھے۔ سیّدنا عمر نے مجوسی مذہب والوں کے جذبات کی رعایت سے انھیں حفاظتی ٹیکس، جزیہ، سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان پر دوسرا ٹیکس لگایا۔ قدیم دور میں جو نظریں ملیں وہ اس زمانے کے معروفات عادات اور امکانات کو سامنے رکھ کر سمجھی جانی چاہئیں۔ آج اس مقصد کو آج کی عادات،معروفات اور امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے حاصل کرنا ہو گا۔ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینا، غیر مسلم شہریوں کی شرکت کا خیر مقدم کرنا اور ملکی فیصلوں میں بین الاقوامی قانون اور عہد و پیمان کا لحاظ رکھنا ایسے امور ہیں جن کو جدید اسلامی فکر کی تائید حاصل ہے (اگرچہ اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔) اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس بارے میں اختلاف کو بھی باہمی مشوروں سے طے کیا جائے، اس شرط کے ساتھ کہ اصل مقصد نہ فوت ہویعنی آدم کی ہر اولاد برابر کی عزّت رکھتی ہے، جو اسے ملنی چاہیے۔
ہماری نظر مقاصد پر ہونی چاہیے، حدود کے سابقہ فہم پر اصرار سے اگر مقاصد کا حصول خطرے میں پڑ رہا ہو یا کوئی اور نقصان ہو سکتا ہو توان حدود میں ترمیم مناسب ہو گی۔ قیام عدل کی خاطر اور اجتماعی طور پر کفالت عامّہ کی ضمانت دینے کے لیئے ملکی دستور میں مسلمان اور غیر مسلم شہریوں کو یکساں حقوق کی ضمانت دینا اس کی ایک اہم مثال ہے۔ہم چاہیںگے کہ مسلمانوں کو اپنی اقدار و اطوار کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہر ملک میں حاصل ہو( جہاں وہ اکثریت میں ہوں وہاں بھی اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں وہاں بھی۔)اس مقصد شرعی کے حصول کے لیئے ہمیں غیر مسلم شہریوں کو بھی ہر ملک میں یکساں حقوق دینے چاہئیں ۔ اس دستور کے مطابق کسی عہدے پر کوئی بھی فائز ہو سکے گا۔ اگرچہ جدید بندو بست میں کسی بھی عہدہ دار کو فیصلہ کن اختیا رات نہیں ملتے بلکہ انتظامیہ، مقنّنہ اور عدلیہ کے الگ الگ دائرہ کار مقرّر کرکے مطلق العنانی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سابق میں اس کی نظیر نہ ملنا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ موقف غلط ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ مقاصد کے حصول کا بہتر طریقہ کیا ہے۔
حصول مقاصد کے لیےدرکار فضا
سب انسانوں کے لیےبہتر ہوگی ایک ایسی دنیا جس میں ہر ملک میں ہر فرد کو یکسا ں حقوق حاصل ہوں۔ اُسے اختیار ہوکہ وہ جس مذہب پر چاہے عمل کرے،یا کسی مذہب کو نہ مانے۔ جس میں ہر ایک کو دوسروں کے سامنے اپنے خیالات اور عقائد کی تبلیغ کا حق ہو۔ جس میں ہر مذہبی گروہ کو خاندانی زندگی اپنے پرسنل لاز کے مطابق منظّم کرنے کا حق ہو،جو شخص کسی مذہبی پرسنل لا کی پابندی نہ پسند کرے اسے متبادل سول لاز کی تشکیل میں حصّہ لینے کا حق ہو۔باقی امور میں قانون سازی ایک ایسے فورم کے ذریعے عمل میں آئے جس میں ہر فرد کو اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کرنے اور دوسروں کو سمجھانے کا موقع ملے۔اور جب ایک قانون بن جائے تو اس میں تبدیلی لانے کے مواقع بھی میسّر ہوں۔ سب کے لیے اچھّا ہوگا کہ کوئی ملک دوسرے ملکوں پر اپنی چودھراہٹ جمانے کی کوشش نہ کرے۔ امن کا قیام ،باہمی جھگڑوں کا خاتمہ، اظہارِ خیال کی آزادی یہ سب امور۔۔۔ مقاصد شریعت میں سے ہیں۔ آج کے حالات میں جب دنیا ایک آبادی میں تبدیل ہو چکی ہے( جس میں ہر رنگ و نسل، ہر مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے لین دین،عہد و پیمان ۔۔۔۔ کے تعلّقات رکھتے ہیں۔) اس مقصد کے حصول کے لیئے ایسی ہی فضا درکار ہے۔ انّیسویں صدی کی وہ دنیا جس میں ایک ملک میں زیادہ تر ایک طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہر ملک خود مختاری کے دعوے کے ساتھ خود کو اس بات کا مجاز سمجھتا تھا کہ ملک کی آ بادی کی اکثریت کی رائے کے مطابق ایک نظام نافذ کرے اور باقی آبادی کو (جو اقلیتوں پر مشتمل ہو) چند بنیادی حقوق کی ضمانت دے۔ دوسرے ملکوں کو اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ کسی خود مختار مُلک کے اس اختیار میں مداخلت کریںلیکن وہ دنیا اب داستان ماضی بنتی جا رہی ہے۔ اب دنیا کے سارے ملک متعدّد بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہیں۔ کسی ملک میں کوئی گروہ خواہ وہ اقلیّت میں ہی کیوں نہ ہو،اکثریت اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتی۔عملی طور پر اس نقشہ کے خلاف بہت کچھ ہوتا نظر آتا ہے مگرعالمی طویل المیعاد رجحان یہی معلوم ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے یہی بند و بست مقصد تخلیق سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اسی میں ہر فرد کووہ جو آزادی اختیار حاصل ہو گی جو انسانی زندگی کی آزمائشی حیثیت کے مطابق ہے ۔
مقاصد اور لچک
تحصیل مقاصد میں لچک کی ایک مثال وہ حکمت تدریج ہے جو اسلام نے غلامی کے رواج کو ختم کرنے کے سلسلہ میں اختیار کی۔ ساتویں صدی کی دنیا، بالخصوص جزیرۃ العرب میں جنگی قیدیوں کو غلام بنالیا جاتا تھا،مفتوحہ عورتوں کو لونڈی بنا لیا جاتا تھا۔ پوری معیشت بھی غلامی پر قائم تھی۔ اس رواج کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کے لیے اسلام نے متعدّد اقدامات کیے ۔ حالت امن میں آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنا لینے کو قطعاً ممنوع قرار دیا،غلاموں کو اپنی آزادی خریدنے کی ترغیب دی اور ہمّت افزائی کی، اور غلام کے مالک کے لیئے ضروری قرار دیا کہ وہ اسے معاوضہ لے کر آزاد کرنے پر راضی ہو۔ جن لونڈیوں کے یہاں اپنے مالک سے اولاد ہو،ان کو مالک کی وفات کے بعد آزاد قرار دیا، اور جنگی قیدیوں کو فدیہ کے عوض یا بلا معاوضہ( بطور احسان )رہا کرنے کی ہدایت دی۔ ان اقداما ت کے باوجود دنیائے اسلام میں غلامی اس وقت تک جاری رہی جب تک مغربی اقوام نے اس کے خاتمہ کے لیے قدم نہ اٹھایا تو اس کی ذ مّہ داری ان مسلمان حکمرانوں پر تھی جنھوں نے اپنے مفادات کے لیے غلامی کو باقی رکھا۔ورنہ اِسلام کا منشا یہ نہ تھا کہ غلامی، دائماً باقی رہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نبی ﷺنے اپنے آخری خطبہ میں غلاموں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنے کی واـضح تاکید کی تھی۔ یہی نہیں ،ابنِ ماجہ کی روایت کے مطابق بسترِ مرگ پر بھی آپ کی وصیّت میں اس امر کی تاکید شامل تھی۔ اب دنیا میں قانوناً غلامی ختم ہوئی، دنیا میں رائج قانون کے مطابق کسی حال میں کسی انسان کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ غور کیجئے تو مقصد تخلیق کا تقاضا ہے کہ انسان آزاد ہو، غلامی دنیوی زندگی کی امتحانی کیفیت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔ اِنسان کی آزادی مقصود ہےاس لیے کہ انسان آزاد حالت میں دنیا میں بھیجا گیا تھا ، ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور اسے آزاد ہی رہنا چاہیے ۔ تاریخ انسانی میں اس اصول کی خلاف ورزی(جو انسانوں کے ایک گروہ نے مرضیِ الٰہی کے خلاف کی تھی)اس کا سلسلہ اب نبیِ آخر الزمان کے ہاتھوں ختم ہوا۔ یہ مقاصد میں لچک کی ایک مثال تھی،حالات کی بنا پر مقصد کی تکمیل کے لیے مناسب حالت تک پہنچنے میں تاخیرہوئی۔ ظاہر ہے کہ اب ایک بار مقصد کے مطابق حالت حاصل ہو جانے کے بعد پچھلی حالت کی طرف وا پسی نا قابل قبول ہے۔ حال کے چند برسوں میں اس کے بر عکس موقف بعض احباب نے پیش کیا ہے۔ اُن کی بات مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت دونوں سے ٹکرانے کی بنا پر نا قابل قبول ہے۔
مقاصد کے مآخذ
سطورِ با لا میں ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مقاصد کہاں سے اخذ کیے جائیں۔ اصولاً اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ مقا صد کا ماخذ قرآن و سنّت ہیں ساتھ ہی ان کی پہچان اور تعبیر میں عقل و فطرت کا بھی حصّہ ہے۔ انسان کی اصل مطلوب حالت آزادی اور خود اختیاری کی حالت ہے۔یہی خلافت ارضی اور اخروی جواب دہی سے مناسبت رکھنےوالا موقف ہے۔اب اگر کوئی کتاب و سنّت کی بعض نصوص سے استدلال کرتے ہوئے جن کا تعلّق غلامی سے ہے غلامی کے تسلسل یا احیا کا دعویٰ کرے تو اس کا یہ دعویٰ اس لیئے نہیں قبول کیا جائے گا کہ وہ معیار مقصود سے ٹکراتا ہے جو چاہتا ہے کہ ہر فرد انسانی اپنے فیصلے خود کرے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور فطرت کے مطابق ہے۔ کتاب و سنّت کی نصوص کو مقاصد کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ مقصد تخلیق آیات محکمات سے واضح ہے اور مقاصد شریعت قرآن و سنّت کی نصوص کے مجموعے سے سمجھے گئے ہیں۔ کسی ایک باب میں ان دونوں کو پس پشت ڈال کر اختیا ر کیا ہوا موقف درست نہیں ہو سکتا۔اسی قسم کی ایک دوسری مثال جنگ کے نتیجہ میں قبضہ میں آنے والی زمینوں، دوسرے غیر منقولہ اثاثوں اور منقولہ دولت کی ہے۔ اس بارے میں بھی معروفات بدلتے رہے ہیں اور ان کے بدلنے کے ساتھ اسلامی بند و بست بھی بدلا ہے۔ آج یہ پورا معا ملہ جنیوا کنونشن اور دوسرے متعلّقہ معاہدوں کے تحت آتا ہے جن کی پابندی کا ہر ملک نے عہد کیا ہے۔ ماضی میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔بعض صحا بیوں کے اصرار کے با وجود حضرت عمرؓ نے عراق و شام کی مفتوحہ زمینوں کو ان فوجیوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا جنھوں نے لڑ کر اس علاقےکو فتح کیا تھا کیوںکہ ایسا کرنے سے اعلیٰ تر مقاصد مجروح ہوتے۔ اب اگر کوئی گروہ غنیمت کی تقسیم سے متعلّق آیات کا حوالہ دے کر عرف عام اور معاہدوں کے خلاف عمل کرے تو اس کا فیصلہ درست نہیں قرار دیا جائے گا۔
اسلامی تحریکات
اسلامی تحریکات بیسویں صدی کے شروع میں ابھریں ۔انہوں نے بیسویں صدی کے وسط تک وہ شکل اختیار کرلی جو آج ان کی پہچان بن چکی ہے۔ تحریکوں کے ظہور اور ارتقاء کے وقت ان کے سامنے مخصوص حالات تھے۔ان کے میدان کار میں یہ سوال اٹھ چکا تھا کہ اجنبی حکومت کے خاتمہ کے بعد (جس کی تشکیل میں ان ملکوں کے باشندوں کا کوئی دخل نہ تھا )ملک میں ریاست کی تشکیل کن اصولوں کے مطابق ہو۔قدرتی طور پر وہ تحریکیں یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ آزاد قومی حکومت اللہ کی حاکمیت کے تحت کتاب و سنّت میں دیئے گئے اصولوں کے مطابق تشکیل پائے۔ دنیا میں آج یہ ماحول نہیں ہے۔ حاکمیّت اعلیٰ کی بحث اب سرِ فہرست نہیں رہی۔ایک ملک پر دوسرے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کی حکومت کا زمانہ گزر گیا تو حاکمیّت اعلیٰ کی بحث بھی پسِ پشت چلی گئی اور اسی کے ساتھ ملکی دستور وں میں حاکمیّتِ الٰہی کی صراحت بھی تحصیل حاصل سمجھی گئی۔اب دوسرے ملکوں کی طرح مسلم اکثریت والے ممالک بھی کچھ عملی مسائل کے حل تلاش کر رہے ہیں اور وہا ں کام کرنے والی تحریکوں کو ان مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔ رہےغیر مسلم اکثریت والےملک تُو وہاں اصل مسئلہ اسلام کے تعارف اور پیغمبر اسلام کی مشفقانہ (یعنی محسنِ انسانیت ہونے کی ) تصویرکی بحالی کا ہے۔ آج کسی جگہ بھی وہ سوالات سر فہرست نہیں جو گزشتہ صدی کے وسط تک سر فہرست تھے۔ غور سے دیکھئے تو ان ملکوں میں (خواہ مسلم اکثریتی ممالک ہوں یا وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیّت میں ہیں) چلنے والی اسلامی تحریکوں کے طور طریقے عملاً بدل چکے ہیں۔ انھوں نے بدلے ہوئےحالات میں بدلے ہوئے طریقے اختیار کرنا سیکھ لیا ہے۔ یہ بھی مقاصد سے وابستگی اور ذرائع و وسائل میں لچک کی مثال ہے جس کی نمائندگی ماضی قریب میں تیونس کی اسلامی تحریک نے کی ہے۔
فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ابھی تک ان نئے رجحانات کے بیان اور توجیہ و تشریح پر مشتمل خاطر خواہ لٹریچر نہیں تیّار ہو سکا ہے۔ چنانچہ ایک طرف ماضی کے مخصوص حالات کی پیداوار لٹریچر کو اس طرح پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے جیسے وہ زمان و مکان سے بلند ہو، دوسری طرف حکمت عملی کے نام پر ایسے اقدامات کیئے جاتے ہیں جن کو پرانے لٹریچر کے پروردہ ذہن سمجھ نہیں پاتے۔ اس سے دو طرح کی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ ایک طرف ضمیر ملامت کرتا ہے کہ حالات اور رائے عامّہ کے دباؤ کے تحت عزیمت کی راہ چھوڑی جا رہی ہے۔ خیال آتا ہے کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ریاست قائم کرنے کے مقصد کے تحت ایسا دستور بنایا جائے جو شریعت اسلامی کو ملکی قانون قرار دیتا ہو، صدر مملکت کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیتا ہو۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔مگر سوال یہ ہے کہ (اسلامی دستور سازی کی) اس تجویز کو کثرت رائے سے منظور کرانا ممکن نہ ہو ، اور اسے بزور قوّت نافذ کرنے کے لیے فوج ساتھ دینے کو تیّار نہ ہو یا فوج بھی اس کی طاقت نہ رکھتی ہو، تو کیا کیا جائے۔ضمیرِ مسلم حیران ہے کہ ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے۔
دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے بعض مسلمان گروہ یہ خیال کرتے ہیں کہ عوام کو ساتھ لینے کی کوشش جس کو اسلامی تحریکات نے اسلامی ریاست قائم کرنے کی شرطِ لازم سمجھ رکھّا ہے غیر ضروری ہے۔ جب جہا ں موقع ملے اسلامی قانون کی حکمرانی کا اعلان کر دینا چاہیے۔ عملاً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اسلامی قانو ن جس کا ایسے گروہ نفاذ کرتے ہیں چند جرائم کی سزاٗوں یعنی حدود کے نفاذ تک محدود رہتا ہے۔ شریعت کےبڑے بڑے مقاصد اُن کی توجہ مبذول نہیںکراپاتے مثلاً قیامِ عدل، کفالت عامّہ اور شاملہ، معقول تقسیم دولت، آمدنی میں پائےجانے والے فرق کو کم کرنا،ملک کو اقتصادی طورپرمضبوط بناناتاکہ دوسروں کی محتاجی ختم ہو، کرپشن کا خاتمہ اور اعلیٰ کا ر کردگی کی حامل انتظا میہ کی بحالی ۔ اِن مقاصدکے حصول کی کم ہی کوشش نظر آتی ہے مزید برآں ان گروہوں کے متشدّدانہ اقدامات کے ہدف زیادہ تر دوسرے مسلمان ہوتے ہیں ۔ ان کے نفاذِ حدود پر مرکوزاقدامات سے مقامی اور عالمی دونوں سطحوں پر اسلام سے توحّش پیدا ہوتا ہے، اسلام کی ترجیحات کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور متعدّد اسلامی مقاصد مجروح ہوتے ہیں۔نیز بزعم خود جو محدود مقاصد وہ حاصل کر پاتے ہیں وہ دیرپا نہیں ثابت ہوتے۔ ان کی ان حرکتوں سے غیر مسلم اکثریت والے ملکوںمیں اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور پیغمبر اسلام کی تصویر بگڑتی ہےاور مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کو شبہ کی نظر سے دیکھا جانے لگتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ اکثر مخلصین یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اسلامی تحریک ہر زمان و مکان میں ایک لگا بندھا طریقہ اختیار کرنے پر مامور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریک اپنے مقصود، اللہ کے بندوں کو بندگی رب کی طرف بلانے ) کے لیے حالات کی مناسبت سے مختلف طریقے اختیار کر سکتی ہے، کسی لگے بندھے طریقہ کی پابند نہیں۔
اسوۂ نبوی
اس مرحلہ میں ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ نبی ﷺنے مختلف حالات کا مقابلہ کس طرح کیا۔تفصیلات میں جائے بغیر ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ مقاصد سے وابستگی کے ساتھ حدود اور ذرائع میں لچک کی تعلیم سیرت میں ملتی ہے۔ کارِ نبوّت کی انجام دہی سے متعلّق جن مختلف حالات کی طرف ہم قارئین کی توجّہ مبذول کرانا چاہیں گے وہ درج ذ یل ہیں۔
- شعب ابی طالب میں محصوریت
- طائف کے داعیانہ سفر سے واپسی پر شھر مکّہ میں سکونت کا مسئلہ
- ہجرت حبشہ اولیٰ اورہجرت حبشہ ثانیہ
- tبیعتِ عقبہ،اولیٰ و ثا نیہ
- مدینہ پہنچنے پر مواخات کی تنظیم
- مسجدِ نبوی کی تعمیراور مسلمانوں کے لیئے بازار کا قیام
- میثاق مدینہ
- صلح حد یبیہ
- فتح مکّہ پر عام معافی کا اعلان
- غزوہ حنین کے موقع پر تقسیمِ غنائم میں مکّہ والوں کو ترجیح
- خطبہ حجّۃ ا لوداع
سطورِ بالا میں مقاصد اور ذرائع،حدود میں لچک، وغیرہ امور پر گفتگو سے ہمارا منشا یہ تھا کہ ایسے غور فکر کا آغاز کریں جو آج اور آئندہ کے ممکنہ حالات میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان کو عام انسانوں کے درمیان مقبول بنانے میں مددگار ہوسکے۔نیز مسلمانوں کو اس مخمصہ سے نکال سکے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یعنی یہ کہ ہم بدلے حالات میں مناسب نئے طریقے کس بنیاد پر اختیار کرسکتے ہیں؟۔ ایک دّقّت یہ ہے کہ بعض لوگ اسوہ نبوی سے استشہاد میں ہر طرح کے حالات کا احاطہ کرنے کی بجائے اپنی پسند کی نظیریں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔یہی طریقہ وہ بعد کی صدیوں میں اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے بارےمیں اختیار کرتے ہیں۔اس غلطی کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ قرآن وسنّت ،سیرت نبوی اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ پہلے سے اختیار کیے ہوئے کسی موقف کی تائید کے لیئے نظیریں جمع کرنے کے لیےنہ کیا جائے بلکہ کھلے ذہن کے ساتھ کیا جائے۔پھر بھی مختلف مطالعہ کرنے والے مختلف نتیجے نکالیں تو تبادلہ خیال کے ذریعہ ایک رائے تک پہنچنے کی کوشش کریں، اور اتّفاق رائے نہ ہو سکنے کی صورت میں رواداری سے کام لیں ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ قرار دینے اور مرنے مارنے پر نہ اتر آئیں ۔ مذکورہ بالا ابواب سیرت کا مطالعہ ابن ہشام کی السیر ۃ النبویہ یا تاریخ اسلامی کی کسی مستند کتاب میں کیا جا سکتا ہے۔یہاں ہم تفصیلات بیان کرنے کی بجائے صرف اس سبق کو یاد دلانے پر اکتفا کریں گے جو کسی خاص واقعہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
محمّد ﷺ کی مخالفت میں جب قریش نے ان کے سارے رشتہ داروں کا بائیکاٹ کیا تو ان کے چچا ابو طالب کو جو خاندان کے سر براہ تھے سارے خاندان کو لے کر مکّہ کی ایک بے آب و گیاہ وادی میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ ان ہی کے نام پر اس وادی کا نام شعب ابی طالب پڑ گیا۔وادی میں محصور ہونے والوں کی بھاری اکثریت ابھی اسلام میں نہیں داخل ہوئی تھی مگر قبائلی رواج کے مطابق آپ کا ساتھ دے رہی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رواج سے پورا فائدہ اٹھایا۔ اپنے قبیلے سے کٹ کر مسلمان ہونے والے اہلِ قبیلہ کی الگ دنیا بسانے کی کوشش کی بجائے چچا ابو طالب اور دوسرے اہلِ قبیلہ کے تعاون و یک جہتی کو خوش آمدید کہا۔
ایک وقت آیا جب آپ مکّہ والوں کی بے رخی کے سبب شہر چھوڑ کر قریب کے دوسرے شہر طائف گئےتاکہ انہیں اسلام کی طرف بلائیں، مگر ان کی طرف سے مکّہ والوں سے بد تر سلوک سامنے آنے پر واپس آنا پڑا۔ اب مشکل یہ آن پڑی کہ جس طرح آپ شہر چھوڑ کر گئے تھے اس کے بعد دوبارہ مکّہ میں سکونت اختیا ر کرنے کے لیئے آپ کو شہر کے کسی با اثر باشندہ کی سرپرستی درکار تھی۔ چنانچہ ایک صاحب کی پیشکش قبول کرکے آپ دوبارہ مکّہ میں رہنے لگے۔یہ صاحب بھی ابھی دائرہ اسلام سے باہر تھے۔ اس واقعے سےسبق یہ ملا کہ: اسلامی مقصد براری کے لیئے معروفاتِ وقت سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
حبشہ جزیرۃ العرب سے باہر (مگر ایک آبنائے کے فرق سے) اس سے متّصل ملک ہے جس میں عیسائی آباد تھے۔ بادشاہ بھی عیسائی تھا اور اپنی سلامت طبع اور عدل وانصاف کے لیےمشہور تھا۔جب مسلمان ہونے والوں پر مکّہ والوں کا ظلم و ستم بہت بڑھا تو نبی ﷺنے مشورہ دیا کہ مسلمان وہاں جا بسیں۔ چنانچہ پہلی بار درجن بھر اور دوسری بار سو کے قریب مسلمان وہاں جا بسے۔ باوجود مکّہ والوں کی کوشش کے حبشہ کے نیک بادشاہ نے وہ تحفظ برقرار رکھّا جو پناہ گزینوں کی حیثیت میں ان مسلمانوں کو معروف کے مطابق حاصل ہوا تھا۔ اس ہجرت کا سبق واضح ہے۔ یہ دیکھے بغیر کہ کوئی اچھی رسم کیوں کر بنی مقصد براری کی خاطر اُس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
نبیﷺ حج کے موقع پر باہر سے آنے والے لوگوں سے ربط قائم کرتے اور انہیں اسلام کی دعوت پہنچاتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ یثرب ( جو بعد میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوا)سے آئے ہوئے لوگوں نے آپ کو وہاں آ بسنے کی دعوت دی۔در اصل وہ لوگ شہر یثرب میں آباد قبیلوں کے باہمی اختلافات سے تنگ آ چکے تھے اور امّید کرتے تھے کہ آپ ﷺکی منصفانہ سرپرستی سب کے لیئے رحمت ثابت ہوگی۔جب دوسرے سال وہاں کے ایک زیادہ نمائندہ گروپ نے اسی پیش کش کا اعادہ کیا تو آپ نے ان کی درخواست قبول کرلی البتہ اس پر عمل درآمد کب ہوگا اسے مشیئتِ الٰہی پر چھوڑ دیا۔یہ بھی موقع کی مناسبت سے ایک جرائت مندانہ فیصلہ کی اہم مثال ہے۔ جب سو سے زیادہ مسلمان اور خود محمّد ﷺہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ان کے ہاتھ خالی تھے اور فوری حل طلب مسئلہ یہ تھا کہ وہ رہیں کہاں۔آپ نے آنے والوں کو مقامی مسلمانوں کا بھائی بنا کر ان کے گھروں میں ٹھیرا دیا۔ یہ بندو بست دو سال چلا جس کے بعد مکّہ سے آنے والے یہ مہاجر رفتہ رفتہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے۔ غیر معمولی حالات میں مناسب انتظام کیا گیا۔ اس انتظام میں انفرادی ملکیت وغیرہ کے وہ ضوابط مانع نہ ہوئے جو پہلے سے موجود تھے اورجن کا آئندہ بھی التزام رہا۔
نبی کا بنیادی کام رہنمائی، روحانی تزکیہ اورلوگوں کی اخلاقی اصلاح ہے۔ معمول کے امورِ دنیا لوگ خود سنبھال لیتے ہیں۔ مگر بعض کام ایسے بھی ہیں جن کے دور رس اثرات تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی طرف خصوصی توجّہ کی جائے۔ مدینہ کے بازاروں پر یہودی چھائے ہوئے تھے اور ان کا رویّہ مسلمانوںکے تئیں اچھانہیں تھا۔چنانچہ مسجدِ نبوی کی تعمیر کے ذریعہ مسلمانوں کو ایک مرکز سے منسلک کرنے کے بعد آپ نے ان کے لیے ایک بازار قائم کرنے کا اہتمام کیا اور اس کی نگرانی خود فرمایا کرتے تھے۔
میثاق مدینہ پر ڈاکٹر محمّد حمیداللہ نے تفصیلی بحث کی ہے۔ مدینہ شہر کی آبادی، جس میں مقامی مسلمان،مکّہ سے آئے مسلمان، یہودی،عیسائی اور کچھ دوسرے مسلکوں والے شامل تھے، ان سب کو شہر کے انتظام و انصرام کے لیئے ایک وفاقی نظام دینے والی یہ تحریر یہ سبق سکھاتی ہے کہ حکومت آبادی کی مرضی سے بنتی ہے اور ان کی ہمہ جہتی عام فلاح و بہبود کے لیے ہوتی ہے۔
صلح حدیبیہ کا پس منظر یہ ہے کہ عمرہ پر آئے مسلمانوں کو واپس جانے پر مجبور کرکے قریش عرب کے معروف رواج کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ منشاٗ یہ تھا کہ ان کی ناک اونچی رہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل المیعاد فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اپنی بات پر اڑنے کی بجائے صلح کو ترجیح دی اور ان چھوٹی باتوں کو صلح کی راہ میں روڑا نہ بننے دیا جو صلح نامہ پر دستخط کے وقت پیش آئیں۔ صلح حدیبیہ کی پوری تفصیلات پیش آنے والے مسائل میں مقاصد پر مرکوزغیر جذباتی رویہ اختیا ر کرنے کا سبق دیتی ہیں تاکہ امّت کا مستقبل بہتر بنایا جاسکے۔
یہی سبق فتح مکّہ کے بعد عام معافی کے اعلان سے بھی ملتا ہے۔مکّہ ایسے افراد سے بھرا ہوا تھا جنہوں نے فاتحانہ داخل ہونے والی فوج میں شامل افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈہائے تھے۔ انھوں نے خود اللہ کے رسول پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ مگر ان باتوں کو نظر انداز کیا گیا تاکہ مستقبل کے تعلّقات کو تلخی سے بچا یا جاسکے اور باہمی رشتوں کو ماضی کی تنگنائے سے نکال کر امن و آشتی کی نئی بنیاد پر قائم کرنا ممکن ہوسکے۔عام اصول کے مطابق مالِ غنیمت میں سارے فوجیوں کو حصّہ دیا جاتا رہا تھا مگر غزوہِ حنین کے اموالِ غنیمت آپﷺنے زیادہ تر مکّہ والوں کو دیئے جو ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ مدینہ سے ساتھ آنے والے بعض پرانے جانبازوں نے کچھ جز بز بھی کیا مگر آپ نے انھیں اعتماد میں لے کر مسئلہ حل کر لیا۔حالات کی مناسبت سے عمل میں لچک مقصد براری کے لیئے زیادہ مفید ہوتی ہے۔
حجّۃالوداع کے تاریخی خطبہ میں جن باتوں کا ذکر ہے ان سے بجا طور پر یہ تاثّر ملتا ہے کہ وحدت بنی آدم، انسانی شرف و عزّت، اور سماجی عدل کا قیام مقاصد شریعت میں سر فہرست ہے۔ جن چار باتوں کی طرف نبیِ کریم کے آخری خطبہ میں خصوصی توجّہ دلائی گئی وہ ہیں:انسانی مساوات،غلامی کا مسئلہ،صنف نازک کے ساتھ سلوک،اور سود کا خاتمہ۔چاروں میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ طویل المیعاد کام ہیں جن کا تعلّق طرز فکراور طرز عمل سے بھی ہے اور سماجی اداروں سے بھی۔انہیں صرف قانون سازی سے نہیں انجام دیا جا سکتا۔ آغاز نبوّت میں جو صورت حال تھی وہ بہت ہی نا پسندیدہ اور بری تھی،۲۳ سال کی کوششوں سے بڑا فرق آیا مگر بہتری کی کوشش برابر جاری رکھنے کی تاکید ضروری تھی جو آخری تقریر میں کی گئی تاکہ صورت حال کو بہتر سے بہتر بنانے کا سلسلہ جاری رہے۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ان مثالوں کا تفصیلی مطالعہ حکمت کے نئے سبق سکھا سکتا ہے۔ دنیا میں حالات بدلتے ہیں۔ ہر بار ایک نئی صورت حال در پیش آتی ہے۔ہر بار ایک نئے انداز کا حل درکار ہوتا ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک کسی لگے بندھے لائحہ عمل کی پا بند نہیں بس مقاصد اسلام سے وابستگی شرط ہے۔اس کے ساتھ کتاب و سنّت، سیرت و تاریخ،عقل و فطرت اور با ہمی مشاورت اور تجربوں سے سبق حاصل کرنا لازم ہے۔آج کے حالات میں اسلامی تحریکات کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ نئے حالات میں نئی بات نئے انداز سے نئے مخاطب لوگوں کے سامنے رکھنے میں کتنی مستعدی وچستی پھرتی دکھاتی ہیں۔ مسئلہ کسی ایک تنظیم کا نہیں۔ تنظیمیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ مگر مجموعی طور پر آثار امّید افزا ہیں۔تشویش اس بات کی ہے کہ نئے حالات کے تجزیے ، کتاب و سنّت تاریخ و سیرت اور تجربات سے سبق سیکھنے اور با ہم تبادلہ خیال کا خا طر خواہ اہتمام نہیں کیا جارہا ہے۔اس کے لیئے ہمارے مدارس،جامعات،تعلیم گاہوں، یونیورسٹیوںاور منبرو مسجد، گھر و بازار سب کوایساکردار ادا کرنا ہوگا جو ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیئے سازگار ہو۔
نئے حالات، نئے امکانات
آج دنیا بڑے تشویشناک حالات سے دو چار ہے۔ اسلام اور مسلمان انسانیت کی مدد کے لیئے آگے بڑھ سکیں تو ا نھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ آئندہ سطور میں ہم یہی بات قدرے تفصیل سے پیش کریں گے۔مسائل کی فہرست تو بڑی لمبی ہے مگر ہم تین اہم مسائل کے ذکر پر اکتفا کریں گے جن کا تعلّق بالترتیب آب و ہوا، فنانس اور نظام زر اور خاندان اور سماجی رشتوں سے ہے۔ مسائل کے ذکر کے بعد ہم یہ بتائیں گےکہ اسلامی تعلیمات کس طرح ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ آب و ہوا بدل رہی ہے۔ زمین پر مضر صحت گیسیں اتنی زیادہ مقدار میں خارج ہونے لگی ہیں کہ کرّہِ ارض کو سورج کی تمازت سے بچانے کے لیئے قدرت نے اس کے گرد اوزون گیس کا جو غلاف بنا رکّھا ہے اس میں شگاف پڑتے جا رہے ہیں،اس کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے قطب شمالی کی برف پگھل رہی ہے جو پانی بن کر سطحِ سمندر کو اونچا کر رہی ہے۔ ڈر یہ ہے کہ ساحلی علاقوں اور بہت سے جزیرو ں پر آباد بستیاں جلد زیرِ آب ہو جائیں گی۔ بہت سے پرندے اور کیڑے مکوڑے ختم ہوتے جارہے ہیں جس کے سبب ماحولیاتی توازن درہم برہم ہورہا ہے۔ یہ عمل زمین کے اوپر بھی ہو رہا ہے اور نیچے،سمندروں کی تہ میں بھی جاری ہے۔ موسم بدل رہے ہیں،طوفان زیادہ آنے لگے ہیں اور ہواوٗں نیز سمندری لہروں کا نظام گڑ بڑ ہو رہا ہے۔ پینے کے لائق پانی کے زیرِ زمین خزانے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے کے حل کے لیے رہن سہن کے طریقوں میں کچھ بنیادی تبدیلیاں نا گزیر ہیں۔
حالیہ مالیاتی کرائسس(بحران) نے ترقّی یافتہ ممالک سمیت پوری دنیا کو پریشان کر دیاہے۔ سب سے زیادہ مشکل ان غریبوں کو در پیش ہے جن کا روزگار جاتا رہا اور ساتھ ہی ان کی بچت قوّت خرید سے محروم ہو گئی۔پچاس برس سے آمدنی اور دولت کی تقسیم میں جس نا ہمواری کا چلن تھا وہ یکایک عروج کو جا پہنچی۔اب صورتِ حا ل یہ ہے کہ اوپر کے بہ مشکل ایک فی صد دولت مند دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت کے مالک ہیں جب کہ انسانوں کی نوّے فی صد آبادی کے حصّے میں کل دولت کا دس فی صد بھی نہیں آتا۔دنیا کی سات بلین کی آبادی میں پانچ بلین غریب ہیں جن میں دو بلین اتنے غریب ہیں کہ انھیں ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنا ہوتا ہے۔ جس طرح ہر ملک کے اندر امیر، امیر تر ہوتے گئے اور غریب ،غریب تر ہوتے گئے اسی طرح ملکوں کے ما بین بھی نا ہمواری بڑھی۔ غریب ملک امیرملکوں سے قرضے لینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔جب وہ اس کا سود ادا کرنے سے بھی معذور ہو جاتے ہیں تو ان کو کفایت شعاری پر مجبور کیا جاتا ہے جس سے ان کا اپنا امن و سکون تو غارت ہوتا ہی ہےایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں جن سے عالمی امن بھی خطرے میں پڑجاتاہے۔
سب جانتے ہیں کہ انسانوں کی اگلی نسلوں کے لیئے اچھّا یہ ہے کہ بچّوں کو ماں باپ کے ساتھ رہنے کا موقع ملے۔ اب طلاق کی کثرت کے سبب خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور بچّوں کو اِدھر اُدھر بانٹا جانا نا گزیر ہو رہاہے ۔ ماضی میں یہ بھی اچّھا رواج تھا کہ دادا، دادی ، نانا نانی بچّوں کے ساتھ رہتے مگر اب شہری رہائش میں شاذ و نادر ہی ایسا ہوپا تا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچّوں میں ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں ، اور ان کی شخصیتیں بکھر رہی ہیں۔ سماجی رشتے زیادہ تر مفادات کی روشنی میں جوڑے اور توڑے جارہے ہیں جو مفادات کےبدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، چنانچہ رشتے پائداری سے محروم ہیں۔دولت کی حرص اور اعلیٰ سے اعلیٰ معیارِ زندگی کی طلب ہر چیز پر غالب ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ سارے جتن کر کے بھی انسان خوشی سے محروم ہے۔ ایسے لوگ نایاب ہیں جو دوسرے کی بھلائی کے لیئے کچھ قربانی دینے کو تیّار ہوں،ہر طرف ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو دوسروں سے تعلّق صرف اس لیئے قائم کرتے ہیں کہ ان سے کچھ کام لے سکیں۔ سیاست ہو یا معیشت،غیر سرکاری ادارے ہوں یا سرکاری ہر جگہ ذاتی مفاد کو سماجی بہبود پر ترجیح دینے والے افراد بھرے ہوئے ہیں۔
ایسی دنیا کو تباہی سے بچا سکتے ہیں تو صرف ایسے لوگ جو رشتوں کی خاطر مفادات کی قربانی دے سکیں، سماجی بہبود کی خاطر نجی اغراض کو بھول سکیں،آنے والی نسلوں کے لیئے کرّہ ارض کو بچائے رکھنے کی خاطر اپنے آرام و آسائش میں کچھ کمی برداشت کریں،کاروبار اورمالیاتی لین دین میں جس عدم تیقّن اور جن خطرات کا سامنا ناگزیر ہے ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دوسروں کے شریک بننے کو تیّار ہوں( نہ کہ اپنی ساری ذہانت اِس پر صرف کرتے ہوں کہ کاروباری خطر اور عدم تیقّن کو کس طرح اپنے سر سے ٹال کر دوسروں پر تھوپا جائے ، نفع ہو تو ان کو ملے، نقصان دوسرے بھگتیں۔ )آخرت میں جواب دہی کا احساس جگا کر اور اُس دائمی زندگی کو سنوارنے کے لیے آج کے دنیوی مفادات کو ثانوی درجہ دینے کی تعلیم دے کر اسلام ایسے ہی انسان بناناچاہتاہے۔تاریخ نے ایسے دوربھی دیکھے جب سیاسی رہنماوٗں نے انسانوں کی خدمت کا راستہ اختیار کیا اور کاروبارِ معیشت سنبھالنے والوں نے عام صارفین اور مزدوروں کی بھی بھلائی چاہی۔خاندانی زندگی محبّت اور خلوص پر قائم رہی اور سماجی رشتوں کو نفع اندوزی پر ترجیح دی گئی۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مذاہب عالم ، رشی منی،بے لوث بزرگ،دانشور، فلسفی،شاعر، قصّہ گو۔۔۔۔ غرض ہر جہت سے اس رجحان کو تقویّت ملی ہے اور آج بھی مل سکتی ہے ۔ اسلام اور مسلمان ان جہتوں میں سے ایک اہم جہت ہیں جو دوسرے مذاہب کے مخلص پیرووں ، دیگر دانشوروں،اوراچھّے انسانوں کے ساتھ مل کر مذکورہ بالا تینوں دائروں ،یعنی ماحولیات،مالیات اور سماجیات ، میں دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔
موجودہ مسلم سماج
افسوس کہ آج مسلمان یہ کردار ادا کرنے کے لائق نہیں۔ مستقبل کی دنیا کو اپنی رہنمائی خدمت اور تعمیری سرگرمیوں کے ذریعہ سہارا دینے اور سنبھالنے کی بجائے مسلمان ماضی کے جھگڑے چکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انسانوں کی خدمت کی خاطر متّحد ہونے کی بجائے وہ مسلکی اختلافات اورفرقہ وارانہ تعصبات کی بنیادوں پر بٹے ہوئے ہیں۔اپنے خداداد کردارِ شہادت علی النّاس کی ادائیگی کی خاطر یکسو ہونے کی بجائے وہ پراگندہ فکر اور پراگندہ حال ہیں۔ بڑے کاموں میں مطلوب تعاون اور تضامن کی خاطر اختلافات کو نظر انداز کرکے رواداری اورخوش خلقی کے ساتھ خدمتِ انسانیت کو اپنا ایجنڈا بنانے کے لیئے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔ مستقبل پر توجہ کی مرکوزیت (فوکس)ماضی کے اختلافات کو پسِ پشت ڈالنے کے حوصلے اور باہمی اتّحاد و رواداری کے ساتھ ساتھ دنیا میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیئے طاقت درکار ہے: اقتصادی قوّت چاہیے جو مسلمان کو دوسروں کا دست نگر نہیں ان کو سہارا دینے والا بنا سکے۔ معاشی قوّت تجارت سے آئے گی جس کے لیئے پیداواری عمل کی عادت ڈالنی ہو گی۔اس عمل میں انہماک خود بخود ایجاد و اختراع اور تعاون و تنظیم کی طرف لے جا ئے گا جو اقتصادی قوّت کی کلید ہے۔ امّت مسلمہ کی اٹھان اسی طرح ہوئی تھی۔ اس کا معمار،میدانِ تجارت میں بھی رہنما ئی کرتا تھا،جس نے منتشر قبائل کی توانائی کو ایک انسانی مِشن پر مرکوز( فوکس) کرکے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ آج بھی یہ ممکن ہے۔
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کا رواں کے لیے
مشمولہ: شمارہ جنوری 2016