اقدار پر مبنی تعلیم یا اقدار کی تعلیم نیا موضوع نہیں ہے۔ جب سے تعلیم کا آغاز ہوا ہے، تعلیم کی بنیاد اقدار ہی رہی ہے۔ یوں تو تعلیم کا آغاز حضرت آدمؑ کو دنیا میں بھیجے جانے سے ہی ہوچکا تھا۔ اللہ نے آدمؑ کو اشیا کے نام سکھائے۔ اشیا کے نام، ان کے مطالب، گہرائی اور دیگر اشیا کے ساتھ ان کی نسبت بھی تعلیم کا نقطہ آغاز تھا اور یہی آج علم کی بنیاد ہے۔ اشیا کے علم کی گہرائی اور اس میں پنہاں حقائق کا ادراک ہی ریسرچ ہے۔ حضرت آدم کے بعد دنیا میں جتنے بھی انبیا کرامؑ آئے ان کابنیادی کام تعلیم اور تزکیہ و حکمت ہی رہا ہے۔ تعلیم اقدار سے جدا، صنعتی انقلاب کے بعد ہوئی۔ اقدار سے عاری تعلیمی نظام کا نام سیکولر نظام تعلیم رکھا گیا۔ حالاں کہ بعد ازاں اس تعلیمی نظام میں اقدار کی شمولیت ہوئی جنھیں سماجی صلاحیتیں کہا جاتا ہے۔ جن اقدار کی بنیاد مذہب یا مافوق الفطرت تصورات ہوں، انھیں سیکولر نظام تعلیم، اپنے نظام میں گنجائش فراہم نہیں کرتا بلکہ بعض موقعوں پر رد بھی کرتا ہے۔ ورنہ قبل از نشاة ثانیہ علم کی ایک اہم تعریف اخلاق و اقدار کا ادراک و فہم ہی رہا ہے۔ لیکن ہاں، اب دوبارہ تعلیم میں اقدار کی بات ہورہی ہے۔لیکن ایک بنیادی فرق موجودہ اقدار کی تعلیم اور قدیم اقدار کی تعلیم میں یہ ہے کہ قدیم اور اسلامی نظریہ تعلیم میں، اقدار کی تعلیم، مذہب اور الٰہیات سے جڑی ہوتی تھی اور سیکولر نظریہ تعلیم میں اقدار کی تعلیم ایک سماجی صلاحیت(social skill) کے طور پر شامل کی گئی ہے۔ ہمارے ملک کی ابھی تک جتنی بھی تعلیمی پالیسیاں بنی ہیں، ان سب میں اقدار کا تذکرہ ملتا ہے مگر یہ تذکرہ اس انداز کا نہیں ہے جس طرح سیکولر نظام تعلیم میں ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ملک کا دستور، ملک کے تعلیمی نظام کو کسی بھی مذہب سے متاثر کیے بغیرطلبہ کو تعلیم دینے کا قائل ہے۔ جہاں تک اقدار کی بات ہے، دستور کی رو سے ان اقدار کی تعلیم دینی چاہیے جو دستور اور دستور کی روح سے اخذ کیے گئے ہوں۔ تقریبًا تمام ایجوکیشن پالیسیاں اس بات کی وکالت کرتی ہیں کہ آفاقی اقدار جو ملک میں امن، بھائی چارہ، سماجی مساوات، عدل و انصاف، ترقی، سائنسی سوچ اور توہم پرستی کے خلاف ہیں، انھیں پڑھایا جانا چاہیے۔ لیکن قومی تعلیمی پالیسی 2020 دیگر پالیسیوں سے ہٹ کر یہ کہتی ہے کہ تعلیم میں اقدار کو انڈین کلچر اور ہندوستانی فلسفے سے اخذ کیا جائے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دستاویز میں کلچر’ واحد ‘کے صیغے میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پالیسی ساز کمیٹی نے ملک میں ایک ہی کلچر کو تسلیم کیا ہے۔ حالاں کہ ہمارا ملک کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کا گلدستہ ہے۔ پالیسی میں جب بات کلچر کی کہی گئی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کلچر کون سا ہے؟ اسی طرح ہندوستانی فلسفہ کہا گیا ہے۔ ہندوستانی فلسفے کی تعریف بیان کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ‘ کہتا ہے کہ اسے ’ویدا ‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی2020 جن اقدار کو فروغ دینا چاہتی ہے، وہ دستور کی روح سے متصادم ہیں۔ اس پر ملک کے اہل دانش کو غور کرنا چاہیے۔ اس پالیسی کے نفاذ کے لیے جب مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتیں کوئی سرکاری اعلامیہ جاری کرتی ہیں تب ممکن ہے کہ اسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکے۔ کیوں کہ دستور ہند تعلیمی میدان میں کسی ایک مذہب کی تعلیم کو فروغ دینے کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن سابقہ پالیسیاں اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ اسکولی اوقات کے بعد ان اقدار کی تعلیم دے سکتے ہیں جنھیں مذاہب سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ملک کے دانش وران کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے خود قومی تعلیمی پالیسی 2020 اس مسئلے کا حل ایک اور پیراگراف میں کچھ اس طرح پیش کرتی ہے کہ ‘‘ طلبہ کو ایک دوسرے کے مذہب کی حساسیت سے واقف کرانا چاہیے۔’’ ایک دوسرے کے مذاہب سے واقفیت ایک چیز ہے اور مذاہب کے رسوم و رواج کو طلبہ پر بزور تھوپنا ایک غیر دستوری عمل ہے۔ موخر الذکر عمل بعض سرکاری اور اکثر نجی تعلیمی اداروں میں اختیار کیا جارہا ہے۔ اس پوری بحث میں’ڈاکٹر رادھا کرشنن کمیٹی‘ کا موقف زیادہ قابل عمل محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کا موقف یہ تھا کہ ہندوستانی مذاہب سے مشترکہ اقدار کو منتخب کیا جائے اور ان اقدار کی تعلیم دی جائے جو آفاقی اخلاق سے مطابقت رکھتے ہوں اور جن پر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا اتفاق ہو۔
ہمارے ملک کی کثیر آبادی، مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔ اس لیے وہ تعلیم میں اقدار کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ اقدار کی تعلیم ہمارے تعلیمی نظام میں شامل ہو۔ لیکن اس کو اختیار کرنے کے سلسلے میں تعلیمی اداروں میں مختلف طریقہ کار اور انداز پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر اقدار کی تعلیم کا معنی و مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ طلبہ کو بعض بنیادی اخلاق پڑھا دیے جائیں۔ اسی طرح بعض اسکولوں میں اخلاق کی تعلیم کی گھنٹی تو ہوتی ہے لیکن اس گھنٹی میں اخلاق کی تعلیم کے بجائے بچوں کو کھیل کے میدان میں چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس گھنٹی کے اوقات میں کچھ کھیل کود لیں۔ بعض اسکولوں میں بچوں کو لائبریری کی کتابیں تھما دی جاتی ہیں یا لائبریری کی کتابوں سے استفادے کے لیے کہا جاتا ہے یا پھر ایک انداز یہ ہے کہ اخلاق کی گھنٹی میں کچھ کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ الغرض اخلاق کی تعلیم نے ابھی تک وہ اہمیت حاصل نہیں کی جو ہونی چاہیے تھی۔ اس کے نتائج آج ہم اپنے سماج میں دیکھ رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد اکثر اخلاق سے عاری زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ ان کی سماجی و عائلی زندگی بہتر ہے اور نہ ہی وہ اپنی ذات کے لیے مفید ثابت ہورہے ہیں۔ آج ایک عمومی سروے یہ بتاتا ہے کہ جو جتنا تعلیم یافتہ ہے، وہ اتنا ہی زندگی کے اصولوں سے ناآشنا ہے۔ کم پڑھے لکھے یا جاہل افراد کچھ الگ انداز کے جرائم میں مبتلا ہیں اور تعلیم یافتہ افراد کچھ اور طرح کے۔
ملت اور اسلامی ذہن رکھنے والے افراد کی جانب سے بھی جو اسکول چلائے جارہے ہیں، ان سے فارغ ہونے والوں میں بھی کوئی نمایاں فرق نظر نہیں آرہا۔ اس لیے چند ادارے اس بات کو لے کر فکر مند رہتے ہیں کہ جن اعلیٰ مقاصد کے تحت انھوں نے تعلیمی ادارے قائم کیے تھے، ان مقاصد کو پوری طرح یہ ادارے حاصل نہیں کرپا رہے ہیں۔ ملی تعلیمی اداروں کا مقصد جہاں طلبہ کو ڈگریوں سے آراستہ کرنا ہے یا ڈگری کے استحقاق کے لیے تیار کرنا ہے وہیں انھیں اس ملک میں اسلام کا سفیر بھی بنانا ہے۔ اس تیسرے مقصد میں جتنی کام یابیاں حاصل ہونی چاہئیں، وہ کام یابیاں حاصل کرنے سے ملّی ادارے بڑی حد تک قاصر ہیں۔ اس صورت حال پر جہاں تشویش ضروری ہے وہیں ایک واجبی جائزہ بھی لازمی ہے۔ ایک عمومی سروے یہ بتاتا ہے کہ ملی اداروں میں اقدار کی تعلیم کا انتظام کم و بیش ویسا ہی ہے جیسا کہ عام اداروں میں۔
اخلاق کی تعلیم اور کردار سازی میں فرق
عام طور پر اسکولوں میں اقدار کی تعلیم اور کردار سازی کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ اقدار کی تعلیم، کردار سازی کا ایک حصہ ہے۔ کردار سازی یا اخلاق کو پیدا کرنے کی کوشش اقدار کی تعلیم سے ہوتی ہے۔ یہاں ہم اس مسئلہ کو تھوڑا سا اور واضح کرتے ہیں۔ ہمیں اقدار اور اخلاق میں فرق محسوس کرنا چاہیے۔ اقدار جسے انگریزی میںEthics کہا جاتا ہے۔ لغت میں اس کے معنی ’ان انسانی صفات کے ہیں جو سماج میں اچھائی اور برائی سے تعبیر کی جاتی ہیں‘۔یہ اصول آفاقی بھی ہوتے ہیں یا پھر زمانہ و کلچر کی دین بھی۔ مثلاً موجودہ دور میں مابعد جدیدیت کے کلچر نے کئی ایسے اصول وضع کیے ہیں جو ماضی کے اخلاقی نظام سے ٹکراتے ہیں۔ مثلا ہم جنسوں کی شادی وغیرہ۔ اس نظام نے تو اصول اخلاق کا ایک نیا فلسفہ ہی گھڑ لیا ہے۔ مابعد جدیدیت کی تہذیب عقیدہ اخلاق کے شعبے میں اضافیت (relativism) کو اپنائے ہوئے ہے۔ یوں تو اضافیت ما بعد جدیدیت کی دین نہیں ہے بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک مستقل فلسفہ اخلاق ہے۔ یہ فلسفہ آفاقی اقدار کو نہیں مانتا۔ یہ فلسفہ آفاقی اقدار کو متبدل قرار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں اقدار و اخلاق کا تعلق اس سماج، معاشرہ اور زمانے سے ہے جس سے معاشرہ گزرتا ہے۔ اس نظریے کے تحت فرد کی آزادی اور اس کا انفرادی سرور اہمیت کا حامل ہے، چاہے وہ سرور آفاقی اصولوں کو روند کر ہی کیوں نہ حاصل کیا جائے۔ یہ نظریہ مغربی و ترقی یافتہ سماج میں مقبول بھی ہے اور اپنے عروج کے منازل کو ابھی طے کررہا ہے۔ اس کی نقالی ترقی پذیر و پسماندہ ممالک میں بھی ہونے لگی ہے۔ چناں چہ ہمارا معاشرہ اور ہماری تعلیم گاہیں بھی اس نظریے سے متاثر محسوس ہوتی ہیں۔ دین جن اخلاق کی تعلیم دیتا ہے وہ فطری اخلاق ہوتے ہیں ورنہ تو اس دور میں اخلاق کا تعلق عام طور سے مفاد اور ذاتی پسند سے قائم ہے۔ مابعد جدیدیت دنیا میں اخلاق کی بنیاد انسان کی ذات، اس کی لطف اندوزی اور اس کے اطمینان پر رکھی جاتی ہے۔ حقیقت میں تو اخلاق وہی ہیں جو خالق کائنات اپنی مخلوق کے لیے تجویز کرتا ہے جن کے حامل افراد خالق کی مرضی اور اس کے حدود کو نہ پھلانگتے ہیں اور نہ ہی اپنے خالق سے بغاوت کرتے ہیں۔ اخلاق کے ماخذ کی بحث بہت پرانی ہے لہذا ہم اس بحث کو چھیڑنے کے بجائے بس یہ کہنا چاہیں گے کہ اقدار پڑھانے اور کردار بنانے میں فرق کرنا چاہیے۔
ہمارے تعلیمی نصاب اور تعلیمی نظام میں اقدار پڑھادینے ہی کو کردار سازی سمجھ لیا جاتا ہے۔ آج ملت کے کئی تعلیمی ادارے اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے طلبہ میں وہ کردار پیدا نہیں کر سکے جس کا عزم انھوں نے ادارہ قائم کرتے وقت کیا تھا۔ کردار سازی کے موضوع پر بالخصوص امریکہ میں کئی مطالعات (studies)ہوئے ہیں۔ ان مطالعات کا نچوڑ یہ ہے کہ کردار کا حصول صرف اقدار کے پڑھانے سے ممکن نہیں ہے بلکہ کردار سازی کا ایک عمل ہونا چاہیے اور اس عمل کا نام internalization رکھا گیا ہے یعنی اقدار کو طلبہ کے اندر جذب کرانا۔ جذب کرانے internalizationکا یہ عمل تزکیہ کا اہم پہلو ہے۔ تزکیہ نفس جب کہا جاتا ہے تو مقصود یہ ہوتا ہے کہ انسانی نفس اپنے خالق کی مرضی سے آشنا زندگی گزارے اور اپنے نفس کو احکام الہی کا پابند بنائے اور نفس کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ خدائی نظام بندگی میں سرور حاصل کرے۔ جذب اخلاق کے اس عمل کی مختلف شکلیں دنیا نے دیکھی ہیں۔ اسی کام کے لیے انبیائے کرام کی بعثت ہوا کرتی تھی۔ آج کے اس دور میں اساتذہ و معلمین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ کردار سازی کے اس عمل کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ بچوں میں کردار سازی یا اخلاق کی تعلیم کا ایک خاکہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
اقدار کی تعلیم کے خد و خال
طلبہ میں اخلاقی قدروں کو جذب کرانے (internalization) کے لیے ایک طریقہ جس کا تجربہ راقم نے مختلف اسکولوں میں کیا ہے، یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ اس طریقہ نے طلبہ پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا ہے۔ اس طریقہ کو اسکول، مدارس،کالج، طلبہ کی تنظیمیں، بچوں کی تنظیمیں اور خاندان بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
کردار سازی یا اخلاق کی تعلیم کے لیے ہم نے جو ایک عملی ماڈیول (module) ترتیب دیا ہے، اسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ اس طریقہ کو ہم نے ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ اور جامعہ ہمدرد کے اشتراک سے منعقدہ سمینار مورخہ 7 دسمبر 2022 میں پیش کیا تھا۔ اس نمونہ (paradigm) کو وہاں موجود ماہرین تعلیم و ماہرین نفسیات نے بھی سراہا اور اسے قابل عمل قرار دیا تھا۔ اس موقع پر مختلف اہم تعلیمی اداروں کی نمائندگی کرنے والے افراد کے روبرو اس طرز تعلیم کو پیش کیا گیا تھا۔ بعدازاں اس پورے ماڈیول کو وزارت تعلیم کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے نیشنل کریکولم فریم ورک (national curriculum framework) کو پیش کیا گیا تاکہ اسے مکمل یا پھر مناسب حذف و اضافے کے بعد این سی ای آر ٹی ( National Council of Educational Research and Training) اپنے کریکولم فریم ورک میں شامل کرلے۔ اگر حکومت اس پر توجہ نہیں دیتی ہے تو سول سوسائٹی کے لیے بھی یہ ماڈیول قابل عمل ہے، وہ اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے اسے اختیار کرسکتی ہے، یا اختیار کرنے پر غور کرسکتی ہے۔
اس ماڈیول کو جاری کرنے کے مختلف مرحلے ہیں۔ ان مراحل کو ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
مرحلہ اول: جو اسکول یا مدارس کردار سازی کے اس نظام کو جاری کرنا چاہتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اسکول کی سطح پر ایک کمیٹی برائے جذب اقدار ( committee for internalization of values) تشکیل دیں۔اسکول کی سطح پر تشکیل دی جانے والی یہ کمیٹی، بلاک کی سطح پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی فورم برائے فروغ اقدار (forum for promotion of values in schools) سے ربط رکھے گی۔(اس فورم کا تفصیلی خاکہ آگے مرحلہ دوم میں پیش کیا جارہا ہے)۔ یہ کمیٹی آگے بیان کردہ اخلاق کی تعلیم کے مختلف منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ’فورم فار پروموشن آف ویلیوز ان اسکولس‘ سے مشورہ کرے گی اور اس کمیٹی سے تعاون حاصل کرے گی۔کمیٹی میں کچھ مخصوص شعبوں سے نمائندگی لازمی طور پر ہونی چاہیے، جو حسب ذیل ہیں: اساتذہ، اسکول کی انتظامیہ، طلبہ کے والدین، علاقے کے باوقار و بااخلاق افراد میں سے کم سے کم دو فرد اور اس علاقے کی معتبر مذہبی شخصیات۔ اگر اسکول سیکنڈری لیول یعنی دسویں جماعت تک کا ہے تو ہائی اسکول یعنی نہم یا دہم جماعت سے ایک طالب علم اور ایک طالبہ (لڑکا اور ایک لڑکی) ہو۔ کمیٹی میں ان کے علاوہ افراد بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کمیٹی کا بنیادی کام اس منصوبے کے نفاذ کو بہتر، دل چسپ اور نتیجہ خیز بنانا ہوگا۔
مرحلہ دوم: یوں تو یہ مرحلہ ایک انفرادی اسکول کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تجویز ہم نے حکومت کو دی ہے تاکہ حکومت اپنے ذریعے اس کو عمل میں لائے۔ اگر حکومت اس پر توجہ نہیں کرتی ہے تو پھر سول سوسائٹی تو اس پر عمل کرہی سکتی ہے۔
تجویز کے مطابق محکمہ تعلیم کی طرف سے ہر بلاک (تعلقہ) کی سطح پر ایک فورم برائے تعلیمِ اقدار تشکیل دی جائے۔ یہ فورم بلاک ایجوکیشن آفیسر کی نگرانی یا صدارت میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔ اس کمیٹی میں افراد کی نمائندگی اسی طرح ہو جس طرح ہم نے مرحلہ نمبر ایک میں اسکول کی سطح کی کمیٹی کے ارکان کی وضاحت کی ہے۔ البتہ اس میں اس بلاک کے اہم مذہبی رہ نماؤں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
بلاک کی سطح پر اگر حکومت کوئی ایسا فورم ترتیب دیتی ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کریں ورنہ سول سوسائٹی ایک فورم ترتیب دے جس کا نام ’ فورم برائے فروغ اقدار‘ (forum for promotion of values in schools) رکھ سکتے ہیں۔ اس کا شارٹ فارم ہوگا FPVS۔ یہ فورم بلاک کی سطح پر یا شہر کی سطح پر بنایا جائے۔اس فورم میں بلا لحاظ مذہب افراد کی شمولیت ہو۔ (جن افراد کے گروپ سے نمائندگی ہو، ان کا تذکرہ اوپر آچکا ہے)۔ یہ فورم ممکن ہو تو ان اقدار کو ترتیب دے جنھیں وہ ایک تعلیمی سال میں طلبہ کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اقدار کا انتخاب کس طرح ہو؟ اس کی تفصیلات ہم مرحلہ سوم میں پیش کررہے ہیں۔واضح رہے کہ فورم میں ایسے افراد ہوں جن کا اخلاقی اثر اس علاقے میں تسلیم شدہ ہو۔وہ سماج میں نیکیوں اور اچھائیوں کو پھیلانے کا کام انجام دے رہے ہوں۔ بالخصوص ایسے افراد کو منتخب کیا جائے جو سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور اسے فروغ دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس فورم میں ریٹائرڈ ایجوکیشن آفیسر، جج، اعلیٰ پولیس افسران، سول سروس سے وابستہ افسران بھی ہوسکتے ہیں۔
اس فورم کا ایک اہم کام یہ بھی ہوگا کہ وہ اسکولوں میں اقدار کی تعلیم کے لیے ایک سازگار اور مثبت ماحول ( Eco System) قائم کرنے کی کوشش کرے۔ اس فورم کے چند اہم کام یہ ہوسکتے ہیں:
(الف) آنے والے تعلیمی سال کے لیے اقدار کی ترتیب۔
(ب) اقدار کو پیدا کرنے کے لیے بلاک یا شہر کی سطح پر مختلف پروگراموں کا انعقاد اور طلبہ کے لیے پروجیکٹ (عملی کام) کے خاکوں کو تیار کرنا۔
(ج) مختلف اسکولوں کا دورہ اور وہاں اقدار کی تعلیم کے انتظامات کا جائزہ اور وہاں کے ہیڈ ماسٹر اور انتظامیہ کو اقدار کی تعلیم کے لیے تحریک(Motivate) دینا۔
(د) اقدار کی نشو و نما اور ان کی ترویج کے سلسلے میں بلاک (شہر ) کی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کرنا۔
(ھ) اخلاق کو طلبہ کی زندگی میں جذب کرانے کے لیے ترتیب دیے گئے اس ماڈیول کے مختلف اجزا بالخصوص وہ پروجیکٹ جو مقامی سرکاری انتظامیہ اور طلبہ کے اندر اچھی حکم رانی میں شرکت (participation in good governance) سے متعلق جو پروجیکٹ آگے بیان کیے جارہے ہیں، ان کے نفاذ کے لیے سہولیات فراہم کرنا۔
(و) بلاک سطح کی یہ کمیٹی اسکول کمیٹیوں کا تعاون کرے گی۔ اسکول کی سطح کی کمیٹیاں، اس کمیٹی سے آگے بیان کیے گئے مختلف پروجیکٹ کے سلسلے میں تعاون حاصل کریں گی۔
مرحلہ سوم: اسکول کی سطح پر ایسے اقدار و کردار کی نشان دہی کی جائے جنھیں ایک تعلیمی سال کے اندر طلبہ میں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ اخلاق و کردار بچوں کی عمر کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی نے بارہویں جماعت تک کلاسوں کی جس طرح درجہ بندی کی ہے، اسی اعتبار سے اخلاقی اقدار کو منتخب کرکے درجہ بندی کریں۔ مثلاً پہلی درجہ بندی نرسری سے لے کر کلاس دوم تک ہوگی، دوسری درجہ بندی کلاس سوم سے لے کر کلاس پنجم تک ہوگی، تیسری درجہ بندی کلاس پنجم سے کلاس ہشتم تک ہوگی اور چوتھی درجہ بندی کلاس نہم سے بارہویں کلاس تک ہوگی۔
اسکول چاہے تو اقدار کا انتخاب ہر کلاس کے طلبہ کے لیے علاحدہ علاحدہ بھی کرسکتا ہے۔ اگر یہ عمل مذکورہ بالا فورم جسے ہم نے ’ فورم برائے فروغ اقدار‘ (forum for promotion of values in schools) کہا ہے، بلاک کی سطح پر ترتیب دیتا ہے تو ان اقدار کو لازماً ہر اسکول اپنے لیے منتخب کرلے۔ اقدار چاہے اسکول کی کمیٹی طے کرے یا بلاک ( شہر ) کی سطح کی کمیٹی۔ ’فورم فار پروموشن آف ویلیوز ان اسکولس‘ (forum for promotion of values in schools) مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھے:
(1) اقدار کا تعین طلبہ کی عمر سے مناسبت رکھتا ہو۔ مثلاً بچوں کو رشوت سے پرہیز والی قدر نہیں سکھائی جائے گی، اس لیے کہ بچے اس عمر میں نہ تو رشوت لیتے ہیں اور نہ ہی دیتے ہیں۔اسی طرح زوجین کے حقوق یہاں نہیں پڑھائے جائیں گے۔ بچوں کے لیے ان ضروری اقدار کا انتخاب ترجیحی طور پر ہوناچاہئے جن کی ضرورت موجودہ دور میں سائنسی ترقی، ٹکنالوجی اور مابعد جدیدیت کلچر کے حوالے سے محسوس کی جاتی ہے۔ جیسے موبائل کا استعمال یا موبائل میں کیا دیکھا جائے اور کیا نہ دیکھا جائے، بچوں کے لیے بالخصوص بچیوں کے لیے سافٹ ٹچ اور ہارڈ ٹچ، فضول خرچی اور صفائی ستھرائی وغیرہ۔
(2) ’این سی ای آر ٹی ‘نے’ این سی ایف 2005 ‘کے تحت ایک این سی ایف برائے اخلاق کی تعلیم ترتیب دی تھی۔ یہ دستاویز بڑی اہم ہے۔اس دستاویز کو اسکول اور بلاک لیول کی کمیٹیاں ضرور پڑھ لیں۔ اس میں اخلاقی اقدار کے انتخاب کے لیے تین رہ نما اصول بیان کیے گئے ہیں:
(اول) اخلاق و اقدار ہندوستان کے دستور سے حاصل کیے جائیں، جن کا تعلق دستور ہند سے ہو یا وہ اقدار دستور ہند میں دیے گئے شہریوں کے حقوق و فرائض کی روح ( Sprit) سے لی گئی ہوں۔ جیسے انسانوں کے درمیان برابری، افکار و خیالات کی آزادی، اپنی رائے رکھنے کا اختیار، عدم تشدد، امن کی تعلیم، اعلیٰ انسانی اخلاق، قانون کی پاسداری، دوسروں کے مذاہب کا احترام، نفرت سے گریز، ہر شعبے میں عدل و انصاف کا قیام، دستور ہند کے تحت بیان کردہ شہریوں کے فرائض اور ان کے حقوق اور انسانی حقوق وغیرہ۔
(دوم) بین الاقوامی انسانی اقدار۔ اقوام متحدہ کے ذریعے بیان کردہ بنیادی انسانی حقوق اور وہ تمام بین الاقوامی انسانی قدریں جنھیں تمام ممالک تسلیم کرتے ہوں۔
(سوم) وہ تمام اقدار جن کا تعلق فطرت سے ہے جو دنیا کے تمام بڑے مذاہب میں مشترک ہیں۔ انھی اقدار کے متعلق ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اپنی زیر صدارت کمیٹی کی سفارشات میں لکھا تھا کہ ’فطری اخلاق‘ کی ایک ایسی کتاب تیار کی جائے جس میں مختلف مذاہب میں جو اقدار مشترک ہیں انھیں ترتیب دیا جائے۔
ماحولیات سے متعلق اقدار
قومی تعلیمی پالیسی2020نے ایس ڈی جی (sustainable development growth) یعنی ’پائیدار ترقی کی نمو‘ کو بڑی اہمیت دی ہے اور پالیسی کا ایک اہم نکتہ قرار دیا ہے۔ ایس ڈی جی یعنی قدرتی وسائل کا اس طرح استعمال کہ انھیں آنے والی نسلوں کے لیے بھی سنبھال کر رکھا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان وسائل کی کمی کی وجہ سے زندگی گزارنے میں مشکلات کا سامنا نہ کریں۔ مثلاً فضا کی آلودگی کے نتیجے میں اگر آکسیجن میں کمی واقع ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ آنے والی نسلوں کو آکسیجن کے سیلنڈر ساتھ لے کر چلنا پڑے۔ اگر زیر زمین موجود پانی کے ذخائر کو بے دردی کے ساتھ خشک کیا جاتا ہے اور دریاؤں کے پانی کی آلودگی کو ختم کرنے کا کوئی باضابطہ منصوبہ نہیں بنتا ہے اور اس پر عمل آوری نہیں ہوتی ہے تو آنے والی نسل کے لیے پینے کے پانی کا بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ غرض ایسی ترقی جو ہمارے قدرتی وسائل میں توازن برقرار رکھتی ہے اسے ’ ایس ڈی جی‘ یعنی ’پائیدار ترقی کی نمو ‘ کہا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کا یہ خیال ہے کہ’ ایس ڈی جی‘ کا تعارف اور اس کے لیے کیے جانے والے عملی کاموں کا تعارف طلبہ کے درمیان ہونا چاہیے اور اس سے متعلق اہم اقدار کو طلبہ کے اندر پیدا کیا جانا چاہیے۔ اسکول اپنی سطح پر ایسے اقدار کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ فورم فار پروموشن ویلیوز، بلاک اور شہر کی سطح پر بھی ایسے اقدار اور پروجیکٹ کا انتخاب کرسکتا ہے جو طلبہ میں ایس ڈی جی کے شعور کو بیدار کرسکیں اور عملی اقدام کی طرف انھیں ابھار سکیں۔ مثال کے طور پر سماج میں پانی کو ضائع کرنے سے بچانے کی قدر، بجلی بچانے کی اہمیت، فضا کو آلودہ ہونے سے بچانے کی ضرورت، پلاسٹک کے استعمال پر پابندی، ٹشو پیپر کا کم سے کم استعمال اور کاغذ کم استعمال کرنے کے فائدے وغیرہ۔
اسباق سے اقدار
طلبہ کو پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کے اسباق میں بھی بہت ساری قدروں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً چھوٹی جماعت کی کتاب میں ایک سبق خاندان یا فیملی پر ہوتا ہے۔ اس سبق میں افرادِ خاندان کا تذکرہ پایا جاتا ہے جس میں ابو اور امی کے علاوہ دادا اور نانا کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ جب اس سبق کو پڑھایا جاتا ہے تو یقینا بڑوں کی عزت و احترام کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ جس جماعت کی کتاب میں خاندان کا ذکر ہے، اس کلاس کے بچوں کے لیے بڑوں کی عزت و احترام کی قدر منتخب کی جاسکتی ہے۔ ایک دوسری مثال سائنس کی کتاب سے لی جاسکتی ہے۔ سائنس کی کتاب میں ایک سبق میٹھے اور کھارے پانی کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔ یعنی پانی کی اقسام کے بارے میں۔اس سبق کو پڑھاتے ہوئے پانی کی آلودگی کا بھی تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سبق سے جو قدر لی جاسکتی ہے، وہ ہے پانی کو آلودگی سے بچانا۔ اس طرح سبق کو پڑھاتے ہوئے استاد اس سبق میں موجود اخلاقی قدر کو بھی اجاگر کرے اور اسے طلبہ کے اندر جذب کرانے کی بھی کوشش کرے۔ اسباق کو پڑھاتے ہوئے اخلاق کے پڑھانے کے عمل کو مربوط اپروچ ( integrated approach) کہا جاتا ہے۔ یعنی اصل مضمون کے ساتھ اخلاق کو جوڑ کر پڑھایا جائے۔ اس طریقہ کا تذکرہ اور اسے اختیار کرنے کی تجویز قومی تعلیمی پالیسی 2020 پیش کرتی ہے اور اسے اہمیت بھی دی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والی این سی ای آر ٹی کی کتابیں اس مقصد کے تحت تیار کی جائیں گی۔ کئی پرائیویٹ اسکول پرائیویٹ اشاعتی اداروں کی کتابوں کو اپنے اسکولوں میں نصابی کتب کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ایسے اسکول مضامین میں سے اقدار کا انتخاب کرکے ان قدروں کو طلبہ کے اندر جاری کرنے کی کوشش کریں۔(جاری)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2023