عہد حاضر کے نظریات کے موضوع پر ہماری گفتگو بہت زیادہ ماہرانہ اور عالمانہ نہیں ہوگی، لیکن اگر صرف موضوع کی اہمیت کو دل ودماغ قبول کرلے تو میں سمجھوں گا کہ یہ گفتگو لاحاصل نہیں رہی۔ میں نے اس گفتگو کے عنوان کے لیے اقبال کے مصرعہ کا انتخاب کیا ہے، کیوں کہ اس سے عصر حاضر کے کچھ اہم نظریات کے سرسری جائزہ اور مطالعہ میں مددملتی ہے اور ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خرد کے بدلتے ہوئے نظریات کیا ہیں جن کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے۔
علامہ اقبال نے عقل و فلسفہ اور سائنس کے ہر دم بدلتے، ہر آن تغیر پذیر اور متبدل نظریات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
یعنی معرفت حق خرد کے ذریعے ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس کے نظریات ہمیشہ تغیر پذیر ہیں اور فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ہے۔ عقل کی تقدیر میں حضور نہیں ہے۔
جتنے یونانی فلاسفہ تھے سقراط، افلاطون اور ارسطو سب کے نزدیک کائنات کا جوہر اصلی اور متاع گراں مایہ عقل ہی ہے، وہی معیار صداقت ہے، خیر اور خوبی کا اصل پیمانہ ہے اور جو چیز عقل کے پیمانے پر پوری نہ اتری ہو، وہ خام اور خراب ہے، گویا عقل ہی صحیح اور غلط کا معیار ہے۔ افلاطون سقراط کا شاگرد تھا، سقراط کو غیر روایتی خیالات کی اشاعت کے جرم میں موت کی سزا دی گئی تھی اور اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔ سقراط کا جس طرح افلاطون شاگر د تھا، اُسی طرح ارسطو افلاطون کا شاگرد تھا۔ یونان کے یہ سارے فلسفی عقل کے ماننے والے تھے اور عقل ہی کے وجود کو وجودِ حقیقی سمجھتے تھے۔ افلاطون نے ۳۶کتابیں لکھی تھیں۔ اس کی مشہور کتاب جمہوریہ ہے، اس میں اس کے سیاسی نظریات بھی ہیں اور مثالی معاشرے کا خواب بھی ہے۔ اس کے خیال میں بہترین حکومت اشرافیہ کی حکومت ہے، یعنی عقلمند لوگ باہمی تعاون سے سیاست کی باگ ڈور سنبھالیں۔ اس نے انتخاب کے بجائے باہمی تعاون کی بات کی ہے۔ یہاں افلاطون کے افکار کا تجزیہ مقصود نہیں ہے۔ اہل سائنس، اہل عقل وفلسفہ اور اہل وجدان، ان تینوں گروہوں کے درمیان جو چیز مشترک ہے وہ غور وخوض کی عادت ہے، ذہنی ارتکاز ہے، حقیقت کی جستجو ہے، تلاش حق ہے۔ معرفت حق کے لئےوجدان کا راستہ باطنی احساسات کا راستہ ہے، جب کہ اہل فلسفہ عقل کے ذریعے تلاش حق میں مشغول ہوتے ہیں اور اہل سائنس محسوسات و تجربات کے ذریعے حقیقت کا ادراک کرنا چاہتے ہیں۔ ان تینوں گروہوںمیں جو چیز مشترک ہے وہ صرف تلاش حق ہے اور اس کے لیے داخلیت کا رجحان، غور وخوض کی عادت، تینوں کی مشترکہ شان ہے۔ سب سے زیادہ داخلیت اہل وجدان میں پائی جاتی ہے۔ وجدانیت اپنے جہان کے اور اپنے اندرون کے جائزہ سے عبارت ہے جب کہ عہد جدید کی شناخت یہ ہے ’’سارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبر‘‘۔
عہد جدید کا انسان اخبارات، ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا سے واقف رہتا ہے۔ لیکن اسے اپنے جہاں کی خبر نہیں ہوتی ہے۔ ’’درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا‘‘ اس کے بارے میں اس کو کچھ نہیں معلوم۔ خود اس کا اپنا دل کس حال میں اور کن بیماریوں کا شکار ہے؟ اس کی اسے کوئی خبر نہیں۔
امام غزالی کا عقل منطق اور فلسفہ کی دنیا میں بڑا اونچا مقام تھا۔ وہ علوم ظاہری کے امام تھے، لیکن ان کو محسوس ہوا کہ علم اور چیز ہے، معرفت اور چیز۔ وہ تلاش معرفت میں منصب اور شہرت اور مال دولت کو چھوڑ کر روانہ ہو گئے اور جنگل کی راہ لی اور مجاہدات نفس میں مشغول ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کتاب لکھی ’’المنقذ من الضلال‘‘، اور اس کتاب میں بتایا کہ معرفت حق کا راستہ وجدان کی وادی سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہی احساس ہے جسے اقبال نے اس شعر میں خوب صورتی سے پیش کیا ہے:
علم سے دولت بھی ہے عزت بھی ہے شہرت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آ تا نہیں اپنا سراغ
جو اہل عقل تھے اور صرف عقل کی رہ نمائی کے قائل تھے ان میں سے بہت سے لوگ راستے سے بھٹک گئے۔ الجھی ہوئی ڈور ان عقلاسے سلجھ نہ سکی۔ ان کے خیالات میں بہت تضاد ہے، ان میں بہت کم لوگ کسی نظریہ پر متفق ہیں۔ اقبال نے ان ہی اہل عقل کے نظریات کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات‘‘۔ اقبال کے اس شعر کی تشریح میں کچھ اہل خرد کے نظریات کا جائزہ اس تحریر کا مقصود ہے۔ تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ اہل خرد کے نظریات کیسے بدلتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ سائنس دانوں نے برق وبخارات کی دنیا میں انسانیت کی بہت خدمت کی ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ اہل سائنس نے اپنے بعض نظریات سے اور ایجادات سے پوری انسانیت کو بہت فائدہ پہنچایا ہے اور پوری دنیا ان کی زیر بار احسان ہے۔
مثال کے طور پر گذشتہ ڈھائی سو سال میں ٹکنالوجی کی تمام ترقیاں نیوٹن کے تحقیقی نظریات کی مرہون منت رہی ہیں۔ اس کی کتاب کا نام ہے ’’فطری فلسفہ کے ریاضیاتی قوانین‘‘۔ حرکیات، صوتیات، بصریات اور فلکیات، ہر میدان میں نیوٹن کی خدمات بہت نمایاں ہیں اور اس کے بعد بھی ٹکنالوجی کی تمام پیش رفت اس کی تحقیقات کی بدولت ہیں، کیوں کہ اس کے پیش کیے گئے قوانین کو ٹکنالوجی پر منطبق کیا گیا۔ ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اس کے انقلاب انگیز نظریات سے متاثر نہیں ہوا ہو۔ یہاں تک کہ ہمارا کھانا پینا، فارغ اوقات کا مصرف، طریقۂ زندگی، سب چیز متاثر ہوئی ہے، کیوں کہ ان تمام چیزوں کا تعلق ہر دن کی بدلتی ہوئی ٹکنالوجی سے ہے۔ نیوٹن نے ہمیں قوانین کا مربوط نظام دیا۔ نیوٹن کے قوانین کو بڑے تناظر میں سائنس اور انجینئرنگ میں استعمال کیا گیا۔ نیوٹن کا کام مثبت اور دیرپا ہے۔ لیکن یہ عظیم الشان کام یابی جو نیوٹن کو حاصل ہوئی وہ اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کو ریاضیات اور طبیعیات کے لیے وقف کر دیا تھا اور بہت جلد اس نے قدیم سائنس کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ سائنسی نظریات کی دنیا میں نیوٹن ایک ہمالیائی شخصیت کا نام ہے۔
دنیا کے تمام فلاسفہ عقل کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، لیکن ان کے نظریات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں خرد کے نظریات بہت زیادہ تغیر پذیر ہیں۔ معرفت حق کے لیے عقل پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ عقل پر حد سے زیادہ اعتماد کے خلاف جرمنی کے فلسفی کانٹ نے اپنا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ عقل محض کا وجود ہی ممکن نہیں ہے، عقل محض خیال خام ہے، اس نے عقل اور منطق کے خلاف دلیلیں پیش کیں اور اپنی طاقتور دلیلوں سے عقل کی عمارت کو منہدم کر دیا اور لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ حقیقت کے ادراک کے لیے عقل کا سہارا کافی نہیں ہے۔ اس نے اپنی کتاب Critiqueof Pure Reason میں کہا کہ نفس کے بارے میں اور حیات وکائنات کے بارے میں ہمارے عقلی مفروضے ناقابل اعتماد ہیں اور جب حیات اور کائنات کے بارے میں عقل کا یہ حال ہے تو مابعد الطبیعات کی دنیا تک رسائی تو عقل کے ذریعے بالکل ہی ممکن نہیں ہے۔ ایک ایسی دنیا کے بارے میں جو ہماری عقل سے ماوراہے، عقلی گھوڑے دوڑانا لاحاصل ہے۔ عقل جو کچھ دور کی کوڑی لائے گی وہ ناقابل یقین ہوگا۔
کانٹ کے عقل خام کے نظریہ سے وحی والہام کی اہمیت میں اضافہ ہوا، کیوں کہ معلوم ہوا کہ عقل کے ذریعے اس کائنات کی ابتدا کا پتہ چل سکتا ہے نہ انتہا کا، نہ ہستی کا نہ نیستی کا۔ اقبال نے بھی شعر کی زبان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
اس کے بعد بیسویں صدی کی ابتدا میں فرانس کا فلسفی ہنری برگسان (۱۸۵۹۔ ۱۹۴۱) سامنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ حقیقت کی کھوج عقل سے نہیں بلکہ وجدان سے ہوسکتی ہے۔ اس کا قول تھا کہ Intuition is deeper than intellect یعنی وجدان عقل سے عمیق تر چیز ہے۔ یہ سائنس کی مذہب کی طرف مراجعت تھی بلکہ بہت بڑی چھلانگ تھی۔ کہاں سائنس کا یہ دعویٰ اور نظریہ کہ جو چیز تجربہ سے ثابت نہ ہو ہم اس کے وجود کا یقین نہیں کر سکتے اور اہل فلسفہ کا یہ دعویٰ کہ کسی چیز کے وجود اور عدم وجود کا معیار صرف عقل ہے اور کہاں کانٹ کا عقل محض کے وجود سے انکار اور پھر برگسان کا حقیقت کے ادراک کے لیے وجدان کا سہارا اور عقل کے بجائے وجدان پر اعتماد۔ اس نے اپنی کتاب Creative Evolution میں اور Matter and Memory میں بائلوجیکل سائنس کو شعور سے مربوط کر دیا اور فطرت کی کارسازی اور کارپردازی کی طاقت کو محدود کر دیا۔
برگسان نے ڈارون کے فلسفہ ارتقا اور فطری انتخاب کے فلسفے پر بھی تنقید کی اور کہا جو چیز اصل ہے وہ Creative Urge ہے وہ نمود اور تخلیق کی قوت ہے، نہ کہ فطری انتخاب کا فلسفہ۔ یہ سب فلسفہ اور سائنس کے تناقضات اور تضادات ہیں، جس کی طرف اقبال نے اپنے شعر میں اشارہ کیا ہے:
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
سائنس صرف سہولتوں کی دریافت کا نام نہیں ہے۔ بیشتر سائنس دانوں نے جدید ذہن کو ایک مادی ذہن بنا دیا ہے۔ تہذیب جدید کی اساس جدید سائنسی نظریات پر ہے۔ جدید نظریات نے انسانی ذہن میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں۔ جدید سائنس نے اخلاقی نظام کو بھی متاثر کیا ہے، قدروں کو متزلزل کیا ہے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا نے مادی ذہن وفکر کو تقویت پہنچائی ہے۔ ڈارون نے بتایا کہ انسان ایک عجیب وغریب مخلوق کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ خیال محض فاسفورس ہے اور روح بس اعصاب کی پیچیدگی کا نام ہے، اخلاقی تصورات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ انسانی جسم میں شکر کی رطوبت کا اخراج ہے۔ ڈارون ۱۸۰۹ میں پیدا ہوا، ۱۸۳۱ میں وہ ایک تحقیقی مہم میں دنیا کے سفر پر روانہ ہوا، جنوبی امریکا کے ساحلوں پر بحرالکاہل، بحر اوقیانوس اور بحیرۂ عرب میں نباتات وحیوانات پر اپنے تحقیقی کام جاری رکھے۔ اس نے مختلف انواع کے پودوں اور جانوروں کا معائنہ کیا، اس نے تحقیق کے کام کے لیے قبائلی لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وہ حقیقت اور صداقت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس نے بے شمار فاسلز (متحجر اشیا) جمع کیے، وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل میں جمع کرتا رہا۔ اس کی تحقیقات حیاتیات کی دنیا میں ایک دھماکا کرنے والی تھیں۔ ڈارون نے ۱۸۷۱ میں اپنے نظریات منضبط طور پر Origin of Species میں پیش کیے، اس نے تنازع للبقا اور فطری انتخاب وارتقا کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریہ نے تاریخ اور مذہب کی روایت پر کاری ضرب لگائی۔ اس نظریہ نے انسان کو یہ سمجھایا کہ انسان نہ تو خدا کی تخلیق ہے اور نہ وہ جنت سے نکالا ہوا انسان ہے۔ خدا نے انسان کو نہیں پیدا کیا ہے بلکہ انسان نے خدا کو پیدا کیا ہے، خدا انسان کی اپنی ذہنی اور اعتقادی تخلیق ہے۔ یہ انسان ہے جس نے خدا کا تصور دیا ہے۔ ٹی ایچ ہکسلے نے بھی اپنی کتاب ’’فطرت میں انسان کا مقام‘‘ میں مذہب کی تردید کی، ہکسلے ڈارون کا حامی تھا، ڈارون کا کہنا تھا کہ خدا کا وجود ایک نادیدہ شئے ہے اور جو چیز کہ نظر نہ آئے وہ واہمہ پر مبنی ہے، اس لیے خدا کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ گریگر مینڈل نے وراثت کا قانون پیش کیا کہ کس طرح اوصاف ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ بھی ڈارون کی نظریے کی حمایت میں تھا۔ مجموعی طور ان نظریات نے انسان کو فطرت میں مرکزی مقام سے ہٹا دیا۔ انسان انواع حیات میں سے بس ایک نوع تھا۔ عہد جدید میں ادب اور تہذیب کی سطح پر خدا بے زاری اور خدا فراموشی اور مذہب کے خلاف بغاوت کے جتنے جراثیم پائے جاتے ہیں، ان سب کو غذا ڈارون کے نظریہ سے ملتی ہے۔ ادب میں الحاد کے جو جراثیم ملتے ہیں ان کی بنیاد بھی ڈارون کا نظریہ ہے، تنازع للبقا کے نظریے نے دنیا میں ملکوں کے درمیان جنگوں کا جواز بھی فراہم کیا۔ یہ تنازع للبقا کا نظریہ ہے جو ہر جگہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتا ہے۔ ان سائنس دانوں کے ان نظریات کا نتیجہ تھا کہ بعد میں کثیر تعداد میں اسکالروں اور سائنس دانوں کا ایک ایسا گروہ سامنے آیا جس نے مذہب اور اخلاق کے خلاف اپنے فیصلے سنائے۔
ٹی ایچ ہکسلے نے کہاکہ جدید سائنس ایسا دھماکا ہے جس سے مذہب کے پرخچے اڑ گئے ہیں۔ مادی اور تجرباتی نقطہ نظر اتنا غالب آگیا کہ ہر اس چیز کا انکار کیا گیا جو تجربہ میں نہ آئے، سائنسداں مابعد الطبیعیات Metaphysics کا مذاق اڑانے لگے اور کہنے لگے کہ ’’مذہب آخری طور پر شکست کھا کر اکھاڑے سے نکل چکا ہے‘‘ اور پھر اہل زمانہ کی خرد نے یہ آواز بلند کی:
’’ہم نے خدا کی آخری خدمات کا شکریہ ادا کر کے خدا کو سرحد کے پار پہنچا دیا ہے۔‘‘
خرد کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ کانٹ نے عقل محض کی تردید کی اور کہا کہ Pure Reason کا وجود ہی نہیں ہے اور ہنری برگسان نے عقل کے بجائے وجدان کو اہمیت دی۔ کانٹ نے عقل اور فلسفہ کی شہ رگ کو کاٹا تھا۔ برگساں نے مذہب کی جانب ایک قدم آگے بڑھایا تھا۔ اس کے بعد البرٹ آئین اسٹائین (۱۸۷۹–۱۹۵۵) کی قدآور شخصیت جب سامنے آئی تو اس نے نظریہ اضافیت کے ذریعے مادیت کی اس پوری بنیاد کو منہدم کر دیا جس پر انکار خدا اور انکار مذہب کی عمارت قائم تھی اور جس پر سائنس کی تعمیر ہوئی تھی۔ نظریہ اضافیت نے زمان ومکان کے تصورات تبدیل کر دیے۔ وہ طبیعیات اور ریاضیات کا استاد تھا۔ اس نے ان دونوں میدانوں میں اپنے نظریات پیش کیے۔ اگر عقل کی بنیاد پر بعض عقلا نے مادی ذہن بنایا تھا تو آئین اسٹائین نے مادہ کی بالکلیہ نفی کی اور کہا کہ مادہ کچھ بھی نہیں ہے، یہ صرف الکٹرون اور پروٹون کا مجنونانہ رقص ہے۔ یہ تھے خرد کے نظریات جو باہم متصادم تھے۔
مادہ پرستی کے نظریات اور عقل کے غلبہ کے خلاف عقلا کے دیس یورپ میں رومانیت کی تحریک اٹھی اورشعر وادب اور فن کی جمالیات کے آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کی گئی۔ داخلیت اور اپنی ذات کے خول میں بند ہو جانے کی تحریک پیدا ہوئی۔ سیاست سے نفرت پیدا ہوئی اور شہروں سے بھاگنے اور دیہاتوں کی طرف واپس ہونے کا رجحان پیدا ہوا۔ کیوں کہ شہری تہذیب کا شور شرابہ اعصاب شکن تھا، بے ترتیبی میں مسرت کی تلاش ہوئی۔ یہ ایک نیا نظریہ تھا جس میں جنسی اخلاقیات کے زوال کو حصول نجات کا ذریعہ سمجھا گیا۔ یہ عقل کے غلبہ اور مصنوعی زندگی کے خلاف تحریک اٹھی تھی۔ یہ عقل کے خلاف ردّ عمل تھا، یہ ایک طرح کا ذہنی احتجاج تھا، آلات اور مشینوں کی جارحیت کے خلاف۔
ابھی عقل کے خلاف بغاوت شروع ہوئی تھی کہ عقل کی حمایت میں ایک طاقتور شخصیت میدان میں آئی۔ خرد کے نظریات کی دنیا میں ایک اور خردمند آ گیا اور ’’در بغل دارد کتاب‘‘ کی شکل میں آیا۔ یہ بلند قامت دانش ور عقل پر ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ یہ کارل مارکس ہے جس نے اشتراکیت کا فلسفہ اور اقتصادی نظام پیش کیا۔ یہ نظام صرف دولت کی مساویانہ تقسیم پرمبنی نہیں تھا بلکہ یہ نظام خدا، روح، روحانیت، اخلاق اور مذہب کے انکار پر بھی قائم تھا۔ اس نے عجیب وغریب نظریہ پیش کیا کہ نظریات اور عقیدے IDEAS AND CREED اقتصادی حالات کے پروردہ اور زائیدہ ہیں اور نظریہ وعقیدہ میں مذہب، اخلاق، قانون، سیاست، علم وہنر، عقل وسائنس اور فلسفہ ساری چیزیں آجاتی ہیں۔ اس کے نزدیک تمام خیالات اور عقیدے اقتصادی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ فکر عقیدہ، ادب اور تہذیب کا الحاد دراصل دو بیساکھیوں پر قائم ہے۔ ایک بائلوجی کے میدان میں ڈارون کا نظریہ، دوسرے اقتصادیات کے میدان میں کارل مارکس کا نظریہ۔ ایک حیاتیات اور فزکس کے میدان میں اپنے پیش کردہ نظریہ سے مذہب کی نفی کرتا ہے اور قصہ نزول آدم کا انکار کرتا ہے تو دوسرا سماجی علوم کے میدان میں اپنا نظریہ پیش کرتا ہے اور مذہب کو اقتصادی حالت کا نتیجہ مانتا ہے۔
کارل مارکس کے نظریات کی بنیاد پر دنیا میں جو کشت وخون ہوا اس میں سوملین سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ حصول اقتدار کے لیے اور اشتراکی نظام قائم کرنے کے لیے قتل وغارت گری اور جبر وتشدد کا بازار گرم ہوا۔ اشتراکی مفکروں کے یہاں مادہ اور معدہ کو نقطۂ پرکارِ حق کی حیثیت حاصل ہے ان کو ہر جگہ مادہ اور معدہ ہی کی حکم رانی نظر آتی ہے اور مذہب اور روحانیت کو وہ افیون قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب ایک ایسے معاشرہ کی دینی اور روحانی مدد کرتا ہے جو اکثریت کے مادی اور ذہنی استحصال پر مبنی ہے۔ کارل مارکس نے بھی ادب اور تہذیب پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ مابعد الطبیعاتی عقائد کی مخالفت میں تمام اشتراکی ادیب متفق اللسان ہیں۔
خرد کے نظریات نے مذہب پر حملہ کیا تھا اور مابعد الطبیعاتی حقائق کا انکار کیا تھا۔ لیکن خود اہل مذہب کا رویہ بھی ہمیشہ درست نہیں رہا۔ اہل کلیسایہ سمجھتے تھے کہ وہ زمین جس پر یسوع مسیح آئے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، سورج کو اس کے گرد حرکت کرنا چاہیے لیکن جب گلیلو نے اپنی تحقیق پیش کی کہ زمین سورج کے چاروں طرف گردش کرتی ہے تو اہل کلیسا برہم ہو گئے۔ انھوں نے گلیلو پر دباؤ ڈالا کہ وہ عوام کے سامنے اس نظریہ سے تائب ہو جائے، چناں چہ گلیلو کو برسر عدالت اپنے نظریہ سے دست کش ہونا پڑا، لیکن روایت ہے کہ بیان دینے کے بعد گلیلو نے زمین کی طرف دیکھا اور سرگوشی کے لہجے میں کہا: ’’یہ تو اب بھی گھوم رہی ہے‘‘، گلیلو جو ایک سائنس داں تھا اس پر بیجا اور غلط دباؤ اہل مذہب نے ڈالا، مذہب کی غلط نمائندگی کرنے والوں کا جارحانہ رویہ سائنس دانوں کے خلاف سامنے آیا اور علم وسائنس کے علم برداروں پر ان کے بے پناہ مظالم دیکھے گئے، آزادئ فکر پر دست درازی کی گئی، اس کے نتیجے میں اسٹیٹ نے چرچ سے علاحدگی اختیار کرلی اور دنیا پر سیکولر زم کا نقطۂ نظر غالب آگیا اور سیکولرزم کے فلسفے میں مذہب سمٹ کر گھر کے اندر فروکش ہو گیا۔ اس میں کوئی حرج نہ تھا اگر مذہب کی روح ہر جگہ جاری وساری رہتی۔ مذہب کے نام پر ظلم وزیادتی سے تو یہ علاحدگی بہتر تھی۔ مذہب کے بگاڑ کے خلاف مارٹن لوتھر کی اصلاحات بھی سامنے آئیں۔ لیکن سیکولرزم کے زیر اثر مذہب کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی تھی اور انسان کی فکر اور اس کے دل ودماغ کو سرتاسر مادی بنانے اور پورے معاشرے کو مادیت میں غرق کر دینے کی کوششیں ہونے لگیں۔ چرچ اور اسٹیٹ کی علاحدگی کے بعد کی جو صدیاں شروع ہوئی ہیں، ان میں مذہب کو حاشیہ میں جگہ ملی ہے۔ موجودہ عہد مذہبی فکر کے انحطاط کا عہد ہے اور ابھی آئندہ جو صدیاں گزریں گی اگر خرد کی دنیا میں صالح انقلاب نہ آیا تو وہ بھی بظاہر اس فکر کے زیر اثر گزریں گی۔ اس کا شاخسانہ ہے کہ اب اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب کا دور ختم ہو گیا ہے۔ اب تبدیلی مذہب محض انفرادی اور اتفاقی اور غیر اہم واقعہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اب بینکوں کی عمارات گرجا سے زیادہ عالی شان بننے لگی ہیں، کیوں کہ عبادت گاہ کی مرکزیت اب ختم ہو چکی ہے۔ مذہب ایک حاشیہ پر چلا گیا ہے، معیارِ بندگی کی اہمیت نہیں ہے، معیارِ زندگی کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
دل کی گہرائیوں میں مذہب کے اثرات کو ختم کرنا مشکل کام ہے۔ روح کے کرب کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کرب نے نئی مذہبیت کی راہ ہم وار کی۔ یہ کوئی معروف معنی میں مذہب کا احیا نہ تھا۔ اس نئی مذہبیت کو ذات اور وجود کی گہرائیوں میں ڈھونڈھا جانے لگا، عبادات اور رسوم کے بغیر وحی والہام کی طرف واپسی کا مشورہ دیا گیا۔ پوپ جاز راک اینڈ رول اور ہپی ازم کی شکل اختیار کر لی گئی اور نئے روحانی تجربے ہونے لگے، اساطیر اور دیو مالا سے دل چسپی لی جانے لگی، یہ نئی مذہبیت تھی، یہ مذہبیت عصر حاضر کے زخموں کا مرہم تو نہیں بن سکی لیکن درد کی علامت ضرور بن گئی۔
جس طرح اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں رومانیت کی تحریک عقل پرستی کے خلاف اٹھی تھی جو وجود کی آزادی اور انفرادیت کے تحفظ کا منشور تھی اور جو عقل کے نظریات اور اجتماعی زاویۂ نظر کے مقابلے میں ذاتی تجربہ اور شعور کی قدر وقیمت کا شعور عام کرنا چاہتی تھی، اسی طرح سے بیسویں صدی میں سائنس کے عقلی اور میکانیکی نظام کے خلاف ردّعمل کے نتیجے میں وجودیت کی تحریک پیدا ہوئی اور اس نے پھر فلسفہ کی ہیئت اختیار کرلی۔ وجودی فلسفہ کا مقصد وجود کے معنی کی تلاش ہے، سارتر اور دوسرے وجودی مفکرین سامنے آئے۔ وجودی مفکرین کے درمیان جو چیز مشترک ہے وہ وجود کی اولیت کو تسلیم کرنا ہے اور وجود پر خارجی رویوں کے تسلط کا انکار کرنا ہے اور انفرادی آزادی کا تحفظ ہے اور عشرت قطرہ دریا میں فنا ہو جانے کا نام نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں قطرہ کی اپنی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔
خرد کے نظریات کا ایک پورا دفتر بے پایاں ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ دفتر بے معنی ہے ’’جو غرق مئے ناب اولی‘‘ کا مصداق ہے اور جن کے ذریعے سے حق تک رسائی مشکل ہے۔ یہ نظریات باہم دگر متصادم ہیں۔ ہر نظریے میں کچھ جزوی صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کی ناقص روشنی میں زندگی کا سفر طے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک خردمند ہے جو نظریات کی دنیا میں خرد افروزی کے لیے سامنے آتا ہے، اس کا نام رینے دیکارٹ (۱۶۵۰–۱۵۹۶) ہے۔ فرانس کا یہ فلسفی یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ سچائی کو پانے کے لیے پہلے ہر چیز میں شک کرنا ضروری ہے۔ اپنی ہستی میں شک، مروجہ عقائد میں شک، خدا کے وجود میں شک اور کائنات کے وجود میں شک۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ اپنے فلسفۂ تشکیک کے ذریعے اپنے وجود کا بھی قائل ہوا اور خدا کے وجود کا بھی۔ اس نے اپنے وجود کی دلیل یہ پیش کی کہ ’’چوں کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں‘‘۔ آخر میں وہ ایک اطاعت گزار اور راسخ العقیدہ کیتھولک بن گیا تھا۔ لیکن اصل سوال اس کے فلسفہ اور منہج کا ہے۔ کیا یہ فلسفہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کو گم راہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص شک کے ذریعے صحیح عقیدہ پر یقین تک پہنچ جائے۔ اب دیکھیے ایک اور خردمند سگمنڈ فرائڈ کے نام سے سامنے آتا ہے اور خرد کا نیا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس نے اپنا مشہور نظریہ پیش کیا کہ شخصیت انسانی یا نفس انسانی صرف وہی نہیں ہے جسے ہم شعور کہتے ہیں اور جس کی مدد سے ہم سوچتے جانتے اور محسوس کرتے ہیں اور گردوپیش کے حالات میں تغیر کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بلکہ اس کے علاوہ نفس انسانی کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو ہمارے شعور کی سطح کے نیچے موجود ہے جسے ہم تحت الشعور اور لاشعور کا نام دے سکتے ہیں۔ انسان کی ساری شخصیت لاشعور ہی ہے اور شعور صرف اس کا ایک جزہے، جو بیرونی دنیا کا جائزہ لینے کے لیے ابھر آیا ہے، جیسے سمندر میں تیرتا ہوا برف کا تودا، جو اپنے نہایت قلیل تقریباً دسویں حصے کے سوا تمام کا تمام سطح سمندر کے نیچے ہوتا ہے، یوں کہنا چاہیے کہ شعور کو لاشعور سے وہی نسبت ہے جو سمندر کے جھاگ کو سمندر سے ہے۔ سگمنڈ فرائڈ صرف اسی شعور اور لاشعور کی نسبت بیان کرنے پر بس نہیں کرتا، بلکہ اس کے بعد یہ بھی کہتا ہے کہ اس لاشعور میں ایک طوفان تمنا ہر وقت موجزن رہتا ہے اور یہ تمنا ایک زبردست جنسی خواہش ہے۔ لیکن لاشعور اپنی جنسی خواہش کو شعور کے ذریعے پورا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ شعور جو لاشعور کا حصہ بھی ہے اکثر اس خواہش کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے اور اس کی وجہ سماج کا جبر اور مذہب کی رکاوٹ ہے۔ لیکن ان جنسی خواہشات کو روکنے سے فرد میں بے چینی اور بے قراری لاحق ہوتی ہے، دماغی توازن بگڑتا ہے، انسان جنون اور ہسٹیریا کا شکار ہوتا ہے۔ فرائڈ کے نظریہ کے مطابق بالکل بچپن ہی سے جنسی خواہشات کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ لاشعور کی شدید جنسی خواہش اور بیرونی دنیا کے درمیان ’’ایگو‘‘ ہوش اور احتیاط کا ایک واسطہ ہے۔ ایگو اور لاشعور کا باہمی ربط ایسا ہی ہے جیسے ایک سوار اور اس کا گھوڑا۔ گویا گھوڑا لاشعور ہے اور وہ جنس کا اڑیل گھوڑا ہے اور ایگو یعنی گھڑسوار مذہب اور سماج کے ڈر سے گھوڑے کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فرائڈ کے نزدیک انسان مغلوب الشہوات حیوان ہے۔
خرد کے نظریات نہ صرف متغیر اور متبدل ہیں بلکہ باہم متصادم بھی ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ کے بعد اس کا شاگرد ایڈلر سامنے آتا ہے اور وہ خرد کا دوسرا ہی نظریہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ لاشعور کے اندر جس خواہش کا طوفان موجزن رہتا ہے وہ جنسی محبت نہیں ہے بلکہ حُبِّ تفوق ہے۔ یعنی ہر انسان اپنا تفوق چاہتا ہے اور دوسروں پر اپنا غلبہ چاہتا ہے، وہ دوسروں کو زیر کرنے اور مقہور کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور اسی سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ فرائڈ کی طرح ایڈلر کا بھی یہ خیال ہے کہ مذہب اور اخلاق یہ سب انسان کی ایجاد کردہ چیزیں ہیں، نہ کہ یہ احکام الٰہی ہیں۔
فیضان سماوی سے محروم ہونے کے بعد جو سماجی نظریات قائم ہوتے ہیں، وہ اکثر درست نہیں ہوتے اور عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال قدیم تاریخ میں عورت کے بارے میں سینٹ پال کا نظریہ ہے۔ یہ عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات نہیں ہیں، لیکن عیسائیت کے سب سے بڑے مبلغ اور اس کی تشکیل جدید کے داعی سینٹ پال کی تعلیم ہے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ ’’عورت کو محکوم رہنا چاہیے اور اس کو تعلیم نہیں دینا چاہیے، اسے مرد سے کمتر درجہ حاصل ہے کیوں کہ آدم کی تخلیق حوا سے پہلے ہوئی ہے۔‘‘ ارسطو نے بھی عورت کو کمتر مخلوق قرار دیا تھا بلکہ اس نے غلامی کے نظریہ کی حمایت بھی کی تھی۔ عجیب بات ہے کہ ارسطو کا استاد افلاطون مرد وزن کی مساوات کا قائل تھا لیکن یہ ایسا خردمند تھا کہ اس کی ایک فکر متوازن تھی تو دوسری غیر متوازن۔ وہ مشترک بیویوں کے نظریہ کا علم بردار تھا۔ اور شعرا کو ملک بدر کر دینے کا حامی تھا۔ یہ ساری با تیں اس کا ثبوت ہیں کہ خرد کے نظریات اگر الہام پر مبنی نہ ہوں تو غیر متوازن ہو سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس نے انسان کی اور کل کائنات کی تخلیق کی ہے وہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ انسان کی بھلائی کا سب سے بہتر نظریہ کیا ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے کہ:
جو قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
نظریات اور تصورات کا ایک پورا جنگل ہے، جو پچھلی کئی صدیوں میں اگتا رہا اور پھلتا پھولتا رہا ہے۔ اس صورت میں ایک شخص تلاشِ حق کے لیے روانہ ہوتا ہے، وہ مختلف نظریات کو آزماتا رہتا ہے اور اسے معرفتِ حق کی منزل نہیں ملتی ہے اور اس لیے نہیں ملتی ہے کہ ’’ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات‘‘، اقبال کے مصرعہ کی روشنی میں خرد کے بس ان چند نظریات کا تذکرہ کیا گیا جنھوں نے زمانہ اور ادب وتہذیب پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔
اقبال کی منشا یہ ہے کہ عقل کے ذریعے نہیں بلکہ خداکے بھیجے ہوئے عرفان کی راہ سے حق تک رسائی ممکن ہے۔ عقل وحی الہی کی تصدیق ضرور کرتی ہے لیکن اس کا بدل نہیں ہوسکتی ہے۔ پوری انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2024