دنیا کے فسادات میں تنگ نظری کو بڑا دخل ہے۔ یہ خرابی سیکڑوں شکل میں سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے خاندان اور اپنی نسل ہی میں ساری خوبیاں دیکھتے ہیں۔ ان کی خیرخواہی صرف اسی دائرے تک محدود ہوتی ہے۔ اس کے باہر نہ وہ ہمدردی کے قائل ہوتے ہیں اور نہ امداد و محبت کے۔ یہ تنگ نظری ہمیشہ مختلف خاندانوں میں لڑائی اور جھگڑے کا سبب بنا کرتی ہے۔ اور اکثر ملکوں کا امن و چین اسی کی بدولت برباد ہوتا رہتا ہے۔ جب کچھ لوگ اس خرابی کا علاج کرنے اٹھتے ہیں تو وہ زیادہ تر یہ کرتے ہیں کہ اس تنگ نظری کی حدوں کو کھینچ تان کر قوم یا ملک کی حدوں تک بڑھا دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ مصلح بن بن کر سامنے آتے ہیں جو اپنی خیرخواہی، ہمدردی اور محبت کی حدوں کو خاندانوں، ذاتوں اور نسلوں سے بڑھا کر کسی قوم یا ملک تک وسیع کردینا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک کسی خاص ملک یا کسی خاص قوم کا نفع چاہنا سب سے بڑی نیکی ہوتی ہے اور ان کی یگانگت اور محبت کا دائرہ زیادہ سے زیادہ اس ملک یا قوم تک وسیع ہوجاتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو نتائج کے اعتبار سے یہ صورت بھی ایسی ہی مضر ہوتی ہے جیسے کہ پہلی صورت بلکہ فساد اور جنگ کے اعتبار سے یہ اُس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگی ہے۔ اس تنگ نظری کی بنیاد پر قومیں قوموں سے ٹکراتی ہیں اور ملک ملکوں سے۔ لالچ اور خود غرضی سے اندھے ہوکر یہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں اور تمام دنیا میں ایسی خونریزی اور فساد کا بازار گرم ہوجاتا ہے جیسے کہ ابھی کچھ سالوں پہلے دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر دنیا نے دیکھا۔
دنیا میں صحیح امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کل زمین پر بسنے والے انسانوں کے درمیان کوئی تعلق قائم کیا جائے۔ خالص توحید پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس زمین اور آسمان میں جو چیز بھی پائی جاتی ہے۔ وہ ایک ہی مالک کی مِلک ہے۔ سب انسان اُسی کی رعیت ہیں جو اکیلا مشرق اور مغرب کا بادشاہ ہے اور تمام جہانوں کا پالنے پوسنے والا ہے۔ خدا کو تنہا مالک اور بادشاہ تسلیم کرنے والے کے نزدیک سب انسان اُس کی رعیت اور بندے ہونے کے لحاظ سے برابر ہوتے ہیں۔ اُس کی ہمدردی، محبت اور خدمت کسی خاندانی ، قومی یا ملکی دائرے کی پابند نہیں ہوتی۔ اُس کی نظر اُسی طرح وسیع ہوتی ہے جس طرح خود اللہ تعالیٰ کی بادشاہی وسیع ہے۔
تنگ نظری کی لعنت دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو واحد الٰہ اور رب ماننا ضروری ہے۔
ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے بلا وجہ ذلّت اختیار نہیں کرتا، جب کسی کی کوئی غرض کسی سے اٹکتی ہے تب وہ اس کے سامنے اپنے کو ذلیل کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، اس کی خوشامد کرتا ہے، طرح طرح سے اس کو خوش کرنے کے جتن کرتا ہے، اور اپنی عزت کاخیال کیے بغیر خودداری کو برباد اور انسانیت کو ذلیل کرتا ہے۔ بظاہر جس کسی سے اس کو کوئی نفع پہنچ جاتاہے اُس کی غلامی کا طوق اس کے گلے کا ہار ہوجاتا ہے، اور جس کسی سے بظاہر کسی نقصان کا اندیشہ نظر آتا ہے اُسی کے ڈر اور خوف سے کانپا کرتا ہے۔ انسان کا انسان پر اس درجہ چھا جانا انسانیت کی سب سے بڑی لعنت ہے اور دنیا کے تمام فسادوں کی جڑ یہی انسان پر انسان کی خدائی ہے۔
خالص توحید کا ماننے والا صرف ایک خدا کو تمام طاقتوں کا مالک جانتا ہے اس کے سوا کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے والا تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک نہ کوئی مارنے والا ہے، اور نہ جِلانے والا، نہ کوئی صاحبِ اختیار ہے اور نہ صاحبِ اقتدار۔ لہٰذا وہ ہر ایک سے نڈر ہوتا ے۔ اُس کی گردن کسی کے سامنے نہیں جھکتی، اُس کا ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلتا، اس کے دل میں کسی کی بڑائی اور بزرگی گھر نہیں کرتی۔ وہ کسی انسان کے سامنے ذلیل ہوکر انسانیت کو ذلیل نہیں کرتا۔ اس کا سر اونچا اور دل غنی ہوتا ہے۔
سب سے بہتر خودداری اور عزتِ نفس پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو واحد الٰہ اور رب ماننا بہت ضروری ہے۔
جس شخص کے دل میں یہ بات سما جائے کہ اس سے بڑا کوئی نہیں، وہ اکثر فتنہ اور فساد کی جڑ ثابت ہوتا ہے۔ چاہے یہ شخص اپنے آپ کو حکومت، دولت، طاقت میں بڑا جانے یا علم، ہنر اور فن میں ہر حال میں دنیا کے لیے اس کا وجود مصیبت ہی ہوتا ہے۔ یہ اپنے غرور اور تکبر کے نشے میں دوسروں کو حقیر جانتا ہے اور ان سے انسانیت کا برتاؤ نہیں کرتا۔ اس قسم کے برتاؤ سے مختلف انسانوں کے درمیان نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔ اور لوگوں کے دل ایک دوسرے جڑنے نہیں پاتے۔
خالص توحید کا قائل کبھی مغرور نہیں ہوسکتا۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اُس کی قوت، دولت اور قابلیت جو کچھ ہے خدا کی دین ہے اور اس کی ہی امانت ہے۔ وہ جس طرح ان چیزوں کے دینے کی قدرت رکھتا ہے اسی طرح وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ یہ عقیدہ ایک دولت مند، حاکم، طاقت ور اور قابل آدمی کے مزاج میں زیادہ سے زیادہ انکساری پیدا کرتا ہے۔ وہ جس قدر زیادہ دولت، زیادہ قوت اور زیادہ قابلیت کا مالک ہوتا ہے دوسرے انسانوں کے لیے وہ اتنا ہی زیادہ ہمدرد اور مددگار ثابت ہوتا یہ۔ اس کی ساری قوتیں بھلائی کو پھیلانے اور برائی کو دبانے میں کام آتی ہیں۔ وہ اپنی سب صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق دنیا کے بناؤ میں صرف کرتا ہے۔ اس کے ہاتھوں بگاڑ نہیں ہوتا۔
تکبر کی لعنت سے دنیا کو بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو واحد الٰہ اور رب ماننا بہت ضروری ہے۔
ان لوگوں کے ہاتھوں برا ظلم اور فساد ہوتا ہے جو اپنی زندگی کچھ جھوٹے سہاروں پر بسر کرتے ہیں اور جن کے نزدیک نیک عمل اور اچھے کردار پر انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار نہیں ہوتا۔ مثلاً جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چاہے جو گناہ کریں فلاں ہستی ان کے گناہوں کا کفارہ ہوگئی ہے۔ یا فلاں بزرگ ان کی سفارش کرکے انہیں ضرور بخشوا لیں گے۔ یا وہ ایک ایسے گروہ یا نسل یا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ جس کی بنیاد پر وہ ہمیشہ اللہ کے عذاب میں نہیں رہ سکتے اگر سزا ملی بھی تو بس چند روز۔ یا جن دیوتاؤں اور بزرگوں کی نذر ونیاز انھوں نے کی ہے، وہ انہیں برے کاموں کی سزا سے بچالیں گے۔ ایسے لوگ برائی اختیار کرنے اور برائی پھیلانے میں بہت بے باک ہوتے ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جو کسی خدا اور کسی جزا اور سزا کے قائل ہی نہیں ہیں، ان کے ہاتھوں جس قدر برائی پھیلے کم ہے، اس لیے کہ نتائج کے اعتبار سے ان کے نزدیک نہ برائی کوئی چیز ہے اور بھلائی۔
خالص توحید کا اقراری اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جس خدا پر وہ ایمان لایا ہے وہ بے نیاز اور منصف ہے۔ وہ کسی سے ایسا رشتہ نہیں رکھتا کہ جس کے دباؤ سے وہ مجروموں کو معاف کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ نجات اور کامیابی کا مدار نیک کاموں پر اور نفس کی پاکیزگی پر ہے، اس لیے وہ کسی آن بھی نیکی سے غافل نہیں ہوتا۔
دنیا میں سچ مچ بھلے آدمی پیدا کرنے کے لیے اور نیکی پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو واحد الٰہ اور رب ماننا بہت ضروری ہے۔
ایسا اس دنیا میں کوئی نہیں جسے کبھی نہ کبھی مشکلوں سے دوچار ہونا نہ پڑتا ہو۔ مشکلوں کے وقت جو لوگ ہمت ہار جاتے ہیں ان کے ہاتھوں کوئی بڑا کام انجام نہیں پاسکتا۔ ایسے لوگوں کا سہارا مادّی اسباب پر رہتا ہے۔ جب تک ظاہری قوت کے اسبابِ مال، دولت، ساتھی، صحت وغیرہ موجودہ رہتے ہیں، ان کی ہمتیں بندھی رہتی ہیں اور جب ان اسباب میں کمی آتی ہے تو ان کی ہمتیں بھی جواب دینے لگتی ہیں، ایسے لوگ دنیا میں اصلاح کا کام کسی بڑے پیمانے پر نہیں کرسکتے۔ البتہ مادّی وسائل کے جمع کرنے، قوت اور دولت حاصل کرنے کے لیے ان کے ہاتھوں ظلم اور فساد اکثر ہوا کرتا ہے۔ ایسے لوگ اکثر یہی دعوے لے لے کر اٹھتے ہیں کہ وہ دنیا کی اصلاح کریں گے، لیکن چونکہ ان کی نظر میں اصلاح کے لیے مادی اسباب کی، قوت اور اقتدار کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ پہلے ان چیزوں کو فراہم کرنے کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور اس کوشش میں وہ ہر قسم کی زیادتی اور ہر طرح کا ظلم کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
خالص توحید پرایمان رکھنے والا کسی حال میں دل شکستہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک خدا پر ایمان رکھتا ہے، جو زمین اور آسمان کے سارے خزانوں کا مالک ہے۔ جس کا علم اور اختیار بے حساب ہے۔ یہ ایمان اس کے دل کو بہت زیادہ تسکین دیتا ہے۔ اس کو سچا اطمینان بخشتا ہے، اور اس کے دل کو ہمیشہ امیدوں اور حوصلوں سے بھرا رکھتا ہے۔ وہ ایسے حال میں بھی ہمت نہیں ہارتا جب اس کے سارے سہارے ٹوٹ جائیں اور تمام مادی ذرائع اور وسائل جواب دے دیں۔ وہ اللہ کے فضل اور اس کی امداد کی امید پر برابر کام کیے چلا جاتا ہے۔ ہر نئی کوشش میں اسے نیا لطف آتا ہے، ظاہری ناکامیاں اس کی ہمت نہیں توڑتیں— یہی لوگ وہ ہیں کہ جب وہ دنیا میں نیکیاں پھیلانے اور برائیاں مٹانے کے لیے اٹھتے ہیں تو انہیں کوئی قوت روک نہیں سکتی، وہ امید سے بھرے ہوئے دلوں کے ساتھ اصلاح کے کام کو لے کر اٹھتے ہیں اور ایسے حال میں کام کرنا شروع کرتے ہیں کہ جب ان کے پاس ذرائع و وسائل بہت ہی کم ہوتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وہ کام کرتے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ذرائع اور وسائل پر انہیں قبضہ بخشتا جاتا ہے اور یہ ان اسباب پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی امداد کے سہارے پر برابر کام کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دن یہی بے وسیلہ لوگ دنیا کے لیے امن اور سلامتی کا سبب بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کی اس دنیا میں خیرو صلاح کی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے اور دم توڑتی ہوئی انسانیت انہیں کے ہاتھوں دوبارہ زندگی پاتی ہے۔ سب سے زیادہ ہمت والے اور حوصلہ مند انسان بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو واحد الٰہ اور رب ماننا بہت ضروری ہے۔
بزدلی اور کم ہمتی ہوتے ہوئے یہاں آپ کوئی بھلا کام نہیں کرسکتے۔ انسان کو بزدل بنانے والی دراصل دو چیزیں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ موت سے ڈرتا ہو اور اسے یہ خیال ہو کہ وہ اگر چاہے تو اپنی کوششوں اور تدبیروں سے موت کو ٹال سکتا ہے، دوسری یہ کہ اسے اپنے مال، اولاد اور گھر وغیرہ کی ایسی محبت ہو کہ وہ انھیں چھوڑنے یا ان کا نقصان اٹھانے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔ ایسا شخص کسی ضرورت کے وقت ہمت سے کام لے ہی نہیں سکتا۔
خالص توحید کا اقرار کرنے والا یقین رکھتا ہے کہ موت اور زندگی خدا کے ہاتھ ہے، وہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ اس کے حکم بغیر موت نہیں آسکتی، جان لے لینے کی قوت نہ کسی انسان میں ہے اور نہ کسی حیوان میں، موت نہ کسی توپ سے آتی ہے اور نہ کسی بندوق کی گولی سے، اس کا ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے کوئی شخص مر ہی نہیں سکتا۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ مال، اولاد، اور گھر وغیرہ سب کچھ اسی مالک کی مِلک ہیں۔ اس کی خوشنودی کے لیے اگر یہ سب چیزیں بھی کام آجائیں تو کوئی ہرج نہیں۔
اس عقیدے کے بعد انسان میں وہ بہادری آجاتی ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ یہ شخص جب خدا کی مرضی کے لیے کسی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھتا ہے اور برائیوں کو دنیا سے مٹانے کے لیے جنگ کرتا ہے تو تلواروں کی باڑھ، گولیوں کی بوچھاڑ اور گولوں کی بارش اس کا راستے نہیں روک سکتیں۔ یہ اپنے سے دس گنی قوت سے بلا جھجھک بھڑجاتا ہے اور دیکھتے دیکھتے اپنے مخالف کا منھ پھیردیتا ہے۔
دنیا میں سب سے اچھے بہادر بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو واحد الٰہ اور رب ماننا بہت ضروری ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اکثر برائیوں کی طرف جھک جاتا ہے، اُس کو برائیوں سے روکنے کے لیے طرح طرح کے قانون اور سزائیں بنائی جاتی ہیں، لیکن وہ ہمیشہ قانون کی نظر بچا کر برائیوں میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور اکثر دنیا کی سزائیں اُسے نیک بنانے میں کامیاب ثابت نہیں ہوتیں، انھیں لوگوں کے ہاتھوں دنیا میں برائیاں پھیلا کرتی ہیں۔ امن کو برباد کرنے والے ایسے ہی انسان ہوتے ہیں۔
خالص توحید کا ماننے والا یقین رکھتا ہے کہ خدا ہر چھپی اور کھلی بات کا جاننے والا ہے۔ اُس سے چھپ کر کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔ وہ دلوں کے ارادوں سے بھی باخبرہے، اس کی پکڑ بہت سخت ہے، اس کا عذاب سخت دردناک ہے، یہ یقین اور یہ ایمان انسان کو خدا کے قانون کا پابند بناتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اس کا خیال رکھتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے۔ حلال و حرام کا فرق ہر وقت اس کے سامنے رہتا ہے۔
یہی وہ لوگ ہیں جو خود بھی نیکی کا نمونہ ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی برائیاں دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں صحیح معنوں میں امن اور سکون انہیں کے ہاتھوں قائم ہوتا ہے۔
دنیا کے بہترین آدمی تیا رکرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو سچے دل سے واحد الٰہ اور رب ماننا بہت ضروری ہے۔
(الحسنات توحید نمبر، جون1949ء)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021