مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ایک قابل احترام عالم دین ہیں ،لیکن اللہ کا دین ہر شخص سے زیادہ قابل احترام ہے جب دین وشریعت کا مسئلہ ہو اور کسی سے غلطی سرزد ہو تو کسی کی رعایت درست نہیں، مسئلہ دین کا ہو اور حق کے اظہار کی ضرورت ہو تو کسی کی رعایت نہیں کرنی چاہئے او رحق گوئی سے کام لینا چاہئے ، غور وفکر کے لئے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تحریر پیش کی جارہی ہے جو ان کے اس کلیدی خطبہ کا حصہ ہے جسے انہوں نے ۵-۷ فروری ۲۰۱۶کو آسام میں منعقدہ فقہی سمینار میں پیش کیا تھا ۔ مولانا فرماتے ہیں :
’’ آج مسلم حکمرانوں کی جو بدتر صورت حال ہے وہ یقینابے حد افسوسناک ہے ، ان کا فسق وفجور ، ظلم وجور، عیش پرستی اور عشرت کوشی ، احکام شریعت کی تنفیذ سے انکار ، اسلامی فکر وتہذیب اور شریعت ربانی کے مقابلہ میں مغرب کے الحاد اوراباحیت پر مبنی فکر وعمل کو قبول کرلینا ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، کم وبیش کافرق تو پایا جاتا ہے لیکن شاید ہی کوئی ایسا مسلم فرماں روا ہو جو اسلام کے مطلوبہ معیار کو پورا کرتا ہو ، لیکن کیا اس کی وجہ سے ان کے خلاف مسلح بغاوت کرنا جائز ہے ؟اور کیا اس کے سبب مسلمانوں کی خوں ریزی نیز ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا بگل بجا دینادرست ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے اور رسول اللہﷺ نے اس کا واضح جواب دیا ہے ۔ حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد ایسے حکمراں آئیں گےجو میرے طریقہ کو اختیار نہیں کریں گے میری سنت پر نہیں چلیں گے ، ان حکمرانوں میں کچھ لوگ ایسے ظاہر ہوں گے جن کے دل ایسے ہوں گے گویا انسانوں کے قالب میں شیطانوں کے دل رکھ دئے گئے ہیں ۔ حضرت حذیفہؓنے عرض کیا :اللہ کے رسول اگر میں ان کوپاؤں توکیا کروں؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا :امیر کی بات سناکرو اور اس کی اطاعت کیاکرو، اگر وہ تمہاری پیٹھ پر مارے اور تمہارے مال لے لے، تب بھی سمع واطاعت کادامن نہ چھوڑو ۔ ( مسلم کتاب الامارۃ حدیث نمبر ۱۸۴۷)مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہے چاہے اس کے لئے کچھ افراد کے فسق وفجور کو برداشت کرناپڑے، اسی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مسلمان اچھا ہو یا برا اس کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو ، کوئی مسلمان نیک اور صالح ہو یا فاسق وفاجر اس کی نماز جنازہ پڑھا کرو امیر نیک اور صالح ہو یا فاسق وفاجر اس کے ساتھ جہاد میں شریک رہو ( سنن دار قطنی ، کتاب العیدین ) یہ مضمون متعدد روایت میں آیا ہے ، اور صحابہ نے عملی طور پر اسے برتا ہے ۔ غور کیجئے کہ حجاج بن یوسف کے ظلم وجور کو دیکھتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن عمر نے جرآ ت مندی کے ساتھ اسے ٹوکا لیکن اس کے باوجود آپ اس کے پیچھے نمازپڑھاکرتے تھے۔ بنو امیہ اور بنو عباس میں کیسے کیسے ظالم بادشاہ پیدا ہوئے اہل بیت اور صحابہ ان کے ہاتھوں قتل کئے گئے انہوں نے حرمین شریفین کی بے حرمتی کی اس کے باوجود صحابہ نے ان کے پیچھے نماز بھی اداکی اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف جہاد میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوئے ۔ ان حالات میں علماء کی تین اہم ذمہ داریاںہیں ایک یہ کہ وہ نوجوانوں کو صحیح صورت حال سے باخبر کریں ، انہیں بتائیں یہ تحریک مکمل طور پر اسلام کے مزاج سے ہٹی ہوئی ہے ، اس کا مقصد اسلام کو رسواکرنا اورمغربی طاقتوں کے لئے اس بات کا جواز فراہم کرنا ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں اندھا دھند بمباری کریں اور اپنے ناپاک وجود کو وہاں برقرار رکھیں ۔‘‘
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک اور ضروری کام اس خطبہ میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان غیر مسلم بھائیوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں اور علماء اور مختلف مکاتب فکر کے مذہبی رہنما اپنے رویہ میں احتیاط پیدا کریں ۔یہاں مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب کی بیان کردہ علماء کی ایک ذمہ داری موضوع گفتگو ہے مولانا نے فرمایا کہ یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو بتائیں کہ یہ تحریک( شام و مصروغیرہ کی احتجاجی عوامی تحریک ) مکمل طور پر مزاج اسلام سے ہٹی ہوئی ہے ۔ تحریک سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی مراد عرب ملکوں میں حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک ہے۔ مذکورہ عبارت میں مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب کی تنقید کا نشانہ وہ تحریکات ہیں جوبشار الاسد، حسنی مبارک، عبد الفتاح سیسی ، علی زین العابدین ، کرنل قذافی جیسے حکمرانوں کے خلاف اٹھی ہیں یہ اسلام کے مزاج سے کیوں ہٹی ہوئی ہیں ؟ یہ بتانے کے لئے مولانا خالد نے وہ حدیثیں نقل کی ہیں جن میں امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ، چاہے وہ نیک ہو یا فاسق و فاجر ہو،ایک دوسری حدیث میں نیک یا فاسق امیرکے ساتھ جہاد میں شریک رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
میرے نزدیک یہ سادہ لوحی کی بات ہے کہ شام کے بشار الاسد اور مصر کے حسنی مبارک اور عبدالفتاح سیسی کو اور تیونس کے علی زین العابدین کو اور لیبیا کے کرنل قذافی کو اس خلیفہ کا درجہ دیا جائے جس کی اطاعت کا حکم احادیث میں دیا گیا ہے ۔جس امام یا خلیفہ کی اطاعت واجب ہے وہ امام یا خلیفہ ہے جس کی امامت پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہو مولانا خالد رحمانی نے عرب دنیا کے ان بد ترین مجرم حاکموں کو خلیفہ یا امیر المؤمنین کا درجہ دیا ہے گویا ان مجرموں کی اطاعت اسلام میں فرض ہے ورنہ بطور دلیل وہ بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانہ کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ ، خلیفہ اور امیر المؤمنین تو اسی زمانہ میں ہوا کرتے تھے اور بحیثیت مجموعی ان کی اطاعت کی جاتی تھی ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حدیث میں حاکم کی سمع وطاعت کا حکم دیاگیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ایسی احادیث موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حکمراں کی اطاعت کی جائے خواہ وہ ظلم اور نا انصافی کریں یا فسق وفجور ان سے سرزد ہو لیکن ایک عالم دین اور فقیہ کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ احادیث کو صحیح محل پر محمول کر ے مولانا نے احادیث کا انطباق کرنے میں غلطی کی ہے ۔ اسلام ایک پورے نظام کا نام ہے اس نظام کے تحت جو حکومت قائم ہوگی اس کے حاکم کی اطاعت واجب ہے ایسے حاکم خلیفہ اور امیر المؤمنین سے اگر ظلم بھی سرزد ہو یا گنا ہ کا بھی ارتکاب ہو ، جب بھی اطاعت سے دست کشی نہیں اختیار کی جائے گی، ان احادیث سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی کسر ی یا قیصر یا فرعون حکمراں بن جائے اور اس کا نام مسلمانوں جیسا ہو چاہے وہ اسلامی شریعت کی تضحیک کرتا ہو بس مسجد میں نماز کی اجازت دے دیتا ہو اور ظلم کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوںکو بھی مار ڈالتا ہو تو اس کی بھی اطاعت واجب ہے یہ احادیث جنہیں مولانا نے نقل کیا ہے اس قسم کے حکمرانوں پر منطبق نہیں ہوتی ہیں جن کے استبداد اور چیرہ دستی کے آگے کسری اور قیصر کا ظلم بھی ہیچ ہے اور جو اسلامی شریعت کے نفاذ کا انکار کرتے رہے ہیں اور بعض بر سر عام اسلامی شریعت کا مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ’’مسلح بغاوت ‘‘ کالفظ بھی استعمال کیا ہےسوال یہ ہے کہ مسلح بغاوت کا ذمہ دار کون ہے ؟ شام میں مظاہرے پانچ سال پہلے شر وع ہوئے تھے، پورے ملک میں تقریر وتحریر یہاں تک کہ میلاد کے جلسوں تک کی اجازت نہیں تھی ، یہ کئی دہائیوں پر محیط ظلم و استبداد کے خلاف نہایت پرامن مظاہرے تھے، شام میں ہزاروںکی تعداد میں نوجوان اپنی پیشانیوں پر احتجاجی نعرے لکھ کر سڑکوں پر جلوس نکال رہے تھے ان جوانوں کوگرفتار کر لیا گیا ،ان کو سخت ترین تعذیب کا نشانہ بنایا گیا جیلوں میں ان کی ہڈیاں توڑ دی گئیں چہرے اتنے بگاڑ دئے گئے کہ ان نوجوانوں کوپہچا ننا مشکل ہو گیا تھا ، اس ظلم نے پورے ملک میں آگ لگا دی اور احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا ، فوج سے نکل کر لوگ روپوش ہو نے لگے اور حکومتی طاقت کا مقابلہ کرنے لگے ۔یہ عسکریت پسندی حکومت کے ظلم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، جائز انسانی حقوق کے استعمال کو اگر طاقت سے روکا جائے گا تو عسکریت پسندی لازما پیدا ہوگی کیا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب یہی چاہتے ہیں کہ اہل باطل کا غلبہ کبھی ختم نہ ہو؟ ۔مصر میں جو ظلم ہو رہاہے کیا اس کا ذمہ دار عبد الفتاح سیسی نہیں ؟ کیا وہاں اسلام پسند اس کے ذمہ دار ہیں ؟ علامہ یوسف القرضاوی نے جو مسلم علماء کی عالمی یونین کے صدر ہیں مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی انقلاب کے حرام ہونے کا فتوی دیا ہے اور منتخب صدر کی دوبارہ قانونی طور پر بحالی اور باز ماموری کی بات کہی ہے ۔شام ومصر کی اسلامی تحریکات کے لئے مولانا خالدسیف اللہ رحمانی کا فکری رویہ ناقابل فہم ہے ۔جب تقریر وتحریر کی اجازت بھی حکومت سے نہ ملے اور فقہ اکیڈمی کے ذمہ دار مولانا خالد صاحب جارحیت کا دفاع کرنے کی بھی اجازت نہ دیں تو بصورت دیگرخاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات کے سوا کوئی راستہ امت مسلمہ کے لئے باقی نہیں رہ جاتا ہے ۔
ظلم کے خلاف احتجاج درست ہے: قرآن سے استدلال :
۱۔لا یحب اللہ الجہر بالسوء من القول الا من ظُلم وکان اللہ سمیعا علیما (سورۃ النساء۱۴۸ ) یعنی اللہ تعالیٰ کھل کر کے زبان سے برا کہنے کو پسند نہیں کرتا ہے البتہ یہ اجازت اس شخص کو ہے جس پر ظلم ہوا ہے اور اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے جو لوگ مظلوم ہوں انہیں ظلم پر خاموش نہیں رہنا چاہئے اللہ اسے پسند نہیں کرتا کہ اللہ کے بندے ظلم پر خاموش رہ جائیں اور ظلم و زیادتی کے آگے سر جھکادیں، انہیں باغیرت اور صاحب حمیت ہونا چاہئے ، ظلم پر مسلسل خاموشی اختیار کرنے سے ظلم بڑھتا ہے اور اس سے قومیں ہلاک اور تباہ حال ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے ظلم کا مقابلہ کیا جانا چاہئے ۔ ببانگ دہل ظلم کی فریاد کرنا اور شکایت کرنا ہی احتجاج ہے اور اس کی اجازت میں خاص مصلحت ہے ورنہ یہ احتجاج نہ ہو تو اس سے ظالم کو اور شہ ملے گی اور ظلم کا سلسلہ دراز ہو جائے گا ۔
۲۔ ولمن انتصر بعد ظلم فأولئک ما علیہم من سبیل ، انما السبیل علي الذین یظلمون الناس ویبتغون فی الاض بغیر الحق ، اولئک لہم عذاب الیم ۔ ( الشوری ۴۱) یعنی جو شخص ظلم کا شکار ہونے کے بعد مقابلہ کرے اور بدلہ لے تو ایسے لوگوں کو ملامت نہیں کی جاسکتی ملامت کے مستحق تووہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ایسے لوگوں کیلئے دردناک عذاب ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام طبری نے لکھا ہے کہ جو شخص مظلوم ہو اور وہ ظلم کا بدلہ لے اور مقابلہ کرے تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کی اجازت ہے۔
۳ ۔ والذین اذا اصابہم البغی ہم ینتصرون ( الشوری : ۳۹) یعنی : اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں تفہیم القرآن میں مولانا مودودی نے لکھا ہے :
’’ یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں ہے کہ وہ ظالموں اور جباروں کیلئے نرم چارہ نہیں ہوتے ، ان کی نرم خوئی اور عفو ودر گذر کی عادت کمزوری کے نام پر نہیں ہوتی ، انہیں بھکشووںاور راہبوں کی طرح مسکین بن کر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے ، ان کی شرافت کاتقاضہ یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کردیں ، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گذر کریں ، جب کسی زیر دست اور کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو اس سے چشم پوشی کریں ، لیکن جب کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اور اس کے دانت کھٹے کردیں ۔مؤمن کبھی ظالم سے نہیں ڈرتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا ، اس قسم کے لوگوں کے لئے وہ لوہے کاچناہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے ‘‘
ظلم کے خلاف احتجاج درست ہے ۔ احادیث سے استدلال :
۱۔ ترمذی کی ایک حدیث (۱۳۱۷)ہے جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا یعنی جو صاحب حق ہے اسے کہنے کا ،بولنے کا، آواز اٹھانے کا، شکوہ کرنے کا مرافعہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
۲۔ حضور اکرم ؐسے پوچھا گیا سب سے بہتر جہاد کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ظالم بادشاہ کے سامنے حق با ت کہنا ۔
۳۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں لوگ اگر ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالی کا عذاب ان پر بھی آئے گا یعنی صرف ظالم نہیں بلکہ ظلم کا تماشہ دیکھنے والوں اور ظلم پر خاموشی اختیار کرنے والوں پر بھی عذاب آئے گا۔
۴۔ یعنی جو شخص منکر کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے ( بزور قوت ) بدل دے او جو شخص یہ نہ کر سکے وہ زبان سے نا پسندیدگی کا اظہار کرے اور جس شخص کے لئے یہ بھی ممکن نہ ہو وہ دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔ تغییر باللسان کی کوشش کا نام ہی احتجاج ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث کو نقل کرنے کے بعد اما م نووی شرح مسلم میں امام الحرمین کا قول نقل کرتے ہیں’’وقت کا حکمراں اگر ظلم پر کمر بستہ ہو اور ظلم و جو ر کا پہلو بہت نمایاں ہو اور زبان سے روکے جانے پر بھی وہ اپنے کرتوت سے باز نہ آئے تو یہ ارباب حل وعقد کی ذمہ داری ہے کہ اسے اقتدار سے بے دخل کرنے پر متحد ہوں خواہ اس کے لئے انھیں ہتھیار ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے اور جنگی اقدامات ہی کیوں نہ کرنے پڑیں‘‘۔ امام نووی نے ان الفاظ کے نقل کرنے کے بعد یہ تصریح کی ہے کہ ’’یہ امام الحرمین کے الفاظ ہیں ‘‘۔
صحابہ اور تابعین کے عہدکے واقعات سے استدلال:
۱ ۔ حضرت ابو بکر نے منکرین زکوۃ سے جہاد کیا تھا ۔ عوام اگر زکوۃ دینے سے انکار کریں تو ان سے جہاد ضروری ہے، لیکن اگر حاکم خود شریعت کے احکام کے نفاذ سے انکار کردے اور غیر اسلامی قوانین نافذ کرے تو کیا ایسے حاکم کو تنقید اور احتساب اور احتجاج کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔
۲ ۔حضرت علی کا خوارج کے بارے میں یہ قول ہے کہ اگر وہ امام عادل کے خلاف جنگ کریں تو خوارج سے جنگ کرو ،لیکن اگر وہ ظالم حکمراں کے خلاف کھڑے ہوجائیں اور ظالم حکمراں ان کے نشانہ پر ہوں تو خوارج سے قتال مت کرو ۔ حضرت علی کے اس قول سے ظالم حکمراں کے خلاف قتال کی گنجائش نکلتی ہے ۔
۳ ۔علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ امت کا یہ اجماع نہیں ہے کہ ظالم حاکم کے خلاف خروج نہ کیا جائے اس لئے کہ بزرگ ترین صحابہ اور بزرگ ترین تابعین ظالم کے خلاف خروج کرتے رہے ہیں ، امام حسین اور حضرت عبد اللہ بن زبیر کی کوششیں اس کےثبوت ہیں ۔
۴۔ حضرت عمرجب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے قوم سے پوچھا کہ اگر تم ہمارے اندر کجی دیکھو تو کیا کروگے ؟ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ ہم اسے اپنی تلواروں سے درست کردیں گے ، یہ سن کر حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کاشکر ہے کہ ہماری امت میں ایسے لوگ ہیں جو عمر کی کجی کو تلوار سے ٹھیک کرسکتے ہیں ۔
ظالم حاکم کے خلاف خروج کا مسئلہ اور ائمہ اور علماء کے اقوال:
علامہ ابن حزم کی کتاب ’’الفصل فی الملل والأھواء والنحل ‘‘ہے، اس کتاب کی جلد۴ میں وہ فرماتے ہیں کہ :’’شاہان حکومت اگر خیانت اور غلط کاری کے مرتکب ہوں تو ان کے خلاف بغاوت واجب ہے، کیوں کہ یہ لوگ اللہ اور رسول سے جنگ کرنے والے ہیں، زمین میں فساد برپاکرنے کیلئے کوشاں ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے جان ومال کا نقصان کرتے ہیں، اور معصوم لوگوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے یہ اپنے عیش وآرام کے لئے او ربیت المال کو دولت سے بھر دینے کے لئے مسلمانوں تک پر جزیہ عائد کرتے ہیں، اور مسلمانوں سے جزیہ وصول کرنے کے ظلم پر یہودیوں کو مقرر کرتے ہیں‘‘۔
علامہ ابن حزم نے مزید یہ لکھا ہے کہ ’’کہ جب حکمراں کو شریعت کے دائرے میں واپس لانے اور ظلم وجور سے باز رکھنے کی تمام تدبیریں ناکام ہوجائیں تو اس طریقہ کار کو اختیار کئے بغیر چارہ نہیں رہتا جسے ’’العنف الدموی‘‘(خونریزی)کہتے ہیں، اور یہ اس لئے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت اور فرماں برداری کا معاہدہ تو بر بنائے کتاب وسنت ہے،اگر وہ کتاب وسنت کے مطابق چلیں تو ان کی اطاعت واجب ہے، مگر وہ کتاب وسنت اور ان دو میں سے کسی ایک سے بھی انحراف کریں تو انھیں سزا دی جائیگی، اوراگر معاملہ یہاں تک پہونچ گیا ہو، کہ معصوم انسانی جانوں کا اتلاف اور امن وامان کا قیام ان کو معزول کئے بغیر ممکن نہ ہو تو انھیں منصب خلافت سے بر طرف کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور اگر کسی دوسرے عادل اور خداسے ڈرنے والے شخص کو خلیفہ بنایا جائے گا اگر اس سلسلہ میں خلیفہ وقت کے خلاف تلوار اٹھانے پر مجبور ہونا پڑے توتلوار بھی اٹھائی جائیگی، اور کتاب سنت پر مبنی نظام کو بروئے کار لانے کے لئے ظالم حکمراں کو قتل کردینا واجب ہو جائے گا ، علامہ ابن حزم نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کتاب میں مزید یہ لکھا ہے کہ :’’ممکن ہے کسی گوشہ سے یہ اعتراض کیا جائے کہ خلیفہ وقت کے خلاف تلوار اٹھانے سے مسلمانوں کی خونریزی ہوگی ، اہل اسلام کا جان ومال ضائع ہوگا، اور ممکن ہے حکومت کی فوج سے برسر پیکا ر ہونا پڑے اور شکست ہو اور نتیجہ کچھ نہ نکلے، اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ظالم حکمراں کے خلاف تلوار اٹھانے کے لئے کچھ تو تیاری کرنی ہوگی لیکن جان ومال کے ضائع ہونے کا خطرہ اور شکست کا امکان ضرور موجودہے، لیکن شکست کا امکان اس جنگ میں بھی ہوتا ہے، جو کافروں کے خلاف کی جاتی ہے، اور بسا اوقات کافروں کی فوج کی تعداد کئی گنی زیادہ ہوتی ہے، اگر ان خطرات کا اعتبار کر لیا جائے تو کافروں کے خلاف جہاد بھی ساقط ہوجائے گا، حالانکہ دنیا میں کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں ، اہل کفر کے خلاف جہاد کرنے سے بلا شبہ اس کا خطرہ ہوتا ہے، کہ مسلمان عورتیں اور مرد اور بچے غلام اور قیدی بنائے جائیں گے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جائے گا، لیکن اس کے باوجود اس پر کسی کا اختلاف نہیں کہ اہل کفر سے جہاد واجب ہے، لہذا ان دونوں معاملات میں یعنی کفار کے خلاف جہاد اور بے راہ رو مسلم خلفاء کے خلاف جہاد میں کوئی فرق نہیں، دونو ں کا درجہ جہاد کا ہے، اور دونو ں کا مقصود کتاب سنت کی عمل داری ہے۔‘‘
صحیح مسلم کی شرح مولانا شبیر احمد عثمانی نے فتح الملہم کیٍ نام سے لکھی ہے کتاب الامارۃ کی احادیث کی شرح کرتے ہوئے صاحب شر ح رقم طراز ہیں : ’’ حدیث سے شاید بعض لوگوں کو یہ گمان ہو کہ ظالم امام کے خلاف خروج کسی حال میں درست نہیں جب تک امام خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہو ، یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے خاص طور پر امام ابو حنیفہ کے مسلک میں ، ان کا مسلک ظالم حکمرانوں کے بارے میں مشہور ہے ، زید بن علی کے بارے میں ان کا موقف سب کو معلوم ہے انہوں نے ان کی مالی مدد بھی کی اور ان کے ساتھ مل کر قتال کے واجب ہونے کا رازدارانہ طور پر فتوي بھی دیا ۔ تکملہ فتح الملہم میں صراحت ہے کہ جب زید بن علی نے بنو امیہ کے خلاف خروج کیا اور انہوں نے امام ابو حنیفہ کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دی تو امام ابو حنیفہ نے پیامبر سے کہلا بھیجا کہ میں حضرت زید کو امام برحق سمجھتا ہوں اگر مجھے یقین ہوتا کہ ان کے ماننے والے ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے تو میں ان کے ساتھ مل کر ان کے مخالفین سے جہاد کرتا ۔ امام ابو حنیفہ نے حضرت زید بن علی کی مالی معاونت کی اور دس ہزار درہم کا نذرانہ پیش کیا ۔سوچنے کی بات ہے کہ جب امام اور امیر المومین اور خلیفہ المسلمین مو جود ہو اس وقت بھی اس کی آنکھ بند کرکے اطاعت نہیں کی جا ئے گی اور اس کی خلافت آئینی نہ ہو اور اس کا ظلم بھی حد سے سوا ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے خلاف خروج درست ہے ، تو جب سرے سے خلیفہ ہی موجود نہ ہو اور جو حکمراں ہو وہ مسلمانوں کے ملک کو لادینی ریاست سے تبدیل کردے ،وہ ڈکٹیٹر بن جائے اور حکومت کو خاندانی جاگیر بنا ڈالے اور ظلم کرے اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں پر ظلم ڈھائے تو کیا اس کی بھی بے چوں چرا اطاعت کی جائے گی ؟
نقصان مایہ اور شماتت ہمسایہ :
عرب ملکوں کے وہ حکمراں جن کے خلاف دینی ذہن رکھنے والے لوگ کھڑے ہوئے تھے ، ہوا وہوس کے اسیر تھے، شریعت اسلامی کے منکر تھے انہوں نے اپنی حکومت کو لادینی حکومت بنا دیا تھا ، شراب خانے جوئے خانے قحبہ خانے کی رونق روز افزوں تھی فسق وفجور کا بازار گرم تھا، سودی کاروبار کی اجازت تھی، شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں پر ظلم وستم کےپہاڑ توڑے جارہے تھے ، ان کو تعذیب کا نشانہ بنایا جارہا تھا ، ان ملکوں کے حکمراں بڑی طاقتوں کے غلام اور ان کے اشاروں پر چلنے والے اور ارض فلسطین کا سودا کرنے والے اور اسرائیل سے دوستی کرنے والے تھے ، خواص و عوام غالب مسلم اکثریت کے ملک کے اندر اس ماحول سے پریشان تھے انہوں نے اصلاح کی تحریک شروع کی،مصر میں جب تحریک کوششوں اور قربانیوں کے بعد حکومت سازی کے مرحلہ تک پہنچی تو ایک سازش کے تحت اس کا تختہ الٹ دیا گیا پر امن مظاہرہ کرنے والوں کا قتل عام کیاگیا ، مسجد میں پناہ لینے والوں تک کو نہیں بخشا گیا ، جیلوں میں انہیں اذیت ناک سزائیں دی گئیں ،اس سے بھی زیادہ ظلم کی گرم بازاری شام میں ہوئی اب اگر ظلم وقہر اور جبر واستبداداور چیرہ دستیوں کا انتقام لینے کیلئے مصر میں یا شام میں کچھ شہداء کے لخت ہائے جگر کو اپنے دفاع کے لئے مجبورا عسکریت پسندی پر مجبور ہونا پڑا ،تو ایسے مجبور لوگو ںکی ظلم سے مقابلہ کی تحریک پر طوفان کی موجوں سے ہزاروں میل دور ہندوستان کے ساحل پر بیٹھ کر مولانا خالد صاحب یہ تبصرہ فرمارہے ہیں کہ ’’ تحریک مکمل طور اسلام سے ہٹی ہوئی ہے‘‘ محترم مولانا تحریک چلانے والوں کو ملامت فرما رہے ہیں اور حدیث سے غلط استدلال کرکے مشورہ دے رہے ہیں کہ انہیں گربہ مسکیں بن کر ان مجرم حاکموں کی اطاعت کرنی چاہئے تھی ،کیونکہ احادیث میں حاکم کی اطاعت کا حکم ہے ، مولانا خالد صاحب کی اس تحریک ملامت کا کیا نام دیا جائے ؟ اسی کا نام ہے ’ نقصان مایہ اور اس کے ساتھ شماتت ہمسایہ ‘‘ ۔
علماء کرام کا فریضہ:
انسانی فطرت اگر مسخ نہ ہوجائے تو وہ صرف ظلم و نا انصافی کو برا نہیںسمجھتی ہے بلکہ برائی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتی ہے اس پر بند باندھنے کی کوشش کرتی ہے اس کامقابلہ کرتی ہے ، ہر حال میںظلم کو برداشت کرنا اور کچھ نہ کرنا نیکی کا کام نہیں ہے ،یہ غلامانہ ذہنیت ہے ، شام ومصر کے جیالوں نے خون کا نذرانہ پیش کرکے امت کے ضمیر کو زندہ رکھا ہے اللہ کے دین کے لئے اپنا خون بہانے والے عزت اور احترام کے مستحق ہیں مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے نہ وہ مسلمان پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس پر ظلم کو دیکھکر بے نیاز اور بے پرواہ ہوتا ہے ۔ بڑی زیادتی ہوگی اگر ہم یہ فیصلہ صادر کریں کہ اسلام پسندوں کی تحریک مکمل طور پر اسلام سے ہٹی ہوئی ہے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنی تحریر میں علماء سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ عوام کو سمجھائیں ، میرا یہ خیال ہے کہ عوام کے بجائے علماء کو سمجھانا چاہئے اور انہیں نصیحت کرنی چاہئے کہ وہ حکام کی خوشامد اور سلاطین کی کاسہ لیسی بند کریں ، وہ حکام اور سلاطین کا احتساب کیاکریں ،ہماری تاریخ احتساب و نصیحت کے واقعات سے بھری ہوئی ہے اب علماء نے اس راہ پر چلنا چھوڑدیا ہے ۔
امام ابو یوسف نے ہارون رشید کی فرمائش پر جب کتاب الخراج ترتیب دی تھی تو اس کے مقدمہ میں لکھا تھا : امیر المؤمنین ! اللہ نے تم پر ایسی ذمہ داری ڈالی ہے جس کی ادائیگی پر جہاں اجر بہت زیادہ ہے اسی کے ساتھ اس میں کوتاہی کرنے کی سزا بھی بہت سخت ہے ، اللہ نے آپ کو اس امت کا رکھوالا بنایا ہے ، جس چیز کی بنیاد خدا ترسی پر نہ ہو اس میں پائداری نہیں ہوتی ہے ، ایسا کوئی کام نہ کریں جس میں امت کی بھلائی نہ ہو۰۰۰ ایسا کوئی لمحہ نہ گذرے جس میں آپ قیام حق سے غافل ہوں ۰۰ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے بچاو کا سامان پیدا کرتا ہے ، دنیا کے معاملہ میں آخرت کو ترجیح دیں ۔
فرد ہو یا جماعت دونوں یکساں طور دین و شریعت کے پابند ہیں ، کسی کو چھوٹ نہیں ملی ہوئی ہے ۔ فرد سے غلطی ہو اور دین پر عمل کرنے میں کوتاہی ہو تو اس سے مواخذہ ہوگا اور یہی مواخذہ جماعت کے ذمہ دار سے بھی ہوگا اگر اس سے کوتاہی سرزد ہو اور علماء نے ہر زمانہ میں جماعت کے ذمہ دار سے یعنی امت کے سربراہ سے مواخذہ کیا ہے ۔ علماء کو چاہئے کہ دولت سے مالا مال خلیجی حکمرانوں کو صاف کہیں کہ عہد حاضر میںپورے عالم اسلام کی اور تمام مسلمانوں کی رسوائی انحطاط اور شکست خوردگی اور پامالی کے وہ براہ راست ذمہ دار ہیں مسلم حکومتیں دولت وثروت سے مالا مال ہیں، ان حکمرانوں نے اپنی دولت کا غلط استعمال کیا ہے ،صنعتی انقلاب لانے اور ملک کو سائنس اور ٹکنولوجی میں غزنی یافتہ بنانے کے بجائے سیال سونے کے سمندر کو اپنے لئے عیش کا ذریعہ بنایا ہے اپنی پوری قوم کو صارفین کی قوم بنادیا ہے جسے دنیا کا کوئی فن نہیں آتاجوعشرت کدوںمیں رہتی ہے اورہر چیز باہرسے خریدتی ہے ، علماء ان کو سمجھائیں کہ پس پردہ اسرائیل سے خلیجی حکمرانوں کے تعلقات کا سب کو علم ہے اور ان کی حکومتوں کے ذمہ دار یہ بیان دے چکے ہیں کہ آزاد فلسطین کے مطالبہ سے اور مسجد اقصی سے وہ دست بردار ہوچکے ہیں ،عالم اسلام کے نزدیک عرب حکومتوں کی یہ پالیسی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کے مرادف ہے ، علماء یہ بھی صاف کہیں کہ دینی تحریکات کو دہشت گرد قرار دینا اور علماء اجل کی کتابوں پر پابندی عائد کرنا غلط ہے ، علماء ان مسلم خلیجی حکمرانوں کو سمجھائیں کہ آ ٓزادی اظہار خیال پر پابندی عائد کرنا اور زبان وقلم کو بیڑیاں پہنانا اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت کو چھیننا ہے اور انسانوں پر ظلم ہے ، افسوس کہ علماء نے حکمرانوں کے احتساب کا کام بند کردیا ہے کسی عرب ملک میں حکومت کے ظلم کے خلاف عوام کھڑے ہوتے ہیں تو یہ علماء اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور’’ اطاعت امیر اطاعت امیر ‘‘ کا نعرہ بلند کرنے لگتے ہیں اوراب علماء سلاطین کے غلط فیصلوں پر اپنی حمایت کی مہر لگانے لگے ہیں تاکہ ان کے خوان یغما کی ریزہ چینی اور زلہ ربائی کا یعنی زرگری اور زر کشی کا اور جلب منفعت کا اور حصول دولت کانادر موقعہ ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
مشمولہ: شمارہ اگست 2016