اسلامی دعوت کے لیے ہندوستانی کتابوں کے حوالے

بعض غیر معتدل رویوں کا تنقیدی جائزہ

جب آپ کے کان میں کسی مسلمان مبلغ کے یہ الفاظ پڑیں کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اس لیے میں مسلم بھی ہوں اور سناتن دھرمی بھی ہوں اور آپ اگر ویدوں پر سچے دل سے عمل کرنے لگیں تو آپ سناتن دھرمی بھی ہیں اور مسلم بھی۔

یا جب آپ کسی ویڈیو میں یہ سنیں کہ ہندوستان میں توحید کی دعوت دینے کے لیے قرآن اور محمد ﷺ کی سیرت کم زور اور ظنی دلیلیں ہے اور یہاں کی مذہبی کتابیں خواہ وہ انسانوں نے لکھی ہوں اور یہاں کی شخصیات کے بیانات مضبوط اور قطعی دلیلیں ہیں۔

یا جب آپ ایسے مسلم نوجوانوں کو دیکھیں جو گھر گھر جاکر وید وں کے حوالے سے توحید کی طرف دعوت دے رہے ہوں اور انھیں اطمینان ہو کہ وہ اسلام کی دعوت دے رہے ہیں۔

تو یہ سوال پیدا ہونا فطری بات ہے کہ کیا اسلام کی دعوت کا یہ صحیح طریقہ ہے؟

کیا ہندوستانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے؟

ہندوستان میں اسلام کی دعوت پیش کرنے والوں میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اسلا م کی دعوت دیتے ہوئے قرآن کے ساتھ ہندوستانی کتابوں کے حوالے بھی پیش کرتا ہے۔ یہ کام اگر احتیاط واعتدال کے ساتھ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

لیکن کچھ عرصے سے ایسے لوگ سامنے آرہے ہیں جو خود کو اسلام کا داعی بتاتے ہیں لیکن عملًا وہ ہندوستانی مذاہب کی دعوت کا کام کرتے ہیں۔ وہ اہل وطن کو اس کی دعوت دینا ضروری محسوس نہیں کرتے کہ وہ قرآن پر ایمان لائیں، کیوں کہ وہ ہندوستانی کتابوں میں موجود توحید کی تعلیمات پر ایمان لانے کو کافی سمجھتے ہیں۔ البتہ وہ مسلمانوں کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ اس بات پر ایمان لائیں کہ کشتی والے منو ہی حضرت نوح علیہ السلام تھے، موجودہ وید اللہ کی کتاب ہے جو حضرت نوح پر نازل ہوئی،سناتن دھرم آسمانی مذہب ہے اور قرآن میں ویدوں اور سناتن دھرم کی تصدیق موجود ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ مسلمان اس حقیقت کو چھپاکر اللہ کی آیتوں کو چھپانے والے بن رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اللہ کی لعنت کے مستحق بنے ہوئےہیں۔

اس طرح وہ اہل وطن کو قرآن کی طرف بلانے سے زیادہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی کتابوں کی طرف بلانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ وہ یہ دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم وحدت ادیان کے قائل نہیں بلکہ وحدت دین کے قائل ہیں۔ لیکن محفوظ دین اور تحریف شدہ ادیان کو وہ اس قدر مماثل بناکر پیش کرتے ہیں کہ بات وحدت ادیان تک جاپہنچتی ہے۔

رسول ہر قوم میں آئے

اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت ہر قوم میں بھیجی اور ہر قوم میں رسول آئے۔ہر قوم میں اس ہدایات کے اثرات بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔

اصولی طور پر تو ہم یہ مانتے ہیں کہ دیگر علاقوں کی طرح ہندوستان میں بہت سے نبی آئے۔ تاہم کون سا نبی کس علاقے میں آیا یہ عقیدے کا نہیں بلکہ تاریخ کا مسئلہ ہے۔

البتہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ قرآن میں مذکور آدم سے فلاں شخص اور نوح سے فلاں شخص مراد ہے، نہایت قوی دلائل کی ضرورت ہے۔قیاس آرائیاں اس معاملے میں مناسب نہیں۔ خاص طور سے اگر ایسے اشخاص کا نام لیا جارہا ہو جن کی طرف بہت سی کہانیاں اور باتیں منسوب ہوں تب تو معاملہ بہت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے۔اورپھر اس سے آگے بڑھ کر یہ مان لینا کہ اس شخصیت کی طرف جو کچھ منسوب ہے وہ محفوظ آسمانی کلام ہے، بہت ہی زیادہ غلط بات ہے۔

مذکورہ بالا طریقہ دعوت میں طرح طرح کی بے اعتدالیاں نظر آتی ہیں۔

بات شروع ہوئی اس سے کہ ہندوستانی مذہبی کتابوں میں اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ کے سلسلے میں پیشین گوئیاں پائی جاتی ہیں،پھر پہنچی یہاں تک کہ قرآن میں ہندوستانی مذاہب کا ذکر پایا جاتا ہے اور ختم ہوئی اس پر کہ قرآن اور وید ایک ہی ہیں۔ قرآن میں وید ہیں اور وید میں قرآن ہے۔ جو قرآن پر عمل کرے وہ سناتن دھرمی ہے اور جو ویدوں پر عمل کرے وہ مسلم ہے۔

اسلام کی دعوت دیتے ہوئے پہلے ہندوستانی کتابوں کے حوالے دینے کی بات چلی، پھر بات یہاں تک پہنچی کہ قرآن پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیوں کہ قرآن کو تو ہنود مانتے ہی نہیں ہیں۔ قرآن ہندوستانیوں کے لیے کم زور دلیل ہے اور ہندوستانی کتابیں ہندوستانیوں کے لیے مضبوط دلیل ہیں۔

کیا قرآن ہندوستانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے؟

ان حضرات کی دعوت کا زور اس پر ہے کہ وید اولین آسمانی صحیفے ہیں، جو ہندوستان میں حضرت نوح پر نازل ہوئے۔ مسلمانوں کو اس بات پر ایمان لانا چاہیے کیوں کہ اس بات کی تصدیق قرآن سے ہوتی ہے۔

ہم پہلے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی قرآن اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے؟

پہلی دلیل : زبر الأولین سے مراد آدی گرنتھ یعنی وید ہیں

یہ حضرات کہتے ہیں کہ قرآن کی درج ذیل آیت میں ویدوں کا تذکرہ ہے:

وَإِنَّهُ لَفِی زُبُرِ الْأَوَّلِینَ [الشعراء ١٩٦]

یہ لوگ زُبُر ٱلأَوَّلِینَ کا مطلب بتاتے ہیں اولین کتابیں (the first scriptures) پھر کہتے ہیں کہ سنسکرت میں اس کا ترجمہ آدی گرنتھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد آیت کا ترجمہ کرتے ہیں: ‘‘اور آدی گرنتھوں میں بھی یہ موجود ہے’’ پھر کہتے ہیں کہ آدی گرنتھ تو صرف اور صرف ویدوں کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔استدلال کا یہ سفر یہاں تک پہنچتا ہے کہ ویدوں کا ذکر اور ان کی تصدیق قرآن میں موجود ہے۔اس کے بعد نوبت اس دعوے تک جاپہنچتی ہے کہ ویدوں کا حرف حرف محفوظ ہے۔ اور پھر رویہ یہ بن جاتا ہے کہ ویدوں کی ہر بات کی ایسی تاویل کردی جائے کہ وہ اسلام کی رو سے درست ہوجائے۔

آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ زبر الأولین کا صحیح ترجمہ کیا ہے؟

اردو کے ‘اولین’ اور عربی کے اولین میں بڑا فرق ہے۔ جو شخص عربی جانتا ہوگا وہ زبر الأولین کا ترجمہ اولین کتابیں نہیں کرسکتا۔ زبر کا مطلب ‘کتابیں’ اور أولین کا مطلب ‘گزری ہوئی قومیں’ ہے۔ زبر الأولین صفت موصوف نہیں بلکہ مضاف اور مضاف الیہ ہے۔ زبر کی صفت أُولی آئے گی، أولین نہیں آسکتی۔ لفظ أولین انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے نہ کہ کتابوں کے لیے۔قرآن میں کئی جگہ أساطیر الأولین آیا ہے،جس کا مطلب ‘اولین کہانیاں’ نہیں ہے، بلکہ ‘گزرے ہوئے لوگوں کی کہانیاں’ ہے۔ قرآن میں متعدد بار الأولین آیا ہے، اور گزرے ہوئے لوگوں کے معنی میں آیا ہے۔

زُبُر ٱلأَوَّلِینَ کا مطلب ہے: گزرے ہوئے لوگوں (نبیوں) کے صحیفے۔

اس آیت کا صحیح ترجمہ اس طرح ہے:

اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔

وَإِنَّهُ لَفِی زُبُرِ الْأَوَّلِینَ [الشعراء ١٩٦] کے فوراً بعد آیا ہے:

أَوَلَمْ یكُن لَّهُمْ آیةً أَن یعْلَمَهُ علماء بَنِی إِسْرَائِیلَ [الشعراء ١٩٧]

کیا اِن کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اِسے علما ئےبنی اسرائیل جانتے ہیں؟

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے نبیوں کے صحیفوں سے مراد وہ صحیفے ہیں جو بنی اسرائیل کے پاس تھے۔

قرآن کی رو سے پہلی کتابیں کون سی ہیں؟

قرآن میں وہ الفاظ آئے ہیں جن کا ترجمہ آدی گرنتھ یعنی اولین صحائف کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ ہیں : ٱلصُّحُف ٱلأُولَى۔ ان الفاظ کا ترجمہ اگراولین کتابیں یا آدی گرنتھ کیا جائے تو کوئی اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔ فرمایا گیا: إِنَّ هَٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْأُولَىٰ [الأعلى ١٨]‘‘ یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں’’۔ یہاں الصحف الأولی سے کیا مراد ہے؟ قرآن اگلی ہی آیت میں وضاحت کردیتا ہے کہ یہاں ابراہیم اور موسی کے صحیفے مراد ہیں۔ صُحُفِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَىٰ [الأعلى ١٩] ‘‘ ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں’’۔ قرآن کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم کے صحف اور موسی کی تورات ہی اولین کتابیں ہیں۔ ان دونوں کے بعد داود پر زبور اور عیسی پر انجیل نازل ہوئی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کسی رسول کو کتاب نہیں دی گئی؟

قرآن نے ابراہیم سے پہلے کے نبیوں کا تفصیل سے اور بار بار ذکر کیا ہے، لیکن کہیں بھی انھیں کتاب دینے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ حضرت شعیب، حضرت صالح، حضرت ہود اور ان تینوں سے پہلے حضرت نوح کا تذکرہ بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ ہوا۔حضرت آدم کا واقعہ بھی متعدد بار آیا، لیکن کسی کے ساتھ کتاب کا ذکر نہیں کیا گیا۔ سورۃ الاعراف میں دیکھیں حضرت نوح اور دیگر قدیم نبیوں کا ذکر ہے لیکن کتاب کا ذکر صرف حضرت موسی کے ساتھ ہے۔ یہی بات سورۃ ہود میں واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہے۔

قرآن کے تذکروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کے طویل حصے تک ہدایت کے لیے صرف رسول اور نبی آتے رہے۔ اور بہت بعد میں پھر کتابوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ غالبًا جب انسانی تمدن کتاب خوانی کے مرحلے میں باقاعدہ داخل ہوگیا۔ بعض روایتوں میں حضرت شیث اور حضرت ادریس پر صحیفے نازل ہونے کا ذکر ہے، لیکن وہ روایتیں مضبوط درجے کی نہیں ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ حضرت نوح پر کتاب نازل ہونے کا ذکر اسلامی روایت میں کہیں نہیں ہے۔(واضح رہے کہ وحی آنےاور کتاب نازل ہونے میں فرق ہے، وحی تمام نبیوں کے پاس آئی لیکن کتاب تمام نبیوں کو نہیں دی گئی)

یہیں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کی رو سے اہل اسلام صحف ابراہیم سے پہلے کی کسی کتاب پر ایمان لانے کے مکلف نہیں ہیں۔وہ کسی ایسی کتاب پر ایمان لانے کے مکلف نہیں ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے، نہ کسی ایسے شخص پر ایمان لانے کے مکلف ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔

جن رسولوں کا تذکرہ ہوا ہے ہم بس ان پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ لیکن اس تفصیل اور تعارف کے ساتھ جو قرآن نے خود دیا ہے، نہ کہ اس تفصیل اور تعارف کے ساتھ جو مختلف قوموں میں پایا جاتا ہے۔ہم حضرت نوح کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اگر آپ کہیں کہ فلاں کشتی والے منو کو نوح علیہ السلام مان کر اس کے رسول اللہ ہونے پر ایمان لاؤ تو یہ غلط بات ہوگی۔

واضح رہے کہ ہندوستانیوں کے علاوہ دیگر اقوام کے دعوے بھی قدیم ترین کتابوں کے حامل ہونے کے ہیں۔ جیسے عراق میں بسنے والے مندائی صابئین کا دعوی ہے کہ ان کے پاس کنزا ربا نامی کتاب ہے جو ان کے نزدیک اصلاً آدم کو دیے گئے آسمانی صحیفے ہیں۔ زرتشتیوں کا دعوی ہے کہ ان کی مذہبی کتاب اوستا قدیم ترین آسمانی کتاب ہے۔ تاہم قرآن ان میں سے کسی کے دعوے کی تصدیق نہیں کرتا۔

دوسری دلیل: العلم سے مراد وید ہیں

ان حضرات کی دوسری خاص دلیل درج ذیل آیت ہے:

قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا یتْلَىٰ عَلَیهِمْ یخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا [الإسراء ١٠٧]

(کہہ دیجیے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنھیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وه ٹھوڑیوں کے بل گر کے سجدہ کرتے ہیں۔)

اس آیت کا ترجمہ یہ حضرات اس طرح کرتے ہیں :

کہہ دیجیے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنھیں اس سے پہلے وید دیے گئے ہیں ان کے پاس جب اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وه ٹھوڑیوں کے بل سجده میں گر پڑتے ہیں۔(یعنی دنڈوت پرنام کرتے ہیں)

العلم کا ترجمہ یہ حضرات وید کرتے ہیں اور ہندوستان میں پائے جانے والے وید مراد لیتے ہیں۔ اس کی وہ لوگ دو وجہیں بیان کرتے ہیں:

ایک تو یہ کہ وید کا مطلب ہی علم ہوتا ہے، دوسرے ٹھوڑیوں کے بل سجدہ یعنی دنڈوت پرنام صرف وید پر ایمان رکھنے والی قوم کرتی ہے۔

وضاحت:

پہلی بات یہ ہے کہ العلم سے مراد علم ہی کیوں نہ لیا جائے متعین طور پر وید کو کیوں لیا جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ العلم سے تورات کو کیوں نہ مراد لیا جائے؟ تورات کے لفظ میں بھی علم کا مفہوم شامل ہے، خود اس آیت سے پہلے بنی اسرائیل کا تذکرہ ہواہے۔اور پھر قرآن نے تو صاف صاف اور بار بار تورات کو العلم کہا ہے:

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ [یونس ٩٣]

(ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور نہایت عمدہ وسائل زندگی انھیں عطا کیے پھر انھوں نے باہم اختلاف نہیں کیا مگراُس وقت جب کہ علم اُن کے پاس آ چکا تھا)

مزید دیکھیں: سورۃ الجاثیۃ: آیت ۱۶ اور ۱۷۔ سورۃ آل عمران :آیت ۱۹

اگر العلم سے مراد وید ہوتے تو قرآن میں کہیں ضرور وضاحت یا اشارہ ہوتا کہ العلم نام کی کوئی کتاب حضرت نوح پر اتاری گئی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ حضرت نوح کے متعدد تفصیلی تذکروں میں کہیں بھی لفظ العلم نہیں آیا ہے۔ حضرت نوح کے تمام تذکرے دیکھ لیجیے نہ کہیں الکتاب کا ذکر ہے اور نہ ہی کہیں العلم کا ذکر ہے۔

پھر جن لوگوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے، وہ زمانہ حال کی بات ہے، زمانہ حال کے لوگوں سے تو اس دور کے لوگ ضرور واقف ہوتے اور وہ بتاتے کہ یہ تذکرہ ہندوستان کے لوگوں کا ہے جو ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ ٹھوڑیوں کے بل گرنے کی بات ہے۔

ٹھوڑیوں کے بل گرنے والے الفاظ اس کے بعد والی آیت میں بھی آئے ہیں وہاں سجدے کا ذکر نہیں ہے:

وَیخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ یبْكُونَ وَیزِیدُهُمْ خُشُوعًا [الإسراء ١٠٩]

(اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں (اور) روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے۔)

اصل میں ان دونوں آیتوں میں سجدے کی کیفیت نہیں بتائی گئی ہے بلکہ گرنے کی کیفیت بتائی گئی ہے۔ بے اختیار گرپڑنے کے لیے جس میں انسان اپنی ٹھوڑی کو زمین سے نہیں بچاسکے،یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے۔

آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ بے اختیار ٹھوڑی کے بل گرپڑتے ہیں، اور پھر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔

یہ سجدے کی آیت ہے، اگر اس طرح کا سجدہ یہاں مراد ہوتا تو پھر اسی طرح کا سجدہ کرنے کی سنت بھی جاری ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔

ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ خود دنڈوت پرنام کا مطلب ٹھوڑی پر سجدہ کرنا نہیں ہوتا ہے، اس کا مطلب چھڑی کی طرح زمین پر لیٹ جانا ہے۔

غرض دنڈوت پرنام کو قرآن سے ثابت کرنا اور اسے اسلامی سجدہ قرار دیناانتہائی غلط بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ غلط بات یہ ہے کہ صرف لفظ کے ہم معنی ہونے کی وجہ سے العلم سے وید مراد لیا جائے، جس کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ قرآن کوئی چیستاں نہیں ہے، وہ تو کتاب مبین ہے۔

اب تک کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں کہیں بھی نہ تو ویدوں کا ذکر ہے اور نہ ہی سناتن دھرم کا ذکر ہے۔ اس لیے ویدوں پر ایمان لانا قرآن پر ایمان رکھنے کا تقاضا نہیں ہے۔قرآن کاحوالہ دے کر مسلمانوں سے مطالبہ کرنا کہ وہ ویدوں پر ایمان لائیں انتہائی گم راہ کن بات ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ویدوں کے سلسلے میں قرآن خاموش ہے۔

تاریخی امکان کے پہلو سے دیکھا جائے تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دور کی آسمانی کتاب ہو جس کا کچھ حصہ ضائع ہوگیا ہو اور کچھ حصہ تحریف کا شکار ہوگیا ہو۔

یا وہ ہندوستانی سماج میں پہلے سے موجود آسمانی تعلیمات کی روشنی میں لکھی گئی انسانی کتاب ہو۔

یا اس دور کی کسی الہامی کتاب جیسے تورات سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہو۔

یا اس کا کچھ حصہ الہامی ہو اور باقی الحاقی ہو، بعد میں شامل کردیا گیا ہو۔

بہرحال، اہل اسلام کے لیے یہ عقیدے کا موضوع نہیں ہے۔ عقیدے کا موضوع اس وقت ہوتا جب کہ قرآن میں اس کا نام لے کر اس پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہوتا۔

ہندوستان، چین ،شمالی ایشیا اور افریقہ وغیرہ جیسے بڑے علاقوں میں اللہ تعالی نے ہدایت کا کیا انتظام کیا ؟ کتنے رسول بھیجے اور کب کون سی کتابیں بھیجیں ؟

اس سلسلے میں قرآن خاموش ہے۔ اس میں یہ پیغام ہے کہ ان علاقوں میں اسلامی دعوت بھی اسی خاموشی کے ساتھ پیش کرنی چاہیے۔نہ تصدیق کی ضرورت ہے اور نہ ہی تکذیب ضروری ہے۔ کیوں کہ اسلام کی رو سے تو کسی اچھی سے اچھی بات کو بنا دلیل رسول کی طرف منسوب کرنا منع ہے چہ جائے کہ کسی بات کو بے دلیل اللہ کی طرف منسوب کیا جائے۔اللہ کے کلام کو نہیں ماننا بہت بڑا جرم ہے اور غیر اللہ کے کلام کو اللہ کا کلام بتانا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ اس لیے خاموشی میں عافیت ہے۔ یہ اصول ان کتابوں کے سلسلے میں ہے جن میں دین کے عقائد درست شکل میں موجود ہوں۔ رہی وہ کتابیں جن میں اصولِ دین کا انکار ہے، تو ان کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

اصولی طور پر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جن کتابوں کا کلام الہی ہونا ثابت نہیں ہے، اگر ان پر ایمان لانا درست نہیں ہے تو ان پر ایمان لانے کی دعوت دینا بھی درست نہیں ہے۔

البتہ اچھی باتیں جہاں جہاں نظر آئیں، انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھنا اور انھیں اپنا سمجھنا مومن کی شان ہے۔ اس لیے ہمارے ملک ہندوستان میں بھی جہاں جہاں اچھائی ہو،اس اچھائی کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اسلامی دعوت کا ایک معاون ذریعہ ہوسکتا ہے۔

کیا سابقہ کتابوں کا احیا مطلوب ہے؟

اس وضاحت کے بعد کہ قرآن سے کسی بھی طرح ویدوں کے آسمانی کتاب ہونے کی تصدیق نہیں ہوتی ہے، ہم قرآن میں مذکور آسمانی کتابوں کے حوالے سے اس پر بات کریں گے کہ کیا ہم اس کے مکلف ہیں کہ ان کتابوں کے صحیح اور غلط کو الگ الگ کرکے ان کتابوں کو مشرف بہ اسلام کریں، ان کا احیا کریں اور ان کی طرف رجوع ہونے کی مہم چلائیں؟

اسلامی دعوت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی فرد وسماج کو ایڈریس کرتی ہے۔ وہ سابقہ کتابوں اور سابقہ مذاہب کو مسلمان کرنے کے بجائے ان کے ماننے والے انسانوں کو اسلام لانے اور قرآن پر عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

قرآن ان کتابوں پر ایمان لانے کا حکم تو دیتا ہے جن کا اس نےذکر کیاہے۔ لیکن ان کتابوں کو اپنا مرجع بنالینے کی ہدایت نہیں دیتا ہے۔ اس بات کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے ہم درج ذیل سوالوں پر غور کرسکتے ہیں:

  • قرآن سے پہلے نازل ہونے والی کتابیں کیا دورِ حاضر میں کارِ ہدایت اور تعمیر انسانیت میں اپنا کوئی رول ادا کرسکتی ہیں؟
  • کیا یہودیوں کے یہاں در آئی خرابیوں کی اصلاح کے لیے انھیں موجودہ تورات کی طرف لوٹانا کار آمد ہوسکتا ہے؟
  • کیا عیسائیوں کوموجودہ انجیل کی طرف لوٹاکر انھیں تثلیث سے توحید کی طرف لانا ممکن ہے؟
  • کیا سابقہ کتابیں دور حاضر میں انسانوں کی رہ نمائی کے لیے کافی ہوسکتی ہیں؟
  • کیا سابقہ کتابیں اپنی موجودہ حالت میں جدید ذہن کے لیے دعوت کا کام کرسکتی ہیں؟
  • کیا سابقہ کتابوں کو ان کی شرکیہ اور باطل ترجمانیوں اور تفسیروں سے الگ کیا جاسکتا ہے؟

ان سوالوں پر سوچتے ہوئے سابقہ کتابوں کی صورت حال کو جاننا بھی ضروری ہوگا۔ جسے حسب ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

  • وہ کتابیں باقی ہی نہیں رہیں،جیسے صحف ابراہیم۔
  • وہ کتابیں اصلی حالت میں محفوظ نہیں رہیں اور ان میں بہت کچھ تحریف ہوگئی، جیسے تورات وانجیل۔
  • پوری کتاب ہی انسانی کلام سے عبارت ہے۔
  • ان کتابوں میں بہت سا انسانی کلام شامل ہوگیا۔
  • وہ کتابیں غلط تفسیروں کے بوجھ تلے دب گئیں اور اب ان کو ان تفسیروں سے الگ کرکے پیش کرنا ممکن نہیں رہا۔
  • اس قوم میں غلط اعمال مذہبی حیثیت میں رواج پاگئے اور ان کو کتاب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کتاب کے اندر معنوی تحریفیں کردی گئیں۔
  • اس قوم کے اندرغلط مذہبی روایات رائج ہوگئیں اور وہ کتاب کی تعلیمات سے زیادہ ان کے ذہنوں میں راسخ ہوگئیں۔
  • وہ کتابیں مخصوص زمانے کے لیے تھیں، وہ دور حاضر میں رہ نمائی کے قابل نہیں رہیں۔

شاید یہی وجوہات ہیں کہ قرآن نے سابقہ کتابوں کے احیا وتجدید کرنے، ان کی تطہیر کرنے اور ان کی طرف دوبارہ لوٹنے کی دعوت نہیں دی۔

  • اول تو قرآن کے آنے کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی۔
  • دوم یہ ایک ایسا کام تھا جس میں پڑنے کا مطلب ہمیشہ کے لیے الجھ کر رہ جانا تھا۔

چناں چہ جو لوگ سابقہ کتابوں پر ایمان رکھتے تھے، انھیں قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی۔ لیکن اس ایمان کے ساتھ ہی ان کا عملی رشتہ ان کتابوں سے منقطع کردیا گیا۔

قرآن سابقہ کتابوں کی تعلیمات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس لیے قرآن کے ہوتے ہوئے سابقہ کتابوں کی طرف رجوع کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ مزید یہ کہ قرآن تا قیامت پوری انسانیت کے لیے ہدایت نامہ بننے کی تمام تر خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لیے اسے واحد مرجع بنادیا گیا۔

ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ مسلم امت کے اندر مرجع کی وحدت باقی رہے۔ مختلف مذہبی کتابوں کو مرجع کی حیثیت دینے کے نتیجے میں امت کے اندر شدید قسم کا انتشار پیدا ہونا یقینی بات ہے۔ اسی لیے قرآن کے آنے کے بعد سابقہ تمام کتابوں کی مرجع والی حیثیت ختم کردی گئی۔

ہندوستانی کتابوں کے حوالے سے اسلام کی دعوت پیش کرنے والے یہ حضرات اپنا موضوع یہاں کے مذاہب اور مذہبی کتابوں کو بناتے ہیں اور انھیں اسلامی قرار دے کر ہدایت کا مرجع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ بے نتیجہ کوشش ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان مذاہب اور کتابوں کی اصل توحیدہے، تب بھی اصنام پرستی کی فلسفہ کاری نے ان پر اس طرح جالے بن دیے ہیں کہ ان کے ذریعے سے انھیں اصنام پرستی سےباہر نکالنا ممکن نہیں رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح عیسائیت کےذریعے سے عیسائیت کو تثلیث کے فلسفے سے باہر نکالنا ممکن نہیں رہا۔

صحیح اور نتیجہ خیز طریقہ یہی ہے کہ دنیا کی تمام اقوام کو راست قرآن سے جوڑا جائے۔ قرآن کے چشمہ خالص سے جب وہ سیراب ہوں گے تبھی اپنے قدیم معتقدات سے چھٹکارا پاسکیں گے۔

اللہ تعالی نے تورات وانجیل اور صحف ابراہیم کے اصلی اور خالص نسخے دوبارہ نازل نہیں فرمائے، بلکہ قرآن نازل کرنے کو انسانوں کی ہدایت کے لیے کافی قرار دیا۔

قرآن نے یہودیت کو یا عیسائیت کوکبھی اس طور سے قبول نہیں کیا کہ اگر کوئی قرآن کو نہ مانتے ہوئے تورات پر عمل پیرا ہے یا انجیل پر عمل پیرا ہے تو وہ مسلم قرار پائے گا۔ پھر سناتن دھرم کو اس طور سے کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟؟!!

عہد رسالت اور عہد صحابہ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تورات اور انجیل کے نسخوں اور عبارتوں کو دعوتی وسیلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہو۔

بت تراشی کے لیے جواز پر مبنی توجیہیں

ان حضرات کا طریقہ دعوت یہ تقاضا کرتا ہے کہ مدعو اقوام کو زیادہ سے زیادہ برحق ثابت کریں۔ اس لیے یہ مدعو اقوام کی کھلی ہوئی گم راہیوں کے لیے بھی وجہ جواز تلاش کرتے ہیں۔ جواز کی ایسی وجوہات کہ جن کو تسلیم کرنے کے بعد ان گم راہیوں کی اصلاح کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

اگر محض ایسا ہوتا کہ ان مذاہب کی کتابوں سے یہ بات ثابت کی جاتی کہ ان کی اصل بھی توحید ہے، اور شرک وبت پرستی بعد میں داخل ہوئی ہے، اور اس کی بنیاد پر انھیں توحید خالص کی دعوت دی جاتی، تو بات غنیمت تھی۔

لیکن کتابوں کی اس تصدیق کا راستہ ادھر نہیں جاتا، بلکہ ان کے یہاں موجود بت تراشی اور بت پرستی کی توجیہ کی طرف نکل جاتا ہے۔ایسی توجیہ جو اصنام پرستی کو جواز فراہم کرتی ہے۔

چناں چہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے یہاں جو مورتیاں پائی جاتی ہیں وہ دراصل کسی قدیم زمانے میں اللہ تعالی کی صفات کا تمثیلی لسان کے ذریعے جائز اظہار تھا۔

گنیش کا مطلب لوگوں کا راجہ۔ اس مورتی کے ہر پہلو کو اللہ کی مختلف صفتوں کا تمثیلی اظہار بتایا جاتاہے۔ ماں درگا کا مطلب قہار۔ اس مورتی کواللہ کی صفت قہاریت کا تمثیلی اظہار بتایا جاتاہے۔ یہ حضرات مونث کے صیغے میں بھی اللہ کی صفات کے اظہار کو درست سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اسے بھی نظر انداز کردیتے ہیں کہ ماں درگا کو شیو کی بیوی بتایا گیا ہے۔

ان کے مطابق یہ تمثیلی اظہار اس زمانے کا ہے جب انسان لفظوں میں اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرسکتا تھا تو وہ تصویروں کا سہارا لیتا تھا۔ اس وقت کا وہی جائز ورائج اظہار تھا۔ اس لیے اسے غلط کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس اتنی بات یاد دلانا ہے کہ یہ سب مستقل معبود نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی صفات کا تمثیلی اظہار ہیں اور اللہ ایک ہے۔

اپنی اس بات کو قرآن سے ثابت کرنے کے لیے یہ حضرات کہتے ہیں کہ قرآن میں آیا ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ان کے جنات تماثیل بناتے تھے۔ تماثیل کا صحیح ترجمہ مجسمے ( statue )ہے، لیکن یہ حضرات اس کا ترجمہ مورتیں اور idol کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی توجیہات بت پرستی کو سہارا فراہم کرتی ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو کبھی اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ اسے مخلوق کے پیکر میں پیش کرے۔

دعوتی نقطہ نظر سے جب آپ یہ مان لیتے ہیں کہ یہ مورتیں اپنے آپ میں درست ہیں، تو پھر آپ کے لیے ان مورتوں سے پیچھا چھڑانا ممکن کہاں رہ جاتا ہے۔ آپ ایسے مذہب کا اقرار کرلیتے ہیں جس میں مورتوں کے ذریعے اللہ کی صفات کو بیان کیا جاتا ہے۔

مدعو اقوام آپ کی دعوت کو غور سے سنیں، اس کے لیے آپ حسنِ بیان کی جتنی جائزمہارتیں اور شکلیں استعمال کرسکتے ہیں ضرور کریں، لیکن طرح طرح کی تاویلوں سے مدعو اقوام کی ان باتوں کو درست قرار دینا جو آپ کی دعوت کے صریح خلاف ہیں اور جنھیں ختم کرنے کے لیے اسلامی دعوت برپا ہوئی ہے، صرف اس لیے کہ اس سے کامن گراؤنڈ مل جائے گا، درست نہیں ہے۔

یہ طریقہ دعوت ایسے نو مسلموں کا تصور دیتا ہے جو قرآن کو نہیں مانتے ہوں، محمد ﷺ پر ایمان نہیں رکھتے ہوں، جو گنیش اور ماں درگا کی مورتوں کو درست سمجھتے ہو ں پھر بھی وہ امت مسلمہ میں شمار ہوتے ہوں، کیوں کہ وہ اس توحید کا تصور رکھتے ہیں جو ویدوں میں پیش کیا گیا ہے۔ ایسے مسلمانوں کا تصور اسلام میں بہرحال نہیں ہے۔ قرآن نازل ہونے کے بعد اسلام قبول کرنے کا مطلب تو اللہ کی آخری کتاب پر ایمان لانا ہے۔

قرآن دلائل کی کتاب ہے

قرآن کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ دلائل سے بھرپور کتاب ہے۔ یہ دلائل ہر زمانے اور ہر قوم کو مطمئن کرنے والے ہیں۔ اسی لیے قرآن رسالت محمدی کے حق میں سب سے بڑا معجزہ ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اگر قرآن کی تکذیب کرے تو اس سے قرآن کی قوت متاثر نہیں ہوگی، بلکہ خود وہ قرآن کے دلائل کے سامنے ڈھیر ہوجائے گی۔

قرآن اپنے نوع بہ نوع دلائل سے انسانی ذہن کے تمام شکوک وشبہات زائل کرتا ہے۔ انسانی ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے تشفی بخش جواب دیتا ہے۔ اسے کامل یقین اور حقیقی معرفت عطا کرتا ہے۔ انسانی فطرت،آفاق وانفس اور انسانی تاریخ کے صحیح مطالعے کی تربیت دیتا ہے۔قرآن کے اپنے روشن دلائل میں سے ایک روشن دلیل یہ بھی ہے کہ یہی دین تمام رسولوں نے پیش کیا تھا۔یہ دلیل قرآن بار بار پیش کرتا ہے۔اس دلیل کو ہر قوم کے سامنے پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ قرآن میں موجود نبیوں کی تاریخ اس کے لیے بہترین حوالہ ہے۔

سلیم الفطرت لوگ قرآن کی اس دلائل سے آراستہ دعوت پر ایمان لے آتے ہیں۔ البتہ بہت سے لوگ تکذیب کرتے ہیں اور طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں۔ عام طور سے یہ اعتراضات جانتے بوجھتے ہوتے ہیں۔ قرآن ان سبھی اعتراضات کا نہایت سنجیدہ اور عقل کو مطمئن کرنے والا جواب دیتا ہے۔ان جوابات سے اگر مخالفین فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں تو بھی عام انسانوں کے لیے یہ حکمت ومعرفت کا انمول خزانہ ہیں۔ان جوابات کے ہوتے ہوئے قرآن مذہبی مکالمے کا شاہ کار نمونہ ہے۔

ہندوستان میں بھی اسلامی دعوت کا بنیادی ذریعہ قرآن کے دلائل ہی کو بنانا چاہیے۔ اس کے بعد مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے اگر ان کی کتابوں سے مواد مل جاتا ہے تو اسے بطور جواب پیش کرنا مفید ہوسکتا ہے۔

قرآن کا ایک اور بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ عرب میں نازل ہوا، لیکن ایک آفاقی کلام کی حیثیت سے نازل ہوا۔ قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو عربوں کے لیے خاص ہو اور دوسروں کے لیے غیر متعلق ہو۔

مثال کے طور پر قرآن میں خانہ کعبہ کو خاص مقام دیا گیا مگر اسے عرب کی سرزمین کا نہیں بلکہ پوری دھرتی کا مرکز بنایا۔

قرآن کا خطاب یا أیھا الناس اور یا أیھا الذین آمنوا ہے۔ اس آفاقی خطاب، آفاقی تعلیمات اور آفاقی دلائل کی وجہ سے قرآن کو دنیا کے کسی بھی خطے میں پہنچنے اور کسی بھی قوم کو دعوت دینے میں دشواری نہیں ہوئی۔

قرآن عرب میں نازل ہوا، اس نے نازل ہوتے ہوئے عرب کے حالات کو ایڈریس بھی کیا۔ لیکن جب وہ مکمل ہوا تو اپنی اصلی ترتیب کے مطابق مرتب ہوا، وہ ترتیب جو اس کے آفاقی مزاج کے موافق ہے۔ قرآن کی اصل حیثیت یہی ہے۔ اسے عرب والوں کی کتاب ماننا غلط ہے۔قرآن کو ایک آفاقی کتاب کے طور پر پیش کرنا ہی اس کے شایان شان ہے۔

قرآن کبھی کم زور دلیل نہیں ہوسکتا ہے

اس دعوتی گروہ سے وابستہ بعض افراد کی سب سے بڑی بے اعتدالی یہ سامنے آئی ہے کہ انھوں نے ہندوستانی اقوام کو توحید اور آخرت کی دعوت دینے کے سلسلے میں قرآن کو ناکافی اور ہندوستانی کتابوں کو کافی قرار دیا۔ چناں چہ ان کے طریقہ دعوت میں قرآن کی طرف بلانے کے بجائے ویدوں کی اصل تعلیمات پر غور کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اصلًا ویدوں کی منتخب تعلیمات سنائی جاتی ہیں، قرآن کی باتوں کا ضمنًا تذکرہ ہوتا ہے۔

اگر یہ محض ایک عملی غلطی ہوتی تو بھی بڑی غلطی تھی، لیکن اسے ایک نہایت غلط نظریہ کی صورت میں پیش کرنے کی جسارت بھی کرلی گئی۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ ہندو قرآن کو نہیں مانتے ہیں اس لیے قرآن ان کے لیے کم زور اور ظنی دلیل ہے اور وہ ویدوں کو مانتے ہیں اس لیے وید ان کے لیے مضبوط اور قطعی دلیل ہیں۔

ان حضرات کا اب یہ کہنا ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیان کوئی تنازع ہو تو مدعی اور اس کے گھر والے خواہ کتنے ہی سچے ہوں اس تنازعے میں مضبوط گواہ شمار نہیں ہوتے، غیر متعلق افراد مضبوط گواہ مانے جاتے ہیں اور اگر خود مدعی علیہ کے گھر والے مدعی کے حق میں گواہی دےدیں تو وہ گواہی بہت زیادہ مضبوط شمار ہوتی ہے۔

اس اصول کا انطباق وہ اسلام کی دعوت پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن اپنے آپ میں کتنی ہی مضبوط دلیل ہو لیکن جو قوم اسے نہیں مانے اس کے لیے وہ کم زور دلیل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مشرکین عرب اور یہود ونصاری قرآن اور محمد ﷺ کو نہیں مانتے تھے، اس لیے قرآن ان کے لیے کم زور دلیل ہوگیا تھا۔ دلیل کی اس کم زوری کو دور کرنے کے لیے ان کے سامنے ابراہیم، موسی اور عیسی اور ان کی کتابوں کا ذکر کیا گیا۔

اسی طرح ہندوستانیوں کے لیے نہ تو قرآن مضبوط گواہ ہے اور نہ محمد ﷺ اور دیگر انبیا مضبوط گواہ ہیں۔ اس لیے ہندوستان میں قرآن اور محمد کے بجائے یہاں کی کتابیں اور یہاں کی مذہبی شخصیات کو پیش کیا جانا چاہیے۔

غلط منطق کم زور فہم

یہ بات نہایت کم زور ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ اگر دو انسانوں کے درمیان کسی جائیداد وغیرہ میں تنازع ہو تو وہاں گواہی کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ اس وقت مدعی سے معتبر گواہیاں پیش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اس وقت مدعی خواہ کتنا سچا ہو، اس کے گھر والے خواہ کتنے سچے ہوں، مگر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے غیر جانب دار گواہی طلب کی جاتی ہے۔

لیکن جہاں کسی عقیدے، یا نظریے کی حقانیت کو ثابت کرنا ہو وہاں انسانی گواہیوں کے یہ معیارات نہیں برتے جاتے ہیں۔وہاں اہمیت ٹھوس اور مضبوط دلائل کی ہوتی ہے، جو کسی کے نہیں ماننے کے باوجود برقرار رہتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ قرآن دعوے کی کتاب نہیں ہے جسے باہر سے دلائل کی مدد درکار ہو۔ یہ تو دلائل (بینات) کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ جو لوگ اسے نہ مانیں اور اسے جھٹلادیں ان کے لیے بھی اس کے اندر بے شمار دلائل موجود ہیں۔ قرآن اصل میں تو ان دلائل کی بنا پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے جو انسان کی فطرت اور کائنات میں ہیں۔ یہ دلائل زمانے اور علاقے کے فرق کے بغیر انسانی فطرت کو ایڈریس کرتے ہیں۔کوئی قوم مذہب کی یکسر منکر ہو یا کسی طرح کی مذہبی روایات کی حامل ہو، قرآن کے دلائل سب کے لیے کافی وشافی ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن ان کتابوں اور رسولوں کی تعلیمات بھی یاد دلاتا ہے جن کی تصدیق خود قرآن کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جن مشرکین اور اہل کتاب نے قرآن کو جھٹلادیا تھا، انھیں اسلام کی دعوت دیتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ کا سارا دارومدار قرآن کی آیتیں سنانے اور اس کے دلائل پیش کرنے پر تھا۔ قرآن کی تکذیب کی صورت میں بھی آپ قرآن ہی سے دلائل پیش کرتے رہے۔

یہی نہیں،قرآن میں سابق رسولوں کی دعوتوں کے تذکرے پڑھیں اور دیکھیں کہ انھوں نے دعوت کے لیے کن دلائل کو پیش کیا۔ حضرت نوح کی قوم نے جب انھیں جھٹلایا تو انھوں نے خود کو کم زور اور بے دلیل محسوس نہیں کیا اور اپنی قوم سے دلائل مستعار نہیں لیے، بلکہ آفاق وانفس کے بے شمار دلائل کے درمیان پوری قوت سے اسلام کی دعوت کو پیش کیا۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نبی کو اس کی قوم نے جھٹلادیا ہو تو اس نے ان کی تکذیب کی وجہ سے اپنی دعوت کوکم زور ظنی دلیل سمجھ لیا ہو اور مضبوط قطعی دلیل کے لیے ان کی قدیم روایات کا سہارا لیا ہو۔

قرآن کی دعوت پوری دنیا میں اگر پھیلی ہے تو وہ اس کے اپنے دلائل کی بنیاد پر پھیلی ہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ شام وعراق میں اسے یہود ونصاری کی کتابوں سے، ایران، ہندوستان اورچین میں وہاں کی کتابوں سے مدد لینی پڑی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اپنی قوت استدلال کے لحاظ سے نہایت مضبوط ہے۔ وہ طاقت ور ترین دلائل کا خزانہ ہے۔ یہ دلائل جس طرح عربوں کے لیے طاقت ور تھے اسی طرح افریقہ، وسطی ایشیا، چین، ایران اور ہندوستان کے لیے بھی طاقت ور تھے۔ انھی کی بنا پر اللہ کا دین پوری دنیا میں پھیلا۔

قرآن نے تورات وانجیل کے حوالے بھی دیے، لیکن اس تصدیق کے ساتھ کہ وہ اللہ کی کتابیں ہیں اور اس وضاحت کے ساتھ کہ وہ محفوظ نہیں بلکہ تحریف شدہ ہیں اور اس تاکید کے ساتھ کہ قرآن ان پر مہیمن ہے اور اب ان کے لیے قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے۔یہ تورات وانجیل کی خصوصیت ہے۔آخری رسول اور آخری کتاب کا نشانیوں کے جھرمٹ میں آنا طے تھا۔ ان نشانیوں کا تورات وانجیل میں خاص طور سے ذکر کیا گیا تھا۔ اہل کتاب کو اس رسول کا شدت سے انتظار تھا، وہ آنے والے رسول اور کتاب سے اسی طرح واقف تھے جس طرح اپنے بیٹوں سے واقف ہوتے ہیں۔ چناں چہ جب قرآن نازل ہوا تو تورات وانجیل میں موجود خبروں کا مصداق بن کر نازل ہوا۔ تورات وانجیل کی اس خصوصیت پر دوسری کتابوں کو قیاس کرنا درست نہیں ہے۔

دیگر کتابوں میں سے جو تائیدی بیانات پیش کیے جائیں گے، وہ اس احتیاط کے ساتھ پیش کیے جائیں گے کہ ہم ان کتابوں پر ایمان تو نہیں رکھتے ہیں البتہ اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں جو بھی برحق تعلیمات ہیں وہ کسی نہ کسی طور پر الہی ہدایات کے بچے ہوئے اثرات ہیں۔ کیوں کہ ہمارا یقین ہے کہ اللہ نے ہر قوم کے لیے ہدایت کا سامان کیا ہے، جسے ہر قوم نے ضائع کردیا ہے۔ البتہ ہر قوم میں اس کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں باقی ہیں۔ اب ہدایت یاب ہونے کی واحد صورت اللہ کی آخری اور محفوظ کتاب قرآن کی طرف آنا ہے، جس کے لیے ان کے پاس ماضی کی ہدایت کے بچے ہوئے اثرات طاقت ور محرک بن سکتے ہیں۔

ہندوستانی اقوام کو مانوس کرنے کے طریقے

ہم اس سے انکار نہیں کرتے کہ کسی بھی قوم کے سامنے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے اجنبیت کا کوئی پردہ حائل نہیں ہونا چاہیے۔ مدعو قوم کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ یہ دین اس کا اپنا دین ہے، کسی دوسری قوم کے دین کی طرف اسے دعوت نہیں دی جارہی ہے۔ اسلام کی دعوت کے سلسلے میں تو ہمارا یہی ایمان ہے کہ وہ ساری انسانیت کے لیے ہے۔

آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے سلسلے میں کہا گیا:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ [الأنبیاء ١٠٧]

(اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے)

حضرت محمدﷺ کو حکم ہوا:

قُلْ یا أَیهَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَیكُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ [الأعراف ١٥٨]

(اے محمد، کہو کہ “اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کا مالک ہے)

قرآن کے بارے میں کہا گیا:

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِینَ [التكویر ٢٧]

(بے شک یہ سارے انسانوں کے لیے نصیحت ہے۔)

اسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ عرب قوم کا دین ہے جو ہندوستانی قوم کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی ساری اقوام کا دین ہے۔اللہ تعالی نے اپنی خاص حکمت کے تحت آخری رسول کے لیے عرب کی زمین اور آخری کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیا۔ لیکن اس رسول اور اس کتاب کا پیغام پوری انسانیت کے لیے یکساں طور سے تھا۔

اسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے ہندوستانی اقوام کو مانوس اور قریب کرنے کے وہ طریقے اختیار کرنے چاہئیں جو اسلامی دعوت کے صاف چشمے کو گدلا نہ کریں۔ اس سلسلے میں یہاں کچھ باتیں پیش کی جارہی ہیں:

  • قرآن کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ صرف عربوں کے لیے نہیں پوری دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہے۔ یہی بات آخری رسول حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بھی بتائی جائے۔
  • ہندوستانی اقوام سے قربت کے تمام جائز راستے اختیار کیے جائیں۔
  • ہندوستانی اقوام سے حسن تعلق کی تمام جائز شکلیں اختیار کی جائیں۔
  • مانوس کرنے کے لیے قرآن کا ہندی، سنسکرت (مقامی،قومی) زبان میں ترجمہ پیش کیا جائے۔
  • ہندوستان کو درپیش مسائل کے سلسلے میں قرآن کی رہ نمائی پیش کی جائے۔
  • ہندوستانی سما ج کے لیے بہترین ماڈل کے طور پر قرآنی تعلیمات کے عملی انطباقات پیش کیے جائیں۔
  • قرآن کی تفسیر کرتے وقت ہندوستانی علما وحکما کے اقوال کو تفہیمی وسائل کے طور پر پیش کیا جائے۔
  • ان کے یہاں موجود مشترک تعلیمات کو قرآنی طریقے کے مطابق بطور تائید کے پیش کیا جائے۔

مشترک تعلیمات پیش کرنے کا قرآنی طریقہ

قرآن نے سابقہ کتابوں کی تعلیمات کو پیش کیا ہے۔ اور اس طرح سے پیش کیا ہے کہ ان میں اور قرآن کی جملہ تعلیمات میں کوئی فرق اور اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔

وَٱلۡـَٔاخِرَةُ خَیۡرٌ وَأَبۡقَىٰۤ۔ إِنَّ هَـٰذَا لَفِی ٱلصُّحُفِ ٱلۡأُولَىٰ۔ صُحُفِ إِبۡرَ ٰهِیمَ وَمُوسَىٰ [الأعلى ۱۷ تا ١٩]

( آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی۔ ابراہیمؑ اور موسیٰؑ کے صحیفوں میں)

أَمۡ لَمۡ یُنَبَّأۡ بِمَا فِی صُحُفِ مُوسَىٰ۔ وَإِبۡرَهِیمَ ٱلَّذِی وَفَّىٰۤ۔ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزۡرَ أُخۡرَىٰ [النجم ۳۶ تا ٣٨]

(کیا اُسے اس بات کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰؑ کے صحیفوں میں ہے اور ابراہیمؑ کے صحیفوں میں جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ )

اس کے مقابلے میں جب آپ مشترک تعلیمات کے طور پر رگ وید کے ابتدائی منتروں کو پیش کرتے ہیں جن میں اگنی کی تعریف بیان کی گئی ہے اور اگنی کےحضور دعا کی گئی ہے۔ تو رائج ترجموں کے مطابق وہ منتر قرآن کے لیے بالکل اجنبی ہوتے ہیں۔مشترک تعلیم ثابت کرنے کے لیے آپ اس کا ایسا ترجمہ اور تفسیر کرتے ہیں جو اس کے مضمون کو قرآن سے ہم آہنگ بتائے، لیکن اس صورت میں آپ رائج ترجموں سے مختلف ترجمہ پیش کرتے ہیں، جو ضروری نہیں کہ ویدوں کو ماننے والوں کے لیے قابل قبول ہو۔ آپ اس طرح صرف مسلمانوں کے لیے ویدوں کو قابلِ قبول بنانے کا کام کرتے ہیں۔حالاں کہ قرآن مجید کی تربیت اور اسمائے حسنی سے انسیت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے اگنی کو خدا کا نام ماننا ممکن نہیں ہے۔

یہاں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جب آپ اگنی سے مراد خدائے تعالی لیتے ہیں، اور اپنی تفسیر کی بنیاد پر اگنی والے ان منتروں کے خدائی کلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں، تو کیا اس کے بعد اگنی سے متعلق ان مشرکانہ تصورات کا ازالہ ممکن ہوسکے گا ، جو مشہور ورائج تراجم وتفسیر کی بنا پر انھی منتروں سے غذا حاصل کرتے ہیں اورجو ہندوستانی سماج کی رگ رگ میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ سوریہ نمسکار، شادی میں اگنی کے سات پھیرے اور مرنے پر چتا کو اگنی دینا اس کی مثالیں ہیں۔

غرض یہ کہ مشترک تعلیمات کے نام سے جب کچھ پیش کیا جائے، تو احتیاط اور حکمت کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے۔

مشترک تعلیمات سے زیادہ ممتاز تعلیمات کی اہمیت ہے

اسلام اور دیگر مذاہب میں یقینی طور پر کچھ مشترک باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایسی مشترک باتیں مخاطب کو متوجہ کرنے اور اس کے دل کو مائل کرنے کے لیے مفید ہوتی ہیں۔ لیکن اسلام پر ایمان لانے کا اصل محرک تو اسلام کی امتیازی خصوصیات بنتی ہیں۔

اسلامی دعوت کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں کی بھاری اکثریت اسلام کے امتیازی پہلوؤں کی وجہ سے اسےقبول کرتی ہے۔

مشترک تعلیمات پیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کام اعتدال اور احتیاط کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب اس کا جوش حد سے بڑھ جاتا ہے تو نوبت کتمانِ حقیقت تک جاپہنچتی ہے۔ قرآن میں جہاں دوسری قوموں اور ان کے عقائد کے حوالے دیے گئےہیں لاگ لپیٹ کے بغیر دیے گئے ہیں۔ پوری حقیقت کو سامنے لایا گیا۔ کیا حق ہے اور کیا باطل، صاف صاف بتادیا گیا۔ یہود ونصاری کے غلط عقائد کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔

اس کے برخلاف ان حضرات کے یہاں عقائد واحکام کے حوالے سے صرف مشترک تعلیمات پر زور ہوتا ہے، اور اس میں بھی لاگ لپیٹ کے بغیر کام نہیں چلتا۔

یہ حضرات کہتے ہیں کہ پنر جنم پر تو دونوں مذاہب کا اتفاق ہے۔ فرق بہت معمولی اور جزوی نوعیت کا ہے، وہ صرف اتنا ہے کہ وہ پنر جنم اسی دنیا میں ہوگا یا دوسری دنیا میں ہوگا۔ یہاں وہ دونوں عقیدوں کے درمیان بہت بڑے فرق کو پیش نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کا ہدف صرف مشترک تعلیمات پیش کرنا ہوتا ہے۔

اس طرح مشترک تعلیمات امتیازی تعلیمات کے لیے پردہ بن جاتی ہیں۔

قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پچھلی الہی کتابوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ حضور سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کے بیانات کاذکر کرتا ہے۔ مخاطب اقوام کے یہاں موجود تائیدی دلائل کا حوالہ بھی دیتا ہے۔ لیکن وہ اس پر اکتفا نہیں کرتا ہے۔ وہ مخاطب اقوام کی گم راہیوں کو بہت تفصیل کے ساتھ بتاتا ہے۔ ان کی کتابوں کی موجودہ تحریف شدہ صورت حال کوبھی واضح کرتا ہے۔ اور پھر اللہ کی ہدایت کو مکمل اور خالص صورت میں پیش کرتا ہے۔یہی طریقہ انسانوں کو ہر طرح کی گم راہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر لانے والا ہے۔

خلاصہ کلام

ہندوستانی اقوام میں دعوت دینے کے لیے جہاں تک مفید معلوم ہو ہندوؤں کی کتابوں میں پائی جانے والی اچھی تعلیمات اور مشترک باتوں کو احتیاط کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ دو باتیں لازم ہیں:

پہلی بات یہ ہے کہ ان کتابوں میں اور ان قوموں میں پائی جانے والی اعتقادی اور عملی گم راہیوں کو صاف صاف بتایا جائے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ یہ اقوام ان ‘‘ کچھ برحق تعلیمات’’ کو کافی سمجھ لیں گی اور باقی گم راہیوں سے نکلنے کی ضرورت کا احساس باقی نہیں رہے گا۔ دوسری طرف اس کا بھی اندیشہ ہے کہ دعوتی کام کرنے والے بھی ‘‘کچھ برحق تعلیمات ’’یاد دلادینے کے بعد بہت سی گم راہیوں سے نکالنے کی ذمے داری فراموش کربیٹھیں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کی صرف ان آیتوں کو پیش کرنے پر اکتفا نہیں کیا جائے جو ان کے یہاں موجود برحق تعلیمات کے مطابق ہوں۔ بلکہ پورے قرآن کو قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ صرف عقیدہ توحید کی دعوت پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان سب چیزوں کی طرف دعوت دی جائے جن کی طرف قرآن میں دعوت دی گئی ہے۔

اسلام کی مکمل دعوت وہی ہے جس میں پورے قرآن کی طرف دعوت دی جائے۔ اسی صورت میں قرآن کے نزول کا مقصد پورا ہوسکتا ہے۔ قرآن صرف ایک اللہ کی پوجا کرنے کی دعوت دینے نہیں آیا ہے بلکہ وہ ایک مکمل فلسفہ زندگی اور نظام اطاعت رکھتا ہے۔اس لیے لازم ہے کہ پورے قرآن کی طرف دعوت دی جائے۔

یاد رہے کہ اللہ کی کتاب اللہ کی طرف بلاتی ہے اور اللہ اپنی کتاب کی طرف بلاتا ہے۔ مومن وہ ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور اللہ کی کتاب پر بھی ایمان لائے۔ اس لیے اللہ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دینا لازم وملزوم ہے۔دعوت کی ایسی کوئی شکل درست نہیں ہے جس میں اللہ کی آخری کتاب قرآن کو نظرانداز کردیا جائے۔

یا أَیهَا الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا [النساء ٤٧]

(اے وہ لوگو جن کو کتاب دی گئی! اس کتاب پر ایمان لاؤ جو ہم نے اتاری ہے،جو اس کتاب کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے جو تمھارے پاس ہے، قبل اس کے کہ ہم چہروں کو بگاڑ دیں اور ان کو ان کی پشت کی طرح کر دیں یا ان پر بھی لعنت کردیں،جس طرح ہم نے سبت والوں پر لعنت کی۔ اور اللہ کی بات ہوکر رہنے والی ہے۔)

مشمولہ: شمارہ جون 2021

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau