اسلام میں اظہار رائے کے آداب و حدود

آزادی اظہار رائےدنیا کا ایک اہم موضوع ہے۔آزادی تقریروتحریر انسانی حقوق کا ایک اہم جزُ ہے۔ (1) انسان کے جذبات اور احساسات کو اگر کوئی ٹھیس پہنچی ہے تو وہ احتجاج کاحق رکھتا ہے (2) وہ اپنی مظلومیت کا اظہار کرسکتا ہےتاکہ اُس کو انصاف حاصل ہوسکے ۔ (3)

دنیا کے مفکر متفق ہیں کہ انسان اپنی زندگی کے سلسلے میں آزادہے البتہ یہ ـضروری ہے کہ اس طرز عمل سے دوسروں پر زیادتی نہ ہو۔ اگر کسی قوم یا شخص کے سیاسی،مذہبی اور اقتصادی و سماجی حقوق پامال کئے جاتے ہیں تو وہ اس کے خلاف آواز اُٹھا نے کا بھر پور حق رکھتے ہیں ۔(4) یورپ میں اس طرزِ فکر کی ابتدا وسطی دور میں ہوئی ۔برطانیہ میں اظہار رائے کی تاریخ کا آغاز سولہویں صدی سے ہوتا ہے۔ انسان کی انفرادی آزادی اور جمہوری حقوق کے لیے کوشش ہوئی ۔(5) امریکہ میں اس رجحان کا آغاز اٹھارویں صدی کے وسطی دور سے ہوا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آزادی اظہار رائے کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ۔ (6) انسانی حقوق کے عالمی اعلانیہ کی دفعہ ۱۹میں اسے انسانی حق مانا گیا۔(7)

بنیادی حق

دنیا میں ہر انسان آزاد رہنا چاہتا ہے اُس کی آزادی پر روک اُس کو گوارا نہیں ہوتی ۔ کیونکہ آزادی انسانی فطرت کا ایک انمول پہلو ہے اوراسلام نے بھی اس کا احترام برقرار رکھا ہے۔

جدیدمعاشرےمیں آزادی رائےایک بنیاد ی حق ہے،اورآئینی جمہوری عمل میں اس کارول مسلّم ہے۔ (8)یورپی عدالت نے یہ ا لفاظ درج کئے ہیں:

’’اظہارکی آزادی ایک جمہوری معاشرے کی لازمی بنیادوںمیںسےایک ہے،اس کی ترقی کی بنیادی شرائط میںشامل ہے اورہرفردکی تکمیل ذات کےلئے ضروری ہے‘‘ ۔(9)آزادی کی اہمیت کا صحیح ادراک وہی کر سکتا ہے جوانسانوں کی غلامی سے آزاد ہو ناروا انسانی قانون کا پابند نہ ہو اور اپنے حقوق بلا رکاوٹ حاصل کر سکے ، اسلام نے آزادی پر بہت زور دیا۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اسلام کے مقا صد میں شامل ہے۔ یورپ میں زور دے کر کہا گیا کہ ’’ اظہار کی آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن (معلومات حاصل کرنے کا حق) بھی آزادی کاتقاضا ہےان لوگو ںکوبھی یہ حق دیا گیا ہے جنہوں نےکوئی ناشا ئستہ حرکت کی ہو وہ بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ انفار میشن یعنی معلومات حاصل کرسکیں،کیونکہ اس کےبغیرجمہوری معاشرہ اپنے وجود پر قائم نہیںرہ سکتا ۔(10)

لفظ رائے کے معنی اور تعریف کو دانشور حضرات نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ رائے کا پس منظر انسان کی ذہنی کاوش ہے ہر انسان اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق اظہار رائے کرتا ہے۔ ابن قیم ’’اعلام الموقیعن‘‘ میں لکھتے ہیں’’ غور و فکر اور تحقیق کے بعد مجتہد جو نظریہ قائم کرتا ہے اسے رائے کہتے ہیں۔(11)

علامہ ابن حزم نے بھی اس موضوع پر گفتگو کی ہے۔ (12)

مغرب کا رویہ

مغرب میں مقبول نعرے یہ ہیں: آزادی اظہار رائے،امن و آشتی، روشن خیالی، علم و شعور، وسعت نظر، مذہبی رواداری، شہری آزادی، لیکن مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اہلِ مغرب کا تعصب پر مبنی رویہ سامنے آ جاتاہے ۔(13)عصر حاضر میں آزادی اظہار رائے ایک توجہ طلب معاملہ اور حساس موضوع ہے۔ یہ مشرق و مغرب میں انسانیت کےاہم مسئلے کی حیثیت اختیار کر چکاہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ عصر حاضر میں آزادی اظہار رائے کو مبہم انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی اصلیت پر پردہ ڈال کراس کو مطلق آزادی کا نام دیا جاتا ہےآزادی اظہار رائےحقیقت میں انسان کے اساسی تصورات سےمربوط ہے ۔

بعض اہل مغرب نے اسلا م کا مطالعہ اسلئے کیاکہ مختلف اعتراضات کرکےمغربی عوام کو اس سے دوررکھا جائے عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام عیسائیت کے مقابلے میں کم تر مذہب ہے۔ قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا گیا تو اس کے پہلے صفحے پر عبارت لکھی گئی کہ عوام کو القرآن کے خطرات سے آگا ہ کیا جاتاہے اس طرح انہوں نے اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی ۔ (14) ایسی خیانت انسانیت کے خلاف کاری ضرب ہے کیونکہ علمی تحقیق کا کام سچ اور حق کو عوام کے سامنے لانا ہے نہ کہ تحقیق کے پردے میں گمراہ کر نا ہے۔ کثیرالجہت سماج میں ایک دوسرے کے عقائد اوراصولوں کا احترام ضروری ہے۔ اظہار رائےکی آزادی حقیقت کوعوام الناس کے سامنے ظاہر کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ آزادی کی موجودگی ترقی کاپیمانہ ہے ۔ آزادی کا مدعا یہ ہے کہ انسان فکر، نظریہ اور سوچ میں حق کو دریافت کرسکے، عمل اور نظام کے بارے میں درست نقطۂ نظر تک پہنچ سکے ۔ فکر، سوچ یانظریہ کی ترویج کرسکے۔ اور غلط فکرو عمل پر تنقید کرسکے۔ (15)

عالمی ضوابط

آزادیٔ رائے انسان کا بنیادی اور اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں ۔ یہ حق شعورکو پروان چڑھا کر گتھیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے ابواب سے روشناس کرواتا ہے۔ اجتماعی شعور سے اخذ کی گئی متنوع آراء جب باہم ملتی ہیں تو وہ اجتماعی مفاد کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کاعالمی منشور بھی انسان کی آزادی کا قائل ہے اور انسانی آزادی کا اعلان کرتا ہے اس کی دفعات میں جن اصولوں کی وضاحت کی گئی وہ یہ ہیں۔

ہر انسان چاہےوہ کہیں بھی رہتا ہو اپنی آزادی، جان اور ذات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے وہ انسانی غلامی سے آزادہے اور آزاد زندگی گزارنے کا حقدار ہے اُس کو کسی بھی صورت میں غلام نہیں بنا یا جاسکتا ہر صورت اور ہر مقام پر قانون اس کی آزاد شخصیت کو تسلیم کرنے کاذمہ دار ہے وہ اپنی تہذیبی شناخت کا بھر پور اظہار کرنے کا حق رکھتا ہے اس کو کسی بھی قسم کی جسمانی اذیّت نہیں دی جاسکتی۔ قانون کی نظر میں سب بغیر کسی تفریق کے امان پانے کے برابر حقدار ہیں، کسی شخص کوقانون کے تقاضے پورے کیے بغیر محض حاکم کی مرضی پر گرفتارو نظربند نہیں کیا جاسکتا، فردجرم عاید نہیں کی جاسکتی اور جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں کسی بھی شخص کو اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا پوراحق ہے کسی کواختیار نہیں کہ وہ دوسرے کی عزت اور نیک نامی پر حملہ کرے ۔ ہر شخص کا حق ہے کہ قانون اسے حملے یا مداخلت سے محفوظ رکھے۔ہر شخص کا حق ہے کہ اسے ریاست کی حدود کے اندر نقل و حرکت کی اور سکونت اختیار کرنے کی آزادی ہو۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ملک سے چلا جائے چاہے یہ ملک اس کا اپنا ہوویسے ہی واپس آجانے کا بھی حق ہے ۔ (16) اِن تمام بین الاقوامی ضـوابط کے باوجود مغربی تعصب نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے کہیں وہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو داخلہ سے روکتے ہیں تو کہیںناروا امتیاز برتتے ہیں۔ قرآن کریم نے ہر معاملے میں انصاف کی تلقین کی ہے اور صاف واضح گفتگو کی ہدایت کی ہے۔ (17)

 حدود کا احترام

اظہارِ رائے کی آزادی کا منشا یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کی اجازت ہے، البتہ دوسرے کی تذلیل وکردار کشی کی اور تہمتیں لگا کر نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق شامل ہے، اسلام ہر انسان کو یہ حق عطا کرتا ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدود کو پامال کرے۔ آزادی اظہار رائے کو حدود میں رہ کر استعمال کرنا چاہئے ۔ قرآن مجیدمومنوں کی صفت پیش کرتا ہے۔ مومنین کا طرز عمل یہ ہے کہ حق بات کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

’’وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں‘‘(18)

عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی لکھتے ہیں کہ اسلامی تصورانسانی حقوق کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے۔ دنیا میں بہت سے اختلافات اس لئے ہوتے ہیںکہ حقوق کے بارے میں ضروری علم کی کمی ہوتی ہے۔ اسلام اور اسلامی حکومت کے بارے میں کمتر واقفیت بگاڑ کی ذمہ دار ہے‘‘۔(19)

اسلام آزادی رائے پر ناروا پابندی نہیں لگاتا بلکہ حدود اور اصول بیان کرتا ہے اِن حدود اور اصو لو ں کی بنیادپراسلام، انسان کوغلط فکر، طرز عمل اور غلط راہ اختیار کرنے سے روکتا ہے کیونکہ غلط راہ اور رویہ سماجی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے’’تو بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹ بات بیان کرنےسے بھی بچو ‘‘ (20)

قانونی لغت کےمطابق آزادی اظہار رائے کا مطلب ہے:’’ بغیرکسی رکاوٹ کے اپنے خیالات کا زبانی،تحریری یادیگر زرائع کے ذریعہ اظہار کرنا ۔(21) انسان اپنی رائے کے اظہارمیں آزاد ہے وہ دوسروںکاپابند نہیں‘‘۔(22) قاہرہ کےانسانی حقوق کےاعلانیہ کےمطابق’’ ہر فرد کو اس طرح آزادانہ طورپر اپنی رائے کا اظہار کرنےکاحق ہوناچاہیےجوشرعی اصولوں کےخلاف نہ ہو ۔(23)

لوگوں کو صحیح طرز کی طرف دعوت اور بُرائی سے روکنا آزادی اظہار رائے کے بغیر ممکن نہیں ، محمد صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن سے نہ صرف آزادی اظہار رائے کا بھرپور حق ملتا ہے بلکہ آزادیِ اظہار کاصحیح رخ بھی متعین ہو تا ہے۔ اس طرح انسانیت ٹھیک ڈگر پر آ سکتی ہے ۔(24) قرآن کریم میںتدبر، عقل کے استعمال اور غور وفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔ انسانی ضمیر جس چیز کو بُرا سمجھتا ہے اس سے روکنے کی اجازت دین نے دی ہے ۔(25) اسلام نے تنقید کو اخلاقی حد میں رکھنے کا اصول فراہم کیا ہے کیونکہ حدود کے احترام سے شعور جنم لیتا ہے ۔ جہاں صحت مند تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے نا مطلوب تنقیص شروع ہو جاتی ہے ۔ اِس پر قد غن کی ضرورت پڑتی ہے۔

 اخلاقی حدود

مذہب سےانسانوں کو اخلاقی حدود معلوم ہوتی ہیں۔ وہ اخلاقی قدروں کے احترام کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ لوگ دوسروں کے جذبات و احساسات کا لحاظ کئے بغیر بے جا تنقید شروع کرتے ہیں وہاں قانون کی حد بندی ضروری ہے۔ کچھ لوگ بےجا تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کرجاتے ہیں ۔ نفرت انگیز تقاریر سے ، شرانگیز بیانات سے انسانوں کی، عزت کو داغدارکرتے ہیں، کسی کی توہین و تحقیر کرتے ہیں۔ مذہب، مسلک ، فرقے اورکسی محترم شخصیت کے بارے میںناشائستہ گفتگو کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ آزادی رائے کاغلط استعمال ہے۔ اخلاقی تعلیم کی خلاف ورزی ہے ۔آزادی اظہار رائے کا مقصود یہ ہے کہ انسان حق کا متلاشی ہو اور حق کے فروغ کےلئے اپنے خیالات کا اظہار کرے اس بارے میں قرآنی آیات اور احادیث انسان کی رہنمائی کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہمارا یہ نوشتہ تم پر حق بولتا ہے ہم لکھتے رہتے تھے جو تم کرتے تھے‘‘ ۔(27)

’’مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور حق کی تاکید کی اورایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘۔(28)

حدیث نبویﷺ میں کہا گیا کہ؛’’سب سے افضل جہاد ،ایک ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔(29)

علامہ اقبال نے ضرب کلیم کی نظموں میں اس اہم موضوع پر کلام کیا ہے۔مغرب میں رائج فکر پر علامہ اقبال تنقید کرتے ہیں۔ یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اُن کا تصور آزادی ناقص ہے۔

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی              رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

ہوفکر اگر خام تو آزادی افکار!                  انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ! (30)

محمدہاشم کاملی لکھتے ہیں ’’اظہار کی آزادی انسانی عظمت کی مظہر ہے اظہار رائے انسان کے وقار، کردار اور شخصیت کو سامنے لاتا ہے ‘‘۔(31)

ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیںکہ’’آزادی اظہاررائے انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہے اسلا م میںانسانی حقوق کاتصورانسانی وقاراس کی عزت اورمساوات سےمتعلق ہے ‘‘۔ (32)

حواشی

(1)General Assembly of the United Nations (1948-12-10). “Universal Declaration of Human Rights” )pdf) (in English and French). pp. 4–5. Retrieved ,16-09-2017

(2) Ernest William Hocking,”Freedom of the Press: A Framework of Principle”( A Report from the Commission on Freedom of the Press, 1977, 88-89)

(3)Johan Milton, Aeropagitica and Other Tracts, 27 (1644)

(4)Lon L. Fuller, “The morality of Law” 184-186 (1963](.Cited in Dr. Madhabhusi Sridhar, The Law of Expression, An Analytical Commentary on Law for Media 20 (Asia Law House, Hyderabad (2007) [.

(5)A.V. Dicey, “Introduction to the Study of Law of the Constitution” Macmillan, New York, 1959, 10th edi,. p. 238ff, 247ff.

(6)Subhash C. Gupta, “Right to Information Act, 2005: A New Approach to Public Accountability” in Law in India Emerging Trends, Publications Bureau, Punjabi University, Patiala (eds.) 2007, p. 291.

(7)United Nations General Assembly Resolution No. 217A (III), 10th December, 1948.

(8)BEATSON and CRIPPS, Freedom of expression and freedom of information: essays in honour of Sir A. Mason (Oxford University Press, Oxford 2000) 17.

(9)P. VAN DIJK and others, Theory and practice of the European Convention on Human Rights (4th EdnIntersentia, Antwerpen 2006) 774;

(10)LAWSON and SCHERMERS, Leading cases of the European Court of Human Rights (ArsAequiLibri, Nijmegen 1997) 28.

(11)ابن قیم الجوزیة: اعلام الموقعین عن رب العالمین، تخقیق طہ عبد الرؤف سعد، دارالجیل، ١٩٧٣۔جلد، ۲، ص۔۱۴۳

(12) ابن حزم، علی بن احمد بن سعید بن حزم اندلسی ، المحلی بلآثار، دار الآفاق الجدیدہ، بیروت،

(13)محمد متین خالد، آزادی اظہار کے نام پر، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۲

(14)مرزا محمد الیاس، بنیاد پرستی اور تہذیبی کشمکش، حرا پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۴، ص۔۱۷۵

(15)اصلاح-معاشرہ-ابو-الاعلیٰ-مودودی

http://lib.bazmeurdu.net/Abul-Aala-Mududi/

(16)Published by the Office of Public Information, United Nations Universal Declaration of Human Rights (Urdu),Reprinted inU.N. OPI/15–15377-June 1965-5M

(17) القرآن ؛ ۱۷:۷۰                       (18)آل عمران آیت: ۱۱۰

(19)Dr. Abdullah bin Abdul-Mushin at-Turki, Islam and Human Rights/25/7/12

(20) القرآن ؛ ۲۲:۳۰

(21)http://www.duhaime.org/Legal Dictionary / F/ Freedom of Expression.aspx /30/7/12

(22) Al-Eili, Dr. Abdul Hakeem Hassan , Al-Hurrayat Al-Ammah,Darulfikr Al-Arabi, Beirut , 1983, Pp. 466

(23)http://www.oic-oci.org/english/article/human.htm/29/7/12

(24) محمد متین خالد، آزادی اظہار کے نام پر، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۲۵

(25)ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی، اسلام کا تصور آزادی، ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی،۲۰۱۴، ص۔ ۸

(25)تصویر درد، بانگ درا، کلیات اقبال

(26)القرآن ؛ ۴۵:۲۹                       (27)القرآن؛ ۱۰۳:۳

(29) سُنن ابو داود، شیخ اشرف پبلیشرز لاہور ۲۰۰۴، حدیث نمبر:۴۳۸

(30)آزادی فکر، ضرب کلیم ،کلیات اقبال

(31)Kamali, Muhammad Hashim, Freedom of Expression in IslamBerita publishing SDN.BHD Kualalumpur,1994,pp.12

(32) ڈاکٹر طاہر القادری، اسلام میں انسانی حقوق، منہاج القرآن پبلیکیشنز، لاہور، ص۔۳۳

(جاری)

مشمولہ: شمارہ جنوری 2019

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223