قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا۰ۭ ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۵۸ (سورۂ یونس:۵۸)
کہہ دو کہ (یہ کتاب) اللہ کے فضل اور اُس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہئیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں، یہ اُس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۱۹ (الحشر:۱۹)
’’ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جنہوں نے اللہ (کے احکام ) کو بھلایا تو اللہ نے انہیں اپنی جانوںسے غافل کردیا ‘‘ ( الحشر ۱۹)
خود فراموشی ، خدافراموشی کا نتیجہ ہے اس کا علاج صرف خدا شناسی اور خداطلبی ہے ، انکارکے بجائے اقرار وایمان ،بغاوت کے بجائے اطاعت وفرمانبرداری، اللہ سے بھاگنے کے بجائے اللہ کی طرف بھاگنا ۔
فَفِرُّوْٓا اِلَى اللہِ۰ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۵۰ۚ (الذاریات:۵۰)
’’ پس تم اللہ کی طرف دوڑلگاؤ (یعنی رجوع کرو)‘‘
عید سعید اس خو ش نصیب کے لیے ہے جو اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرے اور اس کی نافرمانیوں سے بچے ۔نیز عید اس کے لیے ہے جونماز اور روزہ کا پابند رہا ذکر الٰہی کے ساتھ شب بیداری میں مشغول رہا اور آئندہ بھی اسی طرح پابند شریعت رہنے کا عزم مصمم ہو ۔ عقلمند اور ہوشیار وہ شخص ہے جو اپنے رب کی خوشنودی کی تلاش میں رہتا ہے مزید اطاعت کے دروازوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جب کہ نادان لہو ولعب کے ساتھ مگن رہتا ہے یہاں تک کہ نیکیاں ضائع کرلیتا ہے بنائی ہوئی عمارت خود اپنے ہاتھ سے گرادیتا ہے ۔
حسن بصری ؒ کا فر مان ہے ہر وہ دن جس میں اللہ تعالی کی معصیت نہ ہو وہ بھی عید کا دن ہے اور ہروہ دن جس میں ایک مومن اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے ذکر واذکار میں مشغول ہوکر وقت گذارتا ہے وہ وقت بھی عید ہی عید ہے۔عیداس کی نہیں جس نے نئے لباس زیب تن کرلئے بلکہ عید اس کی ہے جس کی اطاعت وفرمانبرداری میں ترقی ہو۔حقیقی عید اس کی ہے جس کے گناہ معاف ہوجائیںاور اسے دارلسلام ( جنت )میں داخلہ کی خوشخبری ملے۔عیداس کی نہیں ہے جودنیا طلبی میں مال ومتاع درہم ودینار کے چکر میں حلال وحرام کی تمیز کوبالا ئے طاق رکھ چکا ہو بلکہ حقیقی عید تو اس کی ہے جو اپنی آخرت سنوارنے کی فکر میں ہو اور دنیاداروں سے مرعوب ہوئے بغیر جنت کی طلب میں عمل کرتاچلاجاتا ہو ۔
عید کی حقیقی خوشیاں ان خوش نصیبوں کے لیے ہیں جو اپنے ضرورت مند بھائیوں کی ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی خوشیوں میں اُن کوشریک کرتے ہیں ،سچ فرمایا ہے رسول اکرم ﷺ نے وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جوپیٹ بھر کے کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔ وہی عمل عند اللہ مقبول ہے جو ریاکاری سے خالی ہو اور دائمی طور پر کیا جائے اگر چہ کہ وہ عمل عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو ۔عمل کی قبولیت کی دلیل یہ بھی ہے کہ حسن عمل میں مداومت ہو اور عملی اعتبار سے اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ بہتر تبدیلی ظاہر ہو۔مسلمانوں کی اجتماعیت کے اہم مظاہر حج،عیدین، پنج وقتہ نمازیں، جمعہ اور جہاد جیسی عبادتیں ہیں، جن کے لیے اجتماعیت ضروری ہے اوراجتماعیت کے بغیر مذکورہ عبادات پوری نہیں ہوں گی۔
عیدین اجتماعیت کاسبق دیتی ہیں ۔تنہا ایک آدمی چاند دیکھ کر عید اپنے طور پر نہیں مناسکتا بلکہ اسے عید الفطر اورعید الاضحی کی نمازوں کی ادائیگی کے لیے لوگوں کی غالب اکثریت کی موافقت ضروری ہے دوچار افراد کا جماعت سے الگ ہو کر روزہ شروع کردینا یا عید مناناروزہ ہے اور نہ ہی وہ عید ہے۔ اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒنے حدیث مذکور کے بارے میں فرمایا’’ صَوْمِکُمْ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَفَطْرِکُمْ یَوْمَ یَفْطِرُوْنَ۔(ابو داؤد) فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ھَذَا الْحَدِیْثَ۔ فقال ’’اِنَّمَا مَعْنیٰ ھَذَا الصَّوْمِ وَ الْفَطْرِ مَعَ الْجَمَاعَۃِ وَ عَظْمِ النَّاسِ‘‘۔ (فتاویٰ ۲۵/۱۱۵)۔ یعنی روزہ اور عید جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ہی معتبر ہے ۔امت محمدیہ تمام فقہی ، گروہی اور مسلکی اختلافات سے بالا تر ہوکر عقیدہ کی بنیاد ( لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ )پرمتحد ہوں ۔ اخوت ایمانی کومضبوط سے مضبوط تر بنائیں ایمان کا رشتہ سب سے مضبوط اور محکم رشتہ ہے اس کی حفاظت ہم پر واجب ہے ۔
عید مسلمانوں کے لیے ایک عبادت اور شکر کا طریقہ ہے جو صرف رؤیت بصریہ پر ہی منحصر ہے۔ کوئی میلا نہیں ہے کہ وقت سے پہلے ہی تقویم کے ذریعہ اس کا اعلان کردیا جائے اور نہ یہ ممکن ہے کہ شمسی تاریخوں کی طرح قمری شرعی تقویم کیلنڈربنایا جائے اسی کی بنیاد پرسب کا عمل ہو ۔ اس لیے کہ نبی کریم ؐ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ رؤیت ہی کی بنیاد پر کوئی مہینہ 29کا ہوگا اور کوئی مہینہ 30کا ہوگا۔اور یہ کس مہینہ میں 29اور کس مہینے میں 30کا ہوگا اس کی تحدید نہیں کی گئی ۔جب عالم اسلام میں نمازوں کے اوقات میں فرق و تفاوت کو وحدت کے منافی نہیں سمجھا جاتا ہے تو رؤیت ہلال کے حساب سے الگ الگ دن عیدیں اور رمضان کے آغاز کو عالم اسلام کی وحدت کے منافی کیوں سمجھا جارہا ہے ۔یہ نظریہ سرے سے غلط ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دیگر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک روزہ رکھیں اور عید منائیں۔ رؤیت ہلال کا مسئلہ قدرت کی جانب سے مقررکردہ نظام ہے اس میں انسان بے بس ہے اور وہ شریعت کا پابند ہے ہمیں چاہئے کہ فکر ونظرکو شریعت کے تابع بنائیں نہ کہ اپنے بنائے ہوئے افکارونظریات کی تائیدکے لیے شریعت سے دلائل جمع کرنے کی کوشش کریں ۔عید کا پیغام یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں ہماری اجتماعیت کا شیرازہ بکھرنے نہ پائے ہماری صفوں میں اتحاد ضروری ہے جس طرح نمازوں میں صفوں کی درستگی سے نماز درست ہوتی ہے اسی طرح زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارا اتحاد قابل ذکر ہوتب ہی ہم دنیا میں سرخ رو ہو ں گے ۔ جس طرح صفوں کے مابین رنگ ونسل ملک وطن کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اسی طرح ہم مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں مل جل کر اتفاق واتحاد کے نمونے پیش کریں ۔
عالم اسلام کے لیے عید کا پیغام یہ ہے کلمہ کی بنیاد پر متحد رہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رفیق بنیں دشمن ہمیں فریق بناکر ہمارے درمیان جنگ چھیڑنا چاہتا ہے ہماری طاقت کو ختم کرناچاہتا ہے اور ہماری صفوں میں دراڑیں قائم کرنا چاہتا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں عید کی صحیح اور سچی خوشی نصیب ہو اور عمل صالح کی توفیق ملے اور رمضان مبارک کی نیکیاں قبول ہوں ۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2014