عالم گیر سطح پر امت مسلمہ ایک بحران سے گزر رہی ہے۔ باطل قوتوں کی حربی یلغار سے جو بحران ہم پر مسلط ہے وہ تو ہے ہی،ایک عظیم فکری یلغار بھی ہے جس نے امت مسلمہ کے اہل علم و دانش طبقے کو شدت سے متاثر کیاہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں کے دوران مستشرقین (Orientalists) نے اسلام کے خلاف جو وسیع، غیرمعمولی اور عظیم علمی کام کیا، اس کے نتیجے میں ملت پر علمی بحران مسلط ہوا۔ اہل علم و دانش طبقے کو کسی نہ کسی جہت سے، کسی نہ کسی حد تک اس بحران نے متاثر کیا۔ اس کے بعد دورحاضر میں ہمارے اصحاب علم ودانش کی ایک قابل ذکر تعداد افکار ونظریات کے میدان میں بحران کا شکار ہوئی۔
بحران دراصل ’جوں کی توں حالت‘ (Status quo) کی ضد اور اس کے برعکس ایک کیفیت کا نام ہے۔ اس کے سلبی پہلو خواہ کیسے یاکتنے ہی ہوں، اس کاایک ایجابی و مثبت پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ ’جوں کی توں حالت‘ کی برقراری سے نہیں، بل کہ بحرانی کیفیت کے بطن سے ہی بڑے بڑے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ مکہ اور جزیرہ نمائے عرب میں صدیوں سے ایک ’جوں کی توں حالت‘ برقرار تھی۔ بعثت نبویﷺ اور آغاز دعوت اسلامی سے ہی کشمکش اور یلغار نے جنم لیا۔ پھر تحریک اسلامی کے متحرک ہوجانے پر دیکھتے دیکھتے ایک شدید بحرانی کیفیت مکہ اور قرب و جوار پر چھاگئی۔ یہ کیفیت آگے چل کر عرب کے بڑے خطے تک پھیل گئی۔ پھر اسی کیفیت کے بطن سے اُبھرنے والے اسلامی انقلاب نے اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ اس پورے خطے کو اپنے سایۂ رحمت میں لے لیا۔ اس انقلاب کا جوہر یہ تھا کہ حضورﷺ کی معیت، قیادت اور تربیت میںجو امت مسلمہ وجود میں آئی تھی، اسے اسلام پر بھرپور یقین اور غیرمعمولی اعتماد تھا۔ وہ باطل سے نہ مرعوب ہوتی تھی نہ خوف زدہ۔ اسلامی اقدار، اصول و احکام کے تئیں وہ کسی تذبذب کا شکار نہ تھی۔
موجودہ بحرانی دور میں کیفیت یکسرمختلف ہے۔ کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جنھیں باطل کی حربی، علمی اور فکری یلغار مرعوب، مایوس اور خوف زدہ نہیں کرسکی ہے۔ وہ علمی، فکری، حربی اور عسکری ہرسطح پر، اس بحران کا نہ صرف مقابلہ کررہے ہیں ، بل کہ اسلامی علوم، نظریے اور فکر کو اقدامی پوزیشن میں لارہے ہیں اور حربی و عسکری سطح پر منظم ہورہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو اس بحران سے، اسلام او رامت مسلمہ کے تابناک مستقبل اور پروقار وجود کے لیے امکانات تلاش کرنے اور راہیں نکالنے کی بجائے، اسلام کو ایک ڈرا سہما دین اور ملت اسلامیہ کو ایک مرعوب، خوف زدہ، بے وقار وار شکست خوردہ کردار دینے میں مصروف ہے۔ حالاں کہ ایسے مثبت اور خوش آیند امکانات موجودہیں، جنھیں وسیلۂ انقلاب بنایاجاسکتا ہے۔
جہاد کا انگریزی ترجمہ Terrorism کیاگیاہے۔ گرچہ یہ ترجمہ کسی لغت میں موجود نہیں ہے۔ باطل طاقتوں کے مظالم کی مزاحمت کو Violanceاور تشدد کا نام دیاگیا ہے۔ مجاہدین ملت اور سرفروشانِ اسلام کو، اہانت آمیز اصطلاح ’جہادی‘ کا لقب دیاگیا ہے۔ یہ موقع تھاکہ ملت کے اہل علم ودانش جہاد کی اس تعبیر سے دنیا کو آگاہ کرتے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے، زیادتیوں کا مقابلہ کرنے، کمزوروں، مظلوموں اور متاثرین و مستضعفین کی خاطر لڑنے، سفاک اور درندہ صفت، انسانیت کش طاقتوں کی مزاحمت کرنے اور انسانوں کو قتل ، نسل کشی، تباہی و ہلاکت سے بچانے اور بالخصوص اسلام کے ناموس اور ملت اسلامیہ کے وجود کی حفاظت کرنے کی جدوجہد، جس کاآخری مرحلہ مسلح اور اسلام کا ایک مقدس فریضہ ہے۔ یہ جہاد نوع انسانی کے لیے ایک نعمت اور رحمت ہے۔ اگر یہ نہ ہوتو زمین جبرو جور اور ظلم و استبداد سے بھرجائے۔ طاقتور اور سفاک قومیں بے روک ٹوک آگ اور خون سے کھیلتی رہیںگی اور مظلوموں کی حمایت ،حفاظت اور مدافعت کے سارے راستے بند ہوجائیںگے۔ اسی وجہ سے اسلام میں جہاد کو ایک عظیم عبادت کا مقام ہے۔ اس طرح جہاد کی تعبیر، اسلام کی ایک دعوتی واقدامی روح کے ساتھ انسانیت کے سامنے پیش کی جاسکتی تھی۔ اسلام کو دنیا کے کمزور و مظلوم انسان اور قومیں اپنا خیرخواہ و نجات دہندہ تحریک سمجھنے کا موقع پاسکتی تھیں اور انھیں اس بات کا موقع مل سکتاتھا کہ وہ اسلام کو ایک انسان دوست اور انسانیت نواز دین کی حیثیت میں پاکر اس کی طرف مائل ہوسکیں اور موجودہ بحرانی حالت میں دعوتِ اسلام کامیدان حیرت انگیز طورپر وسیع ہوجاتا اور اسلام کے مطالعے اور اس پر غوروفکر کی سنجیدہ کوششوں کی فضا بنتی۔’مسلمان اور تشدد‘ کے عنوان سے مضامین لکھے جارہے ہیں۔ لائن وہ اختیار کی جارہی ہے جو دشمنوں نے دی ہے اور استنباط کیاجارہاہے، قرآن، احادیث، سنت اور فقہ سے جہاد کو اس کے اصطلاحی معنیٰ میں جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا اور اقوام عالم۔ لیکن جہاد کے لغوی معنی پیش کرنے کا فیشن زوروں پر ہے اور بتایا یہ جارہاہے کہ کچھ نالائق، سرپھرے، جذباتی اور اسلام وقرآن کو نہ سمجھ سکنے والے جنونی لوگ ہیں جو مسلح کشمکش کو جہاد کا نام دے رہے ہیں ورنہ جہاد کے معنی تو صرف جدوجہد ہے۔ لہٰذا زبان وقلم سے تقریری و تحریری کوشش جہاد ہے۔ نفس سے کشمکش جہاد ہے۔ مفہوم جہاد کے استخفاف ((Dilution)کی روش نے تعبیر جہاد کی ایسی رنگ آمیزی ہم سے کرائی کہ ہم دنیا کو یہ بتانے لگے کہ غربت و افلاس اور ناخواندگی، بیماری، بے روزگاری کے خلاف جدوجہد جہاد ہے۔ تعبیر جہاد کے اس پورے مرحلے میں علمائ و دانشور حضرات یا تو قتال کا تذکرہ گول ہی کرجاتے ہیں یا دبی زبان سے، ڈرے ہوئے، محتاط و معذرت خواہانہ لہجے میں کوئی کمزور و مجہول سا جملہ سلسلۂ کلام کے آخر میں فرمادیتے ہیں کہ ’مسلمان کو اپنی جان کی حفاظت کاحق شریعت نے دیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تو شہید ہوتاہے اور شہادت کااعلیٰ درجہ اسے نصیب ہوتاہے۔ ‘ گویا جہاد کا فریضۂ عظیم عبادت اور اس کی عظیم روح سمٹ کر ، محدود ہوکر بس اپنی جان بچانے کی انتہائی مدافعانہ پوزیشن میں آجانے پر ناگزیر مجبوری کے عالم میں انجام دیاجانے والا ایک عمل بن کر رہ جاتی ہے۔ اصولی یاعملی سطح پر ’’جہاد‘‘ اور ’’شہادت‘‘ اس سیکولر نظریے سے کسی بھی طرح مختلف اور اس سیکولر قانون سے کسی طرح بھی ممتاز نہیں ہے جس کے مطابق انفرادی سطح پر ہر شخص کو اپنی جان بچانے کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس قانون میں کوئی تقدس اور عبادت کا کوئی عنصر نہیں ہے جیساکہ اسلام میں اس کے برعکس ہے۔
فکری بحران کی ایک دوسری جہت’جہاد فی سبیل اللہ‘ کی وہ تعبیر ہے، جو آج کل عام طورپر اوروسیع پیمانے پر کی جارہی ہے اور اس کے ساتھ وہ شرائط ہیں جو مسلمانوں کی کسی مسلح جدوجہد کے جواز کے لیے لازم قرار دی جاتی ہیں۔ مسلم ممالک پر حملہ کرنے والوں کی مسلح مزاحمت کو فی سبیل اللہ کے دائرے سے خارج کرکے ’وطن ، ملک اور زمین کے لیے جنگ‘ کہہ کر غیراسلامی قرار دیاجاتارہاہے۔ حتیٰ کہ ایسی جنگ کو ’دنیوی مفادات کے لیے جنگ اور نفس کے لیے جنگ‘ کہہ کر مسلم مقاتلین و مجاہدین پر لعنت بھیجنے اور ان کی تذلیل و تحقیر اور مخالفت کرنے کی روش بھی اختیار کی گئی ہے۔ لیکن کسی مسلم ملک کی ظالموں اور حملہ آوروں سے حفاظت کی مسلح کوشش اگر فی سبیل اللہ کوشش قرار نہیں پاتی تو پھر فی سبیل اللہ کا اطلاق کیا زمین پر نہیں، آسمانوں پر ہوگا؟ اور پھر حضورﷺ کے اس ارشاد مبارک کی کیا توجیہہ کی جائے گی کہ ’وہ آنکھ جہنم کے آگ میں نہیں جلے گی جو راتوں میں مملکت کی سرحدوں کی نگرانی میں جاگی ہوگی۔‘ کیا یہ مملکت، ملک کی زمین، مومنین کے وطن، مسلم آبادیوں اور عفت مآب مسلم خواتین کے وجود پر مشتمل نہیں ہوتی؟
جہاد کے لیے جن شرائط کا چرچا بہت زیادہ اور بلند آہنگ میں کیاجارہا ہے وہ موٹے طورپر یہ ہیں ﴿۱﴾جہاد کے لیے ’امیرالمومنین‘ کا ہونا ضروری ہے ﴿۲﴾حربی و عسکری قوت کادشمن کی قوت کے مساوی ہونا لازمی ہے ﴿۳﴾ مجاہدین کے مرکز جہاد اور اسلحہ جات کو رکھنے کی جگہ کا، دشمن کی دسترس سے باہر رہنا ضروری ہے اور ﴿۴﴾جنگ کاخالص ’اللہ کے لیے‘ہونالازمی ہے۔ ان شرائط پر علماے امت میں تقریباً اتفاق و اجتماع ہے۔ لہٰذا اسلام دشمن قوتوں کے عزائم، منصوبوں اوراُن کے ذریعے بلاجواز مسلم ممالک پر تباہ کن حملوں اورمسلم نسل کشی کی متواتر مہموں کو نظراندازکرکے بارہ تیرہ سو سال قبل وضع کی گئی شرائط جہاد کو ایسا درجہ دینا گویا انھیں اللہ اور رسولﷺ نے وضع فرمادیاتھا، ہمارے فکری جمود کا ثبوت اور فکری بحران کامظہر ہے۔ مذکورہ شرائط قرآن وسنت کی منصوص شرائط ہرگز نہیں ہیں۔ دور اوّل کے علمائ و فقہا نے، اُس دور کی مناسبت سے، اپنے اجتہاد سے انھیں وضع کیاتھا۔ لہٰذا یہ یقینا نہایت قابل احترام ہیں لیکن عصر حاضر پر ان کااطلاق نہیں ہورہاہے۔ آج حامد کرزئی، عیاد علاّوی، حسنی مبارک، پرویز مشرف وغیرہ امیرالمومنین کے منصب پر جلوہ گر ہیں۔ جنگیں جن دو فریقوں میں ہورہی ہیں، اُن میں ایک طرف دشمنانِ اسلام و ملت اسلامیہ کے ساتھ ’امیرالمومنین‘ حضرات ہیں اور دوسری طرف عامۃ المسلمین اور ان کے جاں فروش فرزندان پہلے جنگ کے دونوں فریقوں کے پاس یکساں نوع کے ہتھیار ہوتے تھے، اب ایک طرف بمبار ہوائی جہاز، آگ برسانے والی میزائلیں اور بکتر بند ٹینک ہیں تو دوسرے فریق کے پاس غلیل، پتھر یا زیادہ سے زیادہ AK-47 رائفل۔ ایک فریق کے پاس بحری بیڑے ہیں تو دوسرے کے پاس صرف انسانی ہاتھ۔ پہلے کھلے میدان میں دو بدو، دو لشکروں میں مڈبھیڑ ہوتی تھی، اب ایک طرف عظیم فوج ہے اور دوسری طرف گوریلا وارفیئر کی مجبوری ۔ پہلے جنگی قیدیوں کے لیے کچھ نہ کچھ اصول اورضابطے تھے، جن پر عمل ہوتاتھا اور اسلامی مملکت کاسربراہ، دشمن مملکت کے سربراہ سے جنگی قیدیوں کی بابت ضابطہ بند معاہدے کرسکتاتھا، اب ابوغریب اور کیوبا کے گواٹاناموبے کے تعذیب خانے ہیں اور ہمارے کسی ’امیرالمومنین‘ کو جرأ ت نہیں ہے کہ زبان سے ایک لفظ بھی نکال سکے یا گڑگڑاکر ہی اپنے مسلم شہریوں کے لیے رحم و انصاف کی بھیک مانگ سکے۔ اس کیفیت میں بارہ تیرہ سوسال قبل کی پُرتقدس شرائط جہاد کے نفاد کی بات کرنا اور ان شرائط کے پورے نہ ہونے پر مزاحمت کاروں کی مذمت کرنا، اُن کی سرفروشانہ جدوجہد کو جہاد کے دائرے سے خارج کرنا ایک ایسا فکری بحران قرار پاتاہے جو جہاد کو کسی نامعلوم مستقبل تک کے لیے ساقط کردیتا ہے۔ اگر خالص فقہی سطح کی بات کی جائے تو فقہ کے معروف اصول کے مطابق جب کسی فعل و عمل کاراستہ بند کیاجاتا ہے تو متبادل کے طورپر کوئی دوسرا جائز راستہ بھی ضرور کھول دیاجاتاہے۔ آج اہل علم و دانش نے جو ’جائز‘ راستہ کھول رکھاہے وہ ہے: مرتے رہو، ہلاک اورتباہ و برباد ہوتے رہو لیکن اسلحہ نہ اٹھاؤ۔ جان مت دو۔ ورنہ اسلحہ اٹھانا ’تشدد‘ قرار پائے گا اور جان دینے کو ہم ’خودکشی‘ کے فتوے سے نوازیں گے۔
یہ کہنا درست ہے کہ عوامی مقامات، عوامی عمارتوں، عوامی سواریوں کو بم سے بلاسٹ کردینا اور بے قصوروں کو ہلاک کردینا تشدد ہے ار اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے اور یہ جہاد ہرگز نہیں ہے۔ مسلم دانشور اور علمائ اگر واقعات کے حقیقی تناظر میں اس موقف کااعلان فرماتے تویقینا جہاد کی صحیح تصویر پیش کررہے ہوتے اور اسلام کا دعوتی پہلو بھی غیرمسلم دنیا پر آشکارا ہوتا، لیکن افسوس کہ وہ واقعات کے حقیقی تناظر میں نہیں ، بل کہ سرکاری افسروں، سکورٹی فورسیزکے ذمے داران، سیاسی حکمرانوں کے بیانات اور میڈیا کی رپورٹوں پر ’ایمان بالغیب‘ لاکر بیانات دیتے، تقریریں کرتے اور پریس ریلیز جاری کرتے ہیں۔ نہ اُن کے پاس حقائق و واقعات کو جاننے کا کوئی وسیلہ ہوتاہے، نہ اس کے لیے انھیں فرصت ہے اور نہ وہ میڈیا کی خبروں کے بین السطور پڑھنے کاسلیقہ رکھتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی بم بلاسٹ ہوا، گرد جمنے اور دھواں زائل ہونے سے پہلے ’اسلامی دہشت گردی‘ اور کچھ ’جہادی‘ تنظیموں کا نام میڈیا سے نشر ہوا اور ہم ’مسلم شدت پسندوں‘ پر لعنت بھیجنے میں مصروف ہوگئے۔ جب کہ الجزائر میں دس بارہ سال تک انسانوں کو ذبح کرنے اور امریکہ، انڈونیشیا، اٹلی، ماسکو اور خود اپنے وطن عزیز کے بے شمار متشددانہ دہشت گردانہ واقعات، جن کی ذمے داری اسٹیٹ اور میڈیا کی طرف سے مسلمانوں پر ڈالی گئی، کی حقیقت سامنے آئی تو معلوم ہواکہ ان واقعات میں ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسیز اور حکمرانوں کی منصوبہ بند اسکیم کارفرماتھی۔ مسلمانوں یا کسی مسلم تنظیم کا ان میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔ رہی بات کچھ چٹ پٹ متشددانہ کارروائیوں کی جو مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں کبھی انجام پائیں تو انھوںنے ایسی کارروائیوں کو کبھی جہاد کا نام دیا ہو یہ بات مصدقہ طورپر کسی کے سامنے بھی نہیں آئی ہے۔ ایسی کارروائیاں اسلام کے نام سے کی بھی نہیں جاتیں۔ یہ فرسٹریشن کے نقطۂ عروج پر پہنچ جانے، عدل و انصاف پانے کا امکان مفقود ہوجانے اور ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کا فطری انسانی داعیہ متحرک ہوجانے کے نتیجے میں انجام پاتی ہیں۔ ان کی اسلامی نقطہ نظر سے تردید و مخالفت تو یقینا اچھی بات ہے تاہم اُن وجوہ، اسباب و عوامل کے تدارک پر زیادہ زور دینا چاہیے جو انسان کو امن و عافیت پسندی کی عمومی جبلت سے بغاوت کرکے تشدد کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔
پردہ اور ترقی نسواں کو غیراسلامی تہذیبوں نے ایک دوسرے کی ضد قرار دیا ہے۔ پردے کے تعلیم میں رُکاوٹ ہونے کی وجہ قرار دے کر،عورتوں کی ترقی، قوم کی ترقی، ملک کی ترقی میں حائل گردانا گیاہے۔ پردے کی وجہ سے ملازمت اور کسب معاش سے مسلم خواتین کی دوری و علاحدگی کو خود مسلم دانشور حضرات، امت مسلمہ کی سماجی، معاشی اور سیاسی پسماندگی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ تعلیم، مساوات، قومی وملکی ترقی کے ذیل میں مسلم عورت کی زبوں حالی،پسماندگی، محرومی اورمظلومیت کے شور شرابے نے مسلم دانشوروں کو خاتونِ اسلام کی پردگی پر نادم و شرمندہ تو کیے رکھاتھا، “Women empowerment”کے جدید نعرے نے ایک تازہ صور پھونک دیا۔ لہٰذا اب علمائ، مفکرین اور دانشوروںکی ایک تعداد میدان اجتہاد میں اُترپڑی ہے کہ اگر زیادہ بے پردگی اور کم لباسی نہیں تو کم ازکم اپنی بیٹیوں، بہنوں، بہوئوں، بیویوںکے خوبصورت چہروں کی نمائش کا جواز قرآن کی آیات اور حضور کی احادیث، معاشرۂ صحابہؓ اور دورِ نبویﷺ کو چھان پھٹک کر حاصل ضرور ہی کرلے۔ علمائے مصر اس معاملے میں خاصے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ اُن سے استفادہ کرکے دانشوران ہند بھی چہرے کے پردے کے خلاف ’اسلامی مواد‘ کے انبار ملت کو بہم پہنچارہے ہیں۔ اس کیفیت اور اس شاندار اجتہاد کے پس منظر میں شہری آبادیوں کے مسلم علاقوں میں بیوٹی پارلرز کا نظام، اخباروں ، میگزین، ٹی وی کے پردوں اور سڑکوں پر آویزاں ہزارہا ہزار فحش و عریاں فلمی پوسٹروں کی تصویریں، مخلوط تعلیم گاہیں، مخلوط دفاتر اور مخلوط بازارمیلے ٹھیلے اخلاق سوزی کی ہوائیں، اغوا، زنابالجبر، زنابالرضا کاماحول، عشق و معاشقے کا چلن، گویا ایک چھوٹی موٹی کائنات ہے جو عورت کی بے آبروئی، تذلیل اور استحصال کی کریہہ تصویروں سے لبریز ہے۔ اس پس منظرکے پیش منظرمیں ہمارے دانشور اور اہل علم حضرات مسلم چہرے سے نقاب اتروادینے کے لیے بے چین ہیں۔ اس بے چینی کی مقداراتنی زیادہ ہے کہ وہ چہرہ کھولنے کی حدیثیں پیش فرماتے ہیں۔البتہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ حدیثیں اوروہ واقعات حکم پردہ آجانے کے بعد کی ہیں یا پہلے کی۔ یہ نہیں بتاتے کہ چہرہ کھولنے کا رواج مدنی معاشرے میں تھا تو وہ مدنی معاشرہ کیساتھا۔ کیا وہ آج کے ہندستانی، امریکی، پاکستانی اور یورپی معاشرے جیساتھا، جہاں عورت کی عصمت و عفت اسی طرح آسانی اور فراوانی سے پامال کی جاتی ہے جس طرح ردی کاغذ یا چائے کافی کے Throw away cups۔
ہندستان کے ایک بہت بڑے اسلامی انقلابی مفکر جو یہاں کی ’مسلم پارلیمنٹ‘ کے چیئرمین اور اسپیکر وغیرہ ہیں لکھتے ہیں: ’مستور چہروں نے ہماری ملت کی آدھی آبادی کو عملاً ’بے چہرہ‘ بنادیاہے۔پھر اس ملت کی ترقی و نجات کاراستہ ہی بند ہوگیا۔ ترقی و نجات کے لیے ہماری بیٹیوں کا’باچہرہ‘ ہونالازم ہے۔ مسلم عورت کے ’باچہرہ‘ ہونے کے جواز میں ایک مصری عالم جو دلائل تحریر فرماتے ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک کے ہوائی جہازوں میں ایئرہوسٹس کی ضرورت پڑتی ہے اور ایئرہوسٹس بے چہرہ نہیں ہوسکتی۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ’پردہ‘ کے آخری دو صفحات میں چہرے کے لزوم کے حق میں دلائل دیے تو دہلی کے ایک مفکر اسلام نے اُن کی شدید مخالفت میں تحریر لکھی اور پردہ کے تعلق سے مولانا مودودیؒ کی رائے کو متشدانہ قرار دیا۔ دراصل بے پردگی کی یہ حمایت اُس فکری بحران کامظہر ہے جو مغرب و مشرق کی اسلام دشمن طاقتوں کے شدید علمی، فکری و تہذیبی یلغار کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے مرعوبیت اور مادہ پرستی کی ذہنیت خاموش طورپر کارفرما ہے۔
سودی معیشت
سرمایہ داروں کے ہاتھوں عوام الناس کے بے رحمانہ استحصال کاجتنا بڑا نظام ہے، بدقسمتی سے اُتنا ہی دلکش بناکر پیش کیاگیا ہے۔ اس ظالمانہ نظام معیشت کا مرکز پرانے زمانوں میں مہاجن ہواکرتاتھا۔ اب ملکوں کی سطح پر یہ مہاجن بینک ہیں اور عالمی سطح پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ہمالیائی معاشی ادارے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس نظام معیشت و اقتصاد کی حمایت میں مسلم دانشوروں نے بھی بڑی کوشش اور محنت کی ہے۔
یہ صورت حال ایک خاموش اور غیرمحسوس لیکن نہایت خطرناک رجحان اور زبردست فکری بحران کاپتا دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے اہل علم و دانشورنہ صرف امت مسلمہ کو سود کی حُرمت اور اس کے دور رس نقصانات سے باخبر کرتے، بل کہ عالمی مہاجنوں کے معاشی استحصال کے مضبوط و بے رحم شکنجوں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو بھی اسلام کے غیرسودی نظام معیشت و اقتصاد سے باخبر کرتے ہوئے ان کے روبرو اسلام کوایک حقیقی نجات دہندہ کی صورت میں پیش کرتے۔ یہ اسلام کے دعوتی کاز کی بہت بڑی خدمت ہوتی۔ لیکن اس بحران میں مضمر مثبت امکانات و مواقع کو حکمت و دانائی کے ساتھ اسلام کے حق میں اور عالم انسانیت کی فلاح کی خاطر ایکسپلور کرنے اور بروئے کار لانے کی بجائے سود اور رِبا میں تفریق کرکے ایک کو نہ صرف مباح اور جائز بل کہ مستحسن و مطلوب قرار دیاجانے لگا۔گھریلو ضروریات کے لیے سود کو حرام اور کاروباری ضروریات کے لیے سود کو حلال اور پسندیدہ قرار دیاگیا۔ مسلم جرائد میں سودی قرض پر صنعت کاری کی ترغیب کے اشتہارات شائع ہونے لگے اور سودی قرض لے کر صنعت و حرفت کو فروغ دینے کے گُر بتائے جانے لگے۔ علمائ نے سود پر قرض لینے کے جواز کے فتوے دییے۔ دانشوروں نے سود کے حق میں کتابوں کی نشرو اشاعت اور مشتہری کی۔ مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کے شور شرابے اور اعداد وشمار کے کھیل نے مسلمانوں میں سودی معیشت کے تئیں کراہت کو زائل کرکے ان میں اس کے تئیں پسندیدگی کا رجحان بڑھایا۔ سود کو قرآن نے مطلقاً حرام قراردیاتھا اور سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ نے اپنے رسول کو تاکید فرمائی تھی کہ ایسے لوگوں کو علانیہ سنادیجیے کہ اُن سے اللہ اور رسول کی جنگ ہے۔ یہاں خانگی ضرورت کے لیے سود حرام اور کاروباری ضرورت کے لیے سود حلال کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں حضورﷺ نے سود کی حرمت اور اس کے مکمل انسداد کاحکم فرمایاتو حرام سود اور حلال سود کی کوئی تفریق نہ فرمائی۔ اس کے باوجود افکار باطلہ اور نظریاتِ فاسدہ سے اثرپزیری اورمغرب کی خیرہ کن معاشی ترقیوں سے مرعوبیت نے آج کے دانش وروںکو قرآن و سنت کے واضح احکام میں رخنہ دراندازی کے لیے جری بنادیا۔
تحدیدآبادی، تقصیر نسل اور تقلیل خاندان
خاندان کو چھوٹا کرنے کی سازش مغرب میں تیار ہوئی۔ اس سازش کی ضرورت مغرب کو کیوں پیش آئی؟ مغرب نے برتھ کنٹرول کانقطہ نظر یہ وضع کرکے اسے مشرق کو کیوں ایکسپورٹ کیا؟ پھر عالمی تنظیمات یو این اور اور ڈبلیو ایچ او کے توسط سے مشرقی ممالک پر پہلے ترغیباً اور پھر جبراً کیوں مسلط کیا؟ ہمارے ملک پر عالمی طاقتوں کا دبائو آبادی گھٹانے پر غیرمعمولی طورپر کیوں ڈالا گیا۔ مسلم ممالک کے سیکولر حکمرانوں کے ہاتھوں اور ان حکمرانوں کے پالتو علمائ کے وسیلے سے مسلم عوام میں برتھ کنٹرول کے ترویج و نفوذ وغیرمعمولی محنت اور دولت کیوں صرف کی گئی؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کی مہلت ہی عامۃ الناس کو نہیں دی گئی۔ ایک زبردست فتنہ مغرب سے اٹھا اور چہاردانگ عالم میں چھاگیا۔ اولاد ایک مصیبت قرار پانے لگی۔ قلیل الاولاد ہونا خاندان اور کنبے کی خوشحالی کی ضمانت متصور ہونے لگا۔ پھر اس خوبصورت فتنے کے بطن سے بدکاری اور اسقاط حمل کو فروغ ملا۔ موانع حمل ادویہ عوام الناس کی دسترس تک بہ سہولت پہنچائی گئیں۔ ایسی صورت میں زنا بھی سہل اور بے خطر بن گیا۔ اس تہذیبی اور اخلاقی بحران میں یہ مثبت امکان بھی موجود تھا کہ اہل اسلام، مالتھوزین مفروضے کی حقیقت اور اہل مغرب کی عظیم سازش کو، اس کی تمام باریکیوں کے ساتھ سمجھتے اور اس کی نامعقولیت کو عوام کے سامنے لاتے ہوئے اسلامی فکر کاابلاغ کرتے۔ ایمرجنسی کے پُرہنگام دور میں کچھ ہنگامی کوششوں اور بروقت فتووں کے بعد ، افسوس ہے کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب ’ضبطِ ولادت‘ کی اشاعت کے ماسوا اسلامیانِ ہند کے دانشوروں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی بھرپور ذہن سازی نہ کی، چہ جائیکہ برادران وطن کے روبرو اسلام کا نقطۂ نظر پیش کرنے کا دعوتی فریضہ انجام دیتے، بل کہ الٹے ہی ۱۹۹۵ءمیں یوپی کے ایک شہر میں برتھ کنٹرول کے حق میں مسلمانوں کو ہموار کرنے کی ایک تحریک کی بنیاد ڈال دی گئی۔ یہ تحریک آیات قرآنی اور احادیث نبویﷺ سے لیس ہے۔ بہت بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کرکے برتھ کنٹرول کو مسلمانان ہند کی معاشی پسماندگی کے مرض کانسخۂ کیمیا ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اب جدید زمانے کاساتھ دینے والا، روشن خیال مسلمان ہونے کے اوصافِ حمیدہ میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنی متوقع اولاد سے اتنا خوف کھائے کہ اسے پیدا ہی نہ ہونے دے۔
مدارسِ دینیہ
مدارس دینیہ اور جامعاتِ اسلامیہ پر ہمارے ملک کے حکمراں چند برسوں سے بہت مہربان ہوگئے ہیں۔ اِن کی ترقی اور جدید کاری کی فکر نے انھیں ایسی بے چینی میںمبتلا کرڈالا ہے کہ ایسی بے چینی، حکمرانوں کو ملک کے اپنے اسکولوں اور سیکولر تعلیمی اداروں میں رچے بسے کرپشن کے تعلق سے نہیں پائی جاتی۔ بظاہر نیت بہت خیرخواہانہ اور پرکشش ہے۔ان مہربانیوں کے طفیل مدرسوںاور جامعات کے فارغین کی معاشی منڈی میں اچھی قیمت لگے گی اور یوں مسلمانان ہند کی معاشی پسماندگی آہستہ آہستہ زائل ہوجائے گی۔ عالمی منظرنامہ بھی ایسا ہی ہے۔ امریکہ مسلم ممالک کے مدرسوں اور اسکولوں کے نصاب کی تطہیر اور ہماری درس گاہوں کی تجدید میں اس قدر مخلص واقع ہواہے کہ پاکستان اور کچھ عرب ممالک کے اسکولی نصاب ماڈرنائزیشن کے مرحلے سے گزارے جارہے ہیں۔ مدرسوںکے نصاب اور تدریسی طریقوں میں پائی جانے والی خامیوں کا تدارک یقینا وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن اس کی تفصیلات اور پروگرام خود مسلمانوں کی اوریجنل اسلامی و ملی سوچ کے تحت انجام پانے چاہئیں۔ لیکن افسوس ہے کہ یہ سوچ بیشتر اس فکری یلغار کے نتیجے میں ہمارے دانشوروں کے اندر تیزی سے نائن الیون ﴿گیارہ سمبر۲۰۰۱ء﴾ کے بعد اپجنے لگی ہے جس نے اسلامی نصاب کو ایک طرف فرسودہ اور دوسری طرف خطرناک قرار دیا ہے۔ امریکہ اور ہمارے ملک کے حکمرانوں کو مسلمانوں کی قوت اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا اصل راز ہماری دینی درس گاہوں کے نصاب تعلیم میں پوشیدہ نظر آگیا ہے۔ لہٰذا ان درس گاہوں کی کردار کشی سے لے کر ان کی تذلیل و تحقیر تک ایک طویل منصوبہ زیر عمل ہے۔ ہمارے بہت سارے دانشور اس حقیقت سے آنکھیں چراکر دینی درس گاہوں کی تذلیل پر اتر آتے ہیں۔ بڑی حقارت سے فرمایاجاتاہے کہ ان درس گاہوں سے نکلنے والے بس امام اور مؤدن بن سکتے ہیں، یہ دنیا کی ٹھوس زمین پر اپنی کوئی جگہ اور بازارِ معیشت میں اپنی کوئی قیمت نہیں بناپاتے۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سیکولر نظام تعلیم میں وہ Specialisation کے حامی ہیں۔ وہ انجینئرنگ کالج میں میڈیکل سائنس بھی پڑھانے کے قائل اور میڈیکل کالج کے نصاب میں کامرس اور بزنس انڈمنسٹریشن کا نصاب داخل کرنے اوریونیورسٹیوں و کالجوں میں قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر اور عربی ادب پڑھانے کے حامی ہرگز نہیں ہوتے لیکن دینی جامعات میں عالمیت و فضیلت کے طالب علموں کو سیکولر اور سائنس و تکنالوجی کا نصاب بھی پڑھوانے پر مصر ہیں۔ ان مرعوب دانشوروںکے نزدیک قرآن، حدیث، عربی ادب اور فقہ و تفسیر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب کہ یہی جامعات اور مدارس ہیں اور ان کا نصاب ہی ہے جس نے ملت اسلامیہ کو تیز و تند سیلابوں میں تنکے کی طرح بہہ جانے سے بچارکھا ہے۔ اسلام کے احیائ اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کی خوشگوار روشنیاں انھی مدارس و جامعات کی رہینِ منت ہیں۔ ان کا مخصوص نصاب زمانے کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی ایمانی اور تہذیبی قوت و استحکام کے لیے اور ترقی و اقدام کے لیے۔ اگر یہ مدارس و جامعات نہ ہوتے اور ان کا مخصوص درسی نصاب نہ ہوتاتو مادّہ پرستی و دہریت کاطوفان خواہ ملت میں ڈاکٹرز، وکلائ، ٹکنوکریٹس، صنعت کار، سرمایہ دار، انجینئر اور آئی اے ایس، پی سی ایس، آئی ایف ایس وغیرہ کا انبار لگادیتا ، لیکن اسلامی افکار، نظریات اور تہذیبی اقدار کو اڑاکر نہ جانے کہاں پہنچاچکا ہوتا۔ اس حقیقت کو امریکہ بہ خوبی جان چکا ہے اور ہمارے ملک کے حکمران بھی۔اسی لیے یہ انتہائی خیرخواہی کے لہجے میں ، لیکن پوری ہشیاری اور شاطرانہ چال کے ساتھ ہماری ان درس گاہوں کا یہ امتیاز اور یہ خاصّہ آہستہ آہستہ ، جدید کاری میں تعاون اور مالیاتی گرانٹ کے ذریعے محو اور زائل کردینے کا منصوبہ بناچکے ہیں۔ کاش، مدارس و جامعات کی کایا پلٹ دینے کے لیے پُرجوش، دانشور اور ماہرین تعلیم بھی اس حقیقت کا ادراک کرسکتے اور علوم جدیدہ کے غیرمتناسب جوش میں علوم دینیہ کی ضرورت و اہمیت کے استخفاف سے باز آجاتے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011