اسلامی تحریک کی رفتارِ کار

جلد بازی منع ہے، تیز رفتاری مطلوب ہے

اسلامی تحریک کی رفتار کیسی ہو؟

اس کا جواب ہمیں آخری رسول حضرت محمد ﷺ کی سیرت میں تلاش کرنا چاہیے۔ مسلم امت میں برپا ہونے والی ہر اسلامی تحریک کے لیے بہترین نمونہ حضرت محمد ﷺ اور آپ کے صحابہؓ پر مشتمل اولین اسلامی تحریک ہے۔

حضرت سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ ہی میزان اکبر (سب سے بڑی کسوٹی) ہیں۔ چیزوں کو آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا، یعنی آپ کے اخلاق، آپ کی سیرت اور آپ کی تعلیمات پر پرکھا جائے گا، جو اس کے موافق ہو وہی حق ہے اور جو اس کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔ الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع، خطیب بغدادی)

یوں تو اللہ کے رسول ﷺ کی چلنے کی رفتار بہت تیز تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا، جب چلتے تو ایسا لگتا کہ گویا زمین آپ کے لیے لپیٹ دی گئی ہو، ہمیں ساتھ چلنے میں بڑی محنت کرنی پڑتی اور آپ پر کچھ اثر ہی نظر نہ آتا۔(شمائل ترمذی)، اس کے علاوہ آپ اپنی زندگی کے مشن کو انجام دینے کے معاملے میں بھی بہت زیادہ تیز رفتار تھے۔

پیارے نبی ﷺ نے اقامت دین کی منزل کی طرف برق رفتاری کے ساتھ پیش قدمی کی۔ بہت ہی کم عرصے میں آپ نے اس شاہراہ کی تمام منزلوں کو سَر کرلیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اقامت دین کا یہ تیز رفتار سفر براق پر سواری کرکے خالص معجزاتی انداز سے تکمیل تک نہیں پہنچا تھا، بلکہ یہ پورا سفر انسانی حکمت و تدبیر اور تھکادینے والی مسلسل انسانی محنت سے عبارت تھا۔ ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر ایک ندا لگائی اور لوگ جوق در جوق دین میں داخل ہوتے چلے گئے، بلکہ برسہا برس کی شبانہ روز محنت کرنے اور آزمائشوں کے بے شمار سمندر پار کرلینے کے بعد خانہ کعبہ شرک سے پاک ہوا اور عرب دیس میں اسلام کا پرچم لہرایا۔ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے اصحاب نے جس طرح اپنا ساراوقت اور تمام تر توانائی اس راہ میں جھونک دی اور جس طرح اس راہ کے ہر مرحلے میں بہترین اسٹریٹیجی اختیار کی تھی، نتائج بھی اس کے مطابق برآمد ہوئے۔

تیز رفتاری کا بہترین نمونہ

اللہ کے رسول ﷺ نے اقامت دین کا ایک مکمل سفر انجام دے کر بطور نمونہ امت کے سامنے رکھ دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سب سے بڑی سنت اقامت دین کا یہ سفر ہے۔ اس سنت کو قیامت تک بار بار ادا کرتے رہنا اہلِ اسلام پر فرض ہے۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے یہ پورا سفر انسانی جدوجہد کے اعلی ترین اصولوں کو برتتے ہوئے انجام دیا۔ یہ سفر خالص معجزاتی انداز سے ہوتا تو مسلم امت کے لیے اس عظیم سنت پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ انسانی اصولوں کے مطابق ہونے کی وجہ سے اس سفر کے ہر مرحلے اور ہر پہلو میں نمونہ ہے۔ بلاشبہ اللہ کی نصرت قدم قدم پر شامل حال تھی، لیکن وہ پیارے رسولﷺ اور آپ کے اصحاب کی انسانی محنت کے دوش بدوش تھی۔ بعد میں آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے اس میں اقتدا کا سامان اور اتباع کا میدان موجود ہے۔

حضرت نوح ؑکی رفتار سست نہیں تھی

اگر اللہ کے رسول ﷺ نے تیز رفتاری کے ساتھ اس کام کوانجام دیا تو آپ کے نقش قدم پر برپا ہونے والی اسلامی تحریکوں کو بھی یہ کام تیز رفتاری کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔ رفتار کی سستی اور نتائج کی دیری پر مطمئن رہنا اسلامی تحریک کو ہرگز زیب نہیں دیتا ہے۔ اسی طرح اپنی سست رفتاری کا جوازحضرت نوح علیہ السلام کی طویل زندگی میں تلاش کرنا اور نتائج کی تاخیر کے لیے ان کی مثال کا حوالہ دینا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے یہاں سست رفتاری بالکل نہیں تھی، ان کا کام تو زندگی بھر زور و شور سے جاری رہا، یہ الگ بات ہے کہ لوگ آپ کی دعوت پر کان نہیں دھر رہے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال کی نہایت طویل مدت تک مسلسل سرگرم رہنے کی عظیم مثال قائم کی۔ ان کا حوالہ دینا ان لوگوں کو تو بالکل زیب نہیں دیتا ہے جن کی زندگی کا کوئی ایک دن بھی ان کے دن کی طرح نہیں گزرا۔ قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کی شبانہ روز سرگرمیوں کا دل آویز نقشہ اس طرح کھینچا گیا:

قَالَ رَبِّ إِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِی لَیلًا وَنَهَارًا (5) فَلَمْ یزِدْهُمْ دُعَائِی إِلَّا فِرَارًا (6) وَإِنِّی كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا (7) ثُمَّ إِنِّی دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا (8) ثُمَّ إِنِّی أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا [نوح: 5–9]

(اُس نے عرض کیا: اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا۔ مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کر دے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منھ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کی۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔)

حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت دراصل اس کی مثال ہے کہ اسلامی تحریک کو اگر ہزار سال تک بھی کوشش و محنت کرنی پڑے تو اسے ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور بے تکان کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ذات ان لوگوں کے لیےحوصلہ افزائی کا ذریعہ (Source of inspiration) ہے جن کی تمام تر کوششوں کے باوجود انھیں مطلوبہ رسپانس نہ ملے۔انھیں چاہیے کہ وہ مایوس نہ ہوں اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ تاہم یہ استثنائی صورت حال ہے۔ مسلم امت کے لیے اصل کیفیت تو وہ ہے جو حضرت محمد ﷺ کی سیرت میں نظر آتی ہے اور وہ ہے رفتار تیز، کام زیادہ اور جلد سے جلد مطلوبہ نتائج کا حصول۔

اللہ کے رسول ﷺ کے بعد جب بھی کوئی اسلامی تحریک برپا ہوئی اور اس نے حکمت و تدبیر اور کوشش و محنت کے تعلق سے پیارے رسولﷺ کے اسوے کو اختیار کیا، اسے قلیل عرصے میں حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے۔ تجدید و احیائے دین کی تمام تحریکیں اس پر گواہ ہیں۔

نتائج میں تاخیر احتساب کا تقاضا کرتی ہے

اگر کسی فرد یا تحریک کی کوششوں کے نتائج سامنے آنے میں تاخیر ہورہی ہواور منزل قریب آتی محسوس نہ ہورہی ہو، تو اپنا سخت احتساب کرنا چاہیے کہ کہیں کوئی بڑی کم زوری لاحق تو نہیں ہے یا کوئی بڑی غلطی تو سرزد نہیں ہورہی ہے۔

اسلامی تحریک کو جہاں سمتِ سفر کے سلسلے میں چوکنا اور حساس رہنا چاہیے کہ کوئی طوفانِ حوادث سفر کے رخ کو ذرا سا بھی تبدیل نہ کردے، اسی طرح اسلامی تحریک کو اپنی رفتار کے سلسلے میں بھی مطمئن نہیں رہنا چاہیے۔ اگر فرد کے لیے روز اپنا احتساب کرنا ضروری ہے تو تحریک کے لیے اور زیادہ ضروری ہے۔ احتساب میں خاص طور سے چار امور کا جائزہ لینا چاہیے: حکمت عملی، منصوبہ بندی، کوششیں اور جذبہ واخلاص۔

نتائج میں تاخیر کی وجہ غلط حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے، کم زور منصوبہ بندی بھی ہوسکتی ہے، کوششوں میں کوتاہی بھی ہوسکتی ہے اور جذبہ و اخلاص میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے یہاں یہ تمام چیزیں کمال درجے میں نظر آتی ہیں۔ کمال درجے کی حکمت عملی، کمال درجے کی منصوبہ بندی اور کمال درجے کی کوشش اور جذبہ و اخلاص۔ بے شک اللہ کے رسول ﷺ کی ذات میں ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے۔

حرکت وسفر کے حوالے سے ایک مثال صنوبر کی ہے، جس کے سامنے نہ راہ ہے اور نہ منزل ہے:

رفتار کی لذّت کا احساس نہیں اس کو

فطرت ہی صنوبر کی محرومِ تمنّا ہے

دوسری مثال نسیمِ سحر کی ہے، کبھی آہستہ کبھی تیز:

فطرت مری مانندِ نسیمِ سحرَی ہے

رفتار ہے میری کبھی آہستہ، کبھی تیز

اور تیسری مثال سیلِ رواں کی ہے، کبھی تھمتا نہیں، ہمیشہ تیز :

ہائے اس دوری منزل پہ یہ اندازِ خرام

کارواں موج رواں سیلِ رواں ہوجاتا

اسلامی تحریک کو موجِ رواں سیلِ رواں ہی بن جانا چاہیے، کیوں کہ

تیز ہے وقت کی رفتار بہت

اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے

کارواں بڑھتا گیا

اللہ کے رسول ﷺ نے جب دعوت کا آغاز کیا تو شروع میں چند افراد نے اسے قبول کیا، پھر کارواں بڑھتا گیا۔ دیکھتے دیکھتے دعوت دور تک پھیل گئی۔ تیرہ سال مکمل ہوتے دعوت کے غیر معمولی نتائج سامنے آچکے تھے۔ مکہ کے ہر گھر میں دعوت کے اثرات پہنچ چکے تھے۔ مکہ کے کئی بڑے سردار اسلام قبول کرچکے تھے۔ عرب کے ہر قبیلے کے دروازے پر دعوت دستک دے رہی تھی۔ عرب سے باہر نکل کر پڑوسی ملک حبشہ میں بھی دعوت پھیل رہی تھی۔ مدینہ کی بڑی آبادی اسلام میں داخل ہوگئی تھی اور ایک اسلامی ریاست بننے کے لیے تیار تھی۔شدید مخالفتوں کے باوجود تیرہ سال کی مدت میں اتنی زیادہ حصولیابیاں حیرت انگیز تھیں۔

مدینہ میں بھی نتائج کی رفتار غیر معمولی تھی۔ بدر (2 ہجری) کے موقع پر صرف تین سو تیرہ افراد جمع ہوئے تھے، جب کہ اس کے محض آٹھ سال کے بعد حجة الوداع (10 ہجری)کے موقع پر جمع ہونے والے اہل ایمان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ اس کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں: میں نے بیداء کے میدان میں آپ کے سامنے دیکھا تو تاحد نظر لوگ پیدل اور سواریوں پر نظر آئے، میں نے آپ کے دائیں جانب دیکھا، بائیں جانب دیکھا، پیچھے مڑکر دیکھا، ہر طرف ایسا ہی عالم نظر آیا۔(صحیح مسلم) نتائج کے اس تیز رفتار ظہور کو قرآن مجید میں رَأَیتَ النَّاسَ یدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّهِ أَفْوَاجًا[النصر: 2]سے تعبیر کیا گیاہے۔

مکی دور کے دو بڑے اہداف

اللہ کے رسول ﷺ کی کوششوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ مکہ میں آپ نے دو بڑے اہداف طے کیے تھے اور دونوں ہی اہداف بڑی خوبی کے ساتھ حاصل کیے تھے۔ایک ہدف یہ تھا کہ مکہ کے ہر گھر میں اسلام کی دعوت پہنچ جائے اور دوسرا ہدف یہ تھا کہ عرب کے ہر قبیلے تک اسلام کی دعوت پہنچ جائے۔ پہلے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے آپ مکہ کے ہر ہر فرد سے ملتے، غلاموں اور باندیوں سے بھی ملتے۔ آپ پر ایمان لانے والے مرد دوسرے مردوں کو دین کی دعوت دیتے اور آپ پر ایمان لانے والی عورتیں گھر گر جاکر عورتوں سے ملتیں اور اس طرح قلیل عرصے میں اسلام ہر گھر میں گفتگو کا موضوع بن گیا۔ دوسرے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے مکہ کی مرکزی حیثیت کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ حج کے موقع پر خاص طور سے اور اس کے علاوہ سال بھر عرب کے قبیلوں کے وفود خانہ کعبہ کی زیارت کے لیےآتے اور آپ ہر وفد سے جاکر ملتے اور اسلام کی دعوت پیش کرتے۔نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی برسوں میں عرب کے ہر ہر قبیلے میں اسلام کے بارے میں چرچا ہونے لگا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے عوامی ایشو نہیں اٹھائے جو عام طور سے پاپولسٹ لیڈر اٹھاتے ہیں اورانھیں تیز رفتار عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آپ نے تو اس چیز کی طرف دعوت دی جس کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہونے اور جس کی دشمنی میں تمام عوام کے اکٹھا ہوجانے کا پورا اندیشہ تھا۔

اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت ایسی تھی کہ جس سے لوگ فوراً مخالف ہوجائیں لیکن آپ کی کوشش یہ تھی کہ لوگ جلد سے جلد اسے قبول کرلیں۔ نتائج کے جلد حصول کے لیے جتنی بھی جائز تدبیریں ہوسکتی تھیں آپ نے سب کو اختیار کرلیا تھا۔

زہریؒ کا بیان ہے: اللہ کے رسول ﷺ کا ان برسوں میں حال یہ تھا کہ آپ ہر سال حج کے موقع پر عرب کے قبائل کےسامنے پیش ہوتے اور ہر معزز فرد سے بات کرتے۔(البدایہ والنہایہ)

زہریؒ کا یہ بیان بھی اہم ہے : اللہ کے رسول ﷺ نے تنہائی میں اور علانیہ طریقے سے اسلام کی طرف بلایا۔ اللہ کی دعوت پرکم سن مردوں اور کم زور انسانوں نے لبیک کہا، یہاں تک کہ آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ (الوفا بتعریف فضائل المصطفى، ابن جوزی)

حضرت طارق بن عبداللہ محاربیؓ بیان کرتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دو بار دیکھا۔ ایک بار مجاز کے بازار میں دیکھا۔ وہاں میں اپنی دکان میں تھا، آپ گزرے، اس وقت آپ سرخ چادر اوڑھے ہوئے تھے اور بلند آواز میں پکار رہے تھے، “ اے لوگو! کہو لا الہ الا اللہ، تم کام یاب ہوجاؤ گے۔”   ایک آدمی (ابولہب) آپ کے پیچھے لگا ہوا تھا، وہ آپ کو پتھر مار رہا تھا، آپ کے ٹخنے اور پنڈلیاں خون سے لہولہان تھے، وہ کہہ رہا تھا: اے لوگو! اس کی بات نہ سنو، یہ بڑاجھوٹا ہے۔ (مستدرک حاکم)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ مکہ میں دس سال تک رہے، وہ عکاظ اور مجنہ کے بازاروں میں اور حج کے موقع پر منی میں لوگوں کی قیام گاہوں پر پہنچتے اور کہتے مجھے کون اپنے یہاں جگہ دے گا، کون میری نصرت کرے گا تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں اور اسے جنت ملے؟ (مسند احمد)

ابن اسحاقؒ کہتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ اپنے فریضے پر کاربند تھے۔ جب بھی لوگ حج کے موقع سے جمع ہوتے، آپ ان کے پاس جاتے، قبیلوں کو اللہ پر ایمان لانے کی اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے، اپنی رسالت کا تعارف کراتے، اللہ کی طرف سے جو ہدایت اور رحمت آپ کے پاس آئی، اسے ان کے سامنے پیش کرتے۔ آپ کا حال یہ تھا کہ جیسے ہی سنتے کہ عرب کا کوئی نام ور اور معززشخص مکہ آیا ہے، اس سے ضرور جاکر ملتے، اسے اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتے اور اپنا پیغام اس کے سامنے رکھتے۔ (سیرت ابن ہشام)

اسی دوران جب آپ مکہ میں تھے، مدینہ میں بھی دعوت کا کام بڑے زور وشور سے جاری تھا اور نتائج بہت تیزی سے ظاہر ہورہے تھے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: ہمارے یہاں سے آدمی نکلتا، آپ پر ایمان لاتا، آپ اسے قرآن پڑھاتے، پھر وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر آتا تو اس کے گھر والے اس کے اسلام کو دیکھ کر اسلام قبول کرتے، یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں کچھ مسلمان نہ ہوں، کھل کر اسلام پر عمل کرے والے۔ پھر سب نے مل کر مشورہ کیا، ہم نے کہا: کب تک اللہ کے رسول ﷺ کو مکہ کے پہاڑوں میں دھکے کھاتے اور خطروں کا سامنا کرتے چھوڑیں گے؟ (مسند احمد)

جب قم کی ندا سنی پھر بیٹھے نہیں

اقامت دین کے نصب العین کے لیےاللہ کے رسول ﷺ کے اندر کس قدر بے تابی تھی، اس کے بارے میں سید قطب کا یہ خوب صورت اقتباس بار بار پڑھنے کے لائق ہے:

“ اللہ کے رسول ﷺ کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب سونا نہیں ہے۔ اب تو ایک بھاری ذمے داری اور طویل جدوجہد ہے۔ اب تو بس جاگنا، مشقت اٹھانا اور محنت کرنا ہے۔ آپ کو یہ بات معلوم ہوگئی تھی اس ندا کے بعد ہی سے جو مسلسل آپ کا پیچھا کررہی تھی اور آپ کو سونے نہیں دے رہی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ سے کہا گیا: قُم (کھڑے ہوجاؤ) تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر بیس سال سے زیادہ عرصے تک کھڑے ہی رہے۔ آرام کیا، نہ رکنے کا نام لیا۔ نہ اپنے لیے تھا آپ کا جینا اور نہ ہی اپنے گھر والوں کے لیے۔ آپ کھڑے ہوئے اور اللہ کی دعوت میں لگے رہے۔ اپنے کندھوں پر بھاری بوجھ اٹھائے رہے اور ناتوانی کو قریب نہ آنے دیا۔ اس زمین میں سب سے بڑی امانت کا بوجھ۔ پوری انسانیت کا بوجھ۔ پورے عقیدے کا بوجھ۔ مختلف میدانوں میں جدوجہد کا بوجھ۔۔۔

اس طرح محمد ﷺ کھڑے ہوئے اور اس طرح وہ بیس سال سے زیادہ عرصے تک ایک نہ رکنے والے مسلسل معرکے میں جیتے رہے۔ اس دوران کسی چیز نے انھیں کسی چیز سے غافل نہ کیا۔ جب سے انھوں نے اس بلند اور عظیم ندا کو سنا اور اس دل دہلادینے والے فرض کو قبول کیا، آپ کی یہی کیفیت رہی۔ اللہ تعالی آپ کو ہم سب کی طرف سے، پوری انسانیت کی طرف سے بہترین صلہ عطا کرے۔(فی ظلال القرآن، سورہ مزمل)

اپنی بے تابی کو نبی کریم ﷺ نے ایک بلیغ تمثیل کی صورت میں اس طرح بیان فرمایا: میری اور تم لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ کا الاؤ روشن کیا تو اس میں کیڑے اور پتنگے گرنے لگے۔ میں تمھیں پیچھے سے پکڑ کر روک رہا ہوں اور تم اس میں گرا چاہتے ہو۔ (صحیح مسلم)

اللہ کے رسول ﷺ نے کسی ایک طریقے پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ دعوت کے جتنے طریقے ممکن تھے سب اختیار کیے، جتنے دروازے موجود تھے سب پر دستک دی۔انفرادی دعوت کی صورت یہ ہوتی کہ آپ ایک فرد کے ساتھ تنہائی میں گفتگو کرتے، اجتماعی دعوت اس طرح ہوتی کہ آپ کسی ایک گروپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کرتے اور عوامی دعوت کے لیے آپ ایک بڑا مجمع اکٹھا کرتے اور اسے مخاطب کرتے۔گویا پیغام رسانی کی کوئی صورت ایسی نہ تھی جو آپ نے اختیار نہ کی ہو اور پورے طور پر اختیار نہ کی ہو۔

نتائج کے جلد حاصل ہونے کی فکر آپ کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی۔جو لوگ آپ کی دعوت قبول نہیں کررہے تھے، ان کی حق دشمنی اور حق بے زاری کو دیکھ کر آپ گھلے جارہے تھے، قرآن مجید میں اس کی بڑی دل آویز عکاسی کی گئی ہے:

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ یؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا [الكهف: 6]

لگتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔

{ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا یكُونُوا مُؤْمِنِینَ } [الشعراء: 3]

لگتا ہے کہ تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

{فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ }  [الأحقاف: 35]

صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے لیے جلدی نہ کرو۔

اللہ کے رسول ﷺ اپنی کوشش و محنت کے اثرات کو کس طرح جلد سے جلد دیکھنا چاہتے تھے، اسے اس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ شام کے وقت سورج ڈوبنے کے بعد قریش کے سرداروں نے طے کیا محمد ﷺ کو بلایا جائے اور ان سے حجت کی جائے، انھوں نے آپ کے پاس آدمی بھیجا۔ اس نے جاکر کہا: محمد! تمھاری قوم کے سردار جمع ہیں اور تم سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں، تم ان کے پاس چلے جاؤ۔ راوی کے الفاظ ہیں: اللہ کے رسول ﷺ تیزی کے ساتھ ان کے پاس گئے، آپ کا خیال تھا کہ شاید ان کی رائے کچھ بدل گئی ہے۔ آپ ان کے خیرخواہ تھے۔ ان کی ہدایت کے طلب گار تھے۔ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی آپ کے دل پر گراں گزرتی تھی۔ (سیرت ابن ہشام)

اللہ کے رسول ﷺ اس طرح ان کی ہر ہر مجلس میں جاکر دعوت دیتے تھے کہ ایک مرتبہ وہ لوگ چچا ابوطالب کے پاس آئے اور کہا: آپ کے بھتیجے نے تو ہمارا اپنی مجلسوں میں اور مسجد میں بیٹھنا مشکل کردیا ہے، وہ ہمارے لیے باعث اذیت ہے، اسے روکیے۔ (التاریخ الکبیر، بخاری)

مکہ میں ایک وقت وہ بھی آیا جب آپ اور آپ کے خاندان اور آپ پر ایمان لانے والوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا جو قریب تین سال تک جاری رہا اور اس دوران ابوطالب کی گھاٹی میں محصور یہ لوگ دانے دانے کو ترس گئے، اس وقت بھی اللہ کے رسول ﷺ کا دعوتی جوش و خروش اپنے عروج پر رہا۔ ابن ہشامؒ لکھتے ہیں: اس سب کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ اپنی قوم کو دن رات اور خفیہ و علانیہ دعوت دیتے رہے، آپ اللہ کے حکم پر عمل پیرا رہتے اور اس معاملے میں کسی انسان سے ذرا نہیں ڈرتے۔ (سیرت ابن ہشام)

مدینے میں بھی آپ کا جذبہ دعوت اسی طرح شباب پر تھا۔ آپ ایک ایک موقع کو قیمتی جانتے تھے۔ درج ذیل واقعے سے آپ کے جذبہ دعوت کی بہترین عکاسی ہوتی ہے:

حضرت ابورفاعہؓ کہتے ہیں: میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس پہنچا، آپ خطبہ دے رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اجنبی آدمی اپنے دین کے بارے میں دریافت کرنے آیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ اس کا دین کیا ہے۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، خطبہ چھوڑ کر میرے پاس آئے، آپ کے لیے کرسی لائی گئی، جس کے پائے لوہے کے لگ رہے تھے، آپ اس پر بیٹھے، مجھے دین کے بارے میں بتایا، پھر واپس جاکر اپنا خطبہ مکمل کیا۔ (صحیح مسلم)

فتح مکہ کے بعد بھی دین کی دعوت پہنچانے کا آپ کا جوش ذرا سرد نہیں پڑا۔ چناں چہ مکہ فتح ہونے کے بعد آپ نے مکہ کے گردوپیش میں دستے بھیجے۔ ان دستوں کا مقصد اللہ کے دین کی دعوت دینا تھا۔ انھیں جنگ کرنے کی ہدایت نہیں تھی۔ (سیرت ابن ہشام)

صحابہ کا جذبہ دعوت

اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت کو جو لوگ قبول کرتے، وہ آپ کے جذبہ دعوت کو بھی اپنے دل میں جذب کرلیتے۔ اسلام قبول کرتے ہی ان کے اندر دعوت کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔ حضرت ابوبکرؓ اس کی نمایاں ترین مثال ہیں۔ ابن ہشام کے الفاظ ہیں: ابوبکر اپنی قوم میں مانوس و محبوب اور دل پسند شخص تھے، قریش کے نسب کے سب سے بڑے جانکار تھے۔ قریش کی خوبیوں اور خامیوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ تاجر آدمی تھے۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے اور ضرورت پڑنے پر ان کے کام آتے۔ ان کے علم، تجارت اور خوش گفتاری کے باعث ان کی قوم کے لوگ مختلف حوالوں سے ان سے ملنے آتے۔اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے حلقہ احباب اور اہل تعلق میں انھیں جتنے لوگوں پر بھروسا تھا انھیں وہ اللہ کی اور اسلام کی دعوت دینے لگے۔(سیرت ابن ہشام)

ایک طرف کفارِ قریش قرآن کی آیتیں نہ سننے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے، دوسری طرف آپ کے صحابہ کے اندر انھیں قرآن سنانے کا بہت زیادہ جوش و خروش تھا۔ ایک مرتبہ صحابہ ساتھ بیٹھے تھے، انھوں نے آپس میں کہا کوئی شخص انھیں قرآن کی آیتیں سنادیتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا میں سناکر آتا ہوں، ساتھیوں نے کہا آپ کا یہاں خاندان نہیں ہے، ہمیں آپ کے سلسلے میں ڈر لگتا ہے، کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے جس کا بڑا خاندان ہو، جو موقع پڑنے پر اس کی حمایت میں کھڑا ہوسکے۔ انھوں نے کہا: مجھے جانے دو اللہ میری حفاظت کرے گا۔ انھوں نے خانہ کعبہ کے پاس جاکر بلند آواز سے سورہ رحمان کی تلاوت شروع کردی، قریش کے لوگ وہیں مجلسیں سجاکر بیٹھے تھے، انھیں قرآن پڑھتے دیکھ کروہ ان پر پل پڑے اور چہرے پر مارنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ان کی مار سے بے نیاز تلاوت کرتے رہے اور جی بھر کر تلاوت کی۔ واپس آئے تو چہرہ بری طرح سوجا ہوا تھا۔ (سیرت ابن ہشام)

حضرت ابوبکرؓ نے قرآن سنانے کا ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا تھا۔ انھوں نے اپنے گھر کے دروازے کے پاس نماز پڑھنے کی جگہ بنالی تھی، اس میں وہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان کے اندر دل سوزی بہت تھی۔ قرآن پڑھتے تو رلائی آجاتی۔ بچے، غلام اور عورتیں وہاں کھڑے ہوجاتے اور بڑے غور سے ان کی کیفیت دیکھتے۔ قریش کے لوگ ڈرتے کہ وہ سب ان سے متاثر ہوجائیں گے، اس لیے انھیں نماز سے روکنے کے جتن کرتے۔ (سیرت ابن ہشام)

مدینہ میں جب اسلام پہنچا تو اس نےوہاں کے لوگوں میں بھی زبردست دعوتی جوش وخروش پیدا کیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے وہاں حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو قرآن پڑھائیں، اسلام کی باتیں بتائیں اور دین کا فہم پیدا کریں۔ ان کی دعوت سے متاثر ہوکر جب قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ نے اسلام قبول کیا تو پہلے اپنے خاندان والوں کے پاس پہنچے اور کہا: تمھارا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا: آپ تو ہمارے سردار ہیں، سب سے زیادہ رشتوں کا خیال کرتے ہیں، سب سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا: ایسا ہے تو سن لو کہ اس وقت تک تم سب مردوں اور عورتوں سے میری گفتگو حرام ہے جب تک تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاؤ گے۔غرض وہ رات گزری نہیں کہ خاندان کے تمام مردو عورت اسلام قبول کرچکے تھے۔
(سیرت ابن ہشام)

فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے، طائف کے قبیلہ بنو ثقیف سے عروہ بن مسعودؓ تشریف لائے، اسلام قبول کیا، پھر اللہ کے رسولﷺ سے اجازت چاہی کہ واپس جاکر اپنے قبیلے کو دین کی دعوت دیں۔ آپ جانتے تھے کہ ان کا قبیلہ اسلام دشمنی میں بہت سخت ہے۔ آپ نے خبردار کیا کہ وہ لوگ تمھیں قتل کردیں گے۔ انھوں نے کہا: وہ میرا اتنا خیال کرتے ہیں کہ اگر مجھے سوتا پائیں تو جگائیں نہیں۔ آپ نے اجازت دے دی، وہ شام کے وقت طائف پہنچے، قبیلے کے لوگوں نے ان کا استقبال کیا، انھوں نے اسلام کی دعوت دی تو وہ سب برہم ہوگئے، ان پر الزامات کی بارش کردی، ان کی بات ماننے سے انکار کردیا اور ایسی ایسی تکلیف دہ باتیں سنائیں کہ وہ سوچ نہیں سکتے تھے۔اسی دن صبح کے وقت جب کہ وہ اذان دیتے ہوئے اللہ کی وحدانیت کی گواہی دے رہے تھے، قبیلے کے کسی شخص نے تیر کا نشانہ بناکرانھیں شہید کرڈالا۔ (سیر اعلام النبلاء)

تیز رفتاری کا جذبہ تیز رفتار وسائل کا تقاضا کرتا ہے

جب دل میں تیز رفتاری کا شوق اور منزل جلد پالینے کی چاہ ہو تو ذہن بھی زرخیز ہوجاتا ہے اور تیز گامی کی بہتیری بہترین تدبیریں سُجھاتا ہے۔ پھر انسان طریقوں اور وسائل و ذرائع سے زیادہ مقصد و منزل سے محبت کرتا ہے۔ اگر کوئی طریقہ یا ذریعہ رفتار بڑھانے میں مددگار نہ ہو تو وہ ایسے طریقے اور ذرائع تلاش کرتا ہے جو اس کے شوق کا ساتھ دے سکیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کھانے کی دعوت پر بار بار بلایا، صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر پکارا، حج کے موسم میں آنے والے وفود سے ملاقاتیں کیں، خانہ کعبہ کے پاس سجی مجلسوں میں شامل گفتگو ہوئے، پھر جب دیکھا کہ مکہ کی زمین سنگلاخ ہے، تو طائف کا سفر کیا۔ ایک بڑی ٹیم کو حبشہ بھیجا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓکو مدینہ بھیجا۔عرب میں دعوت پھیل گئی تو دوسری سلطنتوں کے حکم رانوں کو خطوط بھیجے۔غرض کوئی ایک طریقہ نہیں بے شمار طریقے اختیار کیے۔اسلامی تحریک کو اگر تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ہو تو موجودہ دور کے تمام میسر طریقوں اور ذرائع کو اختیار کرنا ہوگا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے کام کی رفتار کو کئی گنا بڑھانے کے لیے افراد کی تیاری پر خاص توجہ دی۔ اس کے لیے بالکل شروع میں ہی دار ارقم کی درس گاہ قائم کی۔ اس درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے والا ہرشخص اپنے اندر دین کا گہرا فہم، دعوت کا سچا جذبہ اور سمجھانے کی زبردست صلاحیت رکھتا۔ وہ اعلی اخلاق و کردار کا پیکر اور صبر واستقامت کا پہاڑ ہوتا۔

جلد بازی نہیں، تیز رفتاری مطلوب ہے

جلد بازی اور تیز رفتاری کے درمیان بڑا فرق ہے۔ جلدبازی اور تیزرفتاری کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ جلدبازی میں انسان مرحلوں کو نظرانداز کرکے کسی شارٹ کٹ سے منزل تک پہنچنا چاہتا ہے جب کہ تیز رفتاری میں انسان سفر کے تمام مرحلوں سے گزرتاہے مگر برق رفتاری کے ساتھ۔

اقامتِ دین کے سفر میں جلد بازی کے بہت سے نقصانات ہیں، خاص طور سے اگر جلد بازی کے دباؤ میں اخلاقی قدروں پر سمجھوتا کرنے کی بات آجائے اورذہن غلط طریقہ کار سُجھانے لگے یا جلد بازی کے چکر میں ضروری درمیانی مرحلوں کو نظر انداز کردیا جائے۔

تاہم اس راہ میں سست روی اور نتائج کے سلسلے میں بے فکری کے بھی بڑے نقصانات ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ذہنوں میں سست رفتاری اور تیز رفتاری کا فرق مٹ جاتا ہے اور تحریک شدید قسم کے جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔ جب تحریک کی رگ و پے میں جمود پھیل جائے اور حوصلے زنگ آلود ہوجائیں، تو پھر تحریک کے وجود کی کوئی معنویت نہیں رہ جاتی ہے۔

اسلامی تحریک کے افراد کو ایک مغالطے سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب اسلامی تحریک کی رفتار سست معلوم ہوتی ہے اور برسوں گزرجانے کے بعد بھی منزل قریب نظر نہیں آتی، تو بعض جذباتیت پسند لوگ تحریک کے افراد کو طعنے دیتے ہیں کہ انھوں نے لمبا راستہ اختیار کیا تھا اس لیے اب تک وہ کچھ نہیں کرسکے۔وہ مختصر راستے اختیار کرنے کے مشورے دیتے ہیں۔ یہ مشورے گم راہ کن حد تک غلط ہوتے ہیں۔ منزل سے قریب ہونے کاطریقہ یہ نہیں ہے کہ اصل راستہ ہی بدل دیا جائے اور راہ کے ضروری مرحلوں سے کتراکر نکلنے کی کوشش کی جائے۔ منزل سے قریب ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی رفتار تیز کی جائے اور رفتار تیز کرنے کے اچھے سے اچھے ذرائع اختیار کیے جائیں۔

نصب العین کے لیے یکسوئی لازم ہے

رفتار کی تیزی کے لیے نصب العین کی طرف یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ اِدھر اُدھر دیکھنے والے زیادہ تیز نہیں چل سکتے۔ قرآن مجید میں لغو یعنی لایعنی باتوں سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ باتوں میں الجھانے والوں اور کٹھ حجتی کے جال میں پھنسانے والوں سے اعراض کرنے کی بار بار ہدایت کی گئی ہے۔ جن کی منزل وہ نہیں ہے جو آپ کی منزل ہے، جنھیں سفر کا شوق ہی نہیں ہے اور جو راستے کی رکاوٹ بننے کا فیصلہ کرچکے ہیں، انھیں آپ کی تیز رفتاری کبھی راس نہ آئے گی اور وہ آپ کے پاؤں میں زنجیریں ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسلامی تحریک اور اس کے افراد کے لیے اپنی یکسوئی کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے بھی اللہ کے رسول ﷺ کی ذات میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اپنی پوری زندگی آپ جس طرح اپنے نصب العین کی طرف یکسوئی سے بڑھتے رہے، وہ بے مثال ہے۔

اسلام کے دشمن آپ کا راستہ روکنے کے لیےہر طرح کے جتن کرتے رہے، مگر آپ ان کی چالوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ اسلامی تحریک کا باطل تحریکات کے مقابلے میں ایک بڑا امتیازی فرق رفتار کا فرق بھی ہونا چاہیے۔ باطل تحریکات حق کے مقابلے میں کبھی سست روی کا مظاہرہ نہیں کرتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ باطل تحریکات برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں اسلامی تحریکات کو ان سے زیادہ تیز رفتار ہونا چاہیے۔ اگر وہ کچھوے کی چال پر مطمئن رہیں گی تو یہ ان کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہوگا۔ مسلم امت کے بارے میں تو علامہ اقبال اپنے رنج و کرب کا اظہار کر گئے:

قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ

رہ روِ درماندہ کی منزل سے بے زاری بھی دیکھ

سلیم کوثر نے دوسرے انداز سے شکوہ کیا:

وقت رک رک کے جنھیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ

یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے

بہرحال، اسلامی تحریک کو سست رفتاری کے الزام سے پاک رہنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ باطل تحریکات اپنے سفر میں تیزی لانے کے لیے بہت سے غیر اخلاقی طریقے استعمال کرتی ہیں۔ بے بنیاد دعوے اور جھوٹے پروپیگنڈے سے لے کر جبر و تشدد تک ہر باطل وسیلہ ان کے یہاں جائز قرار پاتا ہے۔ اسلامی تحریک اپنے لیے ایسا کوئی طریقہ یا وسیلہ جائز نہیں ٹھہراسکتی ہے۔ اس فرق کے باوجود اسلامی تحریک کے پاس تیز رفتاری کے لیے درکار وہ سامان ہے جس سے باطل تحریکات یک سر محروم ہوتی ہیں۔اسلامی تحریک طاقت ور موقف رکھتی ہے، اپنے موقف کے حق میں روشن دلائل رکھتی ہے، اس کی دعوت انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہوتی ہے، وہ حقیقی اور ابدی کام یابی کی طرف بلاتی ہے، اس کے افراد کے پاس رضائے الہی کا نہایت طاقت ور محرک ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی نصرت کا وعدہ اسے حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے سست رفتاری اور منزل کی دوری پر اطمینان اسے بالکل زیب نہیں دیتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے محض تیئیس سال کی مدت میں یہ ثابت کردکھایا کہ اسلامی تحریک کسی بھی دوسری تحریک سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔یہ تیئیس سال مسلم امت کے لیے معجزے سے زیادہ نمونے کے تیئیس سال ہیں۔ اس پوری مدت میں اللہ کے رسول ﷺ کا ہر عمل اور اقدام اہلِ اسلام کے لیے نقشِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان سے ملنے والی روشنی اور حوصلہ اسلامی تحریک کے لیے قیمتی سرمایہ ہے۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2024

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223