مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تصانیف یوں تو سماج کے ہر طبقہ کے لیے نہایت مفید اور کارآمد ہیں،مگر انہوں نے خواتین کی اصلاح کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سماج کے سلگتے ہوئے مسائل میں سے ایک مسئلہ ’پردہ‘ بھی ہے۔ اس پر مولانا کی کتاب ’پردہ‘ کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ اپنے موضوع پر بے مثل تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے پہلے اٹھارہویں صدی کےاواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں عالم گیر پیمانے پر ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح مغربی تہذیب و تمدن نے اسلامی معاشرہ کو متاثر کرنا شروع کیا ، جس کے باعث اسلامی دنیا آہستہ آہستہ یوروپ کی غلام ہونے لگی۔ جب یوروپی معاشرہ کی بے راہ روی اور آزادانہ جنسی تلذّذ کا سیلاب چاروں طرف پھیلنے لگا تب مسلمانوں کو احساس ہوا کہ اچانک یہ دنیا کیسے بدل گئی۔ انہیں اس وقت دنیا کے ہر محاذ پر شکستوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ لیکن صدیوں کی آرام طلبی اور سہولت پسندی نے ان میں حالات بدلنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہونے دیا اور روشن خیالی کے نام پر وہ مغرب سے درآمد ہر چیز کی نقل کرنے لگے۔ اسی میں بے پردگی بھی شامل ہو گئی تھی۔
مولانا سید مودودی نے بے پردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’بے پردگی و بے حجابی کو لوگوں نے جائز ٹھہرانے کے لئے فریب سے کام لیا۔ اور اسے عین قرآن و حدیث کے مطابق ثابت کرنے کی سعیٔ ناکام کی ہے۔ جبکہ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ حسبِ ضرورت ہاتھ اور منھ کھول سکتے ہیں‘‘۔ (پردہ، ص ۳۵)
اس کتاب میں مولانا مودودی نے سماج میں پھیلے نظریات کا مشاہدہ کر کے بتایا ہے کہ بے پردگی کے فروغ میں مذہبی پیشواؤں و ٹھیکے داروں کی انانیت ذمہ دار تھی، کیوں کہ جب عوام نے ان کے تسلط سے نکلنا چاہا تو انہوں نے سماجی آزادی کا نعرہ لگایا۔ انہوںنے جہاںتاناشاہوں کی غلامی سے نجات حاصل کی وہیں اقتدار ملتے ہی وہ تمام مظالم اپنے زیردستوں پر ڈھانے لگے۔ اس سے اخلاقی و تمدنی ڈھانچے منہدم ہو گئے۔ بیسویں صدی آتے آتے آزادی کے لَے اتنی بڑھ گئی کہ فحاشی کا عام رواج ہونے لگا ،چنانچہ آزادی کا پرفریب جادو مصنفوں کی تحریروں میں بھی نظر آنے لگااور ایسا ادب تخلیق ہوا جس میں عورتوں کی آزادی کے نام پر فحاشی و بدکاری قابلِ فخر سمجھی گئی ۔ بلکہ اس آزادی نے ایک اور خوب صورت لفظ جمہوریت کو اختیار کر لیا۔ حالاں کہ یہ صرف ایک دھوکہ تھا۔ جمہوریت کے نام پر مرد و عورت کا امتیاز جاتا رہا اور عورت گھر کی چہار دیواری سے نکل کر محفلوں اور بازاروں کی زینت بن گئی اور خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ طلاق کے نام پر نت نئے مظالم سر اٹھانے لگے۔ اب یہ سب باتیں بالکل حقیقی طور پر ہمارے سامنے آ چکی ہیں جن کی نشان دہی مولانا نے اپنی تصنیف ’پردہ ‘میں کی ہے۔
مولانا مودودی نے ایک مثالی تمدن کی تشکیل کے لیے عورت ومرد کے روابط کو متوازن شکل میں ہونا ضروری قرار دیاہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے عورت کی آزادی کے نام پر دونوں کے میدانِ کار کا کوئی خیال نہیںرکھا۔ کیوں کہ دونوں کے نظامِ جسمانی، حرکات وسکنات، غرض ہر چیز میں نمایاں فرق ہے۔ اس لیے دونوں اپنے اپنے میدانوں میں ایک دوسرے سے مختلف اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے اسلام کا نظامِ معاشرت ہی سب سے بہتر نظام ہے، جس میں متوازن پردہ بے شمار سماجی واخلاقی اور جسمانی خرابیوں بلکہ بیماریوں کا حقیقی علاج اور حل ہے ۔انہوں نے قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے:
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ (الذاریات:۴۹)
’’ اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے‘‘
اور فرمایا کہ زوجیت کے لفظ سے ’ایک شئی میں فعل اور دوسری میں قبول و انفعال‘ ظاہر ہوتا ہے۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ (الاعراف:۲۶)
’’ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ، کہ نہ صرف تمہارے لئے ستر پوشی کا ذریعہہے،بلکہ موجبِ زینت بھی ہے ، تمہارے دلوں میں حقیقی تقویٰ بھی ضروری ہے۔‘‘
حجاب کے سلسلہ میں مولانا مودودی نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ اسلامی نظامِ معاشرت میں ماں بیٹا، باپ بیٹی، بھائی بہن، پھوپھی بھتیجہ بھتیجی، چچا، ماموں، خالہ خالو، بھانجہ بھانجی، سوتیلا اور رضاعی رشتہ داروں کی درجہ بندی کی گئی ہے اور ان رشتہ داروں کے تعلقات کی حرمت قائم کر کےایسا بند باندھ دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جانب صنفی کشش کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔
صنفی انتشار سے بچنے کے لئے اسلام نے نکاح کو لازم کیا ہے ۔ مولانااس لیے قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں:
اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ (۰ ۵)
’’اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں کہ تم اپنے اموال کے بدلہ میں (مہر دے کر) ان سے نکاح کا باضابطہ تعلق قائم کرو ،نہ کہ آزاد شہوت رانی۔‘‘
مولانا نے نکاح کی فضیلت بیان کرنے کے ساتھ ہی مرد و عورت کے حفظِ مراتب پر بھی زور دیا ہے اور جس طرح مرد کی قوامیت کے بارے میں وضاحت کی ہےاسی طرح عورت کے دائرۂ عمل پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے کہ عورت گھر کی ملکہ ہے اور کسب معاش کا ذمہ دار اس کا شوہر ہے۔ بعض امور میں اسے فرائض سے سبک دوش بھی کیا ہے،جیسے کہ نمازِ جمعہ واجب نہیں، جہاد فرض نہیں، نماز جنازہ میں شرکت ضروری نہیں البتہ مجاہدین کی مدد کر سکتی ہے۔ مسجد میں آداب کے ساتھ جا سکتی ہے۔ محرم کے ساتھ سفر کرسکتی ہے۔
مولانا مودودی نے آگے یہ بھی صراحت کر دی ہے کہ مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد سے شادی نہیں کرسکتی جب کہ مسلمان مرد یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔
ممکن ہے، معتر ضین اس صورت حال پرکہیں کہ اسلام نے تفریق سے کام لیا ہے مگر تاریخ عالم اس کی گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کا وجود باعث شرم اور گناہ کا سبب سمجھا جاتا تھا بیٹی کی پیدائش کوسخت ننگ و عار اور ذلت کا موجب قرار دیا گیا تھا۔سسرالی رشتہ دار ذلیل اور کم تر سمجھے جاتے تھے ،جس کی وجہ سے لڑکیوںکو قتل کر دیا جاتا تھا ۔اکثرپیشوا یان مذاہب نے عورت کوانسان تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ہندوستان میں تعلیم عورت کے لئے ممنوع تھی بدھشٹ عقیدہ کے مطابق عورت کو کسی طرح نروان نہیں مل سکتا تھا ۔یہودی وعیسائی کی نگاہ میں عورت گناہ کی بنیاد مانی گئی تھی ۔یونانی کہتے تھے کہ عورت کو علم اورتہذ یب وتمدن‘ حقوق شہر یت دینا ممنوع ہے ،بلکہ جو عورتیں ان چیزوں کا مطالبہ کرتیں وہ رنڈی کہلاتی تھیں۔
ان حالات میں پہلی مرتبہ اسلام نے مرد وعورت دونوں کے اذہان کو بدلااور پہلی مرتبہ عورت کی عزت وحرمت کا تصور دنیا کے سا منے پیش کیا گیا۔تعلیم نسواں وحقوق نسواں کے جتنے نعرے آج بلند بانگ طریقے سے لگائے جا رہے ہیں وہ سب اسی اسلامی اور معتدل متناسب نظریہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔اسلام ہی نے عورت ومرد کے مقام ومرتبے میں مساوات کا احساس اجا گر کیا۔مولانا مودودی نے قرآن کی یہ آیت پیش کی ہے:
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ (آل عمران:۱۹۵)
’’ان کے رب نے ان کی دعا کے جواب میں فرمایا کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کی جنس سے ہو ۔‘‘
مولانا نے اپنے موقف کے اثبات میں قرآن مجید کی آیات کے علاوہ کثیر تعداد میں احادیث بھی نقل کی ہیں ۔اوراسلام کو عورت کا دنیا میں سب سے بڑا ہمدرد اور حما یتی ثابت کیا ہے ۔ انہوں نے بتا یا ہے کہ عورت کے مقام ومرتبے کو سمجھنے کے لیے اسلامی نظام معاشرت کو صحیح رخ پر لانا ضروری ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اسلامی نظام کی تشکیل کے لیے اصلاحِ باطن اور تعزیری قوانین کا نفاذ کیا جانا چاہئے ۔چوں کہ اسلامی نظام معاشرت میںشرم وحیا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو منکر کی طرف ما ئل ہونے سے روک دے۔
اسی طرح قانونی طور پر’ زنا‘جسما نی اتصال کو کہتے ہیں، مگر اخلا قی لحاظ سے ازدواجی تعلقات کے بغیر صنف مقابل سے ہر میلان وارادہ کو’ زنا‘کے زمرے میں رکھا گیا ہے ظاہر ہے قانون کا عمل ادھورا ہے ،بلکہ فیل ہو گیا ہے۔جس میں نفس کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ (النور:۳۰۔۳۱)
’’اے نبی مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگا ہوں کو (غیر عورتوں کی دید سے) پاک رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘
غضِّ بصر کے بارے میں مولانا کی تحریر وںمیں قرآنی آیات کے بہت سے حوالے ملتے ہیں، جن میں مردوں اور عورتوں دونوں کو خصوصیت کے ساتھ غضّ بصر کاحکم دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد صرف نظریں نیچی کرنا نہیں، بلکہ ہر اس چیز سے پرہیز کرنا ہے جس کے جنسی جذبات کو ہیجان ملے۔ مزید لکھتے ہیں کہ اچانک نظر پڑ جائے تو معاف ہے، لیکن دوبارہ نظر دوڑانا منع ہے۔ البتہ اجنبی عورت مریضہ ہو یا قاضی کے سامنے عورت گواہ ہو یاآتش زدہ ہو، یا پانی میں ڈوب رہی ہو تو اسے ہاتھ لگایا جا سکتا ہے، مگر نیت پاک رکھنا ضروری ہے۔یہی نہیں بلکہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ نکاح کے لئے رسول اللہﷺ نے عورت کو پہلے سے دیکھ لینے کا حکم دیا ہے۔
مغیرہ بن شعبہؓ نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا رسول ا للہﷺ نے حکم دیا کہ پہلے عورت کودیکھ لو ۔(ترمذی)
پردہ کے سلسلے میں جو حکم مردوں کے لئے ہے وہی عورتوں کے لئے بھی ہے۔ مولانا مودودی نے خواتین کے جذبٔہ نمائش ،حسن آواز، خوشبو اور عر یانیت پر اظہار خیال کیا ہے کہ یہ وہ زینت وآرائش ہے جو شوہر کے علاوہ دوسروں کے لیےجائز نہیں ہے۔
اسی طرح فتنۂ زبان سے متعلق کہا کہ عورتوں کی مردوں سے گفتگو میں گھلاوٹ وحلاوت نہیں ہو نی چاہئے۔خوشبو بھی جنس مخالف کو متا ثر کرتی ہے اس کے علاوہ مولانا نے ستر کے بارے میں لکھاہے کہ’’ مہذب کہلا نے والے اپنے جسم کا کوئی بھی حصہ کھولنے میں حرج نہیں سمجھتے‘‘۔
اسلام جسم کے وہ حصے چھپانے کا حکم دیتا ہے جن کے ظاہر کرنے سے دوسرے کے صنفی جذبات بھڑک سکتے ہیں۔
مولانا مودودی نے عورت کے اظہار زینت کے جذبہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ستر کے ذیل میں چہرہ وہاتھ کے سوا پورے جسم کو ستر بتایا ہے۔ جن مردوں کے سامنے پردہ کرنا نہیں ہے ان میں باپ، چچا، بیٹے اور بھائی شامل ہیں ہی، خود عورت پر بھی عورت کا ستر کھلنا مکروہ ہے۔وہ زینت کا اظہار معصوم بچوں کے سامنے کر سکتی ہے جن میں صنفی جذبات پیدا نہ ہوئے ہوں ۔
مکمل’’ چہرہ چھپانے ‘‘کے احکام کو مولا نا نے سو رہ احزاب کی ذات سے اخذکیا ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۰(الاحزاب:۵۹)
’’اے نبی: اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادر وں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں ۔‘‘
اس آیت میں لفظ’ جلابیب‘سے مراد چادر ہے، جس کے کنارے کو لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مولانا تشریح میں فر ما تے ہیںکہ اس لٹکانے سے مراد چہرہ چھپانا ہے۔
مولا نا مودودی نے چہرہ کو نقاب سے چھپا نے کے جواز پر بھی مدلل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ مخالفین حجاب نے اسے وحشیانہ وظالمانہ فعل بتایا ہے، لیکن درحقیقت یہ فعل تو ظہور اسلام سے پہلے سے ہی رائج تھا اور اسے اسلام کے خلاف محض منافقت کی وجہ سے برا کہا جا رہا ہے۔جبکہ پردہ ایک عقلی قا نون ہے۔اس سلسلے میں مولانا نے قرآن واحادیث کے علاوہ عقلی دلائل سے بھی پردہ کو صحیح قرار دیا ہے ۔
رسول اللہﷺ سے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا تھا کہ’’ یا رسول اللہﷺ اپنے گھر کی عورتوں کو پردہ کرائیے۔ روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت سودہ ؓ سے حضرت عمرؓ نے رات میں باہر نکلنے پر کہہ دیا تھا کہ ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے تو اس موقع پر احکام حجاب نازل ہوئے ۔البتہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورتوں کو اپنی ضرورت سے باہر نکلنے کی اجازت ہے‘‘(بخاری)
مولانا مودودی نے ایک اور مسئلہ خواتین کے مساجد میں آنے کی اجازت کابھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عورت کا گوشۂ تنہائی یا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے، مگر اسے مسجد میں جانے سے بھی نہیں روکا گیا ہے ۔مگر یہ کہ ساتھ ہی یہ شرط بھی لگائی گئی ہے عورتیں مردوں سے خلط ملط نہ ہوں۔ اسی طرح خواتین کو دورانِ حج وطواف میں بھی مردوں سے خلط ملط ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح مشروط طور پر نمازِ عیدین وجمعہ میں عورتوں کو شرکت کی اجازت ہے۔
خلاصہ یہ کہ مولانا مودودی کی یہ کتاب صرف پردہ کے موضوع پر تفصیلی معلومات ہی نہیں فراہم کرتی بلکہ اسلام کے نظام معاشرت اوراس میں عورتوں کے مقام ومرتبہ کے بارے میںبھی مبسوط معلومات پیش کرتی ہے اور آیاتِ قرآنی اور احادیث نبو ی سے اسے مدلّل بھی کرتی ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک کواس کا مطالعہ ضرو ر کرنا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2016