علم، دینِ اسلام کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام کو علم اور حُکم سے نوازا گیا۔ آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو معلم بناکر مبعوث کیا گیا۔ اُس آخری نبیﷺنے علم کے حصول کو امت کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا۔ علم کی معراج، ‘حکمت’ کو مومن کی متاعِ مطلوبہ قرار دے کر اس کے حصول کی تلقین فرمائی۔ عہد رسالت میں تصورِعلم میں وحدت پائی جاتی تھی۔ علم کی اگر تقسیم تھی تو صرف ایک تھی۔ علم نافع اور علم ضار۔ لیکن بعد کے ادوار میں علم کی یہ وحدت منقسم ہوگئی۔ خلافت راشدہ کے زمانے تک علم اور قیادت کے تصور میں وحدت پائی جاتی تھی۔ خلیفۂ وقت ہر پہلو سے پوری قوم کا امام ہوتا۔ نماز کا بھی امام اور پوری مملکت کا بھی امام۔ لیکن جب اسلامی تاریخ میں ملوکیت کا آغاز ہوا اور خلافت کے اصول متاثر ہوئے تو علم اور قیادت کے دونوں تصورات میں زوال کا آغاز ہوا۔ قیادت دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ سیاسی قیادت حکم رانوں نے سنبھال لی اور مذہبی قیادت علمائے کرام کے حوالے ہوئی۔ علما نے خود کو فقہی رہ نمائی کی حد تک محدود کرلیا۔ سیاسی قائدین دینی رہ نمائی سے بے نیاز ہوتے چلے گئے۔ اس طرح دین و دنیا کی تفریق پیدا ہوگئی۔ علوم میں دینی اور عصری علوم کی تقسیم رائج ہوئی۔ یقینا اس منظرنامے میں وہ استثنائی صورت حال بھی اسلامی تاریخ میں محفوظ ہے جب مسلمانوں نے علم کے جامع تصور کو اپنا کر سائنس و دیگر شعبہ ہائے علوم میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیے اور مسلمانوں کا نام روشن کیا۔ لیکن بہر حال امت میں علم کے دو دھارے عام ہوئے۔ بر صغیر میں ایک طرف جہاں دینی علوم کے علم بردار مدارس کا قیام عمل میں آیا وہیں دوسری جانب عصری علوم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے یونیورسٹیاں بھی قائم ہوئیں۔ ماضی قریب میں اسلامائزیشن آف نالج کی تحریک بھی چلی۔ دینی و عصری علوم کے امتزاج کے چند نمونے بھی نظر آئے۔ لیکن امت کا سواد اعظم اب بھی علم کو دو دھاروں ہی کی حیثیت سے جانتا اور پہچانتا ہے۔ اس تناظر میں یہ بات قابل غور ہے کہ شریعت کی نگاہ میں اہلِ علم کسے کہا جائے گا اور کون حقیقت میں انبیا علیہم السلام کے وارث ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ کیا درس نظامی سے گزرے بغیرعلوم اسلامیہ حاصل کرنے والے اس زمرے میں شامل ہیں یا نہیں؟ کیا موجودہ دور کے فارغین مدارس انبیائی جانشینی کا حق ادا کرنے کے موقف میں ہیں؟ اس مضمون میں اس طرح کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
علم کی قرآنی وسعتیں
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے علم کا اظہار ہے۔ اللہ علیم وخبیر ہے۔ علم کا منبع و سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ نزول قرآن کی پہلی وحی علم، تعلیم و تعلم سے متعلق نازل ہوئی جس میں پڑھنے، قلم کے ذریعے علم حاصل کرنے اور انسان کو اُس علم کے دیے جانے کا ذکر ہے جس سے وہ ناواقف رہا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے سماعت، بصارت اور فہم و فراست کی صلاحیتوں سے نوازا تاکہ وہ کائنات میں غور و فکر کرسکے۔ سورۂ آل عمران کی آیات ۱۹۰، ۱۹۱ میں اولو الالباب (اہل علم) کی پہچان یہ بیان کی گئی کہ ان کے لیے آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، اختلافِ لیل و نہار میں بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ لوگ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں غور و فکر کرتے ہوئے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ بے کار نہیں پیدا کیا ہے۔ تیری ذات بہت بلند ہے۔ ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ سورۂ فاطر کی آیات ۲۷،۲۸ میں بارش کے ذریعے رنگ برنگ کے پھلوں کی پیداوار اور پہاڑوں، انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں رنگوں کے تنوع کا ذکر کرنے کے بعد کہا گیا کہ اللہ کے بندوں میں اس سے ڈرنے والے صرف علما ہی ہوتے ہیں (إِنَّمَا یَخۡشَى ٱللَّهَ مِنۡ عِبَادِهِ ٱلۡعُلَمَـٰۤؤُا۟)۔ ظاہر ہے یہاں علما کا ذکر جس سیاق میں ہوا ہے وہ حیاتیات، نباتات، جمادات اور حیوانات کے علوم سے متعلق ہے۔ جو علم حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا وہ علم اسما تھا جسے علم اشیا بھی کہا جاتا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۲، جسے آیتِ دَین بھی کہا جاتا ہے، جو قرآن کی سب سے طویل آیت ہے، حساب و کتاب اور لین دین سے بحث کرتی ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس پورے معاملہ کی تعلیم کو من جانب اللہ قرار دیا ہے (وَیُعَلِّمُکُمُ اللہُ)۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت شاہی کے واقعہ میں عالمِ کتاب نے وہ تخت دور دراز علاقے سے پلک جھکنے سے پہلے حاضر کردیا۔ اب یہ صاحب علم کون تھے اور وہ کون سی کتاب تھی جس کا انھیں علم تھا، علم کی وستعوں کو سمجھنے کے لیے یہ نکات زاویہ نگاہ فراہم کرتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی صلاحیتوں اور علم و حکمت سے متاثر ہوکر جب بادشاہ مصر نے قحط سے نمٹنے کے لیے مکین اور امین کی پیش کش کی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے پیش کش کو قبول کرتے ہوئے ‘‘حفیظ و علیم’’ ہونے کا یقین دلایا۔ ظاہر ہے یہاں علم سے مراد ملک کو درپیش قحط سے نبرد آزما ہونے اور نظمِ مملکت کے امور کا علم ہے۔ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ کئی سائنسی حقائق کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ ارضیات، فلکیات، حیاتیات، جنین، نباتات، جمادات، حیوانات، وغیرہ کئی امور کی طرف قرآن میں واضح اشارے موجود ہیں۔ قرآن نے تدبر، تفکر اور تعقل سے کام لینے کی تلقین مکرر کی ہے۔ ان تصریحات کی روشنی میں یہ بات عرض کی جاسکتی ہے کہ علم قرآن کی ایک ہمہ گیر اصطلاح ہے جس کی وسعتیں لا محدود ہیں۔ اہل علم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ان وسعتوں کا فہم حاصل کریں۔ علم تادمِ حیات حاصل کرنے کی چیز ہے۔ اہل علم حضرات کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ استادِ کُل کی مسندِ اعلیٰ پر متمکن ہونے کی خوش فہمی سے باہر آکر تعلّم کے مزاج کے ساتھ دیگر اصحاب علم سے استفادہ کا مزاج بھی پیدا کریں۔
تفقہ فی الدین
علما اور ان کے رول پر گفتگو کرتے ہوئے سورۂ توبہ کی آیت ۱۲۲ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ آیت ہے جس میں مدارس کے قیام کا پس منظر اور تعلیم، تعلم اور تخصص کی ضرورت و اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس آیت کا مرکزی حصہ لیتفقہوا فی الدین ہے۔ اس فقرہ میں لفظ ‘‘دین’’ بڑا اہم ہے جس کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لفظ دین کا صحیح فہم نہ ہونے کی صورت میں ہی دینی علوم اور عصری علوم کی تفریق کا تصور ملت میں عام ہوا ہے۔ ملت میں دین کو عبادات اور معاشرت کی حد تک محدود سمجھاجاتا ہے۔ حالاں کہ دین پوری زندگی پر محیط ہے۔ دین کی ایک جامع تعبیر جماعت اسلامی ہند کے دستور میں اس طرح درج ہے:
‘‘یہ دین انسان کے ظاہر و باطن اور اس کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔عقائد، عبادات اور اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جو اس کے دائرے سے خارج ہو۔’’ (دفعہ ۴)
اگر یہ تعبیر درست ہے اور یقینا درست ہے تو علمِ دین سے مراد ایسا علم ہونا چاہیے جو زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرنے والا ہو۔ اور عالم دین سے مراد وہ فرد ہو جس کو دین کا من حیث المجموع علم و ادراک حاصل ہو۔ اور حصول علم کا یہ عمل زندگی بھر جاری رہنا ضروری ہے تاکہ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا کی پوری عکاسی ہوسکے۔
علم، عمل اور قیادت
علم کا مقصود یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ قیامت کے روز بندوں سے پانچ امور میں جواب طلبی سے متعلق وارد حدیث میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو علم حاصل کیا گیا اس پر کہاں تک عمل کیاگیا۔ کہا جاتا ہے کہ‘‘علم، عمل کو دعوت دیتا ہے، جواب نہیں پاتا تو رخصت ہوجاتا ہے۔’’علم اور عمل کے امتزاج سے امامت و قیادت کا وجود ہوتا ہے۔ علم کا حق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ درس و تدریس کے ذریعے علم کی اشاعت کی جائے یا نماز کی امامت اور جمعہ کی خطابت کے ذریعے وعظ و نصیحت کردی جائے بلکہ علم کا تقاضا اصلاً قوم کی قیادت ہے۔ علمی رہ نمائی اور عملی قیادت میں بہت بڑا فرق ہے۔ علمی رہ نمائی الگ شیء ہے اور قوم کی قیادت الگ چیز ہے۔ اسی کی جانب علامہ اقبالؔ نے اشارہ کیا:
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام
یقینا یہ تبصرہ تلخ ضرور ہے لیکن بے جا نہیں ہے۔ ملت کی موجودہ صورت حال اس کے زوال کی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسے اب اپنی اصلاح کے ساتھ عروج کی جانب پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کا واحد ذریعہ اللہ کی کتاب سے حقیقی تعلق اور قرآن کے دیے ہوئے مشن کے لیے جدوجہد ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ آج کے عرف میں جن کو ‘‘علما ’’کہا جاتا ہے وہ دورِ جدید کے تقاضوں سے واقف ہوں اور خود کو اس نہج پر بلند کریں کہ وہ ملک و ملت کی قیادت کرسکیں۔ دوسری جانب جو دانشوران عصری اداروں سے فارغ ہو کر معاشرہ میں کلیدی رول ادا کررہے ہیں وہ دین کی بنیادوں سے بھی واقف ہوں۔ وہ قرآن و حدیث اور فقہ کا بنیادی علم بھی حاصل کریں، تاکہ ان کی خدمات صحیح رخ پر رہیں۔ علما و دانشوروں کا امتزاج اور ان کی مشترکہ قیادت آج ملک و ملت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
علما انبیا کے وارثین ہیں
آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد قیامت تک کے لیے انسانیت کی قیادت اور حضرات انبیا علیہم السلام کی جانشینی اہل علم کے حوالے ہے۔ علم اور عمل کے امتزاج کی بہترین مثالیں انبیائے کرام کی زندگیاں رہی ہیں۔ علمائے کرام کو اپنا رول متعین کرنے کے لیے انبیائے کرام کی سیرت و کردار کو نمونہ بنانا ناگزیر ہے۔ علما کا مشن وہی ہونا چاہیے جو انبیائے کرام کا مشن رہا ہے۔ علما کو وہی کردار اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کا نمونہ انبیائے کرام نے چھوڑا ہے۔ آج اہل علم طبقہ کو اس ابنیائی مشن کا شعور حاصل کرنا ضروری ہے جس پر انبیائے کرام مامور تھے اور جس کی ذمے داری پوری امت پر ڈالی گئی ہے۔
انبیائی مشن اور انبیائی کردار
انبیائی مشن کے حوالے سے قرآن کے تین مقامات قابلِ غور ہیں۔ ایک سورۃ الشوریٰ کی آیت :۱۳، جس میں اقامت دین کا ذکر ہے۔ دوسری سورۃ الحدید کی آیت :۲۵، جس میں قیامِ عدل و قسط کو نبیوں کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے اور سورۃ الاعراف کی متفرق آیات جن میں انبیا کی دعوت کی جہات بیان کی گئی ہیں اور ان کا ہم عصر مسائل سے تعرض کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان تینوں پہلوؤں کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیا علیہم السلام اسلام کی اشاعت و اقامت کے لیے مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ معاشرے میں عدل و قسط کے نظام کا قیام ان کے مشن کا اہم حصہ رہا ہے اور اپنے اپنے زمانے کے مسائل کا فہم اور ان کے حل کے لیے اقدامی کوشش ان کی دعوت کا حصہ رہی ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کی حیثیت سے تعارف کرایا۔ (خلافت یہی ہے کہ اللہ کی مرضی کے مطابق دنیا کو چلایا جائے۔) حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مشترکہ مشن اقامت دین ٹھہرایا گیا (اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ)۔ اقامت دین کا مطلب پورے دین کی ایسی مخلصانہ انفرادی و اجتماعی پیروی ہے جس میں فرد کا ارتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کے سارے مراحل اللہ کے دین کی روشنی میں انجام دیے جائیں۔ اس دین کی اقامت کا مثالی اور بہترین نمونہ وہ ہے جسے حضرت محمدﷺ اور حضرات خلفائے راشدین نے قائم فرمایا۔ اسی اقامت دین کو سورۂ حدید میں قیامِ عدل و قسط کے حوالے سے یاد کیا گیا کہ تمام انبیا دنیا میں لوگوں کے لیے نظامِ عدل و رحمت کے قیام کے لیے تشریف لاتے رہے۔ یعنی انبیا صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کے لیے انصاف کا نظام بھی قائم فرماتے تھے۔ سورۃ الاعراف میں مذکور انبیا کی دعوت کا مشترکہ حصہ یہ تھا کہ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰهٍ غَیْرُہُ (اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی الہ تمہارے لیے نہیں ہے۔) اس سورہ میں حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے دعوتی کردار کو بیان کرنے کے ساتھ ان کے اپنے زمانے کے اہم مسائل جیسے کرپشن، ناپ تول میں کمی، ہم جنس پرستی، وغیرہ کی جانب ان کی توجہ بھی بیان کی گئی ہے۔
انبیائی تاریخ کا اہم پہلو یہ ہے کہ غلبۂ دین کی جدوجہد کا ایک ناگزیر مرحلہ وقت کی طاقتوں سے نبرد آزما ہونا بھی ہے۔ حق و باطل کی کشمکش کے نتیجے میں حق کے غلبہ کی راہیں ہم وار ہوئی ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو ابلیس کا سامنا ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو نافرمانوں کے استہزا و تمسخر سے سابقہ پیش آیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود اور قوم کے ساتھ دعوتی مکالمات کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے مشرک قوم میں توحید کی دعوت کے مواقع کا بھرپور استعمال کیا اور اپنی صالحیت و صلاحیت سے مصر کے ایوانوں تک کو مسخر کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے ساتھ کشمکش کی داستان قرآن مجید میں مکرر بیان ہوئی ہے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات مبارکہ غلبۂ اسلام کے مشن کے لیے غیر معمولی جدوجہد سے عبارت ہے جس میں آپﷺ کو قریش کی چودھراہٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ غزوات کے سلسلے سے گزرنا پڑا۔ بالآخر فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے ذریعے غلبۂ اسلام کا منظر سامنے آیا۔
انبیائے کرام اپنے مشن کے شایان شان کردار کے بھی حامل تھے۔ جس مشن کی دعوت ان کے ذمہ تھی اس مشن کا وہ عملی نمونہ تھے۔ ان کے قول و عمل میں مطابقت و یکسانیت پائی جاتی تھی۔ مخالفین کی رکاوٹوں کا حلم و بردباری سے مقابلہ کرتے۔ ان کا اللہ سے تعلق مثالی تھا، بندوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے۔ انبیائے کرام نے اللہ کی راہ میں مجاہدے کا حق ادا کیا۔ امت کے اہل علم کو وارثینِ انبیا ہونے کی حیثیت سے اپنا رول متعین کرنے میں انبیائے کرام کے علم و عمل کے اس تابناک پہلو کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
علما کا مشن کیا ہونا چاہیے؟
تفقہ فی الدین کے مبارک مرحلے سے فارغ ہونے کے بعد اہل علم کی ذمہ داری کیا ہے، سورۃ التوبہ کی آیت ۱۲۲واضح کرتی ہے، جس میں قوم کے درمیان انذار کی بات کہی گئی ہے۔ اس آیت میں لفظِ ‘‘قوم ’’قابلِ غور ہے۔ قوم سے مراد اپنی ملت نہیں بلکہ اپنے دائرۂ اثر میں شامل پوری آبادی ہے۔ سورۃ الاعراف میں نبیوں کی دعوت کا جہاں ذکر کیا گیا ہے وہاں نبی کو اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ظاہر ہے وہاں قوم سے مراد پوری آبادی ہے۔ اسی سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ کو ’کَافَّةً لِّلنَّاسِ‘، اور ’قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا‘ وغیرہ کے الفاظ سے پوری انسانی آبادی کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ اس اسوے پر عمل کرتے ہوئے علمائے کرام کو بھی پوری آبادی میں کام کرنا ہے۔ سورۃ ابراہیم کی آیت :۴ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے اس کی قوم کی زبان ہی میں بھیجے، تاکہ ان تک اللہ کے دین کی دعوت پہنچانے کا حق ادا ہوسکے۔ اس اصول کے تحت آج اہل علم طبقے کو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آبادی کے جس دائرے میں انبیا کی جانشینی کا حق ادا کرنا ہے اس آبادی کی زبان سے وہ کتنا واقف ہوسکے ہیں۔ ہندوستان کے تناظر میں ریاستوں کی زبانیں الگ الگ ہیں۔ اپنی اپنی آبادی کے حوالے سے زبانوں کو سیکھنا اور ان کے درمیان دعوتی کام کرنا بھی اہل علم کی ذمہ داری ہے۔
اجتماعیت سے وابستگی یا انفرادی قیادت؟
اس پوری گفتگو میں ایک اہم پہلو جو تشنہ رہ گیا ہے، وہ یہ ہے کہ انبیائی مشن پر عمل کا طریقہ کیا ہوگا جس کا مکلف پوری امت مسلمہ کو بنایا گیا ہے۔ اسلام اپنے غلبے کے لیے اجتماعی جدوجہد چاہتا ہے۔ ہر نبی کے ساتھ جو حواری تھے وہ اس جماعت کا حصہ تھے۔ حضورﷺ کی قیادت میں صحابہ کرامؓ کی جماعت الجماعت تھی جس نے اظہارِ دینِ حق کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کا حق ادا کیا۔ دور نبوت کے بعد امت نے خود اپنے میں سے خلفا منتخب کیے۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی الجماعت ایک وحدت تھی۔ بعد کے ادوار میں قیادت کی تقسیم کے نتیجے میں اجتماعیت کا ماحول بھی منتشر ہوگیا۔ دین کے مختلف پہلوؤں پر زور دیتے ہوئے مختلف دینی جماعتیں وجود میں آتی گئیں۔ آج یہ سوال خود اجنبی بن گیا ہے کہ کیا امت پر اجتماعی زندگی گزارنا ضروری بھی ہے یا نہیں؟ کیا ہر مسلمان پر اجتماعیت سے وابستگی لازمی ہے یا اختیاری ہے؟ اگر اجتماعیت سے وابستگی ضروری ہے تو کیا اہل علم اس سے مستثنیٰ ہیں؟ کیا ان کے ذریعے علمی رہ نمائی کا فریضہ انجام پاجانا کافی نہیں ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ دین کے مشن کا شعور اور اللہ کے رسولﷺ کے واضح ارشادات اور صحابہ کا تعامل یہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک اجتماعی نظام ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اگر تین لوگ کسی سفر پر ہوں تب بھی نبی کریم نے اپنے میں سے ایک کو امیر بنانے کی تاکید کی ہے۔ امام کے پیچھے نمازِ باجماعت ایک اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ مسلمانوں کی پوری زندگی اجتماعی نظم کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسی لیے یہ وعید بھی سنائی گئی کہ اگر کوئی شخص امیر کی اطاعت سے آزاد زندگی گزار تا ہے (جب کہ الجماعت موجود ہو) تو اس آزاد زندگی کی حالت میں اگر اس کی موت واقع ہوجائے تو اسے جاہلیت کی موت قرار دیا گیا، اگرچہ وہ نماز، روزہ و دیگر عبادات کا اہتمام بھی جاری رکھے ہوئے ہو۔ سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ جب الجماعت کا وجود نہ ہو تو کیا کیاجائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امت کو پھر سے اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا آغاز کردینا چاہیے۔ اسے قرآن سے اپنی وابستگی کو دوبارہ بحال کرنا چاہیے اور اس کے مشن کے لیے ایک امت ہو کر کام کرنے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے اور الجماعت کے قیام کے لیے کوشش بھی کرنی چاہیے۔ کم از کم کسی ایسی جماعت سے وابستہ ہوجانا چاہیے جس کا مقصد پورے دین کی سربلندی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہو، دعوت الی اللہ ہو، شہادت حق ہو، اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ ہو۔ یہی تووہ فریضہ ہے جس کا تقاضا پوری امت سے کیا گیا ہے۔ جہاں تک قیادت کا تعلق ہے انبیا علیہم السلام کی قیادت اللہ کی جانب سے متعین کردہ ہوتی ہے جب کہ خلافت میں ملت خود اپنے میں سے بہترین افراد کا انتخاب کرتی ہے۔ خود کو قائد سمجھ لینا اور قیادت کو علما کا منطقی حق سمجھنا اسلامی مزاج نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ ملت کی مشاورت کے ذمہ ہے۔ اہل علم حضرات کو اپنے اندر مامورین میں شامل رہ کر کام کرنے کا مزاج پروان چڑھانا بھی ضروری ہے۔ علمائے کرام کے ذمہ یہ بہت بڑا کام سپرد کیا گیا ہے کہ وہ خود اس مشن کے لیے پہلے تیار ہوں اور پوری امت کو اس مقصد کے لیے تیار کریں اور پوری آبادی کے اندر خود انھیں کی زبان میں اللہ کے دین کی دعوت و اقامت کی جدوجہد کے لیے یکسو ہوجائیں۔ امیر یا مامور ہر دو صورت میں اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد میں خود کو مصروف رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اہل علم طبقے کو اپنا علمی سفر جاری رکھتے ہوئے دین کے مشن کے لیے عملی جدوجہد کرنے کی توفیق و صلاحیت سے نوازے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ مئی 2021