دنیا میں ہزار وں سماجی مصلحین ،فلاسفہ و حکماء ،مدبرین و سیاست داں ،مقنّنین ومنتظمینِ سلطنت ،ا نسا نو ں کا بھلا چاہنے والے اور ان کی فلاح و بہبود کے کام کرنے والے آئے ،لیکن انسانی سماج پر جتنے ہمہ گیر اثرات خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی ذاتِ گرامی کے مرتب ہوئے ، اتنی اثر آفرینی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی ۔ آپ ؐکی شخصیت کے سحر ،کردار کی عظمت اور اخلاق کی پاکیزگی کی گواہی اپنوں اور پرایوں سب نے دی ہے اور آپؐ کی تعلیمات و افکار کی بازگشت دنیا کے ہر خطے میں سنائی دیتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺکی شخصیت اور پیغام کے بارے میں ہر زمانے میں اور دنیا کے ہر خطے میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ مختصر اور متوسط بھی اور ضخیم مجلّدات کی شکل میں بھی ۔سنجیدہ علمی و تحقیقی انداز میں بھی اور ناول کے طرز پر بھی ۔ بڑوں کے لیے بھی اور بچوں اور نو عمروں کے لیے بھی ۔ یہی نہیں ،بلکہ آپ کی شخصیت کے ایک ایک پہلو اور ایک ایک گوشے پر سینکڑوں کتابیں موجود ہیں ۔تصنیف و تالیف کا کام برابر جاری ہے ، پھر بھی طبیعتیں سیر نہیں ہوتیں اور قلم کو تکان کا احساس نہیں ہوتا ۔آں حضرت ﷺ کے بارے میں انسانوں کے دو طرح کے رویے ہمارے سامنے آتے ہیں :بہت سے لوگوں نے آپؐ کو مطعون کیا ہے ، آپ ؐپر بے بنیاد الزام لگائے ہیں ،آپؐ کے اخلاق و کردار میں کیڑے نکالنے کی جسارتِ بے جا کی ہے اور انسانی سماج پر آپؐ کی تعلیمات کے منفی اثرات دکھانے کی سعیِ نا مشکور میں حصہ لیا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے یہ نتائجِ افکار ان کی مریضانہ ذہنیت کے عکّاس ہیں اور حقیقت میں یہ ان کا خبث ِباطن ہے ، جو صفحۂ قرطاس پر بکھر جاتا ہے ۔دوسرا رویہّ ان انصاف پسند دانش وروں کا ہے ،جنہوں نے آپؐ کی شخصیت کا پوری سنجید گی و متانت ،ادب و احترام اور معروضیت کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ۔چناں چہ وہ آپؐ کے گرویدہ ہو گئے،آپؐ کے کردار کی عظمت کا گہرا نقش ان کے دل پر قائم ہوا ، انہوں نے اپنی تحریروںمیں عقیدت و محبت کے موتی بکھیرے اور آپؐ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ۔
یہ دونوں انسانی رویّے ہمیں یورپ میں بھی نظر آتے ہیں اور ہندوستان میں بھی ۔یورپ میں صلیبی جنگوں میں عسکری سطح پر مسلمانوں کے ہاتھوں پے درپے شکست کھانے کے بعد اہلِ کلیسا نے علمی محاذ پر تیاری کی اور مستشرقین کی ایک فوج تیار کی ،جس نے اسلام اور پیغمبرِ اسلام کو مطعون کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اسلام کو ایک خوں خوار مذہب کی حیثیت سے پیش کیا اور پیغمبرِ اسلام کی شخصیت و کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن وہاں ایسے اصحابِ قلم بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے جنہوں نے اپنے مطالعہ و تحقیق کو انحراف کا شکار نہیں ہونے دیا اور پوری غیر جانب داری کے ساتھ اسلام کے محاسن بیان کیے اور پیغمبرِ اسلام کی عظمت کا بر ملااعتراف کیا ۔ہندوستان میں مسلمانوں نے صدیوں تک حکومت کی ہے ۔ لیکن جب یہاں ان کا ستارہ گردش میں آیا اور وہ سلطنت و اقتدار سے محروم ہو گئے تو عیسائی مشنریاں اور ہندو احیاء پرست تحریکیں دونوں ان کے خلاف سرگرم ہو گئیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کے مذہب ،تہذیب ، معاشرت اور اقدارپر تابڑ توڑ حملے کیے اور پیغمبرِاسلام کی ذاتِ گرامی پر بھی کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ۔ لیکن ان کے درمیان ایسے غیر متعصب مصنفین بھی پائے گئے ہیں جنہوں نے نامانوسِ قلم کی پاس داری کی ہے ۔ انہوں نے عقیدت میں ڈوب کر آں حضرت ﷺ کی سوانح عمری لکھی ہے، آپ ؐکے اخلاق و کردار کے تابندہ نقوش کو سپردِ قلم کیا ہے اور آپ ؐکی تعلیمات کو دل کی گہرائیوں سے سراہا ہے ۔
سیرت کے لٹریچر میں ایسی بہت سی تحریریں کتابوں،کتابچوں اور مضامین کی شکل میں موجود ہیں، جن میں آں حضرت ﷺ کے بارے میں یورپ اور ہندوستان کے غیر مسلم دانش وروں کے احساسات و تأثرات جمع کیے گئے ہیں ۔ پاکستان کے مشہور ادبی مجلہ ’نقوش‘ کے شہرہ آفاق خصوصی شمارہ ’رسول نمبر‘ میں (جو تیرہ(۱۳) ضخیم جلدوں میں شائع ہوا ہے ) اس موضوع پر کئی مبسوط مضامین ہیں ۔ ایک مضمون پروفیسر عبد الصمد صارم کا ’ قرآن،اسلام اور رسول اللہ ﷺغیر مسلموں کی نظر میں ‘ کے عنوان سے ہے(۱۳۴؍صفحات) ۔ اس میں ایک سو ستائیس(۱۲۷) مغربی اور ہندوستانی دانش وروں کے افکار و احساسات پیش کیے ہیں ۔ دوسرا مضمون خواجہ ظفر نظامی نو شہروی کا ہے ،جس کا عنوان’ سرور کا ئنا ت غیر مسلم مفکرین کی نظر میں‘ ہے (۲۱؍صفحات) ۔ اس میں ایک سو ایک(۱۰۱) اقتباسات جمع کیے گئے ہیں ۔ مولوی علی شبیر صاحب نے اپنے مضمون میں آں حضرت ﷺ کی نسبت سے بعض عیسائیوں کی آراء پیش کی ہیں(۱۰؍ صفحات) ۔ اس خصوصی شمارہ میں اس موضوع پر بعض دیگر مضامین بھی ہیں ۔ اس موضوع پر مولانا ابو محمد امام الدین رام نگری نے بھی ہندی زبان میں ایک کتاب تصنیف کی ہے ، جس میں بہت سے مفکرین اور دانش وروں کے خیالات جمع کیے ہیں۔ان مضامین اور کتابچوں میں پیش کردہ اقتبا سا ت محض چند نمونے ہیں ۔ورنہ ظاہر ہے کہ غیر مسلم دانش وروں نے آپؐ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے دنیا کی مختلف زبانوں میں جو کتابیں تصنیف کی ہیں ،اگر ان سے صرف ایک ایک اقتباس ہی جمع کیا جائے ،تو دفتر کے دفتر اس کے لیے ناکافی ہوں گے ۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ماضی قریب کے چند ہندو دانش وروں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا ،جنہوں نے پیغمبر اسلام ﷺپر مستقل تصنیفات لکھی ہیں ،یا اسلام پر اظہار خیال کرتے ہوئے آپؐ کی سیرت طیبہ پر بھی روشنی دالی ہے ۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں پوری سنجیدگی ، شائستگی ،متانت ،ادب و احترام اور معروضیت کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اس طرح انہوں نے اپنی بے تعصبی اور ذہنی کھلے پن کا ثبوت پیش کیا ہے۔
۱۔ پروفیسر راما کرشنا راؤ مراٹھی آرٹس کالج برائے خواتین میسور کے شعبۂ فلسفہ میں استاد اور صدرِ شعبہ رہے ہیں ۔ انہوں نے Mohammad: The Prophet of Islam کے نام سے ایک کتابچہ تصنیف کیا ہے ،جس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ مصنف نے اپنے کتابچے میں جہاں ایک طرف غیر متعصب مغربی مصنفین اور مستشرقین کے حوالے دیے ہیں ،مثلاً ایڈ ورڈ گبن، پروفیسر ہر گرو نج ، جرمن شاعر گوئٹے ،جارج برناڈ شا،سر چارلس اڈورڈ،آرکیبا لڈ ہملٹن، پروفیسر مسیگن، چارلس بوسورتھ ،رابرٹ بریفالٹ اور تھامس کار لائل وغیرہ، دوسری طرف معتدل ہندو دانش ور وں سے بھی استشہاد کیا ہے، مثلاًسروجنی نائڈو،مہاتما گاندھی ،بسنت کمار بوس اور دیوان چند شرما وغیرہ ۔راما راؤ نےاللہ کے رسول ﷺ سے متعلق متعددالزامات کی تردید کی ہے، مثلاً یہ الزام کہ محمد ﷺ نے اسلام کو شمشیر کے ذریعہ پھیلا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے الزامات کی حیثیت ادبی اعجوبہ کاری سے زیادہ کچھ نہیں ۔ انہوں نے آپؐ کی تعلیمات میں جمہوریت اور مساوات کو خوب سراہا ہے ۔ ان کے مطابق ان تعلیمات کے نتیجے میں بین الاقوامی اتحاد اور بھائی چارہ کے اصولوںکو آفاقی بنیادیں فراہم ہوئیں،عورت کو میراث میں حق دار قرار دیا گیا۔ بارہ صدیوں کے بعد انگلینڈ نے، جوجمہوریت کا مرکز کہلاتا ہے ،عورت کے حقِ میراث کو ۱۸۸۱ء میں قانونی شکل دی ،جب کہ سینکڑوں سال قبل پیغمبرِ اسلام نے عورتوں کو مردوں سے نصف حقِ میراث دلوایا تھا۔ (ص۱۱)
وہ مزید کہتے ہیں:
’’ محمد ﷺ اپنے معاصرین کی نگاہ میں کھرے اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے ۔ چناں چہ یہودی بھی آپؐ کی صداقت کے قائل تھے ۔ آپ کے کردار میں آپ کے معاصرین کو دھوکہ دہی ، فریب کاری ،یا دنیا وی مفاد پرستی کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی ۔ ‘‘ (ص ۱۸۔۱۹)
۲۔ ڈاکٹر این ،کے ،سنگھ،انٹر نیشنل سنٹر فار رلیجیس اسٹڈیز دہلی کے ڈائرکٹر ہیں ،جہاں سے ’گلوبل وژن‘ نامی سہ ماہی جرنل نکلتا ہے ۔ انہوں نے اسلامیات کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے ۔ Prophet Mohammad and His Companions کے نام سے انہوں نے سیرت نبوی اور سیرت صحابہ ؓ پر ایک جامع کتاب تصنیف کی ہے ۔ اس کتاب میں سیرت نبوی پر (۲۱؍صفحات میں) درج ذیل عناوین کے تحت گفتگو کی گئی ہے :
عہدِ جاہلیت کی مذہبی و سماجی صورت حال،پیغمبر کی ولادت اور بچپن ،حلف الفضول میں شرکت ، مذہبی بیداری کا آغاز، نزولِ وحی، مقصدِ بعثت ،سماجی بائیکاٹ ،واقعۂ معراج ،ہجرتِ مدینہ ،امت کی تشکیل ، تعصب ، غیر رواداری اور لادینیت کے خلاف محاذ آرائی ، مصالحت کی کوششیں ،آخری حج ، وفات ، امت کے لیے رہ نما خطوط ۔
فاضل مصنف نے سیرت کے مختلف پہلوؤں پر بڑے متوازن انداز میں گفتگو کی ہے ۔ کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’محمد[ﷺ] پیغمبر کا نام ایک جدید عہد کی تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے ۔ مذہبی حلقوں کے درمیان اس غیر معمولی شخص کا کردار بالکل صاف و شفاف ہے ۔ محمد [ﷺ]بہ حیثیت انسان مر چکے ہیں، لیکن بہ حیثیت پیغمبر انہوں نے اپنے پیچھے قرآن و سنت کی شکل میں اثاثہ چھوڑا ہے ۔ جو تعلیمات انہوں نے ہمارے واسطے چھوڑی ہیں اگر ان پر صدق دل کے ساتھ عمل کیا جائے تو اس دنیا میں ایک خوش گوار زندگی حاصل ہو سکتی ہے ۔ اسلام اس دنیا کا ایک عملی مذہب ہے جو انسانیت کے دنیاوی مسائل سے دل چسپی لیتا ہے اور حل پیش کرتا ہے ۔ ‘‘ (ص مقدمہ(v,vi
اللہ کے رسول ﷺ نے تمام اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا تھا ۔ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
’’محمد[ﷺ] کا مذہب عوامی اور اجتماعی تھا ۔ یہ کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہ تھا ۔ چناں چہ اپنی اسی آفا قیت کے نتیجے میں تمام ایمان لانے والے ایک دوسرے کے عالمی طور پر بھائی تصور کیے گئے اور ان کے درمیان زبان، نسل یا طبقہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا اور برائی و بزرگی کی بنیاد خوفِ خدا اور تقوی قرار پائی ‘‘۔ (ص۱۰)
عام طور پر تأثر دیا جاتا ہے کہ عہدِ نبوی میں ہونے والی جنگوں میں زبردست کشت و خوں ہوا اور بے شمار انسانی جانیں ضائع ہوئیں ۔ جناب این، کے ،سنگھ پر زور الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’دس سالہ زندگی کی ان تمام جنگوں میں صرف ڈھائی سو( ۲۵۰) غیر مسلموں کا قتل ہوا، جب کہ مسلمان اس سے بھی کم کام آئے ۔ ان چند موتوں کے طفیل پورے خطۂ عرب سے، جو لاکھوں مربع میل پر محیط ہے ،انارکی اور بد کرداریوں کا خاتمہ ہو گیا ۔ دس سال کی ان حقیر کوششوں کے نتیجے میں پورا جزیرۂ عرب اور عراق و فلسطین کے جنوبی حصے نے بہ خو شی اسلام قبول کر لیا ‘‘۔ (ص۱۷)
صحیح یہ ہے کہ عہد نبوی کی جنگوں میں ۲۵۹؍ مسلمان اور ۷۵۹؍ کفار مارے گئے تھے، ۸۳؍ جنگیں لڑی گئی تھیں(رحمۃ للعلمین:قاضی محمد سلیمان منصور پوری )
’عدل و انصاف ‘اسلام کی پیش کردہ ایک عظیم قدر ہے ۔ اس کی تحسین کرتے ہوئے این،کے،سنگھ صاحب رسول اللہﷺ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’انہوں نے تعصب سے خالی عدل کا تصورپیش کیا ،جس کے نتیجہ میں ریاست کا حکم راں بھی عام شہری کی مانند تصور کیا جانے لگا ۔ اس ریاست میں مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ مسلم حکومتوں کی غیر مسلم رعایا کو قانون سازی اور تہذیبی امور میں مکمل آزادی حاصل تھی ‘‘ ۔ (ص ۲۱)
۳۔ ہندوستان کے ادباء میں منشی پریم چند ( ۱۸۸۵۔ ۱۹۳۶) ایک مشہور نام ہے ۔ انہیں اردو، ہندی دونوں زبانوں پر عبور تھا ۔ انہیں افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے ۔ گئودان،بازارِ حسن، کرم بھومی ان کی نمایاں ادبی تخلیقات ہیں ۔ہفت روزہ پرتاپ ،دسمبر ۱۹۲۵ء میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا ۔اس کی تلخیص ’اسلامی تہذیب‘کے نام سے مدھر سندیش سنگم سے شائع ہوئی ہے ۔ اس میں انہوں نے تہذیب کے تین نمونوں (عدل و انصاف۔مساوات۔اخوت)سے بحث کی ہے اور ان میں اسلام کی امتیازی شان کو نمایاں کیا ہے ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے ذریعہ اپنی بات کو مدلّل کیا ہے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’عرفات کے پہاڑ پر حضرت محمد ﷺ کی زبان سے جس حیات بخش پیغام کی بارش ہوئی تھی وہ ہمیشہ اسلامی زندگی کے لیے آب حیات کا کام کرتی رہے گی ۔ اس پیغام کا جوہر کیا تھا ؟ عدل و انصاف۔اس کے ایک ایک لفظ سے صدائے عدل و انصاف گونج رہی ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ اے مومنو ! میری باتیں سنو اور اسے سمجھو۔تمہیں معلوم ہو کہ سب ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تمہاری ایک ہی برادری ہے ۔ ایک بھائی کی چیز دوسرے بھائی پر کبھی حلال نہیں ہو سکتی ،جب تک کہ وہ خوشی کے ساتھ نہ دے دی جائے ۔ ناانصافی مت کرو ،اس سے ہمیشہ بچتے رہو۔‘‘اس پیغامِ جاوداں میں اسلام کی روح پوشیدہ ہے۔ اسلام کی بنیاد عدل پر مبنی ہے ۔ و ہاں بادشاہ اور فقیر،امیر اور غریب کے لیے فقط ایک انصاف ہے ۔کسی کے ساتھ رعایت نہیں ،کسی کی طرف داری نہیں (ص ۶۔۷)۔ محمد ﷺ کے سوا دنیا میں کون ایسا مذہبی پیشوا ہوا ہے جس نے خدا کے سوا کسی انسان کے سامنے سر جھکانا گناہ ٹھہرایا ہو ؟(ص۹) حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے‘‘ ۔ ان کا یہ قول سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے:’’خدا کی تمام مخلوق اس کا کنبہ ہے اور وہی شخص خدا کا برگزیدہ ہے جو بندگان خدا کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔‘‘ (ص۱۱۔۱۲) ہم تو یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ اسلام میں عوام الناس کے لیے جتنی قوتِ کشش ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے ۔ جب نماز پڑھتے وقت ایک مہتر خود کو شہر کے بڑے سے بڑے رئیس کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا پاتا ہے تو کیا اس کے دل میں احساسِ فخر کی ترنگیں نہ اٹھنے لگتی ہوں گی ؟اس کے بر عکس ہندو سماج نے جن لوگوں کو پست بنا دیا ہے ان کو کنویں کی منڈیرپر بھی نہیں چڑھنے دیتے ۔انہیں مندروں میں داخل نہیں ہونے دیتے۔یہ اپنے سے ملانے کی نہیں ، اپنے سے الگ کرنے کی علامتیں ہیں ۔‘‘ (ص،۱۴)
۴۔ جناب راجیندر نارائن لال(ولادت ۱۹۱۶ء) کا تعلق بھرت پور (راجستھان) سے ہے، البتہ ان کی تعلیم و تربیت وارانسی (یو۔پی) میں ہوئی ۔کیونس کالج سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد کاشی ہندو یونیورسٹی بنارس سے ۱۹۴۰ء میں قدیم ہندوستانی تاریخ اور سنسکرت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ انہیں شروع ہی سے مذہب سے لگاؤ تھا ۔ امن و شانتی کی تلاش میں انہوں نے ہندو مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کیا ۔ انہوں نے ہندی میں’اسلام۔ ایک سویم سدھ ایشوریہ جیون ویوستھا‘ (اسلام۔ ایک خدائی نظام حیات )کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس میں انہوں نے ابتدا میں بدھ ازم ،عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔پھر اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا نہایت مدلل انداز میں ازالہ کیا ہے ۔ اسلام کا تعارف کراتے ہوئے ابتدا میں پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔
فتح مکہ کے موقع پر آں حضرت ﷺ کی جانب سے عفوِ عام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جناب راجندر لال نے لکھا ہے :
’’اسلام لانے کے بعد جو کایا پلٹ ہوئی وہ گویا اس کی تاریخی حیاتِ نو ہے ۔سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ محمد ﷺ کی قیادت میں فتحِ مکہ کے وقت ایک شخص کی بھی جان نہیں گئی (سوائے دو تین نہایت سر کش لوگوں کے ) اور پیغمبر اور ان کے پیروؤ ں نے اپنے اپنے دشمنوں کے مظالم کا بدلہ و انتقام لیے بغیر انہیں چھوڑ دیا ۔ تاریخ میں جنگ کے بعد فاتحین کے ذریعہ مفتوحین کو اس طرح اجتماعی طور پر معافی دینے کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ اس کے برعکس دیگر دھارمک پرانوں کے قصوں میں اوتار وں اور دیوتاؤں کے ذریعہ سے مخالفین کے خوف ناک قتل عام کا تذکرہ مذکور ہے۔‘‘ (ص۳۱۔۳۲)
آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ مصنف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’آپ ﷺ نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ گزاری ۔آپ کسی امتیاز کے بغیر سبھی مذاہب اور طبقات کے لوگوں کے خیر خواہ تھے ۔ آپ ؐاس قدر سخی تھے کہ قرض لے کر بھی دوسروں کی ضرورتیں پوری کر دیتے تھے ۔ آپ ؐکے اندر کسی طرح کی بھی اخلاقی برائی نہیں پائی جاتی تھی ۔ آپؐ سراپا صداقت ،امانت ، پاکیزگی و طہارت ،رحم وکرم اور امن و سلامتی کے پیام براور سخاوت و رحمت کا مظہرتھے ۔ صرف دوسروں کی بھلائی اور خیرخواہی کے لیے زندہ رہے ۔ آپ ؐکی نیکی کی کوئی حدنہ تھی ،محنت و مشقت کی عظمت کے لیے دوسروں میں مساوات ،بھائی چارہ اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے، آپ ؐ نے جنگ اور امن کسی بھی حالت میں ایسا کام نہ کیا جس کی وجہ سے لوگ آپ ؐ کو دوسروں سے ممتاز سمجھیں ۔ آپ جنگ اور امن میں حیرت انگیز طور پر رحم دل اور درگزر کرنے والے تھے ۔‘‘(ص ۳۲)
اللہ کے رسول ﷺ نے اشاعتِ اسلام کے لیے کتنی جدو جہد کی اور اس راہ میں کتنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا ،اس کا تذکرہ کرتے ہوئے جناب راجندر لال فرماتے ہیں :
’’بے سہارا اور یتیم کی حیثیت میں پلے ،زندگی بھر دنیاوی تعلیم سے محروم ،لیکن علم الٰہی کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ،محمد ؐمظالم سہتے ہوئے خود ظالموں کے لیے بھی دعا مانگتے رہے ۔ وہ انتہائی مجبوری کی حالت میں حکم ِخدا وند ی کے تحت دفاعی جنگ کرتے ہیں اور مکمل فتح یابی حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے پیروؤں کے اوپر شدید مظالم ڈھانے والوں کو اجتماعی طور پر معاف کر دیتے ہیں ۔ آپ نے اپنی زندگی ہی میں راکشس کہلانے کے لائق عربوں کو نیک و صالح بنا دیا ۔ آپ ؐکے بعد ایک صدی کے اندر دنیا کے وسیع و عریض خطہ پر اسلام کی عظمت کا سکہّ جم گیا اور آج بھی سب سے زیادہ مقبول اور عالم گیر مذہب اسلا م ہی ہے ۔ اس سے حضرت محمد ﷺ اور اسلام کی عظمت از خود ثابت ہے ۔ آپ ؐمظالم کو سہتے ہوئے صبر و تحمل کے ساتھ توفیقِ الٰہی کے ذریعہ سعی کرتے رہے اور عظیم کش مکش و تصادم کے درمیان کام یا ب ہوئے ۔ آپ ؐکا مشن تھا دین ِحق کے طور پر ’اسلام‘۔اگر سائنس کے اصول ’جہد للبقاء‘ (Struggle for Existance)اور ’بقائے اصلح‘ (Survival of the Fittest) صحیح ہیں اور یہ اصول حقیقت میں سائنٹفک اصول ہیں توان اصولوں پر شخصی لحاظ سے اور رسول ِخدا کی حیثیت سے حضرت محمدؐ کھرے اترتے ہیں اور دین کی حیثیت سے اسلام ہی ہے جو ان اصولوں پر کھرا ثابت ہوتا ہے ۔ ‘‘ ( ص۳۳۔ ۳۴)
۵۔ سوامی لکشمی شنکراچاریہ کی ولادت(۱۹۵۳) کان پور کے ایک برہمن خاندان میں ہوئی ۔ سوامی جی نے کان پور اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی ، مگر کچھ عرصہ کے بعد مادیت کو چھوڑ کر روحانیت کی طرف مائل ہو گئے ۔ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپگنڈے سے متأثر ہو کر انہوں نے’ اسلامک آتنک واد کا اتہاس‘ نامی کتاب لکھی ،جس کا انگریزی ترجمہ The History of Islamic Tolerence کے نام سے شائع ہوا ۔ بعد میں سوامی جی کچھ مسلمانوں کے رابطے میں آئے، جنہوں نے انہیں بتایا کہ اسلام کی حقیقت جاننے کے لیے قرآن کا مطالعہ بہ راہ راست یا کسی ترجمہ کی مدد سے کرنا چاہیے ۔ اس سے پہلے اس ذاتِ گرامی کا مطالعہ بھی ضروری ہے جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔ سوامی جی نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ۔ ہندی زبان میںقرآن مجید کا ترجمہ اور ایک کتابِ سیرت حاصل کی ۔ ان کا مطالعہ کرتے ہی سوامی جی کی کایا پلٹ گئی اور اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے تمام اعتراضات کافور ہو گئے ۔ انہوں نے ضروری سمجھا کہ اپنے سابقہ خیالات کی تردید کے لیے ایک نئی کتاب تیار کریں ۔ ان کی یہ نئی کتاب ہندی میں ’اسلام ۔آتنک واد یا آدرش‘اور اردو میں ’اسلام ۔دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘ کے نام سے شائع ہوئی ۔ سوامی جی نے اپنی مؤخر الذکر کتاب کے پیش لفظ میں اپنی فکری روداد سفر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’میں اللہ سے ،پیغمبر حضرت محمد ﷺ سے اور سبھی مسلمان بھائیوں سے علی الاعلان معافی مانگتا ہوں اور لاعلمی میں لکھے ہوئے یا بولے ہوئے الفاظ کو واپس لیتا ہوں ۔ عوام سے میری اپیل ہے کہ’ اسلامی دہشت گردی کی تاریخ ‘نامی میری کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اسے صفر سمجھیں ‘‘ ۔(ص ۱۱)
سو(۱۰۰) صفحات کی اس کتاب میں شنکر آچاریہ نے بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا ہے ۔انھوں نے اسلام پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزام کی سختی سے تردید کی ہے ، عدل و انصاف، مساوات اور قرآن کی دیگر اخلاقی و روحانی تعلیمات کو سراہا ہے ، سناتن وید ک دھرم اور اسلام میں بہت سی مماثلتیں بیان کی ہیں ۔ کتاب کی دو بحثیں قابل قدر ہیں : ایک تو یہ کہ اسلام کے بارے میں نفرت پھیلانے والوں نے قرآن کی چوبیس(۲۴) آیتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان کے بارے میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ یہ آیتیں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے ، ان میں دہشت و غارت گری پھیلانے کا حکم دیتی ہے ۔ اس پمفلٹ کو پڑھ کر سوامی جی بھی پہلے غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے، لیکن غلط فہمی دور ہو جانے کے بعد انھوں نے اس کتاب میں ان تمام آیتوں کو نقل کر کے بتایا ہے کہ ان کا ایک پس منظر ہے جو ان کے زمانۂ نزول کے ساتھ خاص تھا ۔ ان آیتوں میں بعد کے زمانوں میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا عمومی حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ دوسری قابلِ قدر بحث اللہ کے رسول ﷺ کی مختصر سوانح حیات ہے ،جو تیرہ(۱۳) صفحات پر مشتمل ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ سوامی جی کے کئی اقتباسات یہاں نقل کیے جائیں، لیکن طوالت سے بچتے ہوئے یہاں صرف ایک دو اقتباسات پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ فتحِ مکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سوامی جی لکھتے ہیں :
’’حق کو قائم کرنے کے لیے اور باطل ،ظلم و تشدد کے خاتمہ کے لیے جہاد (یعنی حفاظتِ دین اور اپنی مدافعت کے لیے جنگ) میں اللہ کے رسول ﷺ فتح یاب ہوتے رہے ۔ مکہ اور گرد و نواح کے کافر و مشرک منہ کی کھاتے رہے ۔ اس کے بعد پیغمبر محمد ﷺ دس ہزار مسلمانوں کی فوج کے ساتھ مکہ میں باطل و دہشت گردی کی جڑ کو نیست و نابود کرنے کے لیے چلے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی کام رانیوں اور مسلمانوں کی عظیم قوت کو دیکھ کر مکہ کے کافروں نے ہتھیارڈال دیے ۔بغیر کسی خون خرابے کے مکہ فتح کر لیا گیا ۔ اس طرح حق اور امن کی فتح اور ان کے مقابلہ میں باطل و دہشت گردی کی شکست ہوئی ۔مکہ میں ، اسی مکہ میں جہاں کل ظلم کا بول بالا اور ذلت و خواری تھی ، آج پیغمبر اور مسلمانوں کا استقبال ہو رہا تھا ۔ فراخ دلی ، فیاضی اورر رحم دلی کی مجسم تصویر بنے رسول ﷺ نے ان سبھی لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے آپ پر اور مسلمانوں پر بے دردی سے ظلم ڈھائے اور انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا ۔ آج وہی مکہ والے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے خوشی سے کہہ رہے تھے: لا الہ الاا للہ محمدرسول اللہ ۔خاص طور پر یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ قریش، جنہوں نے محمد ﷺ اور مسلمانوں پر خوف ناک مظالم ڈھائے تھے ،فتح مکہ کے دن تھر تھر کانپ رہے تھے کہ آج کیا ہوگا ؟ لیکن محمد ﷺ نے انہیں معاف کرکے گلے لگا لیا ۔‘‘ ( ص ۲۴۔۲۵)
غزوات ِنبوی کے بارے میں سوامی جی کاتبصرہ ملاحظہ ہو :
’’حضرت محمد ﷺ کی سیرت ِپاک کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے پایا کہ پیغمبر محمد نے توحید کی سچائی کو قائم کرنے کے لیے انتہائی مصائب جھیلے ۔ مکہ کے کافر دین حق کی راہ میں روڑے ڈالنے کے لیے آپؐ کو اور اور آپ کی پیش کردہ سچائی کی راہ پر چلنے والے مسلمانوں کو مسلسل تیرہ(۱۳) سالوں تک ہر طرح سے ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور ذلیل کرتے رہے ۔ اس ظلم عظیم کے بعد بھی محمد ﷺ نے صبر کا دامن تھامے رکھا ،یہاں تک کہ ان کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا ۔ لیکن مکہ کے مشرک قریش نے محمدﷺ کا اور مسلمانوں کا پیچھا یہاں بھی نہیں چھوڑا ۔ جب پانی سر سے اوپر ہو گیا تو اپنی اور مسلمانوں کی اور سب سے بڑھ کر حق کی حفاظت کے لیے مجبور ہو کر محمد ﷺ کو لڑنا پڑا ۔ اس طرح محمد ﷺ پر اور مسلمانوں پر لڑائی تھوپی گئی ۔انہی حالات میں حق کی حفاظت کےلیے جہاد(یعنی دفاعِ نفس اور دین کی حفاظت کے لیے مقدس جنگ)کی آیتیں اور باطل پر ست ظالم کافروں و مشرکوں کو سزا دینے والی آیتیں اللہ کی طرف سے آپؐ پر آسمان سے نازل ہوئیں ۔ پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ سے لڑی گئی جنگیں پیش قدمی کے طور پر نہ ہو کر ظالمانہ حملوں اور دہشت گردی سے بچائوکے لیے دفاعی جنگیں ہیں ، کیوں کہ ظالموں کے ساتھ ایسا سلوک کیے بغیر امن کا قیام نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘(ص۲۵)
سوامی لکشمی اچاریہ کی اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی ایسے ہندو مصنف کی کتاب پڑھ رہے ہیں جو کبھی خود اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف زہر افشانی اور ہر زہ رسائی کرتا تھااور دہشت گردی کا رشتہ اسلام اور مسلمانوں سے جوڑتا تھا ۔سوامی جی اپنی کتاب میں سیرت ِطیبہ کی بحث کے آخر میں لکھتے ہیں :
’’پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی سیرتِ پاک سے ثابت ہو تا ہے کہ اسلام کا مقصدِ اصلی دنیا میں سچائی اور امن کا قیام اور دہشت گردی کی مخالفت ہے ۔ لہٰذا اسلام کو تشدد اور دہشت گردی سے جوڑنا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ اگر کوئی (تشددکا )واقعہ ہوتا ہے تو اس کو اسلام سے یا پوری مسلم امت سے جوڑا نہیں جا سکتا ــــ‘‘ ۔(ص۲۶)
حرفِ آخر
پیغمبرِ اسلام خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ہندوستانی غیر مسلم دانش وروں کے ان تأثرات و احساسات سے واضح ہے کہ انہوں نے مذہبی تعصبات سے بالا تر ہو کر اسلام کی تعلیمات اور پیغمبرِ اسلام کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیا ہے ۔ چناں چہ انہوں نے اسلام کے محاسن کو آشکارا کرنے اور سیرت نبوی کے درخشاں پہلوؤ ں کو خراج تحسین پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا ۔ انہوں نے جو کچھ اثر لیا اس کا برملا اظہار کر دیا ۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہوئی کہ ان کے ابنائے قوم اس صاف گوئی پر لعنت و ملامت کریں گے اور انہیں برے القاب سے نوازیں گے ۔ اس موقع پرایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک اگر اسلام اتنا ہی اچھا مذہب ہے اور پیغمبرِ اسلام کی شخصیت اتنی ہی مثالی ، سحر انگیز اور اخلاق عالیہ سے متصف ہے تو یہ اسلام کیوں نہیں قبول کر لیتے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ کسی شخص کا اسلام قبول کرنا سراسر اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے ، یہ کسی انسان کی خواہش یا کوشش سے نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو مخاطب کر کے فرمایا تھا :
’’اِنَّکَ لاَ تَھدِی مَن أحبَبتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھدِی مَن یَّشَاءُ‘‘ (القصص:۵۶)
’’اے نبی! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے ،مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ‘‘
ضرورت ہے کہ ہندوستان کے موجودہ حالات میں ان حضرات کی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کی جائے ،تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت کی فضا ختم ہو ۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016