محاسبہ :
صدقات واجبات اورجزیہ کے محصلین کے تقرر کا آغاز ۹ ہجری میں ہوا۔ آپﷺمحصلوں کو ہدایت و نصیحت فرماتے ۔ انھیں صدقاتِ واجبات کو وصول کرنے کا طریقہ بتاتے اور جب وہ اپنے دور و ں سے واپس آتے تو ان کا محاسبہ بھی کرتے ۔ انھیں متعین حق اور مقررہ مقدار سے زیادہ زکوٰۃ وصول کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ آپﷺ محصلین کو مال چھانٹ کر نہ لینے کی بار بار تاکید فرماتے اور اگر محاسبہ کے وقت کوئی کمزوری نظر آتی تو اس کی فوراً اصلاح فرماتے ۔ ایک بار ایک صحابی صدقہ وصول کرکے واپس آئے تو انھوں نے کہا کہ مجھے بھی کچھ مال ہدیہ میں ملا ہے ۔ یہ سن کر آپﷺنے فرمایا کہ تمہیں یہ مال گھر بیٹھے کیوں نہیں ملا۔ اس کمزوری پر آپﷺ نے ایک عام خطبہ دیا اور اس طرح کا مال لینے سے منع فرمادیا۔(بخاری) اسی طرح آپﷺ نے رشوت لینے اور رشوت دینے والوں سے بھی اپنی انتہائی ناراضی اور بے زاری کا اظہار فرمایا ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر یہ روایت سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کی ہے اور امام ترمذی نے اس کو حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کے علاوہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی روایت کیا ہے ۔
تاکید و ہدایت :
آپ ﷺجس کسی کو بھی کوئی ذمے داری سونپتے تو سخت تاکید فرماتے کہ وہ اسے فہم و فکر کی آخری حد تک عدل و انصاف اور خدا ترسی سے انجام دے تاکہ آخرت میں عظیم انعامات کا حقدار ہوسکے ۔آپﷺنے جانبداری اور بے انصافی کرنے والے عاملوں، قاضیوں اور حاکموں کو اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے ڈرایا اور انھیں سخت و عید یں بھی سنائیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص ؓ سے روایت ہے آپﷺنے فرمایا :
( اہل حکومت اور اہل اقتدار میں سے ) عدل و انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ہاں (یعنی آخرت میں ) نور کے منبروں پر ہوں گے اللہ تعالیٰ کے داہنی جانب ۔ اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے اہل وعیال اور متعلقین کے معاملات میں اور اپنے اختیار ات کے استعمال کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں ۔ (مسلم ) مندرجہ بالا حدیث عادل حاکم کے متعلق ہے ۔ اب یہ حدیث دیکھئے جس میں عادل اور غیر عادل حاکم کا ذکر ہے ۔ حضرت سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا :
’’ عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہوں گے اور ان کو اللہ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا اور ( اس کے برعکس ) وہ ارباب ِ حکومت قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے جو بے انصافی کے ساتھ حکومت کریں گے ۔‘‘ ( ترمذی)
اسی طرح آپﷺنے عادل اور غیر عادل قاضی کے متعلق یہ ارشاد فرمایا :
’’حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جب تک کہ وہ عدل وانصاف کا پابند رہے ، پھر جب وہ بے انصافی کا رویہ اختیار کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے تعلق ہوجاتا ہے اور پھر شیطان اس کا رفیق ہوجاتا ہے ۔ ‘‘ (ترمذی )
حضرت بریدہ ؓ سے جو حدیث مروی ہے اس میں یہ صراحت ملتی ہے ، آپﷺنے فرمایا کہ قاضی یا حاکمانِ عدالت تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک جنت کا مستحق اور دو دوزح کے مستحق ہیں ۔ وہ حاکم جنت کا مستحق ہے جس نے حق کو سمجھا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔اور جس حاکم نے حق کو سمجھنے کے باوجود ناحق فیصلہ کیا وہ دوزخ کا مستحق ہے ۔ اسی طرح وہ حاکم بھی دوزخ کا مستحق ہے جو بے علم اور ناواقف ہونے کے باوجود فیصلہ کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ ( سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ ) آپﷺ حاکموں اور قاضیوں کو ہمیشہ یہ ہدایت کرتے رہتے کہ مدعی اور مدعاعلیہ کے ساتھ مساویانہ سلوک کرو ۔ کسی ایک فریق کے ساتھ کسی خصوصیت کے سبب یاتعلق کی وجہ سے ترجیحی برتاؤ مت کرو ۔ آپﷺ کا یہ حکم تھا کہ مقدمہ کے دونوں فریق حاکم کے سامنے بیٹھیں :(مسنداحمد ِ، سنن ابی داؤد ) جب آپﷺنے حضرت علیؓ کو قاضی بناکر یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے کہا کہ یارسول اللہﷺ میری عمر بہت کم ہے اور میں مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنا نہیں جانتا۔ اس درخواست پرآپﷺ نے ان کو اطمینان دلایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور رہنمائی فرمائے گا اور یہ اصولی ہدایت فرمائی کہ جب تمہارے پاس دو آدمی کوئی نزاعی معاملہ اور مقدمہ لے کر فیصلہ کرانے کے لئے آئیں تو تم پہلے ہی فریق کی بات سن کر فیصلہ نہ دو جب تک کہ دوسرے کا بیان نہ سن لو ۔ ایسا کروگے تو تم سمجھ لوگے کہ تم کس طرح اور کیسا فیصلہ کرو ۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں برابر قاضی رہا ہوں ، اور مجھے فیصلہ کرنے میں شک بھی نہیں گذرا : (الترمذی ،ابوداؤد ، ابن ماجہ)
مشاہرہ :
یہ حاکم و قاضی و عامل درحقیقت اسلام کے بے لوث خادم تھے اس لئے گزر بسر کے معاوضے پر خدمت انجام دیا کرتے تھے ۔حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں عامل رہا تو مجھے حقِ محنت دیا گیا۔ (ابوداؤد) جب نبی کریم ﷺنے عتاب بن اسید ؓ کو مکہ کا گورنر مقرر کیا تو ایک درہم یومیہ ان کی تنخواہ مقرر کی ۔ حضرت مستورد بن شدادؓ کی روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺنے عمال کے لئے ایک بیوی کا ، اگر اس کے پاس نوکر نہ ہو تو نوکر کا اور اگر مکان نہ ہوتو مکان کا خرچ مقرر کیا تھا اور یہ بھی فرمادیا تھا کہ جو اس سے زیادہ لے گا وہ خائن ہوگا ۔(ابوداؤد) حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس کو ہم کسی کام کا عامل بنائیں اور اس پر جو روزی اسے دیں تو جو اس کے بعد اور لے گا تو وہ خیانت ہے ۔ ( ابوداؤد)
احساسِ ذمے داری :
آپﷺباہر سے آنے والے وفود اور مہمانوں کی چاہے وہ مسلم ہویا غیر مسلم دل کھول کہ مہمان نوازی کرتے ۔ حاجت مندوں کی جائز ضرورتیں پوری کرتے ۔ بیماروں کی تیمارداری کرتے ۔کسی اہلِ ایمان کا انتقال ہوجاتا تو اس کے جنازے میں شرکت کرتے ۔ اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ۔ قرب و جوار کے سلاطین اور قبائل کے رؤسا کو بذریعہ خط نرم لہجے میں اسلام کی دعوت دیتے ۔ ظلم و استبداد کے خلاف آواز اٹھاتے ۔ معاشرے کی دینی ، اخلاقی اور تجارتی حالت کی نگرانی فرماتے اور اگر کوئی خرابی دیکھتے تو اس کی اصلاح فرماتے۔ مثلاً سردار انِ قبائل نے اپنے لئے جانوروں کی چراگاہیں مخصوص کررکھی تھیں جن میں غریبوں اور کمزوروں کو قدم رکھنے کا اختیار نہیں تھا۔ آپﷺنے فرمایا کہ اللہ اور رسول کے سوا کسی کو چراگاہ کے مخصوص کرلینے کا حق حاصل نہیں ہے : لا حمی الا حمی اللّٰہ ورسولہ۔اس تنبیہ سے آپﷺ نے اس جا برانہ عمل کا خاتمہ کیا۔
تجارتی اصلاحات :
اسی طرح آپﷺنے تجارتی معاملات کی بھی اصلاح فرمائی ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکے عہد میں دیکھا کہ جو لوگ تخمینا غلہ خریدتے تھے ان کو اس بات پر سزادی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود اسی جگہ بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔ ( بخاری ، کتاب البیوع ) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ’’کہ ایک بار آپﷺبازار میں کسی تاجر کے غلہ کے ذخیرہ کے پاس سے گزرے ۔ اس میں ہاتھ ڈالا تو نمی محسوس کی ۔ فورا ً تاجر سے باز پر س کی ۔ اس نے بارش کو اس نمی کا سبب بتایا ۔ آپﷺنے فرمایا کہ اس کو اوپر کیوں نہیں کرلیا تاکہ خریدنے والے کو نظر آئے ۔ جو لوگ اس طرح دھوکہ دیتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں ۔‘‘ ( مسلم )
طبرانی نے معجم کبیر اور معجم صغیر میں یہی واقعہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے اس کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ’’یعنی اس طرح کی دغا بازی کا انجام جہنم ہے ۔‘‘ حضرت ابو سعید ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓکا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو خیبر کا عامل مقرر فرمایا ۔ وہ عمدہ کھجوریں لے کر بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا ، کیا خیبر کی ساری کھجوریں ایسی ہیں ؟ عرض گزار ہو اکہ یا رسول اللہ ! خدا کی قسم نہیں۔ ہم نے یہ دو صاع کے بدلے ایک صاع اور تین صاع کے بدلے دو صاع میں لی ہیں۔ فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو بلکہ تمام کھجوریں درہموں سے بیچ دیا کرو اور پھر عمدہ کھجوریں درہموں سے خرید لیا کرو اور آپ ﷺ نے وزن کے متعلق یہ فرمایا کہ وہ برابر ہو۔ ( متفق علیہ ) اس سلسلے میںحضرت ابو سعید ؓ کی کتاب ِ حدیث میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ بنی کریمﷺ کی بارگاہ میں حضرت بلال ؓبرنی کھجوریں لے کر حاضر ہوئے ۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہ کہاں سے ہیں ؟ عرض گزار ہوئے کہ ہمارے پاس خراب کھجوریں تھیں ۔ میں نے وہ ایک صاع کے بدلے دو صاع کے حساب سے بیچ دیں ۔ فرمایا اُف ! یہ تو بالکل سود ہے ، بالکل سود ہے ۔ ایسا نہ کرو بلکہ خریدنا چاہو تو کھجوریں بیچ دو اور اس رقم سے دوسری کھجوریں خریدلو ( متفق علیہ ) اسی طرح حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجوروں کے ان ڈھیر کو بیچنے سے منع فرمایا جن کا وزن معلوم نہ ہو ، ایسی کھجوروں کے بدلے جن کا وزن بتادیا جائے( مسلم ) آپﷺ نے تجارت میں ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری اور بے جافائدہ اٹھانے کی شدت سے ممانعت فرمادی۔ایک چیز کی دو قیمتوں سے منع فرمایا ۔ مضطر کی خریدوفروخت اور غیر حاضر مال کی بیع پر روک لگادی۔(ابوداؤد) فصل تیار ہونے سے پہلے اس کو بیچنے یا خریدنے اور چند سالوں کے لئے باغوں کی فصل کا ٹھیکہ دینے سے منع کردیا ۔ ( متفق علیہ) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ بنی کریم ﷺ نے ایسا اناج بیچنے سے روک دیا جو قبضے میں نہ ہو ۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ہر چیز کا یہی حکم ہے۔(متفق علیہ) نبی کریمﷺ نے ان تاجروں کو بڑی سخت و عید سنائی جو احکام شریعت سے آزاد ہوکر تجارت کرتے ہیں: حضرت رفاعہ بن رافع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اللہﷺنے فرمایا :تاجر لوگ سوائے ان کے جنہوں نے ( اپنی تجارت میں ) تقویٰ اور نیکی اور سچائی کا رویہ اختیار کیا۔ قیامت میں فاجر اور بد کا ر اٹھائے جائیں گے ۔‘ ‘ (ترمذی وابن ماجہ ) اس کے بر عکس آپﷺنے ان تاجروں کو جو سچائی اور دیانت داری سے تجارت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں آخرت کے انجام کو پیش نظر رکھتے ہیں یہ خوش خبری بھی سنائی :
’’ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کا روبار کرنے والا تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا ۔‘‘ ( ترمذی )
معاشی اصلاحات :
آپﷺنے صنعت و حرفت ، محنت و مزدوری اور ان تمام معاشی معاملات کے متعلق جو انسان کی دنیاوی ضرورتیں ہیں ایسی ہدایتیں فرمائیں کہ ان سب کا رشتہ آخرت کی فلاح و سعادت سے جوڑدیا ۔ حکم دیا کہ’’ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دیا کرو ۔‘‘ (ابن ماجہ ) آپﷺنے کسب ِ حلال کی فکر و کوشش کو فرض کے بعد ایک اہم فریضہ بتایا۔ سود کے ظالمانہ اورلعنتی کا روبار کو سختی سے ختم کیا اور اس کی قطعی حرمت کے الٰہی قانون کو پوری حکمت و قوت سے نافذ کیا ۔ فرمایا کہ سود خوری اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرنے سے بھی بدر جہا ںزیادہ شدید اور خبیث گناہ ہے : حضرت عبد اللہؓ بن حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر سود کا ایک درہم کھائے تو چھتیس دفعہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔‘‘( ابن ماجہ ) اسی طرح حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺنے سود لینے اور کھانے والے پر ، سود دینے اور کھلانے والے پر سودی دستاویز لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور کہا کہ اس گناہ کی شرکت میں سب برابر ہیں ۔‘‘ ( مسلم )
اخوت و مساوات :
نبی کریم ﷺنے اپنی تعلیمات اور اپنے عمل سے ادنا و اعلا کے تفرقوں کو یک قلم مٹادیا ۔ عالی نسبی کے غرور کا خاتمہ کیا۔ ہر ایک کے ساتھ صلۂ رحمی کرنے کا حکم دیا ۔ سب کے ساتھ یکساںحسن ِسلوک کرنے کی تعلیم دی۔کتب حدیث میں اس سلسلے میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ چند دیکھئے:فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال حبشی ؓ کو اذان دینے کا حکم دیا ، چنانچہ انھوں نے مسجد حرام میں اذان دی ۔ایک حبشی ؓ کو اذان دیتے دیکھ کر چند قریش ِ مکہ نے ناگواری کااظہار شرف و عزت کے غرور میں حقارت آمیز لہجے میں کیا ۔ آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے طواف سے فارغ ہوکر یہ خطبہ دیا : شکر ہے اللہ کا جس نے رسومِ جہالت کا عیب اور اس کے تکبر کو تم سے دور کردیا ۔ اب تمام انسانوں کی صرف دو قسمیں ہیں ایک نیک اور متقی جو اللہ کے نزدیک شریف اور محترم ہے ۔ دوسرافاجر اور شقی جو اللہ کے نزدیک ذلیل و حقیر ہے ۔ ’’ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔‘‘(بیہقی فی شعب الایمان ، ترمذی ) ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمہاری صورتیں اور مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے ۔(مسلم ، ابن ماجہ ) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا ۔ اللہ کے ہاں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ (ابن جریر ) ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں:تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے ۔ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے۔ (بزاز) حضرت انس ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے جو حدیث مروی ہے وہ پورے انسانی معاشرے کا احاطہ کرتی ہے ۔ دیکھئے:
حضرت انسؓ اور حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓسے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ۔ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال (یعنی اس کا کنبہ) ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب اپنی مخلوق میں وہ آدمی ہے جواللہ کی عیال( یعنی ا س کی مخلوق)کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرے ۔ ‘‘ (البیہقی فی شعب الایمان )
اس حدیث کے ذریعہ گویا آپﷺنے یہ پیغام دیا ہے کہ جو اللہ کی مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا وہ اس کی محبت اورپیار کا مستحق ہوگا ۔ اس طرح آپﷺنے عام انسانوں کے ساتھ خیر خواہی اور رحم و کرم کرنے کی ہدایت وتعلیم دی ۔
سادگی و انکساری :
آپﷺنے شاہانہ اور رئیسانہ تزک و احتشام ، عیش و نشاط اور جاہ و جلال کا خاتمہ کرکے لوگوں کو سادگی ، انکساری، تواضع اور زہد و قناعت کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کی ۔ سونے چاندی کے سازو سامان اور ریشمی ملبوسات کو مردوں کے لئے حرام و ناجائز قرار دیا۔ یہاں تک کہ متکبرانہ اور شوخ و نمائشی لباس پہننے کی بھی مما نعت فرمادی :
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جو آدمی دنیا میں نمائش اور شہرت کے لئے کپڑے پہنے گا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلت و رسوائی کے کپڑے پہنائے گا ۔ ‘‘ ( ابو داؤد )
حکومت ِالٰہیہ کا حاکم ہونے کے باوجود آپﷺ خود بے انتہاسادگی سے زندگی گزارتے اور صحابہ کے درمیان مجلس میں اس طرح بیٹھتے کہ آپﷺ میں اور ان میں کوئی فرق نظر نہ آتا ۔ باہر سے آنے والوں کو دریافت کرنا پڑتا کہ محمدﷺ کون ہیں ؟ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپﷺمجلس میں صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے ۔ ایک شتر سوار مسجد میں داخل ہوا ۔ وہیں اپنی سواری باندھی اور مجمع میں آکر پوچھنے لگا کہ محمدﷺ کون ہیں ۔ لوگوں نے آپﷺکی طرف اشارہ کیا ۔ اس نے سوال کیا کہ میں تمہارے پروردگار اور تم پر پہلوں کے پروردگار کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو اللہ نے سب لوگوں کے پاس رسول بناکر بھیجا ہے ؟ فرمایا خدا یا ہاں۔ پھر سوال کیا کہ خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا خدا ہی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ پانچ وقتوں کی نمازیں پڑھیں ؟ فرمایا خدایا ہاں۔ پھر کہا خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ ہی نے کہا ہے کہ سال میں ایک مہینے میں روزہ رکھیں ؟ فرمایا خدایا ہاں ۔ پھر کہا خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپﷺ ہمارے دولت مندوں سے زکوٰۃ لیں اور ہمارے محتاجوں کو بانٹ دیں؟ فرمایا خدایا ہاں ۔ اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں اس پر جس کو لے کر آپﷺآئے ہیں۔ میں اپنے پیچھے والوں کا نائب ہوکر آیا ہوں ۔ ضمام بن ثعلبہ ہوں۔ ( بخاری ، کتاب الایمان )
آزادیِ فکر :
نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سب کو اپنا مدعا پیش کرنے کی مکمل آزادی تھی ۔ آپﷺ ہر ایک کی بات کو شفقت و محبت سے سنتے ۔ سوالوں کے جوابات دیتے ، حاجت مندوں کی حاجتوں کوپور ا کرتے ۔ ایک اجنبی بدو تک بلا خوف و خطر آپﷺکی خد مت میں آتا اور یامحمدﷺ کہہ کر خطاب کرتا ۔ آپﷺاس کا بھی خندہ پیشانی سے جواب دیتے ۔ حدیث کی کتابوں میں اس قسم کے متعدد واقعات ملتے ہیں ۔ یہاں ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔ ایک دن آپﷺمال ِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ قبیلہ بنو تمیم کا ایک شخص آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ انصاف کیجئے ۔ آپﷺنے فرمایا کہ اگر میں انصاف نہ کروں گا تو کون کرے گا ۔ (بخاری)ایک مرتبہ ایک بدو آپﷺسے انتہائی سختی سے اپنے قرض کا مطالبہ کررہا تھا۔ اس گستاخی پر صحابہ نے اسے ڈانٹا ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کو اسی کا ساتھ دینا تھا اس لئے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کررہا ہے ۔اس کے بعد اس کو اس کے حق سے زیادہ قرض ادا کرنے کا حکم دیا ۔ ( ابن ماجہ)
مشورہ :
آپﷺکو اللہ تعالیٰ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کرنے کا حکم دیاتھا ۔ چنانچہ اہم معاملات میں آپﷺ ان سے مشورہ کیا کرتے ۔ اچھی اور معقول رائے پر بلاتامل عمل فرماتے ۔اس خصوصیت کی اللہ تعالیٰ نے تعریف یوں فرمائی ہے : وامر ھم شوریٰ بینھم۔(شوریٰ : آیت نمبر ۳۸) ان کے معاملات باہمی مشوروں سے انجام پاتے ہیں ۔ اس حقیقت کو ان دو واقعات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے : غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے حکم پر جیشِ اسلامی نے ایک ایسے مقام پر قیام کیا جہاں کوئی چشمہ یا کنواں تک نہیں تھا ۔ زمین ایسی ریتیلی تھی کہ اس میں اونٹوں کے پاؤں دھنس جاتے تھے ۔ یہ دیکھ کر حضرت حباب ؓ بن منذر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺکیا یہ مقام وحی الٰہی کی روسے ہے یا آپ ﷺ کی فوجی تدبیر ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ یہ حکم ِ وحی نہیں ہے ۔ اس وقت حضرت حباب ؓنے آپ ﷺ سے درخواست کی۔ آپ نے حضرت حباب ؓ کے مشورہ کو پسند فرمایا اور اسی کے مطابق عمل کیا۔ ہجرت کے پانچویں سال یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر نے اسلام کے خلاف زبردست سازش کے تحت قبائل عرب کو متحد کیا اور دس ہزار دشمنان ِ اسلام کا لشکر گراں تیار کرکے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے ۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس سازش اور لشکر کے آمد کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے مشورہ کیا ۔ حضرت سلمان فارسی ؓ ایرانی النسل تھے ۔ وہ اس قسم کے حالات میں جنگ لڑنے کے طریقہ سے اچھی طرح واقف تھے ۔ انھوں نے یہ رائے دی کہ کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنا مناسب نہیں ہے ، بلکہ لشکرکو ایک محفوظ مقام پر جمع کیا جائے اور اطراف میں خندق کھودلی جائے ۔ آپ ﷺ نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور صرف مدینہ کے شامی رُخ میں خندق کھودنے کا حکم دیا اس لئے کہ تین جانب مکانات اورنخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا ۔
نظام ِ الٰہی کی تکمیل :
جب پورا عرب اسلام کے زیر نگیں آگیا اور قانونِ الٰہی کے تحت چلنے والا نظامِ حکومت ہر طرف چھا گیا تو آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰ ہجری میں ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے عظیم الشان اجتماع کے سامنے آخری بار میدانِ عرفات و منٰی میں وہ خطبہ دیا جو اس الٰہی نظام کی تکمیل کا اعلان تھا ۔اس خطبہ میں آپﷺ نے دین کے اہم عقائد و مسائل کی تشریح و توضیح فرمائی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہنے کی تلقین کی ۔ خطبہ دیکھے: خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا :
( اے لوگو! میری بات سنو ، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ شاید میں اس سال کے بعد اس صورت میں آپ لوگوں کو نہ دیکھ سکو ں ۔ ) (ہاں جاہلیت کے تمام دستور میرے دونوں قدموں کے نیچے ہیں ۔) (اے لوگو ! تمہارے خون اور تمہارے اموال آپس میں روزِ قیامت تک اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن اور تمہارا یہ مہینہ حرام ہے اور جلد ہی تم اپنے رب کے حضور جاؤگے اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پرسش ہوگی اور میں نے بات تم کو پہنچادی ۔
(تم میں سے جس کے پاس کوئی امانت ہوچاہئے کہ وہ اسے امانت رکھنے والے کو لوٹادے اور تمام سود باطل ہے لیکن راس المال تمہارا حق ہے ، نہ اور کسی پر ظلم کرو ، نہ خود کسی کے ظلم کا نشانہ بنو ۔ )( اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا کہ سود نہیں ہوگااور اسی لئے عباس بن عبد المطلب کا سارے کا سارا سودمنسوخ کیا جاتا ہے ۔ ) (اور ایام جاہلیت کے تمام خون بھی منسوخ ۔ اور سب سے پہلے جس خون کو منسوخ کرتا ہوں ، وہ ابن ربیعہ بن حارث بن المطلب کا خون ہے ۔وہ بنو لیث میں دودھ پیتا بچہ تھا اور اسے ہذیل والوں نے قتل کردیا تھا ۔ جاہلیت میںیہ پہلا قتل تھا ، جس سے خون لینے کا سلسلہ چلا ۔) ( اور اس کے بعد ‘ اے لوگو ! شیطان کو اس بات سے تو کامل مایوسی ہوگی کہ اب تمہاری اس سر زمین پر قیامت تک اس کی پوجا نہیں ہوسکتی ۔ لیکن اس کے علاوہ تمہاری دوسری معمولی معمولی باتوں میں اس کی پیروی ہوگی۔ پس وہ تمہارے اس اعمال ہی سے خوش ہے ۔ پس ‘ اپنے دین سے متعلق اس سے خبردار ہو۔)
اے لوگو!نسی کفر میں زیادتی تھی ۔ اس سے کافر لوگوں کو گمراہ کرتے تھے : ایک سال اسے حلال کردیتے اور دوسرے سال حرام کردیتے ۔ اور یہ اس لئے تاکہ خدا کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو جھٹلا سکیں۔ وہ خدا کے حرام کردہ کو حلال بنادیتے ، اور حلال کردہ کو حرام اور زمانہ گردش کھاکے پھر اسی حالت پر پہنچ گیا ۔ جس پر شروع میں زمین و آسمان پیدا ہوئے تھے ، اور مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ہے ۔ ان میں سے چار حرام ہیں ، تین یکے بعد دیگرے ( یعنی ذی قعدہ اور ذی الحجہ اورمحرم) اور رجب مضر جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے ۔
’’ اور اے لوگو! اس کے بعد سنو کہ تمہاری عورتوں پرتمہارا حق ہے اور ان کا بھی تم پر حق ہے ، تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم نہیں چاہتے ۔ اور ان کا فرض ہے کہ فحش ِمبین کی مرتکب نہ ہوں اور اگر وہ اس کا ارتکاب کریںتو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں اجازت ہے کہ ان سے خود خوابگاہوں میں علاحدگی اختیار کرلو اور انھیں ایسی جسمانی سزا دوجو شدید نہ ہو۔ اوراگر وہ باز آجائیں ، تو ان کا حق ہے کہ مناسب طریقے پر اپنا نان و نفقہ اور لباس تم سے لیں اور میں تمہیں عورتوں سے اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں ۔ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں ۔ وہ اپنے لئے کچھ نہیں کرسکتیں ۔ اور تم نے انھیں اللہ تعالیٰ سے بطور امانت لیاہے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے کلام سے انھیں اپنے لئے حلال کیا ہے ۔ پس اے لوگو! میری بات پر خوب غور کرو ۔ ‘‘
( اے لوگو! تمہارے غلام ، تمہارے غلام ، جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ ، جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔ ) (میںنے بہر حال اپنا پیغام پہنچا دیااور میں تمہارے لئے وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے : صاف اور کھلی چیز اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ۔ )
( اے لوگو ! میری بات سنو اور اسے سمجھو ۔ یاد رکھو ‘ ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان ایک برادری ہیں ۔ پس کسی آدمی کے لئے اس کے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں سوائے اس کے جو وہ اپنے دل کی خوشی سے اسے دے دے ، پس اپنے آپ پر ظلم نہ کرو ۔ )( اے لوگو! بیشک تمہارا رب ایک ہے ۔ اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے ۔ ہاں نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ عجمی کو عربی پر ؛ اور نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے کو کالے پر ‘ سوائے تقویٰ کے پہلو سے ۔)
یہ بڑے معرکہ کا خطبہ ہے ۔ اگر چہ ابن ہشام میں اس کی تصریح نہیں ِ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آخری حج کے موقع پر آپﷺنے تین مختلف خطبے ارشاد فرمائے تھے ۔ عین ممکن ہے کہ ان تینوں خطبوں کے کچھ حصے آپس میں مل گئے ہوں ۔
جب آپﷺنے خطبہ ختم فرمایا ، تو لوگوں کو مخاطب کرکے حکم دیا :
جو لوگ یہاں موجود ہیں ، وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچادیں، جو غیر حاضر ہیں ۔
یہ خطبہ اسلامی تحریک کا بین الاقوامی منشور ہے ۔ خدا کی توحید اور اس کی عبودیت کے اقرار سے مزین ہے ۔ اس میں ایک دوسرے کی جان اور اس کے مال کی حفاظت کی تلقین اور قتل کے قصاص کا قانون ہے ۔ سودکی قطعی حرمت کا اعلان ،انتقامی کا روائی کی مما نعت اور زوجین کے حقوق ہیں ۔ کمزوروں اور مجبوروں کے لئے نصیحت ہے ۔ اتحاد بین المسلمین اور وحدت ِ انسانیت کی تعلیم ہے ۔ اسی میںطرزِ حکمرانی کے جواہر پارے بھی شامل ہیں ۔
نبی کریم ﷺکے طرزِ حکمرانی کی بنیاد شخصی یا خود ساختہ قوانین کے بجائے قانون شریعت پر تھی ۔ اس طرزِ حکمرانی نے اخلاقی ،معاشی اور معاشرتی خامیوں اور کمزوریوں کی اصلاح کی ۔ سود خوری کے جاہلی نظام کو ملیا میٹ کیا ۔ آپسی خانہ جنگی کو ختم کیا ۔ سیاست و مدنیت کو دین کے قالب میں ڈھالا ۔ شرک ، کفر اور بدعت کی بینح کنی کی۔ شاہانہ جاہ و جلال اور عیش و نشاط کی بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا ۔ کمزوروں ، لاچاروں اور مجبوروں کے حقوق کی حفاظت کی ۔ دین حق کے علم برداروں میں اخوت و محبت کا رشتہ قائم کیا ۔ نسلی اور و طنی بت کو توڑ کر پاش پاش کیا ۔ اور وحدت ِ انسانی کا تصور دیا ۔ اس حکومت میں حاکم و امام اور عام مسلمان کاندھے سے کاندھا ملاکر ایک ساتھ بیٹھتے ، خدا سے ڈرتے اور آخرت کی فکر میں رہتے ۔ اگر کسی سے کوئی خطا سرزد ہوجاتی تو اس کا اقرار کرتے ۔ آئین ِ شریعت کے دائرے میں دی جانے والی ہر سزا کو دل کی گہرائی سے منظورکرتے ۔ یہ طرزِحکمرانی ایک ایسا معیار اور کسوٹی ہے جو حق کو باطل سے ، سچ کو جھوٹ سے اور اسلامی فکر کو غیر اسلامی فکر سے علاحدہ کرتا ہے ۔ یہ وہ آئینہ خانہ ہے جس میں ہر حکومت کاحکمراں اور ہر دینی ادارے کا قائد اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016