ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب اورتہذیبوں سے وابستہ افراد رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خطہ زمین ہے جس میں مختلف رنگ و نسل کے باشندے پائے جاتے ہیں۔ رنگا رنگی اور تنوع یہاں کی خصوصیت ہے۔ الگ الگ مذہب، ثقافت اور تہذیب پر عمل پیرا لوگوں پر مشتمل ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ نظام حکومت اقلیتوں کو دبانے،کچلنے کے بجائے ان کے عقیدے اور تہذیب کی آزادی کا احترام کرے زندگی کے دکھ سکھ میں قدم سے قدم ملا کر انسانیت کا ثبوت پیش کرے۔ انھیں اپنی مرضی سے جینے، آگے بڑھنے، ترقی حاصل کرنے ، ملک اورقوم کی خدمت کرنے کے مواقع فراہم کرے۔
واقعہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی اپنے تمام تر علم و دانش ، روشن خیالی، آزادی فکر و نظر ،حریت اور مساوات کے بلند بانگ دعووںکے باوجود نسل، رنگ، زبان،وطن اور علاقےکی بنیاد پر بٹی ہوئی انسانیت کو وحدت کا پیغام نہ دے سکی۔ آج بھی تعصب ، تنگ نظری اور نفرت موجود ہے جو زمانہء جاہلیت کا طرہ امتیاز تھی۔ جفا کاروں نے ظلم و زیادتی، بے رحمی، سنگ دلی اور انسان کشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ طاقت ور کم زور پر ظلم کرتا ہے اور دوسرے خاموش تماش بین بنے رہتے ہیں۔
اسلام کا تصور انسان
اسلام بتاتا ہے کہ انسان خالق کائنات کا عظیم شاہکار ہے۔ وہ اشرف المخلوقات ہے، جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا۔ پوری کائنات اس کے لیے بنائی اور سجائی گئی اور ہر چیز انسان کے لیے مسخر کی گئی۔ وہ کائنات کی اشیاءکو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
و سخر لکم ما فی السماوات و ما فی الارض جمیعا منہ (الجاثیہ:۱۳)
’’آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ ‘‘
تکریم انسانیت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنایا۔ بہت سی مخلوقات پر فوقیت عطا کی۔ شمس و قمر، بحر و بر کو اس کے لیے مسخر کر دیا۔ انسان کو اس کائنات میں موجود اشیاء کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا اختیاردیا۔ زمین میں آمدورفت کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں۔ اس کائنات کے ذرّے ذرّے کو انسان کے لیے مزیّن کیا گیا۔ ہوا، پانی، کھانے اور رہنے کے لیے آسانیاں اور آسائشیں فراہم کی گئیں۔ دنیا میں آنے والے ہر انسان کو کائنات سے استفادہ کرنے کا پورا حق ہے۔ اس کے اس فطری حق کو کوئی سلب نہیں کر سکتا۔ خدا تعالی نے انسان پر ہوئے ان تمام احسانات کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخرکیا۔ جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخرکیا کہ لگاتار چلے جارہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کرنہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکر ا ہے۔ ‘‘ (سورۂ ابراہیم، ۳۲ تا ۳۴)
انسان کو اللہ تعالی نے موزوںجسم دیا اسے سوچنے، سمجھنے، غوروفکر، تفکر و تدبر کرنے کی صلاحیت دی۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس کی بناء پر انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ انسان کو بولنے کی اور اپنا مافی الضمیرادا کرنے کی صلاحیت عطا کی۔ ارشاد ربانی ہے:
’’جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا۔ تجھے متنا سب بنایا، اور جس صورت میں چاہاتجھ کو جوڑ کر تیار کیا۔ ‘‘ (سورہ انفطار ۷ تا۸)
’’اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ ‘‘ (الرحمن۳،۲)
یہ نوع انسانی کی تکریم ہے جس میں پوری انسانیت بلا کسی تفریق کے شامل ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب ایک جنازہ آپﷺ کے پاس سے گزرا تو آپﷺ احتراماً کھڑے ہو گئے جب آپ سے کہا گیا کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیاوہ انسان نہیں ہے‘‘۔
ہم اپنی کھلی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ رزق، ہوا ،پانی، دھوپ اور دوسری تمام فطری ضروریات زندگی تمام انسانوں کے لیے فراہم کی گئی ہیں۔ مذہب، جنس،رنگ ونسل اور قومیت کی بناء پر کسی کو اِن نعمتوں سے محروم نہیں کیاگیا۔ جب خالق کائنات اس معاملے میں تفریق نہیں کرتا تو وہ مخلوق کے لیے کیسے اس بات کو گوارا کر سکتا ہے کہ وہ بے جاامتیاز یا نا انصافی کا رویہ اپنائیں۔
اسلام وحدت انسانی کی حقیقت واضح کرتا ہے۔ تمام انسان ایک ہی جان سے پیدا کیے گئے ہیں:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور دونوں سے بہت سے مرد اورعورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔ (النساء :۱)
جہاں تک انسانوں کے طرز عمل کاتعلق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے ‘‘۔ ( البقرۃ: ۲۱۳)
یہ دونوں آیات اہم حقائق کی تعلیم دے رہی ہیں۔ تمام انسان ایک ہی والدین کی اولاد ہیں تو ان کے درمیان اخوت و محبت کاتعلق ہونا چاہیے۔ یہ برادری کا وہ تصور ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑ کر انہیں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کر دیتا ہے۔ رنگ و نسل، قبیلے اور برادری کا اختلاف اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ ایک انسان دوسرے سے برتر ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
’’لوگو !ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے‘‘۔ ( سورہ الحجرات : ۱۳)
دوسری جگہ مذکور ہے:
’’اور اللہ کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبان اور رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں علم والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔( سورہ الروم :۲۲)
بنیادی حقوق کی ضمانت
اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور اساسی حیثیت رکھتاہے۔ یہ حقوق تمام انسانوں کے لیے ہیں اور کوئی انہیں سلب نہیں کر سکتا۔ یہاں چند نمایاں حقوق کا ذکر کیا جارہاہے:
۱۔ تحفظ جان: اسلام نے انسانی جان کو نہایت محترم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ ( مائدہ :۳۲)
دوسری جگہ ناحق قتل سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
’’قتل نفس کا ارتکاب مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘
( بنی اسرائیل : ۳۳)
۲۔ حق ملکیت: اسلام کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے کے مال پر ناجائز طریقے سے قبضہ کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’تم باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال نہ کھائو‘‘۔ (بقرہ :۱۸۸)
۳۔ تحفظ آبرو: جان و مال کی طرح ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور تم ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو‘‘۔ (حجرات :۱۱)
’’اور ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو‘‘۔ (حجرات :۱۲)
۴۔ نجی زندگی کا تحفظ: اسلام کے بنیادی حقوق کے مطابق ہر انسان کو نجی زندگی کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اللہ تعالی کا حکم ہے:
’’ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں سلام کر کے اجازت لیے بنا داخل نہ ہوا کرو‘‘۔ (نور:۲۷)
اس کے ساتھ یہ کہ قرآن نے ایک دوسرے کے راز کو ٹٹولنے اور ٹوہ لینے سے بھی منع فرمایا ہے:
’’ اور تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے‘‘۔ (حجرات: ۱۲)
نجی زندگی کے تحفظ کی اہمیت کا اندازہ حضرت عمرؓ کے اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک بار حضرت عمر ؓ نے گشت کے دوران ایک شخص کو اپنے گھر میں گاتے ہوئے سنا آپ کو کچھ شک ہوا تو دیوار پر چڑھ گئے، دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپ نے پکار کر کہا کہ ’’اے دشمن خدا کیا تو نے سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور وہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا؟ ‘‘اس نے جواب دیا:
’’ اے امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے اگر میں نے ایک گناہ کیا تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع فرمایا ہے اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ تعالی نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازے سے آئو اور آپ دیوار چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت کے بغیر نہ جاؤاور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے‘‘۔
یہ سن کرحضرت عمرؓ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ البتہ اس سے وعدہ لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا۔ (تفہیم القرآن، جلد ۵، ص ۸۹)
۵۔ ظلم کے خلاف احتجاج کا حق:اسلام نے تمام شہریوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اگر ان کے ساتھ ظلم ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو‘‘۔ ( نساء : ۱۴۸)
۶۔ شخصی آزادی کا تحفظ: اسلامی ریاست میں بنا جرم کے ثابت ہوئے کسی شہری کو سزا نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی قید کرکے آزادی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ عدل کے معاملے میں تمام شہری برابر ہیں۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو‘‘۔ ( نساء :۵۸)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو۔ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے‘‘۔ (مائدہ:۸)
۶۔ مذہبی آزادی: اسلام دین کے معاملے میں کسی قسم کے جبر کا قائل نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے:
’’ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ ( بقرہ: ۲۵۶)
مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
ـ’’۔ ۔ ۔ اس امر میں شبہ نہیں کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔
مزید لکھتے ہیں:
’’اسی طرح اس امرسے ہمیں انکار نہیں کہ مجرد کسی قوم کے اندر کفر کا وجود اس امر کے لیے کافی وجہ نہیں ہے کہ اسلام کے علمبردار، ان کے خلاف جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوںاور تلوار کے زور سے انکو اسلام پر مجبور کر دیں‘‘۔ (تدبر قرآن،ج ۱، ص ۵۹۲۔ ۵۹۴)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو زمین پر جتنے لوگ ہیں سب ایمان لے آتے تو اب کیا تم زبردستی کرو گے لوگوں پر کہ وہ با ایمان ہو جائیں‘‘۔ ( یونس :۹۹)
۷۔ معاشی تحفظ کا حق : اسلامی معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلا کسی تفریق کے بے کس، مجبور، معذور، غریب، یتیم اور بیوہ کی مدد کرے اور اہل ثروت اپنے مال میں سے حسب استطاعت ان پرخرچ کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نیکو کار لوگوں کے رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
’’جو اپنا مال اس کی محبت کے باوجود ، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں، اور گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں۔ اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں‘‘۔ ( بقرہ:۱۷۷)
غیر مسلموں کے خصوصی حقوق
۱۔ تمام ذمیوں( غیر مسلم جو اسلامی حکومت میں رہتے ہوں) کو شراب پینے،بیچنے اور خریدنے سے بزورِ قانون نہیں روکا جائے گا۔ اسی طرح وہ سور بھی پال سکتے ہیں ،کھا سکتے ہیں اور بیچ سکتے ہیں۔
۲۔ امام مالک کے نزدیک زنا کے معاملے میں بھی ذمیوں کو استثناء حاصل ہے یعنی انہیں سو کوڑے یا رجم کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلہ کے مطابق ان کے پرسنل لا کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
۳۔ شخصی معاملات میں وہ اپنے پرسنل لا پر آزادانہ عمل کرنے کا حق رکھتے ہیںاور اُن کے معاملات کا فیصلہ اسی کی روشنی میں ہوگا۔
۴۔ جزیہ اور خراج کے معاملے میں رعایت اور نرمی کا معاملہ کیا جائے گا۔
۵۔ ان کی عبادت گاہوں سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔
۶۔ ذمیوں کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور ملک کی حفاظت صرف مسلمانوں کے فرائض میں داخل ہے۔ اگر وہ اپنی خوشی سے ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں تو اس صورت میں ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔
اسلام کی اِن ہدایات سے چند اُمورواضح ہو تے ہیں: (الف)اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ تمام کائنات کا خالق صرف خدائے بزرگ و برتر ہے۔ (ب) قرآن ہدی للناس ہے اور نبی کریم ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں۔ (ج)نبی کریم ﷺاور ان کے اصحاب نے عملا اس بات کو ثابت کر دکھایا کہ محض مذاہب کا اختلاف عدل و انصاف کے آڑے نہیں آ سکتا، اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی جاسکتی ہے، جب تک کہ اُس کی طرف سے زیادتی سرزد نہ ہو ، پھر بھی بدلہ صرف اتنا ہی لیا جائے گا جتنی کہ زیادتی ہوئی ہو۔ اگر کسی نے ظلم سے زیادہ بدلہ لیا تووہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ (د)دین کے معاملے میں کسی قسم کے جبر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ (ہ)دین کی افہام و تفہیم میں نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہدایت اور گم راہی کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہے ، دین کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے لیکن پیار، خلوص اور نرم دلی سے، نہ کہ تشدد اور جبر سے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ظلم و زیادتی کے بغیراسلام کو پھیلایا پھرجس نے بھی اپنے مذہب پرعمل کرنا چاہا اسے اس کی پوری اجازت دی گئی اور اُس کے جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری طرح حفاظت کی گئی، مذہبی شعائر کو اختیار کرنے، عبادت کرنے، رسوم و رواج کو انجام دینے اور تہواروں کو منانے پر کبھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اگرکسی مسلمان نے کسی غیر مسلم پر زیادتی کی تو حکومت نے مواخذہ کیا اور اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں کی گئی۔
قرآن ہم سایوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس میں بلا امتیاز وتفریق مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراوٗ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور قریبوں کے ساتھ بھی، یتیموں اور مسکینوں اور قریبی پڑوسی اور دور کے پڑوسی کے ساتھ بھی اور پاس والے ساتھی اور مسافر اور ان کے ساتھ بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے‘‘۔ ( النساء:۳۶)
اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام انبیاء کرام پراور ان پر نازل کردہ کتابوں پر بھی ایمان لایا جائے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ مسلمان ہی نہیں۔ مذہبی مقامات کی توہین کی اجازت نہیں ہے۔ باطل معبودوں کو برا کہنا اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے ساتھ اسلام حُسنِ اخلاق پر بہت زور دیتا ہے۔ جس میں مخلوق پر شفقت ،عدل و انصاف، درگزر اور انسان کی عزت و تکریم بھی شامل ہے۔ ملک میں امن و سکون کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ امورِ خیر میں تعاون کیا جائے، انسانوںکے دکھ سکھ میں کام آیا جائے ، ہر قسم کی زیادتی اور ناانصافی سے بچا جائے اور سب کو اپنے اپنے مذہبی اصول وضوابط پر عمل کرنے دیا جائے۔
آ ج مذہب کے نام نہاد قائلین کے ہاتھوں انسانیت کا خون ہو رہا ہے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے، آگے بڑھنے، سرکاری مناصب اور عہدے حاصل کرنے میں لوگوں کے لئے بے جا رکاوٹ پیدا کی جارہی ہے، اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، ان پر زیادتی کی جارہی ہے، ان کے حقوق کوپامال کیاجارہا ہے۔ یہ نہ صرف بنیادی انسانی قدروں کی خلاف ورزی ہے، بلکہ خود ملک کی فلاح و بہبود اور اس کے روشن مستقبل کی راہ میں عظیم رکاوٹ ہے۔ اہل فکر ونظر کی ذمّہ داری ہے کہ ظلم وجبر سے پاک فضا کی تشکیل کی کوشش کریں۔
مشمولہ: شمارہ جون 2015