اعلیٰ مقصد رکھنے والے انسانوں کی تفریحات بھی بلند اور بامقصد ہوتی ہیں۔ پاکیزہ دلوں کو پاکیزہ تفریحات ہی سے فرحت ومسرت ملتی ہے۔ شخصیت کا جو حصہ بھی تقوی کے لباس سے باہر ہوگا وہ شیطان کی زد پر ہوگا۔
تفریح عام طور سے فرصت و فراغت کے اوقات میں انجام دی جانے والی وہ سرگرمیاں ہیں جو فرحت و تازگی کا باعث بنیں، خوش گوار احساس پیدا کریں۔ تفریح میں اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو خوش کرنا بھی شامل ہے۔
فرصت و فراغت اللّہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس پر اللّہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس نعمت کا بہترین استعمال کرنا چاہیے۔
آج سائنس و ٹکنالوجى کی پیش رفت نے زندگی کے امور کی انجام دہی کے لیے غیر معمولی سہولیات بہم پہنچائی ہیں۔ گھنٹوں کے کام سیکنڈوں میں اور کسی بھی جگہ بیٹھ کر انجام دیے جاسکتے ہیں۔ جس کا ایک پہلو یہ ہےکہ فرصت کے اوقات آسانی سے میسر ہیں۔
اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اب ہر طرف تفریحات کا سیلاب ہے۔ ہر قسم کی تفریح انسان کو آسانی سے حاصل ہے۔
فرصت و فراغت کے اوقات کا صحیح استعمال غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن عموماََ اس سے غفلت برتی جاتی ہے۔
عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں: صحت و تندرستی اور فرصت و فراغت۔ ( سنن ابن ماجہ)
یہ بات کہنا شاید غلط نہ ہو کہ تفریحات جتنا بڑا سوال آج ہیں اتنا بڑا سوال پہلے کبھی نہ ہوں۔ اور جتنی آسانی سے بیہودہ اور فحش تفریحات آج میسر ہیں اتنی آسانی سے پہلے کبھی نہ تھیں۔
بدقسمتی سے دنیا کے تمدن کی زمام کار جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ انسان کو خواہشات سے متحرک ایک حیوان سمجھتے ہیں یا اس کو چیزوں کو استعمال کرنے والا ایک صارف محض گردانتے ہیں یا اپنے سیاسی مقاصد کےلیے آلۂ کار سمجھتے ہیں اور اسی حیوان، صارف محض اور سیاسی آلۂ کار کے لیے وہ تفریحات بھی ترتیب دیتے ہیں۔
ایسی سفاکی، حیوانیت اور انانیت والی تفریحات ہم کو تاریخ کے صفحات میں بھی ملتی ہیں جو انسان کے مرتبہ و مقام سے فروتر ہیں۔ تفریحاً انسانوں کو درندوں کے سامنے پھینک دینا، غلاموں کی آپس میں خونیں لڑائیاں، جانوروں کو آپس میں لڑانا، عریانیت، جنسی بےراہ روی، شراب، جوا، نشہ وغیرہ۔
آج کے دور میں اس حیوانیت کو ورچول حیوانیت بنا کر ہر عام و خاص تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ورچول قتل کرنا، جوا اور قمار بازی (gambling)، جنسیت اور عریانیت کا فروغ، فحش ویڈیو اور گندی صحبتیں اور ایسی چیزیں جو انسان کو اس کے بلند مرتبے سے گرا کر حیوان بنادیں۔
اس پستی کا دوسرا پہلو انسان کو چیزیں خریدنے والا یا صارف محض بنانا ہے۔ انسان کے دل میں گھر کر لینی والی حقیر خواہشات کے چنگل میں اس کو پھانس لیا جاتا ہے۔ حیثیت سے بڑھ کر خریدنا، غیر ضروری اشیا کو زندگی کی بڑی اہم ضرورت سمجھ لینا، سودی قرض اور سودی لین دین کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکروں میں جکڑ لینا، ہیجان انگیز اشتہارات اور خواہشات کی بھول بھلیوں میں پڑ کر انسان کہیں گم ہوجاتا ہے۔ صارفیت ایک طرزِ زندگی بن کر انسانوں کے حواس پر سوار ہوجاتی ہے۔
اس پستی کا تیسرا پہلو لوگوں کا جذباتی اور نفسیاتی استحصال اور اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے انسانوں کا استعمال ہے۔ غلط معلومات دے کر لوگوں کو بھڑکانا، ادھوری معلومات کا عادی بنانا،عوام کی صحیح معلومات تک رسائی کو مشکل سے مشکل تر بنادینا اور ایک زبردست انانیت کے ماحول میں انسانوں کو مبتلا کرکے انسانوں کا تفریح کے نام پر بدترین استحصال ہمارے دور کا سنگین المیہ ہے۔
ملک عزیز کے نونہالوں اور نوجوانوں کو تفریح کے نام پر ایسی پستی اور استحصال سے نکال کر تفریح کا صحیح تصور، بلند اور پاکیزہ تفریح کے ماڈل اور انسانی بلندی و رفعت کے شایان شان فنون لطیفہ کا فروغ ملک کے حق میں عمومًا اور امت مسلمہ کے حق میں خصوصًا ایک عظیم خدمت اور اہم فریضہ ہے۔
اسلامی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہیں۔ انسانی شخصیت کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اسلامی تعلیمات انسان کی رہ نمائی نہ کرتی ہوں۔ یہ رہ نمائی فطری و عملی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی اعلی اور کامل ہے۔ یہ اللّہ تعالیٰ کا غیر معمولی احسان اور اس کا فضل ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے سلسلے میں ایسا غیر معمولی اہتمام فرمایا ہے۔
تفریحات انسان کے معمولات اور زندگی کا نہایت اہم حصہ ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں تفریحات کے سلسلے میں بھی رہ نمائی کا بہترین انتظام ملتا ہے۔ اس کے کچھ اہم پہلوؤں کا تذکرہ ہم یہاں کریں گے۔
1۔ بامقصد زندگی گزارنے کا خدائی انتظام
مقاصد انسانی شخصیت اور زندگی کو بامعنی بناتے ہیں۔ زندگی کا بامعنی ہونا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سب سے اہم ضرورت ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا ارشادہے کہ‘‘ آدمی صرف روٹی سے نہیں جیتا بلکہ اس کلمے سے جیتا ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے۔‘‘
بامقصد انسان کی تفریحات بھی بامعنی اور تعمیری ہوں۔ تعمیری تفریحات کےلیے شخصیت کے سامنے اونچے مقاصد ہونا لازم ہے۔ اگر زندگی بےمقصدیت اور انتشار کا شکار ہوگی تو تفریحات اور مشاغل بھی آ وارہ گردی کے سوا کیا ہوسکتے ہیں۔ مقاصد زندگی جتنے بلند اور پاکیزہ ہوں گے مصروفیات و مشاغل بھی اسی مناسبت سے اونچی اور بلند ہوں گی۔ اسلامی تعلیمات انسان کو انتہائی بلند اور پاکیزہ مقاصد سے آگاہ کرتی ہیں۔ وہ مقاصد اللہ کی رضا اور آخرت کی کام یابی ہیں۔
یہ مقاصد اتنے ہمہ جہت ہیں کہ انسانی شخصیت کے تمام گوشوں کو محیط ہیں اور انسانی شخصیت کو تمام پہلوؤں سے انتہائی بلند اور خوب صورت بناتے ہیں۔ چاہے وہ عبادات ہوں، نصرت دین کی اجتماعی جدوجہد ہو، تجارت و معیشت ہو، ماں باپ اور زوجین کے تعلقات ہوں، اولاد کی اچھی تربیت اور اہل خانہ کی خدمت ہو، غریبوں کی مدد اور سماجی تعلقات ہوں، غرض تمام ہی مصروفیات ان اعلی مقاصد کے حصول کے لازمی اجزا ہیں۔ مقاصد کی یہ بلندی اور ہمہ جہتی اسلامی تعلیمات کا امتیاز ہیں۔ انسانی نظریات ان پہلوؤں سے بڑے کوتاہ نظر اور تنگ داماں واقع ہوئے ہیں۔ وہ کام یابی کا بہت چھوٹا اور محدود تصور انسان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ حقیر مقاصد انسان کو مطمئن کرنے اور انسان کی پوری فطری ترجمانی کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ وہ انسانی خواہشات کو جگاتے ہیں لیکن کام یابی کا ایسا بلند اور کاموں کا ایسا ہمہ جہت منصوبہ دینے میں ناکام رہتے ہیں جو عین انسانی فطرت کو مطمئن کرسکے۔ عارضی اور وقتی کام یابیوں پر انسانی فطرت مطمئن نہیں ہوسکتی اور چھوٹے اور تنگ منصوبوں سے اپنے تمام امکانات کو بروئے کار نہیں لاسکتی۔
اسلامی تعلیمات صرف اونچے مقاصد ہی نہیں بلکہ ان مقاصد کے حاصل کرنے کے تمام لوازمات کا سامان بھی کرتی ہے۔ حصول مقاصد میں معاون تعبیرات، نصرت کے وعدے، محرکات عمل، قوت کے سرچشموں اور استحضار مسلسل کا انتظام، رول ماڈل، اجتماعی ماحول اور انتہائی اہم ایک مستحکم و منظم معمول فراہم کرتی ہیں۔ یہ اللّہ تعالیٰ کا مومنین پر بہت بڑا فضل و احسان ہے، جو ان کو ان اونچے مقاصد کے حصول پر مسلسل و مستقل گامزن رکھتا ہے۔
ان مقاصد کے حصول پر مہمیز کرنے والی تعبیرات اور حقیقتوں کی طرف بار بار متوجہ کیا گیا ہے۔
دنیا کی زندگی ایک امتحان اور عارضی مہلت عمل ہے، زندگی انتہائی برق رفتاری سے گزر رہی ہے، ہر انسان کو عظیم الشان کام یابیوں کے حصول کے بھرپور مواقع حاصل ہیں، نیکی کی راہ پر ٹہلو نہیں بلکہ دوڑو، عمل کی یہ مہلت صرف ایک بار ملی ہے۔
نصرت اور مدد کے وعدے ہیں جیسے محسنین کا کوئی عمل بھی ضائع نہیں ہوگا، اللّہ تعالیٰ اپنے فضل سے عمل کرنےوالوں کا اجر اور بڑھا چڑھا کردے گا، اللّہ تعالیٰ خوب کاروں کے ساتھ ہے۔
محرکات عمل فراہم کیے گئے ہیں اللّہ تعالیٰ کی رضا، دنیا و آخرت کی کام یابی، ہمیشہ ہمیشہ کی کام یابی، جنت میں درجات اور اونچے درجوں کا شوق دلایا گیا ہے۔
قوت کے سرچشموں اور مقاصد پر مستقل مزاجی کے ساتھ گامزن رہنے کا انتظام کیا گیا۔ نماز اور صبر کی شکل میں توانائیوں کے خزانے بتائے گئے۔
سیرت رسول ﷺ اور آثار صحابہ و صالحین کی شکل میں انتہائی اعلی اور حسین ترین عملی نمونے اور رول ماڈل فراہم کیے گئے۔
اعلی مقاصد کی علم بردار، صالح اور مددگار اجتماعیت کا انتظام فرمایاگیا۔
انتہائی منظم اور بابرکت معمول نمازوں خصوصًا تہجد کی شکل میں دیاگیا۔ نمازیں معمول پر چلنے کے لیے قوت کا سرچشمہ بھی ہیں اور اس بابرکت معمول کی محافظ بھی ہیں۔
بامقصد اور باشعور زندگی گزارنے کا یہ خدائی انتظام ہے۔ اور یہ بلند اور ہمہ جہت مقاصد شخصیت کے تمام گوشوں کو تعمیری اور بامقصد بنادیتے ہیں۔
بلند و بامقصد تفریح کے ضمن میں سیرت رسول پاکﷺ میں بہترین رہ نمائی نظر آتی ہے۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ ( کفار پر چلائے جانے والے) ایک تیر کے بدلے میں تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرتا ہے ایک تو اس تیر کے بنانے والے کو جب کہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ثواب کی بھی امید رکھے (یعنی جب جب وہ تیر بنائے تو اپنے روزگار کے ساتھ نیت بھی رکھے کہ میں یہ تیر جہاد میں کام آنے کے لیے بنا رہا ہوں) ( دوسرے) جہاد میں تیر چلانے والے کو اور ( تیسرے) تیر دینے والے کو ( یعنی وہ شخص جو تیر انداز کے ہاتھ میں اپنا یا اسی کا تیر دے اور خواہ پہلے ہی دے یا نشانے پر سے اٹھا کر دے) لہٰذا تم تیر اندازی کرو اور گھوڑوں پر سورای کرو یعنی تیر اندازی اور گھوڑ سواری کی مشق کرو اور تمھاری تیر اندازی میرے نزدیک سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور یاد رکھو انسان جس چیز کو لہو ولعب ( یعنی محض کھیل اور تفریح) کے طور پر اختیار کرے وہ باطل اور ناروا ہے مگر اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا اپنے گھوڑے کو سدھانا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیل و تفریح کرنا یہ سب چیزیں حق ہیں۔ ترمذی ابن ماجہ ابوداؤد اور دارمی نے ( اپنی روایت میں) یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں کہ اور جو شخص تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس کو بےنیازی اور بے زاری کے جذبہ سے چھوڑ دے تو وہ تیر اندازی ایک نعمت ہے جس کو اس نے چھوڑ دیا ہے یا یہ فرمایا کہ اس نے اس نعمت کا کفران کیا۔ (مشکوٰة المصابیح)
2۔ تفریحات طیبات کے دائرے میں ہوں
دوسری اصولی بات جو قرآن مجید میں اس سلسلے میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ مومن کی زندگی صرف ’ طیبات‘ سے ہی آراستہ ہو۔ مومن کا کھانا پینا، لباس، رہن سہن، معمولات، مشغولیات، مال و متاع، ہدایت و حکمت اور تفریحات تمام باتوں میں طیبات ہی کا انتخاب نظر آتا ہے۔
یا أَیهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلَالًا طَیبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِینٌ۔ إِنَّمَا یأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ ’’ اے لوگو ! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال طیب ہیں ان کو کھاؤ۔ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔ بیشک وہ تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے۔وہ تو بس تمھیں برائی اور بےحیائی کی راہ سجھائے گا اور اس بات سے منع کرتا ہےکہ تم خدا کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے بارے میں تمھیں کوئی علم نہیں ہے۔‘‘ (البقرة: 168،169)
طیب کے معنی ایسی چیز (مادی اور معنوی دونوں وسائل پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے)جو انسانی شخصیت، معاشرے اور تمدن کے لیے حلال، پاکیزہ، خوش گوار، صحت بخش اور روح پرور ہو۔ اس تعریف میں وہ تمام تفریحات شامل ہیں، جو پاکیزہ ہوں، صحت بخش ہوں، طبیعت کو خوش کردیں، دماغ کو تازہ دم کردیں اور روحانی بلندی و سرشاری سے ہمکنارکریں۔
حضورنبی کریم ﷺ کی مبارک زندگی میں اس ضمن میں بڑی قیمتی رہ نمائی ملتی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھی تو دوڑ میں ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی اور آگے نکل گئی، اس کے بعد جب (موٹاپے سے) میرا جسم بھاری ہو گیا تو (اس زمانہ میں بھی ایک دفعہ) ہمارا دوڑ میں مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے اور آگے نکل گئے، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمھاری اس جیت کا جواب ہو گیا۔‘‘(سنن ابی داؤد)
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں: خدا کی قسم! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز) حبشی لوگ مسجد میں نیزہ ماری کا کھیل کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ مجھے ان کا کھیل دکھانے کے لیے میرے لیے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے (جو مسجد ہی میں کھلتا تھا) میں آپ کے کاندھے اور کان کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی، آپ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے، یہاں تک کہ (میرا جی بھر گیا اور ) میں خود ہی لوٹ آئی۔ (حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ سے) اندازہ کرو کہ ایک نو عمر اور کھیل تماشے سے دل چسپی رکھنے والی لڑکی کا کیا مقام تھا۔ (متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ کی راہ میں دعوت، جہاد اور تربیت کے لیے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا، اپنی بیوی سے دل لگی، اپنے بچوں،ماں باپ کے ساتھ اور اہل خانہ کے ساتھ اچھا وقت گزارنا، ان کو قلبی راحت فراہم کرنابھی تفریح ہے،۔نئی دریافتیں کرنا، اچھی محفلیں سجانا، ادب کا مطالعہ، اچھی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، اچھے کھانے کھانا اور اچھے کھانے کھلانا، اچھے اشعار پڑھنا، دوسروں کو خوش کرنا، دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونا، غربا و مساکین کو خوش کرنا، کسی کے مسائل حل کرنا، اپنے ماں باپ سے ان کے تجربات جاننا، اپنے گھر والوں کے ساتھ سیر و تفریح، اپنے خاندان کے ساتھ تعمیری ڈرامے اور پاکیزہ فلمیں دیکھناوغیرہ یہ تمام تفریحات طیبات میں داخل ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ تفریح اور آوارگی میں فرق کیا جائے۔ تفریح خبیث نہ ہو۔ تفریح شیطان کے نقش قدم پر نہ ہو۔
خبیث طیب کی ضد ہے۔ خبیث تفریحات سے مراد ایسی تفریحات ہیں جو گم راہی کا باعث بنیں، عقل سے دور کردیں، فحاشی و عریانیت اور ہیجان انگیز میوزک کا رسیا بنادیں، حیوانی خواہشات کو ذہن پر غالب کردیں، انسان کو غافل کردیں، اخلاقی پستی میں مبتلا کردیں، جسمانی، نفسیاتی و ذہنی ضعف اور بیماری کا باعث بنیں، اسباب اور مالی نقصان کاسبب بنیں یا حرام کاریوں، گناہوں اور برائیوں میں ملوث کردیں۔ یہ تمام خبیث اور شیطانی تفریحات ہیں جو ہر لحاظ سے ضرررساں اور نقصان دہ ہیں۔
طیب تفریحات میں نہ صرف یہ کہ فرحت بخش پہلو ہے بلکہ یہ تمام تفریحات ایک مومن کو اور زیادہ ذمہ دار اور اپنے فرائض کے تئیں اور زیادہ حساس بنا دیتی ہیں۔
یہ تمام تفریحات ایک بامقصد انسان کی مقصدیت میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔
خبیث تفریحات تمام تر وہ تفریحات ہیں جو انسان کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف سے غفلت میں مبتلا کرتی ہیں۔
طیب تفریحات مقصد اور فرائض ہی کا ایک خوش آئند حصہ ہوتی ہیں۔ جب کہ خبیث تفریحات کا فرائض اور ذمہ داریوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی لیے یہ انسان کو نماز، رزق حلال کی دوڑ دھوپ، ماں باپ کی خدمت، بیوی سے خوش گوار تعلقات، اولاد کی تربیت، تحریکی سرگرمیوں وغیره سے بہت دور کردیتی ہیں۔ غفلت کا انجام پچھتاوا اور شرمندگی ہوتا ہے۔
3۔ تفریحات انسانی فضیلت کے شایان شان ہوں
اللّہ تعالیٰ نے بنی نوع انسانی کو بڑی فضیلت عطا کی ہے۔ انسان کواشرف المخلوقات بنا کر خلافت کا تاج اسے پہنایا ہے۔ دیگر تمام مخلوقات پر اسے فضلیت عطا کی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں انسان کو بلندی و سرفرازی کا جو مقام دیا ہے اس کا عشر عشیر بھی دیگر انسانی نظریات میں نظر نہیں آتا۔ بلکہ دیگر نظریات تو انسان کو بندر کی اولاد بنانے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا۔‘‘یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘ (الإسراء: 70)
انسان کی یہ عزت افزائی محض ایک بیان ہی نہیں ہے بلکہ خالق کائنات نے پوری کائنات میں انسان کی اس تکریم کا زبردست انتظام فرمایا ہے۔
طیبات کی ایک طویل فہرست ہے جو انسان کے اس مقام کے شایان شان خشکی اور تری میں بکھیر دی گئیں ہیں۔ اس کے عقلی اور اخلاقی وجود کی بلندی کی حفاظت کےلیے بھی اللّہ تعالیٰ نے شریعت اسلامی کی شکل میں زبردست اہتمام فرمایا ہے۔
انسان کی اس غیر معمولی عزت افزائی اور ممتاز مقام کا تقاضا ہے کہ انسان کے ہر عمل میں رفعت اور بلندی نظرآئے۔
جس طرح حیوانی ماکولات اور انسانی ماکولات میں فرق ہوتا ہے اسی طرح انسانی تفریحات اور حیوانی تفریحات میں فرق ہونا چاہیے۔ پاکیزہ دل کی تفریحات کو بھی پاکیزہ ہونا چاہیے۔
خبیث تفریحات کی ایک خصوصیت ان کاچمٹ جانا ہوتا ہے۔ عام زبان میں اسے addiction یا بری عادت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک بار چمٹ جانے کے بعد ان سے آسانی سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا ہے۔ ان سے اپنا دامن بچانے کے لیے شعوری جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
اسلامی تعلیمات ان ساری پستیوں سے نکال کر انسانی وجود کو وہی عظمت و بلندی عطا کرتی ہیں جو خالق کائنات نے اسے بخشی ہے – اس طرح اسلامی شریعت دراصل انسان کی عظمت و بلندی کی محافظ ہے۔
بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِیدٌ ’’یہ قرآن بلند پایہ ہے۔‘‘ (البروج:21)
قرآن مجید میں گناہوں سے بچنے کےلیے گناہوں سے دوری بنائے رکھنے کی تعبیر نظر آتی ہے۔
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ۔ ’’ اور بےشرمی کی باتوں کے قریب نہ جاؤ۔ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوں۔‘‘ (الأنعام:151)
بے شرمی اور بےحیائی سے بچنے کے لیے اس سے دور رہنا ضروری ہے۔ وہ تمام چیزیں جو بے حیائی کی طرف لے جائیں چاہے وہ کھلی ہوں یا چھپی ان تمام سے دور رہنا چاہیے۔ زنا سے بچنےکےلیے زنا سے دوری بنائے رکھنا ضروری ہے۔ فرمایا:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا۔ ’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ۔‘‘ (الإسراء: 32)
لغویات سے بچنے کے لیے لغویات سے دور رہنا ہی مومنین کی اہم صفت بتلائی گئی ہے۔
وَالَّذِینَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ۔ ’’وہ جو لغویات سے دور رہتے ہیں‘‘۔ ( المؤمنون: 3)
نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت پوری زندگی کو پاکیزہ بناتی ہے
قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَیحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا یصْنَعُونَ۔‘‘اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔‘‘ (النور:30)
نمازوں کی حفاظت تزکیے کے عمل پر قائم و دائم رکھتی ہے اور پورے دین کی حفاظت کی ضامن ہے۔ خبیث اور شیطانی تفریحات سب سے پہلے نماز پر ڈاکہ ڈالتی ہیں۔
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ یلْقَوْنَ غَیا۔ ’’پھر ان کے بعد وہ نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات نفس کی پیروی کی ’ پس قریب ہے کہ وہ گم راہی کے انجام سے دو چار ہوں۔‘‘ (مریم:59)
پاکیزہ اور طیب تفریحات اللّہ تعالیٰ کے شکر و احسان پر آمادہ کرتی ہیں۔ نماز اور اللّہ تعالیٰ کے ذکر کی لذت میں اضافہ کرتی ہیں جب کہ خبیث تفریحات اللّہ کے ذکر اور نماز کی طرف سے غفلت ڈال دیتی ہیں۔
4۔ خبیث تفریح قلب وعقل کے لیے مضر ہوتی ہے
قرآن مجید اور عقل دونوں انسان کےلیے تزکیہ، رفعت اور ارتقا کے حصول کا خدائی انتظام ہیں۔
انسانی عقل پر اگر خواہشات کا غلبہ ہوجائے تو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کی مثال اس کتے کی سی ہوجاتی ہے جو ہر وقت خواہشات کا حریص ہوتا ہے۔
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیهِ یلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ یلْهَث ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یتَفَكَّرُونَ۔ ’’اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں، تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو، شاید کہ وہ کچھ غور و فکر کریں۔‘‘ (الأعراف:176)
ایسی تفریحات جو عقل انسانی کو مہمیز دیں وہ اس کو رفعت و بلندی عطا کرتی ہیں اور یہی انسان کے شایان شان ہے۔
ایسی تفریحات جو عقل کو ماؤف کردیں، جذبات کا ہیجان کھڑا کردیں، انجام سے بے پروا کردیں، جنسیت اور انانیت کے آگے انسان کو بے بس کردیں، ایسی تفریحات انسان کو عقل کی روشنی سے دور کردیتی ہیں۔
تفریحات پاکیزہ ہوں، اور ہر تفریح عقل کو مہمیز دینے والی ،سچی، ٹھوس بامقصد اور اللہ سے قریب کرنے والی ہو۔ تفریحات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا یہی خلاصہ ہے۔
انسانی شخصیت کی تمام سرگرمیوں کے لیے یہ حدیث مینارۂ نور ہے:
’’میانہ روی اختیار کرو کیوں کہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ کام بگڑ جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
مشمولہ: شمارہ مئی 2022