اللہ تعالیٰ نے انسان کو حواس خمسہ اور عقل کی ایک قدر مشترک سے نوازا ہے۔ حواس خمسہ یعنی دیکھنے، سننے ، چھونے ، سونگھنے اور محسوس کرنے کی قوتیں فکر ونظر کامواد مہیاکرتی ہیں۔ فکر ونظر کی دعوت عقل تک پہنچاتی ہیں اور عقل اس مواد سے کام لینے اور دعوت کو قبول یارَد کرنے کی ذمہ دار ہے۔ دعوت کا فطری طریقہ یہی ہے ۔ لیکن اگر اس کے مقابلے میں کوئی غیر فطری طریقہ نہ ہوتو پھر اسلام کی کوئی امتیازی شان باقی نہیں رہتی۔ عقل سے اسلام کا تخاطب اتنا واضح اور نمایاں ہے کہ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اسلام عقل کو جگاتا ہے۔ بیدار کرتاہے، گردوپیش کے حقائق سے دوچار کرکے چونکاتا ہے اور جھنجھوڑ تا ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے سے اپنی بات منوانے کاایک طریقہ وہ بھی ہے جسے ’’تنویم‘‘کہاجاتا ہے یعنی یہ کہ مخاطب کی عقل کو سلادیاجائے، اس کی عقل کی مقاومت کو ختم کردیا جائے ، تاآنکہ وہ اپنی عقل اور ارادہ سے کام لے کر دعوت قبول کرنے کے بجائے داعی کے ارادے کامحض بے عقل تابع بن جائے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر آئے ان کی دعوت میں عمومی طور پر اس طریقہ سے احتراز کیاگیا۔ چنانچہ طفل گہوارہ کو بولتے دیکھ کر، مردہ کو زندہ کرکے دیکھ کر، چڑیوں کے منتشر اجزا کو ایک جا ہوتے اور ان میں جان پڑتے دیکھ کر عقل مد ہوش ہوجاتی ہے یہاں تک کہ جس دعوت کو سوچ سمجھ کر بحالت ہوش قبول کرنے کو تیار نہ تھی اسی دعوت کا بحالت مدہوش اتباع کرنے لگتی ہے۔ علما نے اس کو ’’اوباش‘‘ کا نام دیا ہے یعنی مدہوش کرکے بات منوائی جائے۔ یہ طریقہ آج بھی طرح طرح سے اختیارکیا جاتا ہے۔ تنویم مقناطیسی (Hypnotism) اس کی بھیانک شکل ہے۔ جو صوفیہ اپنے کاروبار کی بنیاد کرامات پر رکھتے ہیں وہ اس طریقے سے کام لیتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو بے چوں وچرا اطاعت پر آمادہ کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کے قوائے عقل کو بیدار نہیں کرتے۔ چنانچہ ان کے حلقوں میں توحید اور شرک وبدعت گڈمڈ ہوکر بلاتمیز عقل بیک وقت قابل قبول بن جاتی ہیں۔ سماع، رقص اور نجور (یعنی خوشبو کا دھواں) وہ منومات ہیں جو عقل کو سلانے میں مدد دیتی ہیں۔ صوفیہ کا وجد اور حال مجازی معنی میں نہیں بلکہ حقیقت میں شراب کے نشہ، مدہوشی اور قوائے عقل کے تعطل کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ صوفیہ کا جذب اور حال عمل کا موجب نہیں بنتا۔ عمل کا باعث یقین ہوتا ہے اور یقین علم کے اعلیٰ مدارج میں سے ہے۔ علم، عقل وہوش کی برقراری سے حاصل ہوتاہے۔ سیاست اور حکمرانی کے میدان میں دیکھئے ایک آمر یامطلق العنان سب سے پہلے عوام کو اپنی شخصیت سے مرعوب کرتاہے۔ اپنی اتفاقی کامیابیوں کو کرامات کا رنگ دیتا ہے۔ پھر عوام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی عقل بالائے طاق رکھ کر اس کی اطاعت میں لگ جائیں اور لوگ اپنی عقلوں کو بالائے طاق رکھ کر اس کی اطاعت کرنے لگتے ہیں جیساکہ ملکوں کے مطلق العنانوں اور عالمی طاقتوں خاص طور سے دوبڑی طاقتوں کی تاریخ سے اندازہ ہوتاہے۔
اسلام نے دعوت میں کہیں ادھاش (مدہوش کرنا) کے طریقے سے کام نہیں لیا معجزات جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں۔ ان کے بارے میں جو بھی اختلاف ہو۔ مگر اس بات پر سب کااتفاق ہے کہ اسلام نے دعوت کی بنیاد معجزات پر نہیں رکھی۔ اگر ایسا ہوتا تو جس طرح قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کے معجزات کا بار بار تذکرہ کیاگیا ہے۔ اسی طرح حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کابھی تذکرہ ہوتا اور تاریخی اور عملی طور سے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کوئی مثال موجود نہیں کوئی دعوت کاانکار کرتاہوتو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزہ دکھا کر اس کی عقل کو عاجز کردیاہو۔ جس اصحاب نے آپ پر ایمان لایا۔ وہ بلاتامل دل سے مانتے تھے اور زبان سے کہتے تھے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرمائیں وہ حق ہے خواہ وہ عقل میں سمجھ میں نہ آئے۔ لیکن جو لوگ آپؐ کی دعوت پر ایمان نہیں لائے تھے، انہوں نے جب معجزہ کامطالبہ کیا تو ان کو جواب ملاکہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کامعجزہ تو قرآن ہے۔ قرآن مجید ایسا کوئی جادو کامنتر نہیں جس کا خطاب عقل سے نہ ہو۔ بلکہ قرآن مجید سیدھی سادی صاف سمجھ میں آنے والی زبان میں ایسی تعلیمات پیش کرتا ہے جو عقل وسمجھ میں آنے والی ہوتی ہیں۔
ایمان لانا عقل کاایک ذمہ دارانہ فعل ہے۔ اس کی نوعیت خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ایمان لانے کے بعد عقل وحی کی برتری اور اس کی رہنما ئی تسلیم کرلیتی ہے۔ اب عقل اپنی مرضی اور اختیار سے اپنی تکمیل ذات اور فلاح دارین کی خاطر اپنے آپ کو کمال علم وقدرت رکھنے والی ہستی کے سپرد کردیتی ہے اور اس کے اوامرونواہی کی منتظر رہتی ہے۔ اسی کا نام اسلام ہے۔ اس مرحلے میں عقل کااپنے اختیار اور مرضی سے دست برداری محض تکمیل ذات کے لئےہوتی ہے۔ صلاحیتوں کو بے راہ روی سے محفوظ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ عقل کی کوششیں بھی نظم وضبط کی پابندی ہی سے بار آور ہوتی ہیں۔ اگر کوئی ایمان اور اسلام کو عقل کی آزادی پر قدغن اور اس کے لیے زنجیر پاسمجھتا ہے تو اس کو اختیار ہے کہ اس مرحلے میں ایمان سے اپنی دست برداری کااعلان کردے۔
عقل سلیم رکھنے والا جو ’’ہویٰ‘‘ سے مغلوب نہ ہو اسلام کی دعوت قبول کرتاہے۔ اس لیے کہ اس کا تخاطب عقل سے ہے۔ دعوت کے مرحلہ میں اسلام تفکیر فی الخلق یعنی انفس وآفاق میں غوروفکر کرنے پر اُکساتا ہے۔ گردوپیش کے طبیعی عجائبات اور تغیرات پر غور وفکر کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اس غوروفکر سے عقل میں جو سوالات اُبھرتے ہیں۔ اسلام ان کے جوابات کی تلاش وجستجو کا مطالبہ کرتاہے۔ ایک مرتبہ یہ تلاش وجستجو بیدار ہوجائے اور قوت پکڑلے تو عقل انسانی از خود توحید کی دہلیز تک پہنچ جاتی ہے اسلام ہاتھ پکڑ کر الٰہ واحد کا وہ جلوہ دکھاتا ہے جو تشبیہ اور تجسیم سے منزہ ہے۔ یہی حال نیکی اور بدی کا ہے۔ اسلام نیکی اور بدی کے معاملے میں عقل فطری کا حوالہ دیتا ہے یعنی وہ بتاتا ہے کہ نیکی وہ ہے جو تمہاری عقلوں کے لیے ’’معروف‘‘ ہے اور بدی وہ ہے جو تمہاری عقلوں کے لیے غیر معروف یعنی ’’منکر‘‘ ہے۔ لیکن انسان عقلیں مکان وزمان میں مقید ہونے کی وجہ سے کلی طور پر نیکی اور بدی کا ادراک نہیں کر پاتیں۔ یہاں اسے وحی الٰہی کی ضرورت پڑتی ہے جو اس کی دست گیری کرتی ہے۔ اس مقام پر انسانی عقل وحی الٰہی کو مخالف اور غیر سمجھنے کے بجائے اس کو اپنا حامی اور مددگار سمجھتی ہے جیسے ہی عقل وحی پر اعتماد کرتی ہے، نبوت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ تو جلوہ گر ہوتی ہے اور نیکی کو پروان چڑھنے کا پورا سامان اور موقع فراہم کرتی ہے۔ اور بدی کے قلع قمع کے اسباب مہیاکرتی ہے۔
دعوت کے مرحلے میں اسلام کا خطاب ’’عقل سلیم‘‘ سے ہوتاہے اور قبولیت دعوت کے بعد اس کا خطاب ’’عقل مسلم‘‘ سے ہے۔ دونوں میں نمایاں فرق ہے۔ عقل سلیم کسی کی تابع نہیں ہوتی اپنی بھلائی۔ برائی خود سوچتی ہے جب کہ عقل مسلم وحی الٰہی کے تابع ہوتی ہے۔ صحابہ کرام ہر موقع پر کہاکرتے تھے کہ افسوس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ پوچھ لیا وہ نہ پوچھ لیا، یعنی وہ اعمال کی ہئیات واشکال کی تعیین میں وحی کی مدد کے مزید طالب تھے۔ جب کہ اکیسویں صدی میں ہماری حالت یہ ہے کہ جو ہئیات واشکال اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہمیں دی گئی ہیں۔ ان سے دل تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ہئیات واشکال بھی معین نہ ہوتیں اور اسلام دنیا کے بعض ناپید اور نایاب مذاہب کی تعلیمات کی طرف صرف مبہم اقدار کا مجموعہ ہی رہتا تو کیسا اچھا ہوتا۔ چونکہ ان ہئیات واشکال کا تعین ثابت ہے۔ اور چودہ صدیوں نے ان پر اعتراف کی مہر ثبت کی ہے اس لیے ہم یہ بہانہ کرتے ہیں کہ یہ سب قرون اولیٰ کے لیے تھیں ہمارے لیے نہیں ہے۔ یہ دراصل وحی الٰہی سے بھاگنے اور اس سے آزاد ہونے کاایک حیلہ ہے۔ قدیم فلاسفہ کاایک گروہ تھا جو اپنے وجود میں بھی شک کرتاتھا۔ مسلم فلاسفہ ان سے تنگ تھے خود اپنے وجود کی دلیل دوسروں سے مانگتے تھے اور جو بھی دلیل دی جاتی اس کا انکار کردیتے تھے۔ بالآخر ایک نچلے چلبلے نے یہ تجویز بیان کی کہ انہیں خوب پیٹا جائے یہاں تک کہ یہ چلا اٹھیں ’’میں ہوں اس لیے کہ میں چوٹ کی تکلیف محسوس کرتاہوں۔ یہ علاج کہیں زیادہ کارگر تھا۔ بات کہنے کی یہ ہے کہ اسلام کی اقدار تو وہی ہیں جو عقل محض اورعقل سلیم سے اُبلتی اور اُبھرتی ہیں۔ انسان کی فطرت اللہ کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ اگر ایسانہ ہوتو اسلام اور عقل محض یا فطرت انسانی میں بھی ویسا ہی تصادم نظر آجائے جس کی مثالیں بعض دوسرے مذاہب میں ملتی ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ ’’ فطرۃ اللہ الی فطرالناس علیہا‘‘ چنانچہ اسلام فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس کی نمایاں مثال خود عقل ہے جس کی اہمیت اور قدر وقیمت کو اسلام پوری طرح تسلیم کرتا ہے۔
مختلف معاملات میں انسان کو اپنے دفاع کی ضرورت ہوتی ہے، جان مال اور عزت وآبرو کے یہاں کتنے ہی دشمن ہیں جو اس کے گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن غور کریں کہ خالق نے دیگر حیوانات اور مخلوقات کو پیدائشی طور پر اپنے دفاع کےاوزار اور آلات دے دیئے ہیں۔ سردی گرمی میں فطری ضروریات کی تکمیل کے لیے ان کے جسموں کو ایسا بنایا کہ ان سے وہ اپنی حفاظت کرتے ہیں۔ دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے سینگ ، پنجے، اور زہر جیسے اسلحوں سے ان کو لیس کیا۔ مگر انسان کا معاملہ الگ ہے۔ اس کو ظاہری طور پر کوئی اسلحہ نہیں دیا بلکہ اس چیز کو بھی اس کی عقل پر منحصر کردیا۔ اب انسان اپنی عقل کو استعمال کرکے دشمنوں سے مقابلہ کرتاہے۔ اس پہلو سے بھی عقل کی اہمیت انسانی زندگی میں سمجھ میں آئی ہےاسلام نے اس اہمیت کو اُجاگر کیا ہے اور اس کو دشمن کے مقابلے کے لیے پہلےسے تیار رہنے کی ترغیب دی ہے۔ جہاں تک تجارت صنعت وحرفت اور سائنس میں ترقی کی بات ہے تو جاننا چاہئے کہ سائنس علم ہے، علم کاوش چاہتا ہے اگر آج ہم سائنس میں پیچھے ہیں تو اس کے ذمے دار ہم خود ہیں نہ کہ ہمارا دین۔ جن ملکوں نے سائنس میں ترقی کی وہاں لوگوں نے محنت کی۔ جس نے جتنی محنت کی۔ اس نے اتنی ہی ترقی کی۔ سائنس کی ترقی اور مادی خوش حالی سرمایہ دارانہ نظام اورسودی بنک کاری کے ساتھ تو لازم ملزوم نہیں۔ اس کی مثال خود کمیونزم ہے جس نے سرمایہ داروں کی نیند یں حرام کردیں۔ ترقی کی اصل کنجی محنت ہے۔ ہمارے سائنس دانوں نے محنت نہیں کی بلکہ دین داروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش اختیار کی ظاہر ہے کہ اس سے حاصل کچھ نہ تھا۔ قرآن مجید نے انسان کے لیے تسخیر کائنات کاحوالہ درجنوں مقامات پردیاہے۔مسلمانوں نے ان حوالوں کو صرف قرآن مجید اور اسلام پر معترضین کو مطمئن کرنے کے لیے استعمال کیا۔ قومی سطح پر سائنس ترقی کے لیے نہیں کیا۔ عہد حاضر کی سائنسی دریافتوں کا جب تذکرہ آتا ہےتو مسلمان جھٹ سے قرآن مجید کاحوالہ دے دیتے ہیں کہ اس کی پیشین گوئی قرآن مجید میں موجود ہے مگر آج کے مسلمانوں نے محنت کرکے دنیاکو کسی بھی سائنسی دریافت سے روشناس نہیں کرایا۔ اس کا قصور وار اسلام نہیں ہے بلکہ ہمارا طرز عمل ہے۔اسلام کے نزدیک یہ زندگی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ آخرت تک وسیع ہے۔ اسلام نے انسانی عقل کو اس دوسری دنیا میں حصول نجات وکامیابی کے لیے بھی بیدار کیاہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے۔ عقل مند ہے وہ جو اپنے نفس کو بہترین بدلہ دے اور موت کے بعد کی تیاری کرے۔ قرآن مجیدمیں آخرت کے مضامین کو مختلف مشاہدات کے ذریعے سمجھا گیا ہے۔ تمثیلات انسانی عقلوں کو اپیل کرنے والی ہوتی ہیں۔
آخرت کی تیاری تمناؤں اور آرزوں کی بنیادپر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے دنیا کو مرزعۃ الآخرۃ کہا گیا۔ حقیقت میں کھیت میں بیج بونے والا ہی فصل کاٹتاہے۔ بیج کے زمین میں ڈالنے سے فصل تیار ہونے تک کے بھی کچھ تقاضے ہوتےہیں۔ ان کو پورا کیاجائے تبھی فصل کاٹی جاسکتی ہے۔ وقت اور عمر ایک رواں دریا کے مانند ہے۔ یقینی طور پر ایک دن انسان کی دنیوی زندگی کاخاتمہ ہوتاہے۔ انسان غفلت میں رہ کر اپنی زندگی کی مہلت کو گنوادے انتہائی کم عقلی کی بات ہے۔ قرآن مجید نے اس پہلو سے بھی انسان کو اور مومن کو بیدار کیا ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2014