راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو سمجھنا کئی دہائیوں سے دانش وروں اور صحافیوں کا مشغلہ رہا ہے، اور اس پر لکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں، جیسے ہی سنگھ پریوار ہندوستان میں سیاست کے مرکز میں آگیا ہے، وہیں سنگھ سے جڑے کئی نئے موضوعات سامنے آئے ہیں اور کئی نئے زاویوں سے اس کا مطالعہ کیا جانے لگا ہے۔ دنیش نارائن کی کتاب بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ دنیش نارائن کی دی آر ایس ایس اور ڈیپ نیشن کی تشکیل سنگھ کے تجزیاتی مطالعے کے ساتھ مستقبل کی پیشین گوئی بھی کرتی ہے۔ آر ایس ایس کو مسترد کرنے، اس کی تعریف کرنے یاتنقید کرنے میں مصنف نے جلد بازی سے کام نہیں لیا۔ مصنف نے کمال ہوشیاری کے ساتھ حتمی قسم کے بیانات سے پرہیز کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ سنگھ کے اندرونی خلفشار، تضادات اور ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے لیےاس کے غیر متزلزل، صبر آزما اور کٹھن مرحلوں کا تجسس کے ساتھ جائزہ لیتا ہے۔ مصنف نے سنگھ کے مختلف پہلوؤں کاغیر جانبدارانہ انداز میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن بعض جگہ سنگھ سے قربت یا ہمدردی کا گمان ہوتا ہے۔
کتاب کا عنوان ’ڈیپ اسٹیٹ‘ایک ڈرامے سے ماخوذ ہے، ، جس میں ابتدائی طور پر ترک سیاست پر سیکولر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح اس کا استعمال پڑوسی ملک کے معاشرے اور سیاست میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی گرفت کو ظاہر کرنے کے لیےبھی کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے امریکی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر سوال اٹھانے کے لیے بھی اس لفظ کا استعمال کیا۔ ڈیپ اسٹیٹ یا نیشن اپنی اصل کے اعتبار سے ایک پاور اسٹرکچر ہے جو راڈار کے نیچے کام کرتا ہے اور ملک اور قوم کو غیر محسوس طریقے سے کنٹرول کرتا ہے۔
کتاب پچھلے سو سال میں سنگھ کے سفر کو بیان کرتی ہے۔ ، اس کی ترجیحات اور اس کی پالیسیوں میں تبدیلی اور مختلف ایشوز پر اس کے اپروچ کو بتاتی ہے۔ کتاب کام یابی سےاس آر ایس ایس کے ارتقا کا سراغ لگاتی ہے جو بنیادی طور پر ایک ثقافتی تنظیم ہے جس نے صرف ہندوؤں پر توجہ مرکوز کی اور ایک سیاسی قوت بن گئی۔ مصنف نے آر ایس ایس کا ایک واضح، پرسکون اور غیر فیصلہ کن اکاؤنٹ لکھا ہے۔ اس کتاب میں نو ابواب ہیں جو ایک وسیع علاقے پر محیط ہیں۔ اس میں بہت تفصیلی کتابیات بھی ہیں۔ لیکن جس انداز میں اسے اکٹھا کیا گیا ہے، وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کتاب کا ایک قیمتی پہلو پچھلی صدی کے بجائے اس صدی کے مسائل پر توجہ دینا ہے۔ اس تناظر میں، ہندو معاشیات کا باب خاص طور پر معلوماتی ہے۔ یہ این ڈی اے 2 کے تحت اقتصادی پالیسی کی عجیب و غریب تشکیل کے بارے میں کئی اشارے دیتا ہے۔
کتاب سنگھ کی ہندو سماج میں کوششوں سے شروع ہوتی ہے۔ ’’ ہیڈگیوار، جو بنیاد پرست کانگریس مین (اور اخبار کیسری کے بانی) بال گنگادھر تلک کے مذہبی اور ثقافتی احیا کے نظریات سے بہت متاثر تھے، کا خیال تھا کہ ہندوستانی قوم میں صرف ہندوؤں کا ہی حقیقی حصہ ہے اور اس نے اپنی توانائیوں کو ہندو قوم پرستی کو نظریاتی چھتری کے نیچے مضبوط کرنے پر مرکوز کیا۔ آر ایس ایس نے ہندو سماج کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑنے، ہندوؤں کی ذہنی غلامی کو ختم کرنے، اور ہندو قوم کو دوبارہ متحد کرنے کا مشن اپنے سر لیا ہے۔ اپنے خوابوں کی قوم کو زندہ کرنے کے لیے سنگھ مختلف فکر و خیال کے لوگوں کو، فلسفیانہ اصولوں اور طرز زندگی کی چھتری کے نیچے متحد کرنا چاہتا ہے، ساتھ ہی ان میں ایک درجہ کی مادہ پرستی اور طاقتور قوم پرستی کو بھی جنم دینا چاہتا ہے۔۔ ہندو سماج میں کوئی ادارہ جاتی ڈھانچہ نہیں تھا جس کی ضرورت قوم پرستی کے لیے ضروری تھی۔ ہندوازم بنیادی طور پر روحانیت کا قائل تھا اور مادی رجحانات کو فروغ نہیں دے سکتا تھا۔ لیکن ہیڈگیوار ایک مادیت پسند ہندو سماج چاہتے تھے اس لیے انھوں نے ایک جدید تنظیم بنائی جو روایت کے ستونوں پر قائم ہے۔‘‘
ہیڈگیوار، ساورکر سے بہت زیادہ متاثر تھے کیوں کہ ہیڈگیوار کے پاس مشن تھا لیکن ہندو سماج میں ساورکر ایک مضبوط نظریاتی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ پھر بھی، ہیڈگیوار نے آر ایس ایس کو سیاسی طور پر وی ڈی ساورکر کی ہندو مہا سبھاسے الگ رکھا۔ ساورکر کی ہندو مہاسبھا کے ساتھ سیاسی طور پر اتحاد کرنا آر ایس ایس کو کانگریس کے حریف کے طور پر کھڑا کر دیتا، جو کہ وسیع تر بیس والا پلیٹ فارم تھا، اور ہیڈگیوار کانگریس کی مخالفت نہیں چا ہتے تھے وہ خود کانگریس کے رکن تھے۔ ہیڈگیوار کی موت کے بعد گولوالکر سنگھ سر چالک بنے۔ گولوالکر کے زمانے میں ساورکر اور آر ایس ایس کے تعلقات میں خرابی آگئی تھی۔ ساورکر عملی سیاست اور عسکری ہندوتو کے قائل تھے جب کہ گولوالکر اس دور میں سیاست اور عسکریت کو سنگھ کے لیے مضر خیال کرتے تھے۔ گولوالکر کا زیادہ فوکس افراد سازی, تنظیمی مضبوطی اور آئیڈیالوجی پر تھا جسے ساورکر عملی جدو جہد سے فرار قرار دیتے تھے۔ ساورکر نے اپنے سخت ترین تبصرے میں لکھا ہے
’’ The epitaph on a Sangh swayamsevak will be: ’’He was born; he joined RSS; he died’’
’’ایک سیوم سیوک کی سمادھی پر کیا لکھا جائے گا۔ وہ پیدا ہوا، آر ایس ایس میں شامل ہوا اور مرگیا۔ ’’
ہیڈگیوار اور گولوالکر دونوں نے شاید صحیح اندازہ لگایا کہ کانگریس کچھ عرصے تک غالب اور سب سے زیادہ وسیع بیس والی سیاسی پارٹی رہے گی اور اگر آر ایس ایس علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو یہ اتحاد آر ایس ایس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس لیے سنگھ نے اپنی توجہ افراد سازی پر مرکوز کردی۔ سنگھ نے ذیلی تنظیمیں بنا کر سماج میں اپنے اثرات بڑھا نا شروع کر دیا۔ گولوالکر کے بعد دیورس نے سنگھ کو ایک نئی سمت دی۔ دیورس نے سماجی خدمت کے ذریعے سنگھ کو آگے بڑھانا شروع کیا۔
’’اس(دیورس) کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، دیورس نے سنگھ کی عددی طاقت اور رسائی کو تیزی سے استعمال کرنا شروع کر دیا، سیاسی تحریکوں اور مختلف احتجاجوں کی پشت پناہی کے لیے اسے حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا۔ دیورس واضح طور پر دیکھ رہا تھا کہ ایک سیاسی ذہن جو واضح طور پر ہندو تھا، سیاست میں ابھر رہا ہے۔ اس کا نعرہ تھا: خدمت، جدوجہد، اور مساوات۔‘‘
’’دیورس نے دیکھا کہ صرف تنظیم پر توجہ مرکوز کرنے سے آر ایس ایس واقعی کہیں نہیں جا رہا ہے۔ اس کی زیادہ تر ملحقہ تنظیمیں مختلف دوسرے لوگوں کی طرح کام کر رہی تھیں، جو معاشرے میں کوئی حقیقی نظریاتی حرکت پیدا کرنے سے قاصر تھیں۔ آر ایس ایس کو لوگ ایک ہندو شاونسٹ تنظیم کے طور پر دیکھتے تھے جو ایک خفیہ سوسائٹی کی طرح کام کرتی تھی۔ دیورس نے سوچا کہ مختلف کمیونٹیوں کے ساتھ ان طریقوں سے جڑنا ضروری ہے جو زیادہ غیر جانبدار، سیکولر، محدود توجہ مرکوز اور اثر و رسوخ بنانے میں فائدہ مند ہوں۔ آر ایس ایس نے سیکٹر وار تنظیموں جیسے ڈاکٹروں کا ادارہ، وکلا فورم اور صارفین کے تحفظ کی سوسائٹی کی بھی حوصلہ افزائی شروع کی۔ اب اس کی چھتیس ملحقہ تنظیمیں ہیں جن میں سے زیادہ تر خود مختاری سے چلتی ہیں۔ اس کے پاس 1.6 لاکھ سے زیادہ سروس پروجیکٹ بھی ہیں، جن میں غریب طلباکے لیے چھوٹے اسکالرشپ پروگرام سے لے کر خصوصی اسپتالوں تک واٹرشیڈ پروجیکٹ شامل ہیں۔ ‘‘
دیورس نے سنگھ کو جامد گروہ سے ایک حرکیاتی تنظیم میں بدل دیا۔
’’ دیورس نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں سیاست کی اہمیت کو سمجھا۔ ان کا قول تھا: سنگھ سب کچھ کرے گا اور سنگھ کچھ نہیں کرے گا۔ متبادل طور پر: سنگھ کچھ نہیں کرے گا لیکن سیوم سیوک سب کچھ کرے گا۔ یہ الجھا ہوا طریقہ کار تنظیم کے مقصد کو واضح کرتا ہے۔ آر ایس ایس سماج میں صرف ایک اور تنظیم نہیں بننا چاہتا تھا۔ بلکہ وہ چاہتا تھا کہ پورا ہندوستانی معاشرہ اس کی قدروں کے مطابق چلے‘‘
ایمرجنسی، میناکشی پورم میں دلتوں کا قبول اسلام اور اس کے بعد رام مندر تحریک اور اس طرح کی تبدیلیوں کے سبب سنگھ بہت جلد ہندوستان کے سینٹر اسٹیج پر آگیا۔ آخر کار رام جنم بھومی مومنٹ کی بدولت سنگھ پہلی مرتبہ بی جے پی کی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا اور سنگھ کے سیوم سیوک اٹل بہاری واجپئی پہلی مرتبہ وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن اٹل بہاری حکومت سنگھی حکومت سے زیادہ کانگریس کا تسلسل ثابت ہوئی۔ این ڈے اے نے نرسمہا راو کی انھیں معاشی پالیسیوں کو آگے بڑھایا جن کی مخالفت سنگھ کرتا رہا۔
’’ واجپائی اور ان کے لوگ سویم سیوکوں کی طرح کم اور ’کانگریس والوں‘ جیسا برتاوٗ زیادہ کر رہے تھے۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو آزادانہ طور پر چلنے کی اجازت دینا، بڑے کاروباروں کو سرکاری چاندی بیچنا اور ہندو قوم پرست ایجنڈے جیسے— ایودھیا میں بھگوان رام کے لیے مندر بنانا، آرٹیکل 370 کو ختم کرنا اور یکساں سول کوڈ متعارف کرانا کو سرد خانے میں ڈالنا۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ جب تریپورہ سے آر ایس ایس کے چار آدمیوں کو اغوا کیا گیا توسنگھ کے کارسیوکوں کے ذریعے چلائی جانے والی حکومت بے بس ہو کر بیٹھ گئی۔ اس نے ایک نیپنسک (نامرد) کی طرح کام کیا، ایک تنظیم کے ساتھ اس سے برا کیا ہوسکتا تھا جو خود کے قیاس کے مطابق فولاد کے آدمی تیار کر رہی تھی۔ ‘‘
سنگھ بی جے پی سے ناخوش تھا، 2004 میں اس کا ہارنا یقینی تھا۔ کانگریس دوبارہ یو پی اے کے ذریعے اقتدار میں آئی۔ سنگھ نازک وقت سے گزر رہا تھا۔ ’’ کانگریس کے زیرقیادت متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت نے مبینہ طور پر آر ایس ایس اور ملک بھر میں بم حملوں کی ایک سیریز کے درمیان تنظیمی روابط کا پتہ لگایا تھا جس میں سینکڑوں افراد بالخصوص مسلمان ہلاک اور زخمی ہوئے تھے، جسے بدنام زمانہ زعفرانی دہشت گردی کا نام دیا گیا تھا، سنگھ تفتیشی ایجنسیوں کے کراس بالوں کے بیچ میں پھنس گیا تھا۔ 2011 کی خبروں میں بتایا گیا کہ اس کے سینئر لیڈر اندریش کمار کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ پرچارکوں کو پولیس پہلے ہی اٹھا چکی تھی۔ سنگھ کے رہ نماؤں کا خیال تھا کہ حکومت نے سنگھ سربراہ کو بھی ملوث کرنے اور خود تنظیم پر پابندی لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اسے جوابی حملہ کرنا تھا۔ اور اس کے لیے ایک موزوں آدمی کی ضرورت تھی۔ ‘‘
نریندر مودی سنگھ کو اس آزمائش سے نکال سکتے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سنگھ کی اعلیٰ قیادت میں کوئی بھی نریندر مودی کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن بھاگوت کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ بھاگوت نے سنگھ اور مودی کے درمیان مفاہمت کرکے سنگھ کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ ’’ وہ(مودی) ہر طرح سے ہندو قوم پرست تھے اور اگر آر ایس ایس ان کی قیادت کو تسلیم کرتا تو وہ اس کے ساتھ کام کرنے کو تیار تھے۔ سنگھ پریوار کی مثالی لیڈر کی تلاش ان پر آکر ختم ہوگئی۔ ملک کے سب سے طاقتور دفتر تک ان کا عروج آر ایس ایس نے منصوبہ بندی اور احتیاط سے انجام دیا تھا۔ جس آدمی کو وہ (سنگھ) چاہتا تھا دفتر میں آ گیا، آر ایس ایس نے اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے گیئر بدلے: تنظیم کو تیزی سے ہر کونے تک پھیلایا اور اداروں پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ صدی کے اختتام پر سیاسی طاقت آر ایس ایس کے لیے تبدیلی کا ایجنٹ ثابت ہوئی۔ ‘‘
سنگھ کی تبدیلی کے اس پورے پروسس کو مصنف نے بہترین انداز میں سمیٹا ہے
’’ ایک نظریہ ساز نے سنگھ کی بدلتی پالیسی کو سماجی-سیاسی تنظیم، سے سیاسی-سماجی تنظیم میں تبدیلی کے طور پر بیان کیا۔ دیورس نے کہا تھا کہ ہیڈگیوار کے زمانے میں آر ایس ایس سیاسی تنظیم تھا اور گولوالکر نے ثقافتی پہلو پر توجہ مرکوز کی تھی۔ دیورس نے اسے سماجی خدمات کی طرف راغب کیا۔ موہن بھاگوت کے زمانے میں ایسا لگتا ہے کہ پہیہ پورا چکر لگا چکا ہے۔ اگرچہ سنگھ کے مقاصد نہیں بدلے ہیں لیکن، اب سیاست اس کا پسندیدہ طریقہ کار ہے۔ ‘‘
عام طور سے سنگھ کے تنظیمی، کلچرل یا نظریاتی پہلوؤں کو بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کے معاشی نقطہ نظر پر گفتگو نہیں ہوتی ہے۔ دنیش نارائن نےسنگھ کی معاشی پالیسیوں اور اس میں بدلاؤ پر بھی گفتگو کی ہے۔ ابتدائی زمانے میں سنگھ کی معاشی پالیسیوں پر خاموش تبصرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے۔ ’’کانگریس، بائیں بازو اور نجی ادارے، آزاد ہندوستان میں معاشی نظام کیا ہو اس کے لیے سرگرم عمل تھےلیکن سیاسی گلیارے کے دائیں جانب سے شاید ہی کوئی بامعنی کنٹریبیوشن تھا۔ آزادی کے ایک دہائی بعد، دین دیال اپادھیائے نے بھارتیہ آرتھ نیتی: وکاس کی ایک دشا (ہندوستانی اقتصادی پالیسی: ترقی کا ایک نیا نمونہ) لکھی، ایک قومی پارٹی کی طرف سے پہلی اقتصادی پالیسی دستاویز جو قدامت پسند آواز کے زیادہ قریب تھی۔ اپادھیائے آر ایس ایس میں پہلے شخص تھے جنھوں نے ہندوستانی معیشت کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھا اور ملک کے لیے ایک وسیع پالیسی فریم ورک بنانے کی کوشش کی۔ اپادھیائے کا مقالہ جسے ایکتما مناواد (انٹیگرل ہیومنزم) کے نام سے جانا جاتا ہے آر ایس ایس کے ہر رضاکار کے لیے پڑھنا لازمی ہے۔‘‘
نرسمہا راؤ اور منموہن سنگھ کی معاشی اصطلاحات پرکے تعلق سے سنگھ نے سخت رویہ اپنایا، بھارتیہ مزدور سنگھ، بھارتیہ کسان سنگھ اور سودیشی جاگرن منچ کے بانی دتوپنت ٹھینگڑے نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’لبرلائزیشن اور گلوبلائزیشن [یہ] شیطان کے بائبل کا حوالہ دینے کا معاملہ ہے۔ منموہن سنگھ کا لبرلائزیشن سراسر غلط ہے۔ ہمارے ائر کنڈیشنڈ ریڈیکلز کی لبرلائزیشن جہالت ہے یا منافقت۔ لبرلائزیشن تمام غیر امریکی ممالک کے محب وطنوں کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔‘‘ دین دیال اپادھیائے کے بعد سنگھ میں، ٹھینگڑے ہی وہ شخص تھا جو معاشیات سے دل چسپی رکھتا تھا۔ عمومی طور پر سنگھ لیفٹ کی معاشی پالیسیوں کو ہی درست سمجھتا تھا۔ بلکہ یہی ایک ایسا ایشو تھا جس پر وہ لیفٹ سے اتفاق رکھتا تھا۔
’’1991کے آخر میں، ٹھینگڑے نے سودیشی جاگرن منچ کی بنیاد رکھی، ایک ایسی تنظیم جوسودیشی اور خود انحصاری کے مقصد کے لیے وقف ہے۔ بوکارے، ناگپور یونیورسٹی کا سابق وائس چانسلر، ، اپنی زندگی کے بیشتر حصہ میں ایک کٹر مارکسسٹ تھا، بعد میں اس نے مارکسی معاشی نظریہ کو مسترد کر دیا اور نیامعاشی نظریہ پیش کیا جسے اس نے ہندو معاشیات کے طور پر بیان کیا، یہ نظریہ اس نے رگ وید سے شروع ہونے والے ہندوستانی صحیفوں سے نکالا تھا۔ ٹھینگڑے نے ہندو معاشیات کو معاشی میدان میں پنڈت دین دیال اپادھیائے کے انٹیگرل ہیومنزم کی تشریح کے طور پر بیان کیا۔‘‘
1992 میں اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ آر ایس ایس نے کسی کانفرنس میں کوئی معاشی قرارداد پاس کی ’’ قرارداد میں کہا گیا کہ حکومت کی قیادت بین الاقوامی قرض دینے والی ایجنسیاں کر رہی ہیں اور ان کا مقصد ترقی یافتہ ممالک کے وسائل سے بھرپور پیداواری عمل کے لیے قدرتی وسائل کو روکنا ہے۔ اس پالیسی سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھوک اور افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور دیگر غیر ملکی کنٹرول ایجنسیوں کے لیے سیلاب کے دروازے کھول رہا ہے تاکہ ہماری قومی زندگی کے اہم شعبوں جیسے زراعت، صحت، تعلیم، ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ اور مالیاتی خدمات کو روکا جا سکے اور یہاں تک کہ دفاع، ایٹمی توانائی اور خلائی تحقیق کو بھی متاثر کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، ہماری مقامی صارف مارکیٹ پہلے ہی غیر ملکی اشیاسے بھری ہوئی ہے، جس سے ہماری تمام کاٹیج اور چھوٹی صنعتوں کو خطرہ ہے۔‘‘
کتاب سنگھ کے سودیشی سے کیپٹلزم تک کے سفر کو بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ سنگھ تمام عمر سودیشی کی پکار لگاتا رہا اور اس کا پورا لٹریچر سرمایہ دارانہ نظام اور کارپوریٹ کلچر کی مخالفت سے بھرا پڑا ہے لیکن حکومت میں آتے ہی سنگھ نےیکایک اپنا موقف بدل لیا۔ 1991تک جب سودیشی جاگرن منچ نے جنم لیا تھا تب تک آر ایس ایس کے پاس معاشی عالمی نظریہ بالکل واضح نہیں تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح جناح کی سیاست نے تنظیم کے سیاسی نظریے کو تیز کیا، اسی طرح نرسمہا راؤ کی معاشیات نے اس کی معاشیات کو تیز کیا۔ کتاب میں دابھول اور انرون پروجیکٹ میں سنگھ کی مخالفت اور پھر سپورٹ کی تفصیلات کو بہترین انداز میں کور کیا گیا۔
’’ شیوسینا-بی جے پی اتحاد مارچ 1995 میں اقتدار میں آیا۔ دو ماہ کے اندر، حکومت نے دابھول پاور پروجیکٹ کا جائزہ لینے کے لیے نائب وزیر اعلیٰ گوپی ناتھ منڈے کی سربراہی میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی مقرر کی۔ منڈے نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا: ’ہم اینران پروجیکٹ کو بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے۔ ‘ اگست میں، حکومت نے منڈے کمیٹی کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے اس منصوبے کو ختم کردیا۔ دائیں اور بائیں بازوں کے سینکڑوں کارکنان خوشی سے نہال تھے۔ وہ آخر کار جیت گئے تھے۔ یا پھر انھیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جیت گئے۔‘‘
اینرون کے خلاف اپنی تمام تر ناراضی غصے کے باوجود، اٹل بہاری واجپائی کی 13 روزہ حکومت نے امریکی کمپنی کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی۔ اس طرح ایک پاور فکسر، آنجہانی پرمود مہاجن نے راتوں رات بی جے پی کے سودیشی ایجنڈے کو ختم کر دیا، مصنف نوٹ کرتا ہے۔ ’’ پارٹی وتھ ڈفرنس جس کا معاشی نظریہ سودیشی کے ستون پر ٹکا ہوا تھا، وہ پاور پالیٹکس کے سامنے جھک گئی جس میں بے شمار دولت اور بین الاقوامی تعلقات شامل تھے۔ یہ ایک ایسا دھچکا تھا جس سے سودیشی جاگرن منچ کبھی نہیں ابھر سکا، اسی طرح سنگھ کے کئی کارکنان جیسےتاٹھے جنھوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔ آر ایس ایس نے، تمام عملی مقاصد کے لیے، ایجی ٹیشن سے پلگ کھینچ لیا تھا۔ ’’
واجپئی دور حکومت میں سنگھ کی مشکلیں اس وقت بڑھ گئیں جب اس کی ذیلی تنظیمیں بی جے پی اور سودیشی جاگرن منچ اکانامک ریفارمس کے ایشوز پر آپس میں ٹکرا گئیں۔
’’ تمام تر تنقید کے باوجود، واجپائی حکومت نے، انتظامیہ کے بہت کم تجربے کے ساتھ، لبرلائزیشن کو جاری رکھا۔ واجپائی نے شاذ و نادر ہی جواب دیا۔ وہ آر ایس ایس کے لیڈروں کا احترام کرتے لیکن اپنا راستہ خود طے کرتے۔ اس کے باوجود، سنگھ پریوار میں اس توازن کے بارے میں کچھ سمجھ نہیں تھی جو حکومت کر رہی تھی۔ انھیں کوئی تجربہ یا واضح سمجھ نہیں تھی کہ بین الاقوامی سرمایہ کیسے چلتا ہے اور عالمی تجارت کیسے کام کرتی ہے۔ ‘‘ لیکن بی جے پی اور سنگھ کی ذیلی تنظیموں کی لڑائی نریندر مودی کے زمانے میں شدید ہوگئی جب مودی حکومت کیپٹل ازم سے آگے بڑھ کر کرونی کیپٹلزم میں لت پت ہوگئی۔ ملک کی معاشی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے۔ سنگھ ایک بار پھر معاشی نظریات کے دوراہے پر کھڑا ہے اور اس کا اظہار موہن بھاگوت کی وجے دشمی کی تقریر کے اس حصے سے ہوتا ہے
’’مروجہ عالمی معاشی فکر بہت سے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے۔ اس کے معیارات بھی کئی لحاظ سے نامکمل ہیں۔ یہ حقیقت دنیا کے کئی ماہرین اقتصادیات کے سامنے آچکی ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں اپنا معاشی وژن، پالیسی اور نظام وضع کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو ہمارے اندر کم سے کم توانائی کے استعمال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرے جو کہ ماحولیات کے لیے فائدہ مند ہو، ہمیں ہر لحاظ سے خود کفیل بنا سکے اور ہم ا پنی طاقت اور شرائط کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کریں اورانھیں وسعت دےسکیں۔ ‘‘
اگر کوئی ایک ہی وقت میں مقامی مصنوعات اور عالمی سپلائی کو فروغ دینے کی مرکز کی موجودہ کوششوں میں بظاہر تضاد کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، تو یہ کتاب اقتصادی لبرلائزیشن اور عالمگیریت کے ساتھ سنگھ کی مصروفیت کی طویل اور مشکل تاریخ کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ کتاب مسلمانوں کے تعلق سے سنگھ کے موقف پر تفصیلی گفتگو کرتی ہے۔ مصنف بتاتا ہےکہ مسلمانوں کے تئیں سنگھ کی دشمنی میں غیر معمولی تسلسل ہے۔ مصنف مفاہمت کی کبھی کبھار کوششوں کو بھی نوٹ کرتا ہے۔
’’آر ایس ایس کی نظر میں، اصل دشمن، مضبوط، متحد اور جنگجو دشمن جس سے ملک کی سالمیت کو خطرہ تھا وہ اسلام تھا۔ برسوں کے دوران، مسلمانوں کے بارے میں آر ایس ایس کا عوامی موقف بدل گیا – یہاں تک کہ مسلمانوں کو آر ایس ایس کی رکنیت حاصل کرنے کی اجازت دی گئی – حالاں کہ تنظیم کے اندر ایک بڑا حصہ اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ ہندوستان سے اسلام کا صفایا ہونا چاہیے۔ اگرچہ سخت گیر لوگوں کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ بنیاد پرستانہ کارروائی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، دوسرے، جن میں کئی سرکردہ رہ نما بھی شامل ہیں، ہندو بنانے کی زیادہ صبر آزما حکمت عملی کے حامی ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے بارے میں سنگھ کے اندر افہام و تفہیم کا ایک دائرہ رہا ہے۔ اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے 2018 میں تین حصوں پر مشتمل ایک لیکچر سیریز کا انعقاد کیا، جس میں وہ مسلمانوں کے خلاف سنگھ کی اعلان کردہ دشمنی کو بھی مسترد کرتے نظر آئے۔ ’’ ہم کہتے ہیں کہ یہ ہندو راشٹر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں مسلمان شامل نہیں ہوں گے۔ جس دن یہ کہا جائے گا کہ ہمیں مسلمان نہیں چاہیے، وہ ہندوتو نہیں رہے گا۔‘‘
مسلمانوں کی آبادی اور اسلام سے ان کی وابستگی سنگھ کی بحثوں کا مستقل موضوع ہے۔ سنگھ کی بڑی تعداد مسلمانوں کا مستقل حل چاہتی ہے۔ ’’ آر ایس ایس کے ایک ذمہ دار نے جو ایک تھنک ٹینک چلاتے ہیں، کہا، مسلمان تب تک ٹھیک ہیں جب تک کہ ان کی آبادی 10 فیصد کے قریب رہتی ہے۔ اس سے آگے وہ خود کو منوانا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ اسی طرح سنگھ کے ایک طبقے کا ماننا ہے کہ ’’مسلمانوں کے بھارتی کرن سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ ان کا ہندو کرن کرنا ضروری ہے۔‘‘ مصنف تجویز کرتا ہے کہ سنگھ میں مسلمانوں کے خلاف سخت آوازیں، اعتدال پسند آوازوں سے زیادہ ہیں اور ان پر غالب بھی ہیں۔ سنگھ کی جدوجہد صرف مسلمانوں کے بارے میں اس کے خیالات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ذات پات اور لیفٹ کے بارے میں بھی اس کے خیالات ہیں۔ کتاب ان پر بھی تفصیلی گفتگو کرتی ہے۔
کتاب 2019 کے بعد کے حالات پرگفتگو نہیں کرتی ہے۔ کتاب کا اختتام سنگھ کا بی جے پی اور مودی کے تعلق سے موقف کو لے کر ہوتا ہے۔ 2019 کے انتخابات سے پہلے سنگھ کی مجلس شوریٰ اس بات پر متفق ہوتی ہے کہ ’’سنگھ کو ہندوستانی ریاست کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو اپنے نظریے میں ڈھالنے کے لیے مزید چند سال درکار ہیں۔ ’’ 2014 میں مودی کے بعض فیصلوں پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے موہن بھاگوت نریندر مودی کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی قیادت پر بھروسا ظاہر کرتے ہوئےان کے نقادوں کو خاموش کر دیتے ہیں۔ ’’ مودی نہ صرف ایک سویم سیوک اور ایک پرچارک تھے، بلکہ وہ ایک مثالی شخص تھے جواپنے کاموں کو عزم اور ایمانداری کے ساتھ انجام دیتے تھے۔ ایک سیاست دان اور منتظم کی حیثیت سے وہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہے تھے۔ ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے تمام فیصلوں کی وضاحت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے جو بھی کیا وہ قومی مفاد میں ہوگا۔ جہاں تک قوم کو نقصان پہنچانے کا تعلق ہے، سائل کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ آر ایس ایس چوکس تھا۔ ‘‘
مشمولہ: شمارہ مارچ 2022