پرجوش چینی آندھی
گذشتہ دو دہائیوں میں عالمی نظام دوبارہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔اس نئی تقسیم نے عالم اسلامی کو نئے چیلنجوں سے دوچار کردیا ہے۔ یہ تقسیم اور یہ چیلنج ہی اس مطالعے کا موضوع ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ نئی عالمی تقسیم اٹلانٹک مغرب سے ایشیائی مشرق/ یا یوریشیائی مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے قوت کے بہاؤ میں اضافہ کرے گی۔ اگرچہ یہ صورت حال کئی دہائیوں پہلے شروع ہوئی اور چین میں اقتصادی اٹھان اور روس میں مذہبی قومی بیداری کے ساتھ اکیسویں صدی کے آغاز میں اس کی رفتار تیز ہوگئی، تاہم لگتا ہے کہ یوکرین کی حالیہ جنگ تاریخ کے پہیے کی حرکت تیز تر کردے گی اور اس صورت حال کی تیز رفتاری کو بھی بڑھادے گی۔ اس صورت حال کو ہم نے یہاں ‘‘طلوع مشرق اور غروب مغرب’’کے نام سے موسوم کیا ہے۔
یہ انوکھی اصطلاح عربی کے ایک معاصر ادیب سے مستعار ہے، مصری قلم کار احمد حسن زیات (1885-1968)، جنھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس تعبیر کو استعمال کیا۔ مذکورہ مضمون 1938 میں فلسطین کے دفاع میں لکھا گیاتھا، اس کے اختتام پر یہودی غاصب کے پشت پناہ انگریزی استعمار کو متنبہ کرتے ہوئے زیات لکھتے ہیں: ‘‘فلسطین کو اللہ نے جب سے قائم کیا ہے وہ حملہ آور کے لیے مصیبت اور ظالم کے لیے نحوست ثابت ہواہے۔ مشرق و مغرب کے درمیان ایک مرتبہ عمر فاروق ؓکے زمانے میں وہاں مڈبھیڑ ہوئی، دوسری مرتبہ صلاح الدین ایوبیؒ کے زمانے میں آمنا سامنا ہوا۔ دونوں مرتبہ انجام کار مغرب کا غروب ہونا اور مشرق کا طلوع ہونا تھا۔’’ [1] زیات نے اس مجازی تعبیر کا استعمال مشرق کے عالم اسلام اور مغرب کے عالم عیسائیت کے درمیان تہذیبی کشمکش کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ہم اسے موجودہ تہذیبی کشمکشوں اور مقابلہ آرائیوں کے سیاق میں استعمال کریں گے۔
یاد رہے کہ اس مطالعے کے عنوان میں مشرق سے مراد وہ اسلامی مشرق نہیں ہے جو زیات کے مضمون میں مراد ہے، بلکہ ایشیائی مشرق یا یوریشیائی مشرق ہے جس میں خاص طور سے چین پیش نظر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عالم اسلام (سیاسی جغرافیائی منطق کی رو سے) نہ تو مشرق کا حصہ ہے اور نہ مغرب کا۔ یہ دونوں کے بیچ ایک درمیانی علاقہ اور ایک جداگانہ تہذیبی فضا ہے، جس کی اپنی سیاسی جغرافیائی خصوصیات ہیں۔ ہم اسلامی سیاسی جغرافیہ کے خدوخال بعد میں تفصیل سے بیان کریں گے۔
برسر اقتدار مغربی طاقتوں کی قیمت پر، عمومی طور سے ایشیا اور خاص طور سے چین کے عالمی مسند پیشوائی کی طرف بڑھنے کے حوالے سے ادھر گذشتہ برسوں میں بہت سی سیاہی بہائی گئی ہے۔ اسی طرح میخائیل گورباچوف (1931-2022) اور بورس یلتسِن (1931-2009) کے دور میں ضعف و درماندگی کے کئی برسوں بعد ولادیمیر پوتن کے زمانے میں روس کی اسٹریٹیجکل اٹھان کے بارے میں بھی بہت گفتگو ہوئی ہے۔ امریکی اور یوروپی نفوذ کے مقابلے میں چینی اٹھان اور روسی بیداری کو دنیا کی بری طاقتوں اور بحری طاقتوں کے درمیان جاری تاریخی کشمکش کی آخری جلوہ آرائی قرار دے سکتے ہیں۔ وہ کشمکش جسے روسی سیاسی فلسفی الیگزینڈر دوگن نے ‘‘ابدی سیاسی جغرافیائی دوئی’’ قرار دیا ہے۔[2]
اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے محققین نے مختلف پس منظر اور محرکات کی اساس پر گفتگو کی ہے۔ کوئی ایشیائی ہے جو نئی ایشیائی تہذیبی ریاست کے حق میں پرجوش ہے، کوئی مغربی ہے جو جون میرشایمر کی تعبیر کے مطابق ،جس پر ہم آگے گفتگو کریں گے ،‘‘پرجوش چینی آندھی’’سےخائف ہے۔ کوئی غیر جانب دار ہے جو بین الاقوامی بقائے باہم کی نئی بنیادوں کی جستجو میں کوشاں ہے۔ لیکن یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایشیا کا عروج اور چین کا عالمی منظر نامے کی قیادت حاصل کرنا، دو ایسے امر ہیں جو لازمًا ہوکر رہیں گے۔ اس موضوع پر جو کچھ مغربی اور ایشیائی اکیڈمک مباحث ہوچکے، ان پر یہ اضافہ کرنے کا موقع ابھی باقی ہے کہ اس تبدیلی کا گہرا اثر عالم اسلام پر کیا ہوا۔ اس اعتبار سے کہ وہ ایک تہذیبی گہوارا ہے، باہم مربوط جغرافیائی پھیلاؤ ہے اور ایک تجزیاتی اکائی ہے، جس کے اسٹریٹجک نتائج کو ایک سیاق میں رکھ کر دیکھا جاسکتا ہے۔
اس مطالعے میں جس منہج کو ہم نے اختیار کیا ہے وہ سیاسی جغرافیائی منہج ہے۔[3] اس اعتبار سے ہی نہیں کہ وہ ایک علمی میدان ہے، بلکہ اس اعتبار سے بھی کہ وہ بین الاقوامی نظام کے تجزیے کی خاص میتھوڈولوجی ہے،ایسا تجزیہ جو جغرافیائی عوامل کو اپنی بنیاد بناتا ہے، جیسا کہ سیاسی جغرافیہ کے متعدد ماہرین نے اس کی طرف توجہ دلائی۔[4] جغرافیہ سیاست کے تعین کنندگان (determinants) میں سے اہم ترین تعین کنندہ ہے، کیوں کہ وہ ریاست میں ایک ثابت عنصر اور اس کی قوت و ضعف کا اشاریہ ہوتا ہے۔ جغرافیہ کے مصری محقق جمال حمدان(1928-1993) نے اسے اس طرح بیان کیا: ‘‘ سیاسی جغرافیہ دراصل وہ علم ہے جو ریاست کو اپنے باقی رہنے والے فطری دائرے میں رکھ کر دیکھتا ہے اور اسے اس کی دائمی محکم بنیادوں کی طرف لوٹاتا ہے ۔’’[5]جیسا کہ امریکی اسٹریٹیجک مفکر نکلس سپیکمین (1893-1943) نے وہ قول کہا جو اس میدان کے وابستگان کی زبانوں پر اتنا چڑھ گیا، کہ ضرب المثل بن گیا: ‘‘وزیر تبدیل ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ ڈکٹیٹر بھی موت کی گھاٹ اتر جاتے ہیں، لیکن پہاڑوں کا سلسلہ ثابت قدم رہتا ہے۔’’[6]
مالک بن نبی نے سات دہائیوں قبل یہ نوٹ کیا کہ ‘‘عالمی ترقی کی حرکت میں موثر و فعال رول ادا کرنے کی خاطرعالم اسلام کو چاہیے کہ وہ دنیا کو جانے، خود کو جانے اور دوسروں کو اپنے آپ سے واقف کرائے۔‘‘ [7] ہوسکتا ہے کہ یہ مطالعہ عالم اسلام کو خود اس سے اور دنیا سے واقف کرانے میں معاون ثابت ہو، اور عالم اسلام کو حاصل امکان میں سنجیدہ غور و فکر کا ایک دروازہ کھول دے، جس کے ایک طرف مغربی قوتیں ہیں جو اپنی پوزیشنوں اور تاریخی نفوذ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں، گو کہ ان کی قوتیں پسپائی کی حالت سے دوچار ہیں، اور دوسری طرف مشرقی قوتیں ہیں جو آگے بڑھ رہی ہیں، اور اس علاقے میں پیدا اسٹریٹجک خلا کو بھرنے اور غروب پذیر مغربی نفوذ کا وارث بن جانے کے لیے پرجوش ہیں۔ عالم اسلام بین الاقوامی طاقتوں کے وزن کو لے کر بدلتی ہوئی مساواتوں کے بارے میں واضح نقطہ نظر کا شدت سے محتاج ہے،تاکہ وہ زیر اثر رہنے کی پوزیشن سے نکل کر اثر انداز ہونے کی پوزیشن حاصل کرسکے۔
ابھرتی ہوئی قوت اور غالب قوت
ڈھائی ہزار سال قبل یونانی مورخ تھوسی ڈائڈز ( ق مThucydides–400-460)نے ایتھنز اور سپارٹا کی جنگ کے اسباب پر لکھاتھا۔جنگ کے راست اسباب کی تشریح کرتے ہوئے اس نے دونوں فریقوں کے درمیان پیدا ہونے والے بحران کی جڑوں کی زیادہ گہری توجیہ پیش کی، اس نے لکھا: ‘‘میری رائے میں وہ چیز جو جنگ کا حقیقی سبب بنی، اگرچہ کہ اس کا علانیہ اعتراف نہیں کیا گیا، وہ ایتھینی قوت کا ابھرنا اور سپارٹا کا اس قوت سے مرعوب ہو جانا ہے۔’’[8]امریکی سیاسی مفکر گراہم ایلیسن (Graham Allison) نے تھوسی ڈائڈز کے مقولے سے بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں ایک نظریہ تشکیل دیا، اس کا نام رکھا: تھوسی ڈائڈز کا جال (Thucydides’s Trap)۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ ابھرتی ہوئی قوت اور غالب قوت کے بیچ میں جھڑپ یقینی ہے۔ اس نے اس نظریے کو امریکی چینی تعلقات پر منطبق کیا، اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ابھرتی ہوئی چینی قوت اور غالب امریکی قوت کا انجام کار ان کے درمیان جنگ کا ہونا ہے، چاہے یہ جنگ ان میں سے کسی کی بھی خواہش سے نہ ہو۔
ایلیسن کے مطابق اس کا سبب یہ ہے کہ امریکہ چین کی اٹھان سے ہرگز راضی نہیں ہوگا اور ادھر عالمی بالادستی کی اپنی خواہش سے چین ہرگز دست بردار نہیں ہونے والا ۔ اس کا اندازہ ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان مڈبھیڑ یقینی اور فطری ہے، اس کی رائے ہے کہ تاریخ کا استقرا بھی اس انجام کار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس خیال کو درست ٹھہرانے اور اسے مقبول بنانے کے لیے ایلیسن نے کتاب لکھی جس کا عنوان ہے: “حتمی جنگ: کیا چین اور امریکہ تھوسی ڈائڈز کے جال سے خود کو بچاسکیں گے؟” (Can America and China Escape Thucydides’s Trap) اس نے کتاب کو اس تنبیہی ابتدائیہ سے شروع کیا: ‘‘دو سو سال پہلے نپولین نے خبردار کرتے ہوئے کہاتھا: ‘چین کو اپنی نیند میں ڈوبے رہنے دو، کیوں کہ جب وہ جاگے گا تو پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دے گا۔’’’[9] اس کے بعد اس نے گذشتہ پانچ صدیوں میں ابھرتی ہوئی طاقتوں اور غالب طاقتوں کے درمیان تعلقات کے سولہ معاملات کا جائزہ لیا، اس نے یہ پایا کہ ان میں سے بارہ معاملات کا انجام جنگ پر منتج ہوا۔
ایلیسن کا یہ خیال اس وقت سامنے آیا جب اسٹریٹجک مفکرین کے درمیان کوئی دو دہائیوں سے اس سلسلے میں بحث گرم تھی کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ مغربی نظریہ کاروں کے ایک گروہ کا خیال ہےکہ دونوں بین الاقوامی دیو پیکروں کے درمیان جنگ ہوکر رہے گی، جب کہ ایشیائی نظریہ کاروں کا ایک گروہ سمجھتاہے کہ دونوں پر باہمی ربط و تعلق نباہنے اور مشترک مصالح کے حصول پر توجہ دینے کی عمل داری رہے گی، اور یہ کہ موجودہ غالب بین الاقوامی توازن کو چیلنج کرنے میں چین کا کوئی مفاد نہیں ہے۔ کچھ دیگر لوگوں نے اس امکان کو ترجیح دی کہ دونوں کے بیچ محدود قسم کی پرامن مقابلہ آرائی ہوگی جو جنگ کی نوبت تک نہیں پہنچے گی۔ ان کا خیال ہے کہ ‘‘ہوسکتا ہے کہ چین بیک وقت موجودہ بین الاقوامی توازن کے بعض عناصر کے لیے سہارا بنے اور بعض عناصر کے لیے چیلنج ثابت ہو۔’’[10]
ایلیسن کے علاوہ چین اور امریکہ کے بیچ ٹکراؤ کو حتمی قرار دینے والوں میں بین الاقوامی تعلقات کا مشہور نظریہ کار اور شکاگو یونیورسٹی کا پروفیسر جون میرشایمر ہے، اس کی رائے کو ہم آگے تفصیل سے بیان کریں گے۔ جو لوگ چین کو امریکہ کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے ، ان میں چینی دانش وروں کا ایک گروہ ہے، جن کا اصرار ہے کہ ٹکراؤ چین کی ثقافتی تاریخ کا حصہ نہیں ہے،یوں کہ وہ تعاون، صلح پسندی اور اجتماعی روح جیسی قدروں کی علم بردار ثقافت ہے۔[11] جو لوگ یہ امید رکھتے ہیں کہ دونوں فریقوں کے بیچ پر امن بقائے باہم کی کیفیت رہے گی، اور ان کے درمیان تعلقات اسٹریٹجیکل مقابلے والے رہیں گے، ان میں سے ایک سنگاپور کے تھنک ٹینک اور ڈپلومیٹ کشور محبوبانی (Kishore Mahbubani)ہیں۔ ان کے لیے ہم نے اس مطالعے میں ایک حصہ مختص کیا ہے۔نیز آسٹریلیا کے تھنک ٹینک اور سیاست داں کیون رڈ (Kevin Rudd)بھی ہیں جن کی اس موضوع پر کتاب کا نام ہے ‘‘جنگ جس سے بچا جاسکتا ہے ’’[12] (The Avoidable War)۔ اس نظریہ کاری کے کچھ نمونے ہم مناسب مقام پر تفصیل سے پیش کریں گے۔
انسانی تاریخ نے ہزاروں سال سے بڑی برّی قوتوں اور بڑی بحری قوتوں کے درمیان دائمی کشمکش دیکھی ہے، اس کے بہت سے مادی اور معنوی محرکات ہوتے تھے، اس کشمکش نے بہت سی اقوام اور تہذیبوں کے انجام کا فیصلہ کیا۔ معاصر سیاسی جغرافیہ کے بانی بزرگوں نے بڑے اہم نظریات پیش کیے، جو اس میدان میں تجزیاتی کنجیوں کی شکل اختیار کرگئے۔ ان نظریات میں سے ایک ‘‘زمین کے قلب’’ (Heartland) کا نظریہ ہے، جسے برطانیہ کے ہالفورڈ میکنڈر (John Mackinder–1861-1947)نے اپنی کتاب جس کا نام: “جمہوری آئیڈیل اور حقائق وواقعات” میں تشکیل دیا ہے۔ یہ 1919 میں شائع ہوئی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے اہم علاقہ یوریشیا کا علاقہ ہے، جسے اس نے زمین کا قلب نام دیا، یہ کم و بیش سابق سوویت یونین کے رقبے پر منطبق ہوتا ہے، اس کی کنجی مشرقی یورپ پر بالادستی ہے۔ میکنڈر کا خیال ہے کہ جس نے اس علاقے پر قبضہ حاصل کرلیا اس کے سامنے دنیا پر بالا دستی قائم کرنے کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس نے اپنی مشہور مساوات کو تین جملوں میں ڈھال کر پیش کیا:
جس نے مشرقی یوروپ پر حکومت حاصل کی اس نے زمین کے قلب پر کنٹرول پالیا
اور جس نے زمین کے قلب پر کنٹرول پایا اس نے عالمی جزیرے پر کنٹرول حاصل کیا۔
اور جس نے عالمی جزیرے پر کنٹرول حاصل کیا اس کی پوری دنیا پر بالا دستی قائم ہوگئی۔[13]
‘‘زمین کے قلب’’کے نظریے جیسا خیال اس سے پہلے امریکہ کے الفریڈ ماہان (1840-1914) کی کتابوں میں ملتا ہے، جو ‘‘یوریشیائی مغز’’کے بارے میں ہے۔ لیکن امریکہ کے اسٹریٹجک تھنک ٹینک نکلس سپیکمین (Nicholas J. Spykman)نے بڑی سرعت سے میکنڈر کا تعاقب کیا اور اس کی مساواتوں کو مکمل طور سے غلط قرار دیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا میں اہم ترین اسٹریٹجک علاقہ ‘‘زمین کا دل”نہیں ہے جسے میکنڈر نے پیش کیا ہے، بلکہ ‘‘زمین کا کنارہ’’ (Rimland) ہے جو اس قلب کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔یہ اس ہلال پر مشتمل ہے جو شمال مغربی یوروپ سے پھیلتا ہوا مشرق وسطی سے گزرتا ہوا جنوب مشرقی ایشیا تک پہنچتا ہے۔ سپیکمین نے اپنا نقطہ نظر دو جملوں پر مشتمل ایک نئی مساوات کی صورت میں تشکیل دیا، وہ دونوں ہیں:
جس نے زمین کے کنارے پر حکومت کی اسے یوریشیا پر کنٹرول مل جاتا ہے۔
اور جس نے یوریشیا پر کنٹرول پالیا اس کی بالادستی دنیا کے انجام کار پر قائم ہوجاتی ہے۔[15]
سپیکمین کے نزدیک ‘‘زمین کے کنارے‘‘ کے آئیڈیا سے وہ امریکی اسٹریٹیجی نمودار ہوئی جسے اپناکر امریکہ نے بیسویں صدی کی دو بڑی کمیونسٹ قوتوں یعنی سوویت یونین اور چین کو اپنے قابو میں کیا۔ یہ وہ اسٹریٹجی تھی جسے ہنری کسنجر(1923—-) اور زبیگنیف برژینسکی (1928-2017) نے اپنے افکار سے غذا فراہم کی اور برژینسکی نے بجا طور پر اسے بری قوتوں اور بحری قوتوں کے درمیان قدیم تاریخی کشمکش کی توسیع قرار دیا۔[16]
البتہ ہمیں اس مطالعے میں جس چیز سے زیادہ دل چسپی ہے وہ وہ ہے جس کی طرف جمال حمدان اور دیگر لوگ متوجہ ہوئے اور متوجہ کیا کہ بڑی بری قوتیں اور بڑی بحری قوتیں بسا اوقات عالم اسلام کے موجودہ علاقے کو خاص طور سے اس علاقے کے قلب یعنی مشرق وسطی کو جنگ کا میدان بنادیتی ہیں، کیوں کہ وہ دونوں فریقوں کے درمیان پایا جاتا ہے، یوں‘‘بر و بحر کی ہر قوت مشرق وسطی کی صورت میں اس درمیانی علاقے پر قابض ہونے کی کوشش کرتی ہے۔’’[17]
اس کا سبب یہ ہے کہ عالم اسلام درمیانی علاقہ ہے، ‘‘اس کی سرحدیں نقشے پر ایک حقیقی براعظم (درمیانی براعظم) بناتی ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے نپولین نے اسے نام دیا۔ جو اسٹریٹجکل سوچ کا آدمی تھا۔’’[18] یہ براعظم بر ی قوتوں اور بحر ی قوتوں دونوں ہی کو اکساتا ہے، اور ان تمام اقوام کے لیے کشش رکھتا ہے جو عالمی تاریخ کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں، کیوں کہ اس کا امتیازی اسٹریٹیجکل پوزیشن ہے۔ حمدان نے اسے اپنے ان الفاظ میں بیان کیا: ‘‘یہ درمیانی علاقہ دونوں قطبی فریقوں کے درمیان کشمکش کا علاقہ اور جنگ کا میدان بن گیا ہے۔ وہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان محصور ہوگیا ہے، کبھی یہ اسے کھینچتا ہے تو کبھی وہ ۔اس دائرے میں اس کی اسٹریٹیجک پوزیشن کی حساسیت واضح ہوئی ہے۔ یہ خصوصیت جس طرح مشرق وسطی کے علاقے میں نظر آتی ہے کسی اور جگہ نظر نہیں آتی، کیوں کہ وہ ایک طرف فارس اور وسط ایشیا اور دوسری طرف روما کے درمیان واقع ہے۔’’ [19]
بڑی بری قوتوں اور بڑی بحری قوتوں کے درمیان تاریخی کشمکش اس علاقے میں اور اس علاقے پر تواتر سے جاری رہی ہے۔ اسلام سے پہلے رومانی فارسی کشمکش سے شروع ہوئی، مسلمان عربوں اور مسیحی یورپیوں کے درمیان کشمکش سے گزرتی ہے، اس کے بعد مسلمان ترکوں اور مسیحی یوروپیوں کے درمیان کشمکش کا مرحلہ آتا ہے، اور جدید زمانے میں اس علاقے پر دوبارہ کشمکش چھڑتی ہے انیسویں صدی میں برطانوی اور روسی شہنشاہیت کے درمیان، پھر بیسویں صدی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے پر چین (اور اس کے حلیف روس) اور امریکہ (اور اس کے یوروپی حلیف) کے درمیان نئی کشمکش اکیسویں صدی کا ایک نمایاں نشان بن جائے گی۔ لگتا ہے کہ آج کی یہ کشمکش ویسی ہے جیسا کہ بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں عالم اسلام پر مشرق سے منگولی آندھی اٹھی تھی اور مغرب سے اس کے قلب میں صلیبی گھس رہے تھے۔
جیسا کہ حمدان نے نوٹ کیا، بر ی قوتوں اور بحر ی قوتوں کے درمیان اس داخلی اور خارجی علاقے میں متواتر کشمکش نے اس کی تاریخ کو ایک خاص رنگ دیا ہے، اور یہ بھی طے کیا ہے کہ عالمی میدان میں اس علاقے کی پوزیشن کا اسٹریٹیجک شعور اور اس کی اہمیت کا ادراک وہاں کے لوگوں کو بھی ہو اور دوسروں کو بھی ہو۔ کیوں کہ ‘‘بر و بحر کی طاقتوں کے درمیان کشمکش کی اس متواتر صورت سے جو اہم نتیجہ ہمیں حاصل ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اب جب کہ اس کشمکش کی حجم بڑھ چکا ہے اور اس کے بازو براعظموں تک پھیل گئے ہیں، وہ حساس ہوگئی ہیں ان درمیانی مقامات کے سلسلے میں جو ان کو جدا کرتے ہیں، نیز ان کی اسٹریٹیجک حیثیت سے آگاہ ہوچکی ہیں۔[20] اس مطالعے کی غایت یہی ہے کہ خود اس علاقے کے مکینوں کے یہاں اس پوزیشن کے شعور کو بڑھایا جائے، بین الاقوامی نظام میں بڑی تبدیلی کے اس لمحے میں جب کہ سبھی اس کے مواقع کو جیت لینے اور اس کے خطرات سے بچ نکلنے کے لیے بے قرار ہیں۔
اسے قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں
سنگاپور کے تھنک ٹینک اور ڈپلومیٹ کشور محبوبانی ایشیائی شناخت اور ایشیائی طاقت کی جانب کھلی ہوئی جانب داری کی پوزیشن لے کر بات کرتا ہے، گو کہ یہ اس کے سیاسی تجزیوں کی گہرائی اور اس کی اسٹریٹیجک نگاہ کی دور رسی کو مجروح نہیں کرتا، وہ زبردست مفکر اور زیرک ڈپلومیٹ ہے۔ محبوبانی نے ایشیا اور چین کی اٹھان کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے:
جدید ایشیائی نصف کرہ: مشرق کو طاقت کی ناگزیر منتقلی۔[21] (The New Asian Hamisphare: The Irresisteble Shift of Global Power of of the East)
ایشیائی اکیسویں صدی (The Asian 21st Century)
کیا چین جیت گیا؟ امریکی بالادستی کو چینی چیلنج (Has China Won? The Chinese Challenge to American Primacy)
کیا مغرب ہار گیا؟ فکر انگیزمقالہ (Has the West Lost It?: A Provocation)
کیا ایشیائی غور و فکر کرسکتے ہیں؟[22](?Can Asians Think)
مغربی پسپائی اور ایشیائی (خاص طور سے چینی) پیش قدمی کے سلسلے میں محبوبانی کے خیالات اس کی تمام کتابوں میں تکرار کے ساتھ ملتے ہیں۔ ہم یہاں بقدر گنجائش اس کے نمایاں خطوط پیش کرنے پر اکتفا کریں گے۔ محبوبانی نوٹ کرتا ہے کہ ‘‘گذشتہ تین صدیوں کے دوران، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی اقوام عالمی تاریخ کے لیے خام مواد تھیں، اور وہ فیصلے جنھوں نے تاریخ کی تشکیل کی کچھ مغربی دارالحکومتوں میں طے پاتے تھے۔ لیکن اب ایسا ہے کہ بقیہ اقوام عالم ہرگز یہ قبول نہیں کریں گی کہ ان کے سلسلے میں فیصلے مغربی دار الحکومتوں میں لیے جائیں۔’’[23]
محبوبانی بحث کرتے ہیں کہ ‘‘آج دنیا اپنی تاریخ کے ایک اہم ترین دوراہے پر کھڑی ہے’’ اس طور پر کہ ‘‘ہم اس مختصر لمحے سے دور ہورہے ہیں جس میں مغرب کی عالمی تاریخ پر بالادستی تھی’’[24]
‘‘آج دنیا تہذیبوں اور معاشروں کی بیداری کو دیکھ رہی ہے جو بڑی طویل مدت سے نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔’’[25]وہ اصرار کرتے ہیں کہ خاص طور سے ایشیائی انسان مغربی اقدامات پر سلبی انفعال کی کیفیت نکل کر معاصر دنیا کی تاریخ بنانے میں فعال شرکت والی حالت اختیار کرچکا ہے۔ گذشتہ چار دہائیوں میں چین کے سلسلے میں یہ بات دوسری اقوام سے زیادہ نمایاں ہوئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں چینیوں نے اپنی تہذیب پر اعتماد اور اپنی ذات کے احترام کی بازیافت کرلی ہے۔
محبوبانی مغرب کو نصیحت کرتا ہے کہ جسے قبول کیے بنا چارہ نہیں ہے اسے قبول کرلے۔ مطلب یہ ہے کہ مغرب کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ دنیا پر مغربی پیشوائی قصہ پارینہ بن چکی ہے، مستقبل میں انسانوں کے مستقبل کا تعین ایشیائی ابھرتی ہوئی قوت کرے گی۔ وہ چین اور روس کے اس وژن کا علم بردار ہے کہ ناٹو کو توڑ دیا جائے ۔بحر اٹلانٹک کے یوروپی کنارے کو امریکی کنارے سے جدا کردیا ہے۔ معلوم رہے کہ روس اور چین اس مقصد کو مختلف طریقوں سے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ روسی اسٹریٹیجک نظریہ کاری میں (جس کی ترجمانی دوگن Alexander Dugin کرتا ہے) یہ کوشش کھلے ہوئے تصادم مترادف ہے، جب کہ چین یوروپ اور امریکہ کے بیچ تفریق کو نرم طریقے سے انجام دینا چاہتا ہے، وہ طریقہ ہے یوروپیوں کو خود اعتمادی پیدا کرنے اور امریکی چھتر سائےسے الگ ہٹ کر مستقل اسٹریٹیجک شناخت بنانے پر اکسانا۔ محبوبانی نے چینی وژن کی ترجمانی کرتے ہوئے یوروپیوں کو نصیحت کی کہ چینی امریکی مقابلہ آرائی کے سلسلے میں وہ غیر جانب دار رہیں۔ اس نے کہا: ‘‘یوروپ اچھے سے اچھا جو کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنا مستقل کردار رکھے، جب تم خود اچھے خاصے بڑے ہو تو تمھیں دوسرے کے مدار میں گردش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’’[26]
محبوبانی نے وہی نصیحت آسٹریلیا کو کی، جو کہ دراصل بحرالکاہل میں مغربی تہذیب کا امتداد ہے، اور براعظم ایشیا کو قریب قریب چھوتا نظر آتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں وہ اینگلو سیکسنوں کے معاہدے یعنی معاہدہ آکس (AUKUS) میں شامل ہوگیا جو چین دشمنی پر قائم ہے۔ محبوبانی نے آسٹریلیا کو نصیحت کی کہ وہ ایشیائی ماحول کو تسلیم کرے جس سے اس کا مکانی رشتہ ہے، وہ دور دراز امریکی قوت پر تکیہ نہ کرے، جنوبی امریکہ کی ریاستوں کو نمونہ نہیں بنائے جنھوں نے اپنے طاقت ور شمالی پڑوسی کی طاقت کے ساتھ سمجھوتا کرلیا۔ وہ کہتا ہے: ‘‘آسٹریلیا کے کیس میں، میری نصیحت یہ ہے کہ چوں کہ آسٹریلیا چار ارب ایشیائیوں سے گھرا ہوا ہے، اسے چاہیے کہ اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتا کرے۔’’[27]
بین الاقوامی نظام اور عالمی صلح کے مستقبل کے لیے بنیادی چیلنج یہ رہتا ہے کہ مغرب ایشیائی اٹھان کو اور خاص طور سے چینی اٹھان کو کس قدر قبول کرتا ہے۔ محبوبانی کا خیال ہے کہ مغربی ممالک ‘‘ایشیائی ملکوں کی اٹھان سے بےچینی محسوس کررہے ہیں’’[28] حالاں کہ یہ تصور بے سود ہے کہ دنیا کے 12% باشندے باقی لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں جن کا تناسب دنیا کے باشندوں میں 88% ہے۔ ابھی تک تو یہ اکثریت مغرب کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ ہے، تاہم جب مغرب یہ چاہے گا کہ وہ اپنی بالادستی کو جاری رکھے تو بہت شدید ردعمل ہوگا جس سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی سبب سے انسانیت تاریخ کے فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔’’[29]
اگرچہ محبوبانی مغرب کے ساتھ نظریاتی دشمنی نہیں رکھتا، مثلا جس طرح دوگن رکھتا ہے، تاہم اس کی مغرب کو جانے کی نصیحت میں یہ دھمکی مضمر ہے کہ ایشیا اور خاص طور سے چین کی اٹھان کو روکنے کی کسی بھی کوشش سے مغرب اپنی بین الاقوامی پوزیشن کھودے گا اور اپنے خول میں سکڑ کر رہ جائے گا۔ دوگن نے بھی اسی سے ملتی جلتی نصیحت یوروپ کو دی کہ اسے محض امریکی پل کے ایک سرے سے زیادہ اپنی حیثیت بنانا چاہیے۔ اس نے اس کے اٹلانٹک ساحل اور براعظمی قلب میں فرق کیا ہے۔[30] یہ واضح ہے کہ محبوبانی جب مغرب کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ ایشیا کی اٹھان کو تسلیم کرلے، اور یوروپ کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ امریکی اسٹریٹیجکل چھتر سائے سے آزادی حاصل کرے، اور آسٹریلیا کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ ارد گرد کے ایشیائی خطے کے ساتھ سمجھوتا کرلے، تو یہ نصیحتیں پارسائی پر مبنی نہیں ہوتی ہیں نہ ہی ان کا محرک محض بقائے باہم اور صلح پسندی ہے، بلکہ اس کے پیچھے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ان میں اہم ترین یہ ہے کہ ایشیائی اور خاص طور سے چینی اٹھان کو آسان اور رکاوٹوں سے پاک بنایا جائے۔ یہ ابھرتی طاقتوں کی منطق ہے، جو غالب قوتوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کرتی ہیں، اس آرزو کے ساتھ کہ کم قیمت پر قبضہ حاصل ہوجائے۔ لیکن مغرب جو پیشوائی کا عادی رہا ہے وہ ان نصیحتوں کو زیادہ نہیں سنتا ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ وہ جھڑپ اور کشمکش کے بغیر ہرگز پچھلی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے راضی نہیں ہوگا۔ اس مطالعے میں آگے ہم دکھائیں گے کہ چین کی اٹھان سے امریکہ کتنا اندیشہ مندہے۔
محبوبانی نے عالم اسلام کو ایجابی نوعیت کی اہمیت دی، اس حیثیت سے کہ وہ اس کے خیال میں ایشیائی قوت کا حصہ ہے۔ وہ ان تعصبات سے دور نظر آتا ہے جو کبھی کبھی بعض ایشیائی غیر مسلم تعلیم یافتہ لوگوں میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ اس کا یہ پہلو قابل قدر ہے۔ وہ ایشیا جس کے بارے میں محبوبانی خوش خبری دیتا ہے کہ وہ عالمی مسند پیشوائی پر متمکن ہوگا تین بنیادی عناصر سے تشکیل پاتا ہے، وہ ہیں چین، ہندوستان اور عالم اسلام۔ وہ عالم اسلام کے ایشیائی حصے پر ارتکاز کرتا ہے، یہ بات آئیڈیالوجیکل اور اسٹریٹیجکل اسباب کی بنا پر سمجھی جاسکتی ہے۔ مزید یہ کہ عالم اسلام کا ایشیائی حصہ اس کے انسانی اور جغرافیائی حد کا مرکز ثقل ہے۔
یہ جو محبوبانی عالم اسلام کو ایشیائی منظرنامے کا محض ایک عنصر قرار دیتا ہے، ہمیں اس پر تحفظ ہے۔ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کو ایک تہذیبی گہوارہ اور دوسروں سے ممتاز جیو اسٹریٹیجکل اکائی سمجھا جائے۔ اس سے اس کی نفی نہیں ہوتی کہ اس کا مشرقی بازو پھیل کر ایشیائی دنیا میں شامل ہے اور اس کا مغربی بازو پھیل کر افریقی دنیا میں شامل ہے۔ آگے ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔ غرض عالم اسلام اپنے ایشیائی بازو اور افریقی بازو سے سے بڑا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے عالم اسلام کا ایک حصہ ایشیا کا ایک حصہ ہے اور دوسرا حصہ افریقہ کا ایک حصہ ہے۔
اس سیاق میں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ متعدد مسلم ایشیائی اہل نظر نے محبوبانی سے پہلے ایشیائی بیداری کی نویدِ صبح سنائی ہے۔ ان میں سے ایک ملیشیا کے مفکر اور سیاست داں انور ابراہیم ہیں، جنھوں نے اس عنوان سے ایک کتاب چوتھائی صدی پہلے شائع کی تھی۔ [31] اسی طرح عالم اسلام کا ایشیائی شناخت سے جداگانہ ہونا ایک قدیم مسئلہ ہے۔ ایک صدی قبل ہمیں اس کی گونج سنائی دیتی ہے اس سیاسی اختلاف میں جو شاعر اسلام محمد اقبال (1877-1938) اور ہندوستانی رہ نما مہاتما گاندھی (1869-1948)کے درمیان، گو کہ ان کے درمیان گہرا شخصی احترام موجود تھا۔ گاندھی کا اصرار تھا کہ ہندوستانی قومی شناخت کو ہندوستان میں سیاسی اجتماعیت کی اساس بنایا جائے، جب کہ اقبال کا عقیدہ تھا کہ عقیدہ و ثقافت درست سیاسی اجتماعیت کے لیے قومی رابطے سے زیادہ اہم ہے۔اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ثقافتی خلیج کے پیش نظر دونوں فریقوں کے لیے زیادہ محفوظ راستہ یہ ہے کہ دونوں الگ الگ سیاسی وجود بن کر رہیں۔[32] 1930 میں شہر الہ آباد میں ان کا مشہور خطاب ہوا تھا جسے مورخین نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ولادت نامہ قرار دیا ہے۔
گو کہ محبوبانی عالم اسلام کے خلاف گروپ بندی کے گراؤنڈ سے بات نہیں کرتا ہے، اور وہ جب عالم اسلام کو ایشیائی مجموعے میں شامل کرتا ہے تو یہ ہم دردی کا موقف رکھنے کی وجہ سے کرتا ہے، تاہم اس کے اس حسن نیت سے کیے گئے تجزیے پر مرتب ہونے والا عملی ثمرہ سوٗئے نیت رکھنے والے مغرب کے نظریہ کاروں کی سوچ کے عملی نتیجے سے جاملتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے عالم اسلام کو محض اپنی جنگوں کا میدان قرار دیا، یا اپنی قوت کو مضبوط کرنے کا ذریعہ سمجھا، اسے ایک باہم مربوط تہذیبی وجود اور ایک جیو اسٹریٹیجک میدان نہیں سمجھا، جس کی اپنی ماہیت ہے، اپنی شناخت ہے اور بین الاقوامی میدان میں اس کی اپنی آرزوئیں ہیں۔ آگے ہم ان مغربی نظریہ کاروں کے نظریات پیش کریں گے اور ان میں سے ہر ایک کے یہاں عالم اسلام کی کیا پوزیشن بنتی ہے، اسے بھی بیان کریں ۔n
حوالے:
أحمد حسن الزیات، ‘‘فی سبیل فلسطین: المؤتمر البرلمانی للأمم العربیة والإسلامیة،‘‘ مجلة الرسالة، العدد 275 (10 أكتوبر 1938)، ص 1642۔
ألكسندر دوغین، أسس الجیوبولتیكا: مستقبل روسیا الجیوبولتیكی، ترجمة عماد حاتم (دار الكتاب الجدید المتحدة، بیروت: 2004)، ص 64۔
جیو پالیٹیکس کی اصطلاح بین الاقوامی اسٹریٹیجی پر ارتکاز کرتی ہے، اور پولیٹیکل جیوگرافی میں ملکوں کی داخلی ہیئت زیر بحث رہتی ہے۔ ہم نے یہاں سیاسی جغرافیہ کی اصطلاح قصدًا استعمال کی ہے، سیاق سے مفہوم سمجھا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی نظام کے تجزیہ کے وسیلے اور منہج کے طور پر جن لوگوں نے سیاسی جغرافیہ کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے جمال حمدان، وافِّیلْ كِیلی، وساؤول كوهین کے نام ہیں۔ دیکھیں: جمال حمدان، استراتیجیة الاستعمار والتحریر (بیروت: دار الشروق: 1983)، ص 9. اسی طرح:
Phil Kelly, Classical Geopolitics: a New Analytical Model (Stanford: Stanford University Press, 2016), p. 7; Saul Bernard Cohen, Geopolitics: the Geography of International Relations (Lanham: Rowman & Littlefield, 2015), p.15.
جمال حمدان، الجماهیریة العربیة اللیبیة الشعبیة الاشتراكیة العظمى: دراسة فی الجغرافیا السیاسیة (القاهرة: مكتبة مدبولی، 1996)، ص 11۔
Nicholas J. Spykman, ‘‘Geography and Foreign Policy, I‘‘ The American Political Science Review, Vol. 32, No. 1 (Feb., 1938), p. 29.
مالك بن نبی، وجهة العالم الإسلامی، ترجمة عبد الصبور شاهین (دمشق: دار الفكر، 1986)، ص 165۔
Thucydides, The Peloponnesian War, Translated by Martin Hammond (New York: Oxford University Press, 2009), p.13.
Graham Allison, Destined for War: Can America and China Escape Thucydides’s Trap? (Boston: Houghton Mifflin Harcourt, 2017).
Huiyun Feng and Kai He (edits.), China’s Challenges and International Order Transition: Beyond ‘‘Thucydides’ Trap‘‘, (Ann Arbor: University of Michigan Press, 2020), p. 3.
جو لوگ اس تھیسیس کو پیش کرتے ہیں ان میں بطور مثال خاتون چینی اکیڈمیشن جِیشنگ سنْ ہیں. دیکھیں:
Jisheng Sun, ‘‘Chinese Culture, Ideas, and Approaches to Influence the International Order,‘‘ in Feng and He (edits.), China’s Challenges and International Order Transition, p. 203.
Kevin Rudd, The Avoidable War: The Dangers of a Catastrophic Conflict between the US and Xi Jinping’s China (New York: PublicAffairs, 2022).
Sir Halford John Mackinder, Democratic Ideals and Reality: A Study in the Politics of Reconstruction (Washington, D.C.,: National Defense University Press, 1996), p. 106.
John O’Loughlin and Jan Nijman, ‘‘Heartland,‘‘ in Dictionary of Geopolitics, edited by John O’Loughlin, (Westport: Greenwood Press, 1994), p. 115.
Nicholas John Spykman, The Geography of the Peace (New York: Harcourt, Brace and Company, 1944), p.43.
Jan Nijman, ‘‘Brzezinski, Zbigniew‘‘ in Dictionary of Geopolitics, p.31.
حمدان، استراتیجیة الاستعمار والتحریر، ص 22۔
مالك بن نبی، فكرة الإفریقیة الآسیویة، ترجمة عبد الصبور شاهین (دمشق: دار الفكر، 2001)، ص 226.
حمدان، استراتیجیة الاستعمار والتحریر، ص 23۔
حوالہ سابق، ص 22۔
كیشور محبوبانی، نصف العالم الآسیوی الجدید: التحول الجارف للقوة العالمیة نحو الشرق، ترجمة سمیر كریم (القاهرة: المركز القومی للترجمة، 2009)۔
Kishore Mahbubani: The Asian 21st Century (New York: Springer, 2022); Has China Won? The Chinese Challenge to American Primacy (New York: PublicAffairs, 2020); Has the West Lost It? A Provocation (London: Allen Lane, 2018); Can Asians Think? (Singapore: Marshall Cavendish, 2009).
(23) محبوبانی، نصف العالم الآسیوی الجدید، ص 39-40۔
Mahbubani, The Asian 21st Century, p. 63.
حوالہ سابق، ص 240
حوالہ سابق، ص 144.
حوالہ سابق، ص 144.
محبوبانی، نصف العالم الآسیوی الجدید، 149۔
حوالہ سابق، ص 180.
Alexander Dugin, The Fourth Political Theory, translated by Nina Kurpianova et al. (Moscow: Eurasian Movement 2012), p.156.
Anwar Ibrahim, The Asian Renaissance (Malaysia: Times Books International, 1996).
بطور مثال دیکھیں:
Khurram Ali Shafique, Iqbal: His Life and Our Times (Lahore: Iqbal Academy, 2014), p.147; Doris Ahmad, Iqbal as I knew him (Lahore: Iqbal Academy, 2018), p. 9.
مشمولہ: شمارہ جولائی 2023