وراثت کی تقسیم اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کسی مسلمان شخص کی موت ہوتی ہے، اسی وقت اللہ کی طرف سے اس کے چھوڑے ہوئے مال و اسباب اور جائیداد کی تقسیم ہوجاتی ہے۔ اور تمام شرعی وارثوں کا حق طے ہو جاتا ہے۔ اب صرف اتنا کام رہ جاتا ہے کہ اس تقسیم کے مطابق سب کے حصے الگ اور متعین کرکے ان کے حوالے کر دیے جائیں ۔ یہ کام مکمل دیانت داری کے ساتھ ہونا چاہیے اور جلد از جلد ہوجانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص کسی حق دار کا حصہ اسے نہیں دیتا ہے اور اپنے پاس رکھ لیتا ہے، تو وہ ایک طرف اللہ کو ناراض کرتا ہے، کیوں کہ وراثت کی تقسیم اللہ کی طرف سے ہوچکی ہوتی ہے، دوسری طرف وہ ان حق داروں کا حق غصب کرنے والا ہوتا ہے، کیوں کہ ان کا حق تو مورث کے مرتے ہی بن جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم تقسیم ِوراثت کے تعلق سے ملت کی موجودہ صورت حال اور اس کی اصلاح پر گفتگو کریں گے۔ اس سلسلے میں کوتاہی کے چند اسباب اس طرح ہیں:
شعور و آگہی کی کمی
آج کل معاشرے میں وراثت کی عدم ادائیگی عام ہے، اس کی ایک اہم وجہ وراثت کی ادائیگی کی اہمیت اور عدم ادائیگی کے برے نتائج سے ناواقفیت بھی ہے۔ عام مسلمان تو اس سے نا آشنا ہے ہی، ملت کے قائدین و علما و ائمہ اور دین دار طبقے کے یہاں بھی سکوت طاری ہے۔ ان کی جانب سے بھی قرآن کے اس واضح حکم کی طرف توجہ دلانے اور آگاہی بڑھانے کا کام اس سطح پر نہ ہوسکا جس سطح پر ہونا چاہیے تھا۔
بعض لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن مجید میں وارثوں کا حق ادا نہ کرنے والوں کے لیے کتنے شدید عذاب کی وعید ہے؟ اور بعض لوگ ملک کے قانون میں اپنے مطلب کے راستے تلاش کرتے ہیں ۔
بڑھتی ہوئی مادیت
موجودہ دور حد سے بڑھی ہوئی مادیت کا دور ہے۔ نئی نسل عموماً ایسے ماحول میں پرورش پارہی ہے جہاں صرف مادی نقطہ نظر سے اٹھان ہوتی ہے۔ جہاں اخلاق، ہم دردی، غم گساری کے بجائے خود غرضی، تنگ نظری، انفرادیت پسندی جیسی خصلتیں پروان چڑھتی ہیں ۔ خدا بیزاری، الحاد، شرک، اشتراکیت، سرمایہ داریت کے زیر اثر مرتب کیا گیا نصاب بچوں کو اِسی نظر سے دنیا کو دیکھنا سکھاتا ہے، جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ نسل تعیش پسندی، مادہ پرستی اور خود غرضی والی ذہنیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں آتی ہے۔
دولت کی حرص ایسی ہوتی ہے کہ حقیقی رشتے داروں حتی کہ ماں باپ اور بھائی بہنوں سے بھی بے لوث ہم دردی نہیں رہتی۔ صرف دنیا اور اس کے فوائد ہی پیش نظر رہتے ہیں ۔ محض اپنی ذات سے دل چسپی رہتی ہے کہ اسے آسائش زندگی سے آراستہ کرے۔ یہ مادہ پرستانہ سوچ لوگوں کے حقوق سے بے پروا کر دیتی ہے۔ یہی سوچ وراثت کی صحیح تقسیم سے بھی اس کو روک دیتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ترکہ کو سب کے درمیان تقسیم کرنے سے اس کے مال میں کمی آجائے گی۔ لہذا وہ تقسیم سے بچتا ہے اور حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔ مادیت انسان کے اندر حرص پیدا کر دیتی ہے۔ مال کی ہوس ایسا زہر ہے جو خاندانی زندگی میں ناگواری گھول دیتا ہے۔ خاندان میں کشمکش جنم لیتی ہے اور پورا خاندان سکون سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ ہوس ایک دوسرے کی جان لینے اور مال ہڑپ کرلینے پر ابھارتی ہے۔ غرض حرص و ہوس ایسی برائی ہے جو وراثت میں حق داروں کے حق کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
سماجی ماحول
وراثت کی صحیح تقسیم اور حصوں کی ادائیگی میں ایک اہم رکاوٹ سماجی ماحول ہے۔ معاشرے میں وراثت کی صحیح تقسیم کا چلن نہیں ہے۔ عموماً وراثت شرعی طور پر تقسیم نہیں کی جاتی، بلکہ بھائیوں میں جائیداد کا بٹوارہ ہوجاتا ہے۔ بہنوں کو یا تو یکسر محروم کر دیا جاتا ہے یہ کچھ دے دلا کر راضی کر لیا جاتا ہے۔
لڑکیوں کے دل و دماغ میں یہ غلط خیال سمایا ہوا ہے کہ اگر ہم نے وراثت کا حق طلب کیا تو سماج ہمیں بری نظر سے دیکھے گا۔ بعض بہنیں سوچتی ہیں کہ اگر حق وراثت میں سے حصہ لے لیا تو بھائیوں سے رشتہ ختم ہوجائے گا اور پھر میکے سے لا تعلقی ہوجائے گی۔ کہیں کہیں مشاہدے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ جب بھائی نے وراثت میں حصہ دینے کی بات کی تو بہنوں نے رونا دھونا شروع کردیا اور حصہ لینے سے انکار کردیا۔ عورتوں کے اندر یہ واقفیت کم ہے کہ وہ وراثت کی حق دار ہوتی ہیں اور یہ حق انھیں اللہ نے دیا ہے۔ معاف کرنا ان کے لیے ضروری نہیں ہے، اور یک طرفہ طور پر صرف لڑکیوں کا اپنا حصہ معاف کر دینے کا رواج بن جانا مناسب بھی نہیں ہے۔ سماج میں لڑکیوں کا اپنا حصہ معاف کرنا ایک عام رواج بن گیا ہے اور اس رواج کی پابندی ہر لڑکی خود کرتی ہے یا اسے اس پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی لڑکا اپنا حصہ معاف نہیں کرتا، صرف لڑکی ہی حصہ معاف کرتی ہے۔ اسی طرح باپ کے انتقال پر ماں کو، اور شوہر کے انتقال پر بیوی کو وراثت میں حصہ دینے کا تصور ناپید ہے۔ ماں اپنے بیٹوں سے، بیوہ عورت اپنے جیٹھ اور دیور سے وراثت کا حق مانگنے کے خیال سے بھی قاصر رہتی ہے۔
سماج میں یہ تصور بھی عام ہے کہ بہنوں یا لڑکیوں کی شادی میں ایک خطیر رقم جہیز پر خرچ کی جاتی ہے اور وہ وراثت کا بدل ہوتی ہے اور جب وراثت تقسیم ہوتی ہے تو بہنوں کو یہ سمجھ کر محروم کر دیا جاتا ہے کہ ان کے حصے کی رقم ان کی شادی میں خرچ کر دی گئی، لہذا اب وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔ اسی طرح یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ مکان کو تقسیم نہ کیا جائے کہ یہ خاندان کے بزرگوں کی نشانی ہے۔
غیر اسلامی رسوم
مسلمانوں کے درمیان عام ہندوستانی سماج کے بہت سے رواج عام ہوگئے ہیں ۔ ان میں سے ایک جہیز کی رسم ہے جو مسلمانوں میں برادران وطن سے منتقل ہو کر آئی ہے، اور اس نے وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس میں عام مسلمان بھی گرفتار ہیں اور دین دار طبقہ بھی۔ جہیز کی رسم کی وجہ سے جہاں اور بہت سی خرابیاں در آئیں ہیں، وہیں اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کی وجہ سے اسلام کا نظام وراثت معطل ہوگیا ہے۔
غلط دینی تصورات
دین کا محدود تصور بھی قانونِ وراثت پر عمل آوری میں کوتاہی کا ایک بڑا سبب ہے۔ دین اور دنیا کو الگ الگ کر کے دیکھنے کا تصور اس کوتاہی کا بڑا ذمہ دار ہے۔ وراثت کے حکم کو دین کا کوئی ضروری جز نہیں سمجھا جاتا۔ آدمی تہجد گزار بھی ہوتا ہے اور وراثت میں حصہ بھی نہیں دیتا۔ کوئی مسلمان نماز نہ پڑھے، یا صحت مند ہونے کے باوجود روزے نہ رکھے، یا مال دار ہو نے کے باوجود زکوۃ ادا نہ کرے یا کوئی شخص استطاعت ہونے کے باوجود حج نہ کرے تو اس کو دین دار نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن کوئی وراثت ادا نہ کرے اور حق داروں کو حق نہ دے تو اس کی دین داری پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اور کوئی اس کو بے دین نہیں سمجھتا ہے۔ معاشرے میں اس طرح کے تصورات بھی وراثت کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔
لڑکیوں کے بارے میں غلط تصورات
وراثت کی ادائیگی کی اہم رکاوٹ لڑکیوں کے بارے میں سماج میں پائے جانے والے غلط تصورات بھی ہیں ۔ دورِ جاہلیت میں عورتوں کو انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا حتی کہ شقی القلب لوگ پیدا ہوتے ہی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ انھیں وراثت میں حق دینے تو کجا انھیں خود مال وراثت سمجھا جاتا تھا اور انھیں مرنے والے کے ترکے کے ساتھ تقسیم کیا جاتا تھا۔ اسی طرح کے جاہلانہ تصورات اب بھی عام ذہنوں میں پائے جاتے ہیں ۔ بہت سے ذہنوں میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ عورت کے اپنے مالکانہ حقوق نہیں ہوتے ہیں ۔
آخرت سے غفلت
مسلمان ہونے کے لیے عقیدہ آخرت کو ماننا اور اقرار کرنا ضروری ہے۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے انسان مسلمان تو ہوتا ہے، وہ عقیدہ آخرت کو تسلیم تو کرتا ہے، مگر ذہن و قلب پر عقیدے کی حکم رانی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے عمل میں کوتاہی رہتی ہے۔ یہ عملی کوتاہی صرف عبادات تک محدود نہیں رہتی بلکہ حقوق العباد میں اور زیادہ ہوتی ہے۔ عقیدہ آخرت کے کم زور ہونے کی وجہ سے انسان دوسروں کے مال کو بے دریغ ہڑپ کر لیتا ہے اور اس کو کوئی بے چینی نہیں ہوتی۔ بسا اوقات بھائیوں میں جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ بڑا بھائی یا طاقت ور بھائی چھوٹے یا کم زور بھائیوں کو دینا نہیں چاہتا۔ مقدمے بازی ہوتی ہے، اور زندگی کے قیمتی لمحات کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ بعض اوقات نوبت قتل و خوں ریزی تک جا پہنچتی ہے۔ وراثت کی عدم ادائیگی کا ایک اہم سبب عقیدہ آخرت کا کم زور ہونا ہے۔
علاج کی تدبیریں
آگاہی اور حساسیت بڑھائی جائے
وراثت کی ادائیگی کے لیے سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو قانون وراثت کی حقیقت، اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کیا جائے۔ اسلام نے وراثت کی تقسیم پر بہت زور دیا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے احکامات کی تفصیلات کے بجائے عموماً اجمالی احکام اور بنیادی اصول بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ حتی کہ ارکانِ اسلام نماز، روزہ، زکوۃ، حج جیسی عبادات کے احکام بھی اجمالی و اصولی طور پر دیے گئے ہیں ۔ جب کہ وراثت، جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اس کے احکام تفصیل سے بیان کیے گئے اور ہر ایک کے حصہ کو بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اتنے اہتمام سے احکام وراثت بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس معاملے میں کوتاہی نہ ہو اور مکمل طور سے اس پر عمل آوری ہوسکے۔ ورثا میں کسی کا حق نہ مارا جائے، اور ترکے کی تقسیم کو لے کر آپسی اختلاف و نزاع سے بچا جاسکے۔
وراثت کی تقسیم کا حکم اختیاری و رضا کارانہ نہیں ہے، کہ تقسیم کر دیں تو اچھا ہے اور نہ ادا کریں تو کوئی بات نہیں، بلکہ یہ لازمی طور پر واجب التعمیل حکم ہے جس کی ہر حال میں پیروی کرنا ایمان والے پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔‘‘فر یضة من اللہ’’ (سورۃ النساء : ۱۱) یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں ‘‘یو صیکم اللہ’’ (سورۃ النساء : ۱۱) اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے۔ ’’وصیة من اللہ ‘‘ (سورۃ النساء :۱۲) یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے۔ ‘‘نصیبا مفروضا’’ (سورۃ النساء :۷) یہ حصہ ( اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔ ترکہ زیادہ ہو یا کم اس کی تقسیم کا حکم دیا گیا ہے۔ لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنهُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضا( سورۃ النساء: ۷)
وراثت کی ادائیگی کی طرف قرآن نے بار بار توجہ اس لیے دلائی ہے کہ اس سلسلے میں غفلت و کوتاہی ہونے کے امکانات زیادہ تھے، اور آج عملاً معاشرے میں یہ غفلت عام نظر آتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کم زور وارثین کے حقوق کی پامالی آسانی سے کی جاتی ہے۔ قرآنی آیات میں اس بات پر زور ملتا ہے کہ ترکے میں جس کسی کا بھی حق ہے اس کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔ اور اس ضابطے کے مطابق کیا جائے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ ترکے میں حصہ متعین کرتے وقت نہ تو کسی کی من مانی چلے گی اور نہ ہی اس کی ادائیگی میں سستی جائز ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم کی دردناک سزا سنائی گئی ہے۔ وراثت کی تقسیم کو اللہ کے حدود سے تعبیر کیا گیا ہے، ان کو توڑنا اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اور اس کی ادائیگی پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ وَمَن یطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ یدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ۔ وَمَن یعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَیتَعَدَّ حُدُودَهُ یدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِینٌ (سورۃ النساء :۱۳،۱۴) (یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔)
احادیث رسول میں وراثت کی ادائیگی کی اہمیت کو واضح کیا گیا اور عدم ادائیگی پر تنبیہ کی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ من قطع میراث وارثه قطع اللہ میراثه من الجنة یوم القیامة‘‘ ( ابن ماجہ) جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے گا تو قیامت کے دن اللہ اس کو جنت کی میراث سے محروم کر دے گا۔ إن الرجلَ لَیعملُ – والمرأةَ – بطاعةِ اللهِ ستینَ سنَةً ثم یحضُرُهما الموتُ فیضارّانِ فی الوصیةِ فتجِبُ لهما النارُ۔ ( مسند احمد،ترمذی،ابن ماجہ) مرد اورعورت ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہتے ہیں پھر ان کے مرنے کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ تو ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وراثت کے سیاق میں خبردار کیا ہے کہ حق دار یتیموں کا حق نہ مارا جائے۔ آدمی تصور کرے کہ اگر وہ مر رہا ہو اور اس کے اپنے بچے چھوٹے ہوں تو وہ اپنے بچوں کے بارے میں کس طرح کے اندیشوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی خواہش یہی ہوتی کہ دوسرے ورثا اس کے بچوں کا حق نہ ماریں ۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ ترکہ میں حق تلفی کے بہت برے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ کہا گیا کہ گویا وہ آگ کھا رہا ہے اور وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔ قرآن میں دوسرے احکام کی نافرمانی اور کفر کے سلسلہ میں جہنم کی وعید ہے، لیکن اس کے بارے میں فرمایا: ‘‘یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا’’ (سورۃ النساء : ۱۰) (وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔)
قرآن مجید اور احادیث رسول کی اتنی واضح تعلیمات کے بعد کسی صاحب ایمان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس حکم سے غفلت برتے گا۔ ان واضح تعلیمات کو بڑے پیمانے پر عام کرنا سب کی ذمے داری ہے۔
اللہ پر توکل کی تعلیم دی جائے
وراثت کی ادائیگی اور شرعی طور سے تقسیم کرنے میں اللہ پر توکل اہم رول ادا کرتا ہے۔ بندہ مومن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ رزق دینے والی اور ضروریات کی تکمیل کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔ یہ یقین اس کو وراثت کی تقسیم کے وقت ہر طرح کے دباؤ سے آزاد رکھتا ہے اور وہ کسی حیلے بہانے کا سہارا نہیں ڈھونڈتا۔
عام طور سے اہل ثروت وراثت تقسیم نہیں کرتے، وہاں یہی ذہن کار فرما ہوتا ہے کہ دولت تقسیم ہوگی تو گھاٹا ہوگا پھر وہ یہ سوچ کر وراثت کی تقسیم سے رک جاتے ہیں ۔
غریب اور متوسط گھرانوں میں مرنے والا جائیداد و باغات تو چھوڑتا نہیں،اس کا ترکہ محض ایک رہائشی گھر ہوتا ہے جس کو تقسیم کیا جائے تو وہ کسی کے رہنے کے لائق نہیں رہتا ہے ایسے میں شرعی لحاظ سے اس کو بیچ کر ہی ترکہ کے حصہ ممکن ہو پاتے ہیں ۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ رہائش کا کیا ہوگا ظاہر ہے کہ رہائش کے لیے متبادل انتظامات تلاش کرنے پڑیں گے۔ یہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ ایسے میں وہی حضرات کھرے اترتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان راسخ ہو، جو اللہ کی ذات پر بھروسا رکھتے ہوں، جنھیں یہ یقین کامل ہو کہ رازق تو اللہ ہے، اس کی زمین بہت بڑی اور انتظامات بہت زیادہ ہیں، وہی اس مشکل سے نکلنے کے اسباب پیدا کرے گا۔
عورت کے مقام اور حقوق کا شعور عام کیا جائے
اسلام نے عورت کو عزت و احترام دیا ہے، اور اسے بھی حقوق سے نوازا ہے۔ لیکن مسلم سماج میں عورتوں کے حقوق اس طرح ادا ہوتے نظر نہیں آتے جس طرح اسلام کا مطالبہ ہے۔ خاص طور پر حق وراثت میں انتہائی درجے کی کوتاہی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں عورتوں کی مختلف حیثیتوں میں ان کا حصہ مقرر کیا ہے۔ اور انھی الفاظ میں کیا ہے جن الفاظ میں مردوں کا کیا ہے۔ ماں، بیوی، بیٹی، بہن کے حصے بالکل واضح انداز میں بیان کیے ہیں اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ مال زیادہ ہو یا کم ہر حال میں متعین عورتوں کا متعین حصہ دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ایسا مال ہو جو صرف مرودں کے کام میں آتا ہو اور عورتیں اس کو استعمال نہ کرتی ہوں پھر بھی اس کو تمام مستحقین کے درمیان تقسیم کرنا ہوگا۔ مثلا ہل بیل وغیرہ۔
اسی طرح اگر شوہر مرض الموت میں بیوی کو طلاق دے دے اور اسی میں اس کو موت آجائے، تب بھی مطلقہ بیوہ کو وراثت میں حصہ دیا جائے گا۔ وہ اس کی بیوی نہیں ہے پھر بھی اس کے طلاق دینے کو اس کی بدنیتی پر محمول کر تے ہوئے ایسا کیا جائے گا۔
دین کا صحیح تصور عام کیا جائے
مسلمانوں میں بہت سی خرابیوں اور عملی کوتاہیوں کی جڑ دین کا محدود تصور ہے۔ جب تک تصورِ دین کی اصلاح نہ ہوگی اور جب تک دین کا وسیع، آفاقی اور حرکی تصور دلوں میں جا گزیں نہ ہوگا اس وقت تک قانونِ وراثت کی خلاف ورزی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ وراثت کی ادائیگی نہ کرنے کو برا فعل باور کرایا جائے۔ اس کی عدم ادائیگی کی شناعت کو واضح کیا جائے اور سماج میں ایسے لوگوں کو ہرگز دین دار نہ سمجھا جائے جو وراثت کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں ۔
جہیز کی رسم کے خلاف تحریک چلائی جائے
مسلمانوں کے درمیان جہیز کی رسم کے خاتمے کی کوشش کی جائے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں بچیوں کو وراثت نہیں دی جاتی ہے، لہذا جہیز اس کا بدل ہو جاتا ہے۔ اس تصور کی اصلاح ضروری ہے۔ جہیز محض ایک رسم ہے، وہ رسم کسی بھی طرح قرآنی حکم وراثت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ کوئی اس کو دلیل بناتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی۔ وراثت کے تعلق سے بہت واضح احکام قرآن و حدیث میں ملتے ہیں ۔ لہذا مسلمانوں کو جہیز وغیرہ سے اجتناب کرتے ہوئے وراثت کے قانون پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں کسی بیٹی یا بیٹے کو ڈھیر سا سامان یا دولت دے دے تب بھی وہ وراثت کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اور اگر کوئی اس کو وراثت سے محروم کرے گا تو یقیناً وراثت کی عدم ادائیگی کی سزا پائے گا۔
آخرت کی جواب دہی کا احساس عام کیا جائے
غلط روش سے بچتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے آمادہ کرنے والا بہترین نسخہ جواب دہی کا احساس ہے۔ جس مومن کے اندر عقیدہ آخرت پوری آب و تاب کے ساتھ جاگزیں ہو، جواب دہی کے احساس سے دل معمور ہو، اس فرد کی زندگی اعلیٰ اخلاق اور بہترین اقدار کی حامل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس فرد کا تزکیہ ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ شریعت کی پابندی کے لیے کسی بیرونی طاقت و قوت کا محتاج نہیں رہتا بلکہ اس کے اندر ایسا جذبہ موج زن و کار فرما رہتا ہے جو اسے فرائض کو پوری طرح از خود انجام دینے کا اہل بنا دیتا ہے۔
مال کے سلسلہ میں اسلامی تصور عام کیا جائے
انسانی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ دولت ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح رہ نمائی فرمائی ہے۔ اسلام مال کو اللہ کی نعمت و امانت قرار دیتا ہے۔ دولت کو حلال طریقے سے کمایا جائے اور ٹھیک طریقے سے خرچ کیا جائے تو وہ نیکیوں کے کمانے کا بہترین ذریعہ ہے اور غلط یا حرام طریقے سے کمایا جائے تو وہ حرام ہے اور اس پر سخت پکڑ کی وعید ہے۔
وراثت کا تعلق مال سے ہے، اور وہ دوسروں کے حق سے متعلق ہے۔ اگر کوئی ترکے کے سارے مال پر قابض ہوجائے یا شرعی طریقے سے حصہ داروں کو مکمل حصہ نہ دے، تو وہ دوسرے کے مال کو ہڑپ کرنے والا ہوگا جو کہ اسلام میں حرام ہے۔ وراثت کے بارے میں عام رویہ یہ ہے کہ اسے مالی خرد برد اور بد معاملگی نہیں سمجھا جاتا۔ ضرورت ہے کہ وراثت کے مال کا جو اسلامی تصور ہے اس کو واضح کیا جائے۔ ترکہ کے سلسلے میں بالکل واضح ہدایات ہیں کہ مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہے پہلے اس سے اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی، اور اگر قرض ہو تو پہلے قرض ادا کیا جائے گا چاہے سارا ترکہ ختم ہو جائے۔ اس کے بعد اگر کچھ بچے گا تو ترکہ تقسیم کیا جائے گا، ہر حق دار وارث کو اس میں حصہ دیا جائے گا۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو گویا مال کو ہڑپنا ہوگا جو کہ کسی بھی شکل میں جائز نہیں ہے۔
وراثت کی وصیت کی جائے
ہر فرد کو چاہیے کہ وہ مرنے سے پہلے وصیت کرے کہ اس کا ترکہ تمام افراد میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے، اور وہ وصیت میں لڑکیوں کو تاکید کرے کہ وہ اپنا حصہ ضرور لیں اور لڑکوں کو تاکید کرے کہ لڑکیوں کو ہر حال میں ان کا حصہ دیں ۔ مرنے والے کی طرف سے جب صاف صاف وصیت کی جائے گی تو قوی امید ہے کہ اس کے لواحقین اس کی وصیت کا احترام کریں اور شریعت کے مطابق صحیح تقسیم کریں ۔
عملی نمونے پیش کیے جائیں
معاشرے کے بااثر افراد، معزز گھرانے، قائدین، علما، دینی جماعتوں سے وابستہ افراد موقع آنے پر اپنے یہاں بہترین طریقے سے وراثت تقسیم کرکے عملی نمونہ پیش کریں ۔ اور یہ کام علی الاعلان کیا جائے تاکہ دوسرے افراد کو ترغیب ملے۔ اس طرح کے نمونوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، مختلف مجلسوں میں ان کا تذکرہ کیا جائے۔ یہ طریقہ بھی وراثت کے سلسلے میں راہیں ہم وار کرے گا۔ نبی ﷺ نے جن سماجی برائیوں کے خلاف آواز بلند کی اور معاشرے کو جن معاشرتی خرابیوں کو ختم کرنے کی دعوت دی۔ سب سے پہلے خود نمونہ بن کر دکھایا۔
تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے
تعلیمی اداروں کے نصاب میں قانون وراثت کی اہمیت اور اس کے تعارف کو داخل نصاب کیا جائے۔
بڑے پیمانے پر گفتگو کا موضوع بنایا جائے
بیداری لانے کے لیے خطبات جمعہ، مساجد میں مختلف نمازوں کے بعد مختصر تقاریروں کا اہتمام بھی اس میں معاون ہوگا۔ وراثت کی آیات پر مشتمل درس قرآن، وراثت کے موضوع پر دروس حدیث وغیرہ کا اہتمام کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر عوامی پروگرام و خطاب عام کا سلسلہ چلایا جائے۔
جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جائے
وراثت کے اسلامی احکام کو پھیلانے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جائے۔ مثلاً موبائل، انٹرنیٹ، یوٹیوب، فیس بک اور دیگر پیغام رسانی کے ذرائع کام میں لائے جائیں ۔
ثقافتی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں
کسی بات کو آسانی ذہن نشین کرانے کا ایک اہم طریقہ ڈرامے، مکالمے، ٹیبل ٹاک، ڈیبٹ بھی ہیں ان کا بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔
لٹریچر کی تیاری اور تقسیم بڑھائی جائے
کسی بات کو عام کرنے کا ایک طریقہ تحریر بھی ہے۔ اخبارات و رسائل میں مضامین شائع کیے جائیں ۔ مختصر کتب اور فولڈر اس موضوع پر تیار کرکے بڑے پیمانے پر پھیلائے جائیں ۔ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ امید کی جاتی ہے ان تما م ذرائع کا استعمال کرکے اس سلسلے میں بیداری لائی جاسکتی ہے اور قرآن کے اس حکم کو عام کیا جاسکتا ہے۔
شرعی کونسلنگ کو رواج دیا جائے
تقسیم وراثت کی عمل آوری اور قانون وراثت کے نفاذ میں ذہن سازی اور کونسلنگ کا عمل بھی یقیناً معاون ہوگا اس کے لیے ورک شاپ وغیرہ لگانے چاہئیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کی شریعت کے مطابق تقسیم کے بارے میں مسلمانوں میں بیداری اور حساسیت لانے کے ہر طریقے کو اختیار کیا جائے تبھی کسی بڑی تبدیلی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021