نو عمری کا مرحلہ اور والدین کا فریضہ

عمر کے مختلف پڑاؤ میں انسانی زندگی میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور ہر تبدیلی اپنے ساتھ کچھ چیلنج اور کچھ مواقع لاتی ہے۔ والدین اپنے نئے مولود سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور دونوں (والدین اور اولاد) ہی کے اندر ایک دوسرے کے مثبت اور منفی رویوں کے معاملے میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ معلومات اور تجربات سے ایک طرف صبر وتحمل کی قوت بڑھتی ہے دوسری طرف بچے بھی قابو میں آنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ ہم آہنگی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن اسی اثنا میں ایک ایسا موڑ بھی آجایا کرتا ہے جب بچے والدین کے کنٹرول سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اور والدین کی قوت برداشت جواب دینے لگتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب بچہ نوعمری (12-13 برس)کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور والدین اسے سات آٹھ سال سے زیادہ بڑا نہیں سمجھ پاتے اور ایک کم عمر (10 برس سے کم ) بچے کے والدین کی طرح ہی ان کا رویہ رہتا ہے۔ والدین اور بچوں کے لیے یہ دور آپسی رنجش اور تصادم سے بھرا بھی ہوسکتا ہے اور والدین اگر حکمت ودانائی سے کام لیں تو دوستی اور قربت سے لبریز بھی ہوسکتا ہے۔

جن والدین کے بچے ابھی نوعمر ہیں ان سے اگر ان کے مسائل پوچھے جائیں تو ان کے پاس کبھی نہ ختم ہونے والی شکایتوں کی فہرست ملے گی اور وہ ہر ایک مسئلے کو سلجھانا بھی چاہتے ہوں گے لیکن سلجھانے کی کوشش ہی کےنتیجے میں مسائل کی فہرست میں اضافہ بھی ہورہا ہوگا۔ والدین کا دعوی ہوتا ہے کہ ہماری بڑی گہری نظر ہے، ہمیں بچوں کے ہر ایک مسئلہ کا پتہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ والدین بھی اس عمر سے گزر چکے ہیں اور اب وہ ایسی عمر کو پہنچے ہیں جہاں اپنی عقل کی نگاہ سے وہ اپنے بچے کے بگڑتے جذبات اور بارباربدلتے موڈ اور ردعمل کو دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف نو عمر بچے دعوی کرتے ہیں کہ ‘والدین ہمیں نہیں سمجھتے’ بچے بھی حق بجانب ہوسکتے ہیں کیوں کہ نئے دور کے نئے مسائل ہوتے ہیں جن پر ہوسکتا ہے والدین غور نہ کرسکے ہوں اور ان کے نزدیک بس یہی بات کافی ہو کہ ہمارے دور میں یہ ہوتا رہا ہے اور ان چیزوں سے اسی طرح نپٹا جاتا ہے یعنی بسا اوقات والدین اپنی محدود سوچ اور رویوں کی بنا پر بچوں کی نظر سے بچوں کے کچھ مسائل کو سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں۔ نوعمر بچوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے پردے میں جو مسائل ہیں صرف ان کا جاننا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ان کو حل کرنے کے لیے انھیں محسوس کرنا بھی شرط ہے۔ آئیے والدین اور نو عمر بچوں کی آپسی شکایات کا ایک جائزہ لیں۔

والدینبچے
بچے ہماری سنتے نہیں ہیں۔والدین صرف اپنی ہی چلاتے ہیں ہمیں بولنے کا موقع نہیں دیتے۔
بچے ہمارے پابند نہیں ہیں ہماری ہدایات یا رہ نمائی نہیں چاہتے اپنی مرضی چلانا چاہتے ہیں۔ہمیں آزادی نہیں ملتی کہ ہم اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کریں
بچہ دوستوں میں لگا رہتا ہے۔والدین مجھے نہیں سمجھتے، میرے دل میں بہت سی باتیں ہیں پر کہوں تو کیسے کہوں۔
بچے دوسرے بچوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں کہ فلاں کے پاس فلاں چیز ہے ہمارے پاس نہیں ہے۔میں اب بڑا ہوگیا ہوں، میری ضروریات بڑھ گئی ہیں، مجھے اپنا الگ کمرا چاہیے، اپنی جگہ چاہیے اور اپنی سہولیات کی فراہمی چاہیے۔
بچے اپنے آپ کو ہم سے زیادہ قابل سمجھتے ہیں۔والدین ہمیں کسی کام کے لائق ہی نہیں سمجھتے۔
وہ وقت ضائع کرتے ہیں۔ہماری پسند کے کام والدین کی نظر میں وقت کا ضیاع ہیں
بچہ ذمہ دار نہیں ہے۔مجھ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
بچے کا غصیلا رویہ ہوتا ہے، اس کے مزاج میں چڑچڑا پن آگیا ہے اور وہ بدتمیزی بھی کرتا ہے۔میرے اپنے کچھ مسائل ہیں جنھیں نہ میں سمجھ پارہا ہوں نہ میں کسی سے بیان کرسکا ہوں۔ میں تنہائی اور عجیب سا خوف محسوس کرتا ہوں۔

والدین اور نو عمر بچے کے درمیان تناؤ کو دونوں زاویوں سے دیکھا جائے تو ہر بار بالکل ہی مختلف صورت حال نظر آتی ہے۔ ان حالات میں بچے کو والدین کی شکایات کا علم ہوتا ہے اور ساتھ ہی ایک احساس بھی ہوتا ہے کہ والدین ہمارے مسائل سے ناواقف ہیں اور مندرجہ بالا خاکہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کی اس سوچ غلط بھی نہیں ہے۔

آئیے ہم اس موضوع کو کچھ حصوں میں منقسم کرتے ہیں:

نو عمری کیا ہے؟

نو عمری کے مسائل کیا ہیں؟

والدین اور نوعمر بچوں کا بگڑتا رشتہ

والدین اور نوعمر بچوں میں ہم آہنگی کی کوشش

نو عمری کی حقیقت:

نوعمری کا دورانیہ

بچپن سے نکل کر جوان ہونے کے درمیان ایک دور نوعمری کا آتا ہے جسے بلوغت یا نوجوانی سے جوڑا جاتا ہے۔ کچھ ممالک میں 10 سال سے 14 سال کی عمر، کچھ جگہوں پر ساڑھے 9 سال سے 13 سال کی عمر، کہیں پر 10 سال سے 19 سال کی عمر لیکن عمومی طور پر نو عمری 13 سے 19 سال کے درمیان کی عمر ہوتی ہے۔ نو عمری کے لیے انگریزی زبان میں ‘ٹین ایج ‘(teenage)کی اصطلاح مستعمل ہے۔ دراصل انگریزی گنتی میں ‘ٹیٖن ‘پر ختم ہونے والے اعداد سے متعلق عمر کو کہتے ہیں یعنی تیرہ سال (تھرٹین) سے انیس سال (نائنٹین) کی عمر جن کے آخر میں teen ہوتا ہے۔ لیکن نو عمری کا دور مختلف خطوں میں وہاں کے جغرافیائی حالات، جسمانی صحت اور ساخت، غذائیت، جنس وغیرہ کی وجہ سے مختلف پایا جاتا ہے اور ایک ہی علاقے میں رہنے والے بچوں کے لیے ان کی اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال، ڈبلیو ایچ او 10 سال سے لے کر 19 سال کی عمر کو نو عمری مانتی ہے۔

نو عمری اور بلوغت کا فرق

نوعمری یعنی adolescence اور بلوغت یعنی puberty دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ بلوغت کا تعلق عمر کے خاص دور میں آنے والی جسمانی تبدیلیوں سے ہے جو بچہ اور جوان کے درمیان کا نمایاں فرق ہے۔ جب کہ نوعمری اس عمر میں آنے والی جذباتی اور نفسیاتی تبدیلیوں کا ایک دورانیہ ہے۔ ان تبدیلیوں کے آنے کی ایک مخصوص عمر ہوتی ہے جس کا اوپر ذکر آیاہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ تبدیلیاں ایک ساتھ ہی آئیں۔ کسی فرد میں دونوں ہی قسم کی تبدیلیاں یکے بعد دیگرے آسکتی ہیں۔ کوئی عجب نہیں کہ کسی میں دونوں ساتھ رونما ہوں۔

نوعمری کا مقصد

نو عمری میں ہونے والی نفسیاتی نیز جذباتی تبدیلیوں کے پس پردہ ایک راز پوشیدہ ہے۔ ایک نونہال بچہ جو روزمرہ کے ہر معاملہ میں اپنے والدین پر انحصار کرتا ہے ایک آزاد نوجوان بننے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے اور اس کی ذہنی تبدیلیاں اسے فطری طور پر زیست کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کررہی ہوتی ہیں۔ یہ موڑ انسانی زندگی کا وہ مشکل موڑ ہوتا ہے جہاں ذہن حقیقی معنوں میں بچپن کی نادانیوں کو پیچھے چھوڑ کر سنجیدہ ہونے لگتا ہے اور جسم قوی اور توانا ہورہا ہوتا ہے۔ اس وقت قدرتی طور پر انسان اپنے بارے میں بہت کچھ جانے لگتا ہے اور اسی لیے ایک بچہ کو جوان بننے میں دشواریاں پیش آتی ہیں اور اسی لیے یہ دور انتہائی نازک دور ہے جب والدین کی چھوٹی سی غلطی ان کی پہلے کی گئی محنتوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔

نوعمری کے مسائل

جسمانی اور ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے اور کسی بھی بات پر غصہ آنے لگتا ہے۔ اکثر دوستوں، بھائی، بہنوں کے علاوہ والدین کے ساتھ بھی نوک جھونک ہوتی رہتی ہے۔

اپنے اندر ہونے والی نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیوں کا تذکرہ کرنے میں دشواری آتی ہے۔ نہ وہ خود کو سمجھ پاتے ہیں نہ کسی کو سمجھا پاتے ہیں۔

بچپن میں کسی خواب کی داغ بیل پڑجائے تو نو عمر لڑکے لڑکیوں کے سامنے اپنا راستہ صاف ہوتا ہے، وگرنہ تذبذب شخصیت کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے۔ نوعمری میں تذبذب بھی ایک عجب مرض ہوتا ہے کہ کیا کرے، کیا کھائے، کیا پہنے، کہاں جائے اور سب سے بڑھ کر کیا بنے۔ ان سوالات میں ذہن اکثر الجھتا ہے۔ نئی معلومات اور تحقیقات انسانی زندگی میں ترقی کا باعث بنتی رہی ہیں۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر میں اور خصوصاً اکیسویں صدی میں معلومات کی بے پناہ کثرت نوعمر لڑکے لڑکیوں اور نوجوانوں کے لیے تذبذب کی بڑی وجہ بن گئی ہے۔

نو عمر بچوں میں بڑے ہونے کا احساس بھی جاگتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بہت سے کاموں کے قابل اور لائق سمجھتے ہیں۔

احساس کمتری یا احساس برتری، ان کے اندر ان دونوں میں سے کوئی ایک پنپنے لگتا ہے۔

اپنے والدین کی بہ نسبت انھیں دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔

مندرجہ بالا تبدیلیاں اس زمرے میں آتی ہیں جو فطری ہوتی ہیں اور سبھی بچوں میں رونما ہوتی ہیں اور والدین کو بہت زیادہ خطرہ نہیں ہوتا اور وقت رہتے کچھ ترکیبیں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔

مگر کچھ ایسی تبدیلیاں ہیں جو بےحد مضر ہیں اور والدین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ یہ اچانک رونما ہونے والی بڑی تبدیلیاں ہوتی ہیں جو بہت توجہ چاہتی ہیں اور جس کا ڈاکٹر یا ماہر نفسیات کی مدد سے علاج مفید ہوتا ہے۔ مثلاً

اچانک غصہ کی سطح کا بہت زیادہ بڑھ جانا اور سامنے والے پر جسمانی حملہ کرنا۔

تمباکو نوشی، منشیات یا شراب کی طرف رحجان بڑھنا۔

دوستوں کی صحبت میں تبدیلی یعنی اچھا گروہ چھوڑ کر بری ٹولی میں شامل ہونا۔ رات دیر تک گھر پر نہ آنا اور ایسے دوستوں کے ساتھ وقت گزاری پسند کرنا۔

اچانک وزن کا تیزی سے بڑھنا یا گھٹنا۔ جسمانی کم زوری محسوس ہونا اور بارہا بیمار ہونا۔

پڑھائی سے توجہ ہٹ جانا اور فالتو ویڈیو گیم وغیرہ میں مصروف ہونا۔

رات دیر تک ٹی وی، موبائل یا کمپوٹر کے سامنے جاگنا یا گھر میں موجود ہم عمروں سے باتیں کرتے ہوئے جاگنا یا بنا کسی مطلب کے جاگنا۔

ڈراؤنے خواب دیکھنا، نیند میں بڑبڑانا، نیند میں چلنا۔

دن میں سست رہنا اور کسی کام میں دل نہ لگنا۔

اچانک خاموش ہوجانا اور گہری سوچ میں ڈوبے رہنا۔

مایوس رہنا اور دل میں خودکشی کا بار بار خیال آنا۔

والدین اور نوعمر بچوں کا بگڑتا رشتہ

تربیت اولاد کا یہ دور والدین کے لیے انتہائی نازک ہوتا ہے۔ جہاں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر والدین اور نوعمر بچوں کے رشتوں میں کشیدگی آتی ہے۔

والدین اپنے بچے کو کم عمر، کم تجربہ کار سمجھتے ہیں اور بچہ اپنے آپ کو قابل اور ہوشیار مانتا ہے۔

لڑکا دوستوں میں رہتا ہے، لڑکی سہیلیوں کے ساتھ باتیں کرتی ہے اور والدین کو صحبت اور رازداری کی فکر ہوتی ہے۔ نو عمر بچوں کو اپنے دوست بہت عزیز ہوتے ہیں اور وہ والدین کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔

جس طرح والدین بچوں کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات پوری کرتے ہیں ویسی کوئی نہیں کرسکتا۔ والدین اگر ناکام ہوتے ہیں تو بچوں میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے پُر کرنے کے لیے وہ باہر والوں کی مدد لیتا ہے۔ بچے کو کیا معلوم کہ کس پر بھروسا کیا جائے اسے تو بس خلا کو پُر کرنا ہے۔ پھر وہ کوئی بھی طریقہ اپناتا ہے اور کسی بھی حد تک جاتا ہے۔ اور ایسے فتنوں میں والدین اور بچوں کا رشتہ بد سے بدتر ہوجاتا ہے۔

والدین دوستوں پر حد سے زیادہ تنقید کرتے ہیں اور دوستی چھڑانا چاہتے ہیں۔

والدین اچھے نمبرات لانے کے لیے بہت دباؤ ڈالتے ہیں اور بڑی بڑی توقعات رکھتے ہیں اور نتائج سے جلدی خوش نہیں ہوتے۔

نو عمری میں بچوں کو خوب صورت لباس زیب تن کرنے کا شوق جاگ اٹھتا ہے اور والدین کی روک ٹوک اور مرضی سے وہ پریشان ہوتے ہیں۔

نو عمری میں بچے اپنی پسند سے کھانا کھانا چاہتے ہیں بعض اوقات وہ جنک فوڈ کی طرف مائل ہوتے ہیں جب کہ والدین ان کے لیے صحت بخش غذا کی فکر کرتے ہیں۔

بہرکیف، معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، معاملے کو الجھانا حل نہیں ہے، نو عمری میں زور زبردستی نہیں کی جاسکتی البتہ کچھ تدبیریں اختیار کرنے سے والدین اور نو عمر بچوں میں مفاہمت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔

والدین اور نوعمر بچوں میں ہم آہنگی کی کوشش

مندرجہ ذیل چند نکات پر توجہ دی جائے تو والدین اور نو عمر اولاد کے درمیان مفاہمت اور دوستانہ رشتہ قائم رہ سکتا ہے۔

شخصیت کو قبول کریں

اس دور میں بچوں کو بحیثیت فرد قبول کریں۔ انھیں وہ عزت دیں جو والدین اپنے ہم عمر یا نوجوان اولاد کو دیتے ہوں۔ یہ بات بھول جائیں کہ وہ اب والدین پر مکمل انحصار کرنے والے چھوٹے بچے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ماں اگر 100 برس کی ہو اور بیٹا /بیٹی 80 برس کے ہو تب بھی وہ اپنے بچے کو بچہ (چھوٹا بچہ) ہی سمجھتی ہے۔ تاہم 80 برس کے بچے کو بچہ سمجھنے میں اسے وہ تکلیف نہیں ہوتی جو نوعمری میں بچہ سمجھے جانے پر ہوتی ہے۔ اس لیے اس نازک احساس کی خاطر ان کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے۔ والدین ان کی شخصیت کا اعتراف کریں، ان کی پسند اور فیصلے کو سراہتے رہیں، ان کی چیزوں کو ان کی اجازت سے لیں، انھیں اپنے کام خود کرنے دیں، ان کے کسی بھی کام میں بچوں کی طرح بارہا ہدایات نہ دیں نہ ہی بےجا اور بات بات پرتنقید کریں۔

بچپن میں والدین کو بچوں سے قریب ہونے کے لیے ان کی عمر کا بننا پڑتا ہے مگر نو عمر بچوں کی خاطر اپنی عمر سے نیچے آنا مفید نہیں ہوتا ہے بلکہ نو عمر بچوں کو “بڑا فرد” مان لینا فائدے مند ہوتا ہے۔ اس دور میں بچے اپنے ہم عمر بچوں کو ڈرپوک ثابت کرنے یا چڑانے کے لیے انھیں بچہ کہتے ہیں “تم تو ابھی بچے ہو”۔ بعض اوقات نو عمر بچوں کو “بچہ” کہنا چڑانے سے زیادہ گالی کے مصداق لگتا ہے۔ اس لیے والدین سب سے پہلے اس عمر میں “بچہ” کہنا اور سمجھنا ترک کریں۔

پرائیویسی کا احترام کریں

نو عمر بچے اپنا کمرا اور اپنی جگہ چاہتے ہیں۔ والدین اپنے گھر کے رقبہ کی مناسبت سے انھیں ممکنہ سہولت دیں۔ والدین کو اس بات کا تو ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں تنہائی میں بچے کسی بری لت کا شکار نہ ہوجائیں۔ البتہ بار بار ان کے کمرے میں یا ان کی جگہ میں جھانکنا درست نہیں ہے اس سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں اور اگر وہ غلط کاموں میں ملوث ہوں تو ان کاموں کو کرنے کے دوسرے راستے کھوجتے ہیں۔ البتہ اس عمر میں والدین کو اپنی توجہ بنائی رکھنی چاہیے اور اس طرح دیکھ بھال اور خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کو شکایت نہ ہو۔

انھیں سنیں

والدین میں یہ شکایت عام ہوتی ہے کہ نو عمر بچے اپنے دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اوران کے بہت سے رازوں سے والدین واقف نہیں ہوتے جس کی وجہ سے نو عمر بچوں کے مسائل والدین تک نہیں پہنچتے۔ کیا دوستوں کے پاس مسائل کا حل ہے؟ نہیں ہے، دوست تو صرف سنتے ہیں اور دل چسپ بات ہو تو ہنستے ہیں، شرارتوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں، دکھ کی بات ہو تو منہ برا بناتے ہیں۔ دوستوں کے پاس جانے کی وجہ یہ ہے کہ “دوست باتیں سنتے ہیں۔” والدین کو چاہیے کہ اپنے نو عمر بچوں کی باتوں کو بنا کسی تنقید کے سنیں، گفتگو میں دل چسپی لیں۔ مسائل خود بخود ان تک پہنچ جائیں گے۔

بچوں کی نظر سے دیکھیں

بچوں کے کسی بھی مسئلے کو سلجھانے کے لیے مسئلہ کو خود بچوں کی نظر سے دیکھیں۔

کلاس میں ٹیچر نے سب کے سامنے ڈانٹ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے والدین اپنی عمر اور اپنے تجربات کی بنا پر اسے ہلکے میں لیں، مگر عمر کے اس دور میں جب گروپ کے سامنے ڈانٹ پڑتی ہے تو شدید توہین کا احساس ہوتا ہے اور دل پر گہری چوٹ پڑتی ہے۔

کسی دوست سے ان بن ہوئی ہو اور دوست خفگی میں ترک گفتگو کر بیٹھا ہو۔ ہرچند کہ والدین کے لیے یہ فضول بات ہو کہ بھئی دوسرے دوستوں کے ساتھ رہو، لیکن کسی دوست کا نظرانداز کرنا اس عمر میں تکلیف دہ حادثہ ہوتا ہے۔

والدین اس دور میں بچوں کے ہمدرد بننا چاہتے ہیں تو ان کے احساسات کو محسوس کریں، ان کی جگہ پر خود کو قیاس کریں۔ جس طرح ٹوٹی ہوئی شئے کی دوبارہ مرمت کے لیے یا پھٹے ہوئے ورق کو دوبارہ جوڑنے کے لیے الٹ پلٹ کر مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی اپنا نظریہ تو یاد رکھیں لیکن ان کی نگاہ سے بھی دیکھیں۔ عمر کے اس دور میں والدین جتنا بچوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اتنا ہی اپنی اولاد سے زیادہ قریب ہوں گے۔

انھیں وقت دیں

جنریشن گیپ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین بچوں کے جذبات اور مسائل فوراً اپنے تجربات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ بعض مرتبہ ہوتا یوں ہے کہ ایک ورکشاپ کے ذریعے والدین نے بہت کچھ سیکھ لیا یا کسی کتاب یا لیکچر کے ذریعے ان کی شخصیت میں مثبت تبدیلی آگئی اور وہ پھر اسی تناظر میں نو عمر بچوں کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً والدین کی 40 سال تک شخصیت مختلف تھی اور 42-43 برس میں انھوں نے بہت کچھ سیکھا، بدلا اور اب وہ اپنی اولاد کے مسائل کو بھی اسی میزان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ جب والدین بذات خود سیکھنے میں عمر کا ایک بڑا حصہ لیتے ہیں تب اولاد سے فوری تبدیلی یا اچانک کسی بڑے انقلاب کی امید کرنا دانش مندی نہیں ہے۔ نو عمر بچوں کو وقت دیں کہ وہ اپنے آپ کو سمجھیں ،اپنے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو جانیں اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرسکیں۔ انھیں اپنے عمل اور ردعمل پر سوچنے کا وقت دیں۔ وقت دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ والدین کی رہ نمائی سے پرے وہ خود بخود سب کچھ کر گزریں۔

بہترین معاون بنیں

ماہر نفسیات Maslow نے انسانی ضروریات کی درجہ بندی کی ہے کہ غذا، پانی اور تحفظ کے علاوہ محبت اور اپنائیت بھی انسانی ضروریات میں شامل ہیں۔ اور دیکھا جائے تو یہی وہ ضروریات ہیں جن کی بنیاد پر خاندان بنتے ہیں اور لوگوں میں رشتہ داریاں قائم ہوتی ہیں اور معاشرے کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ نو عمری کے دور میں بچہ بڑا ہورہا ہوتا ہے اور ایک ذمہ دار انسان کی حیثیت سے معاشرے میں ابھرتا ہے جو والدین کی خاندانی اور نسلی بقا کی علامت ہے۔ یہ عمل ایک بہت بڑا چیلنج ہے اس لیے اپنے ساتھ دشواریوں کا بھنڈار لاتا ہے۔ والدین اپنی نوعمر اولاد سے کیسے رشتہ نبھاتے ہیں یہ اس دور میں مثبت تربیت کا اہم پہلو ہے۔ نو عمری کے اس نازک دور میں بچوں کو تنہا کبھی مت کریں۔ روٹی،کپڑا، مکان کے ساتھ الفت و محبت بھی دیں۔ 2021World Happiness Reportکے مطابق لاک ڈاؤن کے دنوں میں لوگ ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوئے ، کیوں کہ لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارا اور آپسی کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ والدین اپنے نو عمر بچوں کو سمجھنے کے لیے ان کے ساتھ اچھا وقت گزاریں۔ ان سے دوستی کرنے کے لیے ان سے گفتگو کریں۔ نو عمر بچے اپنے کاموں میں والدین کا تعاون نہیں چاہتے تو نہ کریں البتہ والدین اپنے کاموں میں ان کا تعاون ضرور لیں تاکہ کام کے بہانے تال میل مضبوط ہوتا رہے۔

ایک طرف نوعمر بچوں کو والدین کے روپ میں وعظ و نصیحت کرنے والا دوست نہیں چاہیے اور دوسری طرف والدین کو اپنے رہبری کے فریضے کو چھوڑنا بھی نہیں ہے، ایک طرف والدین کی تنقید ان سے برداشت نہیں ہوگی دوسری طرف دینی رجحان اور اخروی کام یابی کی اہمیت دلانا والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ایسے میں اپنے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھتے ہوئے انھیں ہر غلطی پر ٹوکنے کے بجائے ان غلطیوں پر تنبیہ کریں جن سے بڑے دنیوی اور اخروی خسارے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً عمر کے اس دور میں بچوں کی غذائیت، لباس، اسٹڈی روٹین، نماز و دیگر عبادات سبھی میں تبدیلی آتی ہے۔ والدین کو کسی اہم معاملہ کو نگاہ میں رکھنا ہوگا اور دوستانہ لہجے میں سمجھانا ہوگا۔ ہوسکتا ہے والدین کی نظر میں ایک ساتھ بہت سارے مسائل ہی اہم ہوں مثلاً لباس کا مسئلہ، نماز میں سستی، فاسٹ فوڈ کی طرف رجحان، وغیرہ۔ پھر بھی والدین ایک ساتھ سارے مسائل کے تحت نہ دوستانہ گفتگو کرسکتے ہیں نہ ہی بات بات پر ڈانٹ سکتے ہیں۔ ایک ایک مسئلے کو باری باری حکمت ودانائی سے حل کرنا ہوگا۔

اچھی صحبت ضروری ہے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”نیک آدمی کی ہم نشینی کی مثال اس شخص کی ہے جو مشک رکھتا ہو، اگر تم کو اس سے مشک نہ مل سکے تو خوشبو تو مل جائے گی اور خراب آدمی کی ہم نشینی کی مثال بھٹّی دْھونکنے والے کی ہے، اگر تمھارا کپڑا نہ بھی جلے تو اس کے دْھوئیں سے تو بہرحال نہ بچ سکو گے”(صحیح بخاری) نیک دوستی نیکی اور کامیابی میں معاون ہوتی ہے جب کہ بری صحبت گم راہی کے راستے پر ڈالتی ہے۔ اس لیے بچپن سے ہی بچوں کے دوستوں پر نظر رکھیے بلکہ ہوسکے تو والدین اچھے بچوں سے دوستی کرائیں۔ بچپن میں بچے اپنے والدین سے بہت قریب ہوتے ہیں لیکن جب وہ نو عمری میں داخل ہوتے ہیں تو دوستوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس عمر میں والدین اور اساتذہ سے زیادہ دوستی جادو کا اثر کرتی ہے۔ اس لیے نیک صحبت ہونا اشد ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑھتے بچوں کے دوستوں سے متعارف رہیں کہ وہ کن بچوں کے ساتھ دوستی کررہے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ دوستوں کے چناؤ میں والدین حکیمانہ رہ نمائی کریں۔ ان دوستوں کے والدین سے بھی رابطہ میں رہیں، آیا ان دوستوں کے والدین مہذب اور دیندار ہیں؟ یہ تحقیق بھی ضروری ہے۔ والدین نرمی اور پیار سے بچوں کے دوستوں سے مختلف سوالات کرکے ان کے مزاج اور روٹین کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ اگر کسی حرکت پر شک ہو تو بڑی ہی نرمی اور مہارت سے معاملات کی تہہ میں جاسکتے ہیں۔ اپنے بچوں کے سامنے کبھی ان کے دوستوں کو ٹوکنا، غلط کہنا، تنقید کرنا جیسے کام نہ کریں۔ ان کے دوستوں کو عزت دیں، ان سے خود بھی دوستانہ روی اختیار کریں،گھر میں خاص دعوت کا اہتمام ہو تو ضرور یاد رکھیں اور انھیں تحائف دینے میں بھی بچوں کی مدد کریں۔ اگر والدین کو بچے کا دوست کسی بری عادت کی وجہ سے پسند نہ ہو تب بھی نہایت عمدہ طریقے سے اپنے بچوں کے جذبات کو بنا ٹھیس پہنچائے ان سے گفتگو کریں انھیں سمجھائیں کہ بری سنگت چھوڑنی چاہیے۔

اگر آپ اپنے نو عمر بچوں کو اچھے ساتھیوں میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اسلامی تنظیم و تحریک سے بچوں کو جوڑ دیں۔

جسمانی تبدیلیوں کے تحت تربیت

بچے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے تئیں تجسس کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ انھیں وقتاً فوقتاً ان کی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا جائے اور جو سوالات ان کے ذہن‌میں ابھرتے ہوں انھیں حل کریں۔ بحیثیت مسلمان انھیں اپنے ستر کی پردہ پوشی کی معلومات دینا مت بھولیں۔

صنف مقابل میں دل چسپی

اس عمر میں فطری طور پر صنف مقابل میں دل چسپی آنے لگتی ہے اس لیے بلوغت کے بعد پردے (حجاب) کے جو ضابطے مطلوب ہیں ان کی پابندی کریں اور اپنے گھر میں ان کا نفاذ کریں۔ نو عمر بچوں کو، محلے اور پڑوس میں رہنے والے یا دیگر صنف مقابل جن سے پردہ رکھنا دین میں واجب ہے ان سے میل ملاپ کے مواقع سے دور رکھیں ۔ آج کے دور میں صنف مقابل کے علاوہ ہم جنس پرستی بھی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے والدین کو ان کی وجوہات کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ ایسے اسباب سے بچوں کی حفاظت کرسکیں۔ بچپن سے ہی والدین حجاب و حیا کے معاملے میں اپنے گھر اور خاندان میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور شرعی احکامات کی پابندی کرتے ہیں تو نو عمری میں بچوں کی بے راہ روی کے اندیشے کم ہوجاتے ہیں۔

مقصد حیات سے متعارف کرائیں

کیا بننا ہے؟ بچپن میں یہ بیج تو ڈالا جاتا ہے لیکن اس کی اصل سینچائی کا وقت نو عمری ہے۔ اس عمر میں جوش و ولولے کے ساتھ کچھ کچھ سنجیدگی آتی ہے تو دوراندیشی بھی آتی ہے اور مستقبل کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے۔ اولاد کی صلاحیت کو بچپن میں ہی پہچانیں اور انھیں خواب دیں اور اس عمر میں خواب کے تئیں کوشش و محنت کی شاہراہ پر گامزن کریں۔ جس فیلڈ میں آگے کام کرنا ہے اس عمر میں اس کے سبجیکٹ پر خوب محنت ہو اور مہارت حاصل کی جائے۔ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا راہیں اپنانی چاہئیں اور کس میدان میں قدم جم جانے چاہئیں یہ والدین کے علاوہ بچوں کو بھی معلوم ہونا ضروری ہے۔

غرض یہ کہ، نو عمری والدین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر والدین حکمت ودانائی کے ساتھ تربیتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہیں تو وہ زندگی بھر کے لیے کام یاب ہوجاتے ہیں اس کے برعکس اگر وہ ذرا ذرا سے معاملے میں الجھ کر نو عمر بچوں کے ساتھ تعلقات خراب کرتے ہیں تو زندگی بھر کا پچھتاوا ان کا مقدر بن سکتا ہے۔

اسلام کی نظر میں والدین کا کام صرف بچوں کو پالنا پوسنا نہیں بلکہ ان کی عمدہ تربیت بھی کرنا ہے، اس لیے مسلم والدین کو اپنے بچوں کے سلسلےمیں بے انتہا سنجیدگی، سمجھ داری اور اخلاص سے کام لینا ہوگا۔ اس راستے میں انا پرستی منزل کو کھوٹا کردیتی ہے اوربے لوث محبت نیز رضائے الہی کی طلب راستے کو آسان اور منزل کو قریب کردیتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223