جسمانی سزا کے بنابہتر تربیت ہوسکتی ہے

ہرن کا بچہ پیدا ہونے کے کچھ ہی دیر بعد چوکڑیاں بھرتا ہے، مچھلیاں جنم لیتے ہی تیرنے لگتی ہیں، پرندے پہلی اڑان کے بعد نیا آشیانہ بنالیتے ہیں، لیکن انسانی بچہ ان سب سے زیادہ معزز و مکرم ہونے کے باوجود اپنی نشو و نما میں اتنا تیز رفتار نہیں ہوتا۔ وہ برسوں تک بچہ رہتا ہے اور اس کی پرورش و تربیت کا بار اس کے والدین کے کندھوں پر رہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی بچے کی پرورش و نگہداشت بڑی صبر آزما ہوتی ہے۔ مشہور انگریزی شاعر جان ولموٹ (1647-80) کا یہ قول بہت مشہور ہوا ‘‘شادی سے قبل تربیت اولاد کے بارے میں میرے پاس چھ نظریے تھے، اب میرے چھے بچّے ہیں لیکن کوئی نظریہ باقی نہیں رہا۔’’

بچوں کی تربیت کے امتحان میں وہ والدین اپنی ناکامی کا کھلا ثبوت پیش کرتے ہیں جو ہر مسئلے کو سزا اور خاص طور سے جسمانی سزا سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔گذشتہ مضمون میں ہم نے بے جا غصے کے حوالے سے بات کی تھی، اس مضمون میں ہم جسمانی سزا کے حوالے سے گفتگو رکھیں گے۔

جسمانی سزا کیا ہے؟

جسمانی سزا کی تعریف اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے بچوں کے حقوق کی طرف سے اس طرح کی گئی ہے:

‘‘کوئی بھی ایسی سزا جس میں جسمانی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد کسی حد تک درد یا تکلیف دینا ہوتا ہے، چاہے وہ ہلکی سی ہی کیوں نہ ہو’’کمیٹی کے مطابق، بچوں کو ہاتھ سے مارنا ( تھپڑ مارنا یا جسم پر کہیں بھی مارنا) یا اس عمل میں کوڑا، لاٹھی، بیلٹ، جوتا، لکڑی کا چمچہ یا اس سے ملتی جلتی اشیا کا استعمال کرنا، لات مارنا، ہلانا یا پھینکنا، کھرچنا، چٹکی لگانا، کاٹنا، بالوں کو کھینچنا یا کانوں پر چانٹا رسید کرنا، جلانا یا چٹکا لگانا، بچوں کو غیر آرام دہ پوزیشن میں رہنے پر مجبور کرنا وغیرہ شامل ہے۔’’

سزا کی دیگر غیر جسمانی شکلیں ظالمانہ اور ذلت آمیز ہوسکتی ہیں۔ان میں ایسی سزائیں شامل ہیں جو بچے کو نیچا دکھانے، ذلیل کرنے، خودی مجروح کرنے، دھمکیاں دینے، ڈرانے یا مذاق اڑانے میں مستعمل ہیں۔ یہ سزائیں بچوں کو ان کے والدین، گھر کے بڑے افراد، سرپرست، نگراں یا اساتذہ دیتے ہیں۔

جسمانی سزا اور عالمی صورت حال

عالمی ادارہ برائے بچوں کے حقوق،UNICEF 2005-2013 کے درمیان تقریباً 56 ممالک کا سروے اپنی تحقیق میں پیش کرتا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 10 میں سے 6 بچے جو 2 سال سے 14سال کی عمر کے دورانیے میں ہوتے ہیں، انھیں جسمانی سزائیں ملتی ہیں۔ کچھ ملکوں میں اوسطاً 17% بچوں کو سخت جسمانی سزا کا سامنا کرنا پڑا (سر، چہرے یا کانوں پر مارا جانا یا زور سے اور بار بار مارا جانا) کسی خطہ میں یہ تعداد ٪40 سے زیادہ ہے۔ کچھ ممالک میں لڑکوں کو سزا دینے کی شرح زیادہ ہے۔ البتہ لڑکیوں کی تعداد سے جب لڑکوں کا موازنہ ہوا تب یہ راز کھل گیا کہ بنا جنسی تفریق کے سزائیں دونوں کو یکساں ملتی ہیں۔ بعض علاقوں میں کم سن بچوں کو جن کی عمر ابھی 4 سال یا اس سے کم ہوتی ہے، انھیں بھی جسمانی اذیتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایسے علاقے بھی اسٹڈی میں آئے جہاں 5 برس یا اس سے بڑی عمر (14 سال تک) کے بچوں کو شدید سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ 2012-2016 میں 29 ممالک میں ایک سروے ہوا اور تقابلی جائزہ سے یہ واضح ہوا کہ 10 میں سے 3 بچے جن کی عمریں 12 سے 23 ماہ کی ہوتی ہیں، وہ بھی مار پیٹ کا شکار ہیں۔

جسمانی تکلیف اور ہندوستانی قانون

ہندوستان کے دستور میں بچوں کو دی جانے والی سزا کی کوئی قانونی تعریف درج نہیں ہے لیکن 2009 RTE سیکشن 17(1) میں جسمانی اذیت اور ذہنی ہراسانی پر پابندی عائد کرتا ہے۔ اس دفعہ کے سیکشن 17 (2) بچوں کو اذیت پہنچانے کو قابل سزا جرم گردانتا ہے۔ جوینائل جسٹس ایکٹ JJAct کا سیکشن 75 سرپرست کے حق میں بچوں کے ساتھ ظلم کی سزا تجویز کرتا ہے کہ اگر بچہ کسی ادارے یا تنظیم یا شخص کی زیر نگرانی ہو اور اسے کسی بھی قسم کی جبراً ذہنی و جسمانی تکلیف پہنچائی جائے تو پانچ سال کی قید یا پانچ لاکھ نقد روپیوں کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ ہراساں بچہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ سزا دس سال تک بھی ہوسکتی ہے۔ بھارت میں NCPCR بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ 2010 میں جب کلکتہ سے روونجیت راؤلا نے 13برس کی عمر میں اسکول میں کی جانے والی سختی کے ردّعمل میں خودکشی کرلی تب NCPCR سمیت ملک بھر میں بچوں کے تحفظ حقوق کے تحت کام کرنے والے ادارے، ماہر تعلیم، ماہر نفسیات، سماجی کارکن اور متعدد تعلیمی اداروں اور والدین کو اذیت رسانی کے مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا پڑا۔ NCPCR نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق ہمارے ملک میں تین میں سے دو بچوں کو جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اس لیے 2014 میں اساتذہ کو قید اور جرمانے کی سزا والا قانون آگیا، اسی کے ساتھ والدین اور رشتے داروں کا بھی بچوں کو مارنا غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس ایکٹ کے لیے ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کے درمیان کئی مباحثے ہوئے کہ آخر بچوں کو پھر کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ اساتذہ اور والدین کا رعب و دبدبہ اور عزت و احترام اس قانون میں کہیں دب تو نہیں جائے گا۔ بچوں کی شخصیت کی بحالی و ارتقا کے چکرویو میں ان کی نگہداشت کرنے والی شخصیات کا مقام و مرتبہ کہیں مجروح نہ ہوجائے۔  حکومت سے والدین، اساتذہ اور سرپرستوں کی پوزیشن کو ملحوظ رکھتے ہوئے بچوں کو منظم کرنے والے طریقوں کے اندراج کے ساتھ نئے پروٹوکول کا مطالبہ کیا گیا۔

والدین کے مختلف مزاج

بعض والدین اس قدر رحم دل اور نرم مزاج ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کو معمولی سزا دینے کی تاب نہیں رکھتے۔ اگر کبھی بچوں کو سزا دے بھی دی تو عرصے تک پشیمان رہتے ہیں۔ جب کہ والدین کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو سزا کو تربیت اولاد کا مفید ذریعہ سمجھتا ہے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ سزاؤں کے ذریعے بچوں کو سبق ہمیشہ کے لیے یاد ہوجاتا ہے اور وہ غلطی کو بار بار نہیں دوہراتے۔ ان کے پاس سزا کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی ذرا سی قباحت ان کے ذہن میں ہوتی ہے۔ وہ اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہیں کہ ہمیں بھی بزرگوں اور اساتذہ سے ایسی ایسی سزائیں ملی ہیں۔ بہرحال ہر دو طریق تربیت کے اپنے اپنے نتائج ہیں۔

بچوں پر جسمانی سزا کے اثرات

سخت مزاج والدین جو بات بات پر سزا دینے کے لیے تیار رہتے ہیں، ان کے بچے جسمانی اور ذہنی صحت سے جڑے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ جب بچے کسی شدید سزا سے درد، اداسی، خوف، غصہ اور شرم محسوس کرتے ہیں تب ان کا شارکی نظام اعصاب  (sympathetic nervous system) خود بخود متحرک ہوجاتا ہے جس سے لڑو یا بھاگو (fight or flight) والی سوچ پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے تمام بچے جو مسلسل جسمانی اذیت کا شکار رہتے ہیں، ان کے یہاں ذہنی کم زوری اور نظام ہاضمہ میں خرابی دیکھنے کو ملتی ہے۔

بچوں کی جسمانی صحت اور ان کی قوت برداشت مارپیٹ سے متاثر ہوتی ہے۔ کبھی شدید قسم کی چوٹ لگ جاتی ہے، کبھی سر، کان، ناک سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے جو سنگین نوعیت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ آنکھوں کی بینائی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ کبھی کوئی ہڈی یا عضو ٹوٹ جاتا ہے۔ بیشتر بچے پڑھائی لکھائی سے شدید بے زار ہوجاتے ہیں اور اچھے کاموں سے متنفر ہوکر شراب، سگریٹ نوشی جیسی منشیات میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ جسمانی اذیت سے گزرنے والے بچے نہ تعلیم و تربیت کے میدان میں نکھر پاتے ہیں نہ صحت مند و تندرست رہ پاتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین سے تعلقات بھی کم زور ہوتے ہیں لہذا یہ اپنے مسائل میں والدین کے تعاون کو غیر محفوظ اور غیر ضروری شمار کرتے ہیں۔ جن بچوں کو زندگی میں مسلسل سزا ملتی رہتی ہے وہ تعذیب کے دل دادہ بھی ہو سکتے ہیں، یعنی انھیں دوسروں کو اذیت پہنچانا اچھا لگنے لگتا ہے۔ رودولف دریکرس مشہور ماہر نفسیات ہیں جنھوں نے کئی اہم موضوعات پر تحقیقات پیش کی ہیں۔ children:  the challenge، موصوف کی وہ مقبول تصنیف ہے جو والدین کو اعتماد بخشتی ہے کہ کس طرح وہ صحت مند،خوش حال اور با اخلاق بچے پروان چڑھائیں۔ اس کتاب میں مصنف نے جسمانی سزا کے تحت اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ سزا تشدد سے روکتی نہیں، بلکہ اس کی جانب راغب کرتی ہے۔ سزا بچے میں مایوسی پیدا کرتی ہے اور یہ مایوسی گناہ کے راستے کی طرف بڑھاتی ہے۔ مصنف کے مطابق جسمانی سزا بچے کے اندر بدتمیزی کا رجحان پیدا کرتی ہے۔سیکھنے کے عمل اور سزا کے درمیان تعلق پر کی گئی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سزا سیکھنے کے عمل میں غیر مفید ہے۔ یہ دل چسپی کو ختم کرتی ہے اور کوشش کرنے کا حوصلہ بھی توڑتی ہے۔

بہر کیف، بچے اللہ کی نعمت اور امانت ہیں۔ ان کی دیکھ بھال والدین کی ذمہ داری ہے۔ ان کے ساتھ ایسی سختی جو فائدے مند ہونے کے بجائے ان کے لیے ضرر رساں ہو، ہرگز جائز نہیں ہوسکتی ہے۔

سزا دینی چاہیے یا نہیں

ابن خلدون نے اپنے مشہور مقدمہ میں جسمانی سزا کے اثرات پر گفتگو کی ہے، کہ ‘‘جب طلبہ، غلاموں اور نوکروں کی تربیت سختی سے ہوتی ہے تو ان پر مغلوبیت اور گھٹن چھائی رہتی ہے اور ان کی چستی اور چالاکی ختم ہو جاتی ہے، بلکہ یہ چیز انھیں سستی،جھوٹ، کاہلی اور خبث باطن پر آمادہ کرتی ہے۔’’ سختی کے بچوں پر بھی ایسے ہی اثرات ہوتے ہیں جس کا مشاہدہ، ڈاکٹر ہائم جینوٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Between Parent and Child میں بیان کیا ہے۔ یہ کتاب پچھلے 35 برسوں سے والدین کی رہ نمائی کررہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘بدتمیزی اور سزا متضاد نہیں ہیں جو ایک دوسرے کا خاتمہ کریں۔ اس کے برعکس، وہ ایک دوسرے کو بڑھاتے اور مضبوط کرتے ہیں۔ سزا بدتمیزی کو نہیں روکتی۔یہ مجرم کو فرار کی راہیں تلاش کرنے میں زیادہ ہنر مند بناتی ہے۔ جب بچوں کو سزا دی جاتی ہے تو وہ زیادہ محتاط رہنے کا عزم کرتے ہیں، زیادہ فرمانبردار یا ذمہ دار بننے کا نہیں۔’’

جسمانی سزا دینے سے بچے سب کچھ ڈھنگ سے سیکھ جاتے ہیں اور فرماں بردار بن جاتے ہیں، یہ گمان بے بنیاد ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس سے بچوں میں بداخلاقی کے جراثیم تیزی سے پنپتے ہیں۔ بد سلوکی سے بدسلوکی ہی پروان چڑھتی ہے، جب کہ ہم درد والدین سے سماج کو انسان دوست بچے ملتے ہیں۔

امام غزالی نے نصیحت فرمائی کہ ‘‘ہر غلطی پر بچوں پر ملامت نہیں کرنی چاہیے اس سے ان کی ذہنوں میں ملامت کو سننا اور غلطی کا ارتکاب کرنا بے وقعت ہو جاتا ہے اور نصیحت دل پر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ والد کو اولاد کے ساتھ بات کے وقار کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ وہ انھیں کبھی کبھار ہی زجر و توبیخ کرے’’

بچوں کو پیار و محبت سے سکھانا چاہیے لیکن اگر وہ غلطی کریں تو اس کی نشان دہی بھی ہونی چاہیے۔ کوتاہیوں پر شروع میں نرمی سے سمجھانا چاہیے، پھر بھی فائدہ نہ ہو تو کچھ تنبیہ بھی کرنی پڑسکتی ہے۔ بے جا ملامت اور غیر ضروری سختی ظلم ہے اور تلقین و نصیحت بالکل چھوڑ ہی دینا بچے کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس لیے نرمی اور سختی دونوں کے مناسب مرکب کو اختیار کرتے ہوئے تربیت کرنی چاہیے، کسی ایک پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔

سزا سے پہلے طویل تربیت

بچوں کو ان کی غلطی کا احساس دلانے کے لیے سزا دینا لازمی ہے۔ سزا کا اصل مقصد ان کی اصلاح ہونا چاہیے نہ کہ ان سے انتقام لینا یا اپنا غصہ اور تناؤ ان پر اتارنا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق آدمی کسی کو پچھاڑنے سے بہادر نہیں کہلاتا بلکہ غصّہ کے وقت مین اپنے اوپر قابو پانا اس کی شجاعت ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ عورت کو نہ خادم کو، البتہ جہاد میں اللہ کی راہ میں مارا اور آپ کو جس کسی نے نقصان پہنچایا اس سے بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر اللہ کے حکم میں خلل ڈالا، تو اللہ کے واسطے بدلہ لیا۔ (صحیح مسلم)

نماز اسلام کا اہم ترین رکن ہے جو مومن اور کافر کے درمیان فرق کرتی ہے۔ اور اس کی پابندی کے لیے دس سال کی عمر میں سزا دی جاسکتی ہے۔ اس سے ایک طرح سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ سزا دینے کے لیے عمر بھی دیکھنی ہوگی۔ نماز کے لیے سزا دینے کی جو ترتیب ہے وہ بھی دل چسپ ہے۔ سات سال کی عمر سے تلقین کی جائے پھر دس سال ہونے پر سزا دی جاسکتی ہے۔ اول بات تو یہ ہے کہ یہ واحد مقام ہے جہاں بچوں کو سزا دینے کی اجازت ہے لیکن غور طلب نکتہ یہ بھی ہے کہ سات سال کے بعد تین سال تک نصیحت اور تلقین کرنی ہے۔ والدین کو سوچنا چاہیے کہ جن کاموں کے نہ کرنے پر وہ سزا دینا چاہتے ہیں کیا وہ نماز سے زیادہ اہم ہیں؟ کیا انھوں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی دنوں تک بچوں کو صرف نصیحت کی ہے یا بس ایک دو مرتبہ کی نوٹس کے بعد ان کی پٹائی کردی ہے۔ ہر کام کی اپنی اہمیت ہے اور والدین تو بچوں کی بہتر زندگی کے لیے ہی انھیں سزا دینا چاہتے ہیں لیکن نماز جیسی عظیم عبادت اور اہم فریضہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیگر امور کی اہمیت پر غور کرتے رہیں اس طرح سزا پر کنٹرول رہے گا۔

جسمانی سزا کا متبادل

تشدد کی حد تک جسمانی سزا دینا اور تذلیل کی حد تک غیر جسمانی سزا دینا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ شریعت میں بھی یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ جسمانی سزا بچوں کے لیے مضر ہے اس لیے اس کے بہتر متبادل تجویز کرنا ضروری ہے۔ اچھی سزا وہ ہے جس سے بری عادت بھی چھوٹ جائے اور اچھی عادت کی ترغیب بھی ہو۔ ایسی سزا جس سے نقصان نہ کے برابر ہو یا کم ہو، ساتھ ہی بچوں کو کچھ اچھا سیکھنے کا بھی موقع ملے، ہم یہاں بطور مثال کچھ متبادل تجویز کریں گے۔

صدقہ باکس

گھر میں ایک ڈبہ (گلک) صدقہ باکس کے نام سے رکھا جا سکتا ہے۔ طے کیا جائے کہ غلطی ہونے پر بطور جرمانہ اس میں پیسے ڈالنے ہوں گے۔ بچوں کی عمر اور پاکٹ منی کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں سے ان کی غلطی پر جرمانہ ( فائن ) لیا جاسکتا ہے۔ بعد میں وہ پیسے خود ان بچوں سے غریبوں کو دلوائے جائیں اور اس وقت صدقے کا ثواب بھی بتایا جائے۔ اس طرح جرمانے کی تکلیف کو حکمت کے ساتھ صدقے کی خوشی میں تبدیل کیا جائے۔

کاموں میں مدد

بچوں سے ان کی غلطیوں پر گھر کے اور باہر کے کاموں میں مدد لی جاسکتی ہے۔ گھر میں صاف صفائی، اشیا کو ترتیب دینا، کپڑوں کی تہہ بنانا، سودا سلف لانا، وغیرہ چھوٹے چھوٹے کام عمر اور جسمانی صحت کی مناسبت سے کرائے جاسکتے ہیں۔ یاد رہے ان کاموں کے درمیان ماحول خوشگوار ہو، کام کے دوران انھیں ملامت نہ کی جائے، ورنہ وہ ان کاموں سے متنفر ہوجائیں گے۔ کام کے بعد انھیں شاباشی بھی دی جائے، تاکہ انھیں کام کرنے کی خوشی حاصل ہو۔

ٹائم آؤٹ – ٹائم ان

ٹائم آؤٹ تکنیک میں ہوتا یہ ہے کہ بچے کو گھر کے کسی ایک کونے میں مخصوص مدت تک بٹھایا جاتا ہے۔ یہاں بچہ کوئی کام نہیں کرتا نہ کسی سے بات کرسکتا ہے۔یوں ہی فارغ بیٹھے وہ اپنی غلطی پر غور کرسکتا ہے، اپنی خامی کو قبول کرسکتا ہے، شرمندہ ہوسکتا ہے اور خود اپنے لیے حل سوچ کر مصمم ارادہ کرسکتا ہے۔ اس تکنیک کے لیے مثبت تربیت اور خوشگوار ماحول مطلوب ہے۔

‘ٹائم ان’ ایک ایسی تکنیک ہے جس میں آپ اپنے بچے کو کونے میں بھیج دیتے ہیں، جہاں بیٹھنے اور کچھ نہ کرنے کے بجائے بچے کو عمر کے مطابق کام مل جاتا ہے۔ ان کاموں میں نظم، ترانہ، سورہ، سبق وغیرہ حفظ کرنا، لکھنا یا پڑھنا یا ریاضی کے مسائل حل کرنا شامل ہیں۔ سزا کا مقصد پورا ہوگا اور بچے کو کچھ مفید کام بھی ملے گا۔

کھیلنے کے وقت میں کٹوتی

کم عمر بچوں کے کھیل کود کا دورانیہ بطور سزا کم کیا جاسکتا ہے یا ان کی سیر و تفریح ٹالی جاسکتی ہے۔ کچھ کھلونے یا گیم مخصوص مدت تک ضبط کیے جاسکتے ہیں۔ بچوں کی ساری دل چسپی ان کے کھلونوں اور کھیل کود سے ہوتی ہے، اس قسم کی سزا سے بچوں کی اچھی فہمائش ہوگی۔

مراعات میں کٹوتی

والدین کی طرف سے بچوں کو ان گنت سہولیات ملتی ہیں۔ بچوں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلانے کے لیے کچھ مراعات کم کی جاسکتی ہے۔ مثلاً انھیں میلے کپڑے بستر پر یا فرش پر پھینکنے کی عادت ہو اور والدین کی طرف سے ایسے کپڑوں کو صحیح جگہ رکھنے کی تاکید کی جارہی ہو لیکن بچہ اس پر توجہ نہ دے، آپ کپڑا نہ اٹھائیں بلکہ ان سے ہی اٹھوائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیا جاسکتا ہے کہ جس دن وہ ایسی حرکت کریں گے اس دن انھیں ان کی پسند کا ناشتہ نہیں دیا جائے گا۔

حوصلہ افزائی اور انعام

والدین مہینے میں ایک مرتبہ ہوم ورک نہیں کرنے پر ناراض ہورہے ہیں، کیا بقیہ 29 دنوں میں انھوں نے ہوم ورک کرنے پر بچے کی تعریف کی؟ ایسے کئی مواقع ہیں جب والدین ناراض تو بہت جلدی ہو جاتے ہیں لیکن اچھے کاموں پر تعریف کرنے میں کنجوسی کرتے ہیں۔ والدین کو یہ رویہ بدلنا چاہیے۔ انعام اور حوصلہ افزائی سے بچوں کی مطلوبہ باتوں کی طرف رغبت بڑھے گی اور وہ جلد سیکھیں گے۔ خراب کاموں پر روک لگانے سے آسان ہے اچھے کاموں کی ترغیب دینا۔ سزا سب کے سامنے نہیں دینی چاہیے لیکن تعریف لوگوں کے سامنے کرنی چاہیے تاکہ بچہ خوش ہو اور پر اعتماد محسوس کرے۔

نئی مہارتیں سکھائیے

سارے بچے ایک دو بار میں نہیں سیکھ پاتے۔ ہر بچہ سیکھنے کے لیے اپنا اپنا وقت لیتا ہے۔ والدین کو سکھانے کے عمل میں غصہ آتا ہے اور پھر دھیمی رفتار کے باعث بچے کو جسمانی سزا بھی ملتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ نئے انداز اپناتے رہے اور بچوں کو وہی کام کرنے کی نئی مہارتیں سکھاتے رہیں۔ مثلاً کچھ بچے لکھنے میں کم زور ہوتے ہیں، کچھ ریاضی میں کچھ انگریزی میں، کچھ سائیکل نہیں چلا پاتے، والدین کو یہ سب کچھ سکھانے کی نئی نئی ترکیبیں اپنانی ہوں گی۔

نتائج پر تدبر کا موقع

بچے کو دی جانے والی سزا کو ان کے غلط سلوک سے جوڑیں۔ جیسے:

‘‘پچھلی مرتبہ تم منع کرنے کے باوجود سڑک پر بھاگ رہے تھے اس لیے اس مرتبہ تمھیں شاپنگ اسٹور نہیں لے جایا جاسکتا۔’’

‘‘تم دوپہر کے وقت باہر کھیلنے جاتے ہو تو نہ وقت پر کھانا کھاتے ہو نہ پڑھائی کرتے ہو، تمھارا کتنا نقصان ہورہا ہے۔ اس لیے دوپہر میں کھیلنے جانا بند، صرف شام کو کھیلنے کی اجازت ہے۔’’

اس طرح ان کے پاس نتائج کی وضاحت اور وجوہات ہوں گی، منطقی دلائل سے وہ اپنی کوتاہیوں کو خود سمجھ سکیں گے۔

اپنی بھول چوک سے کچھ نتائج بھگت کر وہ خود بھی سیکھ جاتے ہیں۔ ہر بار ملامت کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ کبھی ٹوکنے سے بالکل گریز کرکے دیکھیں، ہوسکتا ہے انھیں خود سے سیکھنے کا موقع ملے۔ مثلاً سردی کا موسم ہے اور باہر جانے سے پہلے بچہ گرم کپڑے نہیں پہننا چاہتا ہے، لیکن باہر جاتے ہی بچے کو احساس ہوگا اور وہ فوری طور پر گھر آکر گرم کپڑے پہنے گا۔

قطع کلامی کرنا

خفگی کا اظہار کرنے کے لیے چھوٹی سی مدت کے لیے والدین بچوں سے قطع کلامی کرسکتے ہیں۔ یہ سزا اس وقت کارگر ہوتی ہے جب وہ آپ سے بہت زیادہ مانوس ہوتے ہیں اور آپ کے ساتھ باتیں کرکے ان کو بہت لطف آتا ہو اور آپ کی بے توجہی ان پر شاق گزرتی ہو۔

بہر حال، جسمانی سزا تادیب کا واحد راستہ نہیں ہے، کہ یہ سمجھا جائے کہ اگر سزا نہیں دی گئی تو بچوں کی اصلاح ہی نہیں ہوسکتی ہے۔ جسمانی سزا کو بے جا لاڈ پیار کا مقابل سمجھنا بھی غلط ہے، یعنی جو والدین جسمانی سزا نہیں دیتے وہ بے جا لاڈ پیار سے بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔

بہت سی متبادل سرگرمیاں ہیں جنھیں عمل میں لاکر بچوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔  بس ایک مرتبہ والدین کو منفی رویوں سے پرہیز کی نیت کرنی ہوگی، بس ایک مرتبہ اپنی اور بچوں کی فلاح و کام یابی کے لیے مثبت قدم اٹھانا ہوگا، بس ایک مرتبہ شدید ردّعمل کو ترک کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا، پھر بچوں کے لیے آپ کی فکر مندی تربیت کی بہت سی راہیں اور بہت سے طریقے خود سُجھائے گی۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2023

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223