سورۂ یوسف
سورۂ یوسف مکی سورۂ ہے۔ قرآن مجید کی بارہویں سورۂ ہے۔ اس میں ایک سو گیارہ (۱۱۱) آیات ہیں اوربارہ رکوع ہیں۔ یہ قرآن مجید کے بارہویں اورتیرہویں پارے میں ہے۔ اس سورۂ کا نام یوسف اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں سید نا یوسف علیہ السلام کے واقعات اورحالاتِ زندگی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کی جائے پیدائش اورجائے سکونت فلسطین میں ِحبرون تھی، جس کا دوسرا نام الخلیل ہے اور یہ شہر دنیا کا قدیم ترین شہر ہے اورآج بھی فلسطین میں آباد شہر ہے اورمسلمانوں کی اکثریت کا شہر ہے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بعد کو کسی وقت اپنے خاندان کوالخلیل سے کنعان لے کر آئے تھے اوریہیں آباد ہوئے۔
حضرت یوسف تیس (30) سال کی عمر میں ملک مصر کے فرما ں روا بنے اور اَسّی (80) سال تک بلا شرکت غیرے پورے مصر پر حکومت کرتے رہے۔ حکمراں بننے سے پہلے آٹھ ، نَو سال قید خانہ میں رہے اپنی حکومت کے نویں یادسویں سال حضرت یعقوب علیہ السلام کوپورے خاندان کے ساتھ فلسطین سےمصر بلالیا۔ایک سو دس (110) سال کی عمر میں وفات پائی ۔وصیت کے مطابق انہیں فلسطین میں نابُلس کے مقام پر دفن کیا گیا ۔ نابُلس جس کو پہلے سکّم کہتے تھے۔ بیت المقدس سے تیس (30) میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ اس کے قریب دو ، ڈیڑھ میل کے فاصلے پر وہ کنواں ہے جس میں بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کوڈالا تھا اوراس کے قریب ایک احاطہ بنا ہوا ہے جس میں حضرت یوسف اورحضرت یعقوب علیہما السلام کے مزار ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید نا یوسف علیہ السلام کی شان میں فرمایا تھا کہ الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اِسحٰق بن ابراہیم ۔ حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اِسحٰاق علیہ السلا م کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پرپوتے تھے۔ نبوت ورسالت کی سلسلۃٖ الذہب (سونے کی زنجیر ) کتنا اعلیٰ واشرف تھا یہ خاندانِ نبوت۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کا خواب
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ۰ۤۖ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ۳ اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْہِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُہُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ۴ قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا۰ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۵ وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَـمَآ اَتَمَّــہَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۶ۧ )سورۂ یوسف3تا 6(
ترجمہ’’ ہم آپ کے سامنے بہترین قصہ بیان کرتے ہیں، اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا ہے اوریقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں تھے۔ (3) یاد کرو جب یوسف نے اپنےباپ سے کہا’’ اباّ جان ، میں نے خواب دیکھاہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اورچاند ہیں ، میں نے انہیںاپنے آگے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔(4) باپ نے کہا :’’ اے میرے پیارے بیٹے، اپنا خواب اپنے بھائیوں کونہ سنانا ، ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی چال چلیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔(5) اوراِسی طرح تیرا رب تجھے منتخب کرے گا اورتجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا اورتیرے اوپر اور آلِ یعقوب پراپنی نعمت اِسی طرح پوری کرے گا ۔ جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں ابراہیم اوراِسحٰق پر کرچکا ہے ۔ یقیناً تیرا رب علم والا اورحکمت والا ہے۔‘‘ (6)
چند اہم پہلو
پہلا سوال: حضرت یوسف علیہ السلام نےیہ خواب کب دیکھا؟ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ (604-544ھ) فرماتے ہیںکہ انہوں نے یہ خواب بچپن میں دیکھا۔ وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا جب ان کی عمر سات (7) سال تھی ’’ خواب یہ تھا کہ گیارہ بڑی لاٹھیاں دائرہ کی شکل میں زمین میں جمی ہوئی ہیں پھر ایک چھوٹی لاٹھی ہے جوگیارہ بڑی لاٹھیوں کونگل جاتی ہے ‘‘۔ انہوں نے اس خواب کا ذکر اپنے والد حضرت یعقوب سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔
پھر اس خواب کے بعد جب ان کی عمر بارہ (12) سال کی تھی تو خواب دیکھا کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے ان کوسجدہ کررہے ہیں ۔ انہوںنے اس خواب کا ذکر بھی سب سے پہلے اپنے والد سے کیا ، تب بھی والد نے ان سے کہا کہ اس کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا کہ وہ تمہارے لیے کوئی سازش رچنے لگیں۔ کہا جاتاہے کہ یوسف علیہ السلام کے اس خواب کے درمیان اوران کے بھائیوں کے انجام کے درمیان کی مدت چالیس سال یا یہ بھی کہا گیا کہ اَسّی (80) سال تھی۔ حکماء اور دانش وروں کا قول ہے کہ برے خواب کی تعبیر جس میں شر ہوتا ہے جلدہی ظاہر ہوجاتی ہے اور اچھے خواب کی تعبیر کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس میں خیر ہوتا ہے او ردیر پا ہوتا ہے ۔
دوسرا سوال:وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا خواب سب سے پہلے اپنے والد سے ہی کیوں بیان کیا ؟ در اصل حضرت یوسف علیہ السلام بچپن ہی سے سلیم الطبع، نہایت سعادت مند اور فرما ں بردار تھے۔ اس میں ان کی سعادت مندی، نیک نیتی اورسلیم الطبعی جھلک رہی ہے کہ سب سے پہلے اس خواب کا ذکر انہوںنے اپنے والد محترم سے کیا ۔ اس طرح کا خواب کوئی اوچھی طبیعت کا آدمی دیکھتا تو سب سے پہلے اپنی بڑائی کا ڈھول دوسروں میں پیٹتا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا تو انہیں یہ محسوس ہوا کہ یہ خواب ، خوابِ پریشان کی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اہمیت رکھنے والا خواب ہے ۔اس وجہ سے انہوںنے اس کو سب سے پہلے اپنےوالد صاحب کے سامنے پیش کیا جن پر ہر پہلو سے ان کوسب سے زیادہ اعتماد تھا۔
تیسرا سوال: گیارہ ستاروں اورسورج اورچاند سے کون مراد ہیں؟ گیارہ ستاروں سے مراد، حضرت یوسف علیہ السلام کے گیارہ سوتیلے بھائی ہیں ا ور سورج وچاندسے مراد، ان کے والد ین ہیں۔ علامہ زمخشری صاحب کشّاف نے حضرت یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائیوں کے ناموں کا بھی ذکر کیا ہے ۔ وہ یہ ہیں:۔پھودا، روبیل، شمعون، لاوی، ربالون،یشجر، دینہ، دان ، نفتالی ، جاد، آشر۔ ان میں سات حضرت یعقوب کی بیوی ’’ لیا‘‘ سےہیں اور آخری چار ’’ زلفہ‘‘ اور بلہہ ‘‘ سے ہیں ۔ جب ’ ’لیا ‘‘ جوکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی خالہ زاد بہن بھی تھیں ان کا انتقال ہوگیا تو پھر انہوںنے ان کی بہن ’’راحیل‘‘ سے نکاح کرلیا جن سے حضرت یوسف علیہ السلام اوربن یامین پیدا ہوئے۔
چوتھا سوال : وہ گیارہ ستارے کون تھے؟ آسمان پر ستارے تو بے شمار ہیں ان میں سے وہ خاص گیارہ کون سے ستارے تھے جوسجدہ ریز ہوئے۔ صاحب کشاف علامہ زمخشری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورپوچھا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان ستاروں کے بارے میں بتاؤ جن کویوسف علیہ السلام نےدیکھا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اِسی اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان ستاروں کے نام بتائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا اگر میں بتادوں توکیا مسلمان ہوجائے گااس نے کہا ’’ جی ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستاروں کے نام بتائے جومندرجہ ذیل ہیں:
جربان، الطارق، الذیال ، قابس، عمودان، الفلیق، المصبح، الضروح ، الفرغ، وثاب، ذوالکنیفین ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نےان کودیکھا اورسورج وچاند کودیکھا جوآسمان سے اترے اور ان کوسجدہ کیا۔ یہودی نے کہا:’’ بخدا یہی ان کے نام ہیں‘‘۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس کوتحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ جان لو، ان میں سے زیادہ تر نام تصنیف شدہ کتابوں میں مذکور نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی حقیقتِ حال سے زیادہ واقف ہے۔
پانچواں سوال:یہ ہے کہ سورج اورچاند کا ذکر ستاروں کے بعدکیوں آیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سورج اورچاند کوستاروں پر افضیلت حاصل ہے اس لیے ان کے شرف اور بلند مقام کوخاص طور پر ذکر کرنے کیلئے بعد میں ذکر کیا ، جیسے سورۂ بقرہ آیت (98) میں ہے: مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْکائل فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ۹۸
’’ جو اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کے رسولوں اور جبریل اورمیکائل کے دشمن ہیں اللہ ان کافروں کا دشمن ہے‘‘۔
یہاں پر عام فرشتوں کا ذکر کرنے کےبعد جبریل ومیکائیل کا ذکر خاص طور پر ان کی اہمیت کے سبب سے ہے ۔
چھٹا سوال: یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں ’’رَأیْتُ‘‘ کی دومرتبہ تکرار کیوں ہے؟ قفال رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ’’ پہلی ’’رَأیْتُ‘‘ تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوںنے ستاروں اورچاند اورسورج کودیکھا اور دوسری رَأیْتُ اس بات پر شاہد ہے کہ ان کوا ن کے آگے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ‘‘۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جس وقت یہ خواب دیکھا اس وقت ان کی عمر بارہ سال تھی اور یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ وہ نہایت سنجیدہ اوربا ادب لڑکے تھے۔ آیت میں ’’رَأیْتُ‘‘ کی تکرار کا ایک نکتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوںنے اپنے والد ماجد سے کہا میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اورسورج و چاند کودیکھا ، یہ کہہ کر تھوڑا انہوں نے توقف کیا کیونکہ آگے جوبات وہ کہنے جارہے تھے وہ والد ماجد کے مقام ومرتبہ سے اعلیٰ بات تھی غالباً بےادبی کا خیال آیا ہواس لیےتھوڑی دیر رکے پھر کہا کہ میں نے انہیں اپنے آگے جھکے ہوئے دیکھاہے۔
ساتواں سوال: یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر یہ کیوں فرمایا کہ اپنے بھائیوں سے اِسے بیان نہ کرنا ؟ ایسا انہوں نےاس لیے کیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی، حضرت یوسف علیہ السلام سے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بے پناہ لگاؤ اور محبت سے جلتے تھے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر ہی اندازہ لگالیا تھا کہ اس میں منصب نبوت پر فائز ہونے کا اِشارہ ہے ، اس لیے انہوںنے سب سے پہلے ان کومنع فرمادیا کہ یہ خواب اپنے سوتیلے بھائیوں سے بیان نہ کردینا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سو چا ہوگا کہ اِن کے بھائی تو ان کے دشمن ہیں ہی خواب سن کر مزید حسد کی آگ میں جل بھن کر ان کے خلاف کوئی سازش کر بیٹھیں اور شیطان تو انسان کا کھلادشمن ہے ہی ، وہ انہیں غلط راستے پر ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
آٹھواں سوال:یہاں پر ایک سوال ا ور ابھرتا ہے کہ بھائیوں سے خواب کوبیان کرنے سے کیوں روکا؟ کیا ان کے بھائی خواب کی تعبیر کا علم رکھتے تھے کہ خواب سنتے ہی بات کی تہہ تک پہنچ جاتے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے منع اِسی لیے فرمایا کہ ان کے سوتیلے بیٹوں کویا ان میںسے کسی کو تعبیر خواب کا علم ہوگا۔ اہلِ تحقیق کا قول ہے کہ انہیں تعبیر خواب کا علم تھا ۔ اگر انہیں علم نہیں تھا تو پھر حسد ، جلن اورغصہ میں اضافہ کی کوئی وجہ اس خواب کوسن کر نہ ہوتی۔ (امام رازی تفسیر سورۂ یوسف)
منصب نبوت
حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو خبردی کہ تمہارا رب تمہیں نبوت کے لیے منتخب فرمائےگا ۔ یہ خواب ایک شان دار مستقبل کی پیشین گوئی کررہاہے ۔ اِسی کے ساتھ ساتھ وہ تمہیں تاویل احادیث کا علم دے گا یعنی خوابوں کی تعبیرکا علم دے گا ۔ یہی علم تعبیر ان کے لیے مصر کی بادشاہی اورجیل سے رہائی کاذریعہ بن گیا۔تاویل احادیث سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر ہی نہیں ہے بلکہ اس میں آسمانی کتابوں اورانبیاء متقدمین کے حالات کا علم بھی شامل ہے ۔ واقعات وحادثات کے نتائج اور انجام کا بھی علم ہے نیز اس میں معاملہ فہمی اور حقیقت کا علم بھی ہے ۔
اللہ تعالیٰ تمہیں نبوت دے کر تم پر اورآلِ یعقوب پر اپنی نعمت اس طرح پوری کرے گا جس طرح تمہارے دادا ، پردادا حضرت ابراہیم اورحضرت اسحاق علیہما السلام کونبوت دے کر پوری کی تھی۔
ایک اور سوال: حضرت یعقو ب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق جو بشارتیں سنائیں ۔ کیا ان کواس کا علم قطعی تھا اگران کے صحیح ہونےکا انہیں قطعی علم تھا تو پھر حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی پر غمگین کیوں ہوئے؟ کیسے انہیں شبہ ہوا کہ بھیڑیا انہیں کھا جائے گا اوران کے بھائی ان سے غفلت برتیں گے۔ اس علم کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ انہیں منتخب کرکے رسول بنائےگا امام رازی رحمۃ اللہ علیہ 544ھ604-ھ) نے اپنی مشہور تفسیر کبیر میں اس آیت کے ضمن میں اس کا جواب دیا ہے کہ ’’تمہارا رب تجھے منتخب کرے گا ‘‘ اس میں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ بھائی سازشیں نہیں کریں گے کیونکہ اس سے پہلے ہی وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ چالیں چلیں گے ۔ دوسری بات یہ کہ انہیں اس کا قطعی علم تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ان مناصب عالیہ تک ضرور پہنچیں گے مگر ان کا یہ قطعی علم اس بات سے نہیں روکتا ہے کہ انہیں اس راہ میں مشکلات در پیش نہیں آئیں گی ۔ مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا اوروہ ان مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکل جائیں گے اور پھروہ مناصب عالیہ تک پہنچیں گے۔ اسی وجہ سے انہیں وہ خوف تھا جوایک باپ کو اپنے محبوب بیٹے کی پریشانیوں سے ہوتا ہے۔
خواب کی تعبیر
قرآن مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کوبیان کرکے اُس کی تعبیر کی تکمیل بھی بتادی کہ وہ کیسے پوری ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ یوسف میں فرمایا :۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْہِ اَبَوَيْہِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ ۹۹ۭ وَرَفَعَ اَبَوَيْہِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا۰ۚ وَقَالَ يٰٓاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ۰ۡقَدْ جَعَلَہَا رَبِّيْ حَقًّا۰ۭ وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۱۰۰ ۞ رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ۰ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۣ اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۰ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۱۰۱
ترجمہ:’’ پھر جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تھے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اوراپنے سارے کنبے والوں سے کہا ’’ مصر میں داخل ہوجاؤ، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہوگے ‘‘ (شہر میں داخل ہونے کےبعد) اس نے اپنے والدین کواپنےپاس تخت پر بٹھایا اورسب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں گرپڑے ۔ یوسف نے کہا ’’اے میرے پیارے ابّا جان ) یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلےدیکھا تھا ، میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا ۔ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانہ سے نکالا اور آپ لوگوں کوصحراء سے لا کر مجھ سے ملایا ، حالانکہ شیطان نے مجھ میں اورمیرے بھائیوں میں رنجش پیدا کردی تھی ۔ بیشک میرا رب خیرمحسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتاہے، بے شک وہ بہتر علم رکھنے والا حکمت والا ہے ۔ اے میرے رب ! تونے مجھےحکومت بخشی اورخواب کی تعبیر دینے کا علم بھی سکھایا ، زمین وآسمان کے بنانے والے تو ہی دنیا اورآخرت میں میرا سرپرست ہے ، میرا خاتمہ اسلام پر کر اورانجام کار مجھے نیکوں کےساتھ ملا‘‘۔
ان آیات کا پس منظر
پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام زنداں سے آزاد ہوکر مصر کے اقتدار پر فائز ہوگئے اورقحط کے سالوں میں راشن سسٹم سے غلّہ لوگوں میں تقسیم ہونے لگا تو ان کےبھائی راشن کے حصول کے لیے مصر آئے۔ پہلے اور دوسرے سفر میںتو بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کونہیں پہچانا جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کوپہچان لیا ۔تیسرے سفر میں موقع کی نزاکت کودیکھتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے خود اپنے آپ کو بھائیوں پر ظاہر کردیا، اور بھائی بھی جان گئے کہ یہ یوسف علیہ السلام ہی ہیں ۔تب حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے کہا کہ ابا جان کو اور گھر کےسب لوگوں کو یہیں لے آؤ ۔ اس کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے ساتھ سازوسامان اورسواریاں بھی ساتھ کردیں تاکہ سب لوگ آرام سے مصر آجائیں ۔ بھائیوں نے یہی کیا ۔ اس بزرگ قافلے نے کنعان سے مصر کے لیے کوچ کیا ۔
شاہانہ استقبال
جب یہ بزرگ قافلہ مصر کے قریب پہنچا تو حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کے استقبال کے لیے چلے ۔ اس استقبالی قافلہ میں چار ہزار فوجی، شہر کے تمام امراء ، ارکانِ حکومت اور مصر کی چنندہ شخصیتیں تھیں، کہاجاتا ہے کہ خود عزیز مصر بھی استقبال کے لیے قافلہ کے ساتھ تھا۔حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے یہودا کو شانوں پر سہارے سے آگےبڑھ رہے تھے۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے شہسواروں اور ایک ازدہام کودیکھا تو یہودا سے پوچھا ، اے یہودا ، یہ عزیز مصر ہے ۔ یہودا نے جواب دیا، نہیں، یہ آپ کا بیٹا یوسف (علیہ السلام) ہے۔ یوسف علیہ السلام نے آگے بڑھ کر اپنے والد کا استقبال کیا اورفرمایا السلام علیک ۔ یہ قافلہ خاندانِ یعقوب علیہ السلام کے بہتر (72) لوگوں پر مشتمل تھا۔حضرت یوسف علیہ السلام نے خاندان والوں سے فرمایا : آپ لوگ مصر چلیں وہاں پُر امن اوربے خطر رہیں گے ۔ اپنے والدین کواپنے پاس جگہ دی ۔
جشن ہکا دن
سارے مصر میں حضرت یعقوب کی آمد پر جشن کا ماحول تھا۔حکومت اورعوام اس کا جشن منارہے تھے۔ سب لوگوں کو اس بزرگ قافلہ کے ہرفرد کی زیارت کی خواہش تھی ، خاص طور سے حضرت یوسف علیہ السلام کے والدین کودیکھنے کی ۔
اس دن تختِ شاہی آراستہ کیا گیا ۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت پر جگہ دی ۔ منظر کچھ اس طرح کا محسوس ہوتاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حکم سے ان کےوالدین کوتختِ شاہی پر بیٹھنے کے لیے جگہ مقرر کی گئی ۔باقی ا ن کے بھائی ، ارکانِ حکومت اورعوام تختِ شاہی سے نیچے اپنی اپنی مخصوص جگہوں پر بیٹھے ہو ں گے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد حضرت یوسف علیہ السلام اس جگہ پر نمودار ہوئے ہوںگے اورقاعدہ کے مطابق سب نے تعظیم کی تو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی اورآپ کے والدین نےبھی کی۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2017