اولاد کی تربیت

چند اہم گوشے

تربیت اولاد کے مختلف پہلو ہیں ۔ اولاد کی تربیت کا آغاز کب سے ہو؟ تربیت کس طرح سے ہو؟ اصولی وعملی پہلو کیا ہیں،تربیت کی ذمہ داری کس کی ہے؟ صرف ماں کی یا باپ کی بھی؟،تربیت کا عمل کب تک؟ان مختلف پہلوئوں پر غور کرنے سے پہلے اس بات کا جائزہ ضروری ہے کہ اولاد کے سلسلے میں ہمارا تصور کیا ہے۔

اولاد ،اللہ کی نعمت ہے، رحمت ہے، حصول جنت کا ذریعہ ہے یہ ایک مومنانہ طرز فکر ہے۔ بد قسمتی سے آج یہ ذہن نہیں رہا ۔چاہے ہم زبان سے نہ کہیں لیکن ہمارا عمل بتاتا ہے کہ یہ ہمارے لیے بوجھ ہے۔ ایام جاہلیت میں اولاد کو پیدا ہونے کے بعد ماردیا جاتا تھا بالخصوص لڑکیوں کو ۔ آج زمانے نے ترقی کی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اولاد کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ٹھکانے لگانے کا فن لوگوںنے سیکھ لیا ہے۔ قرآن نے کہا: اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا (بنی اسرائیل۳۱ ) ’’اولاد کا قتل در حقیقت بہت بڑا گناہ ہے ــ‘‘یہ بڑا گناہ آج بہت ہلکا ہو گیا ہے ، بلکہ اس کے گناہ ہونے کا تصور ہی ذہن سے نکل گیا ہے۔ ایام جاہلیت میں اولاد کے قتل کی وجوہ بیان کرتے ہوئے قرآن نے کہا : وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلاَقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ (بنی اسرائیل ۳۱ ) ’’ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم تمھیں بھی رزق دیں گے اور انہیں بھی ‘‘ آج رزق کی فراوانی ہونے کے باوجود قتل اولاد کا سلسلہ جاری ہے۔ فیملی پلاننگ کی خوبصورت مگر خطرناک اصطلاح کے دام فریب میں لوگ  آگئے ہیں۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کا مزاج پروان چڑھا ہے،یہ تصور عام ہوا ہے کہ اولاد کم ہوگی تو زندگی معیاری ہوگی۔ زیادہ بچے ہوں گے ،ان کے شور و ہنگامے ہمارے عیش وآرام میں خلل ڈالیں گے۔جو جتنا زیادہ مالدار ہے ۔اس کے ہاں اتنی ہی اولاد کم ہے۔ آج بھی غریبوں کے ہاں اولاد کی کثرت ہے۔ ہمارے باپ دادا نے غربت کی حالت میں آٹھ آٹھ ،دس دس، بچوں کی پرورش کی۔ آج دو تین بچوںکی پرورش بھی ہمارے لیے مشکل ہوگئی ہے۔اولاد کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے جو غیر فطری طریقہ اختیار کیے جاتے ہیںاورجو دوائیاں استعمال کی جاتی ہیں اس میں ناکامی کے نتیجے میں جو اولادپیدا ہورہی ہے کوئی نہ کوئی عیب لے کر پیدا ہورہی ہے، جو زندگی بھر کے لیے ایک آزمائش ہے۔ بہر حال اس ذہن کے ساتھ اولاد کی صحیح تربیت ممکن نہیں ۔ہاں اگر اولاد کو اللہ کی نعمت و رحمت اور حصول جنت کا ذریعہ سمجھا جائے تو اولاد کی تر بیت ہوسکتی ہے۔

تربیت کا آغاز کب سے ہو ؟

تربیت کا آغاز کب سے ہو؟ غور طلب پہلو ہے۔مولانا یوسف اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب ’حسن معاشرت ‘ میں لکھا ہے کہ شکاگو کے ایک مشہور ماہر تعلیم نے ایک پروگرام میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے موضوع پر لکچر دیا۔ لکچر سے فارغ ہونے پر ایک خاتون نے سوال کیا کہ ’’مجھے اپنے بچہ کی تعلیم کا آغاز کب سے کر نا چاہئے ‘‘ ماہر تعلیم نے خاتون سے سوال کیا کہ ’’آپ کے ہاں بچہ کب پیدا ہونے والا ہے ‘‘۔ خاتون نے کہا :میرا بچہ پانچ سال کا ہو گیا ہے۔ اس نے کہا: حد ہو گئی۔ خاتون! آپ یہاں کھڑی باتیں کررہی ہیں؟ آپ نے پہلے ہی پانچ بہترین سال ضائع کردئے ہیں۔ مطلب یہ کہ تعلیم و تربیت کا آغاز بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی ہو نا چاہئے،یہ غیر مسلم ماہرین کی کہی ہوئی بات ہے ۔ اسلام نے جو رہنمائی ہمیں دی ہے وہ اس سے بھی پہلے کی ہے۔ اس کا آغاز زوجین کے انتخاب ہی سے شروع ہوجاتا ہے ۔شریک حیات کے انتخاب میں میری بیوی کیسی ہو ،یہ ایک اہم پہلو ہے ،اتنا ہی اہم یہ پہلو بھی ہے کہ میرے ہونے والے بچے کی ماں کیسی ہو ۔ دیندار بیوی کا انتخاب اولاد کے سلسلے میں صحیح طرز عمل اختیار کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ پھر صالح اولاد کے لیے دعا اس راہ کا پہلا قدم ہے۔ ابراہیم ؑ کے حوالے سے قرآن نے رہنمائی کرتے ہوئے ’’رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ‘‘ اے میرے رب! مجھے صالح اولاد عطا فرما، دعا کی ترغیب فرمائی ہے۔ ایسے ہی دیگر انبیاء و صالحین کی دعائوں کا بھی ذکر قرآن نے کیا ہے۔ مطلب یہ کہ صرف اولاد نہیں بلکہ صالح اولاد کے لیے دعائیں مانگی جانی چاہئے۔

دورانِ حمل اچھی سوچ ، اچھی باتیں، اچھے کام ، بالخصوص قرآن کی تلاوت اور نمازوں کا اہتمام ، دینی اجتماعات میں شرکت ودینی کتابوں کا مطالعہ ہونا چاہئے۔ماہرین طب اس بات کو تسلیم کرتے ہیںکہ عورتیں جو کچھ دیکھتی ہیں ، سنتی ہیں ، سوچتی ہیں اور کرتی ہیں۔ اس کا اثر پیٹ میں پلنے والی اولاد پر ہوتا ہے۔اچھے کام ہوں گے۔ اچھے اثرات پڑیں گے۔ غلط کام ہوں گے، غلط اثرات پڑ یں گے۔ آج کل عام مسلمان گھروں میںیہ ہورہا ہے کہ صبح و شام ٹی وی چلتا رہتا ہے اور حاملہ عورتوں کا اچھا خاصا وقت گانے، فلموں اور سیریلوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، اس کا اثر پیٹ میں پلنے والے بچے پر پڑے گا۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم دی کہ پیدا ہوتے ہی بچہ کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے، تاکہ سب سے پہلے اس کے کان میں اللہ کی بڑائی و کبریائی کی آواز پہنچے، تاکہ وہ شیطان کے فتنوںسے محفوظ رہے۔ یہ بھی فرمایا کہ بچہ کا اچھا پاکیزہ و بامقصد نام رکھا جائے، اللہ کی صفات پر مشتمل نام عبد لگا کر ،جلیل القدر انبیاء ،صحابہ و صحابیات و صلحاء کے نام رکھے جائیں۔نام کے اچھے برے اثرات بھی شخصیت پر پڑتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج فلمی ستاروں،کرکٹ و ٹینس کے کھلاڑیوں کے نام رکھنے کا فیشن چل پڑاہے۔ بچہ جیسے جیسے بڑا ہو، اسے اچھا ماحول فراہم کرنا ہوگا ،بچے جو دیکھتے ہیں وہ سیکھتے ہیں۔ گھر میں لڑائی جھگڑے گالی گلوچ ، زبان کا غلط استعمال اگر ہورہاہو تو بچہ وہی سیکھے گا۔گھر کا صاف ستھر ا وپاکیزہ ماحول ہو، پیار و محبت کی فضا ہو،ایک دوسرے کا ادب و احترام ہو ،پاکیزہ و شائستہ گفتگو ہو تو وہ سیکھے گا۔بڑھتی عمر کے حساب سے کلمہ ، دعائیں اور سورتیںسکھانے نیز قرآن پڑھانے کا نظم ہو۔ نبی کریم ﷺ کے حالات زندگی ،صحابہ و صحابیات و صلحاء امت کے واقعات سیدھی سادھی زبان میں کہانیوں کے انداز میں سنائی جائیں۔

اسلامی آداب سکھانے کا نظم ہو ،مثلا سلام ۔گھروں میں داخل ہوتے ہوئے گھر والوں کے ساتھ بچوں کو سلام کرکے اس کے عادی ہم انہیں بناسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ چھوٹے بچوں کو سلام کرکے یہ اچھی عادت انہیں سکھاتے تھے۔ آج ہمارے لیے یہ عیب ہے۔ بچوں کو ہی کیا ہم اپنے گھر والوں کو سلام کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں، الا ماشاء اللہ ۔اسی طرح گھر آئے ہوئے لوگوں کو رخصت کرتے ہوئے اچھے دیندار گھرانوں میں ’ٹاٹا بول بیٹا‘کہنے کا رواج عام ہوگیا ہے، حالانکہ’ اللہ حافظ ‘کہنا اور سکھانا چاہیے۔ اسی طرح لباس کا مسئلہ ہے ،بالخصوص لڑکیوں کا، ہم نے اکثر گھروں میں دیکھاہے( جن میں بزعم خود دینی گھرانے بھی شامل ہیں) آٹھ دس سال کی لڑکیاں جینس و ٹی شرٹس یا ایسے لباس میں ہوتی ہیں جس میں ان کے آدھے پیر ننگے ہوتے ہیں۔ یہ ان اسکولوں کے اثرات ہیں جہاں یہ بچیاں پڑھتی ہیں۔اکثر انگلش میڈیم اسکولس کے یونیفارم، بالخصوص لڑکیوں کے ،بیہودہ ہوتے ہیں۔ایسے اسکولس کے انتظامیہ سے با حیا ڈریس کوڈ کا مطالبہ کیا جانا چاہئے،ورنہ کیا ضروری ہے کہ ہم ایسے اسکولس میں پڑھائیں جہاں بچپن ہی سے بے حیائی کی تعلیم دی جارہی ہو۔ اس ماحول کا اثر قبول کرتے ہوئے گھروں میں بے حیا لباس پہنائے جارہے ہیں۔ آپ اچھے سے اچھا معیاری لباس پہنائیں مگر اس میں شائستگی ضروری ہے۔ بہ ظاہر یہ باتیں چھوٹی نظر آتی ہیں، مگر یہی آگے کی زندگی کا رخ متعین کرتی ہیں۔ اس لیے ان باتوں کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے۔ کمرشیل تعلیمی اداروں کے ظاہری ڈسپلن سے متاثر ہوکر دو تین سال کے بچوں کو بے بی کلاس میں داخلہ دلادیا جاتاہے جہاں ایک مصنوعی ماحول فراہم کیا جاتا ہے جس میں بچوں کا بچپن ان سے چھین لیا جاتا ہے ۔ پانچ ، چھ سال تک کی عمرکے بچے گھر کے ایک فطری ماحول میں جو کچھ سیکھ سکتے تھے اس سے محروم کردیا گیا ہے۔ پہلی دوسری کلاس تک پہنچتے پہنچتے تعلیمی مصروفیات کچھ ایسی بن گئی ہیں کہ اسکولس سے آئے، ٹیوشن کو گئے،ٹیوشن سے آئے ہوم ورک میں لگ گئے۔اب قاعدہ و قرآن پڑھانے ،کلمہ و دعائیں سکھانے، سورتیں یاد دلانے کے لیے وقت نہیں اور اس کی کچھ زیادہ پروا ہ بھی نہیں۔

بچے اسکولس میں انگریزی پڑھتے ہیں اور گھروں میں اردو بولتے ہیں، مگر لکھنے پڑھنے سے محروم ہیں،نتیجہ میں قرآن و حدیث اور دینی تعلیمات کا جو ذخیرہ عربی کے بعد اردو ہی میں موجود ہے ،آگے کی زندگی میں اس سے استفادہ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ معیاری انگریزی اسکولس میں پڑھانا ہی ناگزیر ہے تو اردو، عربی، ودین کی بنیادی تعلیم کا نظم ہمیں گھروں میں کرنا چاہئے۔ معیاری اعلیٰ تعلیم ضروری مگر دینی تعلیم و تربیت کی قربانی دیکر نہیں،بلکہ دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ، بلکہ اس فکر کے ساتھ کہ اعلیٰ تعلیم آج کے حالات میں دعوت دین کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے۔

عملی تدابیر

عملی کوششوں میں گھروں میں مائوں کی نماز کی پابند ی سے ادائیگی کا جہاں اہتمام ہوتا ہے وہاں دیکھا گیا ہے ماں کے ساتھ ننھی بچیاں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جاتی ہیں، رکوع و سجود کا عمل دہراتی ہیں۔ اسی طرح باپ مسجد جاتے ہوئے بچوں کو ساتھ لیکر جائیں تو بچوں کا تعلق اللہ کے گھر سے جڑجاتا ہے۔ اسی طرح دینی اجتماعات میں بچوں کو لیکر جانا چاہئے، وہ کتنا سمجھ پاتے ہیں الگ سوال ہے لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ اجتماعات میں شرکت کا ذہن بنے گا۔ بچے جو دیکھتے ہیں وہ سیکھتے ہیں۔ ایک پانچ سال کے بچے نے ،جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا،ایک دن ایک نماز کے بعد امام صاحب سے کہا کہ آپ نے آج نماز میں غلطی کی ،انہوں نے پوچھا کیسے تو اس نے اشارے سے یہ بات بتائی کہ رکوع کیے بغیر آپ سجدے میں چلے گئے۔دراصل آیت سجدہ تھی، اس بچے کے لیے پہلا تجربہ تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماحول ہم دیں گے تو بچے سیکھیں گے،ذہن و فکر بنے گا۔ جہاں اس طرح کوششیں ہو ئی ہیں وہاں بچے بڑے ہوکر تحریک سے جڑے ہیں ۔ بچوں کو بہلانے کے لیے بہت سی باتیں ہم بنادیتے ہیں، جانا کہیں ہوتا ہے ،بتا کچھ اور دیتے ہیں یا یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں شام کو آئوں گا فلاں چیز لاکر دوں گا حا لانکہ ایسا نہ ارادہ ہوتا ہے، نہ لاکر دیتے ہیں۔ دراصل یہ جھوٹ ہے جس کی تعلیم ہم اپنے عمل سے دیتے ہیں۔بند مٹھی دکھاکر ایک خاتون اپنے بچے کو بلارہی تھی ۔نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا :تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ تم بچے کو کیا دینا چاہتی ہو؟ خاتون نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ اس میں کھجوریں ہیں، جو میں بچے کو دینا چاہتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر ایسا نہ کرتیں تو ایک جھوٹ ہوتا جو تمہارے حساب میں لکھا جاتا۔ حضرت ام سلمہ ؓ کو نبی کریم ﷺ نے پینے کے لیے دودھ دیا۔ انہوں نے (تکلف میں) کہا کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:بھوک اور جھوٹ کو ایک جگہ جمع مت کرو،مطلب یہ کہ تکلف میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ایک رفیق جماعت اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ جوتے خریدنے دوکان پر گئے ،بچہ اپنے لیے بھی اصرار کرنے لگا، سیلس مین نے بچہ کو بہلانے کے لیے کہہ دیا کہ اس پارسل میں تمہارے لیے بھی جوتا ہے۔اس پر رفیق جماعت سیلس مین پر یہ کہتے ہوئے برس پڑے کہ یہ غلط بات آپ نے کیسے کہہ دی وہ گھر جاکر دیکھے گا کہ جوتا نہیں ہے تووہ ہمیں جھوٹا تصور کرے گا چنانچہ انہوں نے بچہ کے لیے بھی جوتا خرید لیا۔یہ سب عملی تربیت کے پہلو ہیں۔ بچوں کو اچھا بنانے کے لیے خود ہمیں اچھا بننا ہوگا۔

بچوں کی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہئے،اس کے لیے صحت مند غذا ضروری ہے۔ آج کل بچوں کو چاکلیٹ، آئیس کریم اور Pizza کھلا کر پالا جارہا ہے۔ حدیث میں ’قوی مومن‘ کا ذکر آیا ہے جو ایمانی و جسمانی دونوں حیثیتوں سے مطلوب ہے۔ صحت مند غذا کے ساتھ اس بات کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ جو بھی کھلانا ہے بچوں کو گھر لاکر کھلائے، نہ بچوں کو ساتھ لے جاکر خریداری کریں نہ انہیں پیسہ دیکر خود خریدنے کی ترغیب دیں۔یہ عادت بچوں کے کردار کو بگاڑ دیتی ہے،کل وہ کوئی چیز لینا چاہیں اور پیسہ نہ ملے یا آپ نہ دیں تو وہ گھر میں کہیں سے بھی پیسہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ اولاد کی پرورش رزق حلال سے ہو ،رزق حرام سے نہیں۔

بچوں کو نڈر اور با ہمت بنانا ضروری ہے ،عام طور پر جب چھو ٹے بچے شرارت کرتے ہیں تو بھوت،بلی وغیرہ کا خوف دلا کر ڈرا یاجاتاہے۔ ایک مرتبہ خوف کی نفسیات بچوں کے اندر بیٹھ جاتی ہے تو وہ زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتی ہے ،بے باکی ان کے اندر سے رخصت ہوجاتی ہے۔بچوں کی شرارتوں کو بڑی حد تک گوارا اور برداشت کرنا چاہیے۔اصل میں جو بچے ذہین ہوتے ہیں وہی شرارت کرتے ہیں ، ڈانٹنے سے ذہانت متاثر ہو جاتی ہے۔کوئی کھلونا یا گھر کی کوئی چیز ٹوٹ جائے تو ٹوٹ جائے مگر بچے کا دل نہیں ٹوٹنا چاہیے۔بچے بہت سے سوالات کرتے ہیں، ان کا محبت سے جواب دیا جانا چاہیے،ڈرانا اور جھڑکنا نہیں چاہیے۔ بچے بات کو جاننے ،سمجھنے کے لیے سوال کرتے ہیں، یہ سیکھنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ لہذا پوری حکمت ا ورمحبت کے ساتھ صحیح بات بتانی چاہئے۔

بچوں کو خود غرض (Selfish )بننے سے بچانا چاہئے،دوسروں کے کام آنے کا اور احترام کا جذبہ ان کے اندر پیدا کرانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ گھر پر کوئی سائل آئے تواسے جو دینا ہے بچوں کے ذریعہ سے دیں،اور سائل کے سلسلے میں حقارت کا نہیںبلکہ خالہ یا ماموں کہہ کر احترام کا جذبہ پیدا کرائیں۔اصل تو تعلیم وتربیت ہی ہے ،پرورش تو جانور بھی چرند پرند بھی کردیتے ہیں۔

تربیت کی ذمہ داری کس کی؟

تربیت کا آغاز کب سے ہو اور تربیت کس طرح سے ہو؟ یہ چند عملی پہلو ہیں جو رکھے گئے ہیں ،آئیے اب اس پہلو پر غور کریں کہ تربیت کی ذمہ داری کس کی ہے۔ عام طور پر ماں کی گود کو پہلا مدرسہ کہا جاتا ہے۔بات بڑی حد تک صحیح ہے بشرطیکہ ماں کی گود دینی علم و جذبہ سے سرشار ہو۔ ابتداء کے چند سال بچہ دن رات ماں کے ساتھ گزارتا ہے ،اس لحاظ سے اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باپ غیر ذمہ دار ہے، بلکہ باپ بھی برابر کا ذ مہ د ارہے ،بالخصوص جب بچہ ذرا بڑا ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اولاد کو دی جانے والی نصیحتوں اور عملی کوششوں کا جوذکر آیا ہے وہ باپ ہی کے حوالے سے ہے۔ حضرت لقمان کی نصیحتوں کا واضح انداز میں ذکر آیا ہے اس میں بڑی رہنمائی ہے۔

’’اے میرے بیٹے !اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر حقیقت یہ ہے کہ شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘(لقمان :۱۳ )’’اے میرے بیٹے !نماز قائم کر، بھلائیوں کا حکم دے ،برائیوں سے روک، اس راہ میں جو مصیبت بھی پیش آئے اس پر صبر کر۔‘‘ (لقمان ۱۷)

اس میں عقیدہ و عبادت ہی کی تعلیم نہیں دی گئی ہے بلکہ ذمہ دا ری کی ادائیگی کی اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات پر استقامت کی تلقین شامل ہے۔ آگے کی آیات میں سیرت و کردارکو اونچا اٹھانے، بالخصوص کبر و غرور جیسی اخلاقی خرابیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ،تاکہ ذمہ داریوں کی ادائیگی احسن انداز میں ہوسکے۔ ’’اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا، اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ ‘‘(لقمان ۱۹،۱۸ )

ان آیات کی روشنی میں باپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت ہمہ پہلو کرے، تاکہ وہ مومنانہ و داعیانہ صفات سے آراستہ ہوکر ذمہ داریوں کی ادائیگی کے قابل بن سکے۔

ابراہیم ؑ کی صالح اولادکے لیے کی گئی دعاکا جہاں ذکر ہے وہیں اولاد کی تعلیم و تربیت اور سیرت وکردار کو سنوارنے کی فکری و عملی کوششوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ آپ ؑ کو بڑے بڑے امتحانات سے گزارنے اور اس میں کامیاب ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساری انسانیت کے امام و پیشوا بنانے کی بشارت دی تو فوری یہ سوال کیا کہ کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟اس آیت میں ذریت کا لفظ آیا ہے۔ مطلب یہ کہ صرف اولاد ہی نہیں بلکہ نسل در نسل تک امامت و قیادت کا منصب حاصل رہے۔

سورہ ابراھیم میں آپؑ کی یہ دعاآئی ہے ’’ پروردگار میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصہ کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے ،پروردگار یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ‘‘ (ابراہیم:۳۷)۔اسی میں آگے یہ مشہور دعاء ہے ’’ اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی (قیام نماز کی توفیق دے) پروردگار میری دعاء کو قبول کر‘‘۔(ابراہیم:۴۰)۔ تعمیر کعبہ کا حکم جب ابراھیم ؑ کو دیاگیاتو اس کی تعمیرآپؑ نے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو لیکر کی ،فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’اور یاد کرو ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھارہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے تو سب کی سننے اور جاننے والاہے۔‘‘ (البقرہ:۱۲۷ ) تربیت کا یہ بہت ہی اہم پہلو ہے کہ اولاد کے لیے دعائیں بھی ہوتی رہیں اور عملی کوششوں میں اولاد کو ساتھ رکھا جائے،جس کی رہنمائی ابراھیمؑ کے اس عمل سے سامنے آتی ہے۔آگے یہ دعاء ہے کہ اے ہمارے رب ہم دونوں ( مجھے اور میرے بیٹے) کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنا۔(البقرہ ۱۲۸ ) اور اس گھر کے سلسلے میں ہدایت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے دونوں سے فرمایا،’’اور ابراھیمؑ و اسمٰعیل ؑ کو تاکید کی تھی کہ: ’’ اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔‘‘ (البقرۃ:۱۲۵)

نبی کر یم ﷺ کی احادیث میں بھی تربیت اولاد سے متعلق کئی ارشادات باپ ہی کے حوالے سے آئی ہیں ۔ مشہور حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہترین عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہمیں ملتا ہے کہ ’’اپنے بچوں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو۔ ‘‘

تربیت کا عمل کب تک؟

بچپن و لڑکپن کا وقت تربیت کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے ۔اس میں بعض اوقات غفلت ہوجاتی ہے۔عام طورپریہ سوچ رہتی ہے کہ ابھی بچے ہیں، ذرا بڑے ہوں گے تو رہنمائی کریں گے، لیکن جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو یہ تصور غالب آجاتا ہے کہ بچے اب بڑے ہو گئے ہیں ،اب کیسے انہیں کچھ کہیں ۔ در حقیقت تربیت ایک مستقل عمل ہے۔ والدین کوآخری سانس تک اس عمل کو جاری رکھناہے۔ بچے جتنے بھی بڑے ہو جائیں ماں باپ کے لیے بچے ہی رہتے ہیں ۔چاہے وہ خود بچوں کے ماں باپ بن گئے ہوں۔ بہت واضح مثال قرآن نے حضرت یعقوب ؑکی دی ہے کہ وہ زندگی بھر اپنے بچوں کو برابر نصیحت کرتے رہے:’’ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے ’’ فَلاَ تَمُوْ تُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ‘‘ لہٰذا مرتے دم تک اللہ کی اطاعت گزاری و فرمانبرداری کرتے رہنا۔‘‘ (البقرۃ: ۱۳۲)۔ انتقال کے وقت یہ خیال کہ میری زندگی میں تو بچے اللہ کی عبادت کررہے ہیں۔ کیا میرے بعد بھی وہ اس پر قائم رہیں گے۔ اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے بیٹوں سے یہ سوال کیا: ’’مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ ‘‘ میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے۔بیٹوں نے جواب دیا ’ ہم اسی ایک اللہ کی بندگی کریں گے جس کی بندگی آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ نے کی ہے۔ وَ نَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ اور ہم اسی کی اطاعت گزاری و فرماںبرداری کرتے رہیں گے۔‘‘ (البقرۃ:۱۳۳)

حضرت یعقوب ؑ کے انتقال کے وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر ۴۰ تا ۴۵ کے درمیان رہی ہوگی ( ۲۰، ۲۱ سال کی عمر میں جیل گئے ، جیل میں دس سال گذرے، رہائی کے بعد حکومت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے خوش حالی کے سات سال گزرے ، غالباً قحط سالی کے تین ،چار سال بعد والدین کنعان سے مصر منتقل ہوئے ۔یعقوب ؑ کا انتقال اسکے چند سال بعد ہوا ہوگا۔)ایک بھائی تو آپ سے چھو ٹے تھے باقی دس بڑے بھائیوں کی عمریں۵۰، ۶۰، ۶۵ کے آس پاس رہی ہوں گی۔ یعقوب ؑ کے اس طرز عمل سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ بیٹوں کے بڑے ہو جانے کے باوجود باپ کی ذمہ داری، رہنمائی و تربیت کی، باقی رہتی ہے ۔ بہر حال جب تک زندگی باقی ہے تربیت کا عمل جاری رہنا چاہیے۔جن تحریکی گھرانوں میںاولاد کی ہمہ پہلو تربیت کی فکراور کوششیں ہوئی ہیں وہاں الحمد للہ اولاد ،دین کے صحیح فہم کے ساتھ تحریک کی علمبردار بنی ہے اور جن گھرانوں کی کوششوںمیں کمی رہ گئی ہے وہاں اولاد ،محدود تصور دین رکھنے والی جماعتوںیامسلکی فکر کی مبلغ جماعتوں کی نمائندگی کررہی ہے۔اور بعض کا کردار دین بیزاری اور جماعت کی مخالفت کا بھی ہے۔ اولاد کی صحیح تربیت دنیا میں اطمینان ، راحت و سکون کا اور آخرت میں نجات ودرجات کی بلندی کا ذریعہ بنے گی۔ان شاء اللہ ۔ اللہ ہم سب کو اپنی اولاد کے سلسلے میں اپنی ذ مہ د اریوں کو حسن و خوبی سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمیں یا رب العالمین۔

مشمولہ: شمارہ جون 2014

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau