نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد انسانیت پر دو خواتین کا بڑا احسان ہے، حضرت خدیجہؓ کا احسان یہ ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا اور پیغام الہی کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے آپ کو ضروری اسباب مہیا کیے، جب کہ حضرت عائشہؓ کا اعزاز یہ ہے کہ انھوں نے نبوی تعلیمات کو محفوظ رکھا اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کیا۔ اس دوسری خاتون کے تعلق سے امام ذہبیؒ [وفات: ۷۴۸ء] نے “سیر اعلام النبلاء” میں لکھا ہے: “میرے علم میں نہیں ہے کہ امت محمدیہ میں بلکہ پوری جنس خواتین میں ان سے زیادہ علم والی کوئی خاتون ہوں۔”
انوکھی پرورش و پرداخت
حضرت عائشہ ؓ کی نشو و نما ایک ایسے گھر میں ہوئی جو گھر اسلام اور پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: “میں نے اپنے ہوش میں اپنے والدین کو ہمیشہ دین اسلام پر عمل پیرا ہی دیکھا۔” [صحیح بخاری]۔
حافظ ابن حجرؒ [وفات: ۸۵۲ھ] نے اپنی کتاب “الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ” میں لکھا ہے کہ سن ۶ھ میں حضرت عائشہؓ کی والدہ حضرت ام رومانؓ الکنانیہ کی تدفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے یہ کہتے ہوئے کی: “اے اللہ، ام رومان نے آپ اور آپ کے رسول کی راہ میں جن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا ہے وہ آپ سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔”
ادبی نشو و نما
حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی، ان کے والد قریش کے بڑے خاندانوں مثلا بنو ہاشم، بنو امیہ اور بنو مخزوم کے لوگوں کی طرح بے جا مشغلوں میں مصروف نہیں رہتے تھے۔ انھوں نے خود کو تجارت اور اپنے گھر کی اصلاح و تربیت کے لیے فارغ کر رکھا تھا۔ حضرت عائشہ نے ان سے مختلف علوم و فنون مثلا فصاحت و بلاغت، شعر و شاعری، عربوں کی تاریخ اور علم نسب کو حاصل کیا۔ ابن ہشام الحمیری [وفات: ۲۱۸ھ] نے اپنی کتاب “السیرۃ النبویۃ” میں لکھا ہے کہ قریش کے انساب کا سب سے زیادہ علم حضرت ابوبکر کے پاس تھا۔
علوم و فنون کے حصول میں حضرت عائشہ ؓ کمال کے درجہ کو پہنچ گئی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کا کہنا ہے کہ “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے، اے عائشہ، تمہارے اشعار کیسے ہیں؟ تو میں کہا کرتی: اے اللہ کے رسول، آپ میرے کن اشعار کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، میرے اشعار تو بہت سارے ہیں” [طبرانی، المعجم الصغیر]۔
حضرت عروہ بن زبیر ؓ اپنی خالہ حضرت عائشہ کے تربیت یافتہ اور ان کے شاگرد رشید تھے، وہ علم کے اس مقام کو پہنچ گئے تھے کہ بڑے بڑے صحابہ ان سے دینی امور کے بارے میں سوالات کرتے تھے۔ امام ذہبیؒ نے “سیر اعلام النبلاء” میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے: “میں نے قرآن، فرائض، حلال، حرام، شعر و شاعری، عربوں کی تاریخ اور انساب کے سلسلے میں حضرت عائشہ سے زیادہ علم رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔”
فطری قابلیت و صلاحیت
حضرت عائشہ ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو بہت جلد سمجھ جایا کرتی تھیں اور انھیں بہت اچھی طرح سے بیان کرتی تھیں۔ یہ بات امام بخاریؒ کی بیان کردہ اس حدیث سے سمجھ میں آتی ہے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حیض کا غسل کیسے کیا جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بتاتے ہوئے اس خاتون سے کہا ہے کہ مشک لگا ہوا روئی کا ایک ٹکڑا لو اور اس سے پاکی حاصل کرلو، خاتون نے کہا کہ اس سے کیسے پاکی حاصل کروں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس سے پاکی کرلو، خاتون نے پھر کہا: کیسے؟ نبی کریم ﷺنے فرمایا: سبحان اللہ (تعجب ہے کہ یہ بات بھی نہیں سمجھتی) اس سے پاکی حاصل کرلو۔ اس وقت میں نے اس خاتون کو اپنی جانب کھینچا اور اس سے کہا: اس روئی کے ٹکڑے کو خون کی جگہ پر لگالو۔ یہ کہنے کے بعد اس خاتون کو سمجھ میں آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہہ رہے ہیں۔ حیاداری نے حضرت عائشہؓ کو مفہوم کی وضاحت سے باز نہیں رکھا۔ انھوں نے مفہوم کو سمجھ لیا اور بہترین انداز میں اس کی وضاحت کردی۔
حضرت عائشہؓ کے پہلے شاگرد حضرت عروہ ان کے علم کی وسعت سے بہت متاثر تھے، ان کو تعجب ہوتا کہ حضرت عائشہؓ کو مختلف علوم خصوصا علم طب پر کس قدر گرفت حاصل ہے۔ امام احمدؒ [وفات: ۲۴۱ھ] نے مسند میں ذکر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عروہؓ نے حضرت عائشہؓ سے کہا: امی جان، مجھے آپ کے فہم کی صلاحیت پر تعجب نہیں ہوتا کیوں کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اور حضرت ابوبکر کی بیٹی ہیں۔ شعر و شاعری اور علم تاریخ پر آپ کی گہری نظر پر بھی مجھے بہت تعجب نہیں ہے، کیوں کہ آپ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی ہیں جو سب سے زیادہ علم رکھنے والوں میں سے ایک تھے۔ مجھے تعجب تو اس بات پر ہے کہ آپ کو طب کا علم کہاں سے اور کیسے حاصل ہوا؟ یہ سن کر حضرت عائشہؓ نے حضرت عروہ ؓ کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر کہا: اے عروہؓ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اخیر عمر میں جب بھی بیمار ہوا کرتے تو آپ کے پاس اس موقع پر عرب کے مختلف وفود آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف طبی نسخے بتاتے، ان نسخوں کے ذریعے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرتی۔ اس طرح سے میں نے علم طب حاصل کیا۔
حضرت عائشہؓ کا کہنا کہ “اس طرح سے”، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گویا وہ یہ کہہ رہی ہوں کہ کسی بھی علم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے میرے لیے اتنا کافی ہے کہ میں بس ایک بار اسے برت لوں۔ امام ذہبی نے “تاریخ الاسلام” میں ہشام بن عروہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے والد حضرت عروہؓ نے کہا: میں نے علم طب کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ جانکاری رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ میں نے کہا، خالہ جان، آپ نے طب کا علم کس سے حاصل کیا؟ انھوں نے جواب دیا: لوگ ایک دوسرے کو طبی نسخے بتایا کرتے تھے، میں انھیں سنا کرتی اور وہ مجھے یاد ہوجایا کرتے۔
وسعت ظرفی
اب ہم ان کی ایک انوکھی خوبی کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جو ان کی انسانی استقامت سے متعلق ہے۔ دوسروں کے تئیں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کس طرح کیا جائے اس سلسلے میں حضرت عائشہؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اور انھیں بخوبی معلوم تھا کہ کہاں پر جذبات کا دامن چھوڑ کر عقل کا دامن پکڑ لینا ہے۔
اس کی سب سے بڑی دلیل حضرت علیؓ سے ان کے تعلقات کی نوعیت تھی، وہ بوجوہ حضرت علیؓ سے تھوڑا ناراض رہا کرتی تھیں، لیکن اس کے باوجود جب کوئی دینی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ اس کے بارے میں حضرت علیؓ سے دریافت کرنے کا مشورہ دیتیں، کیوں کہ انھیں حضرت علیؓ کے علم اور ان کی دیانت داری پر یقین تھا۔ شریح بن ہانی المذحجی [وفات: ۷۸ھ] کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے موزوں پر مسح کرنے کے تعلق سے سوال کیا تو انھوں نے مجھ سے کہا: اس مسئلہ میں حضرت علیؓ سے رجوع کرو کیوں کہ اس سلسلے میں انھیں مجھ سے زیادہ علم ہے” [صحیح مسلم]۔
شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت الانصاریؓ نے بھی واقعہ افک سے متعلق اپنی رائے دی تھی، جس کے تعلق سے انھوں نے بعد میں حضرت عائشہؓ سے نہ صرف معافی مانگی تھی بلکہ ان کی شان میں تعریفی قصیدہ بھی لکھا تھا، لیکن اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ حضرت حسانؓ کے اس دخل کو بھول نہیں سکی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ حضرت حسانؓ کی بڑی تعریف بھی کرتی تھیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا۔ ایک بار حضرت عروہ ؓ نے حضرت عائشہؓ کے سامنے حضرت حسانؓ کی برائی کی تو حضرت عائشہؓ نے ان کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا: “ان کو برا بھلا مت کہو، وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا کرتے تھے” [صحیح بخاری]۔
یہ حضرت عائشہؓ کے عقل کی پختگی ہی تھی کہ وہ ہر شخص کی قدر و منزلت کو پہچانتی تھیں، لوگوں کے مراتب کے سلسلے میں ان کی ایک پختہ رائے تھی۔ ابوشجاع الدیلمی [وفات: ۵۰۹ھ] نے “مسند الفردوس” میں حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: “اپنی مجلسوں کو حضرت عمر بن الخطابؓ کے ذکر سے زینت بخشو۔”
ابویعلی الموصلیؒ [وفات: ۳۰۷ھ] نے اپنی “مسند” میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول ذکر کیا ہے: “تین انصاری صحابی جن سب کا تعلق بنو عبد الاشہل سے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی شخص فضل میں ان سے بہتر نہیں ہے: سعد بن معاذؓ [وفات: ۵ھ]، اسید بن حضیرؓ [وفات: ۲۰ھ] اور عباد بن بشرؓ [وفات: ۱۱ھ]۔” یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت عائشہؓ کا حضرت ابوہریرہؓ [وفات: ۵۹ھ] سے بہت زیادہ علمی اختلاف رہا کرتا تھا، اس کے باوجود وہ ان کے علمی مقام و مرتبہ کی قدر کرتی تھیں، حتی کہ انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہؓ پڑھائیں گے۔
علمی نمونے
اب ہم شرعی نصوص کو سمجھنے میں حضرت عائشہؓ کی اجتہادی و علمی صلاحیت اور ان کے ممتاز فقہی نمونوں کا ذکر کریں گے۔ صحابہ کرام کے درمیان حضرت عائشہ کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے امام ابن قیم نے “اعلام الموقعین” میں لکھا ہے: “وہ صحابہ اور صحابیات جن کے فتاوی محفوظ ہیں ان کی تعداد ایک سو تیس سے کچھ زیادہ ہے۔ ان میں بھی جنہوں نے زیادہ فتوے دیے ہیں ان کی تعداد سات ہے: عمر بن خطابؓ ، علی بن ابی طالبؓ ، عبداللہ بن مسعودؓ [وفات: ۳۲ھ]، ام المومنین عائشہؓ ، زید بن ثابتؓ [وفات: ۴۵ھ]، عبداللہ بن عباسؓ [وفات: ۶۸ھ] اور عبداللہ بن عمرؓ [وفات: ۷۳ھ]۔”
امام ترمذیؒ [وفات: ۲۷۹ھ] نے “سنن” میں بیان کیا ہے کہ حضرت ابو موسی اشعریؓ [۴۲ھ] کہتے ہیں: “ہم صحابہ کے لیے جب بھی کسی حدیث کو سمجھنا مشکل ہوتا اور ہم حضرت عائشہؓ سے اس سلسلے میں پوچھتے تو ہمیشہ ہم نے پایا کہ اس سلسلے میں ان کے پاس علم موجود ہوتا تھا۔” “السیر” میں امام ذہبیؒ کے ذریعے بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق حضرت عائشہؓ کے ذریعے روایت کردہ احادیث کی تعداد دو ہزار دو سو دس [۲۲۱۰] ہے، جن میں سے ایک سو چوہتر [۱۷۴] احادیث بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں، جب کہ صرف بخاری میں چوّن [۵۴] احادیث ہیں اور صرف مسلم میں انہّتر [۶۹] احادیث ہیں۔
حضرت عائشہؓ نے اکسٹھ مسئلوں میں کبار صحابہ سے اختلاف کیا ہے اور ان پر استدراک کیا ہے۔ انھوں نے ۱۳ احادیث کے سلسلے میں حضرت ابوہریرہؓ سے اختلاف کیا، جب کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے دس مسائل میں اور حضرت عمر بن خطابؓ اور عبداللہ بن عباسؓ سے آٹھ مسائل میں اختلاف کیا۔ ان تمام مسائل اور احادیث کو ریسرچ اسکالر فاطمہ قشوری نے اپنی کتاب “عائشۃ فی کتب الحدیث والطبقات” میں شمار کیا ہے۔ علما نے حضرت عائشہ کے استدراکات پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اس سلسلے میں ابو منصور البغدادی التاجر [وفات: ۴۸۹ھ] نے ایک کتاب لکھی تھی جو ہم تک نہیں پہنچ سکی۔ امام زرکشی [وفات: ۷۹۴ھ] نے بھی اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا عنوان رکھا “الاجابۃ لایراد ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ۔”
حضرت عائشہؓ کو اس بات کا احساس تھا کہ ان کے پاس علوم نبوت کا خزانہ ہے، ان کو اس بات کا بھی علم تھا کہ لوگوں کو ان کی بہت ضرورت ہے، کیوں کہ وہ عالمات کی امام تھیں اور ان کے پاس خواتین سے متعلق فقہی مسائل کا علم تھا جن سے عمومی طور پر بہت سے مرد علما صحابہ ناواقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے ایک ایسے مسئلہ میں فتوی دیا جس میں ان کا تخصص نہیں تھا اور جس مسئلہ میں وہ خواتین کو ہونے والی پریشانیوں سے وہ واقف نہیں تھے تو فوراً ہی حضرت عائشہ نے ان پر نقد کیا، ان کی غلطی کی نشان دہی کی اور خواتین کو ہونے والی پریشانیوں کے پیش نظر ان کے فتوی کو غلط قرار دیا۔
امام مسلمؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ [وفات: ۶۵ھ] نے عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ غسل کریں تو اپنی چوٹیوں کو کھول دیں۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ نے کہا: تعجب ہے ابن عمرو ؓ پر، وہ عورتوں کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ جب غسل کریں تو اپنی چوٹیوں کو کھول دیں، انھوں نے سر منڈانے کا ہی حکم کیوں نہیں دے دیا؟ میں اور بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے، اور میں اپنے سر پر صرف تین بار پانی ڈالا کرتی تھی۔
تعقیب اور تصحیح
فتوی دیتے وقت حضرت عائشہؓ احکام کی علتوں اور مقاصد کو جاننے کی کوشش کرتیں۔ آپ کے فقہی منہج کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ عورت کے حالات و مزاج کی رعایت کرتیں اور عورتوں سے متعلق وہ امور جن سے مرد حضرات ناواقف ہوتے ہیں اور جن کی وہ رعایت نہیں کر پاتے ہیں، حضرت عائشہؓ ان امور کی رعایت کیا کرتی تھیں۔
ابھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے اس فتوی پر تنقید کی تھی کہ خواتین کے لیے غسل کے وقت اپنی چوٹی کو کھولنا ضروری ہے۔ حضرت عائشہ کا یہ بھی فتوی تھا کہ سفر میں عورت کے ساتھ کسی محرم کا ہونا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ حضرت عائشہ کا خیال تھا کہ سفر میں محرم کے ہونے سے متعلق جو حدیث ہے اس کا تعلق عورت کی حفاظت اور سلامتی سے ہے، محرم کو ساتھ میں لازمی قرار دینے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ سفر میں عورت کے نقل وحرکت پر رکاوٹ لگا دی جائے۔ ابن ابی شیبہؒ [وفات: ۲۳۵ھ] نے “المصنف” میں لکھا ہے: “حضرت عائشہؓ کے سامنے اس بات کا ذکر آیا کہ عورت صرف محرم کے ساتھ ہی سفر کرسکتی ہے، یہ سن کر انھوں نے کہا: ہر عورت کے پاس محرم نہیں ہوتا۔”
بیوہ خاتون کی عدت کے مسئلہ میں اکثر صحابہ کرام کا یہ خیال تھا کہ عورت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں ہی عدت پوری کرے، لیکن “مصنف ابن ابی شیبۃ” میں لکھا ہے کہ اس سلسلے میں حضرت عائشہ کا فتوی تھا کہ بیوہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے۔ حضرت عائشہ کی دلیل یہ تھی کہ قرآن نے عدت کا وقت تو متعین طور پر بتایا ہے لیکن قرآن نے عدت کی جگہ کی کوئی تخصیص نہیں کی ہے۔
ایک حدیث میں ان خواتین پر لعنت بھیجی گئی ہے جو بالوں کو اکھیڑتی ہیں اور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں۔ اس حدیث کے لفظی معانی کو سمجھنے میں بعض صحابہ کی جانب سے ہونے والی غلطی کی طرف حضرت عائشہ نے توجہ دلائی۔ ان صحابہ کا خیال تھا کہ عورت اپنے جسم اور چہرے کے کسی بھی بال کو ہٹا نہیں سکتی، جب کہ حضرت عائشہ کا خیال تھا کہ اس کا تعلق اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے یا نکاح کا پیغام دینے والوں کو دھوکا دینے سے نہیں ہے، اس کا تعلق تو شخصی صفائی و ستھرائی سے ہے اور یہ ایک جمالیاتی مسئلہ ہے جس کا تعلق عورت کی فطرت سے ہے۔ عبد الرزاقؒ نے “المصنف” میں لکھا ہے کہ یہی وجہ تھی کہ جب کوئی خاتون حضرت عائشہؓ سے اس مسئلہ کے بارے میں دریافت کرتی تو وہ کہتیں: “خود سے اس تکلیف کو دور کرو اور اپنے شوہر کے لیے زینت اختیار کرو۔”
بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “تمہارا پیٹ قے اور خون سے بھر جائے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے۔” یہ سن کر حضرت عائشہؓ نے کہا: “ابوہریرہؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات صحیح سے یاد نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا: “تمہارا پیٹ قے اور خون سے بھر جائے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ ایسے شعر سے بھرے جس میں میری برائی کی گئی ہو۔”
حضرت عائشہؓ معانی کی تہہ میں پہنچنے والی اور احادیث کو ان کے سیاق و سباق میں سمجھنے کی کوشش کرنے والی شخصیت تھیں۔ اسی لیے ہم انھیں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے پاتے ہیں کہ ہجرت ایک زمانی چیز تھی جس کا تعلق مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم سے تھا۔ عبد الرزاق الصنعانیؒ [وفات: ۲۱۱ھ] نے “المصنف” میں لکھا ہے: حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ ہجرت کب کرنی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: فتح مکہ کے بعد اب ہجرت کی ضرورت نہیں ہے، ہجرت کی ضرورت فتح مکہ سے پہلے تھی جب لوگ اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کیا کرتے تھے، فتح مکہ کے بعد تو انسان جہاں چاہے عبادت کرے۔
جمعہ کی نماز سے پہلے غسل کرنے کے مسئلہ پر جب لوگوں نے بہت زیادہ زور دینا شروع کر دیا تو حضرت عائشہ نے حدیث کے سیاق کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول کے اصحاب خود کام کیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے جسم سے بو آتی تھی، اس لیے ان سے کہا گیا کہ اگر آپ لوگ غسل کر لیا کریں تو بہت اچھی بات ہے [صحیح بخاری]۔ یہ کہہ کر حضرت عائشہؓ نے یہ بات بتائی کہ غسل کرنے کا حکم ان کام کرنے والے صحابہ کے لیے تھا جو اپنے کام کی جگہ سے براہ راست مسجد آ جاتے تھے، ان کو غسل کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تا کہ ان جسم اور کپڑوں کی بو ختم ہو جائے اور دوسرے نمازیوں کو تکلیف نہ پہنچے۔
منہجی ضوابط
حضرت عائشہؓ کو دلائل کی مضبوطی اور مضبوطی کے لحاظ سے ان کی ترتیب کا بخوبی علم تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ قطعی دلائل کو ظنی دلائل پر ترجیح حاصل ہے۔ لہذا قرآن سارے دلائل پر مقدم ہے، اور اگر روایت کردہ کوئی حدیث قرآنی نص سے ٹکرا رہی ہو تو وہ حدیث کو موخر کر دیتی تھیں، کیونکہ اس بات کا امکان تو ہے کہ راوی سے غلطی ہو گئی ہو لیکن اس کا امکان نہیں ہے کہ قرآن میں کسی طرح کی کوئی غلطی رہ گئی ہو۔
امام طحاویؒ نے مشکل الآثار اور حاکم نے المستدرک میں لکھا ہے کہ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہؓ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا ہے کہ زنا کی اولاد تینوں میں سب سے بڑی برائی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: اللہ ابوہریرہؓ پر رحم کرے، ان سے سننے میں غلطی ہوئی لہذا انھوں نے جواب بھی غلط دیا، رسول اللہ ﷺ کی حدیث اس طرح نہیں تھی، ایک منافق شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مجھے اس شخص سے کون محفوظ رکھے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ ولد الزنا ہے۔ یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص تینوں میں سب سے برا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى [اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا] [سورہ فاطر، آیت۱۸]۔
نقد (جانچ پرکھ) حضرت عائشہؓ کی امتیازی پہچان تھی، انھوں نے حدیث کے نصوص کے مطالعہ اور نقد میں ایک اسکول کی بنیاد رکھی۔ امام دارقطنیؒ [وفات: ۳۸۵ھ] کی وفات کے بعد اس اسکول کا سورج غروب ہو گیا۔ ان کے بعد محدثین احادیث کے نصوص کے مطالعے اور نقد پر اتنی توجہ نہیں دیتے تھے جتنی توجہ احادیث کی سند پر دیتے تھے۔ ان محدثین کا یہ حال تھا کہ اگر ان کے نزدیک سند صحیح ہے تو وہ حدیث کی اجازت دے دیتے تھے، جب کہ حضرت عائشہؓ نے حدیث کے نص کو قبول کرنے کے سلسلے میں ایک سخت منہج و موقف اختیار کر رکھا تھا، ان کے منہج و موقف کہ بنیاد یہ تھی کہ حدیث کی نص قرآنی نصوص سے نہ ٹکراتی ہو اور نہ ہی کسی ایسی حدیث سے ٹکراتی ہو جو حدیث انھیں یاد ہو۔ حضرت عائشہؓ کے منہج کی ان دو بنیادوں کی ذیل میں مثالیں دی جا رہی ہیں:
الف: قرآن سے ٹکراو: امام بخاریؓ نے “صحیح بخاری” میں عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان کے والد نے نبی کریمﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے: “اگر میت پر نوحہ کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔” حضرت عائشہ ؓ نے اس حدیث کی تردید کی اور کہا کہ اس کا یہ نص نہیں ہو سکتا۔ اور ساتھ ہی انھوں نے کہا: تمہارے لیے قرآن کافی ہے جو کہتا ہے “وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى” [اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا]۔
اسی ضمن میں وہ حدیث بھی ہے جس کا تعلق مُردوں کے سننے سے ہے، جس کا ذکر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے کیا ہے، اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن قریش کے چوبیس مقتولین سے بات کی اور انھیں ان کے اور ان کے باپ داداؤں کے نام سے آواز دینے لگے اور کہنے لگے: کیا تم کو اب یہ بہتر معلوم نہیں ہوتا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچا پایا، تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیاتھا؟ حضرت عمرنے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں جن میں روح نہیں ہے؟ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اے عمر، اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے تم اتنا بہتر نہیں سن سکتے جتنا کہ یہ سن رہے ہیں۔
قتادہ السدوسیؒ [۱۱۸ھ] کہتے ہیں: “اللہ تعالی نے سرزنش کے لیے قریش کے ان مقتولین کو زندہ کردیا تھا تا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن سکیں۔” لیکن حضرت عائشہؓ نے اس حدیث کو رد کر دیا تھا کیوں کہ یہ حدیث قرآن کے نص سے ٹکراتی ہے، قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے: “إنك لا تسمع الموتى” [بیشک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے] [سورہ نمل، آیت۱۸]۔ “وما أنت بمسمعٍ مَنْ فی القبور” [اور تم نہیں سنانے والے انھیں جو قبروں میں پڑے ہیں] [سورہ فاطر، آیت۲۲]۔
ب: اپنی روایت کردہ حدیث سے دوسری حدیث کا ٹکراؤ: اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں عورت کو نحوست کہا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت کردہ ایک حدیث ہے: “اگر نحوست کسی چیز میں ہے تو وہ ہے گھر، عورت اور گھوڑے۔” حضرت عائشہؓ نے اس حدیث کی تردید کی ہے۔ طحاوی [وفات: ۳۲۱ھ] نے “مشکل الآثار” میں ابوحسان کے حوالے سے لکھا ہے: “قبیلہ بنو عامر کے دو لوگ حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کرتے ہیں کہ نحوست تو صرف عورت، جانور اور گھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہؓ کو بہت غصہ آیا اور وہ انتہائی ناراض ہوئیں اور فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز یہ نہیں فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا وہ یہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ ان چیزوں کی نحوست کے قائل تھے اور ان سے برا شگون لیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تعلیم حاصل کی تھی اس کے پیش نظر فرمایا کہ یہ بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کے لوگوں کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا تھا۔
بخاری و مسلم نے متعدد روایات سے حضرت ابوہریرہؓ کی ایک حدیث بیان کی ہے: “نمازی کی نماز عورت، گدھے اور کتے کے، اُس کے آگے سے گزرنے سے ٹوٹ جاتی ہے۔” حضرت عائشہؓ نے اس حدیث کی تردید کی اور کہا: تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں سے تشبیہ دی۔ خدا کی قسم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے اور میں ان کے اور قبلہ کے درمیان بستر پر لیٹی رہتی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس حدیث کی متن کی وجہ سے اس کی تردید کی۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اس میں عورتوں کی توہین کی گئی ہے۔ اس کی دلیل انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونہ کو بتا کر دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس حدیث کے متن سے ٹکرا رہا تھا۔
ہماری ماں حضرت عائشہؓ کی زندگی علم، عمل اور امت کی خدمت سے بھری ہوئی تھی، انھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی اور اہم میراث چھوڑی ہے، انھوں نے ہمیں شریعت سازی کے مصادر میں غور و فکر کرنے، فتوی دینے اور نصوص کو برتنے کے مناہج و طریقوں سے روشناس کرایا۔ جن امور اور طریقوں کو اختیار کرنے کی نظریاتی دعوت آج کل کے تجدید کے علم بردار دے رہے ہیں، حضرت عائشہؓ نے ان طریقوں پر چودہ سو سال پہلے ہی عمل کر کے دکھا دیا مثلا متون پر نقد کرنا، فتوے دیتے وقت مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھنا اور علم کے میدان میں عورت کا خود کفیل ہونا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تجدید کے ان داعیوں نے اپنی اس میراث پر غور و فکر ہی نہیں کیا جس کی تجدید کی وہ دعوت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس میراث کی خوبیاں ان کے سامنے اجاگر ہی نہیں ہو سکیں۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2021