خواتین کے حقوق اور سیرت رسول ﷺ
مقاصد: اس موضوع کے تحت پیشکش کے حسب ذیل مقاصد ہوں گے:
٭خواتین کے حقوق و مقام سے واقفیت ٭خواتین کے مثالی کردار کے طریقوں کی نشان دہی٭ خواتین پر ظلم سے ہونے والے نقصانات کی وضاحت
واقعات: اس موضوع کے لیے سیرت رسول ا سے حسب ذیل نکات کے پیش نظر واقعات بیان کیے جائیں:
﴿۱﴾ خواتین کا مقام ومرتبہ ﴿۲﴾نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی صاحبزادیوں اور ازواج مطہرات سے تعلق ﴿۳﴾خواتین کے حقوق کے تحفظ پر حضوراکرم ا کی بشارتیں ﴿۴﴾نبی کریم ااور صحابیاتؓ کی تربیت ﴿۵﴾ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مختلف میدانوں میں خواتین کا مثالی کردار ﴿۶﴾ماں، بیوی، بیٹی اور بہن سے متعلق صحابہ کرامؓ کا طرزعمل ﴿۷﴾خواتین پر ظلم اور صحابیاتؓ کا کردار ﴿۸﴾خواتین پر ظلم اور معاشرے پر اس کے بُرے اثرات ﴿۹﴾گھر میں خواتین کا مطلوبہ کردار ﴿۰۱﴾ خواتین سے حسن سلوک پر ملنے والی جنت کی نعمتیں۔
احادیث: اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے حسب ذیل احادیث بیان کی جاسکتی ہیں:
﴿۱﴾اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَاناًاَحْسَنُھُمْ خُلُقاًوَّخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ خیاکُمْ لِنِسَآئِہِمْ ﴿ابوہریرہؓ -ترمذی﴾
کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہتر ہیں۔
﴿۲﴾مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَاجَآئَ یَوْمَ الْقَْیْامَۃِاَنَاوَھُوَہٰکَذَاوَضَمَّ اَصَابِعَہ‘ ﴿انسؓ – مسلم﴾
جو دو بیٹیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو قیامت کے روز وہ اس حال میں حاضر ہوگاکہ میں اور وہ اس طرح ہوںگے اور اپنی دوانگلیوں کو ملایا۔
﴿۳﴾اِنَّ فُلاَ نَۃَ تُذْکَرُمِنْ کَثْرَۃِ صَلَا تِہَاوَصِیَامِہَاوَصَدَقَتِہَاغَیْرَاَنَّہَا تُؤذِیْ جِیْرَانَہَا بَلِسَانِہَا؟ قَالَ ہِیَ فِیْ النَّارِ۔وَقَالَ فَاِنَّ فُلَانَۃَ تُذْکَرُ قِلَّۃُ صِیَامِہَاوَ صَدَقَتِہَاوَصَلَا تِہَاوَاِنَّہَاتَصَدُّقَ بِالْاَثْوَارِمِنَ الْاِقِطِ وَلَاتُؤذِیْ بِلِسَانِہَا جِیْرَانَہَا۔قَالَ ہِیَ فِیْ الْجَنَّۃِ ﴿عن ابی ہریرہؓ -مشکوٰۃ﴾
﴿اے اللہ کے رسولﷺ﴾ فلاں عورت نفل نماز پڑھنے، نفل روزے رکھنے اور صدقہ کرنے میں مشہور ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے؟ ﴿آپﷺ نے فرمایا﴾ وہ جہنم میں جائے گی۔ اس نے کہاکہ ایک دوسری عورت ہے جو کم نفل نماز پڑھتی ہے، کم نفل روزے رکھتی ہے اور تھوڑی مقدار میں صدقہ کرتی ہے، وہ پنیر کے چند ٹکڑے غریبوں کو دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی ہے؟ ﴿آپﷺ نے فرمایا﴾ وہ جنت میں جائے گی۔
﴿۴﴾ قَالَ لَہُنَّ مَامِنْکُنَّ اِمْرَئَ اۃٌ تُقَدِّمُ ثَلٰثَۃً مِّنْ وَلَدِھَا اِلَّاکَانَ لَہَا حِجَاباً مِّنَ النَّارِ فَقَالَتْ امْرأَۃٌ وَّاثْنَیْنِ۔وَقَالَ وَاثْنَیْنِ۔اَنَّ جَارِیَۃً بَکْراً
﴿ابوسعید الخدریؓ – بخاری﴾
﴿ایک موقع سے آپﷺ نے جو نصیحت فرمائی، اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ﴾ تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیجے ﴿ان کی بہترتعلیم و تربیت کا نظم کرے﴾ تو ﴿آخرت میں﴾ اس کے لیے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائیںگے۔ ایک عورت نے پوچھاکیا اگر کوئی دو بھیجے تب بھی؟ او دو بھیجے توبھی ﴿ دوبچوں کی پرورش پر بھی﴾
﴿۵﴾ اَتَتِ النَّبِیِّا فَذَکْرْتُ اَنَّ اَبَاہَا تَزَوَّجَہَاوَہِیَ کَارِہَۃٌ۔ فَخَیَّرَھَا النَّبِیُّ ﷺ ﴿ابن عباسؓ -ابوداؤد﴾
ایک کنواڑی لڑکی نبی ا کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ اس کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف اس کانکاح کردیاہے؟ پس نبیﷺ نے اس کو اختیار دیا۔
﴿۶﴾اَلْمَرأَۃُ رَاعِیْۃٌ عَلٰی بَیْتَ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٰ وَہِیَ مَسْوُلَۃٌ عَنْہُمْ﴿ابن عمرؓ -ترمذی﴾
عورت نگرن ِکار ہے اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولاد کی اور اس سے متعلق اس سے پوچھاجائے گا۔
﴿۷﴾اَیُّمَارَجُلِ کَانَتْ عِنْدَہ‘ وَلِیْدَۃٌ فُعَلَّمَہَافَاَحْسَنَ تَعلِیْمَہَاوَاَدَّبَہَا فَاَحْسَنَ تَادِیْبَہَا ثُمَّ اَعْتَقَہَاوَتَزَوَّجَہَافَلَہ‘اَجْرَانِ ﴿ابوبردہؓ -بخاری﴾
جس شخص کے پاس کوئی نوکرانی ہو اور وہ اس کو خوب تعلیم دے اور عمدہ تہذیب وشایستگی سکھائے پھر اس کو آزادکرکے اس سے شادی کرلے، اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔
﴿۸﴾اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّہَاتِ۔ ﴿حدیث﴾
ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
﴿۹﴾ یَاعَائِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُّحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَالاَ یُعْطِیْ عَلَی الْعُنْفَ وَمَالَا یُعْطِیْ عَلَی مَاسِوَاہُ ﴿انسؓ -مسلم﴾
اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نرم خو ہے، نرم خونی کو پسند فرماتاہے اور نرم خوئی پر وہ کچھ عطا کرتاہے جو درشتی و سختی پر عطا نہیں کرتا اور نہ نرم خوئی کے سوا کسی دوسرے وصف پر عطا کرتاہے۔
﴿۰۱﴾ یَاعَائشۃُ اِیَّاکِ وَمُحْقِرَاتِ الذُّنُوْبِ فَاِنَّ لَہَامِنَ اللّٰہِ طَالِباً ﴿عائشۃؓ -ابن ماجہ﴾
اے عائشہ! اِن گناہوں سے بچتی رہنا جن کو حقیر و معمولی سمجھاجاتاہے۔ اس لیے کہ خدا کی طرف سے ان کی بھی بازپرس ہوگی۔
﴿۱۰﴾ ابتلائ وآزمائش میں کردارسازی اور سیرت ﷺ
مقاصد: اس موضوع کے تحت پیش کش کے حسب ذیل مقاصد ہوں گے:
٭ابتلا و آزمایش کے تصور کی وضاحت ٭آزمایش میں مطلوبہ مثالی کردار کی نشاندہی ٭آزمایش پر صبر سے ملنے والی نعمتوں اور صبر نہ ہوتو ملنے والی زحمتوں کاتذکرہ ۔
واقعات: اس کے لیے سیرت سے حسب ذیل نکات کے پیش نظر واقعات بیان کیے جائیں:
﴿۱﴾قریش کے مظالم اور صبر کی تلقین ﴿۲﴾ہجرت کے واقعات ﴿۳﴾حضرت ابراہیمؓ کی وفات پر آپﷺ کا مثالی کردار ﴿۴﴾مصیبت پڑنے پر صحابہؓ کا رویہ اور آپﷺ کی ہدایات ﴿۵﴾شوہر، بیوی اور بچے گزر جانے پر آپﷺ کی نصیحتیں ﴿۶﴾بیت الحمدکی تعمیر اس شخص کے لیے جو اپنے بچے کے انتقال پر صبر کرتاہے ﴿۷﴾مدینہ کی ابتدائی دور میںبنیادی ضروریات سے محرومی اور آپﷺ کے اقدامات ﴿۸﴾بیماریوں سے متعلق آپﷺ کی ہدایتیں ﴿۹﴾آفات وبلیات سے محفوظ رہنے کے طریقے ﴿۰۱﴾دنیا اور اور اس کی حقیقت، آخرت اور یہاں ملنے والا اجر
احادیث: اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے حسب ذیل احادیث بیان کی جاسکتی ہیں:
﴿۱﴾ اِذَاکَثَرَتْ ذُنُوْبُ الْعَبْدِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ مَایُکَفِّرُہَامِنَ الْعَمَلِ ابْتَلَاہُ بِالْحُزْنِ لِیُکَفِّرَہَاعَنْہُ ﴿مسند احمد﴾
جب کسی بندے کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور اس کے اعمال اس قدر نہیں ہوتے کہ جن کے سبب ان گناہوں کو معاف کردیاجائے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ اس بندے کو غم میں مبتلاکردیتاہے تاکہ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو معاف کیا جاسکے۔
﴿۲﴾ اِنَّمَا الصَّبْرُعِنْدَالصَّدْمَۃِالْاُوْلٰی ﴿انس بن مالکؓ -ابن ماجہ﴾
رنج و غم کی چوٹ لگتے ہی صبر، حقیقی معنوں میں صبر ہے۔
﴿۳﴾ اُنْظُرُوْ اِلیٰ مَنْ ہُوَ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَا تَنْظُرُوْا اِلیٰ مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ فَاِنَّہ‘ اَجْدَرُُاَنْ لَا تَزَدَرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ ﴿ابوہریرۃؓ -ابن ماجہ﴾
دنیاکے معاملے میں تم اس کو دیکھو جو تم سے غریب ہے ، اس کو نہ دیکھو جو مال و دولت کے لحاظ سے تم سے بڑا ہے۔ اگر ایسا کروگے تو یقینا اللہ کی نعمتوں کوحقیر نہیں جانوگے۔
﴿۴﴾ مَایَزَالُ الْمُوْمِنُ یُصَابُ فِیْ وَلَدِہٰ وَحَآمَّتِہٰ حَتّٰی یَلْقیَ اللّٰہَ وَلَیْسَتْ لَہ‘ خَطِیَۃٌ ﴿ابوہریرہؓ -موطاامام مالک﴾
ایک ایمان والے کو اپنی اولاد اور اپنے اعزہ کے سلسلے میں رنج و مصیبت پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے اس حالت میں ملتاہے کہ اس کاکوئی گناہ باقی نہیں رہتا ﴿یعنی وہ غم پر صبر کرتاہے اور اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کردیتاہے﴾
﴿۵﴾ مَایَصِیُبُ الْمُؤمِنَ مِنْ وَّصَبٍ وَلَا نَصَبٍ وَلَاسَقَمٍ وَلَاحَزَنٍ حَتّٰی الْہَمِّ یُہْمُّہ‘ اِلَّاکُفِّرَبہٰ مِنْ سَیَّٰاتِہٰ﴿ابوہریرؓ -مسلم﴾
ایمان والے کو جو تکلیف، تعب، بیماری اور رنج پہنچتاہے یہاں تک کہ وہ فکر بھی جو اسے ہوتی ہے، لازماً اس کے سبب سے اس کی بُرائیاں اور گناہ مٹ جاتے ہیں۔
﴿۶﴾ یَقُوْلُ اللّٰہ مَالِعَبْدِی الْمُؤمِنِ عِنْدِیْ جَزَآئٌ اِذَا قَبَضْتُ صَفِیَّہ‘ مِنْ اَہْلِ الدُّنْیَا ثُمَّ احْسَبَہ‘ اِلاَّ الْجَنَّۃَ ﴿ابوہریرہؓ -بخاری﴾
اللہ تعالیٰ کہتاہے میرے اس مومن بندے کی میرے پاس جنت ہی جزا ہے جس کے دنیا والوں میں سے کسی عزیز ترین فرد کو اٹھالو اور وہ اس پر میری خاطر صبر کرے۔
﴿۷﴾ یَقُوْلُ اللّٰہُ یَا ابْن: اٰدَمَ اِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبَتَ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلیٰ لَمْ اَرْضَ لَکَ ثَواباً دُوْنَ الْجَنَّۃَ ﴿ابوامامہؓ -ابن ماجہ﴾
اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ اے آدمؑ کے بیٹے اگر تو نے صدمے کے شروع میں صبر کیا اور میری رضا اور اجرو ثواب کو پیش نظر رکھا تو میں تیرے لیے جنت سے کم اور اس کے سوا کسی اجرو ثواب پر راضی نہ ہوںگا۔
﴿۸﴾ لَایَتَمَنَّیْنَ اَحْدَکُمْ الْمَوْتَ لِضُرٍّاَصَابَہ‘ فَاِنْ کَانَ لَابُدَّفَاعِلاً فَلْیَقُلْ اَللّٰہُمَّ اَحْیِنِیْ مَاکَانَتْ الْحَیَاۃُ خَیْراً لِیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْراً لِّیْ ﴿انسؓ -متفق علیہ﴾
تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کے پہنچنے کی وجہ سے موت کی آرزو نہ کرے اگر اس کے لیے اور چارۂ کار نہ ہو تو یہ کہے: اے اللہ! مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے اور جب میرے لیے مرنا بہتر ہوتو مجھے موت دے دیجیے۔
﴿۹﴾ اَکْثِرُوْا مِنْ ذِکْرِ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ یَعْنِی الْمَوْتَ ﴿ابوہریرہؓ -ترمذمی﴾
لذتوں کو ختم کردینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو۔
﴿۱۱﴾تجارت کی ہمت افزائی اورسیرت رسولﷺ
مقاصد: اس موضوع کے تحت پیش کش کے حسب ذیل مقاصد ہوں گے:
٭تجارت کی اہمیت و فضیلت واضح کرنا ٭تجارت کے آداب کی نشاندہی کرنا ٭تجارت کو تباہ کرنے والے طریقوں سے واقف کرانا
واقعات: اس کے لیے سیرت سے حسب ذیل نکات کے پیش نظر واقعات بیان کیے جائیں:
﴿۱﴾تجارت کی اہمیت و فضیلت ﴿۲﴾رسول اکرم اکاطریقۂ تجارت ﴿۳﴾مانگنے کی بجائے ہاتھوں سے کماکر کھانے کی ترغیب ﴿۴﴾کاروبار کے طریقے ﴿۵﴾چیزوں کی خریدو فروخت کے آداب ﴿۶﴾ذخیرہ اندوزی اور دھوکے کی تجارت کی مذمت ﴿۷﴾صحابہ کرامؓ کااندازِ تجارت، صلح حدیبیہ کے زمانے میں بالخصوص ﴿۸﴾بے ایمان تاجر اور معاشرے کی بدحالی ﴿۹﴾امانت دار تاجروں سے معاشرے کی خوش حالی کاتعلق ﴿۰۱﴾امانت دار تاجر کی فضیلت
احادیث: اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے حسب ذیل احادیث بیان کی جاسکتی ہیں:
﴿۱﴾ اَیُّ الْکَسْبِ اَطْیَبُ؟ قَالَ عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہٰ وَکُلُّ بَیْعٍ مَّبْرُوْرٍ ﴿رافع بن خدیحؓ – مشکوٰۃ﴾
﴿ایک شخص نے عرض کیا﴾سب سے زیادہ اچھی کمائی کون سی ہے؟ رسول اکرم انے فرمایا: آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا او وہ تجارت جس میں تاجر بے ایمانی او جھوٹ سے کام نہیں لیتا۔
﴿۲﴾لَاتَنَاجَشُوْا ﴿متفق علیہ﴾
محض ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خاطر قیمتوں کو مت بڑھاؤ ۔
﴿۳﴾ مَاکَانَ الفُحْشُ فِیْ شَیٍٔ اِلاَّ شَاْنَہُ وَمَاکَانَ الْحَیْاَئُ فِیْ شَیٍٔ اِلَّا زَانَہ ﴿ترمذی﴾
جس کام میں بدزبانی سے کام لیاجائے وہ اسے تباہ کرتی ہے اور جس کام میں بھی سلیقہ مندی ہوگی وہ اسے زینت بخشے گی۔
﴿۴﴾ اِذَا سَبَّبَ اللّٰہُ لِاَحْدِکُمْ رِزْقاً مِّنْ وَّجْہٍ فَلَا یَدَعْہُ حَتّٰی یَتَغَیَّرَلَہ‘ اَوْیَتَنَکَّرَلَہ‘ ﴿عائشہؓ – ابن ماجہ، مسند احمد﴾
جب اللہ تعالیٰ کسی کے لیے روزی کاایک ذریعہ بنادے تواسے نہ چھوڑے جب تک اس میں رکاوٹ نہ آئے یا نقصان نہ ہونے لگے۔
﴿۵﴾ رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلاً سَمْحاًاِذَابَاعَ اشْتَرٰی وَاِذَا اقْتَضَیٰ ﴿جابرؓ -بخاری﴾
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچنے، خریدنے او ر تقاضا کرتے وقت نرمی اختیار کرے۔
﴿۶﴾ اِیَّاکُمْ وَکَثْرَۃَ الْحَلْفِ فِیْ الْبَیْعِ فَاِنَّہ‘ یُنَفِّقُ ثُمَّ یَمْحَقُ ﴿ابوقتادہؓ -مسلم﴾
تجارت میں زیادہ قسم کھانے سے بچو کہ پہلے تو یہ خوب پھولتی ہے لیکن بہت جلد برکت ختم کرڈالتی ہے۔
﴿۷﴾ مَنْ بَاعَ عَیْبًا لَّمْ یُنَبِّہْ لَمْ یَزَلْ فِیْ مَقْتِ اللّٰہِ اَوْلَمْ تَزَلِ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَلْعَنُہ‘ ﴿واثلۃ ابن اسقعؓ -ابن ماجہ﴾
جس نے عیب والی چیز بیچی اور وہ عیب نہ بتایاتو وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا یا ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔
﴿۸﴾ مَنِ احْتَکَرَفَہُوَ خَاطِیٌ ﴿معمرؓ -مسلم﴾
ذخیرہ اندوزی ﴿اناج کو جمع کرنا﴾کرنے والا خطاکارہے۔
﴿۹﴾ مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِراً اَوْ وَضَعَ عَنْہُ اَظَلَّہُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٰ ﴿ابوالیسرؓ -مسلم﴾
جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا قرض معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا۔
﴿۱۰﴾ مَنْ اَخَذَ اَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ اَدَآئَ ہَااَدَّی اللّٰہُ عَنْہُ وَمَنْ اَخَذَ یُرِیْدُ اِتْلَافَہَا اَتْلَفَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ ﴿ابوہریرہؓ -بخاری﴾
جو لوگوں سے مال لے اور ادا کرنے کا ارادہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس سے ادا کروادے گا اور جو ضائع کرنے کے ارادے سے لے تو اللہ تعالیٰ اس سے ضائع کروادے گا۔
﴿۱۱﴾ مَنْ اَخَذَ شِبْراً مِّنَ الْاَرْضِ ظُلْماً فَاِنَّہ‘ یُطَوَّقُہ‘ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ سَبْعٍ اَرْضِیْنَ ﴿سعید بن زیدؓ -متفق علیہ﴾
جس نے ایک بالشت زمین بھی چھینی تو اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا۔
﴿۲۱﴾ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الرَّشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ ﴿عبداللّٰہ ابن عمر-ابن ماجہ﴾
رسول اللہ ا نے فرمایا:اللہ کی لعنت ہے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر۔
﴿۱۲﴾اِنسانی سماج کی بھلائی اور سیرت رسول ﷺ
مقاصد: اس موضوع کے تحت پیش کش کے حسب ذیل مقاصد ہوں گے:
٭مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان دُرست تعلقات کی اہمیت واضح کرنا ٭نیکیوں کے فروغ اور بُرائیوں کے ازالے میں باہمی تعاون کی صورتیں واضح کرنا ٭ظلم وزیادتی کے نقصانات سے واقف کرانا۔
واقعات: اس موضوع کے لیے سیرت رسول ا سے حسب ذیل نکات پیش نظرواقعات بیان کیے جائیں:
﴿۱﴾انسانوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت ﴿۲﴾مختلف مذاہب کے ماننے والوں کامشترک پروگرام ﴿حلف الفضول﴾ ﴿۳﴾اِنسانی بھائی چارہ کافروغ ﴿۴﴾مکہ معظمہ میں نبی کریم ا اور صحابہ کرامؓ کاطرزِ عمل ﴿۵﴾کسی پر ظلم نہ کیاجائے اور نہ ہونے دیاجائے ﴿۶﴾ حقوق کی پاسداری اور عدل و انصاف کے لیے کوشش ﴿۷﴾پڑوسیوں اور پہلو کے ساتھیوں سے حسن سلوک ﴿۸﴾حکمرانوں کی بہتر کارکردگی کے لیے عوام کی کوشش ﴿۹﴾آپسی زیادتی کے نقصانات ﴿۰۱﴾حسنِ سلوک کے فوائد۔
احادیث: اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے حسب ذیل احادیث بیان کی جاسکتی ہیں:
﴿۱﴾ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٰ لَتَامُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْلَیُوْشِکَنَّ اللّٰہُ اَنْ یَّبْعَثْ عَلَیْکُمْ عَذَاباً مِّنْ عِنْدِہٰ ثُمَّ لَتَدْعُنَّہ‘ وَلاَیُسْتَجَابُ لَکُمْ حذیفہؓ -ترمذی﴾
قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور نیک کاموں کاحکم کرنا اور بُرے کاموں سے منع کرتے رہنا ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے گا۔ پھر تم اس سے دعا کروگے تو تمھاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔
﴿۲﴾ لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرِنَاوَلَمْ یُوَقِّرْکَبِیْرِنَاوَیَامُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ ﴿ابن عباسؓ – ترمذی﴾
وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پررحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور نیک باتوں کا حکم نہ دے اور بُری باتوں سے نہ روکے۔
﴿۳﴾ مَا اَکْرَمَا شَابٌ شَیْخَاًمِّنْ اَجَلِ سِنِّہٰ اِلّا قَیَّضَ اللّٰہُ لَہ‘ عِنْدَ سِنِّہٰ مَنْ یُّکرِمُہ‘ ﴿انسؓ -ترمذی﴾
کوئی نوجوان کسی بوڑھے کی اس کی عمرکے باعث عزت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسا شخص مقرر فرمادیتاہے جو بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔
﴿۴﴾ مَنْ رَاٰی عَوْرَۃً فَسَتَرَہَاکَانَ کَمَنْ اَحْییٰ مَوْئُ وْدَۃً ﴿عقبہ بن عامرؓ – ترمذی، مسند احمد﴾
جس نے کسی کا پوشیدہ عیب دیکھ کر چھپایا یہ ایسا ہے گویا اس نے زندہ گاڑی ہوئی لڑکی کو بچالیا۔
﴿۵﴾اِنَّ اَحَدَکُمْ مِرْأَۃُ فَاِنْ رَاٰی بِہٰ اَذًی فَلْیُمُطْ عَنْہُ ﴿ابوہریرہؓ -ترمذی﴾
تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کے لیے آئینہ ہے، اگر اس میںکوئی بُرائی دیکھے تو اسے دور کردے۔
﴿۶﴾یاَ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ لِیْ اَنْ اَعْلَمَ اِذَا اَحْسَنْتُ وَاِذَا اَسَأتُ۔ فَقَالَ النَّبِی ا اِذَا سَمِعْتَ جِیْرَانَکَ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَحْسَنْتَ وَاِذَا سّمِعْتَہُمْ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَسَأتَ فَقَدْ اَسَأْتَ ﴿عبداللّٰہ ابن مسعودؓ – ابن ماجہ﴾
﴿ایک شخص نے رسول اکرم ا سے عرض کیا﴾ اے اللہ رسول ا مجھے کیسے معلوم ہوکہ میں نے بھلائی کی ہے یا بُرائی کی ہے؟ نبی کریم ا نے فرمایاکہ جب تم اپنے پڑوسی کو کہتے سنوکہ تم نے بھلائی کی تو واقعی تم نے بھلائی کی اور جب اپنے پڑوسی کو کہتے سنو کہ تم نے بُرا سلوک کیا تو واقعی تم نے بُرا سلوک کیا۔
﴿۷﴾ اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُ مَاکُنْتَ وَاَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْعُہَا وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلْقٍ حُسْنٍ ﴿ابوذرؓ – مسند احمد، ترمذی﴾
اللہ سے ڈرو خواہ تم کسی جگہ ہو۔ بُرائی کے بعد نیکی کرو جو اسے مٹادے اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ برتاؤ کرو۔
﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010