نوبیل انعام یافتہ اکنامسٹ تھیوڈر شلٹز کے والدچاہتے تھے کہ وہ پڑھائی ترک کرکے کھیتی باڑی میں جٹ جائے۔
نوبیل لاریٹ ابھجت بینرجی نے اپنی معروف کتاب پوور اکنامکس میں اس واقعہ کے حوالے سے اسکولنگ کا تجزیہ کیا اور لکھا کہ کس طرح ہندوستان میں بھی دیہی علاقوں کی شاندار صلاحیتیں اسی فرسودہ مزاج کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ دیہی علاقوں سے ٹیچروں کی وحشت، پسماندہ بستیوں کے بچوں کے متعلق غیر حقیقی مفروضے، بھیدبھاؤ کا غیر انسانی کلچر، تعلیم کا فرسودہ روایتی انداز اور مادری زبان میں تعلیم سے پرہیز اسی غیر فطری مزاج کے برگ و بار ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ
Making sure that every child learns the basics well in school is not only possible, it is in fact fairly easy, as long as one focuses on doing exactly that and nothing else.
شجر امید سلسلے کی اس کڑی میں آئیے ہم ایک ایسے ہی اختراعی ماڈل کو سمجھیں گے جس نے اس بات کو عملاً ثابت کیا کہ دیہی پسماندہ علاقوں سے بھی جینیس ابھر سکتے ہیں بشرطیکہ فرسودہ سوچ سے آگے بڑھ کر اختراعی ماڈل اپنایا جائے۔
پس منظر اور قیام
نوجوان سائنٹسٹ ساجد حسین ماؤنٹ ایوریسٹ لرننگ فاؤنڈیشن کے تحت اسکولازیم پروجیکٹ کی روح رواں ہیں۔
پسماندہ ریاست جھارکھنڈ کے ایک غیر معروف شہر چتر پور، رام گڑھ کے متوطن اس نوجوان کو رب نے وہ صلاحیتیں اور قابلیت عنایت کررکھی ہیں کہ وہ چاہے تو یوروپ کی کسی بڑی کمپنی میں اعلیٰ کیریراور معاشی آسودگی کی منزل پاکر چین کی بانسری بجائے۔ لیکن اس نے اپنے لیے دولت کے مقابلے میں خدمت کا راستہ چنا۔ ساجد حسین کے اصل کارنامے کی وضاحت سے پہلے ان کے تعلیمی سفر کی ایک جھلک بھی دل چسپی کا سبب ہوگی۔
مدرسہ میں ابتدائی تعلیم اورانٹر میڈیٹ کے بعدبی آئی ٹی (سندری) سے انجینیرنگ کی تکمیل کرکے انھوں نے سخت مسابقتی امتحان gate میں ملکی سطح پر ۵۵ واں مقام پایا اور ہندوستان کے انتہائی معیاری ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس بنگلو ر سے ماسٹرس کی تکمیل کی۔ جرمنی کی بوان سویگ ٹیکنیکل یونیورسٹی سے ریسرچ کیا۔ جرمنی، پولینڈ، سویزرلینڈ، سلواکیہ، اس کاٹ لینڈ سمیت یوروپ کے کئی نامور اداروں اور باوقار انٹرنیشنل جرنلوں میں تحقیقی مقالے پیش کیے۔
یوروپ کے مصروف شب و روز کے بیچ ایک دن ان کے ذہن میں ایک انوکھے سوال نے سر اٹھایا کہ میری ان مسلسل کامیابیوں کا میرے وطن اور میرے گاؤں کوکیا فائدہ؟ کیا میں وطن سے دور خود کو سنوارنے اور دولت جٹانے میں ہی زندگی بتادوں گا؟
جواب ڈھونڈھتے انھیں دیر نہ لگی۔ کیریر کے اس موڑ پر جہاں دولت، شہرت اور عزت کی برکھا برستی ہے، انھوں نے ایک انوکھا فیصلہ کیا۔ کچھ نئے طریقوں کے سہارے ان نونہالوں کی سوئی ہوئی قابلیتوں کو اونچی منزلیں دکھانے کا فیصلہ جوصلاحیت ہونے کے باوجود محرومیوں کا شکار ہیں۔ وطن کی مٹی اور خدمت کا جذبہ بالآخر انھیں گھر لے آیا۔ اور پھر وجود میں آیا ایک انوکھا ادارہ جو کئی اختراعی منصوبوں کا محرک بنا۔
ندرت اورانفرادیت
اسکولازیم نہ نوٹ چھاپنے والے کارپوریٹ اسکول ہیں ، نہ ان کی نقالی فرمانے والے سیمی کارپوریٹ ادارے۔ نہ ہی حکومتوں کے احسان تلے دبے سرکاری اسکول۔ بلکہ ان سب سے منفرد !
اسکولازیم ( اسکول اور جمنازیم ) : بچوں کی لرننگ صرف مبنی بر تحریر ( ٹیکسٹ بیسڈ ) نہ ہو۔ جس طرح ورزش کے ذریعے جمنازیم میں جسم کو توانا کرنے کی مشق کی جاتی ہے، عین اسی طرح اسکولازیم بھی فکری اور دماغی مشق کے سہارے بچوں کے ذہن کو توانا کرنا چاہتا ہے۔ میتھس کے لیب اسکولازیم کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔
جدت طرازی : اس جدید لرننگ اس کیم کو دو پوائنٹس کے تحت سمیٹا جاسکتا ہے۔ ۱) مقامی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کا دل چسپ اور نیا ماحول ترتیب دینا۔ اور پسماندہ بستیوں سے عبقری صلاحیتیں ابھارنا۔ ۲) اس مقصد کے لیے ٹیچرس کی شمولیت بڑھانا تاکہ وہ ترویج علم کے جدید ہنر سے ہم آہنگ ہوسکیں اور ان کی دل چسپی بڑھے۔
لیبارٹری اسکول : کام کا آغاز لیبارٹری اسکول سے ہوا۔ ساجد حسین کہتے ہیں کہ لیبارٹری سے مراد چند آلات سے بھرے کمرے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت کی حرکیاتی تجربہ گاہ ( ڈائنامک ایکشن اسپیس فار لرننگ) ہے۔
لیبارٹری اسکول کرئیٹیو ٹیلینٹس، کمپوٹیشنل اور کریٹیکل تھنکنگ کو تجربات کے سہارے نکھارتا ہے۔ یہاں کتابوں کا بوجھ کم اور لیبارٹریز کا لطف زیادہ ہے۔ یہاں بائیلوجی کلاس، لیکچر روم میں نہیں باغ، جنگلات اور جانوروں کے بیچ ہوتی ہے۔ سوشل سائنس پڑھنے کے لیے بچے قبائلی علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسکول یونیفارم پہنے بچوں کو اسکوٹر انجن کے پرخچے ٹٹولتے، مٹی گوندھتے، کمھار کا پہیہ گھماتے، ہینڈی کرافٹس میں ہنر آزماتے اور چکرادینے والے گنجلک الیکٹرانک سرکٹس میں نظریں گاڑے پائیں تو آپ حیران نہ ہو ں ، یہ اسی لیبارٹری اسکول کی نئی دنیا ہے۔
لرننگ اونر شپ : بچوں پر اپنی ترجیحات نہ تھوپی جائیں۔ لرننگ اونر شپ انھیں کے حوالے ہو۔ وہ کیا اور کیسے سیکھنا چاہتے ہیں اس بات کا فیصلہ ان کی مرضی سے ہو۔ لرننگ اونر شپ کا احساس ان میں خود اعتمادی بڑھاتا ہے، وہ خود کو اپنے تجربات سے زیادہ ہم آہنگ محسوس کرتے ہیں۔
پریکٹس ناٹ پریچنگ : گاندھی جی کہتے تھے کہ چند عملی لمحات، گھنٹوں پر مبنی نصیحتوں سے زیادہ نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ اسی اصول کو اپناتے ہوئے یہاں لمبے اور بوجھل لیکچرس کے بجائے عملی تربیت کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ورکشاپس اور لیبس کا اہتمام، سائنس فیسٹ، میکر میلہ، لرننگ بیسڈ آن باڈی موومنٹ، میکر اسپیس ( میک شالہ) وغیرہ انوکھے تجربات اسی اختراعی طریقہ کار کا حصہ ہیں۔
مثلاً دائروی گردش کو سمجھنے کے لیے بچوں کوگروپ اسائنمنٹ دیا جائے کہ وہ مل جل کرگھومنے والا جھولا بنائیں۔ ایسی ایک ایکٹیویٹی نہ صرف گردش ( روٹیشن ) کے متعلق فزکس کی کئی گتھیاں سلجھاتی ہے بلکہ مٹیریل سلیکشن، فورس، لوڈ ڈسٹریبیوشن جیسے انجینیرنگ کے ابتدائی تصورات بھی کھول دیتی ہے۔
پرابلم سولونگ اسکلس: غیر متبدل علم ( نان وارئیبل نالج) کو ٹیکنولوجی نے سہل کردیا۔ اب ہر چھوٹی بات رٹانے کی ضرورت نہیں۔ یہی وقت اورصلاحیت زیادہ اہم ایشوز پر صرف کی جانی چاہیے۔ مستقل نالج پر محنت کرنے کے بجائے جدید مسائل کا حل ڈھونڈھنے کی صلاحیت (پرابلم سولونگ اسکلس )آج زیادہ بڑا چیلنج ہے۔
رٹنے پر مشتمل رائج الوقت طریقہ تعلیم کے بجائے یہاں پرابلم سولونگ اسکلس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
وسعت، ترقی اور نتائج
ساجد حسین، جتیندر کمار، فرحان سنبل، سبودھ کمار وغیرہ پر مشتمل اسکولازیم کی ایک قابل اور فعال ٹیم ہے۔ لیکن اس مکمل اختراعی منصوبے کی نتیجہ خیزی چند لوگوں کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس لیے اس میں زیادہ افراد کی شمولیت کے لیے ایک متوازی ادارہ cleqi ( سینٹر فار لرننگ انگیجمنٹ اینڈ کوالٹی امپروومنٹ ) قائم کیا گیا۔ اس ادارے کے ذریعے پوری ریاست کے سیکڑوں ٹیچرس ان جدید تجربات کی نہ صرف ٹریننگ پاتے ہیں بلکہ ان سے واقف اور ہم آہنگ ہورہے ہیں۔ صرف ٹیچرس ہی نہیں بلکہ عام تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی رضاکارانہ خدمت کے جذبے کے ساتھ اس مشن سے جوڑا جارہا ہے۔ مختلف مسابقتی پروگرامس کے نتائج ثابت کرتے ہیں کہ طرز تعلیم کا یہ اختراعی تصور کامیاب ہے۔
اس طریقہ تربیت کو قبائلی علاقوں تک وسعت دے کر وہاں ان کے ماحول اور وسائل کے ذریعے ان کی تعلیم کا نظم کیا گیا۔ جدید مسابقت میں نظر انداز کردیئے گئے یہ معصوم لوگ اپنے فطری ماحول میں رہتے ہوئے تعلیمی و تجرباتی دھاروں سے جڑ رہے ہیں۔
گملا ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن نے ان تجربات سے استفادے کا فیصلہ کیا اور ۱۵ ماڈل اسکولس قائم کرنے کا کام اس وژنری ٹیم کو تفویض کیا۔ ہر اسکول میں اسکولازیم انوویشن لیب اور ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ انوویشن لیب قائم کرنے کا کام جاری ہے۔
ان تمام ترقیوں کے باوجود ایک احساس یہ بھی ہے کہ اس اختراعی منصوبے کو اس کی نتیجہ خیزی کے باوجود سماج اور بالخصوص ملت خاطر خواہ سمجھ نہ سکی۔ عوامی ادارے، ملی دانشور اور عوام اب بھی عملی تعاون کے لیے اب بھی پس و پیش کا شکار رہتے ہیں۔
ایک وژنری پروجیکٹ کے لیے وسائل کی دستیابی بھی ایک چیلنج ہوتا ہے۔ اسکولازیم کاایک تعمیری منصوبہ بھی ہے، جس کے لیے ٹیم کی جدوجہد جاری ہے۔
ایوارڈس اوراعزازات
ماونٹ ایورسٹ اسکول سال ۲۰۱۹ کا’بیسٹ آئیڈیا‘ انو ویٹیو اسکول قرار پایا۔ چیف منسٹر ( رگھوبر داس ) کے ہاتھوں یہ اعزاز دیا گیا۔
اسٹارٹ اپ انڈیا پروگرام کے تحت ۲۰۱۸ میں ریاست کی ساتویں کامیاب ترین کمپنی کاایوارڈ اور چیف منسٹر کے ہاتھوں اعزازبھی ملا۔ نئی ریاستی حکومت کے ایجوکیشن منسٹر اور چیف منسٹر نے بھی ان کاوشوں کو ٹوئیٹس کے ذریعے سراہا اور تعلیم کے میدان میں تعاون اور اشتراک کی خواہش کی۔ ملک کی کئی دیگر تنظیموں اور این جی اوز نے بھی اس ماڈل کو کئی انعامات و اعزازات سے نوازا۔
پیغام عمل
۱)گیارہ سالہ عامر رات دیر گئے تک دودھ بیچتا ہے اور دن میں پڑھتا ہے۔ اشونی سمیت وہ ان ۱۸ بچوں میں شامل ہے جنھوں نے حوصلہ شکن غربت کا مقابلہ کرتے ہوئے انٹرنیشنل میتھمیٹکس اولمپیاڈ میں اونچا مقام اور میڈل پایا۔ ا نس نے آئی آئی ٹی کے پروجیکٹ سے تحریک پائی اور گیارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر گیم ڈولیپ کردیا۔ ایک بچے نے تین جلدوں میں کامکس لکھ دی۔ شکھا کماری نے دو کتابیں لکھ دی ہیں ، اس کے والد سائیکل رپیرنگ کا کام کرتے ہیں۔ ایسی کئی ایجادات اور کامیابیاں ان بچوں نے درج کروائیں ، جو پسماندہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھیجت بنرجی نے جس سماجی مفروضے کے غلط ہونے کا زبانی دعوی کیا، اسکولازیم نےآگے بڑھ کر اسے واقعات کی دنیا میں غلط ثابت کر دکھایا۔ پسماندہ سماج کے بارے میں غیرحقیقی مفروضات کو عملاً غلط ثابت کر دکھاناسماجی انصاف کا تقاضہ ہے۔
۲) میٹروز کی چکا چوند میں ڈوب کر جولوگ اپنے گاؤں کے تاریک گلیاروں کو بھول چکے تھے آج انھی میں سے کچھ قابل نوجوان اپنی سماجی ذمہ داری کویادرکھتے ہوئے رضاکارانہ کام کے لیے بتدریج آمادہ ہورہے ہیں۔ روزگار کے لیے میٹرو شہروں اور بیرون ملک بس جانے والے قابل نوجوانوں کو دوبارہ اپنے گاؤں سے جوڑ کر اپنی صلاحیتیں سماجی ترقی کے لیے لگانے کا ایک جدید میکانزم اس پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ ملک و بیرون ملک اعلیٰ اداروں میں کھوج کی جائے تو شاید معلوم ہو کہ ملک کے ہر گاؤں کے قابل سپوتوں نے بڑی کامیابیاں درج کی ہیں۔ ضرورت ہے کہ انھیں اپنی جڑوں سے اسی طرح دوبارہ جوڑ کر سماجی ذمہ داریوں کے تئیں بیدار اور فعال کیا جائے۔
۳) لیبارٹری اسکولس کے اس انوکھے خیال کو مزید قوت ملی جب آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم سے ساجد صاحب کے دو دوست اس پراجیکٹ میں شامل ہوگئے۔ ان کی قائم کردہ اسٹارٹ اپ کمپنی نے بہت جلد خود کی خدمات کو ثابت کیا۔ روڈ میپ واضح اور نیت صاف ہو تو اچھے منصوبوں کے لیے براداران وطن سمیت کسی بھی گروپ سے والہانہ تعاون مل سکتا ہے۔
۴) فاؤنڈیشن کی ٹیم مستقل ملکی و بین الاقوامی ماہرین تعلیم (جین ڈریز، انل سدگوپال، سواتی سرکار، وویک واگھ وغیرہ ) سے ملاقات، نئی کتابوں اورتحقیقی مقالوں کی کھوج، قومی و بین الاقوامی اداروں (مثلاً ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامنٹل ریسرچ، ہومی بھابھا سینٹر فار سائنس ایجوکیشن، عظیم پریم جی یونیورسٹی وغیرہ ) سے اشتراک اور تعلیمی سیمیناروں میں شرکت کرتی ہے۔ اس ایکٹیوزم کے ذریعے تازہ آئیڈیازکی تشکیل کا عمل مستقل جاری رہتا ہے۔ دماغ کو زحمت دیئے بغیر روایتی ڈگر پر چلنا تو عین ممکن ہوتا ہے لیکن اختراعی منصوبے ہر روزدماغی مشق اور تازہ آئیڈیاز کا تقاضہ کرتے ہیں۔ جہاں اس مشقت سے سمجھوتاہوا، اونچے دعوے بھی دیکھتے دیکھتے فرسودہ ڈھیر کو بڑھانے والے بن جاتے ہیں۔
۵) نیشنل ایرواسپیس لیب بنگلور اور جرمنی کے اعلیٰ تحقیقی اداروں میں بحیثیت مٹیریل ریسرچ سائنٹسٹ کام کرنا گویا بلند کیریر کا وہ سنگ میل ہوتاہے جس کا خواب دنیا کے کروڑوں نوجوان دیکھتے ہیں لیکن بمشکل چند اس کی تعبیر پاتے ہیں۔ لیکن بلندمشن کی خاطراعلی کیریر قربان کرنا، ایک منفرد مثال ہے۔ دیش بھکتی کے ایسے جھنڈا بردار تو آپ کو ہزاروں نظر آئیں گے جواپنی آنکھوں میں یورپ کا سپنا سجائے اپنے خودساختہ بائنری لٹمس سے دوسروں کی وطن دوستی جانچتے پھرتے ہیں۔ اور موقعہ ملتے ہی دیش اور دیش پریم چھوڑ، پیٹ کا سوال لیے ایسے فرار ہوتے ہیں کہ پھر یوروپ کی مستی میں کبھی وطن یاد نہیں آتا۔
اسی جذبہ خدمت کے متعلق قبل ازیں تحریر کردہ الفاظ کو دہراتا چلوں کہ یہ تجربہ آج کے منافقانہ ماحول میں کھوکھلی دیش بھکتی اور حقیقی جذبہ خدمت کا فرق بھی کھولتاہے۔ ہمارے نوجوان کسی کی جملہ باز بھپکیوں سے سہم کر مرعوب نہ ہوں۔ آپ نے ہمیشہ اس ملک کو دیا ہے اور سچے جذبے کے ساتھ دیتے رہیں گے۔
۶) سوچنے والے سوچ سکتے ہیں کہ بھلاایک انجینئر کا فن تعلیم سے کیا تعلق؟ لیکن مسائل کےمنجدھار سے کشتی گزارنے والےساجد حسین کا کہنا ہے کہ مسائل حل کرنا آپ کا کام ہے۔ اگر یہ جذبہ زندہ ہو تومسئلہ تکنیکی ہے یا سماجی، یہ سوال اہم نہیں۔ آج چارسالہ نوخیز ادارہ اپنے علاقے میں ایک نئے تعلیمی انقلاب کا بگل بجارہاہے۔ یہ صرف ادارہ نہیں بلکہ ادارہ ساز بن چکا ہے۔ جس نے ۱۳ گاؤں میں ۲۰ تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک کے ذریعے ہزاروں محروم بچوں کے دلوں میں روشن مستقبل کی جوت جگائی۔
۷)ا ن والدین کے لیے بھی خاموش پیغام ہے جو سماج سے کاٹ کر بچوں کو صرف نصابی کتابوں کا کیڑا بنانے پر تلے ہوتے ہیں اور اس غیر فطری دوڑ میں کیریرکی مصنوعی چمک ڈھوندھتے ہیں ، جب کہ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ طلبا کی شخصیت سازی میں زیادہ رول غیر نصابی سرگرمیوں کا ہوتا ہے۔ اس حیرت انگیز منصوبےنے ثابت کیا کہ ایس آئی او جیسی صالح اجتماعیت اور اس کی طلبائی خدمات صرف شخصیت ساز نہیں بلکہ ‘’کیریر ساز‘ اور سماج ساز بھی ہوتی ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2020