دین اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ یہ فطرت کادین ہے، فطرتِ انسانی ، الفت ومحبت کا نام ہے۔ اسلام کی دعوت وتعلیم بھی یہی ہے ، وہ بھی چاہتا ہے کہ انسان منظم، فعال ومتحرک (Active) اورمتحد ہوکر اس کی اقامت و اشاعت کا فریضہ انجام دے، اس لئے یہ ہمیشہ جماعت واجتماعیت کی طرف بلاتا ہے۔ مومن، دوسرے مومن سے مل کر ہی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتا ہے۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون اور باہمی اشتراک ایک اہم دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے اور تواصی بالحق وتواصی بالصبر ہی دنیوی واخروی فلاح کی تنہا ضمانت ہے۔
امت کے موجودہ حالات بھی اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ نفع بخش کوششیں مشترک و متحد ہوں۔عظیم کارنامے متحدہ کوششوں کے بغیر انجام نہیں دیئے جاسکتے اور فیصلہ کن معرکے کندھے سے کندھا ملاکر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہی سر کئے جاسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کو محبت بھی اپنے ان ہی بندوں سے ہے جو متحد و ایک ہوں ۔
إِنَّ اللَہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِہِ صَفّاً کَأَنَّہُم بُنیَانٌ مَّرْصُوص۔ (صف: ۳)
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔
پھراتحادو اجتماعیت بھی ایسی کہ اس میںکہیں سے شیطان کے درآنے کی گنجائش نہ ہو، اس لیے نماز تک میں حکم ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایسے کھڑے ہوں کہ صفوں کے اندر جگہ خالی نہ رہے ۔ آپؐ نے فرمایا: ایک دوسرے سے اختلاف نہ کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف پیدا ہوجائے‘‘۔
لاتختلفوا فتختلف قلوبکم(ابوداؤد، کتاب الصلٰوۃ فی تسویۃ الصوف۔۶۷۵)
پوری امت جسد واحد کی طرح ہے
قرآن مجید نے امت کو جس اخوت و اتحاد کا درس دیا ہے اس کے تصور کے بغیر دین کا تصور بھی مکمل نہیں ہوتا۔عرب جو ہمیشہ لڑتے تھے ، جیسے ہی نور ایمان کی شعائیں ان کے دلوں پر پڑیں، کفر کی ساری سیاہیاں ختم ہوگئیں اور آپس میں ایسے شیروشکر ہوئے کہ ضرب المثل بن گئے۔ قرآن مجید نے ان کے اتحاد کی تعریف کی اور فرمایا:
ہُوَ الَّذِیْ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ۔وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ۔ (انفال:۶۳)
’’اللہ ہی نے اپنی اور مسلمانوں سے آپ کو طاقت دی اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی، اگر آپ دنیا وجہاں کی تمام دولت بھی لٹا دیتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ ہوتی مگر اللہ نے الفت پیدا کردی‘‘۔
ایمان کی شان یہی ہے کہ اللہ کے جتنے بندے اس کی رسی سے وابستہ ہوجائیں اور اسلام و قرآن کی لڑی میں پروجائیں وہ ایک جسم وجاں بن جائیں، ان میں سے کسی کی تکلیف، دوسرے کو مضطرب و بے چین کردے، ان کے درمیان کوئی مسلک، کوئی ذات، کوئی برادری، کوئی علاقہ او رکوئی خاندان نہ ہو سب ایک ہی خاندان ، خاندانِ اسلام سے وابستہ ہوجائیں۔
صحابی ٔ رسولؐ، ترجمان القرآن حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں : ’’خون کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، احسانات فراموش کردیئے جاتے ہیں لیکن ایمان سے زیادہ دلوں کو قریب کرنے والی چیز دیکھنے میں نہیں آئی‘‘۔ (ابن کثیر۲/۴۲۶)
ایمان ہی کی طاقت تھی کہ اوس وخزرج کی پشتہا پشت کی دشمنیاں اخوت ومحبت میں تبدیل ہوگئیں جبکہ قرآن پاک کی شہادت یہ ہے کہ زمین و آسمان کے تمام خزانے لٹاکر بھی ان کی نفرتیں ختم نہ ہوپاتیں۔ اس کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ امت حقیقی ایمان سے لذت ناآشنا ہے۔
اخوت واتحاد کی برکتیں
محبت واتحاد کی اہمیت اس احادیث سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے:
(۱) بخاری ومسلم (صحیحین) کی روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: مومن، مومن کے لئے دیوار کے مانند ہے جس کاایک حصہ دوسر ے کو تقویت پہنچاتا ہے۔
المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً۔(مسلم، البر والصلۃ: ۶۵۸۵)
اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اسے ضائع ہونے کے لئے چھوڑ دے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی کمزوری کا سامان کر رہا ہے۔
(۲)خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے روز خدا کے کچھ بندے ایسے ہوں گے جو نہ نبی ہوں گے نہ شہداء، مگر اللہ کی نگاہ میں ان کی جو قدرومنزلت ہوگی اسے دیکھ کر انبیاء و شہداء بھی ان پر رشک کریں گے، صحابہ کرامؓ نے پوچھا: وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیںجو کسی رشتے ناطے یا کسی دنیوی تعلق کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی اور اس سے تعلق کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے۔
ایمان ایک مقناطیسی طاقت ہے، اگر انسان کے دل میں ایمان ہے تو وہ لازماً دوسرے کی طرف کھینچتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح ہدایت ہے کہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائو، ایک دوسرے سے بغض وکینہ نہ رکھا کرو، آپس میں بے تعلق اور منھ پھیر کر نہ رہو، سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہو بھائی بھائی بن کر رہو اور مسلمان اپنے بھائی پرظلم نہیں کرتا ، نہ اسے ذلیل وحقیرسمجھتا ہے اور نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے، دیکھو! تقویٰ کی جگہ یہ ہے ، آپؐ نے اپنے سینۂ اطہر کی طرف اشارہ کرکے تین بار یہ بات فرمائی۔ پھر فرمایا: ’’آدمی کے برا ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان کا خون ، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے حرام۔ (ترمذی ۱۹۲۷،مسلم ۶۵۴۱)
ان نبویؐ ہدایات پر عمل کرکے کیا مسلک کی دوریاں باقی رہ سکتی ہیں، کیا ایمانی اخوت میں جغرافیہ رکاوٹ بن سکتا ہے، کیا ذات وبرادری کی تفریق باقی رہ سکتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ سب مسلمان ہوں گے اور ایک ہوں گے۔
اسلامی اخوت کی حفاظت ،نماز روزے سے بڑھ کر ہے
بعض روایات سے تو یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ ایمانی اخوات و محبت اور اس کی بقاء و تحفظ نماز اور روزے سے بھی بڑھ کر ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو روزوں اور صدقہ وخیرات اور نماز سے بھی افضل ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، (ایسی بات تو ضرور ارشاد فرمائیے) آپؐ نے فرمایا: وہ عمل باہمی تعلقات کی اصلاح ہے، (اصلاح باہم ہے) تعلقات کا فساد ، صفایا کردینے والی چیز ہے۔ (ترمذی قیامہ، ۲۵۰۹۔ ابوداؤد، ادب ۴۹۱۹)
حضرت زبیرؓ کی روایت میں مزید صراحت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تمہارے اندر گزشتہ قوموں جیسی بیماری درآئی ہے، حسد اورباہمی عداوت و دشمنی صفایا کردینے والی چیز ہے، میں بالوں کے صفایا کردینے کی بات نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ دین کا صفایا کردیتی ہے‘‘۔ (ترمذی، قیامہ ۲۵۰۹،مسند احمد بن حنبل ۱/ ۱۶۵)
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابی الدرداء ؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’ألااُخیرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصدقۃ والصلوٰۃ؟ قال، قلنا: بلیٰ، قال : اصلاح ذات البین، وفسادذات البین ہی الحالقۃ‘‘، وعن الزبیرؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’دب الیکم داء الأمم قبلکم الحسد والبغضاء ہی الحالقۃ، لا اقوال: تحلق الشعر ولکن تحلق الدین‘‘۔
کون صاحب ایمان نہیں جانتا کہ نمازو روزہ اسلام کے رکن رکین ہیں مگر رسول اسلامؐ نے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی درستگی کو ان بنیادی ارکان اسلام سے بھی افضل قرار دیا اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ باہمی بگاڑ و اختلاف، پورے بناء دین کو اکھاڑ دینے والی چیز ہے، آپس کی نفرت و عداوت اور بغض وکینہ دین اور تقاضائے دین پر غالب آکر مسلم امت کی ایک ایک چیز پر قبضہ جما لیتے ہیں۔
اصلاح باہم کی اس سے بڑھ کر اور کیااہمیت ہوسکتی ہے کہ اس کی خاطر خدا کے رسولؐ نے نماز جیسی عبادت میں تاخیر گوارا فرمائی۔
روایتوں میں آتا ہے کہ ایک موقع پر قبیلہ عمرو بن عوف میں جھگڑا ہوگیا، آپؐ اپنے چند اصحاب کے ساتھ تشریف لے گئے، معاملے کو رفع دفع کرنے میں تاخیر ہوگئی کہ نماز (عصر) کا وقت ہوگیا۔ مؤذن رسولؐ حضر ت بلال ؓ ،صدیق اکبرؓ کے پاس آئے اور کہاکہ آنحضور ﷺ کو دیر ہوگئی ہے، نماز کا وقت ہوچکا ہے، کیوں نہ آپؓ نماز پڑھا دیں، حضرت صدیق اکبر ؓ تیار ہوگئے چنانچہ حضرت بلالؓ نے اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبرؓ آگے بڑھ گئے۔ تکبیر کہتے ہی آپؐ تشریف لے آئے اور صف میں کھڑے ہوگئے۔ لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو آپؐ کی آمد کی اطلاع دینے کے لئے تالیاں بجانے لگے، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جیسے ہی محسوس کیا کہ آپؐ تشریف لاچکے ہیں تو آپؐ کے اشارہ کرنے کے باوجود الحمدللہ کہتے ہوئے پیچھے آکر صف میں شامل ہوگئے اور آنحضرتؐ آگے بڑھ کر صف میں شامل ہوگئے اور آنحضرتؐ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ کی طرف توجہ کی اور فرمایا: ابوبکر جب میں نے اشارہ کیا تھا تو تم نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے،صدیق اکبرؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ اللہ کے رسول ؐ کے ہوتے ہوئے وہ لوگوں کی امامت کرے۔
پورے واقعے کو غور سے دیکھنے سے لگتا ہے کہ آپؐ کو معمولی تاخیر نہیں ہوئی تھی کہ صحابہ کرامؓ بے چین ہوگئے بلکہ غیرمعمولی تاخیر ہوئی ہوگی، وہ شخص جو منع کرنے کے باوجود مصلیٰ سے پیچھے ہٹ گیا، تھوڑی بہت تاخیر کی وجہ سے مصلیٔ رسولؐ پر کھڑا نہیں ہوسکتا، مطلب یہ ہے کہ آپؐ کی نگاہ میں باہمی نزاع اور اصلاح ذات بین کی اس قدر اہمیت تھی کہ اس کے مقابلے میں نماز میں تاخیر گوارہ کرلی۔
قرآنی ہدایت اور ایمانی بصیرت تھی کہ ایک موقع پر اوس اور خزرج جن کی دشمنیاں مشہور ہیں، ایمان لانے کے بعد جب ایمان کی حرارت نے ان کے دلوں کو پگھلاکرایک دوسرے سے جوڑ دیا، ایک دن دونوں قبیلوں کے لوگ ایک جگہ بیٹھے تھے کہ خزرج کے ایک آدمی نے ایک شعر پڑھا جس میں اوس کی ہجو تھی، پلٹ کر اس نے بھی خزرج کی ہجو میں شعر پڑھا، بڑھتے بڑھتے سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ تلواریں نکل آئیں، آپؐ کو جیسے ہی خبر ہوئی فوراً وہاں پہنچے اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں:
یا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ۔ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعاً وَّلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہٖ إِخْوَاناً وَّکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰ یَاتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون۔ (آل عمران:۱۰۲۔۱۰۳)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو، اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ مل کر پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو، یاد کرو اللہ کے انعام کو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت/ فضل سے بھائی بھائی ہوگئے ، تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ تم کواپنی نشانیا ں بتاتا ہے تاکہ تم ہدایت پر رہو‘‘۔
زبان مبارک سے یہ آیات سنتے ہی انھوں نے تلواریں زمین پر پھینک دیں اور باہم گلے مل کر خوب روئے۔ روایت میں ہے کہ انہیں اپنے ہتھیاروں سے وحشت ہوگئی اور پھینک دیئے۔ (فوحشوا بأسلحتہم عزموابھا) (المعجم الأوسط، طبرانی ۱/۲۱۶)
قرآن پاک اور نبی رحمتؐ نے بنائے امت کو جن بنیادوں پر استوار کیا تھا ان کی رو سے علاقائیت، قومیت، برادریاں تمام رشتے تحلیل ہوکر ’’ان ھٰذہٖ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘ کی ناقابل تسخیر وحدت میں ضم ہوگئے اور لازوال ہوگئے۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ لفظ ’’اُمت‘‘ جس طرح کسی قوم اور جماعت کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح ایک طریقہ وروش کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے گویا جب بہت سے افراد مل کر ایک قوم ہوجائیں تو ان سب کے طور طریق اور روش بھی ایک ہونا چاہئے۔ مگر امت کی بدقسمتی ہے کہ اپنے ان فانوسوں کو ریزہ ریزہ کرکے او راپنی ان روشن قندیلوں کو گل کرکے دشمن کے مدھم اور ٹمٹماتے ہوئے دلوں کو روشن کر رہی ہے اور اپنی بربادی کا سامان کر رہی ہے۔ اللہم اھد قومی فانہم لایعلمون۔
دلوں کا ٹکراؤ شیطان کا مرغوب ترین مشغلہ ہے
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان سمندر کے اوپر اپنا دربار لگاتا ہے اور ہر طرف اپنے وفود روانہ کرتا ہے جو انسانوں کو فتنوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ پس اس کا سب سے قریبی وچہیتا وہ قرار پاتا ہے جس کا فتنہ سب سے بڑا ہوتا ہے، ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ آج میں نے یہ یہ کیا، وہ کہتا ہے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا، دوسرا کہتا ہے کہ میں نے فلاں کا پیچھا اس وقت تک کیا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان پھوٹ ڈلوا دی، وہ اسے قریب کرتا ہے اور سینے سے لگالیتا ہے اور کہتا ہے: شاباش، تیرا کیا کہنا، دوسری روایت میں یہ صراحت بھی مذکور ہے کہ شیطان اس بات سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ نماز پڑھنے والی امت، اللہ کی بندگی چھوڑکر اس کی پرستش کرنے لگے، ہاں، وہ اسے لڑانے بھڑانے کے سلسلے میں ضرور پرامید ہے۔
شیطان کے اسی پھندے سے بچنے کی خاطر اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم دی کہ جب بھی آپس میں تلخی اور سخت کلامی کی نوبت آئے، چاہئے کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر خاموش ہوجائے، پانی پی لے، بیٹھ جائے اور وہاں سے ہٹ جائے وغیرہ۔
ایک موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تین باتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک شدنی ہے:(۱) کوئی بندہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی اس پر ظلم کرے اور وہ اللہ کے لئے معاف کردے اوراللہ تعالیٰ غیب سے اس کی مدد کے اسباب فراہم نہ کرے۔ (۲) کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندہ نے اللہ کے لئے خرچ کیا ہو جس سے اس کا مقصد بندوں کے حقوق ادا کرنا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے خیروبرکت میں اضافہ نہ کیا ہو۔ (۳) اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے مخلوق سے سوال کیا ہو جس سے اس کا مقصد اپنی ضرورت کی تکمیل ہو اور اللہ نے اس کے حق میں کمی و بے برکتی نہ لکھ دی ہو۔ (الترغیب والترہیب ۱/۵۸۱)
بغض وکینہ سے اجتناب کیجئے
دین اسلام نے دلوں سے تمام مسلکی، جماعتی، علاقائی ، نسبی غرض ہر طرح کے تعصب کو ختم کرنے کا مکمل اہتمام کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جاہلی عصبیت اور بغض و حسد، اللہ کی مغفرت کے حصول میں بھی رکاوٹ ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں ان سے ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک دن یہ لوگ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آپؐ نے فرمایا: ابھی تمہارے درمیان ایک جنتی آنے والا ہے، اتنے میں ایک انصاری صحابی آئے جن کی داڑھی بھیگی ہوئی تھی، ہاتھ میں چپل تھی، وہ آئے اور کچھ دیر کے بعد (غالباً نماز پڑھ کر) چلے گئے۔
دوسرے دن پھر آپؐ نے وہی بات ارشاد فرمائی اور پھر وہی انصاری آئے اور گئے تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا، جب مجلس نبویؐ برخاست ہوگئی تو عبداللہ ابن عمرؓ ان کے پیچھے پیچھے گئے اوران سے مہمان بننے کی درخواست کی، چنانچہ وہ ان کے یہاں تین دن تک ٹھہرے رہے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے رہے کہ آخر کس وجہ سے اللہ کے رسولؐ نے ان کو جنتی بتایا تھا۔ تلاش کے باوجود انہیں ان کی زندگی میں کوئی ایسا عمل نظر نہیں آیا۔ جب واپس ہونے لگے تو ان انصاری صحابی ؓ نے بلایا اور کہا کہ جو کچھ تم نے دیکھا ہے میں ویسا ہی ہوں، البتہ میں کسی مسلمان کے تئیں اپنے دل میں کوئی کینہ، تعصب اور کدورت نہیں رکھتا اور نہ کسی سے جلتا ہوں، یہ سن کر ابن عمرؓ نے کہا کہ اس چیز نے تم کو اس مقام بلند تک پہنچایا ہے۔
یزار و ابن عساکر وغیرہ نے ان صحابی کا نام حضرت محمد بن ابی وقاصؓ بتایا ہے ۔ یہ وہ جلیل القدر صحابی رسولؐ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں یعنی ان صحابہ کرامؓ میں سے ہیں جن کے جنتی ہونے کی بشارت سیدالمرسلین ورحمت للعالمین ؐ کی زبان مبارک سے دنیا ہی میں سنا دی گئی تھی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام میں باہمی اخوت و محبت کی کس قدر اہمیت ہے وہ چیزیں جو اس مقدس رشتۂ ایمانی کی راہ میں حائل ہوسکتی ہیں ، اسلام نے ان پر کیسی قدغنیں لگائی ہیں اور مسلم معاشرے سے کس طرح ان چیزوں کو ختم کرنے کی سعی مشکور کی ہے ان روشن ہدایات و تعلیمات کی روشنی میں امت اپنا جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں کتنی مخلص ہے ، ایک طرف ہادیٔ اعظمؐ کے پیش کردہ یہ اصول اور دوسری طرف ہمارا طرز فکر وعمل— پھر بھی ہمیں فخر ہے ؎ کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں۔
اللہ ہمیں توفیق دے۔ آمین!
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2013