’ فقہ‘احکام شرعیہ کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی عملاً پابندی کرنا مسلمان پر لازم ہے۔ یہ احکام انفرادی اور اجتماعی معاملات پر مشتمل ہوتے ہیں، ان کی قسمیں درج ذیل ہیں:
۱-عبادات: وہ احکام جو نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ سے متعلق ہیں
۲-احوال شخصیہ: وہ احکام جو ایک خاندان ﴿ابتدا سے آخری شکل تک﴾ سے متعلق ہیں
۳-معاملات: وہ احکام جو عوام کے آپسی امور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسے حقوق، عقود
﴿سمجھوتا﴾ وغیرہ۔
۴-احکام سلطانیہ: وہ احکام جوایک حکومت کے اس کے عوام ﴿کے نظم و ضبط﴾ سے متعلق ہیں۔
۵-احکام امن و جنگ: وہ احکام جو حکومت اسلامی کے دیگر ملکوںاور قوموں کے مابین تعلقات پر مبنی ہیں۔
احکام کی جامعیت اور اس کا تمام ہی موضوع پر محیط ہونا اس پر دلالت کرتاہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر گوشے ﴿دین و دنیا﴾ کی بھلائی کے لیے مشعل راہ ہے۔
احکام شرعیہ کے ماخذ
امت مسلمہ کااس بات پر اجماع ہے کہ تمام مسلمانوں کے لیے شرعی احکام کی معرفت کابنیادی مرجع اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ ہے۔ اجماع، قیاس، استحسان، مصالح مرسلہ، عرف۔ جیسے مصادر بھی قرآن وسنت ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنابجاہے کہ ‘قرآن و سنت ہی مسلمانوں کے لیے اسلامی احکام جاننے کے اصل مصادر ہیں۔’
احکام شرعیہ کی دو قسمیں ہیں:۱-قطعی، ۲-ظنی
قطعی: وہ احکام ہیں،جن واضح کے دلائل قرآن و سنت میں موجود ہیں، جیسے:
نماز ،روزے ،زکاۃ اورحج کی فرضیت، سود ، زنا اورشراب کی حرمت اوراسی طرح نیت کااعتبار۔
قطعی احکام شرعیہ کے سلسلے میںعلمائ، مسالک اور عامۃ الناس کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ظنی: ظنی احکام دو قسم کے ہیں: وہ احکام جن کے ظنی دلائل قرآن وسنت میں موجود ہیں اوروہ احکام جنھیں فقہائ کرام نے اجتہاد کے ذریعے دیگر مصادر شرعیہ سے استنباط کیاہے۔
پہلی قسم
وضو میں سر کے مسح کی واجبی مقدار، امام مالکؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک پورے سرکا مسح ہے، جب کہ امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بعض حصے کا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آیت کریمہ ﴿وامسحوا بروئوسکم﴾ میں ‘ب’ کے مختلف معنی مراد لیے جاسکتے ہیں اور اس کے ایک قطعی مفہوم کی تعیین نہیں کی جاسکتی۔ ایسے ہی سفر کی وہ مسافت جب نماز کاقصر کرنااور روزہ نہ رکھنا مباح ہوجاتاہے۔ مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک چار بُرد ﴿تقریباً ۹۰ کلومیٹر﴾ ہے، جس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ چار برد پر نماز قصر کرتے اورروزہ نہ رکھتے تھے۔ جب کہ احناف کے نزدیک یہ مقدار تین دن کی مسافت ﴿تقریباً ۲۸-۵۸کلومیٹر ﴾ ہے۔ اس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ کسی مومنہ مسلمہ کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن کی مسافت کا سفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ یہاں پریہ واضح ہے کہ دونوں حدیثوں سے استدلال ظنی ہے۔
دوسری قسم
اس گم شدہ شوہرکامسئلہ جس کے بارے میں علم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرچکاہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعیؒ کے مطابق اس کی بیوی انتظار کرے گی، یہاں تک کہ شہر میں اس کے شوہر کے عمر کے تمام لوگ وفات پاجائیں، پس شوہر کی موت کابھی گمان غالب ہوجائے۔ اس وقت قاضی اس کی شادی کے فسخ کا فیصلہ کرے گا اور اس کے لیے نکاح ثانی حلال ہوجائے گا۔ امام مالکؒ کے نزدیک مفقود اور اس کی بیوی کے درمیان نکاح فسخ کردیاجائے گا، اگر بیوی گم شدگی کے چار سال بعد اس کا مطالبہ کرے اور یہ حالت امن کی صورت میں ہے، جب کہ حالت جنگ میں ایک سال کے بعد۔ اس کے دلائل میں بیوی کی مصلحت کاخیال، اسے نقصان سے بچانا اور ان مفاسد کو روکنا ہے جو اسے معلق رکھنے کی صورت میں پیدا ہوسکتے ہیں اور یہ دلیل اجتہاد ی اور ظنی ہے۔
آپﷺ کی حیات مبارکہ میں مسلمانوں کے لیے احکام شرعیہ کی معرفت کا ذریعہ براہ راست آپﷺ کی ذات مطہرہ ہی تھی اور یہ احکام قرآن کریم اور سنت ﴿آپﷺ کے قول و فعل و تقریر یعنی امرو نہی﴾ سے ماخوذ ہوتے۔ آپﷺ کاحکم قطعی اورحکم الٰہی کے درجے میں ہے۔آپﷺ کی وفات اور اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ جب اسلام نئے معاشرے اور علاقے میں پہنچاتو وہاں نئے مسائل پیش آنا شروع ہوئے،جو آپﷺ کے زمانے میں واقع نہیں ہوئے تھے اور نہ اس سے متعلق کسی وحی کانزول ہواتھا اور اس سلسلے میں حکم شرعی کی واقفیت عوام کے لیے لازمی تھی۔ ہر صحابی کو تمام سنتوں اوراحادیث کاعلم نہ تھا۔ کیوں کہ آپﷺ جب کوئی بات بتاتے یا کوئی حکم دیتے یا پھر کسی مسئلے کی موافقت کرتے تو ایسا چند ہی صحابہ کرامؓ کے سامنے ہوتا تھا۔قرآن کریم کی طرح ابھی تمام احادیث کو جمع نہیں کیاجاسکاتھاکہ سب ان سے واقف ہوجائیں۔ چنانچہ بعض صحابہ کرامؓ ایسے مسائل میں اجتہاد کرتے جن میں انھیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث معلوم نہ ہوتی، جب کہ بعض دوسرے صحابہ کرام کو اس کے متعلق حکم شرعی معلوم ہوتا۔ مزید برآں صحابہ کرامؓ خاص طور پر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعدکیفیت کے اعتبار سے فقہ سے استفادے کی دو مختلف مدارس کے ظہور کی راہیں ہموار ہوئیں۔
حجازمیں مدرسۃ الحدیث
وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی اکثریت احادیث کا اتباع کرتی تھی۔ اس لیے کہ حجاز کے اسلام کا پہلامرکز ہونے کے سبب وہاں کے رہنے والے ہر ایک شخص کو احادیث کا کچھ علم تھا۔ اس لیے بھی کہ ان کے معاشرے اور مسائل میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔
کوفہ میں مدرسۃ الرائے
کوفہ کامعاشرہ نیا اور حجاز سے مختلف تھا۔ یہاں آئے دن نئے نئے مسائل پیدا ہوتے تھے، جن کے متعلق احادیث معلوم نہ تھیں۔ اس لیے احکام شرعیہ کے سلسلے میں یہاں اجتہاد اور رائے سے کام لیاگیا۔
ابتدا میں ان فکری مدرسوں کے درمیان دوری تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں قربت بڑھتی گئی۔ خاص طورپرجب احادیث کی کتابیں مدون ہوگئیں اور علمائے کرام نے صحیح، ضعیف، مکذوب احادیث کو انتہائی محنت و مشقت کرکے الگ الگ کیا۔ اب رائے اور اجتہاد کی صرف ایک ہی صورت رہ گئی تھی کہ اس کے متعلق کوئی نص موجود نہ ہو۔ البتہ بذات خود نص کے مفہوم کی تحدید میںاجتہاد کرنا دونوں ہی مدرسوں کامعمول تھا۔ اس مرحلے تک پہنچنے پہنچتے فقہ ایک ضخیم صورت اختیار کرکے ایک مستقل علم ہوگیا اور بڑے بڑے علماے کرام پیدا ہوئے، جن میں درج ذیل چار ائمہ کافی مشہور ہیں:
۱- ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ ﴿۸۰-١۵۰ھ﴾ آپ فارسی الاصل تھے۔ بڑے بڑے اہل فکران کے گرد جمع ہوئے، انھوںنے ‘استحسان’ کی فکر دی اور اسے مصادر شرعیہ میں معتبر سمجھا، حنفی مسلک انھی کی طرف منسوب ہے۔
۲- مالک بن انس الاصحبیؒ ﴿۹۳-١۷۹ھ﴾ یہ اہل مدینہ کے امام تھے، اپنی فقہ میں حدیث اور رائے دونوں کو جمع کرتے تھے،مالکی مسلک انھی کی طرف منسوب ہے۔
۳- محمدبن ادریس شافعی قرشیؒ ﴿١۵۰-۲۰۴ھ﴾ان کامسلک اہل حدیث سے قریب تر ہے۔حالاںکہ انھوں نے امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کے متبعین سے استفادہ کیا۔ شافعی مسلک انھی کی طرف منسوب ہے۔
۴- احمد بن حنبل شیبانی ﴿۴۶۱-۱۴۲ھ﴾ یہ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ ان کا مسلکِ حنبلی بھی اہل حدیث سے قریب تر ہے۔
خلافت عثمانیہ کے زوال سے دورحاضر تک
اس دور میں بالخصوص دو قسم کے فقہی نظریات کے درمیان اختلافات ظاہر ہوئے۔ ﴿۱﴾ مدرسہ فقہیہ ﴿۲﴾مدرسہ سلفیہ… مدرسہ فقہیہ ائمہ اربعہ کافقہی مدرسہ ہے۔ اس میں اجتہاد کا دروازہ بند ہے۔ ہر مسلمان پر کسی ایک مسلک کا اتباع لازمی ہے۔ جب کہ مدرسہ سلفیہ ان افراد کامسلک ہے جو براہ راست قرآن و سنت کی طرف رجوع کے قائل ہیں اور مسلمانوں کو فروعی وفقہی مسائل میں تقلید سے منع کرتے ہیں۔ تحقیق و اجتہاد اور نصوص شرعیہ سے براہ راست استفادے کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اس دور سے پہلے بھی ان دونوں فقہی نظریاتی گروہ کے درمیان رسہ کشی تھی، لیکن اس دور میں اس میں مزید اضافہ ہوا۔ اہل علم اور طلبہ علم ﴿حتی کی عوام﴾ کے درمیان یہ اختلاف بحث و مباحثے کاایک اہم موضوع بن گیا۔ پھر ہر ایک گروہ کے مؤیدین و انصار نے اپنی آرائ و اقوال کی تائید کے لیے کتابیں اور مقالات ترتیب دیے۔ بالآخر آپسی بحث ومباحثے کا ایک مثبت اثر یہ ہواکہ دونوں جماعت کے مؤیدین تعصب سے بازآئے اور بہت کم مسائل میں اختلاف رہ گئے۔ قریب تھا کہ یہ اختلافات بالکل ہی ختم ہوجاتے اگر دونوں ہی جماعتوں میںایسے چند متعصبین نہ ہوتے جو اپنی آرائ اور متعصب مواقف پر اڑجاتے ہیں، جس کے سبب مقابل گروہ جواباً ردعمل کرتاہے۔ ہم یہاں چند ایسے شرعی قواعد کی تحدید کی کوشش کریںگے جن پر دونوں گروہ تعصب کو بالاے طاق رکھ کر باہم یک رائے ہوسکیں۔
پہلا قاعدہ: تقلید کی مشروعیت
تقلید کے معنی کسی عالم دین کے قول کا اتباع بغیر اس کی صحت کی دلیل کی معرفت کے ہیں۔ فقہ کے فروعی مسائل میں عامۃ المسلمین کے لیے اس کی مشروعیت درج ذیل دلائل کی بنیاد پر ثابت ہے۔
۱- قول باری تعالیٰ… ﴿النحل:۴۳﴾ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو حکم دیاہے جو شرعی احکام کی معرفت نہیں رکھتے ہیں کہ وہ اہل علم سے معلوم کریں اور امر کا کم سے کم حکم ‘مباح ہونا’ ہوتاہے۔ اس طرح ایک عام شخص کے لیے علمائ سے پوچھنا اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔
۲- قول باری تعالیٰ…﴿توبہ:١۲۲﴾ اس آیت میں صراحت ہے کہ تمام مسلمانوں کے لیے فقہ کاعلم حاصل کرنا ممکن نہیں، بل کہ اس کے لیے ایک جماعت خود کو فارغ کرے، پھر یہ جماعت اپنی قوم کو اسے سکھائے، اگر تمام مسلمانوں کے لیے تفقہ فی الدین ممکن یا مطلوب ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کی نفی نہیں فرماتے۔
۳- صحابہ کرام ﴿رضوان اللہ علیہم اجمعین﴾ کاعمل اور وہ خیر قرون ہیں: ان کے درمیان چند فقہائ تھے اور باقی صحابہ مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے اور ان کے فتاویٰ کو قبول کرتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقیہ اور قاری صحابہ کرامؓ کو دوسرے قبائل میں بھیجتے جو انھیں اسلام اور قرآن کی تعلیم دیتے اور وہ ان سے بغیر دلیل پوچھے اسے سیکھتے اور اس پر عمل کرتے۔ صحابہ کرامؓ کااس پر اجماع ہے کہ ایک عام شخص کسی مجتہد کا اتباع کرسکتا ہے۔
۴- ایک عام مسلمان جو کسب معاش میں مشغول ہے، بل کہ ایک انجینئر، ڈاکٹر یا اور کوئی؟ جب اس کے سامنے کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہوتو وہ کیاکرے؟ کیا ہم اس سے مطالبہ کریںگے کہ وہ تفاسیر اور احادیث کی کتابوںکی طرف رجوع کرے اور مسئلے کے متعلق کوئی نص تلاش کرے اور اگر وہ کوئی نص پاتاہے تو زبان سیکھے تاکہ وہ اسے سمجھ سکے۔ پھر اگر کئی نصوص ہیں تو ان میں سے راجح کی تحقیق کرے اور یہ ساری تگ و دو وسیع مطالعے اور ناسخ و منسوخ کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی نص نہیں پاتاتو اجتہاد کرے اور جب تک اس کے پاس اجتہاد کی صلاحیت اور ملکہ نہ ہو وہ نہیںکرسکتا۔ ہم اجتہاد کے لیے کتنی ہی نرمی کارویہ اختیار کریں اور اس کے لیے کم از کم شرطیں نافذ کریں پھر بھی عوام کی اکثریت اجتہاد نہیں کرسکتی اور یہ چیز عملی مشاہدے سے ثابت ہے۔ اس سے انکار سوائے سخت متعصبین کے کوئی نہیں کرسکتا۔ پھر شرعی ضوابط اور مطلوب علم و صلاحیت کے بغیر اجتہاد کرنے کی اجازت دینا اس سے بہت زیادہ خطرناک ہے کہ عوام مسائل میں ان علمائ کی طرف رجوع کریں جو مسائل واحکام کے بحث واستنباط میں مشغول ہیں۔ یہ بہ ہر حال ایک عملی اور عقلی منطق ہے۔
۵- یہ بات جگ ظاہر ہے کہ مدرسہ سلفیہ کے علمائ کی بھی بہت سارے مسائل میں مختلف آرائ ہیں، خواہ یہ اختلاف تفسیر میں ہو یا حدیث کی صحت یا احکام کے استنباط میں ۔ اسی طرح ہر عالم دین کے کچھ متبعین ہیں جوان کی آرائ کا اتباع کرتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ یہ تقلید نہیں اتباع ہے کیونکہ اتباع کرنے والے نے دلیل کو جان لیاہے اور وہ اس پر مطمئن ہے۔ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیوں ایک عالم دین دوسرے عالم دین کے دلائل نہ جان سکے اور اس پر مطمئن نہ ہوئے؟ اور کیا ایک طالب علم یا عامی شخص کا کسی عالم دین کی دلیل پر مطمئن ہوجانا معتبر قرار پائے گا۔ جب کہ اسی دلیل پر ایک دوسرا عالم دین مطمئن نہ ہوسکا۔ پھر آخر ان دونوں اتباع میں فرق کیا رہ گیا، ایک وہ اتباع جو کسی ایسی دلیل پر قناعت کے بعد کیاجائے جس کی صحیح بنیاد نہ ہو ، دوسرا وہ اتباع جو ایک مقلد بغیر دلیل پوچھے کرے کیونکہ وہ سمجھتاہے کہ اس کے اندر دلیل کے درجہ قبول و انکار کو پرکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تقلید کی مشروعیت اور اس کے جواز پر اجماع قرون اولیٰ سے ثابت ہے، گرچہ مدرسہ سلفیہ کے بعض متعصبین اس کو نہیں مانتے ہیں، لیکن وہ کسی دوسری شکل میں اس کااقرار کرتے ہیں اور ان کامعارضہ بہت ساری مباح چیزوں پر بندش لگانے کے سوا کچھ نہیں۔
دوسرا قاعدہ: تقلید واجب نہیں
مذہبی تعصب کے زیراثر ایک عام غلطی یہ ہوئی کہ مسلمانوں کو مقلد اور غیرمقلد ناموں کے دوخانوں میں تقسیم کردیا گیا اورپھر اجتہاد کے دروازے کو بند کردیاگیا، عوام تو کیا علمائ اور طلبا بھی مقلد ہوگئے۔ بحث و تحقیق اور مناقشے کامحرک ختم یا پھر انتہائی ضعیف ہوگیا۔ پھر علمائ کی ساری جدوجہد اپنے مسلک کی آرائ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے صرف ہونے لگی خواہ اس کے لیے انتہائی کمزور دلائل کا سہارا لینا پڑے۔ کیونکہ ‘مقلد’ رہتے ہوئے وہ اپنے مذہب کی مخالفت نہیں کرسکتے۔
تیسرا قاعدہ: تقلید صرف مسالک اربعہ کے لیے خاص نہیں
مسلکی تعصب کے زیراثر یہ عام رجحان ہواکہ تقلید کو صرف ائمہ اربعہ کے مسالک تک محدود کردیاگیا۔ جب کہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو ان کے علاوہ کی تقلید سے منع کرتی ہو۔ دراصل ان مسالک کی خوش بختی ہے کہ انھیں ایسے افراد ملے جنھوںنے انھیں مدون کیا، اس کی تشریح کی، چنانچہ یہ عوام کے سامنے مرتب و مبّوب صورت میں آیا، مزید یہ کہ ان مسالک کی تعلیم دینے والے علماء موجود رہے، جن سے اس بات کی تاکید اور اطمینان ہوجاتاکہ مسئلہ یارائے جس امام یا مسلک کی طرف منسوب کی جارہی ہے، یہ انتساب درست ہے۔ جب کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کی طرف منسوب آرائ و مسالک کے لیے مشکل درپیش تھی اور یہ پتا نہ تھاکہ ان کی نسبت کہاں تک صحیح ہے۔ اگرکسی کی طرف سے اطمیان بھی حاصل ہوا تو اس کے لیے کماحقہ اور مناسب کام نہ ہوا اور صاحب مسلک کے ایسے شاگرد نہ تھے جو ضرورت پڑنے پر اس کی تشریح کرتے۔
انھی علمی اور فنی اسباب کی بنا پر علمائ نے صرف مسالک اربعہ کی تقلید کی تاکیدکی، لیکن اب جب کہ تراث اسلام کی کتابوں کی طباعت ہوچکی ہے اور لوگ بسہولت ان سے استفادہ کرسکتے ہیں اور اکثر صحابہ کرامؓ ، تابعین عظامؒ اور دیگر ائمہ و مجتہدینؒ ﴿خواہ وہ ائمہ اربعہ سے پہلے، ان کے معاصر، یا بعد کے ہیں﴾ ان سب کی آرائ نشر ہوچکی ہیں۔ کسی رائے کااس سے منسوب شخص ہی کی ہونے پر تاکید ممکن ہے۔اب کسی ایک یا کئی مسائل میں ان کی تقلید کرنے سے کوئی مانع نہیں جب کہ ایک عالم دین ان حضرات کے دلائل کو ان مسالک سے زیادہ قوی پائے جن پر عمل کیاجارہاہے۔
چوتھا قاعدہ
مسلکی تعصب کی بنا پر جو غلط فہمیاں مسلمانوں میں عام ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تقلید کسی ایک ہی مسلک کی کی جائے اور کسی ایک مسلک سے دوسرے میں منتقل ہونا حرام ہے۔ اس کاردعمل یہ ظاہر ہواکہ ایک گروہ نے ایک مسلک کے التزام کو ہی حرام قرار دیا۔ ان دونوں انتہائوںکے پس پشت کوئی دلیل نہیں ہے۔
ایک مسلک کی تقلید کے التزام کو واجب قراردینا اور اس کے علاوہ د وسرے میںانتقال کو حرام گرداننا ﴿خواہ یہ عام شکل ہو یا کسی ایک مسئلے میں یا چند مسائل میں، خواہ یہ عمل کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں﴾ بہرحال اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، کیونکہ واجب وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے واجب قرار دیاہو اور انھوںنے ہمیں احکام شرعیہ کے اتباع کامکلف بنایا اور اس بات کی اجازت دی کہ اگر کسی مسئلے کو براہ راست قرآن وسنت سے معلوم نہ کرسکیںتواہل علم سے دریافت کریں، اس دریافت کرنے میں کسی ایک خاص کی تحدید نہیں کی ہے۔ صحابہ کرامؓ اپنے فقہائ سے مسائل دریافت کرتے اور انھیں اس کا جواب دیتے، لیکن کسی صحابیؓ نے فتویٰ پوچھنے والے سے یہ نہیں کہاکہ یہ مسئلہ یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا مسئلہ کسی دوسرے سے معلوم نہ کرے۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا یہی طرزعمل رہا، یہاں تک کہ ائمہ اربعہ کے زمانے میں بھی کسی امام نے اپنے شاگردوں کو دوسرے امام یا عالم دین کی رائے پر عمل کرنے سے منع نہیں کیا۔
اسی طرح یہ کہناکہ کسی ایک مسلک کا التزام حرام اور ایک طرح کا شر ہے، بغیر کسی دلیل کے ہے۔ کوئی بھی مسلم جب کسی عالم دین کے علم اور تقویٰ سے مطمئن ہوجائے اور وہ اسی سے فتوی پوچھناپسند کرے تو شریعت میں اس کی کہیں بھی ممانعت نہیں ہے۔ ہاں اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس التزام کو اپنے اوپر شرعاً واجب سمجھے، اسی طرح جب کبھی بھی وہ دوسرے مسلک سے منتقل ہونا چاہے اس کے لیے بھی شریعت میں کوئی مانع نہیں ہے۔
پانچواں قاعدہ:
ایک متبع جو شریعت میںگہری بصیرت رکھتاہو، اس کے لیے واجب ہے کہ مسائل کا بغورمطالعہ کرے، مختلف آرا اور ان کے مسائل کو پرکھے، پھر اس رائے کو اختیار جو قرآن وسنت سے قریب تر ہو، خواہ یہ رائے کسی بھی مسلک کی ہو۔ اسی طرح وہ ان جدید مسائل میں اجتہاد کرے جن میں پہلے کے علمائ کی کوئی رائے موجود نہ ہو۔ اس کے لیے کوئی مانع نہیں کہ کسی مسلک کا کسی مسئلے یا سارے مسائل میں اتباع کرتارہے۔ یہاں تک کہ وہ اس مسئلے میں غورو فکر کے بعد کسی رائے تک پہنچ جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔ ایک مسئلے میں قوی دلیل تک پہنچنے میں کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ کسی امام کی تقلیدکرتا رہے یہاں تک کہ قوی رائے تک رسائی حاصل کرلے۔ اس غورو فکر کے بعد اگر وہ اپنے ہی امام کی دلیل کو قوی پائے تو اس پر باقی رہے اور اگر کسی دوسرے امام کی رائے قوی ہے تو وہ اسے اختیار کرلے۔
چھٹا قاعدہ: تلفیق کاجواز
تلفیق کامفہوم یہ ہے کہ کسی مسئلے میں مختلف مسالک کی آرا کو قبول کیاجائے اور ایسی صورت ہوجائے کہ کہنامشکل ہوکہ یہ کس مسلک کے مطابق ہے۔ ذیل میں تلفیق کی کچھ مزید صورتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔
۱- ایک مسئلے میں کسی مسلک کا اتباع کرنا اور کسی دوسرے مسئلے میں دوسرے مسلک کو اختیارکرنا۔ دراں حالاں کہ دونوں مسئلے میں کوئی باہمی ربط نہ ہو۔ اسے ان علمائ کی اکثریت جائز قرار دیتی ہے جو ایک ہی مسلک کے التزام کو واجب نہیں سمجھتے اور ایک مسلک سے دوسرے میں انتقال کو جائز قرا ردیتے ہیں۔ مثلاً کسی نے نماز شافعی مسلک کے مطابق پڑھی اور زکوٰۃ حنفی مسلک کے مطابق ادا کی، یا روزہ مالکی مسلک کے مطابق رکھا۔
۲- کسی مسئلے میں ایک مسلک کی پیروی کرنا، پھر بعد میں اسی مسئلے میں دوسرے مسلک کی رائے کو اختیار کرلینا، مثلاً ظہر کی نماز ایک مسلک کے مطابق پڑھی اور عصر دوسرے مسلک کے مطابق۔ اسے بھی ان علمائ کی اکثریت جائز قرار دیتی ہے جو ایک مسلک کے التزام کو واجب قرار نہیں دیتے۔
۳- تلفیق کی وہ صورت جس کے جوازاور عدم جواز میں اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ ایک ہی مسئلے ﴿عمل﴾ میں تلفیق کی جائے۔ جیسے کسی نے وضو کیااور شافعی مسلک کی تقلید کرتے ہوئے سر کے کچھ حصے کامسح کیا، پھر عورت کو چھوا اور اپنے وضو کو حنفی اور مالکی مسلک کے اعتبار سے برقرار سمجھا۔ پھر نمازادا کی۔ علماے متاخرین اس تلفیق کو ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کے بقول یہ وضو امام شافعیؒ کے نزدیک درست نہیں ہوا۔ کیونکہ ان کے نزدیک عورت کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتاہے اور امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک درست نہیں، کیونکہ اس نے چوتھائی سرکا مسح نہیں کیا اور امام مالکؒ کے یہاں صحیح نہیں، کیونکہ اس نے پورے سرکا مسح نہیں کیا۔ پس یہاں پر تلفیق کی ایسی کیفیت اختیارکرگئی کہ کہانہیں جاسکتاکہ یہ کون سا مسلک ہے چنانچہ یہ تلفیق جائز نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ہمارا خیال یہ ہے
الف:اگرتلفیق اس شخص کی جانب سے ہے جو احکام شریعت میں بصیرت رکھتاہے اور اس نے کسی دلیل سے مطمئن ہوکر ایسا کیاہے تو جائز ہے، کیونکہ اس کے لیے واجب یہی ہے کہ وہ اپنے سلسلے میں اجتہاد کرے اور میں سمجھتاہوں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوناچاہیے۔
ب: اگر تلفیق کسی عام شخص کی جانب سے ہوتو بھی جائز ہے۔ کیونکہ ایک عامی کا مسلک اس کے مفتی کا مسلک ہوتاہے اور عامی اس کا مکلف نہیں کہ مسالک کامطالعہ کرے اور ان کے اختلافات کی باریکیوں کا علم رکھے۔ اگر وہ ایسا کرسکتاتو پھر مقلد ہی کیوںہوتا۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ جب کسی مسئلے کے بارے میں دریافت کرتے تو اس کے سارے متعلقات نہ معلوم کرتے اور نہ انھیں بتانے والا اس کا مطالبہ کرتا کہ میرے بعد اب کسی سے اس کے متعلق دریافت نہ کرنا۔
ج: رہی وہ کیفیت جس کی مثال وضو سے دی گئی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ وضو شافعی مسلک کے مطابق درست ہے تو پھر شریعت میں معتبر ہے۔ کیونکہ شافعی مسلک الگ سے کوئی شریعت نہیں، بل کہ مسلمان کے لیے اللہ کی شریعت میں دخول ﴿شمولیت﴾ کادروازہ ہے۔ جب وہ اس سے داخل ہواتو وہ اللہ کی شریعت کے حدود میں ہے اور اس کا وضو درست ہوا۔ پھر جب اس نے مسلک احناف کی تقلید کرتے ہوئے عورت کو چھوا تو بھی اس کاوضو باقی رہا، کیونکہ مسلک حنفی کا ہونا گویا شریعت اسلامی کے مطابق ہونا ہے۔ کیونکہ مسلک حنفی شریعت کاہی ایک جز ہے نہ کہ اس کے برخلاف کوئی اور شے۔
د: صاحب بصیرت جو کسی دلیل پر مطمئن ہوکر تلفیق کرے، اس کے لیے اس کو جائز قرار دینا اور اسی چیزسے کسی عام شخص کو روک دینے کامطلب یہ ہواکہ ایک چیز ایک مسلم کے لیے حرام ہے جب کہ وہی دوسرے کے لیے حلال ہے۔ یہ بات اس شریعت کی روح کے برخلاف ہے، جس کے معروف خصائص میں سے اس کا سب کے لیے یکساں ہونا ہے۔ اس کی حلال کردہ اشیائ سب کے لیے حلال اور حرام کردہ سب کے لیے حرام ہیں۔
تلفیق کے جواز کا فتویٰ دینے والوں میں شیخ طرطوسی ، علامہ ابوسعود، علامہ ابن نجیم، علامہ ابن عرفہ مالکی، علامہ عدوی اور ان کے علاوہ دیگر حضرات بھی ہیں ﴿اصول الفقہ الاسلامی، الدکتور وہبہ الزحیلی﴾
اس بات کادھیان رہے کہ تلفیق صرف اجتہادی ظنی مسائل میں ہی ہے۔ قطعی مسائل میں تلفیق اور رخصت کی کوئی گنجایش نہیں۔پس اگر کوئی شخص تلفیق یا رخصت کے ذریعے کسی ممنوع چیز کو اختیار کرتاہے تو یہ حرام ہے جیسے اگرکوئی تلفیق کے ذریعے شراب یا زنایا ایسی ہی کسی قطعاً حرام کو مباح کرے تو یہ کسی طرح بھی حلال نہیں ہوسکتا۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2011