۱۹۹۶ء کی بات ہے کہ میرا سفر دہلی سے کانپور کا تھا اس سفر کے دوران میرے ساتھ دہلی ہی کے ایک بزرگ آدمی بھی تھے جن کا نام عظمت علی تھا۔ عمر ۷۶ سال کی تھی اور وہ کافی دیندار اور خاموش طبیعت کے مالک تھے، میں ان کے ساتھ پندرہ بیس دن تک رہا۔ میری بچپن سے ڈائری لکھنے کی عادت رہی ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ میں نے ان سے بعد نماز عشاء کہا کہ آج آپ کوئی ایسی نصیحت آموز بات بتائیے جسے میں آج کی تاریخ میں اپنی ڈائری میں لکھ دوں۔ تو انھوں نے اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے مجھے یہ دو نصیحت آموز اشعار پڑھ کر سنادیے:
دعائیں کیونکر قبول ہوں
کہ معصیت قفل در ہوئی
دعائیں کس منہ سے مانگیں ہم
کہ زبان ہی بے اثر ہوئی
اگرچہ یہ دو اشعار میں نے عظمت علی صاحب سے بیس سال پہلے سنے تھے مگر میرے لیے یہ اشعار اس دن کے مقابلے میں آج زیادہ غور طلب اور فکر انگیز ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ عظمت علی صاحب آج اس دنیا میں ہیں یا نہیں، لیکن میں ان کے لیے آخرت کے حوالے سے اللہ کی خوشنودی اور جنت الفردوس میں جگہ نصیب ہونے کی دعا ضرور کروں گا۔ اور اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دعائیہ کلمات کا ورد کرنے کی سعادت بھی حاصل کرنا چاہوں گا۔
اے اللہ، اسے بخش دے اس پر رحم فرما، اسے عافیت دے، اس سے درگزر فرما، اس کی باعزت مہمان نوازی کر، اس کی قبر کشادہ کردے … اسے جنت میں داخل فرما اور اسے عذاب قبر اور عذاب جہنم سے محفوظ رکھ۔ (مسلم)
اسلام میں دُعا کی بہت بڑی فضیلت واہمیت آئی ہے۔ لیکن عام طور پر لوگ دعا کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مساجد میں جہر کے ساتھ اجتماعی طور پر لمبی لمبی دعائیں ضرور پڑھی جاتی ہیں اور بڑے بڑے اجتماعوں اور جلسوں میں بھی کثرت دعا کی گونج سنائی دیتی ہے مگر قبولیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ دعا کے آداب کیا ہیں اور اس کی قبولیت کے شرائط کیا ہیں؟ ان باتوں کو جاننے سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ وہ صرف الفاظ کی رٹ لگانے کو دعا سمجھتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس طرح کی تمام دعائیں اللہ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل نہیں کرپاتی ہیں۔ اور بے اثر وبے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں۔
قرآن وحدیث کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اوربن مانگے بھی دیتا ہے جو اس کے احکام پر پابندی سے عمل کرتے ہیں اور اس کی آخری کتاب – قرآن – کو پڑھتے ہیں اور اس کی ایک ایک آیت پر غور وفکر کرتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کو دعا مانگنے کا موقع نہ بھی مل جائے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو دعا مانگنے والوں سے بھی زیادہ دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں انتہائی غور طلب حدیث اس طرح آئی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص قرآن میں اس قدر مشغول ہوجائے کہ وہ میری یاد کے لیے الگ سے وقت نہ نکال سکے اور مجھ سے اپنی حاجت نہ طلب کرسکے تو میںمانگنے والوں کو جتنا دیتا ہوں اس سے زیادہ اس کو دوں گا۔ نیز اللہ کے کلام کا درجہ دنیا کے تمام کلاموں کے مقابلے میں ایسے ہی بلند ہے جیسے کہ خود اللہ کا درجہ اس کی مخلوق کے مقابلے میں۔(ترمذی)
دین کی حقیقت اللہ کی یاد اور اس کے بندے کی طلب کا نام ہے۔ قرآن ان دو چیزوں کی طرف رہنمائی ہے۔ اصل میں سورہ فاتحہ بندئہ مومن کی دعا ہے۔ دنیا وآخرت کی کوئی طلب ایسی نہیں ہے جوایک بندئہ مومن اللہ سے طلب کرسکتا ہے اور قرآن میں اس کا ذکر نہ ہو، بلکہ وہ انسان کے جذبات واحساسات کا بہترین ترجمان ہے۔ جو آدمی خشوع وخضوع اور رقت آمیزی کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے تو وہ اس کے اندر اپنے جذبات واحساسات کی پوری تسکین پاتا ہے اور اس کا وجود سراپا دعا بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی خواہ اپنی کوئی ضرورت الگ سے طلب کرے یا نہ کرے، جب تک قرآن پڑھ رہا ہے اللہ کی رحمت اس کے سر پر سایہ فگن ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اسے بن مانگے اتنا دیتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتا۔ دعا کے لیے سب سے زیادہ موزوں الفاظ وہی ہیں جو قرآن میں آئے ہیں جیسا کہ ایک مرسل حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد آیا ہے۔
حضرت عطیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اللہ کے نزدیک اس کے اپنے کلام سے زیادہ باعظمت اور کوئی کلام نہیں، اس کے بندے جن الفاظ میں اپنے جذبات اس کے پاس بھیجتے ہیں ان میں سب سے زیادہ محبوب اس کو وہ الفاظ ہیں جو اس کے کلام میں ہیں۔(سنن الدارمی)
مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ باعظمت کلام اس کے اپنے کلام کے سوا کوئی نہیں، تو قرآن میں جتنی بھی دعائیں آئی ہیں وہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہیں۔ بہت سے پیغمبروں نے دعائیںمانگی ہیںمگر اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن میں اپنے الفاظ میں بیان فرمایاہے۔ اس لیے ان دعاؤں میں دنیا وآخرت کی تمام ضرورتیں اور بھلائیاں مذکورہ ہیں اور جو بھی کوئی بندہ مومن ان کے ذریعہ صدقِ دل سے مانگے گا، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کے بعد سب سے بہترین دعائیں وہ ہیں جو مستند کتب احادیث میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ اور اس طرح کی دعائیں بھی بلاشبہ الفاظ اور معانی کے اعتبار سے انتہائی جامع ہیںاور انسانی جذبات واحساسات کی بھر پور عکاسی اور ترجمانی کرتی ہیں۔
اسلام میں دُعا کو اصل عبادت بتایا گیا ہے لیکن اس کے کچھ آداب ہیں اور ان آداب کو جاننے کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ خاص طور پر ضروری ہے جو دعا کے موضوع پر لکھی گئی ہیں تاکہ ان آداب کو ملحوظ نظر رکھ کر دعا کی قبولیت یقینی بنائی جائے۔
یا رب، تیری رحمت سے مایوس نہیں فانی
لیکن تیری رحمت کی تاخیر میں حکمت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو پیدا فرمایا ہے لیکن تمام مخلوقات میں اشرف وافضل ہونے کا مقام صرف انسان کو بخشا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً۔ (بنی اسرائیل: ۷۰)
اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرفِ عزت وتکریم پیدائشی طور پر بخشا ہے۔ اسے نہ صرف اچھی شکل وصورت اور ساخت وپرداخت میں پیدا فرمایا ہے بلکہ اسے قوت گویائی، عقل وشعور اور علم ومعرفت سے بھی نوازا ہے۔ اور بحر وبر کا وارث بھی بنایا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کا وجود سب سے زیادہ محتاج واقع ہوا ہے۔ وہ سورج کی حرارت کا محتاج ہے، اسے چاند کے ذریعہ ہونی والی موسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہوا کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا، پانی نہ ہو تو پیاس اس کے لیے پیامِ اجل بن جائے۔ غذا اس کے لیے قوامِ حیات ہے۔ جنگلات اس کے لیے مناسب ماحول فراہم کرتے ہیں، بادل اپنی گود میں پانی بھر بھر کر نہ لائے تو کھیت بنجر بن جائیں۔ اور پانی کے سونتے خشک ہو کر رہ جائیں۔ مویشی اور چوپائے اس کے لیے بار برداری کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس کی غذائی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ انسان شبنم کے ایک قطرہ سے لیکر کائنات کی عظیم سے عظیم تر چیزوں کا محتاج ہے لیکن کائنات کے اس وسیع نظام کو کہیں انسان کی حاجت نہیں ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے انسان اور حیوان کے درمیان تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’انسان اور حیوان کا مقابلہ کرو۔ حیوان اپنی ضروریات کا سامان اپنے ساتھ لیکر پیدا ہوتا ہے۔ ان کا لباس ان کے ساتھ ہوتا ہے جو موسم کے اختلاف سے بدلتا رہتا ہے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے پنجے، ناخن، ڈنک کے ہتھیار اس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ جن غذاؤں پر اس کی زندگی کا مدار ہے پیدا ہونے کے ساتھ اُس کو ہر طرف جنگل ہو یا پہاڑ خشکی ہو یا دریا، ویرانہ ہو یا آبادی ہر جگہ مہیا ملتی ہیں۔
(لیکن)انسان کا یہ حال ہے کہ جب پیدا ہوتا ہے تو کسی قسم کا سامان اس کے پاس نہیں ہوتا۔ اس کی جلد نازک ہوتی ہے۔ ہاتھ پاؤں کمزور ہوتے ہیں جسم پر کوئی لباس نہیں ہوتا۔ دشمن سے حفاظت کے لیے سینگ یا پنجے نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ عالمِ فطرت کی جتنی چیزیں اس کے گرد وپیش ہوتی ہیں، سب کی سب (بظاہر) اس کی دشمن نظر آتی ہیں، آفتاب کی گرمی، بادلوں کی جھڑی، لوؤں کی لپٹ، جاڑوں کی ٹھنڈ، ہر چیز (گویا)چاہتی ہے کہ اس کو تباہ کردے۔
ان مصائب اورمشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے قدرت نے اس کو کوئی جسمانی ہتھیار نہیںدیا۔ کیونکہ جن بیشمار اور پُر زور دشمنوں کا اس کو سامنا کرنا تھا اس کے لیے کوئی جسمانی آلہ کافی نہیں ہوسکتا تھا، قدرت نے اس کو ان ہتھیاروں کے بدلے ایک ایسی عام قوت عطا کی جس کے ذریعہ سے اس نے ہر قسم کے لباس اور مکانات بنائے، جانوروں کے مقابلہ کے لیے تیغ وخنجر تیار کئے۔ دریاؤں پر پُل باندھے، پہاڑ تراشے، لوہا پگھلایا، برق کو مسخر کیا، ہوا کو تھاما، غرض تھوڑے عرصہ کے بعد دیکھا تو تمام کائنات اس کے پنجۂ اقتدار میں تھی۔
اس عام قوت کا نام عقل کلی یا عقل انسانی ہے۔ لیکن چونکہ قدرت کو منظور تھا کہ انسان کی ترقیاں بلند سے بلند نقط پر بھی پہنچ کر ٹھہرنے نہ پائیں اس لیے وہ (یعنی قدرت) ایک دم بھی انسان کو چین نہیں لینے دیتی۔ وہ اس کے مخالفوں کو نئے نئے ہتھیار دیتی جاتی ہے جس سے انسان پر نئے نئے طرح کے حملے کئے جاتے ہیں۔ جن بیماریوں کا علاج معلوم ہوچکا تھا ان کے علاوہ نئے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا کا جغرافیہ جس قدر معلوم ہوچکا تھا اس کے علاوہ نئی آبادیوں کا پتہ لگتا ہے اور وہاں نئے ضروریات پیش آتے ہیں، آرام وآسائش کے جو سامان مہیا ہوچکے تھے، راحت طلبی کا مادہ بڑھ کر وہ سامان بے کار ہوجاتے ہیں۔ مجبور انسان ان نئے مخالفوں کے مقابلہ کے لیے نئی تیاریاں کرتا ہے۔ اور ترقی کی جس حد تک پہنچ چکا تھا اس سے آگے نکل جاتا ہے۔ (الکلام، ص: ۱۶۔ ۱۷)
اس طرح اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف انسان کو سب سے افضل اور اشرف مخلوق بنایا ہے تو وہاں دوسری طرف اسے زندگی کے ہر قدم پر محتاج اور ضرورت مند بھی بنایا ہے ، اور اس سلسلہ میں اسے اپنے سامنے ہاتھ پھیلانے اور دعا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ دُعا کے معنی پکارنے اور مانگنے کے ہیں۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں دُعا کے معنی اپنے خالق اور مالک سے مانگنے کے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے نہ صرف ایک انسان اپنے خالق اور رب سے ہر وقت جڑا رہتا ہے بلکہ شریعت اسلامی میں اس کی بہت بڑی فضیلت اور اہمیت آئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
۱)وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ۔ (المؤمن: ۶۰)
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھ کو پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
۲)وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ۔(البقرۃ: ۱۸۶)
اور جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو (انھیں کہہ دو کہ) میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جبکہ وہ مجھے پکارتا ہے تو انھیں چاہئے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
آخر الذکر آیت کی تفسیر میں ڈاکٹر اسرار احمد تحریر فرماتے ہیں:
’’اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے فصل اگر ہے تو وہ تمہاری خباثت ہے۔ اگر تمہاری نیت میں فساد ہے کہ حرام خوری تو کرنی ہی کرنی ہے تو اب کس مُنہ سے اللہ سے دُعا کرو گے، لہٰذا پیر کے پاس جاؤ گے کہ آپ دُعا کردیجئے، یہ نذرانہ حاضر ہے۔ بندے اور خدا کے درمیان خود انسان کا نفس حائل ہے اور کوئی نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو ہے کہ ؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، راہ رو منزل ہی نہیں
اُس تک پہنچنے کا واسطہ کوئی پوپ نہیں، کوئی پادری نہیں، کوئی پنڈت نہیں، کوئی پروہت نہیں، کوئی پیر نہیں، جب چاہو اللہ سے ہمکلام ہوجاؤ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
کیوں خالق ومخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو!
(بیان القرآن، ج۱، ص: ۳۸۸)
مطلب یہ کہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے، بندہ جب اور جس وقت چاہے اسے پکار سکتا ہے اور اللہ اس کی پکار کو سنتا ہے بلکہ قرآن کے مطابق وہ اپنے بندے سے اس کی رگِ جان سے بھی قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ (ق: ۱۶)
اور ہم رگِ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔
یہاں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی یہ قربت اس کے علم اور اس کے قدرت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے لحاظ سے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ تفسیری نوٹ کافی ہے۔
’’یعنی ہماری قدرت اور ہمارے علم نے انسان کو اندر اور باہر سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اس کی رگِ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہمارا علم اور ہماری قدرت اس سے قریب ہے۔ اس کی بات سننے کے لیے ہمیں کہیں سے چل کر نہیں آنا پڑتا، اس کے دل میں آنے والے خیالات تک کو ہم براہِ راست جانتے ہیں اس طرح اگر اسے پکڑنا ہوگا تو ہم کہیں سے آکر اس کو نہیں پکڑیں گے، وہ جہاں بھی ہے ہر وقت ہماری گرفت میں ہے، جب چاہیں گے اسے دھر لیں گے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۱۶۶)
اسلام میں دُعاء کی بہت زیادہ اہمیت آئی ہے۔ متعدد احادیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء کی خاص ترغیب دی ہے۔ امام ترمذی نے ابواب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء (باب منہ) کے تحت یہ دو اہم حدیثیں نقل کی ہیں۔
۱)عَن أنس بن مالک عن النبي صلی اللّٰہ وسلّم قال الدُّعاء مخّ العبادۃ۔
حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دعا عبادۃ کا مغز ہے۔
۲)عن النعمان بن بشیر عن النبّي صلی اللّٰہ وسلّم قال، الدّعائُ ہو العبادۃ۔
حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دعا ہی عبادت ہے۔
ان دونوں حدیثوں سے پہلے ایک یہ حدیث بھی آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز پسندیدہ نہیں ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح آئے ہیں۔
۳)عن أبی ہریرۃ عن النّبي صلّی اللّٰہ وسلّم قال لیس شیٌ أکرم علی اللّٰہ من الدُّعاء۔ (تحفۃ الاحوذی، ج ۹، ص: ۱۹۔۲۱۸، حدیث نمبر ۳۵۹۵۔ ۳۵۹۶۔ ۳۵۹۳)
حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی بھی چیز اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ بزرگ نہیں۔
اسی کتاب کے اندر ایک یہ دل آویزحدیث بھی آئی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ سے اس کے فضل کے ذریعہ مانگو کیونکہ اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔ اور بہترین عبادت کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی)
مطلب یہ کہ جس آدمی کو جب کوئی مشکل پیش آئے اور وہ جانتا ہے کہ اس کی یہ مشکل اللہ کے سوا کوئی حل نہیں کرسکتا تو اسے چاہئے کہ اللہ کے فضل پر کامل یقین اور بھروسہ کر کے انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اس کے فضل کے ذریعہ دعا مانگتا رہے۔ تو خدا نے چاہا وہ اس کی مشکل کو ضرور دور کرے گا۔ نیز اس حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کواس حقیقت کی جانب توجہ دلائی ہے کہ سب سے افضل عبادت کشادگی کا انتظار ہے۔ گویا آپ ؐ نے دعا اور انتظار کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قرار دیا ہے۔ کیونکہ دعا مانگنا بندے کی ضرورت ہے اور اس کی اجابت اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ جب اس کی دعا کی اجابت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اسکی ساری مشکلیں دور اور اس کی ساری مرادیں پوری کردیتا ہے۔ اور پھر وہ آدمی ایسا محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں کبھی مشکل گھڑی آئی ہی نہیں تھی۔
حاجت اور مشکل کے وقت دعا مانگنا ہر انسان کی فطری ضرورت ہے۔ اور ہر زمانہ میں دُعا کو ایک بہت بڑا ہتھیار سمجھا گیا ہے۔ متعدد قرآنی آیات اور بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کثرت سے دعا مانگا کرتے تھے۔ خاص کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہزار سے زائد دعائیں کتب احادیث میں موجود ہیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ترکِ دُعا سنتِ انبیاء کے خلاف ہے۔ جبکہ دُعا مانگنا عین عبادت ہے۔ اور دُعاہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے مشکل وقت میں آدمی قلبی اطمینان وسکون محسوس کرتا ہے۔ بقول شاعر :
میری مشکل اس دنیا میں نہ آساں کرسکا کوئی
مصیبت میں جو کام آیا مرا پرورد گار آیا
لیکن قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا کھانا پینا اور اس کا لباس حلال کمائی کا ہو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی دعا کی قبولیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں مسلم میں حضرت ابو ہریرۃ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس کے آخری حصہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم دعا کے حوالےسے یہ قابل غور ارشاد فرماتے ہیں۔
آپ نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا، جو لمبا سفر کرتا ہے جس کے بال غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر کہتا ہے اے میرے رب، اے میرے رب، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور اس کی غذا حرام ہے تو اس صورت میں اس کی دعا کیونکر قبول ہوگی۔(شرح مسلم)
آج کل مسلمان ہر جگہ انفرادی واجتماعی دعائیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں۔ اور ہماری مشکلیں دور نہیں ہورہی ہیں۔ اس حدیث میں اسی اُلجھن کا پورا جواب موجود ہے۔ اصل یہ کہ دعائیں کیسے قبول ہوں اور مشکلیں کیسے دور ہوں جبکہ لوگ جو کھارہے ہیں جو پی رہے ہیں وہ سب حرام کی کمائی کا ہے۔ وہ نہ خود حرام کاموں سے باز آتے ہیں اور نہ دوسروں کو ان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح خدا کی نافرمانی اور گناہوں کی کثرت سے جب مصیبتیں آتی ہیں اور مشکلیں دامن گیر ہوجاتی ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی بھی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ سود، رشوت، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور ملاوٹی چیزوں کی خرید وفروخت کا بازار گرم ہے۔ اس صورت حال میں مشکلوں اور مصیبتوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے اپنی اصلاح کے بجائے اللہ کے حضور دعا کے لیے محض ہاتھ اٹھانا ایک محض مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے:
دعائیں کیونکر قبول ہوں
کہ معصیت قفل در ہوئی
دعائیں کس منہ سے مانگیں ہم
کہ زبان ہی بے اثر ہوئی
اصل میں دعا مانگنا حاصل دین ہے لیکن یہ مانگنا دو طرح کا ہوتا ہے ایک محض زبان سے مانگنا یعنی غیر شعوری طور پر کلمات کا زبان سے ادا کردینا اور ان کی رٹ لگانا اور دوسرا دل سے مانگنا یعنی زبان سے جو الفاظ دعا ادا ہوں وہ دل کی گہرائیوں سے نکلیں، اس حال میں کہ آنکھیں اشکبار ہوں۔ اگر دعا اس درجہ کی نہیں تو کم سے کم درجہ دعا یہ ہے کہ پلکیں بھیگ جائیں اور کچھ لمحات ہی کے لیے سہی مگر آواز گلو گیر ہوجائے بلکہ قرآن کے مطابق دعا میںعاجزی وفروتنی کی کیفیت ہو اور آواز پست ہو، اس سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت انتہائی قابل غور ہے۔
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ وَلاَ تُفْسِدُوا فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (الاعراف: ۵۵۔ ۵۶)
اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو۔ اور اس کو پکارو خوف اور اُمید کیساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔
ان آیات میں اللہ کے حضور گڑگڑانے، چپکے چپکے اور خوف وامید کے ساتھ دعا مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو خلوص اور دل کی گہرائیوں سے پکارا جائے اور کسی طرح کی ریا اور نمائش کا شائبہ نہ ہو۔ چنانچہ ان آیات کی تفسیر میں سید قطب شہید تحریر فرماتے ہیں۔
’’یہ ہدایت نفسیاتی اعتبار سے نہایت موزوں وقت پر دی گئی ہے، حکم ہوتا ہے کہ اپنے رب کو عاجزی وفروتنی کیساتھ اور آہستہ آہستہ پکارو، چیخ چیخ کر اور شور مچا کر نہیں، اس لیے کہ اللہ کی جلالت شان اور بندے اور اس کے آقا کے بیچ قریبی تعلق کے ساتھ انسب طریقہ یہی ہے کہ اس کے آگے چپکے چپکے آہ وزاری کی جائے۔ ۔۔۔۔ اللہ کی جلالت شان اور اس کی قربت کا یہی وہ ایمانی احساس ہے جسے قرآن یہاں راسخ کرتا اور دعا کے وقت اس کی عملی شکل وہیئت سامنے لانا چاہتا ہے۔ اس لیے جو شخص عملاً خدا کی جلالت شان کا احساس کرے گا وہ دعا وپکار کے وقت چیخنے چلانے سے شرمائے گا اور جو شخص واقعی خدا کا قرب محسوس کرے گا، وہ اس ہنگامہ خیزی کی کوئی وجہ نہیں پائے گا‘‘۔ (تفسیر فی ظلال القرآن، ج۵ ص: ۴۹۔۱۴۸، مترجم مسیح الزمان فلاحی وندوی)
دعا میں غلو بھی ایک سنگین معاملہ ہے۔ آجکل اجتماعی طور پر جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں اکثر حد سے تجاوز ہوتا ہے ہمارے پیشہ ور واعظین اور بعض علماء جو دعائیں اجتماعی طور پر مانگتے ہیں ان میں سخت غلو آمیزی ہوتی ہے۔ اور طبیعت کو اکتا دینے والی دعائیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات یہ لوگ دعا کرتے وقت بیچ بیچ میں وضاحت کے طور پر کچھ باتیں بھی کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے دعا میںکافی طوالت پیدا ہوجاتی ہے لوگ آمین کہنے کے منتظر ہوتے ہیں اوراکتاہٹ کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی داڑھی میں انگلیاں ڈال کر خلال کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح یہ طویل دعائیں بے اثرہوجاتی ہیں۔جب دعا کرتے وقت قلب وذہن حاضر نہ ہوں تو دعا کی قبولیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دعا وہی قبولیت کے درجہ کو پہنچتی ہے جو خشوع وخضوع، چپکے چپکے اور آہ وزاری کے ساتھ مانگی جائے۔ پھر دیکھیں اس طرح کی دعاؤں کے ثمرات کیسے سامنے آتے ہیں۔ اور یہ بھی جانیں کہ کس طرح دعاؤں کی قبولیت کا یقین پیدا ہوجاتا ہے۔
واضح رہے بعض احادیث میں تکلف وتکرار اور غلو آمیزی وتجاوز پر مبنی دعاؤں کو علامات قیامت میں سے ایک علامت قرار دیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ عنقریب ایسے لوگ پیدا ہونگے جو دعاؤں میں غلو وتجاوز کریں گے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں یہ دو حدیثیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اور جو سند کے اعتبار سے صحیح ہیں۔
’’سعد کے ایک بیٹے سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا، میرے والد (سعد) نے مجھے کہتے سنا، اے اللہ، میں تجھ سے جنت کا اور اس کی نعمتوں کا، اور لذتوں کا اور فلاں فلاں چیزوں کا سوال کرتا ہوں اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم سے، اور اس کی زنجیروں سے اور اس کے طوقوں سے اور فلاں فلاں چیزوں سے، تو انھوں نے مجھ سے کہا، اے میرے بیٹے، میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ عنقریب کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعاؤں میں حد سے تجاوز کریں گے۔ لہٰذا تم بچو کہ کہیں تم بھی ان میں سے نہ ہوجاؤ۔ جب تمہیں جنت ملے گی تو اس کی نعمتیں بھی مل جائیں گی اور جب تم جہنم سے بچا لیے جاؤ گے تو اس کی تمام بلاؤں سے بھی تم بچالیے جاؤ گے۔ ‘‘(شرح سنن ابی داؤد)
’’ابو نعامہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مغفل نے (ایک بار) اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا، اے اللہ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جب میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو مجھے اس کے دائیں جانب سفید محل عطا فرما، اس پر عبد اللہ بن مغفل نے کہا، اے بیٹے، اللہ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، عنقریب (میری) اس امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو طہارت اور دعا مانگنے میں حد سے زیادہ تجاوز کریں گے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
ان دونوں حدیثوں میں ’’ یعتدون فی الدعاء‘‘ کے الفاظ ہیں البتہ آخر الذکر حدیث میں الدعاء کے ساتھ فی الطہور کا لفظ بھی آیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ امت مسلمہ میں عنقریب ایسے لوگ بھی پیدا ہونگے جو طہارت کی طرح دعا میں بھی حد سے زیادہ تجاوز کریں گے۔ اور ان کی دعائیں تکلف وتکرار الفاظ سے عبارت ہوںگی۔ ان احادیث کے یہ الفاظ قرآن کی اس آیت سے ماخوذ ومستفاد معلوم ہوتے ہیں۔
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (الاعراف: ۵۵)
اپنے رب کو پکارو، گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ’’المعتدین‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’حد سے تجاوز کرنا خواہ دعا میں ہو یا کسی دوسرے عمل میں، یہ سب اللہ کو پسند نہیں‘‘۔ (فی الدعاء ولافی غیرہ، تفسیر ابن کثیر ج۲ص۳۸۷)
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’معتدین، اعتداء سے مشتق ہے۔ اعتداء کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، معنی یہ ہیںکہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ حد سے آگے بڑھنا خواہ دعا ہی ہو یا کسی دوسرے عمل میں سب کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دین اسلام نام ہی حدود وقیود کی پابندی اور فرماں برداری کا ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور تمام معاملات میں حدود شرعیہ سے تجاوز کیا جائے تو وہ بجائے عبادت کے گناہ بن جاتے ہیں۔
دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دعا میں لفظی تکلفات قافیہ وغیرہ کے اختیار کئے جائیں جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے، دوسرے یہ کہ دعا میں غیر ضروری قیدیں شرطیں لگائی جائیں، جیسے حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مغفل نے دیکھا کہ ان کے صاحبزادے اس طرح دُعا مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا داہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں تو موصوف نے ان کو روکا اور فرمایا کہ دعا میں ایسی قیدیں شرطیں لگانا حد سے تجاوز ہے، جس کو قرآن وحدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ (مظہری بروایت ابن ماجہ وغیرہ)
تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے بد دعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لیے مضر ہو، اسی طرح ایک صورت حد سے تجاوز کی یہ بھی ہے جو اس جگہ مذکور ہے کہ دعا میں بلا ضرورت آواز بلند کی جائے‘‘۔
(معارف القرآن، ج۳ ص: ۷۹۔۵۸۰، بحوالہ تفسیر مظہری، احکام القرآن)
علامہ صابونی زیر نظر آیت ’’إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
ای لا یجب المعتدین فی الدعاء بالتشدق ورفع الصوت وفی الحدیث، انکم لا تدعون أصمّ ولا غائبا۔ (صفوۃ التفاسیر ج۱ص: ۴۱۸)
یعنی اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو دعا میں فصاحت دکھاتے اور آواز کو بلند کرتے ہیں اور حدیث میں آیا ہے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں (بلکہ حاضر وموجود خدا کو) پکارتے ہو۔
دعا کا تعلق اصل میں قلبی کیفیات سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا اسلوب اور انداز بدلتا رہتا ہے۔ جیسی قلبی کیفیت ہوگی ویسا ہی رجوع الی اللہ ہوگا۔ کبھی گریہ وزاری کا عالم ہوگا اور اپنی دُعا کو آدمی الفاظ کا جامہ بھی پہنادے گا اور کبھی کوئی حرف زبان پر نہیں آئے گا۔ آدمی بغیر لفظ کہے سراپا دعا بن جائے گا۔ اس وقت دل مانگے گا، بے حرف وندا، مقصود اس سے یہ ہے کہ جہاں اور جس عالم میں ہو اپنے رب کو نہ بھولو، اسے یاد رکھو اور اس کے حضور میں اپنی عاجزی وفروتنی کا اقرار واظہار کرتے رہو۔
اصل میں دعا وہی ہے جو جامع ہو اور جس کے الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں چنانچہ قرآن وحدیث سے جتنی بھی دعائیں منقول ہیں وہ انتہائی جامع ہیں۔ حضرت عائشہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے حوالے سے کیا بیان فرماتی ہیں؟ اس سلسلہ میں یہ روایت قابل غور ہے۔
عن عائشۃ قالت کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم یستحب الجوامع من الدعاء ویدع ما سوی ذلک۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داود، ابواب الوتر، باب الدعاء، ج۴، ص: ۲۴۹، حدیث نمبر ۱۴۷۹)
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامع دعائیں پسند فرماتے تھے اور اس کے سوا (غیر جامع دعائیں) چھوڑ دیتے تھے۔
قرآن میں جن پیغمبروں کی دعاؤں کا ذکر آیا ہے وہ انتہائی جامع ہیں۔ اور انھوں نے مشکل وقت میں ان دعاؤں کو دل کی گہرائیوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قبولیت کا پروانہ بھی سنا دیا۔ قرآن میں اس طرح کی درجنوں دعائیں آئی ہیں۔ لیکن یہاں بطور نمونہ چند دعاؤں کو قدرے وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
۱) قرآن میں حضرت آدم وحوا علیہما السلام کے بارے میں آیا ہے کہ جب ان دونوں کو جنت میں رہنے کے لیے کہا گیا تھا تو انھیں وہاں ہر طرح کے پھل کھانے کی اجازت تھی مگر ایک مخصوص درخت کے پاس جانے سے سختی سے منع کیا گیا تھا لیکن وہ دونوں شیطان کے بہکاوے میں آکر اس ممنوعہ درخت کا مزہ چکھ گئے۔ اس طرح وہ شیطان کے فریب میں آکر اللہ کے حکم کی نافرمانی کر بیٹھے لیکن ان دونوں کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے ان الفاظ میں دعا کرنے لگے۔
قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ (الاعراف: ۲۳)
اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہیں بخشا اور ہم پر رحم نہیں کیا، تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔
جب حضرت آدم وحوا کو غلطی ہوئی تھی تو انھیں توبہ کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہی ان پر توبہ کے لیے الفاظ القا والہام فرمائے (سورۃ البقرۃ: ۳۷) اور انہیں کے ذریعہ انھوں نے اللہ کے حضور توبہ واستغفار کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا۔ یہ وہی دعا تھی جو اوپر کی سطور میں نقل کی گئی ہے۔ اس طرح آدم وحوا سے غلطی ہوئی، اور پھر غلطی کا احساس ہونے کے ساتھ ہی توبہ واستغفار کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی شرف قبولیت بخشا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی غلطی کے ہونے پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اپنے کئے پر نادم ہو اور آئندہ اس طرح کی غلطی نہ کرنے پر پُز عزم ہو اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنی رحمت اور اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔
۲) حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی آزمائش میں ڈالا تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ تک سخت ترین بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ لیکن انھوں نے شدید تکلیف کے باوجود شکایت کا کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالا۔ بلکہ صبر کا پیکر بن گئے۔ اور جب اللہ سے رحم اور شفاء کی درخواست کی تو وہ بھی اس لطیف پیرایہ بیان میں کہ تو ارحم الراحمین ہے لفظ شفاء زبان پر نہیں لایا، قرآن نے ان کی اس دعا کا ذکر اس آیت میں کیا ہے۔
وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ۔ (الانبیاء: ۸۳)
اور ایوب، جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو بیماری لگ گئی اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
جب حضرت ایوب علیہ السلام نے اس مختصر مگر جامع دعا کو پڑھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی وقت اجابت وقبولیت کا پروانہ ملا۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَیْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَی لِلْعَابِدِیْنَ۔ (الانبیاء: ۸۴)
توہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کی جو تکلیف تھی، اس کو دورکردیا، اور اس کو اس کا کنبہ بھی دیا۔ اور اس کے ساتھ اس کے برابر اور بھی دیا،اپنی طرف سے رحمت اور نصیحت عبادت کرنے والوں کے لیے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ حضرت ایوب علیہ السلام نے راست انداز میں اپنی دعا میں اپنی بیماری سے چھٹکارہ پانے کے لیے کوئی عرضِ مدعا نہیں کیا۔ مگر اسماء حسنیٰ کے ذریعہ دعا کرنا ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دُعا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے ارحم الراحمین (رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا) کہہ کر سارا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آگئی اور حضرت ایوب علیہ السلام کو نہ صرف بیماری سے نجات مل گئی بلکہ اس کا بچھڑا ہوا کنبہ بھی مِلا اور اس کے علاوہ بھی بہت سارے انعامات سے بھی نوازا گیا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس جامع دعا کے بارے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ تفسیری نوٹ قابل غور ہے۔
’’دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے، مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں تو ارحم الراحمین ہے آگے کوئی شکوہ یا شکایت نہیـں، کوئی عرضِ مدعا نہیں کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرز دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر وقانع اور شریف وخود دار آدمی پے درپے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں۔ آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے‘‘۔ (تفہیم القران ص۳ص: ۷۹۔۱۷۸)
۳) حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نینوا کی قوم کی طرف بھیجا تھا جہاں وہ ایک لمبے عرصہ تک لوگوں کو دعوت دیتے رہے۔ لیکن وہ ان کا مذاق اڑاتے رہے اور ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اسی انکار اور نافرمانی کی پاداش میں نبی نے ان کو ایک عبرت ناک عذاب کے نزول کی اطلاع دی اور خود ان سے برہم ہو کر اللہ کی طرف سے ہجرت کی اجازت ملنے کا انتظار نہ کرتے ہوئے وہاں سے چل دیئے اور سوچا کہ وہ کب تک اس قوم کو سمجھاتے رہیں گے۔ وہ بحرِ روم کے ساحل پر کسی کشتی میں سوار ہوگئے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تیز آندھی چلنے لگی اور کشتی کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ پھر لوگوں نے کشتی کا بوجھ کم کرنے کے لیے اپنا سامان سمندر میں پھینک دیا لیکن جب اس کے بعد بھی خطرہ نہیں ٹلا تو انھوں نے سوچا کہ کشتی میں ضرور کوئی ایسا آدمی ہے جس کی وجہ سے خطرہ لاحق ہے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی تو حضرت یونس علیہ السلام کے نام قرعہ نکل آیا اس لیے لوگوں نے انھیں سمندر میں پھینک دیا تو طوفان رک گیا۔ اللہ نے ایک مچھلی کو بھیجا جس نے حضرت یونس علیہ السلام کو نگل لیا۔ اور وہ زندہ مچھلی کے پیٹ میں جاپہنچے اور پھر انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی اور مچھلی نے ساحل سمندر پر آکر اپنے پیٹ سے انھیں باہر نکال دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھے سورۃ الصافات آیت ۱۳۹ تا ۱۴۸) اس سخت ترین آزمائش کی گھڑی میں حضرت یونس علیہ السلام نے جو دعا فرمائی تھی اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے۔
فَنَادَی فِیْ الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ (الانبیاء: ۸۷)
پھر اس نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں، تو پاک ہے بے شک میں قصور واروں میں سے ہوں۔
اس قرآنی دعا کی تفسیر میں مولانا شمس پیرزادہ تحریر فرماتے ہیں۔
’’مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس پر جو کچھ بیتی ہوگی اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ اس کے باوجود کوئی حرفِ شکایت ان کی زبان پر نہیں آیا۔ اس موقع پر انھوں نے اللہ سے جو فریاد کی وہ سرتا سر اللہ کی حمد وثنا اور اپنے قصور کے اعتراف پر مشتمل ہے۔ مچھلی کے پیٹ میں بھی انھوں نے توحید ہی کی صدا بلند کی اور اس کی پاکی بیان کرتے ہوئے اپنے قصور کا اعتراف کیا۔ ان کا یہ اخلاص اور ان کی یہ انابت ان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ ۔۔۔ یہ دعا دل سے نکلی تھی اور عجز ونیاز میں ڈوبی ہوئی تھی اس لیے تاریکیوں کو چیرتی ہوئی عرش تک پہنچ گئی اور بارگاہ خداوندی میں قبولیت اختیار کی گئی‘‘۔ (دعوۃ القرآن ج۲ص ۱۱)
پھر اگلی آیت میں اس دعا کی قبولیت اور عام ایمان والوں کو بھی اسی طرح دُعا مانگتے رہنے پر نجات ملنے کی بشارت اس طرح دی گئی ہے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنجِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (الانبیاء: ۸۸)
پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات دی اور اس طرح ہم ایمان والوں کو بھی نجات دیتے ہیں۔
مطلب یہ کہ قبولیتِ دُعا کا یہ معاملہ صرف پیغمبروں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جب بھی اہل ایمان کسی آزمائش میں ڈالے جائیں گے اور وہ اللہ کو پکاریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی بھی دعاؤں کو قبول کر کے ان کی نجات کا سامان مہیا کرتا رہے گا۔
یہ صرف چند قرآنی دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے قرآن میں اور بھی کئی دعائیں آئی ہیں اگر ان تمام دعاؤں کا احاطہ کیا جائے اور ساتھ میں ان کا پس منظر بھی لکھا جائے تو یہ مضمون ایک کتاب کی شکل اختیار کرلے گا۔تاہم ان چند دعاؤں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے بعد قرآن کو کھول کر دوسرے پیغمبروں کی دعاؤں کا از خود مطالعہ کر کے دعا کی حقیقت اور قبولیت کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کی جاسکتی ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ موجودہ زمانے میں عموماً فرض نمازوں کے بعد دعاؤں کا اہتمام والتزام کیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی امام اس طریقہ سے کبھی دعا نہ کرے تو مسجد میں موجود نمازی اعتراض کردیتے ہیں اور پھر اس طرح کے امام کو وہابی یا غیر مقلد قرار دے کر سبکدوش کردیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے علماء اس طرح کے مسائل کی طرف قرآن وحدیث کی روشنی میں تو جہ نہیںدیتے اور پھر ہماری مسجدیں مسلکی وگروہی تفریق کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ اورصورت حال علامہ اقبال کے اس شعر کے عین مطابق بن جاتی ہے۔
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
دعا ضرورت واحتیاج کے طور کی جاتی ہے نہ کہ شور وہنگامہ کھڑا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ لیکن جب روزانہ لمبی لمبی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں تجاوز وتکلفات کے کلمات کی بھر مار ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ اس طرح کی دعائیں بے اثرہوتی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دُعا کی روح کو سمجھا جائے اور پھر لوگوں کو بھی اس کی طرف ترغیب دی جائے۔ اور ایک وقت میں اسی چیز کی دُعا کی جائے جس کی ضرورت ہو۔قرآن میں پیغمبروں کی دعاؤں کا تذکرہ ہے اور کتب احادیث میں بھی بے شمار دعائیں منقول ہیں جب ان دعاؤں کا پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم الگ الگ افراد کومختلف اوقات میں ضرورت کے مطابق دعا کی تلقین کرتے تھے اور دعا کے الفاظ بھی خود ہی تجویز فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہی دعاؤں کو قبول فرماتا تھا۔ آج بھی دعاؤں کی اسی سنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب مسلکی وگروہی مزاج سے اوپر اٹھ کر اسوئہ حسنہ کو مقدم رکھا جائے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2015