مسجد میں خواتین

Women in Masjid کا تعارف

ایک سال پہلے کی بات ہے،  اپریل ۲۰۱۹ ءمیں بھارت کی سپریم کورٹ کو ایک عرضداشت موصول ہوئی جس میں عرضی گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ ’’مسلم خواتین کی مسجد میں داخلے سے پابندی ہٹائی جائے اور ان تمام فتاویٰ کو کالعدم قرار دیا جائے جن کی رو سے خواتین کے مسجد میں مردوں کے ساتھ عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ فتاویٰ نہ صرف دستور کی دفعات ۱۴، ۱۵،۲۹ سے متصادم ہیں بلکہ دستور کے رہنما اصولوں کے مغائر بھی ہیں۔‘‘  اس سے قبل عدالت عالیہ کیرالہ کے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر پابندی کو غیر آئینی قرار دے چکی تھی۔ معاملہ بڑی بنچ کے سپرد ہوا ، جس نے اگلی سماعت اکتوبر ۲۰۱۹ءکے لیے طے کردی۔ اسی اثنا میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان داخل کرکے بتایا کہ اسلام میں خواتین کے مسجد میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے، نیز بورڈ ان کے مسجد میں آنے اور عبادت کرنے کی پرزور وکالت کرتا ہے۔ بورڈ نے مذکورہ بیان میں یہ بھی لکھا کہ اگرچہ خواتین پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے، تاہم اسلام میں ان کے مسجد میں آنے کے سلسلے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

دراصل سبری مالا کا معاملہ زعفرانی دائیں بازو والوں کے لیے انا کا ایک مسئلہ بن گیا ہے اور انھیں مندر میں خواتین کے داخلے کے معاملے میں عدالت عظمی کی مداخلت سے اپنی سبکی محسوس ہوئی ہے۔ اسی کھسیاہٹ کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں خواتین کے داخلے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔

اس تناظر میں ضیاءالسلام صاحب کی حالیہ تصنیف Women in Masjid: A Quest for Justice نہ صرف بروقت ہے اور موزوں ہے، بلکہ ایسے تمام خانہ ساز دعووں کی بھی قلعی کھول دیتی ہے جو خواتین کے مسجد میں آنے کی پابندی کا مفروضہ پیش کرتےہیں۔ ضیاء السلام صاحب معروف صحافی اور کثیرالتعداد مصنف ہیں۔ آپ انگریزی کے موقر اخبار ’دی ہندو‘ اور ’فرنٹ لائن‘ سے وابستہ ہیں اور آخرالذکر کے ایسوی ایٹ ایڈیٹر ہیں۔

مذکورہ کتاب میں مصنف نے سوال قائم کیا ہے کہ جب اسلام مرد و عورت میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتا تو مردکس اختیار کی بنا پر ایسا کرتے ہیں؟ قرآن مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا شریک کار قرار دیتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے حقوق یکساں ہیں۔ مردوں کو جو یک گونہ امتیاز حاصل ہے بھی وہ بھی اس بنا پر کہ خاندان کی کفالت اور معاشی تگ و دو کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم برصغیر میں اس امتیاز کو ہر لحاظ سے صرف مردوں کے مفاد میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ قرآن میں مردوں اور عورتوں کو کم و بیش ۶۰ مقامات پر نماز قائم کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ دونوں پر حج یکساں طور پر فرض ہے۔ عقد نکاح اس وقت تک تکمیل نہیں پاسکتا جب تک کہ اس میں عورت کی رضامندی شامل نہ ہو۔ ازدواجی رشتے سے علیحدگی کے معاملے میں بھی قرآن دونوں کو یکساں حقوق دیتا ہے، یہی نہیں بلکہ مرد کی دوسری شادی ہو، یا بیوہ یا مطلقہ کی شادی ان معاملات میں بھی عورت کی مرضی کو شامل رکھا گیا ہے۔ ہر مومن اور مومنہ کے لیے نیک اعمال پر یکساں اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نماز کے معاملے میں ایک کے سلسلے میں باجماعت نماز، جمعہ و تراویح کا اہتمام مقصود ہو، جن پر اجرعظیم کا وعدہ بھی ہے، اور دوسرے کو اس سے محروم رکھا گیا ہو؟ ضیاءالسلام صاحب کے نزدیک اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے کہ عورتوں کو مسجد جانے سے نہ روکا جائے۔

مصنف کہتے ہیں کہ مسجد میں خواتین کے لیے پچھلی صفوں کو مخصوص کرنا صنفی مساوات کا نہیں بلکہ صنفی تقسیم کا معاملہ ہے۔ اسلام نظر کی پاکیزگی پر بہت زور دیتا ہے ۔ رکوع و سجود میں نمازی کی ہیئت نازک ہوتی ہے۔ شارع کو یہ بھی پسند نہیں کہ سجدوں میں مردوں کی بدنظری کا معمولی سے معمولی احتمال بھی باقی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے لیے آخری صفوں کو مختص کردیا گیا ۔

مصنف کے مطابق برصغیر میں عام آدمی تو خیر چھوڑیے، مساجد کے ائمہ کی بڑی اکثریت بھی عربی زبان سے نابلد ہے۔ اسی وجہ سے وہ براہ راست قرآن و حدیث سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ مردوں کی اس کم علمی کی قیمت معاشرے میں عورتوں نے چکائی ہے۔

انھیں بتایا جاتا ہے کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث اکثر بیان کی جاتی ہے۔ ایک صحابیہ ام حمید، جن کا شوہر انھیں پوری آزادیاں نہیں دیتا تھا، اور ان کی خانگی زندگی میں قدرے کشیدگی تھی، رسول اللہ ﷺ سے عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺمیں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہتی ہوں۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺان سے فرماتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نماز ادا کرنا چاہتی ہو، لیکن تمھارا گھر کے اندر نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنی لوگوں کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘ اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺنے یہ نہیں کہا کہ عورت کا اس کے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے، بلکہ یہ کہا کہ تمھارا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ آپ ﷺنے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ گھر کی کوٹھری میں نماز پڑھنے والی عورت کو زیادہ اجر دے گا، یا مسجد میں عورت کا نماز پڑھنا افضل نہیں، بلکہ یہ حکم خاص ام حمید کے مخصوص حالات کی بنا پر دیا گیا تھا تاکہ ان کی خانگی زندگی میں کسی قسم کی کشیدگی پیدا نہ ہو۔ مصنف نے اسلامی تاریخ سے مرد و خواتین کی مساوات کی ایسی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔

مصنف کے مطابق مذکورہ بالا واحد حدیث ہے جسے برصغیر کے علماء عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتاب میں جابجا تاریخی حوالوں سے بھی مصنف نے اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی تفصیل کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔

ضیاءالسلام صاحب نے برصغیر ہندو پاک، عالم عرب، برطانیہ، امریکہ اور جنوبی افریقہ کی مساجد کی دل چسپ اور دل نشین صورت حال واضح کی ہے کہ کس طرح ان ممالک میں مساجد نے خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا گیا ہے اور ان کے لیے عبادات میں سہولتیں پیدا کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے مختلف ممالک کے سفر بھی کیے ہیں اور ان مساجد کی روح پرور تصاویر سے کتاب کو مزین کیا ہے۔

ضیاءالسلام صاحب نے اپنی کتاب میں دنیا بھر کی مختلف مساجد  کے پروفائل کے ساتھ ساتھ دور جدید کی سربرآوردہ مسلم خاتون مفکرین کا تعارف بھی پیش کیا ہے۔ فرحت ہاشمی، آمنہ ودود، جمیدہ بی بی، وی پی زہرہ اور اسرا نعمانی صاحبات کے پروفائل کے ساتھ ساتھ ان کے کارنامے اور ان کے افکار کا مفصل تعارف بھی کروایا ہے۔ تاریخ مصنف کا پسندیدہ موضوع ہے۔ انھوں نے ایک باب عہد وسطی ٰکے ہندوستان کی اہم مساجد کی تاریخ پر بھی باندھا ہے جن کی تعمیر میں خواتین نے حصہ لیا۔ مصنف نے بھوپال کی تاج المساجد اور دلی کی اکبرآبادی مسجد، مٹیا بیگم مسجد، مبارک بیگم مسجد نیز فتح پوری مسجد  کی دل چسپ تاریخ پیش کی ہے۔

ہندوستان کی جن مساجد کی تفصیل ہے اس میں جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں واقع مسجد اشاعت اسلام کا بھی ذکر ہے جہاں خواتین کے لیے نمازوں کی ادائیگی کے لیے خصوصی انتظام ہیں۔ کیرالہ میں اسی طرز پر جماعت کی ۴۰۰ مساجد ہیں جن میں خواتین کے لیے مخصوص انتظامات کیے گئے ہیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس طرح کے ماڈل کو پورے ملک میں رائج کرنے کی ضرورت ہے۔

مصنف لکھتے ہیں:

’’اللہ کے رسول ﷺخاتم النبیین ہیں۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’اے نبیﷺ لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘یہ آیت اس باب میں بحث کے تمام دروازے بند کردیتی ہے۔ جولوگ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ مساجد میں عورت کے جانے کے قائل نہیں تھے ، وہ یا تو پورا سچ نہیں بتاتے یا پھر پورے سچ سے واقف نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کوئی نبی نہیں تھے۔ نہ ہی امام شافعی ؒیا امام مالک ؒ نبی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دی ہے بلکہ مردوں کو بھی اس بات سے منع کیا ہے کہ عورتوں کو مسجد جانے سے باز رکھیں۔ عہد نبوی میں جب خواتین گود میں بچوں کو اٹھائے ہوئے آتی تھیں ، جو نماز کے دوران یقیناً روتے اور شرارت بھی کرتے ہوں گے، تو آپ ﷺ نے ان سے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ بچوں کو گھروں پر چھوڑ کر آیا کرو، بلکہ نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر خود اپنی نماز مختصر کردی تاکہ مائیں اپنے بچوں کی جانب متوجہ ہوسکیں۔ اسلام میں مسجد میں داخلے کی شرط بس اتنی ہے کہ خواتین باپردہ ہوں، خود کو پوری طرح ڈھک کر آئیں اور خوشبو کے استعمال سے گریز کریں، جس سے مردوں کی توجہ بھٹکتی ہے۔ اس کے برعکس کوئی بھی ایسا عمل  جو عورتوں کے مسجد میں داخلے سے مانع ہو ، اسلامی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ خواتین کو مسجد میں نہ آنے کی رخصت دی گئی ہے،ان کے آنے کی  ممانعت نہیں کی گئی ۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انھیں بڑی تعداد میں جمعہ اور عیدین کی نمازیں پڑھنے کی ترغیب دلائی ہے۔ برصغیر میں یہ خصوصی نمازیں پڑھنے کی خواتین کی حوصلہ افزائی کرکے ایک شروعات کی جا سکتی ہے۔ تاہم ایسا ان کے لیے کمرے مخصوص کرکے نہیں کیا جانا چاہیے—یہ ایسا ہی ہوگا گویا جس طرح سیاسی پارٹیاں کسی مخصوص حلقے کو خوش کرنے کے لیے کچھ دے دیتی ہیں —بلکہ انھیں مردوں کے بالکل پیچھے جگہ دینی ہوگی۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنے دور میں دی۔ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا تب تک برصغیر میں پدرسری قوتیں، جو معاشرے میں گہرائی تک نفوذ کرگئی ہیں، اللہ اور رسول کے احکامات پر اپنا حکم اور مرضی تھوپتی رہیں گی۔ دین پر معاشرتی رسوم و رواج غالب رہیں گے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہر مسجد کو یہ اعلان بھی کرنا ہوگا کہ خواتین کو مسجد آنے سے روکنا غیر اسلامی ہے۔ انھیں خواتین پر مشتمل مسجد کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مساجد کی کمیٹیوں میں شاذ و نادر ہی کوئی خاتون رکن ہوتی ہے۔ جن مساجد میں خواتین کے آنے جانے کے لیے علیحدہ دروازے نہیں بن سکتے ، وہاں خواتین کو اپنی جماعت کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ ام ورقہ کا واقعہ یاد کیجیے جنھوں رسول اللہﷺ کی اجازت سے خواتین کی جماعت کی امامت کی تھی۔ بہرحال خواتین کے مقام کی بازیافت اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ کے نبی ﷺ نے اسے طے کیا: مردوں کے پیچھے آخری صف میں جہاں سے وہ امام کو دیکھ سکیں، نہ کہ ایک گمنام سا گوشہ مختص کرکے جہاں سے انھیں نہ امام نظر آسکے نہ وہ قرأت و تکبیر ٹھیک سے سن سکیں۔‘‘

موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کتاب ان سوالوں کے مسکت جواب دیتی ہے جو معترضین کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں اور مسلمانوں کے لیے پیغام عمل بھی پیش کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمان مسجد کے معاملے میں اپنی حوا گریزی  کے رویے سے باز نہ آئے تو نہ صرف خواتین کو ایک بنیادی حق سے محروم کرنے کے مجرم قرار پائیںگے، بلکہ وہ دن بھی دور نہیں جب طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی اور مستوجب سزا ٹھہرائے جانے کی طرح اس معاملے میں بھی عدالت سخت رخ اختیار کرے۔ اللہ کرے اس کی نوبت نہ آئے۔  فاعتبروا یا اولی الابصار۔

تعارف کتاب

مسجد اور  خواتین

‘Women in the Masjid    ’ کا تعارف

عرفان وحید

مشمولہ: شمارہ مئی 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223