عورت کا حصولِ معاش

قرآن وسنت کی روشنی میں

اسلام نے  مرد اور عورت دونوں کو ان کی  ساخت اور بناوٹ کے اعتبار سے گھر اور باہر کی ذمے داریاں سونپی ہیں۔ عورت پر بچوں کی پیدائش و پرورش اورگھر کے کاموں کی ذمے داری والی اور مردوں کو ان کی حفاظت ونگرانی کرنے اور ان کی معاشی ودیگر ضروریات کی فراہمی کا ذمے دار بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے جس عظیم مقصد کی خاطر اس کائنات کو بنایا اور اس میں انسانوں کو پیدا کیا وہ ہے اللہ کے دین کی پیروی اور دنیا میں اللہ کے احکام و قوانین کا نفاذیہ عظیم مقصد تب ہی پورا ہوگا جب مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اپنی اپنی ذمےد اریاں بحسن وخوبی انجام دیں۔ اس مقصد کو روبہ عمل لانے کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خاندان کا کوئی سربراہ (قوّام) ہوتا۔ سو مرد کو قوّام بنایا گیا۔ اپنے گھر والوں کی نہ صرف حفاظت و نگرانی بلکہ ان کے لیے کسب معاش کی ذمے داری بھی اسے ہی سونپی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاۗءِ۔ (النساء:۳۴)

’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔

اورعورتوںکو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔ ارشاد ہے:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۔(النسائ: ۳۴)

’’پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں۔ مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔

یعنی خداوند کریم نے صالح عورتوں کی پہچان ہی یہ بتائی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت گزار ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے ان کے حقوق یعنی اپنی عصمت اور شوہر کے مالوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ ساتھ ہی عورتوں کو یہ بھی حکم دیاگیا کہ اپنےگھروں میں قرار سے رہو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ ارشاد ہے:

وَقَرْنَ فِی بُیوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِیۃِ الْاُوْلٰى ۔   (الاحزاب: ۳۳)

’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘۔

ان احکام سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی ذمے داریاں کچھ ایسی نہیں ہیں کہ وہ الل ٹپ طریقے سے ادا کردی جائیںکہ آدھادل گھر میں رہے اور آدھا باہر کی مصروفیات میں۔ انہیں ایک طرف تو شوہر کی خدمت اور اس کے حقوق سے متعلق اپنے فرائض کی تکمیل کرنی ہوتی ہے اور دوسری طرف اولاد کی پرورش و تربیت میں نمایاں رول ادا کرنا ہوتا ہے۔ مرد معاشی اور دیگر ضروریات کی تکمیل کی خاطر گھر سے نکلتے ہیں، پورا دن مصروف رہتے ہیں اورشام کو تھک ہار کر گھر لوٹتے ہیں۔ انہیں اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ بچوں کی تربیت کریں اورگھر کے معاملات سے نپٹیں۔ جبکہ خواتین پورا دن گھر میںرہتی ہیں ۔ بچوں کی تربیت و دیکھ بھال کرتی ہیں۔ گھر کی ضروریات کا سامان وغیرہ بھی وہی منگواتی ہیں۔ غرض گھر کے تمام بکھیڑے ان ہی کے انجام دینے سے سرانجام پاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ حق تعالیٰ شانہ‘ نے عورت پر جماعت سے نماز کی ادائی بھی لازم نہ رکھی۔ نہ جمعہ وعیدین کی نمازیں اس پر واجب کیں۔ عورت کی ذمے داریوں کے سلسلے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے اوران سے متعلق اس سے جواب طلبی کی جائے گی‘‘۔ (بخاری)

یہ خداوند قدوس کی مہربانی ہے کہ اس نے عورت پر معاشی تگ ودو اورباہر کی سیاسی وسماجی ذمےد اریاں نہیں ڈالی ہیں۔ قرآن وسنت کی تعلیمات میں کہیں ایسا اشارہ تک نہیں ملتا کہ عورت کو کسی کا کفیل بنایا گیا حتیٰ کہ خود اس کا اپنا بھی نہیں۔ بیوہ یا طلاق یافتہ ہونے کی صورت میں بھی نہیں۔ ایسی صورت میں عورت کے بیٹے یا باپ بھائی پر اس کی کفالت کی ذمے داری ڈالی گئی ہے اور اگر کسی عورت کے خاندان میں کوئی فرد بھی ایسا نہیں جو اس کی کفالت کرسکے تو حکومت پر اس کی ذمے داری عائد کردی گئی کہ اس کی ضروریات کو پورا کرے۔ جس طرح حدیث میں مردوں کو حکم دیاگیا کہ جو تم کھائو اپنی بیویوں کو کھلائو جو تم پہنو اپنی بیویوں کو پہنائو۔ ایسی کوئی ہدایت عورت کو نہیں دی گئی ۔ ہاںاسے نہ صرف معاشی تگ ودو سے مکمل طور سے سبکدوش رکھا گیا بلکہ سیاسی و عسکری خدمات سے بھی اسے مستثنیٰ قرار دیاگیا۔ تاہم اس کے حقوق و مقام میں کسی قسم کی کمی نہ کی گئی۔ ماں کی حیثیت سے اسے اعلیٰ مقام عطا کیاگیا۔ اولاد کو حکم دیاگیا کہ ماں کی خدمت بھی کرو اور اطاعت بھی تب ہی جنت کے مستحق قرار پائوگے۔ بیوی کے روپ میں ۔ بہن اور بیٹی کے روپ میں کہیں بھی اس کے مقام کو گھٹایا نہ گیا۔ بیوی کے روپ میں بھی ایک اعلیٰ مقام اسے عطا کیاگیا۔ شوہر کے سکون کا موجب اسے بنایا گیا اور بیٹی وبہن کو باپ بھائی کی عزت قرار دیا۔ حتیٰ کہ عورت کی مالی حیثیت بھی مستحکم کی گئی۔ باپ ہو چاہے بھائی، شوہر ہو یا بیٹا ہر ایک کے ترکہ و وراثت میں اس کا حصہ مقرر کیاگیا ۔ اسے اپنی ملکیت بنانے اور رکھنے کا پورا اختیار دیاگیا۔ کسی کو حتیٰ کہ شوہر کو بھی حق نہیں کہ اس کے مال کو اس کی مرضی کےبغیر ہاتھ لگائے۔ ہاں اپنی رضامندی اور خوش دلی سے اگر وہ شوہراور بچوں پر خرچ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے ۔ اس صورت میں اس کے لیے دو ہرے اجر کی خوشخبری دی گئی ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ اس کا شوہر گھر کی کفالت نہ کرسکتا ہو اور صرف یہی نہیں کہ اسے معاشی تگ ودو سے سبکدوش رکھاگیا بلکہ اگر وہ اپنی گھریلو ذمے داریوں کو کماحقہ انجام دے کر اپنے حدود یعنی حجاب میں رہتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں اگر حصہ لینا چاہے تو اسے اس کی اجازت بھی دی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا۝۰ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ۔   (النساء: ۳۲)

’’جو کچھ مردوں نے کمایا اس کے مطابق ان کا حصہ اور جو کچھ عورتوں نے کمایا اس کے مطابق ان کا حصہ ہے‘‘۔

یعنی اگر عورت شریعت کے تمام حدود کی پابندی کرتے ہوئے اور اپنی گھریلو ذمے داریوں کو انجام دیتے ہوئے کسب معاش میں حصہ لے تو قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق نہ اس پر پابندی عائد کی گئی نہ ناپسندیدہ قرا ر دیاگیا۔ لیکن اس سلسلے میں شرعی امور جیسے پردہ وغیرہ کی پابندی اور غیر مردوں سے ربط ضبط میں احتیاط لازمی ہے۔ سرکاری یا پرائیویٹ دفتروں یا مخلوط اداروں میں وہ کام کرے گی تو مردوں سے اختلاط لازماً ہوگا جو شرعاً جائز نہیں۔ ان عورتوں کے لیے جوکمانا چاہتی ہیں یہ بہتر ہے کہ گھر میں رہ کر سلائی کڑھائی، دست کاری ، ٹیلرنگ، زردوزی، چکن سازی، جلد سازی، خوشنویسی اور ٹیوشن وغیرہ کرلے۔ خواتین کے مخصوص اداروں میں کام کریں جہاں مردوں کی آمدورفت پر پابندی ہے۔ اگر گھر میںرہتے ہوئے وہ حصول معاش کے ذرائع تلاش کرتی ہیں تو یہ زیادہ بہتر ہے کہ ان کا اصل مقام گھر ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسی صنعتیں ہیں جیسے موم بتی سازی ، صابن سازی ۔ کاسمیٹک اشیاء ، فیسنگ پائوڈر کریم وغیرہ۔ اگر کچھ اصحاب خیر اور ملی درد رکھنے والے صنعت کار اور ٹیکنیشین حضرات ٹریننگ مراکز قائم کرکے اپنی محرم عورتوں، بچوں اوردوسرے لوگوں کو یہ ہنر سکھا دیں اور پھر یہ ہنرمند عورتیں دوسری عورتوں کو سکھائیں۔ یہ بھی عورتوں کے لیے ذرائع معاش کے بہترین طریقے ہیں۔ زنانہ ہسپتالوں اور زنانہ اسکولوں و کالجز میں بھی عورت اپنے علم وصلاحیت کو بروئے کار لاسکتی ہے۔ لیکن اگر عورت فوج، پولیس یا آفسوں، ٹی وی چینلوں،نیز انجینئرنگ سے متعلق شعبوں میں کام کرے یا ہوٹلوں ، کارخانوں، فیکٹریوں اور جہازوں میں کام کرے گی جو نسوانیت سے متعلق نہیں ہیں تو ایسے کام دینی لحاظ سے تو ناجائز ہیں ہی ویسے بھی مختلف پہلوئوں سے قطعاً مناسب نہیں۔ بجائے اس کے عورت کچھ دوسرے کام کرے، کاروبار میں اپنا سرمایہ لگائے یا خود ایسے کاروبار کرے جن سے نہ تو اس کی ذمے داریاں متاثر ہوں نہ احکام حجاب ٹوٹیں۔

کتب سیر اور احادیث شریفہ کے مطالبے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی صحابیات اپنے شوہر، بچوں اور گھر کی ذمے داریوں کو نباہتے ہوئے اور حدود حجاب میں رہتے ہوئے کسب معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں اور حصول معاش کے ایسے طریقے اختیار کرتی تھیں جن سے حدود اللہ کی پابندیوں میں کوتاہی نہ ہو۔ جیسے وہ چرخہ کاتتی، سوت بناتی اور دیگر دستکاری کے گھریلو کام کرتی ، کاروبار میں سرمایہ لگاتی تھیں۔

اُم المؤمنین حضر ت خدیجہؓ تجارت کرتی تھیں اور اپنا مال تجارت کسی معتبر شخص کے ہمراہ دوسرے ملکوں میں بھیجتیں۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ شادی کے بعد بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ آپﷺ نے ان کی تجارت کو چار چاند لگا دیے۔ یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا سارا مال دین کی راہ میں خرچ کردیا۔ سہل بن سعدؓ ایک اور خاتون کا ذکر  کرتے ہیں جو چقندر کی کھیتی کیا کرتی تھیں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسماء بنت عکرمہ کو ان کے بیٹے عبداللہ بن ابی ربیع یمن سے عطر روانہ کرتے تھے اور وہ اس کا کاروبار کرتی تھیں ۔ دور نبویؐ میں خواتین تجارت کے مسائل کوبخوبی جانتی تھیں اور بعض مسائل معلوم کرنےکے لیے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صنعت و حرفت سے واقف تھیں اور اس کے ذریعے اپنے اور اپنے شوہر اور بچوں کے اخراجات بھی پورے کرتیں۔ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بابت پوچھا۔ آپؐ نے انہیں دوہرے اجر کی خوشخبری دی۔

سیرت صحابیات کے مطالعے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ کچھ صحابیات نے معاشی سرگرمیوں میں حصہ ضرور لیا لیکن اسے ثانوی حیثیت دی اوراپنے فرائض میں ذرا بھی کوتاہی نہ ہونے دی۔ انھوں نے اپنا مال دنیوی عیش وآرام کے حصول اور فضول خرچیوں میں صرف نہیں کیا، بلکہ اس کے ذریعے غریبوں اور محتاجوں کی امداد کی ۔انفاق فی سبیل اللہ کا یہ مقصد انہیں اتنا عزیز تھا کہ بہت سی صحابیات صرف غریبوں  ،محتاجوں کی امداد کی خاطر ہی آمدنی کے حصول میں کوشاں و سرگرداں رہتی تھیں۔ وہ غریبوں، مسکینوں کی مدد اور دین کی راہ میں مال خرچ کرنے میں سکون اور مسرت محسوس کرتیں۔ اپنے دست بازو سے کمانے کے باوجودبالکل سادہ رہتیں، سادہ کھاتیں، سادہ پہنتیں۔ اکثر مواقع تو ایسے پیش آتے کہ کوئی سائل اگر آجاتا تو گھر میں جو موجود رہتا سب کا سب خیرات کردیتیں اور خود بھوکی رہتیں۔

یہ ہیں صحابیات کی زندگیوں کی اور اور ان کے حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مقاصد کی چند مثالیں۔ وہ محل تعمیر کرنے، قیمتی گدے وغالیچے بنانے، اپنے معیارِ زندگی کو اونچا اٹھانے، نمود ونمائش کرنے،شادی بیاہ میں فضول خرچ کرنے یا اپنے اپنے گھر کو ڈیکوریٹ بنانے کے لیے کمائی نہیں کرتی تھیں۔

عورت کے حصول معاش کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ملحوظ رہے کہ بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری لازم ہے۔ فرائض کے سوا نفلی عبادت تک میں شوہر کی اجازت ضروری قرار دی گئی ہے۔ اگر شوہر اجازت نہ دے تو بیوی نفل روزہ نہیں رکھ سکتی اور جس وقت شوہر منع کردے اس وقت وہ نمازوں میں لمبی لمبی سورتیں نہیں پڑھ سکتی۔ یہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ اگر شوہر بیوی کو حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہ دے جبکہ خود اس کا شوہر اس کی بنیادی ضروریات کماحقہ پوری کررہا ہو تو بیوی کے لیے جائز نہیں کہ شوہر کی مرضی کے خلاف کمانے کے لیے گھر سے باہر نکلے۔ اگر وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہی کمانا چاہتی ہے تب بھی نہیں۔

دوسری یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو فرائض عورت پر عائد کئے اور جس مقصد کی خاطر اس کو وجود میں لایا یعنی بچوں کی افزائش و پرورش، گھر کی ذمے داریاں اور شوہر کی خدمت۔ اگر اس مقصد کو خیرباد کرکے وہ حصول معاش کی دوڑ میں لگ جائے تو ظاہر ہے اس کی سعی وجہد اللہ تعالیٰ کی نظر میں ناپسندیدہ ہوگی۔ اگر اس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے والا ہی کوئی نہ ہوتو اور بات ہے۔ ورنہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل ادا کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ فرض کیجیے اگر کوئی شخص فرض نمازیں تو نہ پڑھے لیکن نوافل میں مصروف رہے تو فرض نمازیں چھوڑنے پر اس کی ضرور باز پرس ہوگی ایسی صورت میں اس کی نفل نمازوں کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا مقام ہوگا؟ آپ ہی بتائیں، کیا خداوند کریم اس کا یہ جواز قبول کرلیں گے کہ ہمیں نوافل کے اہتمام کےسبب فرض نمازوں کی ادائی کی مہلت ہی نہ مل سکی۔ یہ بات پھر اچھی طرح واضح ہوجائے کہ خداوند کریم نے عورت کو کسب معاش کی سرگرمیوں کی صرف اجازت دی ہے اس پر اس کی ذمے داری نہیں ڈالی ہے۔

یہ بات بھی کچھ محتاج بیان نہیں ہے کہ معاشرے کی اکائی گھر ہے۔ گھر کی ترقی گویا معاشرے کی ترقی ہے۔ اور معاشرے کی ترقی کے لیے ہی عورت کو اپنی گھریلو زندگی کے معاملات میں کلیدی رول ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ایک نہایت ہی اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی پرورش و پرداخت کرے۔ ان کو صحیح تعلیم وتربیت دے اور اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے اور بہترین انسان بنائے۔ کیونکہ آج کے بچے ہی کل کے معمار ہیں۔ اور بچوں کی صحیح پرورش و تربیت اسی وقت ممکن ہے کہ جب ماں انہیں اپنا سارا وقت دے۔ بچے کی صحیح نشوونما کے لیے صرف یہی ضروری نہیں کہ اسے مناسب غذا ملتی رہے اور اس کی صحت کی حفاظت و صفائی ستھرائی کا اہتمام ہوتا رہے، بلکہ ماں کی ممتا وہ بیش قیمت شئے ہے جو بچے کے بننے سنورنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ اور وہ صرف  ماں ہی دے سکتی ہے۔ ماں کاکوئی بدل نہیں۔ اگر بچوں کو ان جذبات سے محروم کردیا جائے تو ان کی شخصیت پژمردہ ہوجائے گی۔ مایوسی و قنوطیت ان پر طاری رہے گی، کیونکہ ماں کی گود ہی بچے کا پہلا مدرسہ ہے جہاں سے بہترین انسان بن بن کر نکلتے ہیں۔

اگر عورت کسب معاش کی کوششوں میں سرگرم رہے تو بچوں کی اور گھر کی ذمے داریاں کون سنبھالے؟ وقت پر گھر کے ہر فرد کی صحت کے اعتبار سے مناسب غذا کون تیار کرے؟ شوہر بھی باہر کے جھمیلوں سے حیران و پریشان تھکاہارا گھر پہنچتا ہے تو بیوی ہی کی ایک مسکراہٹ  اس کی ساری تھکان و پریشانی دور کردیتی ہے اس کاغم غلط ہوجاتا ہے۔ دوسرے دن پھرنئے سرے سے وہ زندگی کی  جدوجہد میں لگ جاتا ہے۔ آپسی پیار ومحبت بڑھانے کا یہ ایک بہترین آلہ ہے۔ لیکن اگر مسکراہٹ کے پھول بکھیرنے والی ہی گھر پر موجود نہ ہو۔ ذہنی سکون و اطمینان  و خوشی بخشنے کا ذریعہ ہی باہر ہوتو کون شوہر کو یہ ذہنی سکون عطا کرے گا؟ اور اگر شوہر کو یہ خوشی و سکون میسر نہ آئے تو اس کا جینا دوبھر ہوجائے گا اور کسی دوسری عورت سے وہ سکون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح آپس میں دوریاں بڑھنا شروع ہوں گی۔ آخر ایک جنت نشاں گھر جہنم کدہ بن جائے گا۔

لیکن کیا کیا جائے مغرب کے صنعتی انقلاب اور مسرفانہ طرز زندگی کا کہ ہر ایک پر دولت کمانے کا نشہ مسلط ہوگیا ہے۔ مرد ہو یاعورت سب ذرائع آمدنی تلاش کرنے اور اپنا بینک بیلنس بڑھانے میں غلطاں وپیچاں نظر آتے ہیں۔ یہ مادہ پرستانہ ہوس خود غرضی کی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اب وہاں یہ عالم ہوگیا ہے کہ خواہ اولاد ہو یا بیوی یا والدین، کوئی کسی کی کفالت کرنے کو تیار نہیں۔ بوڑھوں کے لیے اولڈ ایج ہومس بنا دیے گئے ہیں جہاں انہیں داخل کردیا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے بھی حکومت نے الگ انتظام کر رکھا ہے ۔ وہاں لوگ اپنے بچوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ آپ خود بتائیں ، کیا بچوں اور بوڑھوں کو وہاں والدین اور اپنی اولاد کا سکھ اور خوشی مل سکتی ہے؟ گھر کا سکون مل سکتا ہے؟

دراصل یہ خود غرض و سماج دشمن عناصر کی چال ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ گھر کی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ عورت پر اس کی اپنی اور بچوں کی معاشی ذمےداریوں کا بوجھ بھی ڈال دیںاور مردوں کو بیوی بچوں کی معاشی و دیگر ذمے داریوں سے آزاد کردیں۔ لیکن بنا کسی قسم کی ذمےداریوں کا بوجھ اٹھائے وہ عورت کی جنسی لذت سے فائدہ ضرور اٹھاسکیں۔ اپنے اس مقصد کی خاطر انھوں نے آزادیٔ نسواں  اور مساوات مرد وزن جیسے پرکشش نعرے بلند کرکے عورتوں کو گھر سے باہرنکالا اور سماج کے خاندانی بندھنوں کی زنجیریں کاٹ ڈالیں۔ گھریلو زندگی کو نہایت گھنائونا بناکر پیش کیا۔ اور آپسی خاندانی و خونی رشتوں کو اوران کے ذریعے دی جانے والی محبت وقربانیوں کو فضول قرار دیا۔ عورت کے ہمدرد بن کر اسے بہکایا گیا کہ وہ کیوں سماج کے خاندانی بندھنوں میں بندھ کر شوہر کی غلام و محکوم بنی رہے۔ وہ آزاد ہے پھر کیوں نہ آزادی سے خود ہی کمائے۔ کیوں دنیا کی رنگینیوں اور لذتوں کو چھوڑ کر اور پردے میں رہ کر بچے پیدا کرنے کی تکلیفیں گوارا کرے۔ یہ آزادی کا دور ہے ذرا باہر آئو اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرکے زندگی کے دوڑ میں مردوں سے مسابقت کرکے دیکھو۔ حکومت وسیاست کے ایوان دفاتر اور کمپنیوں کے اونچے اونچے مناصب تمہارے منتظر ہیں، جن سے تم اب تک محروم رکھی گئی تھی۔ عورت ان دلفریب باتوں سے مسحور و مسخر ہوکر گھر سے باہر آگئی اور یہی باور کرنے لگی کہ واقعی صدیوں کی غلامی کے بعداب  اسے آزادی ملی ہے۔ یہی نہیں بلکہ فحاشی، عریانی، فحش وعریاں فلمیں، فحش ناچ گانے، فحش تصاویر، بہترین آرٹ و کلچر بناکر پیش کئے گئے۔ ان کا خوب پروپگنڈا کیاگیا۔ اسکولوں میں کمسن بچوں میں مانع حمل کی گولیاں اور دوسری اشیاء تقسیم کی گئیں اور عورت اور مرد کے تعلقات کے باقاعدہ سبق انہیںپڑھائے گئے ۔ مقابلہ حسن ، بیوٹی کانٹسٹ، ماڈلنگ اورفیشن شو کے نام سے عورت کے جسم سے کپڑے تک اتار ڈالے گئے۔ نہایت باریکی سے اس کے ایک ایک عضو کو گنا، ناپا اور پرکھا گیا اور اس کی عصمت ونسوانیت کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ تاکہ عورت شرم وحیا کا زیور اتار ڈالے اور اپنے ہاتھوں اپنے مذہبی ،سماجی وخاندانی بندھنوں کو توڑ کر باہر آجائے اور بناکسی پس وپیش کے مرد کی ہوس رانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کردے۔ اور کوئی ماں، کوئی بہن اور کوئی بیٹی نہ رہے۔

پھر ان دلفریب نعروں سے متاثر نادان عورت کو کیا دیا گیا؟ دفتروں میں کلرکی عطا کی گئی۔ اجنبی مردوں کے پی اے بننے کا اعزاز بخشا گیا۔ کلبوں کی زینت بنایا گیا۔ اسٹینو بننے کا اعزاز دیاگیا۔ اسے اپنی تجارت چمکانے کے لیے سلز گرل و ماڈل گرل بننے کا شرف بخشا گیا۔ اس کے ایک ایک عضو کو برسربازار رسوا کرکے گراہکوں کو دعوت دی گئی کہ آئو ہم سے مال بھی خریدو اور اپنی تشنہ نگاہوں کی پیاس بھی بجھائو۔ یہاں تک کہ وہ عورت جو دین وخاندان کی آبرو اور عفت و عصمت کی چادر تھی تجارتی اداروں کے لیے شو پیس اور مردوں کی ہوس پوری کرنے کا ذریعہ بن گئی اور جگہ جگہ ہر کھیت کی مولی اور ہر کیاری کی گاجر بننے لگی اور ہر منڈلانے بھنورے کی جنسی پیاس بجھانے لگی۔

یہ تصویر ہے مساوات مرد وزن اور آزادی نسواں کا نعرہ بلند کرنے والی قوموں کی کہ وہاں خود عورتیں ہی اپنے خاندانی نظام کو درہم برہم کر رہی ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے خونی رشتوں تک کو پامال کر رہی ہیں۔ مشہور امریکن رائٹر مسٹر لوسن کے احساسات بھی ذرا سن لیں۔ رسالہ ریویو آف ریوایوز میں وہ لکھتا ہے:

’’عورت نے حدود طبعی کے دائرے سے قدم باہر رکھ دیا تو اس کے کمال کو زوال لاحق ہوگیا اور وہ تباہی کے غار میں جاگری‘‘ ۔آگے بڑی حسرت سے کہتا ہے: ’’ہمارے گھر ٹوٹ چکے ، ہمارا جوڑا ختم ہوگیا اب ہم نہ کسی کے باپ ہیں نہ بیٹے نہ ہمارا کوئی رشتے دار ہے، رشتہ ہے تو صرف غرض کا‘‘۔ پھر کہتا ہے ہائے میری وہ ماں کہاں گئی جس نے مجھے پالا تھا‘‘۔

یہ انجام ہے عورت کا حصول معاش کی دوڑ میں مردوں سے مسابقت کرنے کا۔

ایک گھر ایک خاندان میں شوہر بیوی و رشتے داروں سے جو خوشی حاصل ہوتی ہے ان کے آپسی محبت وقربانیوں سے اور ایک دوسرے سے پرخلوص تعلقات سے جو سکون ملتا ہے۔ جو راحت ملتی ہے وہ بھی عورت کے باہر کی ذمے داریاں قبول کرلینے سے رخصت ہوئی۔ ساری رشتے داریاں ختم ہوگئیں۔ ہر ایک خود اپنی ذرائع آمدنی تلاش کرنے پر مجبور ہوگیا۔ شوہر اپنی بیوی کی والدین اپنی اولاد کی کفالت ومعاشی ذمے داریاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں رہے۔  بچے والدین کے پیاراور خاندان کے تحفظ سے محروم ہوگئے۔ بلکہ ماں باپ دونوں بھی اپنے آپ کو بچوں کی ذمے داریوں سے بری الذمہ سمجھنے لگے۔ باپ کا پیار اور ماں کی ممتا تک رخصت ہوئی۔ بچوں کی تربیت نہ ہونے اورانہیں پیار، محبت و خاندان تحفظ نہ ملنے کے سبب قتل ڈاکہ زنی جیسے جرائم کی شرحیں تشویشناک حد تک بڑھ گئیں۔ علاقوں کی شرح میں بھی خطرناک  حد تک اضافہ ہوا۔ یوں شوہر اور بیویاں بدلنا بالکل معیوب نہ رہا۔ بچوں کا بچپن تک رخصت ہوا۔ آنکھ کھولتے ہی انہیں ہر طرف  جنسی گندگی اور اس کے سامان نظر آنے لگے اور وہ بھی بچپن ہی سے ان گندے کھیلوں میںمنہمک رہنے لگے۔ زندگی کا صر ف اور صرف ایک ہی مقصد رہ گیا۔ پیسہ کمانا عیش کرنا اور جنسی ہوس پوری کرنا۔

مساوات مرد وزن یا معاشی استحکام کا نام لے کر عورت کو حصول معاش کی دوڑ میں لگادیے جانے سے ہمارے ملک میں بھی جو انقلاب آیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورت مرد کی ماتحتی سے آزاد ہوگئی اور گھروں کی ذمے داریوں سے بھی لاپروا۔ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام سنبھالے یہ اصول ختم ہوگیا! اب یہ اصول وضع ہوا کہ مرد اور عورت دونوں کمائیں اورگھر کا انتظام  خادموں کے سپرد کریں۔

عورت کے حصول معاش کی اس دوڑ نے اسے ذلت و پستی کی گہرائیوں میں پہنچا دیا۔ وہ ہر جگہ مردوں کی ہوس کا شکار ہونے لگی، نہ گھر کی رہی نہ باہر کی۔ اور اب تو ہمارے مسلم طبقے میں بھی یہ احساس گھر کر رہا ہے کہ عورت اور مرد دونوں اگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں تو معاشی حالت کا سدھار ممکن نہیں۔ آج مسلم معاشرے میںتعلیم نسواں کا مقصد صرف روٹی روزی حاصل کرنا قرار دیا جارہا ہے۔ غیر مسلم طرز زندگی اپنائی جارہی ہے۔ مسلم حلقوں میں یہ غلغلے مچائے جارہے ہیں کہ مسلم عورت کو اسلام نے حصول تعلیم اور حصول معاش کی اجازت دی ہے۔ تب وہ بھی کیوں کمانے کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہے؟ کہیں اس اجازت کو لازمی حد تک قرار دیا جارہا ہے اور جس کے لیے قرآن کی اس آیت سے جواز لیا جارہا ہے۔

لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا۝۰ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ۔ (سورہ النساء: ۳۲)

’’جو کچھ مردوں نے کمایا اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا اس کے مطابق ان کا حصہ ہے‘‘۔

بلاشبہ اس آیت میں عورتوں کے لیے حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ لیکن اس مفہوم کے ساتھ ساتھ مفسرین نے اس آیت کی یہ تفسیر بھی بیان کی ہے کہ جو نیکی یا بدی مرد کمائیں گے اس کے مطابق انہیں آخرت میں جزا یا سزا دی جائے گی اور جو نیکی یا بدی عورت کمائے گی اس کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جائے گی۔ یعنی آخرت میں جزا یا سزا دینے کے سلسلے میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہ کیا جائے گا۔

عورت کے حصول معاش کے سلسلے میں کہیں یہ رونا رویا جاتا ہے کہ عورت کمائے نہیں تو کیا کرے، حالات ہی ایسے ہیں اور کہیں یہ کہ شوہر اپنی ذمے داریاں پوری نہیںکرتے تب تو عورت کے لیے حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینا لازمی ہے۔ میں کہوں گی کہ جو مسائل دینی احکام سے غافل رہنے کے سبب پیش آرہے ہیں کیا ان کا واحد حل صرف یہی ہے کہ عورتوں کو کسب معاش کی سرگرمیوں میں سرگرداں کردیا جائے ؟ کیا اس طرح سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا جو عورتیں کما رہی ہیں ان کے سارے مسائل حل ہوگئے؟ یہ ٹھیک ہے جن عورتوں کو یہ مسائل درپیش ہیں وہ ان کے لیے اضطراری حالات ہیں۔ لیکن پورا معاشرہ دینی غفلت کے سبب جو معاشی ومعاشرتی مسائل کے سمندر میں غرق ہوا جارہا ہے کیا اس کے سلسلے میں ہماری یعنی ہر ایک کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ ان کے حل دین میں تلاش کریں۔ مرد اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں۔ دین سے غفلت کے سبب ، اولاد والدین کے ساتھ بدسلوکی کر رہی ہے۔ وہ بھی بے دینی کے سبب جہیز کے بڑھتے ہوئے مطالبے غریب لڑکیوں کی شادیوں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیںبے دینی کے سبب۔ غرض یہ کہ ہر مسئلے کا علاج دین کے احکام پر عمل ہے۔ ان کی تلقین کرتے رہو اور عمل کی ترغیب بھی۔ سارے مسائل آپ سے آپ حل ہونے لگیں گے۔

ویسے بھی موجودہ دور میں معیار زندگی کو اونچا اٹھانے ، ہر فنکشن کے لیے نیا بیش قیمت جوڑا بنانے ، بیوٹی پارلرس کے اخراجات پورے کرنے، شادی بیاہ کے اصراف والے فنکشن منعقد کرنے اور نمود ونماش میں دوسروں سے بازی مار لے جانے کی خاطر بھی مسلم عورتوں کو حصول معاش کا چسکا لگ گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۔حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔(التکاثر)

’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو‘‘۔

آگے ارشاد ہے:

لَتَرَوُنَّ الْجَــحِیمَ۔ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَینَ الْیقِینِ۔       (التکاثر)

’’تم دوزخ دیکھ کر رہوگے‘‘(یعنی اگر تمہاری ایسی ہی غفلت کی روش تادم آخر رہی) دوبارارشاد ہے: ’’پھر تم بالکل یقین کے ساتھ اسے دیکھ لوگے‘‘۔ (التکاثر)

اخیر میں پھر یہ عرض کروں گی کہ حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی عورت کو صرف اجازت ہے۔ یہ اس کی ذمے داریوں میں شامل نہیں۔ کچھ بہنوں کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی روٹی روزی آپ کمائیں۔وہ اگر ان کی مجبوری ہے کہ کمائے بنا ان کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں ہے تو ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ روزگار کے ایسے ذرائع تلاش کریں جن میں حدود اللہ پر قائم بھی رہا جائے اور حالات سے بھی نپٹا جائے۔ موجودہ دور میں ایسے ذرائع معاش حاصل کرنا کچھ زیادہ دشوار بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کئی طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔

اور جو خواتین حالات سے مجبور بھی نہیں ہیں وہ بھی اپنی گھریلو ذمے داریوں کو بحسن وخوبی نبھاتے ہوئے اوراحکام حجاب کے حدود وں کا پوری طرح لحاظ کرتے ہوئے اگر حصول معاش کی سرگرمیوں میں حصہ لیں جبکہ صرف دنیا طلبی ہی ان کا مقصود نہ ہوتو اسلام کی نظر میں ہرگز ناپسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن عام طورسے خواتین کو روزگار یا کاروبار میں مردوں کےمقابل لانا یا آزادیٔ نسواں ومساوات مرد وزن کے نعرے بلند کرکے عورتوں کو باہرگھسیٹ لانا عورت کا مقام اور اس کی نسوانیت کا استحصال ہے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223