یادرفتگاں

ڈاکٹر تابش مہدی

سب کو موت کی یاد دلانے والے شمس نوید عثمانی رحمتہ الہ علیہ کو موت کی آغوش میں سوئے ہوئے سترہ برس کاعرصہ گزرگیا۔ لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ وہ ہمارے درمیان اب بھی موجود ہیں، ہم سب کو تعارف اسلام اور دعوتی جدوجہدکے لیے اکسارہے ہیں اور صحابہ کرام(رض) کی زندگیوں کو ہمارے سامنے اس طرح پیش کررہے ہیں گویا ہم بھی اُسی مقدس دور میں بیٹھے ہوے ہیں۔ موت کی یاد اور آخرت کے احساس سے خود بھی تڑپنا اور دوسروں کو بھی تڑپانا ان کا وظیفۂ زندگی تھا۔

جناب شمس نوید عثمانی ؒ ایک بلندپایہ اسلامی ادیب بھی تھے اور پُرگو شاعر بھی۔ اسلامی اور اسلام پسندی کاٹائٹل بہت عام ہوگیاہے۔ ہم ہر اُس شاعر وادیب کو اسلام پسند یا اسلامی کہہ دیتے ہیں ، جو کسی اسلامی تنظیم سے وابستہ ہویا اس کی دوچار نگارشوں میںاسلام کاذکر آگیاہو۔ لیکن جناب شمس نوید عثمانی ہندو پاک کے اُن چند ادیبوں اور شاعروں میں تھے، جنھیں صحیح معنوں میں اسلام پسند یا اسلامی ادیب کہاجاناچاہیے۔ ان کی پوری زندگی ملک نصراللہ خاں عزیزؒ  کے اس شعر کامصداق تھی:

مری زندگی کا مقصد، ترے دیں کی سرفرازی

میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی

شمس نوید عثمانی ؒ  ادبی دنیا میں ماہ نامہ تجلّی دیوبند کے مستقل کالم ‘کیاہم مسلمان ہیں؟’ سے متعارف ہوئے۔ پھریہی کالم اُن کی شناخت بن گیا۔ ‘تجلّی’ کی بے پناہ مقبولیت میں مدیر تجلّی کے دوسرے مستقل عنوانوں کے ساتھ ساتھ جناب شمس نوید عثمانی کے مستقل کالم‘کیاہم مسلمان ہیں؟’ کو بھی بہت کچھ دخل تھا۔ مدیر تجلّی مولانا عامر عثمانی ؒ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ لیکن اس کے تین حصّے جو کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں، وہ اسلامی ادب میں شہ پارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد تینوں حصّے یک جا کردیے گئے اور ان کی اہلیہ محترمہ خدیجہ نوید عثمانی کی اجازت سے یہ کتاب ملک کے عظیم اشاعتی ادارے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہورہی ہے۔

جناب شمس ۷۲۹۱میں دیوبند کے معزز و علمی خانوادے ﴿خانوادۂ عثمانی﴾ میں پیدا ہوئے۔ شیخ الاسلام علاّمہ شبیر احمد عثمانیؒ  کے برادر زادے اور تحریک اسلامی کے بے باک نقیب حضرت مولانا عامرعثمانیؒ  کے برادرِ عمّ زاد اور بہنوئی تھے۔ ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے اور پروان چڑھانے میں مولانا عامرعثمانیؒ  کی برادرانہ و مشفقانہ توجّہ کو بھی دخل تھا۔

جناب شمس نوید عثمانی زبان و قلم کے ہی نہیں کردار و عمل کے بھی غازی تھے۔ بل کہ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگاکہ مرحوم جتنا کہتے یا لکھتے تھے، اس سے زیادہ عمل کرتے تھے۔ اپنے کردار و عمل کو بنانے اور سنوارنے کی کوشش سے وہ کبھی غافل نہیں رہے۔ راقم الحروف کی کم و بیش بیس سال تک اُن سے کسی نہ کسی درجے میں وابستگی رہی ہے، اس دوران میں انھیں دور و نزدیک سے بھی دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملاہے اور سفر و حضر میں بھی۔ کبھی اور کسی موقعے پر ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ملا۔ نہ کسی کی غیبت و بدگوئی ان کی زبان سے سننے کو ملی اور نہ کوئی خلافِ واقعہ بات یا کسی قسم کا شکوہ و شکایت ۔میں عمر کی تقریباً ساٹھ منزلیں طے کرچکاہوں۔ اس عمر میں تقریباً ہرسطح اور ہرمکتب فکر کے لوگوں سے مراسم رہے، لیکن ایسے لوگ معدودے چند ہی مل سکے ہیں، جنھیں تقویٰ، طہارت، احتیاط، خداترسی، آخرت بینی، اخلاص، للہیت، احساس ذمّے داری، اداے حقوق اور اتباعِ سنت میں مرحوم کا ہم سر و مثیل کہاجاسکے۔

موت سے تقریباً دس گھنٹے پہلے کی بات ہے، جناب عمرفاروق عثمانی ﴿مولانا عامر عثمانیؒ  کے برادرِ خرد اور شمس نوید عثمانی ؒ کے برادرنسبتی﴾ اور مولانا حسن احمد صدیقی﴿مولانا عامر عثمانی کے داماد، جو اِن دنوں حسن الہاشمی کے نام سے جانے جاتے ہیں﴾ مرحوم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ نویدعثمانی کی علالت کی خبر پاکر رام پور گئے ہوئے تھے۔ حسن صاحب تو کچھ وقت گزارکر وہاں سے بریلی چلے گئے، لیکن بھائی فاروق صاحب اپنی بہن کی حالت کسی قدر زیادہ خراب دیکھ کر وہیں رک گئے۔اس لیے کہ شمس صاحب گھر میں تنہا تھے۔ تیمارداری اوردوا لانے اور کھلانے کا کام تنہا ایک فرد کے بس کی بات نہیں ہوتا۔ شمس صاحب نے اپنے برادرِ نسبتی کی ضیافت کے لیے بازار سے سیب منگائے۔ چھلکوں والے سیب خود کھاتے رہے اور بھائی فاروق صاحب کو چھلکے اُتارکر دیتے رہے، جب سیب کھاچکے تو چھلکے ایک کاغذ کی تھیلی میں ڈال کر پلنگ کے نیچے رکھ دیے۔ فاروق صاحب صورت حال سے واقف نہیں تھے۔ انھوںنے چھلکوں کی تھیلی اُٹھائی کہ اُسے کوڑے دان میں ڈال دیں۔ بھائی شمس مرحوم نے فوراً ان کے ہاتھ سے تھیلی لے لی اور کہاکہ اسے میں پھینکوںگا۔ چنانچہ تھوڑی دیر بعد انھوںنے تھیلی اُٹھائی اور بہت دور کہیں لے جاکر اُسے پھینکا۔ اُن کی اہلیہ نے بتایاکہ اُن کایہ عمل کئی برسوں سے ہے کہ وہ پھلوں کے چھلکے کوڑے دان میں محض اس وجہ سے نہیں ڈالتے کہ اُسے بھنگن اُٹھاکر لے جاتی ہے اور جب وہ پھلوں کے چھلکے دیکھے گی تو اُس غریب کے دل میں یقینا کسک پیداہوگی۔ خدا جانے اس کے بچوں کو پھل کھانے کو ملتے ہیں یا نہیں۔

شمس نویدعثمانی مرحوم کرایے کے جس مکان میں رہتے تھے، وہ بالائی منزل پر تھا۔ نیچے سے اوپر پانی لے جانے میں انھیں بڑی دقت ہوتی تھی۔ بعض دوستوں نے دوڑ دھوپ کر میونسپلٹی سے رننگ واٹر کانظم کرادیا۔کاغذی کارروائیوں سے پانی تو جاری ہوگیا ،لیکن اور دوسری چیزیں باقی رہ گئیں، جس کی وجہ سے وہ گڈھا نہیں پاٹاجاسکا، جو اس سلسلے میں کھودا گیاتھا۔ مرحوم پانی کے نظم سے تو خوش ہوئے لیکن، انھیں یہ خدشہ لاحق ہوگیاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ رات کے اندھیرے میں کوئی ادھر سے گزرے اور اس گڈھے میں گرپڑے۔ چنانچہ انھوںنے لالٹین جلائی اور اُس کوگڈھے کے پاس رکھ دیا۔ تراویح پڑھ کر خود بھی اسی کے پاس بیٹھے پوری رات نگہبانی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہیں سحری بھی کھائی۔ صبح کو جب خوب روشنی ہوگئی، تب وہ وہاں سے ہٹے۔

ایک مرتبہ دیکھاکہ کسی چیز سے وہ ایک اٹھنی کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب وجہ پوچھی گئی توبتایاکہ کسی دکان دار نے غلطی سے یہ کھوٹی اٹھنّی انھیں دے دی تھی۔ وہ اس غرض سے توڑرہے ہیں کہ اگر اُسے یوںہی پھینک دیںگے تو ممکن ہے کہ کسی کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاکر کسی دوسرے بھائی کو نقصان پہنچادے۔

یہ محض چند واقعات نمونے کے طورپر نقل کردیے گئے ۔ ورنہ ان کی زندگی میں اِس قسم کے ایک دو نہیں لاتعداد واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ یہ واقعات بہ ظاہر بہت معمولی ہیں، لیکن ان کی تہہ میں خداترسی اور حقوق شناسی کی جو دنیا بسی ہوئی ہے، اسے بس محسوس کیاجاسکتا ہے۔

جناب شمس نوید عثمانیؒ  زندگی کے آخری دس پندرہ برسوں میں ہندستان کے قدیم مذاہب کامطالعہ کررہے تھے۔ ان کے اس مطالعے کے جو نتائج کتابوں اور مضامین کی شکل میں شائع ہوتے رہے ہیں، اُن سے علمی دنیا میں خاصا اضطراب رہا۔ راقم الحروف بھی قدیم نیاز مندانہ تعلق کے باوجود اس ذیل میں اُن سے متفق نہیں ہوسکا۔ اپنے اختلاف کااظہار اُن سے بھی کیاہے اور اُن کے ارادت مندوں سے بھی۔ ملک کے دوسرے علمی حلقوں کی طرف سے بھی تنقیدیں ہوئیں۔بالعموم لوگوں نے ان کی اِس کوشش کو پسند نہیں کیا۔ لیکن ان کے اخلاص وللہیت اور خداترسی کا اعتراف ہر ایک کو رہا اور ہے۔ وہ جوکچھ کررہے تھے، اُسے اپنا فریضہ سمجھ کر کررہے تھے۔ ہم نے یہ منظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھاہے کہ کسی نے بتایاکہ ‘فلاں محلّے میں ایک غیرمسلم ہیں، وہ آپ کے پیغام کو سمجھنے کے لیے آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، جب آپ کہیں انھیں آپ کے پاس بلایاجائے۔’ بس اُسی وقت وہ کھڑے ہوگئے۔ وقت خواہ کچھ بھی رہاہو۔ اس شخص کے ہاں پہنچنے اور اپنے مخصوص انداز میں اس تک اسلام کی دعوت پہنچائی اور چلتے وقت اُس شخص سے لپٹ کر بہت بہت دیر تک روتے رہے اور جب وہاں سے لوٹ کر گھر آئے تو وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی اور اس غیرمسلم بھائی کے لیے گھنٹوں دعائیں کیں۔ اِس قسم کے متعدد واقعات ایسے ہیں، جن میں میں بھی شریک رہاہوں۔

۱۹۹۰ کے کسی مہینے کاذکر ہے۔ رام پور میں اُن کی کتاب کے حوالے سے ایک غیرمسلم وکیل نے ایک مضمون لکھا۔ وہ مضمون رام پور کے ایک مقامی ہندی اخبار میں شائع ہوا۔مضمون رام پورکے مسلمانوں کے لیے کسی قدر دل آزار تھا۔ چنانچہ اس کے خلاف جلوس نکلے اور مضمون نگارکی گرفتاری کامطالبہ کیاگیا۔ یہاں تک کہ گرفتاری عمل میں بھی آگئی۔ شمس صاحب حالات کو مکّدر دیکھ کر لوگوں کے مشورے سے دیوبند آگئے۔ یہاں آکر انھوں نے تین چار افراد پر مشتمل ایک میٹنگ کی۔ ازراہِ ذرّہ نوازی مجھے بھی بلایا۔ فرمایا:

’’غیرمسلم بھائی نے جو نتیجہ میری تحریر سے نکالاہے، وہ درست ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلناچاہیے تھا۔ میرے الفاظ وضاحت طلب ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ وضاحت کرکے اخبارات میں بھیج دوں۔ تاکہ آیندہ کسی غیرمسلم بھائی کو وہ مفہوم اخذ کرنے کاموقع نہ ملے جو ہمارے مسلم بھائیوں کی دل آزاری کا سبب بنا۔ ورنہ سارا گناہ میرے ہی کھاتے میں جائے گا۔‘‘

ایک مولانا صاحب جو کہ اُن کے مشن میں کئی ماہ سے لگے ہوئے تھے۔ اُنھیں مرحوم کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ خدا جانے کیوں ان کی رائے تھی کہ ابھی وضاحت کرنا قبل از وقت ہوگا اور ہمارے مشن کے لیے مفید نہیں ثابت ہوگا۔ لیکن مرحوم نے بڑی سختی سے اپنے فیصلے پر عمل کرنے کااعلان کیا اور فرمایا:

’’آپ کہتے ہیں کہ ابھی وضاحت کا وقت نہیں آیا، اگر میں اس دوران میں مرگیا اور وضاحت نہ کی تو جس طرح ایک ہندو بھائی نے اس سے غلط نتیجہ اخذ کرلیا، اسی طرح نہ جانے کتنے لوگ گم راہ ہوتے رہیں گے۔‘‘

چنانچہ انھوں نے عشاکے بعد کا وقت مقرر کیاکہ ہم لوگ وہاں جمع ہوں تاکہ وہ وضاحت آمیز معذرت نامے کا مسودہ تیارکرکے سنائیں اور باہمی نقد و تبصرہ اور رائے و مشورہ کے بعد اُسے اخبارات کو بھیجاجاسکے۔ راقم الحروف طے شدہ پروگرام کے مطابق عشا کی نمازپڑھ کر اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ بارہ بجے تک انتظار کرنے کے بعد جب میں واپس ہونے لگاتو اچانک سامنے سے وہ آگئے ان کے ہم راہ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ وہ مولانا صاحب بھی تھے، جو اِس بات سے متفق نہیں تھے کہ مرحوم شمس صاحب کسی قسم کی وضاحت شائع کریں۔ مرحوم نے دور سے ہی دیکھ کر معذرت آمیز لہجے میں فرمایا : ‘بھائی تابش صاحب! دوستوں کا شدید اصرار ہے کہ ابھی میں ایک دو روز مزید اپنے فیصلے پر غورکروں۔

جناب شمس نوید عثمانی دینی قدروں کے معاملے میں بہت حساس واقع ہوئے تھے۔ رام پور میں ایک صاحب تھے جو کہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ اپنے افکار و خیالات میں بہت آزاد واقع ہوئے تھے۔ دینی احکام کی من مانی تعبیر وتوجیہہ ان کا مزاج بن چکاتھا۔ چودھری غلام احمد پرویز کو وہ اپنا فکری ہیروبتاتے تھے۔ قادیانیوں کے سلسلے میں بھی ان کے نظریات عام مسلمانوں سے مختلف تھے۔ مرکزی مکتبہ اسلامی کو کسی مسئلے میں انھیں خط لکھنا تھا، لیکن ڈاک کاپتا معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً خط لکھ کر بھائی شمس مرحوم کے پتے پر پوسٹ کردیاگیا۔اس لیے کہ ماضی میں ان سے ان کے اچھے مراسم رہے ہیں۔ چند دنوں بعد وہ لفافہ کھولے بغیرایک دوسرے لفافے میں رکھ کر میرے نام واپس کردیا۔ اس کے ساتھ یہ خط بھی تھا:

رامپور

۱۸/اکتوبر۹۲؁

برادرمحترم!  السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ’

﴿…صاحب﴾ کے نام یہ لفافہ آپ نے میری معرفت روانہ کیاہے۔ افسوس کہ جس … سے میرا تعلق تھا، وہ بقول خود ان کے مرگیا ہے۔ موجودہ …سے اور ان کے موجودہ خلاف کتاب و سنت وفکرو نظر سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اور میں اتنا بھی جائز نہیں سمجھتاکہ ان کی ڈاک میں آیندہ آپ میری وساطت و معرفت، کو استعمال فرمائیں۔ مجھے بے حد دکھ کے ساتھ اور خوف خدا اور ….کے متعلق عبرت اور دعاء خیرکے فرض کی بھرپور ادائی کی تڑپ کے ساتھ یہ چند سطور لکھنی پڑرہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سابقہ … کو ان کے نام کے مطابق اورہمیں بھی ہمارے ناموں کے مطابق ہمیشہ کے لیے اسم باسمیٰ بنائے اور خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین

شمس نوید

خط میں جہاں انھوں نے ان صاحب کا نام لکھاتھا، وہاں میں نے تین نقطے لگادیے ہیں، تاکہ ان کے عزیزوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس لیے کہ اب وہ بھی دنیا میں نہیں رہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

بھائی شمس نویدعثمانی کے اس خط سے کتاب و سنت سے ان کے والہانہ تعلق اور غیرمعمولی وابستگی و شیفتگی کااندازہ ہوتاہے۔ ورنہ اب تو بڑی سے بڑی گم راہی اور کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی بات محض نقطہ نظرکا اختلاف کہہ کر نظرانداز کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ عذاب قبر، رفعِ مسیح، سزاے رجم، مرتد کی سزا، معراج اور معجزہ جیسے متفق علیہ احکام و مسائل کے انکار بل کہ مذاق اور تمسخرمحض نقطہ نظر کا اختلاف کہہ کر بات ختم کردی جاتی ہے۔ میں اِسے دینی قدروں سے بے تعلقی اور یک گونہ بے حسی سمجھتاہوں۔

جناب شمس نوید کو اپنے مطالعۂ مذاہب کے مشن سے اس درجہ تعلق تھا کہ انھوںنے اپنی سرکاری ملازمت سے سبک دوشی اختیارکرلی اور بہت محدود پنشن پر گزراوقات کرتے رہے۔ ان کے نیازمندوں کو رہ رہ کر یہ خیال آتاہے کہ کاش انھوں نے عمر کے آخری حصّے تک اپنے اُس تحریری سلسلے کیا ہم مسلمان ہیں؟ کو بھی باقی رکھاہوتا، جو ان کی داعیانہ تڑپ کامؤثر نمونہ اور اسلامی ادب کاقیمتی ذخیرہ تھا اور جسے پڑھ کر نہ جانے کتنی زندگیوں میں نیکی و تقویٰ اور خدا ترسی و آخرت بینی کی برق دوڑگئی ۔

پیدا کہاں ہیں ایسے فرشتہ صفات لوگ

افسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہی

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223