ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی رحمۃ اللہ علیہ کو اس دنیا سے گزرے ہوئے دو برس ہونے کو آگئے، لیکن ہم ایسے نیاز مندوں کے دلوں میں وہ اب بھی اسی طرح اپنی پوری باوقار، باغ وبہار اور مشفقانہ و ہم دردانہ شخصیت کے ساتھ موجود ہیں، جس طرح اس دنیا میں رہتے ہوئے موجود رہتے تھے۔ ان شائ اللہ وہ تادیر ہماری یادداشتوں کا حصہ بنے رہیں گے اور ان کی شفقتیں اور محبتیں ہمیں یاد آتی رہیں گی۔ اور ان کا ہنستا، مسکراتا اور شگفتہ چہرہ صفحۂ ذہن پر مُنعکس ہوتا رہے گا۔ آج جب بھی کسی مجلس میں ان کا ذکر آتا ہے تو وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں۔ یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ لیکن بہ ہرحال یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس لیے کہ موت ایک حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح لفظوں میں اپنی سب سے بڑی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ﴿آل عمران:۱۸۵﴾
آخرکار ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ط وَیَبْقَ ٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔ فَبِأَیّ اٰلَآئ رَبّکُمَا تُکَذّبَان۔ ﴿الرحمٰن:۲۶۔۲۸﴾
’’ہرچیز جو اس زمین پر ہے ، فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے، پس اے جن وانس! تم اپنے رب کے کن کن کمالات کو جھٹلائوگے۔
ایْنَمَا تَکُونُواْ یُدْرِکُکمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِیْ بُرُوجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ۔﴿النساء :۷۸﴾
’’رہی موت تو جہاں بھی تم ہو، وہ بہ ہرحال تمھیں آکررہے گی‘‘۔
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِن قَبْلِکَ الْخُلْدَ أَفَِن مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُونَ۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ۔ ﴿الانبیاء :۳۴﴾
’’اور اے نبی! ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے ۔ اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشگی جیتے رہیںگے؟ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّہُم مَّیِّتُونَ۔ ﴿الزمر:۳۰﴾
’’﴿اے نبی﴾ تمھیں بھی مرنا ہے اور اُنھیں بھی مرنا ہے‘‘۔
وَجَآئت سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ۔ ﴿ق: ۱۹﴾
’’پھر دیکھو وہ موت کی جان کنی حق لے کر آپہنچی‘‘
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّونَ مِنْہُ۔ ﴿الجمعہ:۸﴾
’’ان سے کہو : جس موت سے تم بھاگتے ہو ، وہ تمھیں آکر رہے گی‘‘۔
اِن آیات سے یہ بات صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن اپنی مہلتِ عمر گزار کر جانا ہی ہے۔ خواہ وہ کوئی عام انسان ہو خواہ کوئی برگزیدہ شخصیت۔ اس بات کو کسی شاعر نے اس طرح کہا ہے:
انسان کو چاہیے کہ خیالِ قضا رہے
ہم کیا رہیں گے جب نہ رسولِ خدا رہے
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی سے میرے تعلق خاطر کے یوں تو متعدد حوالے تھے، لیکن ایک اہم حوالہ یہ بھی تھا کہ وہ میرے استاذ بھائی تھے۔ جون پور کی بڑی مسجد ﴿جسے تاریخی کتابوں میں جامع الشرق کے نام سے یاد کیاگیا ہے﴾ میں کبھی مرکزِ علوم قرآنیہ کے نام سے ایک بہت قدیم مدرسہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس کی صورت بدل چکی ہے ۔ حضرت مولانا محمد ایوب صدیقی فیض آبادی اس کے مدرسِ اعلیٰ تھے۔ وہ جون پور اور اس کے قریبی اضلاع میں فارسی زبان وادب کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ فریدی صاحب نے ان سے فارسی کی متعدد کتابیں پڑھی تھیں اور انھی کی سرپرستی میں انھوں نے عربی وفارسی بورڈاترپردیش کا منشی کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس فقیر نے بھی اُن سے فارسی کی گلستاں، بوستاں، اخلاقِ محسنی اور انشاے خلیفہ اور عربی کی بعض ابتدائی کتابیں پڑھی ہیں۔ میں مزاجی طور پر ایسے رشتوں اور حوالوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ فریدی صاحب کا تذکرہ تو میں کئی بار سن چکاتھا۔ ان کے آبائی وطن براواں ﴿ضلع جون پور﴾ کے ایک بزرگ تھے قاری ظہیر عالم فاروقی ؒ ، ان کی زبانی کئی بار ان کا نام سنا۔ خود استاد محترم مولانا محمد ایوب صدیقی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ذہین شاگردوں کے ذیل میں ایک سے زائد بار ان کا ذکر کیا، لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ میری ان سے پہلی ملاقات جنوری ۱۹۸۵ئ میں جدہ میں ہوئی۔ اس زمانے میں وہ ملک عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے شعبۂ معاشیات کے پروفیسر تھے۔ میں ایک مہینے وہاں مقیم رہا۔ اس دوران میں مسلسل ان سے ملاقاتیںرہیں۔ بلکہ میرے سلسلے کی بعض اعزازی نشستوں کی صدارت بھی انھوں نے فرمائی۔ انھی ملاقاتوں میں انھوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ مدرسہ قرآنیہ جون پور کی اپنی جزوقتی متعلمی کا ذکر کیا اور استاذِ محترم کا نام بڑی عزت و احترام کے ساتھ لیا۔ بس وہیں سے میرے اور ان کے درمیان برادرانہ رشتہ قائم ہوا۔ الحمد للہ یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہا اورامتدادِ زمانہ کے ساتھ اس میں استحکام ہی پیدا ہوتا رہا۔ ہمارے درمیان کبھی شکوہ وشکایت کا موقع نہیں آیا۔ وہ مجھے ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائی کے طور پر دیکھتے تھے اور میں ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے ان کو دیکھتا رہا۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی ۱۹۳۱ء میں اپنے وطن براواں ضلع جون پور کے قریبی اور قدیم مردم خیز بستی مچھلی شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق براواں کے شیخ زادگانِ فاروقی کی اس نسل سے تھا، جس کاشجرۂ نسب اس سلسلے کے مشہور بزرگ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ فریدی لکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی اور ثانوی درجات کی تعلیم جون پور ہی میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہیں سے گریجویشن کیا اور وہیں سے۱۹۵۳ئ میں امتیازی نمبروں کے ساتھ معاشیات میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس زمانے میں معاشیات جیسے سخت مضمون میں کسی طالب علم کا امتیازی پوزیشن حاصل کرنا بڑے فخر کی بات تھی۔ ان کی کامیابی کا قرب وجوار میں کافی تذکرہ رہا۔ ان کے والد محترم جناب ابوالفضل فریدی مرحوم جون پور کی عدالت سے وابستہ تھے اور اثرورسوخ والے آدمی بھی تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا ہونہار فرزند کسی اعلیٰ سرکاری ملازمت پر فائز ہوجائے۔ لیکن فریدی صاحب نے نہایت ادب واحترام کے ساتھ والدمحترم کے سامنے اسلامی علوم کے حصول کی خواہش ظاہر کی ۔ والد محترم اس طرف مائل نہ ہوئے اورفریدی صاحب بھی اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ انھوں نے کسی مشورے سے رام پور کی ثانوی درس گاہ کا رخ کیا، جسے جماعت اسلامی ہند نے کچھ ہی دنوں پہلے کالج اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتگان کے لیے قائم کیا تھا۔ فریدی صاحب نے ۱۹۸۵ء میں وہاں سے عالمیت کی تکمیل کی۔
ڈاکٹر فریدیؒ نے ثانوی درس گاہ سے اسلامی علوم کی تکمیل کے بعد حصولِ معاش کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز آگرہ میں ملازمت اختیار کرلی۔ ڈیڑھ دو برس وہاں کام کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ معاشیات سے وابستہ ہوگئے۔ وہیں سے ۱۹۷۳ئ میں معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۶ئ کے اواخر میں ان کا تقرر ملک عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ ﴿سعودی عربیہ﴾ کے شعبۂ معاشیات کے پروفیسر کی حیثیت سے ہوگیا۔ اپنی ذہانت اور فراست کی وجہ سے وہاں کے طلبہ، اساتذہ، علمی اورتحریکی حلقوں میں انھیں کافی مقبولیت حاصل رہی۔ اکثر علمی وتحریکی حلقوں میں وہاں مدعو کیے جاتے رہے اور اپنے صالح اور مثبت افکار و خیالات سے لوگوں کو استفادے کا موقع دیتے رہے۔ وہاں گیارہ برس کام کرنے کے بعد ۱۹۸۸ء میں ہندوستان آگئے اور علی گڑھ کو اپنا مستقر بنا لیا۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ یوں تو عنفوانِ شباب ہی سے تحریک اسلامی سے وابستہ رہے ہیں اور حسب توفیق اس کی مختلف النوع سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ لیکن ۱۹۸۸ئ میں ملک عبدالعزیز یونیورسٹی سے واپس آنے کے بعد وہ پورے طور پر تحریک کے لئے وقف ہوگئے۔ حتیٰ کہ عمر میں کافی گنجائش اور مواقع کے باوجود علی گڑھ یونیورسٹی سے دوبارہ وابستگی کی کوشش نہیں کی۔ عمر کے آخری پڑائو تک وہ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور اس کی مرکزی و ریاستی مجالس شوریٰ کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ مختلف منصوبہ جاتی کمیٹیوں اور اداروں کے ذمے دارانہ منصب پر فائز رہے۔ ملک کے متعدد چھوٹے بڑے اداروں کی مجلس منتظمہ کے رکن رہے اور ملک وبیرون ملک علمی و تحریکی اجتماعات اور سمیناروں میں پوری یکسوئی اور تیاری کے ساتھ شرکت کرتے رہے۔ فروری ۱۹۹۱ئ سے اگست ۲۰۰۹ئ تک ماہ نامہ زندگی نو کے مدیر رہے اور ایک لمبی مدت تک جماعت کے انگریزی ترجمان ریڈ ئینس کی ادارت انھیں تفویض رہی۔ ان سب ذمے داریوں کو انھوں نے پوری ذہنی یک سوئی کے ساتھ انجام دیا۔ جماعت کی ہرآواز پر لبیک کہا اور اس کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی میں بھی حصہ لیا۔ بل کہ اپنی علمی ، ذہنی اور فکری صلاحیت و استعداد کی وجہ سے وہ ہر معاملے میں تحریک کی مرکزی ضرورت سی بن گئے تھے۔ مجالس شوریٰ میں ان کی رایوں اور تجویزوں کو بڑا وزن حاصل رہا ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی تحریک اسلامی کے اُن گنے چنے اعاظم رجال میں تھے، جن کا شمار اس کے مفکروں اور دانش وروں میں ہوتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ جب بھی برصغیر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی تحریکات اسلامی کے ارباب فکرودانش کا کوئی تذکرہ لکھا جائے گا، اس میں ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی کا نام سرفہرست ہوگا۔ ان کے ذکر کے بغیر تحریک اسلامی کی فکر اور دانشوری کا کوئی بھی تذکرہ نامکمل اور ناقص رہے گا۔
میں اس بات کا مدعی تو نہیں ہوں کہ میں نے فریدی صاحب کو سب سے زیادہ سمجھا ہے اور انھیں سب سے زیادہ قریب سے دیکھا ہے۔ منطقی اعتبار سے میرا یہ دعویٰ درست بھی نہیں ہوگا، لیکن چونکہ ایک مدت تک میری ان سے بہت قریبی وابستگی رہی ہے۔ ماہ نامہ زندگی نو کی ادارت کے ابتدائی دور میں چند ماہ میں ان کا معاون رہا ہوں، وہاں ان کی جماعتی ذمے داریوں کے سلسلے میں بھی ۱۹۹۶ئ سے ۱۹۹۹ئ تک دوبارہ جزوقتی طور پر ماہ نامہ زندگی نو میں ان کا معاون رہا اور اردو میں ان کی جتنی بھی کتابیں شائع ہوئی ہیں، تقریباً سب کی تسوید، تصحیح اور ایڈیٹنگ انھو ں نے میرے حوالے کی اور جس وقت وہ مرکز تشریف لاتے تھے، میرا اچھا خاصا وقت ان کے ساتھ گزرتا تھا، ان سب کی بنیاد پر میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک اسلامی کی دعوت اور نصب العین کے ایک بڑے وکیل، شارح اور مفسر تھے۔ انھو ں نے جس حکمت وبصیرت کے ساتھ ماہ نامہ زندگی کے اداریوں کے ذریعے سے جماعت اسلامی کی تحریک اقامت دین کا تعارف کرا یا ہے اور جس شرح وبسط کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے ، وہ دوسری جگہ بہ ہرحال کم یاب ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی شعوری طور پر جماعت اسلامی کو ایک زندہ اور متحرک تحریک سمجھ کر اس سے وابستہ ہوئے تھے۔ وہ اِسے محض کوئی تنظیم یا انجمن کے طور پر نہیں دیکھتے تھے۔ وہ جماعت اسلامی کو ملت اسلامیہ کے حال اور مستقبل کو اپنے اصولوں اور قدروں پر ڈھالنے والی تحریک سمجھ کر اس کے قافلے میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا نقطۂ نظر تھا کہ انسانوں کا وہ گروہ جو حال اور مستقبل کو نظرانداز کرکے حالات کی تشکیلِ نو کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے مقصد میں ناکام رہتا ہے۔ انھوں نے ایک جگہ تحریک اسلامی کے مقصد اور نصب العین ’اقامت دین‘ کی تفہیم کراتے ہوئے لکھا ہے:
’اقامت دین‘ شہادت حق اور حاکمیت الٰہ کا اقرار، یہ سب ایک ہی فریضے کی مختلف تعبیریں اور ایک ہی حقیقت کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان اصطلاحات کے درمیان جو فرق ہے اور ان کے مابین جو قدرِ مشترک ہے ، اس کو اچھی طرح نہ سمجھنے سے اس فریضے کی تعبیر اور تشریح میں افراط وتفریط بھی ہوسکتی ہے اور اس کی انجام دہی میں دور رس لغزشیں بھی ہوسکتی ہیں۔ ان میں سب سے جامع اصطلاح اقامت دین کی ہے۔ یہ ایک ایسی جدوجہد کا نام ہے، جو انفرادی زندگی کی اصطلاح سے لے کر اجتماعی زندگی کی تعمیر وتشکیل نو تک محیط ہے۔ ﴿اقامت دین کا سفر:۷﴾
اقامت دین کی اصطلاح کے سلسلے میں فریدی صاحب کی رائے تھی کہ اس میں روحانی تربیت وتزکیہ بھی شامل ہے اور علمی و اخلاقی بھی اور فرد کی عملی زندگی کے تمام پہلو بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ کسبِ معاش کے ذرائع، شخصی روابط اور اجتماعی یا سماجی زندگی کا کردار غرض کہ سب کچھ اس کے زیر اثر آجاتا ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی نے اقامت دین، شہادت حق اور حاکمیت الٰہ کی اصطلاح پر گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ بتایا ہے کہ ان اصطلاحات کا صحیح اور ٹھیک ٹھیک مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے نہایت فاش اور مضحکہ خیز غلطیاں جنم لیتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی غلطی انھوں نے اس گروہِ انسانی کی بتائی ہے، جس میں کا ایک طبقہ محض اخلاقی و روحانی تربیت اور تزکیے کو سب کچھ سمجھتا ہے، اسی کو وہ کل دین تصور کرتا ہے۔ حتیٰ کہ انسانی زندگی میں پورے طور پر دین کو جاری ونافذ کرنے کی کوشش کرنے والوں اور ان کی جدوجہدکو حقیقی دین داری سے الگ چیز خیال کرتا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے، جودورِ حاضر کے دانش وروں اور تعقل پرستوں کا ہے۔ وہ بہ زعم خود مصلح ملت ہے۔ وہ اپنی دانش وری اور عقلیت ہی کومکمل دین بل کہ دینِ کامل سمجھتا ہے۔ باقی دوسرے لوگ اُسے ملا، ظلمت پسند اور رجعت قہقری کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنی عقل کی کسوٹی پر قرآن وحدیث کو پرکھتا ہے۔ اس کو حدیث و سیرت کے تمام ذخیرے ناقابلِ عمل اور دانش وری و روشن خیالی کے منافی نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر فریدیؒ نے مذکورِ بالا پس منظر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر اور کارناموں پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے تین اہم کارناموں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے نزدیک مولانا کا پہلا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دورِ حاضر میں اقامت دین کے خط وخال واضح کیے، عبادات اور مراسم میں غلو کی وجہ سے اِس تصور سے جو عام طور پر غفلت برتی جارہی تھی، اس پر امت کے عام وخاص دونوں طبقوں کو متنبہ کیا اور ان کے اندر یہ شعور بیدار کیا کہ اسلامی زندگی صرف انفرادی تقوے اور اخلاق کا نام نہیں ہے ۔بلکہ و ہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کو پوری طرح محیط ہے۔ ان کی رائے میں مولانا مودودی کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوںنے اُمت مسلمہ کو بتایا کہ حاکمیت الٰہ کا تصور نہ کوئی فلسفہ ہے اور نہ کوئی ایسا عقیدہ، جس پر صرف رائے ہی کو کافی سمجھا جائے۔ بلکہ عملی زندگی میں اس کی شہادت دینا اور اس کی بنیاد پر سماج کی تعمیر وتشکیل امت کا نصب العین ہے۔ اس لیے کہ یہ امت بحیثیت مجموعی منصب رسالت کی امین ہے۔ اس کا فریضہ شہادت حق ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اقامت دین ہے۔ اس سلسلے کا مولانا کا تیسرا اہم کارنامہ انھوں نے یہ بتایا کہ مولانا نے امت کو پوری قوت کے ساتھ یہ بتایا کہ فریضۂ شہادت حق کا اہم رخ واضح طور پر دعوت الیٰ غیرالمسلمین ہے۔
میری ان معروضات سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ فریدی صاحب جماعت اور اس کے مقصد و نصب العین کے شارح ومفسر بھی تھے اور داعی وعلم بردار بھی۔ انھوں نے اس کے پیغام اور اس کے بانی کی پوری علمی وعملی زندگی کا بہ غور مطالعہ و تجزیہ کرنے کے بعد اس سے وابستگی اختیار کی تھی۔ وہ ان لوگوں میں نہیں تھے، جو محض شہرت ونام وری، عزت وعظمت یا عہدہ ومنصب حاصل کرنے کیلئے کسی جماعت وتحریک سے جڑجاتے ہیں اور تاحیات اس کیلئے ایک بوجھ بنے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر فریدی اپنی عام زندگی میں نہایت سادہ و بے ریا شخصیت تھے۔ ظاہری نمود ونمایش، تملق و خوشامد پسندی سے ان کا دورپرے کا بھی رشتہ نہیں تھا۔ لباس، رہن اور میل ملاپ میں نہایت سادگی تھی۔ ہر کہتر ومہتر سے کھل کر ملنا اور اس کے مسائل میں سنجیدہ دلچسپی لینا ،ان کا مزاج تھا۔ اپنے خردوں کے ساتھ وہ ہمیشہ نرمی وشفقت کو روا رکھتے تھے۔ جس کے ذمے جو کام کرتے تھے، اسے پوری یکسوئی کے ساتھ انجام تک پہنچانے کا موقع دیتے تھے۔ بیچ بیچ میں مین میکھ نکالنا یا خواہ مخواہ کی نکتہ چینی کرنا ان کے مزاج کے منافی تھا۔ گرچہ وہ اعلیٰ عصری تعلیم کے بعد تحریک سے جڑے تھے اور تقریباً پوری عملی زندگی میں عصری اداروں اورجامعات سے ہی وابستہ رہے ، لیکن وہ دین کے معاملے میں کسی قسم کی مداہنت اور فکری بے راہ روی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ جو لوگ قرآن مجید و احادیث رسول ﷺ سے کھلواڑ کرتے ہیں اور اُسے بازیچۂ تحقیق بناکر اس کے قدیم ذخیرے کو اپنی عقل اور دانش وری کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اوراس میں ریب وتشکیک پیدا کرتے ہیں، انھیں وہ قطعی ناپسند تھے۔ حسب موقع ان پر وہ بڑی وضاحت کے ساتھ نقد فرماتے رہتے تھے۔
شخصیتوں پر لکھنا میرے لیے پسندیدہ قلمی مشغلہ ہے۔ لیکن جس شخصیت سے مجھے قریبی اور قلبی تعلق ہوتا ہے، اس پر قلم چلانا میرے لیے بڑا دشوار کام ہوتا ہے۔ وہ دشواری مجھے اس مختصر سے مضمون میں بھی پیش آئی۔ جیسا کہ ابتدائی سطور میں لکھ چکا ہوں اوررفقاء واحباب کو بھی معلوم ہے کہ فریدی صاحب سے میرا چھوٹے اور بڑے بھائی جیسا تعلق رہا ہے۔ وہ مجھ پر بڑے بھائی جیسی شفقت فرماتے تھے اور میں بھی ایک برادرِخرد کی حیثیت سے ان کا ادب کرتا تھا اور ان کی کسی بھی بات کی تعمیل کو اپنے لیے سعادت سمجھتا تھا۔ میں اپنے خطوط میں ہمیشہ انھیں ’ محترم بھائی، کے الفاظ سے خطاب کرتا تھا اور وہ مجھے عزیز گرامی یا برادرِ عزیز لکھتے تھے۔ جولائی ۲۰۱۱ئ میں وہ اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔مجھے اس بات کی اطلاع اس وقت ملی جب میں ایک سیرت کانفرنس میں شرکت کیلئے یو۔ کے گیا ہوا تھا۔ جس وقت میرے بیٹے نے فون پر مجھے ان کی وفات کی اطلاع دی، میری عجیب کیفیت ہوئی۔ میں فون پر انا للہ وانا الیہ راجعون کے علاوہ کچھ نہ کہہ سکا۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، ہم سے بہت دور جاچکے ہیں۔ اتنی دور جاچکے ہیں، جہاں سے آج تک کوئی لوٹ کر نہیں آیا ۔ لیکن انھوں نے خلوص ومحبت اور شفقت و یگانگت کی جو یادیں اور فکر ودانائی سے لبریز جو تحریریں چھوڑی ہیں، وہ ہمارے ساتھ ہمیشہ روشن قندیل کے مانند موجود رہیں گی۔
صرف یادِ غم بے کراں رہ گئی
جانے والا گیا داستاں رہ گئی
مشمولہ: شمارہ اپریل 2013