آٹھویں صدی ہجری کے شروع میں ایک نمایاں نام بغداد کی ام زینب فاطمہ بنت عباس کا ملتا ہے۔ ان کا تعارف مسلم خواتین کے لیے بہت حوصلہ بخش ہے۔ فقہ میں ماہر تھیں اور باقاعدہ فتوی دیتی تھیں۔ شام کے شہر دمشق میں مقیم ہوئیں، وہاں منبر پر تشریف رکھتیں اور عورتوں میں وعظ فرماتیں۔ ان کے ذریعے دمشق کی بہت سی عورتوں کی اصلاح ہوئی۔ پھر مصر منتقل ہوگئیں وہاں بھی بہت سی عورتوں نے ان سے فیض اٹھایا۔ (العبر)
ایک خاتون نے جب علم کی دولت حاصل کی اور پھر سماج کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا تو کتنی عورتوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ جب ایک عورت کی زندگی بدلتی ہے تو اس کا اثر گود میں پلنے والے بچے، ساتھ رہنے والے شوہر، خاندان اور قریبی سماج پر ضرور پڑتا ہے۔
آپ اپنے لیے بڑا ہدف طے کریں۔ اپنے پورے علاقے کی خواتین میں اصلاح کی مہم چلانے کا ہدف۔ اس کے لیے علم کی بھی ضرورت ہوگی اور تقریری صلاحیت کی بھی۔ ساتھ ہی انسانوں کی فکر میں تڑپنے اور بے چین رہنے والا دل ہونا بھی ضروری ہے۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
خواتین کے تربیتی اجتماعات کریں
تصور کریں، حضرت عائشہؓ کے پاس خواتین جمع ہیں اور آپ انھیں نصیحت فرمارہی ہیں: ‘‘عورتو، اللہ کی ناراضی سے بچو، وہ تمھارا رب ہے، وضو اچھی طرح سے کرو، نماز اہتمام سے ادا کرو، زکات خوش دلی سے دو۔اور دل چاہے یا نہ چاہے، اپنے شوہروں کی بات مانا کرو۔’’ (أدب النساء)
ایک تعلیم یافتہ مسلم خاتون کا سماج میں اسی طرح کا کردار ہونا چاہیے۔ وہ عورتوں کی مجلسیں آراستہ کرے، ان کی دینی تربیت کا سامان کرے۔ اس طرح اس کے علم کی روشنی سے عورتوں کا پورا سماج جہالت کے اندھیروں سے نکل آئے۔
غلط رواجوں کے خلاف مہم چھیڑ دیں
مسلم خواتین کی سرگرمیوں کا ایک اہم میدان یہ ہے کہ سماج میں رائج غلط رسوم و رواج کو مٹانے کی کوششیں کی جائیں۔اس کام کے لیے عورتوں کا رول بہت اہمیت رکھتا ہے۔
حضرت زینب بنت جحشؓ اس کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے جب سماج میں یہ تبدیلی لانا چاہی کہ غلامی کا پس منظر رکھنے والے انسانوں کو آزاد انسانوں کی طرح معاشرے میں عزت و برابری کا مقام حاصل ہو، تو حضرت زینب بنت جحشؓ اس کے لیے بخوشی تیار ہوگئیں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ سے شادی کرلیں۔ بعد میں منھ بولے بیٹے کے غلط رواج کو ختم کرنے کے لیے جب ان سے یہ قربانی مانگی گئی کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے نکاح میں آجائیں تو اس کے لیے بھی وہ بخوشی تیار ہوگئیں۔ دونوں مواقع پر انھیں سماج میں بہت طعنے سننے پڑے، سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا، لیکن انھوں نے وہ سب کچھ برداشت کیا۔ سماج کی غلط رسوم و رواج کو بدلنے کے لیے قربانی دینا ضروری ہے۔ سماج کے محسن ہوتے ہیں وہ بہادر انسان جو اس قربانی کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں۔ وہی اصل ہیرو ہوتے ہیں۔
ہندوستان کے مسلم سماج میں بہت سی خرابیاں گہرائی تک سرایت کرکے مضبوط رواج بن چکی ہیں۔انھیں جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عورتوں کو ہمت سے کام لیتے ہوئے آگے آنا ہوگا۔
جہیز کی رسم ہو یا فضول خرچی اور نمائش والی مختلف تقریبات کی رسمیں ہوں۔ انھیں عورتوں کے تعاون کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مہر معاف کردینے اورعورتوں کے وراثت کے حق سے دست بردار ہونے کے رواج کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ اس رواج سے خواتین کی شدید قسم کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہ مقصد فوت ہوجاتا ہے جس کے پیش نظر اللہ تعالی نے مہر اور وراثت کے احکام نازل فرمائے۔مسلم سماج میں اونچ نیچ اور برادری واد کے تصور کو کفاءت کے غلط تصورات سے غذا ملتی ہے، اس لیے کفاءت کے غلط تصور کی جگہ کفاءت کا صحیح تصور آنا چاہیے، اس میں بھی عورتوں کو بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کفاءت کا صحیح تصور یہ ہے کہ دین دار لڑکی کے لیے دین دار لڑکا تلاش کیا جائے، جب کہ کفاءت کا غلط تصور یہ ہے کہ ذات برادری، دولت اور پیشے کے لحاظ کو ضروری سمجھا جائے۔
غرض ایسے بہت سے سماجی تصورات اور رسم و رواج ہیں جنھیں درست کرنے کے لیے عورتوں کو آگے آنا چاہیے۔
سماجی تبدیلی کے نشانے طے کریں
سماج میں کیا تبدیلی لانی ہے، خواتین میں اس کا گہرا شعور ہونا چاہیے۔ تبدیلی لانے کے سلسلے میں واضح منصوبہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے ممکنہ جدید ترین طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔
مثال کے طور پر نکاح کو آسان بنانے میں خواتین کے کردار کو واضح کرتے ہوئے، امیر جماعت اسلامی ہند، سید سعادت اللہ حسینی لکھتے ہیں:
’’سماجی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ مختلف معمولات اور روایات کی پشت پر موجود ریفرنس گروپوں کی شناخت کی جائے اور ان پر محنت کی جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شادی بیاہ سے متعلق معاملات میں سب سے اہم ریفرنس گروپ خواتین کا گروپ ہے، خاص طور پر درمیانی عمر کی اور معمر خواتین جو خاندانوں کی روایات اور تقریبات و غیرہ پر اکثر غیر معمولی کنٹرول رکھتی ہیں اور کئی صورتوں میں مرد بھی ان کے دباؤ کے آگے بے بس ہوتے ہیں۔ ہر خاندان میں دو چار خواتین، تبدیلی کے لیے تیار ہوجائیں تو خود بخود تبدیلی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ خواتین کے درمیان کام کرنے والی اصلاحی تنظیمیں ہر شہر اور قصبے میں خواتین کے ایسے گروپ تشکیل دے سکتی ہیں جو مستقل ان باتوں کی طرف متوجہ ہوں اور آسان نکاح کے لیے صرف بیداری ہی نہ لائیں بلکہ شدید سماجی دباؤ بھی پیدا کریں۔‘‘ (اصلاح معاشرہ: منصوبہ بند عصری طریقے)
یہ کون ہے کہ جس پہ زمانہ نثار ہے
’’واعظ، زاہد، بہت زیادہ عابد، بزرگ، فقیہ، عالم، صاحبِ سند، مفتی، خائف، خاشع، سردار، فرماں بردار، پیکرِ استقامت، خاکساری کی تصویر، دین دار، پاک باز، خیر مجسم، صالح، ماہر، محقق، کامل، فاضل، جدت کار، یکتائے دہر، زمانے میں بے مثال، ہر طرف مقبول، عظیم مرتبت، علم سے لبریز، دقیق مسائل کی جوئندہ اور فقہ میں حد درجہ ماہر۔ بہت محنتی، روزے دار تہجد گزار، حق گو، سخت کوش، کم پر قانع، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ان کا شیوہ، خلق کثیر نے ان سے فائدہ اٹھایا، دور تک ان کی شہرت پہنچی، بہت اونچا انھیں رتبہ ملا۔‘‘(ذیل طبقات الحنابلۃ)
یہ صفات نامہ دیکھ کر آپ کو یہ خیال گزرے گا کہ یہ کسی صدی کے امام و مجدد،بزرگ مرد کا تذکرہ ہے۔ یہ ذکر ایک خاتون کا ہے۔اور ذکر کرنے والے بہت معتبر سیرت نگار علامہ ابن رجب ہیں۔خاتون کا نام ہےام زینب فاطمہ بنت عباس بغدادیہ۔
علامہ صفدی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وہ منبر پر چڑھتیں اور عورتوں کو وعظ کرتیں، ان کے وعظ سے دل نرم پڑجاتے، گناہ گار تائب ہوجاتے، بہت سی عورتوں نے ان کی نصیحتوں سے فائدہ اٹھایا، ان کے سخت دل نرم ہوکر اطاعت کے لیے آمادہ ہوگئے۔ کتنی آنکھوں کو انھوں نے رواں کردیا اور آنسوؤں کے کتنے چشمے بہادیے، لگتا کہ کوئی بلبل یا قمری درد انگیز آوازسے دلوں کو تڑپارہی ہے۔ ‘‘(أعیان العصر)
علامہ ابن كثیر لکھتے ہیں:
’’امام ابن تیمیہؒ کو ان کے عمل پر تعجب ہوتا، وہ ان کی ذہانت،دل سوزی اور اشک باری کی تعریف کرتے۔ وہ بھلائی کا حکم دیتیں، برائی سے روکتیں، اہل بدعت کو ان کی حرکتوں پر ٹوکتیں، اور اس راہ میں وہ کچھ کر گزرتیں جو مرد نہیں کرپاتے۔ وہ شیخ ابن تیمیہ کی مجلس میں حاضر ہوتیں اور ان سے یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بہت کچھ سیکھتیں۔ میں نے شیخ ابن تیمیہ کو ان کی تعریف کرتے سنا، وہ انھیں علم وفضل سے متصف بتاتے۔ وہ کہتے کہ وہ اتنے زیادہ مسائل رکھتیں، اتنے عمدہ سوالات کرتیں اور اتنی جلد سمجھ لیتیں کہ مجھے ان کے لیے خاص تیاری کرنی پڑتی۔ انھوں نے بہت سی عورتوں کو قرآن ختم کرایا، ان سے دمشق کی عورتوں اور پھر مصر کی عورتوں کی اصلاح ہوئی۔‘‘ (البدایۃ والنھایۃ)
اپنی بیٹی کو اپنا وارث بنایا
فاطمہ بنت عباسؒ واعظ اور خطیب تھیں، انھوں نے اپنی واعظانہ صلاحیتوں سے امت کو زندگی بھر فیض پہنچایا۔ اس پر مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی زینبؒ کی بہترین تربیت کی، ان کے اندر بھی اپنی جیسی صلاحیتوں کی نشو و نما کی، اور ان کے اندر دین کی دعوت کا جذبہ جگایا۔ چناں چہ سوانح نگار لکھتے ہیں: ’’ان کی ایک بیٹی تھیں، ان کا نام زینب تھا، وہ اپنی ماں کے نقش قدم پر چلیں، واعظ اور خطیب بنیں، عورتوں کے سامنے وعظ دیتیں اور تقریریں کرتیں۔‘‘(عودة الحجاب)
آج امت کے نصف حصے کو فاطمہ اور زینب جیسی بہت سی مائیں اور بیٹیاں درکار ہیں، جو علم وفکر سے آراستہ ہوں، تقوی اور پرہیز گاری کا پیکر ہوں، عبادت واطاعت کے جذبے سے سرشار ہوں، مسلمان عورتوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائیں اور اپنی ابلاغی صلاحیتوں اور مہارتوں سے سماج کو تبدیل کرڈالیں۔
بی اماں کا کردار
محمد علی جوہر اور شوکت علی کی والدہ آبادی بیگم (بی اماں) کو ہندوستان کی تاریخ میں سدا یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے بیوگی کے عالم میں اپنے زیورات بیچ کر بچوں کو بہترین تعلیم دی اور شان دارتربیت کی۔ بچپن میں انھیں زیادہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا تو بعد میں اپنی محنت سے پڑھنا سیکھا اور اہل علم میں شمار ہوئیں۔ وہ غیرمعمولی فہم ودانائی کی حامل خاتون تھیں۔تحریک خلافت اور پھر تحریک آزادی ہند کے لیے انھوں نے ہندوستان بھر میں دورے کیے اور تقریریں کیں۔
میدانِ وعظ کی شہ سوار خواتین
اسلامی تاریخ میں بہت سی شخصیات نے وعظ و نصیحت کے کام کو اس طرح انجام دیاکہ وہی ان کی پہچان بن گیا اور تاریخ میں انھیں واعظ کی حیثیت سے جانا گیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسلامی شخصیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہماری نگاہوں کے سامنے سے ایسی متعدد خواتین کے نام گزرتے ہیں جنھیں واعظہ کے لقب سے یاد کیا گیا۔ ہم یہاں صرف چند کا ذکر کریں گے۔
خدیجہ بنت یوسفؒ علم و فضل کی دولت سے مالا مال تھیں۔ ایک زمانے تک عورتوں کو وعظ و نصیحت کرتی رہیں۔ان کے والد ایک حمام کے منتظم تھے۔ لیکن نگاہیں جوہر شناس تھیں۔ جب دیکھا کہ بیٹی ذہین وفطین ہے، تو اسے علم حاصل کرنے کی راہ پر لگایا، خدیجہ نے بہت سے علما کے یہاں درس سنے، وعظ کی خاص صلاحیت حاصل کی اورزمانہ دراز تک عورتوں میں وعظ کرتی رہیں۔ (تاریخ الاسلام)
ایک خاتون فاطمہ بنت حسین رازیؒ تھیں، ان کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں : ’’وہ بغداد کی مشہور واعظہ تھیں، ان کی اپنی سرائے تھی، وہاں خواتین آکر ٹھہرا کرتی تھیں۔ ‘‘(تاریخ الاسلام)
میمونہ بنت سالوقہؒ بھی بغداد کی تھیں، واعظہ کی حیثیت مشہور ہوئیں، کہا گیا کہ ان کے وعظ ونصیحت بڑی مٹھاس تھی۔( النجوم الزاهرة)
خاصہ بنت ابی معمر ؒکے بارے میں لکھا گیا کہ وہ اپنی سرائے میں عورتوں کی مجلس آراستہ کرتی اور وعظ کرتی تھیں۔ (تاریخ الإسلام)
اصبہان کی عائشہ ورکانیہؒ کے بارے میں تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ وہ نیک صفت اور عالمہ تھیں، عورتوں میں وعظ کرتی تھیں۔( تاریخ الإسلام)
اسلامی تاریخ میں اگر ایک طرف ہمیں ان خواتین کا ذکر ملتا ہے جو عورتوں کی اصلاح و تربیت کے لیے سرائے کا استعمال کرتی تھیں اور وہاں عورتوں کے مجمع میں اصلاحی تقریریں کرتی تھیں، تو دوسری طرف ایسی خواتین کا نام بھی آتا ہے جو بستی بستی دورے کرتی تھیں، اور وہاں عورتوں کو جمع کرکے وعظ دیتی تھیں۔ جیسے ایک نام واعظہ رشیدہ کا آتا ہے، سوانح نگار لکھتا ہے: ‘‘وہ ملک اندلس میں دورے کرتیں اور عورتوں کو وعظ و تذکیر کرتی تھیں۔ ان کا اچھا شہرہ تھا، نیکی اور بھلائی کے لیے انھیں یاد کیا جاتا تھا۔’’(تکملۃ کتاب الصلۃ)
علامہ ابن تیمیہؒ کے زمانے میں مشہور واعظہ ام زینب ؒ نے اپنے خطبات کے لیے مسجد کے منبر کا استعمال کیا۔ اس مجمع میں مرد و خواتین سبھی شریک ہوتے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ کو ام زینب کا منبر پر چڑھ کر تقریر کرنا کھٹکتا تھا، غالبًا اس لیے کہ اس زمانے میں یہ چیز نامانوس تھی۔ ان کے کئی شاگردوں نے نقل کیا ہے کہ شیخ نے بتایا کہ میرے دل میں ان کے بارے میں خلش رہ گئی، کیوں کہ وہ منبر پر چڑھتی تھیں اور میں چاہتا تھا کہ انھیں منع کروں، ایک رات میں سویا، تو میں نے خواب میں اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا، میں نےآپ سے ام زینب کے بارے میں پوچھا،آپ نے کہا : وہ نیک خاتون ہیں۔ (أعیان العصر)
ام زینبؒ نے جب بدعتوں کے خلاف محاذ سنبھالا، اور اپنی تقریروں میں ان پر نشانہ سادھا تو اہل بدعت بر انگیختہ ہوئے اور ان کے خلاف مہم چھیڑ دی، جس کے نتیجے میں انھیں قید کردیا گیا اور تکلیفیں دی گئیں۔ بغداد کی یہ بزرگ خاتون صبر واستقامت کا پیکر بنی رہیں اور کہا میں نہی عن المنکر کے فریضے سے دست بردار نہیں ہوسکتی۔ ان کے حسنِ نیت کے صلے میں اللہ نے انھیں قید و بند سے نجات عطا کی۔ ام زینب ؒکو امام ذہبی شیخہ بغدادیہ کے لقب سے ذکر کرتے ہیں۔ (تاریخ الاسلام)
فنونِ لطیفہ کی طاقت کا استعمال کریں
مسلم مورخین نے مشہور ترین عباسی خلیفہ ہارون رشید کی بہن عُلَیَّہؒ کا تذکرہ بہت اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔ان کے تذکرے میں دو باتوں کا ذکر خاص طور سے ملتا ہے، ایک یہ کہ وہ بہت زیادہ عبادت گزار تھیں، دوسری بات یہ کہ وہ فنونِ لطیفہ میں مہارت اور شوق رکھتی تھیں۔ کسی کی زندگی میں عبادت اور تفریح دونوں پہلو بیک وقت اور کمال درجے میں جمع ہوجائیں، یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے۔
امام ذہبیؒ لکھتے ہیں: ’’وہ ادیب تھیں، شاعر تھیں، ترنم اور موسیقی میں ماہر تھیں، خوش الحان تھیں، پاکبازی، تقوی اور فضائل سے مالا مال تھیں۔‘‘(سیر أعلام النبلاء)
امام ابن الجوزیؒ لکھتے ہیں: ’’علیہ خوب صورتی، لطافت، دانائی، ادب، پرہیزگاری، پاکبازی اور ظرافت میں ممتاز ترین خاتون تھیں۔ وہ نماز بہت پڑھتیں، اور زیادہ وقت محراب میں گزارتیں۔ وہ دین دار تھیں اور شراب وغیرہ سے دور رہتی تھیں۔‘‘(المنتظم)
عربی ادب کے ممتاز مورخ صولی لکھتے ہیں: ’’عباسی خلفا میں ان جیسی لڑکی میرے علم میں نہیں۔ پاکی کے دنوں میں وہ زیادہ تر نماز میں، مطالعہ قرآن میں اور محراب میں وقت گزارتی تھیں۔ جب نماز والی حالت نہیں ہوتی، تو اپنی تفریح میں مشغول ہوجاتیں۔‘‘(أشعار أولاد الخلفاء)
علیہؒ نماز وتلاوت اور ذکر و اذکار کی بڑی شیدا اور بہت دلدادہ تھیں۔اس کے ساتھ ہی وہ غنا اور موسیقی کا شوق بھی رکھتی تھیں۔ جب پاکی کے ایام نہیں ہوتے تو شاعری کرتیں اور غنا و موسیقی میں کمال دکھاتیں۔ مجلس غنا و موسیقی محل کے اندر منعقد ہوتی اور خلیفہ ہارون رشید بھی ان کے کمالات سے محظوظ ہوتا۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ امام ذہبیؒ اور امام ابن جوزیؒ جیسے بڑے معتبر علما نے علیہ کی خوب خوب تعریف کی اور غنا وموسیقی کے ان کے مشغلے پر ذرا تنقید نہیں کی۔
علیہ بنت مہدی کی پرورش محل میں ہوئی تھی۔ فنون لطیفہ میں انھیں مہارت ملی اور انھوں نے اسے اپنا اور اپنے محل کے مکینوں کا دل بہلانے کے لیے استعمال کیا۔
خالص فقہی نقطہ نظر سے دیکھنے کے بجائے اگر تحریکی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو فنون ِلطیفہ صرف دل بہلانے کی چیز نہیں ہے۔ دورِ حاضر میں فنونِ لطیفہ کو ایک زبردست طاقت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ باطل طاقتیں ذہنوں کو خراب کرنے کے لیے فنونِ لطیفہ کا بہت زیادہ استعمال کررہی ہیں اور خطرناک حد تک نتائج بھی حاصل کررہی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ حق کے علم بردار فنونِ لطیفہ کی طاقت کو اپنے اعلی مقصد کے لیےزیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
فنونِ لطیفہ کی طاقت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اُس کو حق کی علم بردار خواتین بھی بہتر طریقے سے بروئے کار لاسکتی ہیں۔
خواتین کے ذریعے فنونِ لطیفہ کی طاقت کے بہتر اور مثبت استعمال کی ایک مثال ہمیں صوبہ بہار کی ایک خاتون نیہا سنگھ راٹھور کی صورت میں ملتی ہے۔ اترپردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات (۲۰۲۲ء) میں اتر پردیش میں فرقہ پرست طاقتوں کا طوطی بول رہا تھا۔ بی جے پی نے خطیر صرفے سے ملک کے ممتاز گیت اور سنگیت کاروں سے اپنے حق میں گانے تیار کروائے تھے۔ جب کہ اپوزیشن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسے میں بہار کے گاؤں میں رہنے والی عام سی لڑکی نیہا سنگھ راٹھور نے ‘یوپی میں کابا’ (اترپردیش میں کیا ہورہا ہے؟) کے عنوان سےاپنے گھر میں بیٹھ کر یکے بعد دیگرے تین گیت تیار کیے، جو پوری ریاست کے کروڑوں افراد کی زبان پر جاری ہوگئے۔ پورے ملک میں ان گیتوں کی گونج سنی گئی اور انھوں نے ایک طرف فرقہ پرست قوتوں کی نیند اڑادی اور دوسری طرف مقابل پارٹیوں کو زبردست کمک فراہم کی۔
نیہا سنگھ بھوجپوری زبان کی گیت کار ہیں، سماج کی مظلومیت اور محرومی کو انھوں نے اپنے گیتوں کا خاص موضوع بنایا ہے۔ فرقہ پرست قوتوں کو اپنے نشانے پر رکھتی ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ بھوجپوری زبان اس لحاظ سے بدنام ہے کہ اس میں لکھے جانے والے گیتوں میں عریانیت اور بے حیائی بہت ہوتی ہے۔ نیہا سنگھ نے بھوجپوری زبان کو بے حیائی سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ ان کے گیت صاف ستھرے ہوتے ہیں۔
یہاں نیہا سنگھ راٹھور کے تذکرے سے اس طرف متوجہ کرنا مقصود ہے کہ جن مسلم خواتین کو اللہ تعالی نے فنونِ لطیفہ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ انھیں محض تفریح کے لیے نہیں بلکہ اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض مسلم خواتین فلم انڈسٹری سے تائب ہوتی ہیں، اور پھر اپنی تمام صلاحیتوں سے بھی دست بردار ہوجاتی ہیں، حالاں کہ ان کے پاس غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ جاہلیت سے اسلام کا سفر یقینًا قابل مبارک باد ہے، لیکن اس کے بعد اپنی صلاحیتوں کو اسلام کی خدمت میں لگانا ان کی اگلی منزل ہونی چاہیے۔ توبہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو فراموش کردیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کا دین کی خاطر استعمال کریں تو یہ ان کے اور دینِ اسلام کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔ابھی تو صورت حال یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک میں اسلامی اقدار پر مبنی فلموں اور ڈراموں کے لیے ایسی خواتین کی مدد لینی پڑتی ہے، جو اپنی ذاتی زندگی میں اسلامی اقدار سے عاری ہوتی ہیں۔
اس سے زیادہ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ بہت سی مسلم لڑکیاں طالب علمی کے زمانے میں قسم قسم کے فنونِ لطیفہ میں مہارت حاصل کرلیتی ہیں، لیکن بعد میں وہ انھیں حرفِ غلط سمجھ کر بالکل بھلادیتی ہیں۔ جب کہ بہت سی لڑکیاں اپنے اندر موجود خدا داد صلاحیتوں کو نہ پہچانتی ہیں اور نہ ہی انھیں نکھار پاتی ہیں۔
اگر مسلمان عورت کو اپنے بلند نصب العین کا ادراک ہوجائے تو وہ کبھی ان صلاحیتوں کو رائیگاں نہیں جانے دے۔ بلکہ ان کے بہتر استعمال کے مواقع خود تلاش کرے اور یہ مواقع اب بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور ہر شخص کی رسائی میں بھی ہیں۔
موجودہ زمانے میں فنونِ لطیفہ کے اظہار کے لیے کسی انڈسٹری یا ادارے کا سہارا لینا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے عام آدمی کی استطاعت سے زیادہ وسائل درکار ہوتے ہیں۔
اوپر نیہا سنگھ راٹھور کا ذکر ہوا، جس نے اپنے گھر میں معمولی کیمرے سے گیت کے ویڈیو بناکر فیس بک اور یوٹیوب پر جاری کیے۔ وہ گیت ان گیتوں سے کہیں زیادہ مقبول ہوئے، جو خطیر رقم لگاکر ترقی یافتہ اسٹوڈیو میں تیار کرائے گئے۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
اردو زبان میں جن مسلم خواتین نے فنون لطیفہ کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا، ان میں مشہور نعت خواں ام حبیبہ کے نام سے ہر شخص واقف ہے۔ انھوں نے پوری نصف صدی اپنی شیریں اور پُر اثر آواز سے لوگوں کو مسحور کیا اور ان کے دلوں میں محبتِ رسول ﷺ کی شمع روشن کی۔
فنونِ لطیفہ میں مہارت رکھنے والی مسلم خواتین کم وسائل کے ساتھ سماج کے بڑے حصے پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔انھیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
آپ مختلف میدانوں میں اصلاح کا کام کرسکتی ہیں
ایک عورت اپنی مختلف حیثیتوں میں مختلف میدانوں میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔
عورت کی حیثیت سے عورتوں کا پورا سماج اس کا میدانِ کار ہے۔
وہ گھر کی ایک فرد ہوتی ہے اور گھر اور خاندان پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔
بحیثیت طالبہ وہ تعلیمی کیمپس میں اپنا اہم رول ادا کرسکتی ہے۔
بحیثیت عالمہ وہ اہل علم کے حلقے میں اصلاح معاشرہ کے لیے بیداری لاسکتی ہے۔
اگر وہ کسی پروفیشن سے وابستہ ہے تو اس کی اپنی فیلڈ میں اصلاحی کاموں کے بہت سے مواقع نکل سکتے ہیں۔
اجتماعی کوششیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں
اجتماعیت میں برکت ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی اجتماعیت یہ ہوتی ہے کہ شوہر اور بیوی مل کر اصلاح و دعوت کا کام کریں۔ اس کی روشن مثالیں ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں۔ یحیی بن عیسی أنباری اپنے زمانے کے بڑے واعظ و زاہد تھے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام میں پیش پیش رہتے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ اور ان کی بیوی مل کر دینی سرگرمیاں انجام دیتے تھے۔ دونوں ساتھ دن میں روزہ رکھتے، رات میں تہجد پڑھتے، اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیتے اور عام مردوں اور عورتوں میں قرآن کی تعلیم دینے کا کام کرتے۔ ان کے چار بیٹے تھے، ان کی بہترین تربیت کی اور انھیں قرآن حفظ کرایا۔ اس کے علاوہ دونوں نے مل کر بہت سے مردوں اور عورتوں کو قرآن کی تعلیم دی۔ (تاریخ الاسلام)
دراصل شوہر اور بیوی یا دوسرے لفظوں میں مرد و عورت جب سماج کی اصلاح کے لیے مشترک کوششیں کرتے ہیں تو مردوں اور عورتوں دونوں کے سماج میں یکساں طور پر تبدیلی آتی ہے۔
خواتین کے ذریعے خواتین میں اصلاح کا کام کرنے کی بہت مفید اور مؤثر شکل یہ ہے کہ خواتین ایک جماعت کی شکل میں منظم اور منصوبہ بند کوششیں کریں۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں اس کی بھی روشن مثالیں ملتی ہیں۔
مشہور واعظ اور محدث ابو مظفر محمد بن علی بغدادی کی بیٹی ام حکیم عائشہ اپنے وقت کی محدثہ تھیں، اپنے والد کے علاوہ وقت کے بڑے علما سے حدیث کا علم لیا تھا۔ نیک اور پرہیز گار تھیں۔ ان کے والد کی سرائے تھی، ام حکیم نے وہاں نیک خواتین کی ایک جماعت کے ساتھ سکونت اختیار کی تھی اور عورتوں میں وعظ و نصیحت کرتی تھیں۔(صلة التكملة لوفیات النقلة)
زینت بنت ابی البرکات اپنے وقت کی نیک خاتون تھیں۔ بنت البغدادیہ کے نام سے معروف تھیں۔ سلطان ظاہر بیبرس کی بیٹی تذکاریای خاتون نے ان کے لیے ایک سرائے تعمیر کی، جو تاریخ میں رباط بغدادیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ زینت بنت ابی البرکات نے کچھ نیک خواتین کے ساتھ اس میں رہائش اختیار کی۔ انھوں نے وہاں خواتین کے رہنے کے لیے بہترین تربیتی ماحول تیار کیا۔ بے سہارا خواتین کی بڑی تعداد وہاں رہنے آتی تھی۔ علاقے کی عورتیں وعظ و نصیحت سننے آتی تھیں۔ کافی عرصے تک یہ تربیت گاہ قائم رہی۔ اس سرائے میں ہمیشہ ایک بزرگ خاتون تعلیم و تربیت کی ذمے دار ہوتیں۔ وہ عورتوں میں وعظ کرتیں اور انھیں دین کی تعلیم دیتیں۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک وہ سرائے خواتین کے لیے بہترین تربیت گاہ تھی۔ (المواعظ والاعتبار)
اس میں شبہ نہیں کہ الگ الگ کی جانے والی کوششوں کے مقابلے میں مشترک اور منصوبہ بند کوششیں زیادہ ثمر آور ہوتی ہیں۔ دوسری خواتین کو ہم خیال بنانا اور ان کے ساتھ مل کر ایک اجتماعیت کی صورت میں جدو جہد کرنا بہت زیادہ نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔
معاشرے کی اصلاح و تربیت کے لیے منصوبہ بند کوششوں کی طرف رہ نمائی کرنے والی بہترین کتاب ‘’اصلاح معاشرہ : منصوبہ بند عصری طریقے ‘ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی کی اپنے موضوع پر منفرد یہ کتاب مرد و خواتین سب کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022