زکوٰة اور اس کا حساب و کتاب

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں مال خرچ کرنے کے لئے’ نفق‘ اور ’صدق‘ سے مشتق ہونے والے الفاظ عام طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ ویسے یہ الفاظ صرف مال خرچ کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوتے ہیں۔ انفاق سے مراد مال کے علاوہ صلاحیتیں، وقت اور دیگر وسائل حیات کا استعمال بھی ہوتا ہے اور صدقہ میں نیکی اور ثواب کے کام شامل ہیں۔ اس مضمون میں یہ الفاظ مال خرچ کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ کی ابتدا میں ہی ایمان کے عملی تقاضے کے طور پر مال خرچ کرنے کی شرط لگا دی ہے۔

مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ینْفِقُونَ [البقرہ:۳]

(جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔)

اسی سورہ میں آگے قرآن کریم میں اس سوال کا بھی جواب دیا ہے کہ کتنا خرچ کیا جائے۔

وَیسْأَلُونَكَ مَاذَا ینْفِقُونَ قُلِ الْعَفْو ۔ [البقرہ:219]

(وہ پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو)

اس آیت میں لفظ ’عفو‘ کے ترجمہ میں عموماً اردو مترجمین نے ’خرچ کے بعد جو بچ جائے وہ خرچ کرنا ‘لکھا ہے۔ اس کا یہ مطلب کہ اپنی ضروریات پوری کرنےکے بعد جو بھی بچا رہے وہ اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کردیا جائے۔ ’زائد از ضرورت، کی تعبیر بھی اختیار کی گئی ہے۔ لیکن یہ مفہوم لینا آسان نہیں ہے اور اس سے مال کے استعمال سے متعلق جو تصور بنتا ہے وہ اس موضوع پر قرآن اور احادیث کی تعلیمات سے متغایر ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ کے شروع میں ہی ’مما رزقناھم‘ یعنی’ جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے‘ کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا ہے کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے’وہ سب‘ خرچ کردیا جائے۔ دوسری طرح مال کے بچانے اور اس پر زکوٰة ادا کرنے کا جواز نہیں رہے گا جب کہ اس سلسلہ میں قرآن اوراحادیث سے بہت سے حوالے اور صحابہ کرامؓ کے آثار پیش کیے جا سکتے ہیں۔

مونا اشرف علی تھانویؒ نے مذکورہ آیت میں لفظ ’عفو‘ کا جو ترجمہ کیا ہے اس سے یہ الجھن رفع ہوجاتی ہے۔ ان کا ترجمہ ہے: ’’اور لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (خیر خیرات میں) کتنا خرچ کریں، آپ فرما دیجیے کہ جتنا آسان ہو۔‘‘ یہاں ’عفو‘ بمعنی آسانی لیا گیا ہے۔ عبدالماجد دریابادیؒ نے بھی اپنے شیخ کا ترجمہ ہی اختیارکیا ہے۔ تفسیر ماجدی میں اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے: ’’عفو سے مراد بس اتنا خرچ کرنا ہے جو اپنے اوپر بار نہ ہو۔‘‘

مفتی محمد شفیعؒ نے بھی تھانویؒ کے ترجمہ کو اختیار کرتے ہوئے اضافی طور پر بریکیٹ میں جو مفہوم بیان کیا ہے اس سے اس بات کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’اور لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (خیر خیرات میں) کتنا خرچ کریں آپ فرمادیجیے کہ جتنا آسان ہو (کہ اس کے خرچ کرنے سے خود پریشان ہوکر دنیوی تکلیف میں یا کسی کا حق ضائع کرکے اخروی تکلیف میں نہ پڑجائیں)۔‘‘

لفظ زکوٰة کی فرضیت قران کریم و حدیث رسولﷺ میں

یہ بات دلچسپ ہے کہ قران کریم کی جس آیت میں زکوٰة کی مدات کا ذکر ہے اس میں لفظ زکوٰة استعمال نہیں ہوا ہے۔

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۖ فَرِیضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ۔ [التوبة:60]

(یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔)

اس آیت میں صدقہ کی اصطلاح مذکور ہے۔ البتہ زکوٰة کی فرضیت کا ثبوت ’’فریضة من الله ‘‘ کی تعبیر سے حاصل ہوتا ہے، یعنی وہ صدقہ جسے اللہ نے فرض قرار دے دیا ہے۔ اس طرح صدقہ کی دو صورتیں متعین ہوئی ہیں۔ ایک وہ جو فرض ہے اور دوسری جو نفل ہے۔ پہلی صورت کو شریعت اسلامی میں ’زکوٰة‘ کہا جاتا ہے، دوسری کو صدقات نافلہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال زکوٰة ایک پہلو سے صدقہ بھی ہے۔ صدقہ، صدق سے بنا ہوا لفظ ہے جو کذب کی ضد ہے۔ اس کے معنی سچ کے ہوتے ہیں۔ مال کے حوالہ سے اس سے یہ مراد ہوتی ہے اس کے آنے کا ذریعہ، خرچ ہونے کا طریقہ اور خرچ کی نیت میں کہیں کذب نہ ہو، خیر ہی خیر ہو، بے داغ سچائی ہو۔

آں حضرت ﷺ کی درج ذیل حدیث سے زکوٰة کی نوعیت پر واضح روشنی پڑتی ہے۔

بعث معاذا رضی الله عنه إلى الیمن فقال:’’ادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله وانی رسول الله، فإن هم اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله قد افترض علیهم خمس صلوات فی كل یوم ولیلة، فإن هم اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله افترض علیهم صدقة فی اموالهم تؤخذ من اغنیائهم وترد على فقرائهم۔‘‘ [عن ابن عباسؓ، رواہ صحیح البخاری/كتاب الزكاة/حدیث: 1395]

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذؓ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا :’تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰة فرض کی ہےجو ان کے مالداروں سے لے کرغریبوں کو دی جائے گی۔‘‘

اس طرح یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰة کا مقام ایمان اور نماز کے بعد ہے۔ اس طرح جو مالدار صاحب ایمان نہ ہو اس سے زکوٰة نہیں لی جائے گی۔ اسی سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ زکوٰة کا استعمال بھی صرف اصحاب ایمان کے حق میں کیا جائے گا۔ اس اصول کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں یہ طریقہ عمومی صدقات نافلہ سے مختلف ہے کہ جن میں ضرورت مندوں کے سلسلہ میں ان کے دین کا لحاظ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس معاملہ میں زکوٰة صدقہ فطر سے مماثل ہے جو عید کی تیاری کے لئے مسلمان ضرورت مندوں کو دیا جاتا ہے۔

اس حدیث سے زکوٰة کے بنیادی مقصد کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ اسے مالدار لوگوں سے لے کر ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جانا ہے۔ اوپر مذکور آیت میں زکوٰة کی آٹھ مدات میں سے سات ضرورت مندوں سے متعلق ہیں جب کہ ایک مد ’عاملین علیها‘ (صدقات کے کام پر مامور افراد) نظم زکوٰة سے متعلق ہے۔ دراصل زکوٰة کی جمع و تقسیم کا مطلوب طریقہ یہ ہے کہ یہ اجتماعی طور پر کیا جائے۔ اسی وجہ سے اس کام پر مامور افراد کے اخراجات کا نظم اللہ تعالیٰ نے کردیا ہے۔

مکی آیات میں زکوٰة

مکہ مکرمہ میں قرآن کی جن آیات میں لفظ زکوٰة استعمال ہوا ہے ان میں سے ایک آیت میں مشرکین کےحوالہ سے اس کا ذکر آیا ہے۔ اردو مفسرین نے اس آیت کی تشریح میں جو باتیں لکھی ہیں ان کے حوالہ سے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی سعی درج ذیل ہے۔

وَوَیلٌ لِّلْمُشْرِكِینَ الَّذِینَ لَا یؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ  [فصلت: ۶-۷]

(تباہی کے ان مشرکوں کے لئے جو زکوٰة نہیں دیتے ہیں اور آخرت کے منکر ہیں۔)

سید ابولاعلی مودودی ؒنے اس آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے:

’’یہاں زکوٰة کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن عباسؓ اور ان کے جلیل القدر شاگرد عکرمہ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس مقام پر زکوٰة سے مراد وہ پاکیزگی نفس ہے جو توحید کے عقیدے اور اللہ کی اطاعت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ کہ تباہی ہے ان مشرکین کے لئے جو پاکیزگی اختیار نہیں کرتے۔ دوسرا گروہ جس میں قتادہ، سدی، حسن بسری، ضحاک، مقاتل اور ابن السائب جیسے مفسرین شامل ہیں، اس لفظ کو یہاں بھی مال کی زکوٰة کے معنی میں لیتا ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جو شرک کر کے خدا کا اور زکوٰة نہ دے کر بندوں کا حق مارتے ہیں۔

امین احسن اصلاحی ؒ رقم طراز ہیں:

’’لفظ زکوٰة انفاق کے عام مفہوم میں ہے اور ’لا یوتون زکوٰة‘میں ’زکوٰة‘ سے مراد انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس مفہوم میں یہ لفظ اسلام کے مکی دور میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ مدنی دور میں آکر اس کی ایک باضابطہ شکل معین ہو گئی اور پھر اس کا اطلاق اسی پر ہونے لگا۔ یہاں یہ لفظ اپنے عام مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور اس مفہوم میں اس زمانہ میں معروف تھا۔‘‘

مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ نے اس آیت سے پیدا ہونے والے سوالات کا احاطہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اصل زکوٰة تو ابتدائے اسلام ہی میں نماز کے ساتھ فرض ہوگئی تھی جس کا ذکر سورہ مزمل کی آیات میں آیا ہے۔ مگر اس کے نصابوں کی تفصیلات اور وصولیابی کا انتظام مدینہ طیبہ میں ہوا ہے۔

بہت سے فقہاء کے نزدیک کفار مخاطب بالفروع نہیں ہوتے ہیں اس لئے زکوٰة نہ دینے پر عتاب کیسا؟ ۔۔۔ جو فقہاء یہ رائے رکھتے ہیں وہ اس کا یہ جواب دے سکتے ہیں کہ کفار کا ترک زکوٰة چونکہ کفر کی بنا پر تھا اور ترک زکوٰة اس کی علامت تھی اس لئے ان کو عتاب کرنے کا حاصل یہ ہوا کہ تم مومن ہوتے تو زکوٰة کی پابندی کرتے۔ تمہارا قصور ایمان نہ لانا ہے۔۔۔۔

یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ احکام اسلام میں سب سے مقدم تو نماز ہے، اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ زکوٰة کا خصوصیت سے ذکر کرنے کی کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب قرطبی نے یہ دیا ہے کہ قریش عرب کے مالدار لوگ تھے اور صدقہ و خیرات اور غریبوں کی امداد ان کا وصف خاص تھا مگر جو لوگ مسلمان ہو جاتے، یہ لوگ ان کو اس طرح کی خاندانی اور معاشرتی امداد سے بھی محروم کردیتے تھے۔ ان کے اس رویے پر ان کی مذمت کرنا مقصود ہے۔ اس لئے زکوٰة کو خصوصیت سے ذکر کیا گیا۔‘‘

قرطبی کے حوالہ سے جو بات مالدار لوگوں کی طرف سے ایمان لانے والوں کی مالی امداد سے ہاتھ روک لینے کی بات جو مفتی شفیعؒ نے بیان کی ہے اس کے برعکس ان ذی حیثیت قریش مکہ کا معاملہ ہے جن کی مال سے بے جا محبت کی مذمت مکہ کی ابتدائی آیات میں کی گئی ہے۔

الَّذِی جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ‎‏ یحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ [الھمزة: ۲-۳]

(جو مال کو جمع کرتا ہے اور اسے گنتا رہتا ہے، وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔)

یقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا [البلد:6]

(وہ کہتا ہے میں نے ڈھیروں مال لُٹا دیا۔)

بظاہر یہ دونوں متضاد صورتیں ہیں، لیکن حقیقتاً یہ ایک ہی ذہنیت کی عکاس ہیں۔ وہ ذہنیت اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت نہیں سمجھنے اور اس کے استعمال میں کسی قید سے اپنے آپ کو آزاد سمجھنے کی ہے۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے مطابق اپنے مال کے استعمال کو اللہ تعالٰی کی مرضیات کا پابند بنانا شامل تھا۔ یہ بات ان کفر پر آمادہ افراد کو شاق گزر رہی تھی۔ بلکہ ان میں کچھ افراد کے ایمان نہ لانے کا سبب بن رہی تھی۔ اس طرز فکر کا یہ نتیجہ بھی تھا کہ بغیر احسان جتائے صرف ضرورت مندی اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت سے کسی پر اپنا مال خرچ نہ کیا جائے۔ اور اسی کا نتیجہ لوگوں کو دکھانے اور اپنی شہرت کے لئے مال ’لٹانا‘ تھا۔ مرض ایک ہی ہے، علامات (Symptoms)مختلف ہیں۔ ان کی اس بگڑی نفسیات کا قران کریم میں اس طرح نقشہ پیش ہوا ہے:

وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ [یٰس:47]

(اور جب ان سے فرمایا جائے کہ اللہ کے دئیے میں سے کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو تو کافر مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے کھلائیں جسے اللہ چاہتا تو کھلادیتا،تم تو کھلی گمراہی میں ہو۔)

جہاں تک مکی دور میں زکوٰة کے حکم کا ذکر ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ بلکہ سورہ مزمل میں یہ حکم نماز کے ساتھ دیا گیا ہے۔

أَقِیمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَقۡرِضُواْ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنٗا [المزمل: 20]

(نماز قائم کرو‘ زکوٰة دو اور اللہ کو اچھا قرض دو۔)

جس طرح نماز کی جن تفصیلات سے ہم آج واقف ہیں، ان میں سے بعض کا تعین مکی دور میں نہیں ہوا تھا، اسی طرح زکوٰة کی تفصیلات بشمول نصاب کا تعین نبی کریم ﷺ کے مدنی دور میں ہوا۔ دراصل نماز اور زکوٰة دعوائے ایمان کے لازمی ثبوت ہیں جن کی متعین شکلیں شریعتوں اور ان کے زمانے کے لحاظ سے تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ دین اسلام کی تکمیل کے ساتھ اب قیامت تک کے لئے ان فرائض کی صورت گری ہوچکی ہے۔

زکوٰة کے حساب و کتاب سے متعلق چند اہم معروضات

زکوٰة کا تعلق نقدی، سونا چاندی، اموال تجارت، مویشی، معدنیات اور خزانوں سے ہے۔ نقدی سے مراد مائع اثاثے (Liquid Assets) ہیں جن میں کمپنیوں کے شیئر اورٹریڈنگ اسٹاک شامل ہیں۔ اموال تجارت میں قریبی مدت میں واجب الوصول قرضے (قریبی مدت میں واجب الادا قرض منہا کرنے کے بعد) شامل ہیں۔

زرعی پیداوار کی زکوٰة کے لئے عشر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ زکوٰة اور عشر میں ایک بنیادی فرق ہے کہ اول الذکر کا حساب بارہ اسلامی ماہ گزرنے پر ہوتا ہے جب کہ آخرالذکر کا تعلق ہر فصل کے ساتھ ہے۔ یعنی اگر ایک سال میں ایک سے زیادہ فصل اگائی جائے تو عشر کا حساب ایک سے زائد بار ہوگا۔ مویشیوں پر زکوٰة کا حساب ان کی عمر اور گنتی پر ہوتا ہے۔ جب کہ اموال تجارت، سونا، چاندی اور نقدی کی زکوٰة کا تعلق ان کی قدر سے متعلق ہے۔ ہم اس مضمون میں زرعی پیداوار اور مویشیوں سے متعلق عشر یا زکوٰة کے مسائل پر گفتگو نہیں کریں گے۔ اسی طرح معدنیات اور خزانوں کی کھوج میں بھی نہیں پڑیں گے۔

زیادہ تر افراد کا واسطہ نقدی، سونا چاندی اوراموال تجارت کی زکوٰة سے پیش آتا ہے۔ ان کا نصاب 52.5 تولہ (612.36گرام) چاندی یا7.5 تولہ (87.48گرام) سونا یا ان کی حالیہ بازار کی قیمت فروخت ہے۔ پہلے کے مقابلے میں آج کے بازار میں سونے اور چاندی کی قیمتوں میں اتنا زیادہ تفاوت ہوگیا ہے کہ ان دونوں نصابوں کو ایک ساتھ بیان کرنے کی عملی افادیت نہیں محسوس ہوتی ہے۔ اب اس فیصلے کی حاجت ہے کہ ان میں کس کے نصاب پر عمل کیا جائے۔ عام طور پر مقبول رائے یہ ہے کہ چاندی کے نصاب کو پیش نظر رکھا جائے، جب کہ علما کے درمیان اور فقہی اکیڈمیوں کی کانفرنسوں میں یہ رائے بھی زیر غور رہتی ہے کہ سونے کے نصاب کو ترجیح دی جائے۔ البتہ یہ دوسری رائے ابھی مقبول نہیں ہوئی ہے۔ اس طرح چاندی سکہ رائج الوقت بنی ہوئی ہے۔

زکوٰة کے سلسلہ میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے یہ کسی ایک تاریخ کے اموال کی قیمت سے متعلق ہے۔ اس کا حساب کرتے وقت کسی کو یہ دیکھنے کی حاجت نہیں کہ کوئی خاص مال سال کے کتنےعرصے سے کسی کے پاس رہا ہے۔ متعین تاریخ میں جتنا مال (مالِ زکوٰة) ہوگا اس پر زکوٰة نکالی جائے گی۔ اس حساب کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس تاریخ کا تعین کیا جائے جب زکوٰة کی ادائیگی کا وجوب ہوتا ہے۔ زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب کوئی شخص قمری کیلنڈر کے بارہ مہینوں تک لگاتارصاحب نصاب رہا ہو۔ اس مدت کے اختتام پر پہلی دفعہ اس آخری تاریخ میں موجود اموال زکوٰة کی قیمت پر زکوٰة کا حساب ہوگا۔ آئندہ ہر سال اسی تاریخ کو زکوٰة کا حساب کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی مال زکوٰة اس تاریخ سے ایک دن قبل بھی اس کی ملکیت میں آیا ہو تو اسے شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح ایک دن قبل بھی اگر ایسا مال اس کی ملکیت سے الگ ہوا تو اسے شامل نہیں کیا جائے گا۔

جو افراد حساب و کتاب کی جدید مستعمل اصطلاحوں سے واقف ہیں وہ اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ زکوٰة کا کوئی تعلق آمد و صرف کے گوشوارے(Profit & Loss/Income & Expenditure Account) سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ بیلنس شیٹ (Balance Sheet)کے مندرجات سے متعلق حساب ہے۔ جس تاریخ کو زکوٰة کا حساب ہونا ہے، اس تاریخ کی بیلنس شیٹ کی ورکنگ کیپیٹل (Working Capital) پر زکوٰة واجب ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ قلیل مدتی اثاثے، قلیل مدتی واجبات سے کتنے زائد ہیں(Excess of Current Assets over Current Liabilities)۔ جدید طریقہ حساب و کتاب اور زکوٰة سے متعلق حساب میں صرف ایک فرق ہے کہ اموال تجارت کی قیمت نکالنے میں اول الذکر میں مال جس قیمت پر خریدا یا بنایا گیا تھا اس کا بھی لحاظ ہوتا ہے جب کہ زکوٰة کے لئے حالیہ قیمت فروخت کا لحاظ ہوگا۔

زکوٰة کا حسابی فہم جدول کے ذریعہ

زکوٰة کے حسابی فہم کی وضاحت کے لئے دو افراد کی مثالوں پر مشتمل درج ذیل جدول پیش ہے۔ یہ جدول تین مفروضوں پر قائم ہے۔ پہلا مفروضہ یہ ہے دونوں افراد ہر ماہ تیس ہزار روپیے کی بچت کرتے ہیں۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ زکوٰة کا نصاب ساٹھ ہزار روپیہ ہے اور تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ پہلا شخص ہر ماہ پابندی سے بچت کرتا رہا ہے جب کہ دوسرا شخص چوتھے مہینہ، یعنی ربیع الثانی میں، اپنی بچت سے ایک لاکھ روپیہ خرچ کر دیتا ہے۔

کل بچت (دوسری مثال) (روپیہ)۔ کل بچت (پہلی مثال) (روپیہ)۔ ماہ کا نام نمبر شمار
30,000 30,000 محرّم ۱
60,000 60,000 صفر ۲
90,000 90,000 ربیع الاول ۳
20,000 120,000 ربیع الثانی ۴
50,000 150,000 جمادی الاول ۵
80,000 180,000 جمادی الثانی ۶
110,000 210,000 رجب ۷
140,000 240,000 شعبان ۸
170,000 270,000 رمضان ۹
200,000 300,000 شوّال ۱۰
230,000 330,000 ذوالقعدہ ۱۱
260,000 360,000 ذوالحجہ ۱۲
290,000 390,000 محرّم ۱۳
320,000 صفر ۱۴
350,000 ربیع الاول ۱۵
380,000 ربیع الثانی ۱۶
410,000 جمادی الاول ۱۷

پہلے شخص کی بچت دوسرے مہینہ (ماہ صفر میں) نصاب تک پہنچ گئی تھی۔ البتہ اس کی پہلی زکوٰة بارہ ماہ تک مسلسل اس نصاب پر قائم رہنے کے بعد ماہ محرم میں اس وقت کی کل بچت 3،90،000 روپیہ پر نکالی جائے گی۔ آئندہ ہر سال ماہ محرم میں بچت کی جو رقم اس کے پاس ہوگی اس پر اس کی زکوٰة واجب ہوگی۔

دوسرے شخص کی بچت بھی دوسرے مہینے میں نصاب پر پہنچ گئی تھی لیکن یہ صورت حال بارہ مہینے باقی نہیں رہ سکی۔ چوتھے مہینے (ماہ ربیع الثانی میں) اس کی بچت نصاب سے نیچے ہوگئی۔ اس کے دو ماہ بعد جمادی الثانی میں اس کی بچت نصاب کو پہنچ سکی۔ اس کے مزید بارہ ماہ مسلسل نصاب پر رہنے کے سبب اگلے سال ماہ جمادی الاول میں اس وقت کی کل بچت 4،10،000روپیہ پر زکوٰة نکالی جائے گی اور آئندہ کے لئے اس شخص کے لئے زکوٰة کے حساب کا مہینہ جمادی الاول ہی ہوگا۔

ان دونوں اشخاص کی زکوٰة کے حساب میں درمیان سال کی بچی ہوئی رقم کا تعلق نہیں ہے۔ پہلے شخص کو ہر سال ماہ ربیع الثانی میں اور دوسرے کو جمادی الاول میں اس وقت کی بچت پر زکاة نکالنی چاہئے۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس متعین ماہ میں کسی سال کی بچت نصاب سے کم ہوجائے تو اس سال اس پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔

درج بالا طریقہ حساب سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے لوگ ہر آمدنی کی مدت کا حساب کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بینک اکاؤنٹ میں پورے سال جو سب سے کم رقم کا بیلنس ہوتا ہے اس پر زکوٰة اس خیال سے نکالتے ہیں کہ وہ رقم بارہ مہینے ان کے پاس رہی۔ حالانکہ انہیں صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ جس دن وہ زکوٰة کا حساب بنا رہے ہیں اس دن کا بیلنس کیا ہے۔ ایک دن قبل کی آمد و صرف سے بھی زکوٰة کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بارہ مہینہ کا معاملہ صرف پہلی دفعہ زکوٰة نکالنے کی تاریخ کے تعین کے لئے ہے۔ ایک دفعہ تاریخ متعین ہوگئی تو اسی پر آئندہ ہر سال حساب ہوتا رہے گا۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2025

Dec 25شمارہ پڑھیں

نومبر 2025

Novشمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223