رائے عامہ کی تبدیلی اور اجتماعی سرگرمیاں

اگست 2024کے شمارے میں ہم نے جماعت اسلامی ہند کے میقاتی منصوبے کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس میقات میں رائے عامہ کی تبدیلی کو جماعت کا ’میقاتی مشن‘ قرار دیا گیا ہے اور یہ طے کیا گیا ہےکہ جماعت اپنی تمام سرگرمیوں اور تگ و دو کو اس طرح منظم کرے گی کہ ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں رائے عامہ پر مثبت اثر پڑے۔ اس موضوع پر کچھ ضروری اصولی باتیں عرض کر دی گئی تھیں۔ اب یہاں ذیل کی سطروں میں، عملی کاموں اور توجہ طلب امور کا ایک خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس خاکے سے انداز ہ ہوگا کہ ہماری ہر طرح کی اجتماعی سرگرمیاں کیسے رائے عامہ کی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہیں اور کیسے تمام شعبے، ادارے اور ہر طرح کے اجتماعی کام، رائے عامہ پر اثر اندازی کے مرکزی ہدف کے حصول میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ہدف صرف جماعت کی ضرورت نہیں ہے۔ امت کے تمام طبقات کی یہ منصبی ذمے داری بھی ہے اور موجودہ حالات میں امت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے کہ رائے عامہ پر مثبت اثر پڑے۔ اس لیے ہماری چھوٹی بڑی ملی و دینی تنظیمیں، سیاسی ونیم سیاسی جماعتیں، نوجوانوں کی انجمنیں، فلاحی و رفاہی مراکز، تعلیمی ادارےغرض یہ کہ ملت میں موجود تمام اجتماعی ہیئتیں اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اس اہم ہدف کے حصول میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ہماری ان سب سے استدعا ہے کہ وہ اس خاکے پر غور فرمائیں اور اپنی تگ و دو اور کاوشوں کو رائے عامہ میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنائیں۔ کارکنا ن جماعت کی بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ امت کی تمام سرگرمیوں کو یہ رخ دینے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ امت کے ہر طبقے کی ہر سرگرمی رائے عامہ کو سدھارنے کا ذریعہ بنے۔

برادران وطن سے ربط و تعلق

رائے عامہ کی مثبت تبدیلی کے لیے سب سے زیادہ ضروری کام یہی ہے کہ مسلمانوں کا برادران وطن سے زیادہ سے زیادہ ربط و تعلق ہو اور اہم مسائل پر تبادلہ خیال کے مواقع مسلسل ملتے رہیں۔ ان صفحات میں اس سے قبل ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ کیسے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اور یہ صورت حال کس قدر نقصان دہ ہے۔[1] مسلسل مظالم اور زیادتیوں کے ردعمل میں خود مسلمانوں کے بعض طبقات میں یہ منفی رد عمل بھی کہیں کہیں نظر آنے لگا ہے کہ وہ خیر سگالی اور گفتگو و تبادلہ خیال کی ہر تجویز اور ہر کوشش کو شک اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ بڑا غیر صحت مند اور سخت مہلک رجحان ہے۔ اس امت کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک داعی امت ہے اور سخت سے سخت اشتعال کی فضا میں بھی اپنی اس حیثیت کو فراموش کرنا اس کے لیے نہ تو جائز ہے اور نہ اس کےمفادمیں ہے۔ حدودِ شریعت کا لحاظ رکھتے ہوئے نیز اظہارِحق اور ظلم و ناانصافی کی مزاحمت کےمعاملےمیں کسی مداہنت کے بغیر، برادران وطن اور ان کے مذہبی وسماجی رہ نماؤں کے ساتھ خیر سگالی کی صبر کے ساتھ مسلسل کوشش نہایت ضروری ہے اور اس کے بغیر رائے عامہ پر اثر اندازی ممکن نہیں ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے موجودہ حالات میں درج ذیل امور پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

ان سب امورکے حوالے سے مثالی رویوں کے بہت سے نمونے ملک کےمختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند اور اس کے کارکنا ن بھی ملک کے طول و عرض میں خیرسگالی و اعتماد، ربط باہم اور صحت مندمذاکرات کی فضا کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کوششوں کے اچھے نتائج بھی بر آمد ہورہے ہیں۔ بعض دیگر ادارے اور تنظیمیں بھی اس محاذ پر سرگرم ہیں ، لیکن جس تیزی سے فرقہ وارانہ فضاکومسموم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، اس کے تناظرمیں یہ ضرورت بہت زیادہ شدید ہوگئی ہے کہ ان کوششوں کی رفتار اور ان کا دائرہ بہت زیادہ بڑھایا جائے اور پوری امت اس کام کومہماتی اندازمیں لے کر آگے بڑھے۔

(۱) مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان سماجی سطح پر قریبی تعلقات پیدا ہوں اور ایک عام غیر مسلم کو زیادہ سے زیادہ مسلمانوں سے ربط و تعلق کے اور ان کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور مذاکرہ و گفتگو کےمواقع ملتے رہیں۔ ایسی صورت حال پیدا ہونی چاہیے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارےمیں ایک عام غیر مسلم کی سوچ ٹی وی چینلوں، سوشل میڈیا پوسٹوں اور جھوٹے ویڈیو کے ذریعے نہ بنے بلکہ جو رائے بھی بنے وہ راست مسلمانوں سے تعامل اور ان کو دیکھ کر اور سن کر بنے۔ ہماراخیال ہے کہ موجودہ احوال میں یہ کم سے کم ہدف ہے جوہندوستانی مسلمانوں کومستقبل قریب میں جلد سے جلد حاصل کرلینا چاہیے۔ اس کے لیے پہلی ضرورت یہی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا سماجی رابطہ کم سے کم کرنے کا جو رجحان پیدا ہورہا ہے، اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس مسئلے کے دینی اور سماجی پہلوؤں پر اس سے قبل ہم تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔[2]رابطوں کا کم ہونا ہمارے خیال میں منفی رائے عامہ کے لیے ذمہ دار ایک اہم عامل ہے اور موجودہ حالات میں اگر صرف رابطے و تعلقات ہی بڑھ جائیں تو ان سے بھی رائے عامہ کی درست رخ پر تبدیلی میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمارے خیال میں درج ذیل عملی کوششیں مسلسل مطلوب ہیں:

(۱لف) مسلمان زیادہ سے زیادہ برادران وطن سےقریبی سماجی رابطہ پیدا کریں۔ یہ کام ہرمیدان میں ہو یعنی طلبہ و طالبات، دفتروں اور کمپنیوں کے ملازمین، ڈاکٹر، وکلا اور دیگر پیشوں سے وابستہ پیشہ ور، تاجر، مزدور، کسان، خانہ دار خواتین، سبھی میں یہ بیداری لانے کی مسلسل کوشش کی جائے کہ وہ اپنے تعلقات اور پیشہ ورانہ روابط صرف مسلمانوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ برادران وطن سے بھی زیادہ سے زیادہ رابطے و تعلق کی شعوری کوشش کریں۔

(ب) جہاں ممکن ہووہاں، مشترکہ علاقوں میں رہائش اختیار کریں۔ ایسی جگہیں مستثنی ہوسکتی ہیں جہاں فسادات اور بد امنی وغیرہ کا عام ماحول ہو، لیکن ہر جگہ الگ تھلگ رہنے کے بڑھتے رجحان کو روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ مسلمانوں کی رہائشوں کو الگ تھلگ کرنے کی طاقت ور کوششیں فرقہ پرستوں کی جانب سے بھی ہو رہی ہیں اور بعض صورتوں میں مسلمانوں کا اس پر اختیار بھی نہیں ہے۔ لیکن خود مسلمانوں کی جانب سے، جس حد تک بھی ممکن ہو یہ کوشش ہونی چاہیے کہ آبادیاں ملی جلی رہیں۔ مستقل پڑوس میں رہنے سے حقیقت کو سمجھنے میں جتنی مدد ملتی ہے اتنی کسی اور ذریعے سے نہیں ملتی۔ ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو مثبت رائے عامہ رہی ہے اس کی بڑی وجہ صدیوں سے ساتھ رہنے کی روایت ہے۔ آج بھی ملک کے بعض علاقوں میں ساتھ رہنے کی وجہ سے حالات بہتر ہیں۔ خصوصاً بڑے شہروں میں اب اس صورت حال کو بدلنے کی جو کوشش ہو رہی ہے وہ ہماری سنجیدہ اور شعوری توجہ چاہتی ہے۔

بہرحال، کسی مسلم آبادی کا الگ تھلگ ہونا عدم تعلق کے لیے وجہِ جواز نہیں بننا چاہیے۔ جو لوگ خالص مسلم بستیوں میں رہتے ہیں وہ بھی اس تعلق سے اپنی ذمے داری کو محسوس کریں اور دوسری آبادیوں میں جاکر برادرانِ وطن سے ربط و تعلق کی شکلیں نکالیں۔ دوسری بستیوں میں موجود تفریح گاہیں، تجارتی مراکز اور کمیونٹی سینٹر وغیرہ بھی ربط و تعلق قائم کرنے کے مواقع مہیا کرسکتے ہیں۔

(ج) ایک بڑا مسئلہ زبان کا مسئلہ ہے۔ زبان صرف دو افرادکے درمیان رابطے اور کمیونی کیشن کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ دو قوموں اور گروہوں کے درمیان بھی صحت مند کمیونی کیشن کا وسیلہ ہوتی ہے۔ ادب، فنون لطیفہ، تقاریر و مواعظ، میڈیا و سوشل میڈیا، لٹریچر اور علوم و فنون، یہ سب صرف کسی فرقے کے اندرونی باہم کمیونی کیشن (intracommunity communication)کاہی ذریعہ نہیں ہیں بلکہ دو فرقوں کے درمیان کمیونی کیشن (intercommunity communication)کا بھی اہم وسیلہ ہیں۔ جب فرقوں کی زبانیں الگ الگ ہوجاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں ایک طرح کا مواصلاتی خلا (communication gap)فطری طور پر پیدا ہوجاتا ہے۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ دوسرے فرقے کا ادب کن افکار و احساسات کی ترجمانی کررہاہے، اس کے مذہبی قائدین کیا نصیحت کررہے ہیں، اس کا پریس کن مسائل کو اہمیت دے رہا ہے اور اس کے نوجوان سوشل میڈیا پر کن جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ مواصلاتی خلا (communication gap) اعتماد کی فضا کو مجروح کرنے میں بڑا کردار اداکرتا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں یہ فضا عام ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ مسلمان علما، قائدین، اہل علم اور عام نوجوان مقامی زبان سیکھنے پر توجہ دیں (انگریزی کافی نہیں ہے)، اور مسلمانوں میں مقامی زبانوں کے ادیب، فن کار، صحافی اور دانش وران و محققین زیادہ سے زیادہ پیدا ہوں اور جو موجود ہیں ان کی بھرپور سرپرستی، تعارف اور تعاون ہو۔

(د) خاندانوں کے درمیان ربط و تعلق اور میل ملاپ کو فروغ دیا جائے۔ شادی بیاہ اور تقاریب میں جانے آنے کے عمل کو بڑھایا جائے۔

(ھ) سماجی رابطے کے دیگر محاذوں پرمثلاً مشاغل اور ان کے فورموں، خواتین کی سرگرمیوں، علمی و پیشہ ورانہ فورموں، کھیلوں کی ٹیموں، تجارتی تعاون باہمی کے اداروں وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی شمولیت اور بین مذہبی روابط کی ہمت افزائی ہو۔

(۲) عید ملن وغیرہ طرز کے روایتی پروگراموں کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے ایسے اختراعی طریقے سوچنے اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن سے مسلمانوں کی مختلف مذہبی، سماجی اور معاشرتی قدروں سے برادران وطن راست متعارف ہوسکیں۔ حالیہ دنوں میں مسجدوںمیں برادران وطن کومدعو کرنے کا رجحان شروع ہوا ہے۔ اس کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جاسکتا ہے۔ جمعہ کے خطبوں میں، تراویح اور رمضان کے خصوصی پروگراموں میں، نکاح کی سادہ مسنون تقاریب میں (یاد رہے کہ خلاف دین رسومات اور سامانِ نمائش پر مشتمل تقریبات میں شرکت الٹا اسلام کی منفی شہادت کا ذریعہ بنتی ہے) نماز جنازہ اور تدفین میں، حج کے تربیتی پروگراموں میں، شادی اور ازدواجی زندگی سے متعلق تربیتی پروگراموں میں، زکوة و فطرے کی اجتماعی تقسیم کےمواقع پر، غرض ایسی تمام جگہوں پر برادران وطن کو مدعو کیا جانا چاہیے جہاں وہ اسلام کی مختلف تعلیمات کو جان سکیں، ان تعلیمات پر مسلمان کس طرح عمل کرتے ہیں اس کو راست دیکھ سکیں اور ان کی عملی برکتوں کا مشاہدہ کرسکیں۔

(۳) سوشل میڈیا میں برادران وطن کے ساتھ انگیج ہوں۔ سوشل میڈیاپر ایکوچیمبر بن جانے کے مسئلے او ر اس کے نقصانات پر اس سے قبل ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔[3] اس بات کی ضرورت ہے کہ محلوں اور کالونیوں کی سطحوں پراور پیشوں یا دل چسپیوں کی اساس پر مشترک وہاٹس اپ گروپ بنائے جائیں۔ ہر سمجھ دار مسلمان زیادہ سے زیادہ برادران وطن کے ساتھ مربوط ہو اور اس کے سوشل میڈیا وقت کا ایک قابل لحاظ حصہ برادران وطن کے لیے مختص ہو۔ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر زیادہ سے زیادہ بین المذہبی رابطے کو فروغ دیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے رائے عامہ پراثر اندازی کے لیے ضروری ہے کہ تین بڑے نقصان دہ رجحانات کی ہمت شکنی ہو اور انھیں روکاجائے۔ پہلا رجحان، اشتعال انگیز اور شر انگیز سوشل میڈیاانگیجمنٹ کا رجحان ہے۔ گالی کے جواب میں گالی، اشتعال کے جواب میں اشتعال، وسیع تر تعمیم (sweeping generalisation)، ذات پات یا مذہبی عقیدوںورسوم کے حوالے سے تحقیر و تذلیل، الفاظ و لہجے میں دانستہ نفرت و حقارت کی آمیزش، ناروا طنز تشنیع اور جاہلانہ حمیت و عصبیت کو بھڑکانے کی کوشش۔ اگرچہ یہ رجحانا ت ہندوستانی مسلمانوں میں عام نہیں ہیں۔ ایسی پوسٹیں نظر بھی آتی ہیں تو زیادہ تر ان کا سرچشمہ بیرون ملک ہوتا ہے۔ لیکن چند پوسٹیں بھی ماحول کو زہر آلود کردیتی ہیں اور پوری بحث کو بہت غلط اور مہلک رخ دے دیتی ہیں۔ اس لیے ان کی روک تھام ضروری ہے۔ ایسا طرز عمل نہ تو دین کی تعلیم کے مطابق ہے نہ اس کی کوئی ضرورت و افادیت ہے بلکہ شدید نقصان دہ ہے۔ سوشل میڈیا پر دوسرا نقصان دہ رجحان انتہاپسندانہ نقطہ نظر، سیاسی، مذہبی اور مسلکی مواقف میں شدت اور اس کا اظہار اور شدت و مبالغے کے ساتھ حالات کو بیان کرنے کا رجحان ہے۔ اس سے بھی رایوں پر مثبت اثر اندازی کا عمل مشکل ہوجاتا ہے اور تیسرا رجحان[4] اسلام کے تعارف میں ترجیحات و ترتیب کا لحاظ کیے بغیر ہر اہم و غیر اہم بحث میں الجھ جانے کا رجحان ہے۔ اس پر ہم اگست کے شمارے میں ’اعراض خوض‘[5]کے قرآنی اصول کے حوالے سے گفتگو کرچکے ہیں۔

(۴) ان کے علاوہ جن امورومسائل کو عام غیر مسلموں میں اسلام کے خلاف غلط فہمیوں اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بنایا جارہا ہے ان پر مسلسل افہام و تفہیم کی نشستیں منعقد کرانے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پاک، جہاد وقتال سے متعلق اسلام کی تعلیمات، خاندان اور خواتین سے متعلق احکام، گوشت خوری، حلال ذبیحہ، وطن اور اہل وطن سے تعلق وغیرہ جیسے مسائل پر اسلام کا موقف وضاحت کے ساتھ اہل ملک کے سامنے لایا جانا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات سے متعلق دفاعی کاوشوں کے ساتھ ساتھ، ملک اور سماج کے اہم مسائل اور ان پر اسلام کے موقف کی معقولیت بھی سامنے لائی جانی چاہیے۔ ذات پات اور سماجی نابرابری، دولت کا ارتکاز اور معاشی تفاوت، خواتین کے خلاف مظالم اور جنسی آوارگی وغیرہ جیسے مسائل پر مسلسل بات چیت ہو تو اسلام کے موقف کی معقولیت کو سمجھنا لوگوں کے لیے زیادہ دشوارنہیں ہوگا۔ ان مسائل پر صرف بڑے بڑے پروگراموں کے بجائے افہام وتفہیم کی زیادہ سے زیادہ چھوٹی چھوٹی نشستوں کا اہتمام ہونا چاہیے، جس میں لوگوں کو اپنے دل کی بات صاف صاف کہنے کا اور اپنے اعتراض اور دل کی کھٹک کو سامنے لانے کا موقع ملے اور سنجیدہ ماحول میں ان اعتراضات کا ازالہ بھی ہوسکے۔ اس طرح سے، سماج کے ہر طبقے خاص طور پر نوجوانوں کے طبقات کو مخاطب بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اہل علم کو بھی بڑے بڑے مجمعوں میں یک طرفہ تقاریر کے ساتھ ساتھ، اس طرح کی چھوٹی نشستوں میں نتیجہ خیز ٹیبل ٹاک اور افہام و تفہیم کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔

اصلاح معاشرہ کی کوششیں

اس سے قبل یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ رائے عامہ پر اثر اندازی کے لیے صرف کمیونی کیشن اور قولی شہادت کافی نہیں ہے بلکہ عملی نمونوں کا سامنے آنا اور عملی شہادت پیش کرنا بھی ضروری ہے۔ عملی نمونے زیادہ موثر طریقے سے رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عملی شہادت موثر طور پر اسی وقت ہوسکے گی جب ہم مسلمانوں کے معاشرے عملاً زیادہ سے زیادہ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہوں۔ اس لیے اصلاح معاشرہ کے کام کاایک پہلو دعوتی بھی ہے۔ یعنی مسلم معاشرے کی اصلاح اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر ملک کی رائے عامہ پرمثبت اثر ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ اس ضرورت کا تقاضا جہاں یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کی کوششیں تیز سے تیز تر ہوں وہیں ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ یہ کوششیں اس طرح منظم کی جائیں کہ ان کے ذریعے رائے عامہ پر اثر اندازی کا ہدف بھی حاصل ہوسکے۔

ان باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ رائے عامہ کی خرابی کے لیے صرف مسلمانوں کے رویے ذمے دارہیں۔ ظالم فرقہ پرست طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور ان کی شر انگیزیاں، رائے عامہ میں بگاڑ کے لیے ذمے دار ایک بہت اہم عامل ہے۔ اس کا یقیناً بھرپور مقابلہ ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے رویے کی معمولی غلطی بھی ان ریشہ دوانیوں کی کام یابی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ ہم اصلاً اپنے رویوں کے ذمے دار ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے خوداحتسابی اور اصلاح کی کوشش مستقبل کو بہتر بنانے کی تدبیر کا نہایت اہم حصہ ہے۔

سب سے پہلی ضرورت تو یہی ہے کہ مسلم معاشرے کی اصلاح ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ اسلام کاعملی نمونہ بنے۔ دوسری ضرورت یہ بھی ہے کہ مسلم معاشرے میں اس گئی گزری حالت میں بھی جو خوبیاں پائی جاتی ہیں، ان کونمایاں کیا جائے۔ اس ضرورت پر بھی گذشتہ مضمون میں ہم اظہار خیال کرچکے ہیں۔[6] ان کے علاوہ کچھ اور اہم پہلو جن پر اصلاح معاشرہ کی کوششوں میں توجہ درکار ہے، وہ ہمارے خیال میں درج ذیل ہیں۔

(۱) مسلم معاشرے کی ان خرابیوں کی اصلاح پر خاص توجہ دی جائے جو ہندوستان کے موجودہ ماحول میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق رائے عامہ کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ اصلاح معاشرہ کی کوششوںمیں یہ ایک بڑی کم زوری ہے کہ وہ اسلامی اخلاق کے چند پہلوؤں ہی تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں اور اخلاق کے دیگر اہم شعبے صرف مسلمانوں کے اجتماعی رویوں ہی میں نہیں بلکہ اصلاح حال کی جدوجہد میں بھی بری طرح نظر انداز ہیں۔ اس موضوع پرہم اپنی کتاب‘ اصلاح معاشرہ: منصوبہ بندی عملی طریقے‘ میں تفصیل سے بحث کرچکے ہیں۔[7] ہمارے خیال میں درج ذیل اخلاقی خرابیوں کا رائے عامہ کو منفی بنانےمیں اہم رول ہے۔ اس لیے ان پر خصوصی توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

(ا) صفائی و طہارت: ذاتی نظافت کے علاوہ محلوں، سڑکوں، گھروں وغیرہ کی صفائی، خاص طور پر مسجدوں اور مذہبی تقاریب سے متعلق امورمیں صفائی و نظافت کا اعلی معیار، قربانی کے موقعے پر صفائی کا اہتمام۔ ناپاکی اور گندگی کے مناظر کراہیت کا فوری تاثر قائم کردیتے ہیں اور رائے کوغلط رخ دے دینے اور اس میں عصبیت کے عنصر کی آمیزش کے ساتھ شدت پیدا کرنے میں یہ کراہیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

(ب) راستوں کے اور پڑوسیوں کے حقوق: اس سے قطع نظر کہ دوسرے لوگوں کا طرز عمل کیا ہے اور وہ کیسے زیادہ بڑی اخلاقی خرابیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ مسلمان اسلام کی تعلیمات کا مجسم نمونہ بنیں اور اپنے رویوں سے اسلام کی تعلیمات کی شہادت دیں۔ راستوں کے حقوق اور پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلے میں اسلام بہت حسّاس ہے۔ اسلام کے مذہبی شعائرکے تعلق سے ایسی کوئی عملی شہادت ہرگز نہیں سامنے آنی چاہیے جو اسلام کی تعلیمات سے راست متصادم ہو۔ بے ہنگم پارکنگ، بلا کسی شدید ضرورت کے راستوں پر نماز کا اہتمام، لاؤڈ اسپیکروں کا بے جا استعمال[8] آبادیوں میں اور بلڈنگوں کے باہر نوجوانوں کے جمگھٹے، رات بھر موٹر سائیکلوں کاشور، چائے خانوں کا شور شرابہ، دیررات فنکشن ہالوں میں ہنگامے، اس طرح کے بہت سے امور ہیں جو ملک کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی شناخت کے ساتھ وابستہ ہوگئے ہیں اور ان کے تعلق سے ناگواری اور بے زاری کے احساسات کو فروغ دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر مذہبی گروہوں کے تیوہاروں میں جو ہنگامے آئے دن برپا ہوتے ہیں وہ اپنی اذیت ناکی میں کئی گنا بڑھے ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ عرض کیاگیا مسلمانوں کی حیثیت صرف ایک قوم کی نہیں ہے کہ وہ ایسے معاملات کو مسابقت اور قومی کشاکش کا موضوع بنائیں۔ وہ اصلاً اسلام کے اخلاقی اصولوں کے علم بردار ہیں اور ہر حال میں ان اصولوں کی قولی و عملی شہادت ان کی اصل ذمہ داری ہے۔

(ج) خواتین سے متعلق امور: یہ غلط فہمی عام طور پر پائی جاتی ہے کہ اسلام خواتین کے ساتھ نعوذ باللہ عادلانہ سلوک نہیں کرتا۔ اس غلط فہمی کا بڑا سبب جہاں پروپیگنڈا ہے وہیں اس پروپیگنڈے کو تقویت دینے میں بعض مسلمانوں کے وہ رویے بھی ذمے دار ہیں جو اسلام کی تعلیمات سے انحراف اور مقامی تہذیبی اثرات کو قبول کرنے کا نتیجہ ہیں۔ خواتین کووراثت میں حصہ نہ دینا، ان کے مالی حقوق ادا نہ کرنا، مسجدوں میں ان کے داخلے کو قطعی طور پرممنوع سمجھنا،[9] بعض دینی حلقوں میں ان کی اعلی تعلیم اور معاشی سرگرمی کو لے کر غیر ضروری اور غیر اصولی تحفظات، طلاق کے اختیار کا بے جا اور غیر منضبط استعمال، ان کی سماجی سرگرمی کے حوالے سے نامناسب تحفظات، اس طرح کے متعدد رویے ہیں جن کا آج بھی کئی حلقوں میں چلن عام ہے۔ ہمارے مذہبی طبقات کی جانب سے، دوسری اخلاقی خرابیوں کے معاملےمیں تو صرف خاموشی اور بے اعتنائی کارویہ ہے لیکن خواتین کے معاملے میں بہت سی خرابیوں کا بعض اوقات بر ملا دفاع بھی کیاجاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں لڑکیوں کی کالج کی تعلیم کو منقطع کرانے کی باقاعدہ اپیلیں بھی ہوئی ہیں۔ رائے عامہ کی درست رخ پرتبدیلی کے لیے ان سب غیر اسلامی رویوں کی اصلاح ضروری ہے۔[10]

(د) مالی امور ومعاملات: تجارتی و مالیاتی اخلاق اسلام کا ایک نہایت اہم امتیاز رہا ہے اور اسلام کی دعوتی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے بہت سے علاقوں میں فروغِ اسلام میں ایک اہم کردار مسلمانوں کی دیانت داری اور ان کے معاملات نے ادا کیا ہے۔ آج بھی بہت سے مسلمان ہیں جو اس کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر عام مسلمان معاشرے کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب مسلمانوں کا یہ امتیاز باقی نہیں رہا۔ بعض جگہوں پر تو یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے رویے عام سماج سے بھی فروتر ہیں۔ کئی جگہوں پریہ بات مشہور ہے کہ مسلمان شراب، سور کے گوشت، حرام ذبیحہ وغیرہ کے سلسلے میں توحساس ہیں لیکن یہ حساسیت کسبِ مال میں حرام سے بچنے کے سلسلے میں بہت کم ہے۔ تجارت اور لین دین میں دھوکہ دہی کی کیا صورت حال ہے؟ ملازمین بلکہ دین دارملازمین بھی وقت کی پابندی کرتے ہیں یا وقت کی چوری کےلیے بدنام ہیں؟ مسلمان کاری گر وں اور پیشہ وروں کے یہاں وقت کی پابندی کرنے اور وقت پر کام کومکمل کرنے کے حوالے سے کیا صورت حال ہے؟ یہ درست ہے کہ پڑوسیوں کی زمینوں پر دست درازی اور تعمیر کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ سڑک کی زمین ہتھیالینا ملک میں عام رویہ ہے۔ کرپشن، ٹیکس کی چوری وغیرہ جیسے متعدد مالی معاملات ہیں جن کے حوالے سے ہمارے ملک میں آوے کا آوا بگڑاہوا ہے۔ لیکن ہمارے لیے اہم تر سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے مسلمانوں کی صورت حال بہتر ہے یا اور ابترہے؟ ان سب سوالات کے حوالے سے، ہمارا انداز ہ یہ ہے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں شاید صورت حال اچھی نہیں ہے۔ شراکت داری کے اصول، مل جل کرایک دوسرے کے فائدے کے لیے اور ایک دوسرے کو ضروری رعایت دیتے ہوئے بڑی تجارتیں کرنے کی صلاحیت، باہمی معاملات میں شفافیت، ضروری رازداری اور اعتماد باہمی کااہتمام وغیرہ جیسے امور میں اجتماعی کم زوری ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کےاسباب میں شامل ہے۔ یہ سب رویے بھی اسلام کی معکوس شہادت اور نتیجتاً رائے عامہ پر منفی اثر کے لیے ذمے دار ہیں۔ اس جائزے کی بھی ضرورت ہےکہ کہیں غیر متوازن عصبیتیں اور رد عمل کی نفسیات ہم کو اخلاقی اصولوں سے منحرف تو نہیں کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر حکومت کی زیادتیاں اور ناانصافیاں ٹیکس کے معاملے میں ہمیں لاپروا تو نہیں بنارہی ہیں؟ جلسے جلوسوں میں بلاٹکٹ جانے کا دوسرے فرقوں کا معمول، ٹکٹ وغیرہ کے معاملے میں ہماری حساسیت کو تو کم تو نہیں کررہاہے؟ ہمارے خیال میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام امور کو اصلاحی کوششوں کا اہم ہدف بنایا جائے۔

(۲) رائے عامہ پر اثر اندازی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اوپر ذکر کیے گئے امورکے حوالے سے، ملک کی رائے عامہ کے سامنے یہ بات آئے کہ مسلمانوں کی دینی واصلاحی تحریکیں اور ان کےزعماان امور کے سلسلے میں حساس ہیں اور ان کے سلسلے میں اصلاح کےلیے فکر مند اور کوشاں ہیں۔ مثلاًاگر مسلمان تین طلاق پر حکومت کے قانون کے خلاف تو بہت زیادہ بے چین و متحرک نظر آئیں لیکن یہی بے چینی طلاق بدعی کی روک تھام کے سلسلے میں نظر نہ آئے، خطبوں میں طرح طرح کے سماجی و سیاسی موضوعات زیربحث آئیں لیکن طہارت و پاکیزگی جیسے سماجی مسائل پرکبھی گفتگو نہ ہو تو ہمارے ملک کے مسلم معاشرے کی عملی کم زوریاں اسلام کے ساتھ وابستہ ہونے لگتی ہیں اور اسلام اور پوری مسلم امت کے سلسلے میں منفی تاثر قائم ہونے لگتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی برائیوں کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نظر صاف صاف سامنے آتا رہے اور ان معاملات میں اصلاح کی کوششیں ہوتی ہوئی لوگوں کو نظر آئیں اور ہمارا دینی بیانیہ محض ایک قوم کے جذبات اور رویوں کا دفاعی بیانیہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ اصلاً اسلام کی اصولی تعلیمات کا ترجمان بنے۔

ملی و ملکی امور اور سیاسی محاذ

یہ بات بھی ہم اس سے قبل لکھ چکے ہیں کہ سیاست نام ہی اصلاً رائے عامہ پراثر اندازی کا ہے۔ ملی وملکی مسائل اور سیاسی جدوجہدکی تنظیم بھی اس طرح ہونی چاہیے کہ ان سے رائے عامہ کو متاثر کرنے میں مدد ملے۔ ان محاذوں پر ہر کام کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھا جانا چاہیے کہ اس سے رائے عامہ پر کیااثر پڑسکتا ہے؟اس حوالے سے درج ذیل پہلوقابل توجہ ہیں:

(۱) سیاسی مسائل میں ہماراعوامی بیانیہ اور جدوجہدصرف مسلمانوں سے متعلق امور تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ رائے عامہ پر اثر کے حوالے سے یہ سب سے زیادہ نقصان دہ رجحان ہے۔ اس رجحان کے نتیجے میں ہم خود ہی ملک کے عام سماج سے اپنے آپ کو کاٹ لیتے ہیں اور اپنے خلاف تعصب اور جانب دارانہ آرا اور رویوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرلیتے ہیں۔ اس سے قبل وضاحت آچکی ہے کہ رائے عامہ پر اثر اندازی کے لیے اپنائیت کاماحول ضروری ہے اور یہ ماحول ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا اگر ہم اپنے پڑوسیوں کے بڑے بڑے مسائل پر خاموش رہیں اور ہماری ساری سرگرمی اور ہنگامہ خیزی صرف اُن امورو مسائل تک محدود رہے جو مسلمانوں کے مسائل سمجھے جاتے ہیں۔

(۲) ملی اور سیاسی مسائل پر مہمات چلاتے ہوئے اس بات کا لحاظ ضرور ہو کہ ان کاطریقہ، انداز کار، ذرائع وسائل، زبان اور لب و لہجہ ایساہو جس سے عوامی رائے پر مثبت اثر ڈالنے میں مدد ملے۔ یہ ان مسائل کے حل کے لیے بھی ضروری ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے رائے عامہ پراثر اندازی کے اصل اور طویل المیعاد مقصد کا بھی تقاضا ہے۔ بد قسمتی سے اکثر دفعہ شعوری یالاشعوری طور پر، جذبات کی تسکین اور امت کے اندر پائے جانے والے غم و غصے کا مداوا، اصل مقصد بن جاتا ہے اور ایسی مہمات کی تفصیلات کے تعین کے وقت یہی مقصد ذہن پر حاوی رہتا ہے۔ بلاشبہ اس مقصد کی بھی اپنی اہمیت ہے لیکن اس کو اتنی اہمیت دینا کہ وہ رائے عامہ کی تبدیلی کے مقصد پر فوقیت حاصل کرلے اور محض جذبات کی تسکین کی خاطر رائے عامہ میں بڑے پیمانے پر بگاڑ کو قبول کرلیا جائے، ہرگز کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔

(۳) مختلف امور ومسائل پرہم اس طرح موقف اختیار کریں، بولیں اور تحریکیں چلائیں کہ ان کے نتیجےمیں اسلام کی مختلف تعلیمات بھی واضح ہوتی رہیں۔ یہ کام اسلام کے نام کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور ضرورتا نام کے بغیر بھی ہو تو مسلمانوں کی جانب سے اجتماعی طور پر آنے والی بات اسلام کی بات سمجھی جائے گی اور رائے عامہ پر اثر اندازی میں ضرور کردار ادا کرے گی۔ مثلاً بجٹ پراظہار خیال کرتے ہوئے ہم ضرور اسلام کی غریب پروری، دولت کی منصفانہ تقسیم، فلاح و بہبود پرمرکوز، ماحول دوست اور قدروں پر مبنی اسلام کا ترقیاتی ماڈل، دولت کی افزائش اور اس کی تقسیم میں توازن وغیرہ امور کو زیر بحث لائیں۔ وقف بل پر احتجاج صرف غیظ و غضب کے اظہار تک محدود نہ ہو بلکہ وقف کی اسلامی تعلیمات اور ان تعلیمات کے انسانیت دوست مقاصد بھی وضاحت کے ساتھ سامنے آئیں۔

(۴) احتجاجی و دفاعی سیاست کے علاوہ اقدامی سیاست کی بھی ہم عادت ڈالیں۔ اس ملک میں دلتوں کے مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں؟معاشی نابرابری کے خاتمے کا راستہ کیاہوسکتا ہے؟ پولیس کو کیسے زیادہ سے زیادہ انصاف پسند اور شہریوں کا دوست بنایا جاسکتا ہے؟ انصاف کے نظام میں کیسے عدل پروری اور تیزی و سرعت پیدا کی جاسکتی ہے؟ اس طرح کے مسائل کو ہم اپنا سیاسی ایجنڈا بنائیں (اس موضوع کوبھی ہم تفصیل سے اپنی کتاب ’ہندتو انتہا پسندی: نظریاتی کشمکش اور مسلمان ’میں زیر بحث لاچکے ہیں۔ ) [11]اگر مسلمانوں کاایک قابل لحاظ طبقہ اس طرز کی نظریاتی سیاست کا عادی ہوجائے تو رائے عامہ کی مثبت رخ پر تبدیلی کی راہ ہم وار ہونے لگے گی۔

(۵) اوپربیان کی گئی چاروں باتوں کا لحاظ صرف ملکی اور ریاستی سطح کے بڑے امور ومسائل میں نہیں بلکہ ضلع، شہر، گاؤں، کالونی وغیرہ کی سطح کے خالص مقامی سطح کے مسائل میں بھی ہونا چاہیے۔ ان سطحوں پر اختیار کیے جانے والے رویے بھی رائے عامہ پر اثر اندازی کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے مقامی سطحوں پربھی مسلمانوں کےمخصوص مسائل کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے مسائل پر بھی ہم کام کرتے رہیں، یہاں بھی اقدامی سیاست ہو، ان سطحوں پربھی اسلام کے مواقف سامنے آتے رہیں اور یہاں بھی ملی مسائل پرمزاحمت اور جدوجہد کے دوران رائے عامہ کا لحاظ ضرور رکھا جائے۔

خدمت خلق

خدمت خلق رائے عامہ پر اثر اندازی کا بہت ہی موثر طریقہ ہے۔ جو آدمی انسانوں کا ہم درد اور غم خوار ہوتا ہے اس کی باتوں اور نصیحتوں کو ایک ہم دردکی نصیحت کی حیثیت سے خود بخود وزن حاصل ہوجاتا ہے۔ مکّہ میں رسول اللہﷺ کی امیج دو پہلوؤں سے بہت ممتاز تھی۔ ایک امیج تو آپ کے اعلی ترین پاکیزہ کردار کے حوالے سے صادق وامین کی امیج تھی اور دوسرے آپ کی انسان نوازی اور غم خواری کے حوالے سے یہ امیج عام تھی کہ آپ غریبوں کی مدد کرنے والے، ضرورت مندوں کے کام آنے والے اور تمام انسانوں کے ہمدرد و خیر خواہ ہیں۔ انبیا علیہم السلام کی بھی اپنی اپنی قوموں میں یہی امیج تھی کہ وہ ناصح امین یعنی ایسے خیر خواہ ہیں جن کی خیر خواہی قابل اعتماد ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی یہ ایک اہم ضرورت ہے کہ وہ اپنی یہ امیج بنائیں کہ وہ رب رحمان و رحیم کے نام لیوا، رحمة للعالمین کے امتی اور دین رحمت کے ماننے والے ہیں اس لیے ملک کے عام لوگوں کے لیے باعث رحمت ہیں۔ یہ امیج یعنی انسانوں کے خیر خواہ خادم کی امیج ہر فرد کی بھی بننی چاہیے، جماعتوں کی بھی اور پوری امت کی بھی۔ اس لیے کہ فرد بھی دین کا داعی ہے اور جماعت بھی۔ اس کے لیے درج ذیل تین باتیں ضروری ہیں۔

(۱) پہلی بات تو یہ کہ خدمت کا مزاج مسلمانوں میں عام کیا جائے۔ یہ مزاج مسلمانوں میں الحمد للہ پایا جاتا ہے۔ کووڈ کی لہر کے دوران مسلمانوں کے اس عمومی مزاج کی واضح شہادت سامنے آئی اور ملک کی رائے عامہ پر اس کے ممکنہ اثرات کا بھی بڑا سبق آموز تجربہ ہوا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس مزاج کی افزائش اور اس کے نتیجہ خیز استعمال کی طرف توجہ دی جائے۔

(۲) یہ مزاج عام کیاجائے کہ خدمت کا کام صرف مسلمانوں میں نہیں کرنا ہے بلکہ ملک کے تمام انسانوں کے درمیان کرنا ہے۔ اسی کے نتیجے میں رائے عامہ پر مثبت اثر اندازی کا فائدہ حاصل ہوگا۔ عام آفتوں (آفات سماوی یا فسادات وغیرہ) کے موقعے پر تو اکثر مسلمان بلاتفریق مذہب و ملت آگے بڑھ کر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ خدمت کے مستقل مراکز اور رفاہی ادارے بھی اپنے دروازے سب کے لیے کھولیں اور سب کی خدمت کو اپنی پہچان بنائیں۔ مسلمان علاقوں کے علاوہ، مسلمان دوسری بستیوں اور محلوں میں بھی جاکر ادارے اور مراکز کھولیں۔

(۳) خدمت کا کام دعوت اور اصلا ح کےکام سے الگ نہیں ہے۔ خدمت کرنے والے ہر فرد اور خدمت کے اداروں کے ہر والنٹیر کے سامنے دین اسلام کی تعلیمات پیش نظر رہیں۔ وہ لوگوں کے دنیا کے دکھ بھی دورکرے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت کی نجات کی بھی فکر کرے۔ خدمت کرتے ہوئے، چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے وہ لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کرے اور ان کی سوچ کو درست رخ دے۔ اس کے لیے خدمت کرنے والوں کی مناسب تربیت کرنا ایک اہم کام ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

ادارے

اجتماعی ادارے اسلام کی اور خاص طورپراجتماعی زندگی سے متعلق اسلام کی شہادت کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اس وقت مکمل اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاستیں موجود نہیں ہیں جو اسلام کی برکتوں کا دنیا کو نظارہ کراسکیں۔ ایسی صورت میں ادارے محدود پیمانے پر ہی سہی، یہ کام کرسکتے ہیں۔ اپنے ماحول اور کارکردگی سے وہ غیر اسلامی صحرامیں اسلام کے ایسے نخلستان بن سکتے ہیں جہاں کی ٹھنڈی ہوا، سائے اور میٹھے پانی کی طرف ہر پیاسا مسافر کشش محسوس کرسکے۔ اس موضوع کو آئندہ ہم تفصیل سے زیر بحث لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز۔ سر دست کچھ اہم اصولی باتوں کے ذکر پر اکتفا کررہے ہیں۔

(۱) ہمارے اداروں کے پیش نظر یہ مقصد واضح طورپر رہے کہ انھیں اسلام کی عملی شہادت کا فریضہ انجام دینا ہے۔ سب سے اہم ادارہ مسجد ہے۔ مسجدوں کے سامنے یہ بات رہے کہ ان کا کام صرف نماز کے لیے جگہ فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ اسلامی زندگی کے جن جن پہلوؤں کا بھی عملی نمونہ سامنے لانا ممکن ہو، انھیں سامنے لانا بھی ان کا کام ہے۔ مسجد صفائی اور پاکیزگی کا نمونہ ہو، یہاں تنازعات حل ہوتے ہوں، سماج کےمختلف مسائل پر بروقت اور درست رہ نمائی ہوتی ہو، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا نمونہ اور بستی کی مسلم وغیر مسلم آبادی کے لیے مختلف طریقوں سے باعث رحمت ہو، ماحولیاتی تقاضوں کا لحاظ رکھا جاتا ہو۔ اس طرح کے مختلف پہلوؤں سے ہماری مسجدیں اسلامی تعلیمات کا عملی ماڈل بنیں اور لوگوں کو اسے دیکھنے اور محسوس کرنے کے مواقع ملتے رہیں۔

(۲) اسی طرح ہمارے تعلیمی ادارے اسلام کے تصور تعلیم کے نمائندہ اور اس کی عملی شہادت دینے والے بنیں۔ وہ صرف کتابیں پڑھانے کے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں کردار سازی کے مراکز ہوں۔ ملک کے بعض بڑے مسلم اداروں میں برادران وطن اپنی لڑکیوں کو اس لیے شریک کراتے ہیں اور انہیں ترجیح دیتے ہیں کہ یہاں انھیں زیادہ محفوظ ماحول میسر آتا ہے۔ اس طرح مختلف معاملات میں ہمارے تعلیمی اداروں کی اچھی امیج بننے لگے اور وہ عملاً یہ نمونہ پیش کرنے میں کام یاب ہوں کہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں بچوں کی شخصیت سازی بہترین خطوط پر ہوتی ہے تو یہ بہت طاقت ور شہادت ہوگی۔ ہمارے اسپتال اسلام کے نظام صحت کے علم بردار اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے والے ہوں جہاں صحت کا مطلب کلی صحت (holistic health) اور علاج کا مطلب کلی علاج (holistic treatment) ہو، انسان کو صرف جسم سمجھ کر علاج کے عمل کو صرف کیمیاوی تعاملات اور چیرپھاڑ تک محدود نہ سمجھا جاتا ہو بلکہ علاج کے جذباتی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں پر بھی یکساں توجہ دی جاتی ہو۔ ہمارے مالیاتی ادارے اسلام کے معاشی عدل اور سود سے پاک اور شراکت داری پر مبنی مالیاتی تصور کی عملی گواہی دینے والے ہوں۔ رفاہی و فلاحی ادارے اسلام کی انسان دوستی، مساوات اور مکمل فوز و فلاح کے اسلامی تصور کے علم برادر ہوں۔ وغیرہ۔

(۳) اس شہادت کے لیے ضروری ہے کہ ان اداروں کے پاس اول روز سے یہ وژن ہو کہ انھیں صرف خدمات فراہم کرنے کا کام نہیں کرنا ہے اور نہ ہی صرف مفت یا کم قیمت خدمات کی فراہمی تک ان کا مقصد محدود ہے۔ ان کا اصل مقصد متعلقہ محاذ پر اسلام کی شہادت اور اس کی تعلیمات کا عملی نمونہ سامنے لانا ہے۔ اس کے لیے انھیں اپنے تمام کاموں کو اسی انداز سے منظم کرنا ہے اور اپنے کام کے بالکل نئے طریقے اور پروسیس تشکیل دینے ہیں۔ مثلا ایک مسلمان اسپتال کا طریقہ علاج اور اس کے ایس او پی اور پروٹوکول، عام اسپتال سے مختلف ہوں گے۔ یہ اسی وقت ہوگا جب اول روز سے عملی شہادت کا واضح وژن ان کی نگاہوں کے سامنے ہوگا۔ یہ وژن سامنے ہوگا تو وہ حسب سہولت اس حوالے سے لوگوں کی تعلیم اور ذہن سازی کی بھی کوشش کریں گے۔ مثلاً ہمارے مالیاتی اداروں کے درو دیوار پر ایسے تعلیمی چارٹ ضرور آویزاں رہیں گے جو اسلام کے مالیاتی تصورات کی انفرادیت واضح کریں گے۔ وہ اپنے گاہکوں کے لیے اسلامی معاشیات اور مالیات پر مسلسل بیداری اور تعلیم کے پروگرام منعقد کرتے رہیں گے۔ مسلمان اسکول سرپرستوں کو برابر بتاتا رہے گا کہ اسلام کے مطابق تعلیم کے حقیقی مقاصد کیا ہیں۔ اس پر ضروری لٹریچر ان کو فراہم کیا جاتا رہے گا۔ اسپتال میں ڈاکٹر دوا کے ساتھ ساتھ اللہ پر توکل کی، دعا کی، صدقہ و خیرات کی اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی بھی برابر تلقین کرتا رہے گا۔

۴۔ ادارے کے مخصوص میدان کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ادارے کا مجموعی ماحول بھی اسلام کی شہادت کا ذریعہ بنے۔ وہاں اگر مرد و خواتین دونوں کام کرتے ہوں تو اسلام میں مرد و خواتین کے درمیان رابطے سے متعلق جو حدود بتائے گئے ہیں اور جوہدایات دی گئی ہیں، ان کاعملی نمونہ سامنے آئے، آجر و مستاجر کے درمیان تعلق، کام کے سلسلےمیں دیانت داری، عوامی وسائل کے استعمال میں احتیاط اور تقویٰ کا رویہ، قانون کی پابندی، عام لوگوں سے حسن سلوک، ان سب امور میں ادارہ، اس کاماحول، اس کے اصول وضوابط، اس کی مرکزی قدریں (core values)اس سے متعلق لوگ، سب اسلام کی مختلف تعلیمات اور اسلامی اخلاق کے نمائندہ اور اس شہادت دینے والے ہوں، ادارے کی یہ مسلسل کوشش ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے عام ادارے تو کجا، دین دار لوگوں بلکہ دینی تنظیموں کی جانب سے چلائے جارہےبیشتر ادارے بھی اس ہدف سے اس وقت کافی دور ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ اس پہلو سے اصلاح احوال کی ٹھوس اور مسلسل کوشش رائے عامہ پر اثر اندازی کی ایک اہم ضرورت ہے اس لیے کہ جیسا کہ عرض کیا گیا، انفرادی زندگی سے متعلق امور میں عملی شہادت پیش کرنے والے مثالی کردار کےحامل لوگ تو مل سکتے ہیں لیکن اجتماعی سطح پر اسلام کی شہادت کا ذریعہ اس وقت صرف ادارے ہی ہیں۔

۵۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اداروں کے منتظمین کی اور وہاں کے عملے کی ان پہلوؤں سے مسلسل تربیت کا اہتمام ہوتا رہے، اس مقصد کے لیے خصوصی لٹریچر تیار ہو اور یہ کام ایک تحریک بن جائے، تاکہ مسلمانوں کے ادارے بھی عملی شہادت کا اور اس کے نتیجے میں رائے عامہ کی تربیت کا ٹھوس ذریعہ بن جائیں۔

حواشی و حوالہ جات

[1] سید سعادت اللہ حسینی (2023)؛ اشارات(تعلقاتی قوت اور نافعیت)، ماہنامہ زندگی نو؛ اکتوبر 2023:ص12-14

[2] حوالہ سابق ص 15-19

[3] سید سعادت اللہ حسینی (2024)؛ اشارات(رائے عامہ اوراس کی تبدیلی)، ماہنامہ زندگی نو؛ اگست 2024:ص13-14

[4] تفصیل ملاحظہ ہو

سید سعادت اللہ حسینی (2024)؛ اشارات(رائے عامہ اوراس کی تبدیلی)، ماہنامہ زندگی نو؛ اگست 2024؛ (ذیلی سرخی ‘ خاموشی، اعراض اور نظر انداز کرنے کی پالیسی ص17-19)

 

[5] حوالہ سابق

[6] سید سعادت اللہ حسینی (2024)؛ اشارات(رائے عامہ اوراس کی تبدیلی)، ماہنامہ زندگی نو؛ اگست 2024:ص16

[7] سید سعادت اللہ حسینی (2021) اصلاح معاشرہ: منصوبہ بندی عملی طریقے؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی۔ صفحات27-40

[8] اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے بعض علاقوں میں ان حوالوں سے مسلمانوں پرجائز اور معقول رویوں پربھی ناروا بندشیں عائد کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ان ظالمانہ کوششوں کی ضرور مزاحمت ہونی چاہیے لیکن بہر حال بے جا اور اذیت ناک استعمالات سے گریز بھی ضروری ہے کہ یہ احتیاط اسلامی اصول اوراسلامی اخلاق کا تقاضا ہے۔

[9] مسجدوں میں عام طور پر خواتین جائیں یا نہ جائیں، اس پر یقیناً فقہی آرا الگ الگ ہیں اور یہاں یہ مسئلہ ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ ضرورت کے پیش نظر، مثلاً بازاروں میں، سڑکوں پر، تعلیمی اداروں اور دفتروں میں جہاں نمازکی ادائیگی کے لیے مسجد جانا خواتین کی ضرورت ہو، وہاں مسجد میں داخلہ کسی کے یہاں بھی ممنوع نہیں ہے۔ لیکن عملاً کئی جگہ ایسی صورت حال ہے جیسے عورت مسجد میں داخل ہوجائے تو گویا بڑا جرم سرزد ہوگیا۔ ہمارے پیش نظراس رویے کی اصلاح ہے۔

[10] ان امورپرتفصیل سے درج ذیل کتاب میں بحث ہوچکی ہے:

سید سعادت اللہ حسینی (2018)خواتین میں اسلامی تحریک؛ ہدایت پبلشرز؛ نئی دہلی

[11] سید سعادت اللہ حسینی (2022) ہندتو انتہاپسندی، نظریاتی کشمکش اورمسلمان؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223