عصرِ حاضر کے بحران

اور مفکرین کا مطلوبہ کردار

دنیا میں درپیش سنگین چیلنجوں اور بحرانوں کے سلسلے میں گفتگو کرتے وقت ہر کسی کی توجہ سیاست دانوں اور حکومتی اہلکاروں کی طرف کیوں ہوتی ہے؟ کیا کسی حد تک ان سے یہ امید لگانا درست ہوسکتا ہے کہ وہ ان مشکلات کا ازالہ کریں گے، جنگوں کو روکیں گے اور سماجی مسائل کا کوئی حل نکالیں گے؟ میرے خیال سے یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سیاست داں جب عالمی سطح کے بحرانوں سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے تو پہلے وہ اپنے ملک کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے بعد اپنی ذاتی مصلحتوں اور اقتدار کی بقا کی فکر کرتا ہے۔ چناں چہ کسی بحران کا حل پیش کرنے کے بجائے وہ اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

صورت حال کی مکمل آگہی ضروری ہے

آج دنیا جن بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے، ان کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے۔ اس کی بڑی مثال یوکرین اور روس کی جنگ، فلسطین پر ناجائز تسلط، شام کی خانہ جنگی، اور افریقہ میں جاری تنازعات ہیں۔ بصد افسوس یہ تو صرف آغاز ہے۔

اگر ہم حکومتی عہدیداروں کی باتوں پر توجہ دیں، تو ہمیں اکثر ان کی زبان سے بڑے بڑے بیانات سننے کو ملتے ہیں مثلا “مسئلے کا سیاسی حل ہو، فوری جنگ بندی کی جائے، پر امن طریقوں کو اپنایا جائے”۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ محض سطحی بیانات ہیں جن سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اسی طرح بحرانوں کی وجوہات پر یہ جو تجزیے پیش کرتے ہیں، وہ بھی بالکل سطحی ہوتے ہیں جن کا ان مسائل کی گہرائی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ تجزیے بھی مکمل طور سے علاقائی دائروں میں محدود ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاست داں، بیوروکریٹ یا حکومتی عہدیدار اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ایک دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جس کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ صورت حال سے مکمل طور پر واقف ہو اور ان بحرانوں کی درست تفصیلات بیان کرے۔ انھیں دانش ور، اسکالر، اہل علم یا ایک جامع لفظ میں مفکرین کہہ سکتے ہیں۔

اس پس منظر میں، مفکرین کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے، خاص طور پر جب لوگ تصویر کے ایک ہی رخ یا کسی ایک ٹکڑے پر توجہ دے رہے ہوں۔ ایسے میں لازم ہوجاتا ہے کہ ایک مفکر پوری تصویر کو دیکھے تاکہ وہ انسانیت کی درست رہ نمائی کرسکے۔ اسی صورت میں ہم یہ سمجھ سکیں گے کہ مسائل اس سے کہیں زیادہ بڑے، گہرے اور پھیلے ہوئے ہیں جتنا ہم سمجھتے تھے، بصورت دیگر ہم ان جنگوں، غاصبانہ قبضوں اور جنگی بد امنیوں کی اصل وجوہات کو سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔ ہم جغرافیائی حدود کی پامالی، معمولی تنازعات یا دہشت گردی کو حقیقی اسباب سمجھ بیٹھیں گے جب کہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوگی۔

نئے طرز فکر کی ضرورت

یورپ میں نسل پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر کے پیچھے نقل مکانی کرنے والے مہاجرین وجہ نہیں ہیں۔ غزہ پر نا جائز تسلط کو سات اکتوبر کے واقعے میں قید کرکے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ امریکہ میں ٹرمپ کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ صرف بایڈن کی عمر رسیدگی نہیں ہے۔ یوکرین اور روس کے تنازع کو صرف روسی حملے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ افریقہ کے مسائل محض سرحدی تنازعات یا دہشت گردی کے سبب سے نہیں ہیں۔ اسی طرح اسلامی دنیا کی پسماندگی کی واحد وجہ استعمار نہیں ہے۔

عصرِ حاضر کے بحرانوں کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ان کی ہمہ گیر تصویر دیکھنا ناگزیر ہے۔ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر مفکرین کی ہے کہ وہ ان بحران کے حقیقی اسباب کی نشان دہی کریں اور پھر اس کے لیے حل پیش کریں۔ لیکن یہ نہایت صبر آزما مرحلہ ہے جس میں نئی سوچ اور نیا فکر بے حد ضروری ہے۔

یورپ میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی کا حل اسی وقت ممکن ہے جب دولت کی تقسیم میں عدل اجتماعی (social justice)کو یقینی بنایا جائے۔ مہاجرین پر پابندی لگانے سے اس کا حل نہیں نکلنے والا ہے۔ اسی طرح میکسیکو سے امریکہ کی جانب ہجرت کرنے والوں کے سیلاب کو دیوار کھینچ کر نہیں، بلکہ لاطینی امریکہ میں مستحکم اور انصاف پسند حکومتوں کے قیام سے روکا جا سکتا ہے۔ غزہ پر جبری قبضے کا خاتمہ صرف اس وقت ممکن ہے جب امریکہ اپنی سامراجی خواہشات سے دستبردار ہو جائے۔

مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایسے بہت سے مفکرین ہیں جو ان مسائل میں اس سے کہیں بہتر اور با اثر افکار پیش کر سکتے ہیں، لیکن فی الحال یورپ، امریکہ یا اسلامی دنیا کے دانش وروں میں روایتی سوچ کے خلاف کھڑے ہونے کی جرأت اور طاقت نا پید ہے اور یہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔

تازہ افکار کے بغیر حل نا ممکن ہے

ہمارے سیاسی، عسکری اور معاشی بحران کی جڑیں سماجی مسائل میں پیوست ہیں۔ ان بحران کو سمجھنے کے لیے سماج کا وسیع مشاہدہ، اس کی گہری سمجھ اور اس کی ضرورتوں کی تعیین لازمی ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مفکرین تازہ افکار پیش کریں تاکہ انسانی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ بنا افکار سیاست کا ارتقا نا ممکن ہے اور بحران کا حل بھی نا ممکن ہے، بلکہ اس کی پیچیدگیوں کا بڑھنا ہی متوقع ہے۔ چناں چہ اگر نئے افکار پیش نہ ہوئے تو بد امنی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ اس لیے ہم کو مضبوط افکار پیش کرنے والے مفکروں کی سخت ضرورت ہے۔ یورپ میں ایسے مفکرین کہاں ہیں جو برملا اس بات کا اعتراف کریں کہ یورپ کے مسائل کی اصل وجہ مشرق وسطی اور افریقہ میں اس کا استعمار اور ناجائز قبضہ ہے؟ عالم اسلام میں وہ مفکرین کہاں ہیں جو کھل کر یہ کہہ سکیں کہ اسلامی دنیا کے انحطاط کی اصل وجہ اسلام کے تئیں ہمارا سوءِ فہم اور ہماری بدعنوان حکومتیں ہیں؟ افریقہ کے وہ دانش ور کہاں ہیں جو بر اعظم افریقہ میں پھیلی بھک مری اور غربت کا اصل سبب لالچ کو قرار دے سکیں؟

ایسا لگتا ہے کہ یہ مفکرین خود احتسابی اور اپنی شخصیت کے عوامل پر نظر ثانی کے محتاج ہیں تاکہ اپنے حقیقی کردار کی بازیافت کر سکیں۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223