(یہ مضمون وطن عزیز ہندوستان کے تئیں احساسِ ذمہ داری کے حوالے سے ہے۔ امت مسلمہ کے تئیں احساسِ ذمہ داری کے حوالے سے علاحدہ ایک مستقل مضمون میں گفتگو ہوگی۔)
ملک کی تقسیم اور جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے بعد ملک کے حالات نہایت تشویش ناک تھے، مسلمانانِ ہند کو سخت خطرات درپیش تھے اور جماعت اسلامی ہند کے پاس افراد کی تعداد قلیل، وسائل نہایت محدود لیکن کام بہت بڑا تھا اور وہ یہ کہ ملک میں امن وامان قائم ہو اور مسلمانوں کو حوصلہ و اعتماد حاصل ہو۔
پاکستان کا قیام تو ہندوستان کے کچھ علاقوں میں ہوا، لیکن اس کے حق میں بھی اور اس کے خلاف بھی تحریک پورے ہندوستان میں چلائی گئی۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف تو پورے ہندوستان میں ہندو مسلم دونوں طرح کی قوم پرستی کے جذبات کو بڑھاوا ملا اور ہر علاقے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیل گئی۔ دوسری طرف تحریکِ پاکستان سے جذباتی لگاؤاس خطے کےبہت سےہندوستانی مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگیا جو ہندوستان ہی میں رہ گئے۔ایسے میں دو کام فوری طور پر بہت ضروری تھے۔ ایک یہ کہ ملک میں قوم پرستی کے جذبات اور فرقہ وارانہ منافرت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے اندر ہندوستان کے لیے یکسوئی اور ہندوستان کے تئیں احساسِ ذمہ داری پیدا کیا جائے۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے محدود وسائل اور نا مساعد حالات کے باوجودان دونوں کاموں کو انجام دینے کا بیڑا اٹھایا۔
ملک کی تقسیم اور جماعت اسلامی ہند کا موقف
جماعت اسلامی ہند نے ملک کی تقسیم کو ایک سانحہ کی حیثیت سے دیکھا، جس کے متوقع اور غیر متوقع تباہ کن نتائج سامنے آئے۔
ملک کی تقسیم کے پیچھے دراصل قوم پرستی کا جذبہ کارفرما تھا۔ہندو قوم پرستی نے مسلم قوم پرستی کو بھڑکایا اور مسلم قوم پرستی نے تحریکِ پاکستان کو برپا کیا اور پھر پورا ملک قومی کشمکش کے راستے پر چل پڑا۔ اس تقسیم کا فائدہ کسی کو نہیں ہوا۔ البتہ ہندوستانی مسلمانوں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا۔ حقیقت میں تو وہ تقسیم علاقائی بنیادوں پر تھی، یعنی ملک کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک ملک پاکستان اور باقی علاقوں پر مشتمل ایک ملک ہندوستان وجود میں آیا تھا۔ تاہم اس کے لیے تحریک پورے ملک میں چلائی گئی اور اس میں اسلام کا نام بھی لیا گیا۔ پاکستان کی تحریک پورے ملک میں چلانے کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمان شدید اضطراب، بے چینی اور فکری انتشار سے دوچار ہوئے اور انھیں یکسو ہونے میں وقت لگا۔ جماعت اسلامی ہند نے ملک کی تقسیم کو ہمیشہ حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا اورپہلے دن سے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی صحیح رہ نمائی کی۔
ملک کی تقسیم سے پہلے مسلمانوں کو کس طرح جذباتی بیانیوں سے مسحور کیا گیا اور جب قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ان کاسحر ٹوٹا تو مسلمانوں پر مایوسی کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی ؒ لکھتے ہیں:
تقسیم سے پہلے یہاں کے مسلمان عام طور سے دوگروہوں میں تقسیم تھے، وطن پر ور مسلمان اورقوم پرست مسلمان۔ اور دونوں گروہوں کے لیڈروں نے اپنے بلند بانگ دعاوی کے ذریعے مسلمانوں کو نہ صرف مستقبل کے خطرات سے غافل کردیا تھابلکہ ان کوامیدوں اور آرزوؤں کی ایک نہایت خوش نماجنت میں پہنچادیا تھا۔ پہلے گروہ کا دعوی یہ تھا کہ اسلام یا مسلمانوں کو جو مصیبت یا خطرہ بھی در پیش ہے وہ محض انگریزوں کی غلامی کی بدولت ہے جہاں وہ اس بند سے آزاد ہوئے، خوش بختی دوڑ کر ان کے قدم چومنے لگے گی اور دوسرا گر وہ کچھ اس سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اعلان کر رہا تھا کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی مسلمانوں کے تمام دلدر دور ہو جائیں گے، پاکستان کے اصل باشندوں کا تو کہنا ہی کیا، وہ ہندی مسلمانوں کا بھی ملجا و ماوی ہوگا اور اگر وہ اپنے گھروں میں ہی رہنا چاہیں گے تو وہ ان پر اس طرح سایہ فگن ہوگا کہ کوئی ان پرترچھی نگاہ بھی نہیں ڈال سکے گا، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کی شکل میں وہ اس چودھویں صدی میں قرن اول کی خلافت راشدہ کا نمونہ دیکھیں گے اور پھر اسلام پوری دنیا میں پھولے پھلے گا !
مسلمان اپنے لیڈروں کی یہ لن ترانیاں سنتے تھے اور سر دھنتے تھے، ان کے قدم زمین پر پڑتے ہی نہ تھے۔ تخیل کی جنت ان کا مسکن تھی لیکن جب واقعی ان سنہری خوابوں کی تعبیر ان کے سامنے آئی تو اس وقت انھیں محسوس ہوا کہ :
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
15 اگست 1947 کا آفتاب قریب قریب ان دونوں گروہوں کی تمناؤں کے مطابق طلوع ہوا۔ ایک طرف بھارت میں آزادی کا پرچم لہرایا، اور دوسری طرف دنیا نے پاکستان کی شکل میں ایک نئی وسیع ترین اسلامی سلطنت کے وجود میں آنے کی بشارت سنی۔ لیکن مسلمانوں کی قسمت میں اگر کچھ آیا تو یہ آیا کہ امیدوں اور آرزوؤں کے پورے ہونے کا تو سوال ہی کیا، جو خطرات ابھی وہم کے درجے میں تھے وہ عملاً ظہور میں آنے لگے۔ بلکہ بہت سے ایسے خطرات سامنے آگئے جن کا پہلے سے انھیں کوئی وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 146)
مقاصد میں ناکام تحریک
مولانا ابواللیثؒ کے نزدیک قیامِ پاکستان کی تحریک اپنے مزعومہ مقاصد میں ناکام ثابت ہوئی۔ وہ اس کا بے لاگ تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پاکستان بھی قائم ہو گیا اور ہندستان کو بھی آزادی نصیب ہوئی لیکن جہاں تک مسلمانوں کی قسمت کا تعلق ہے وہ صرف ناکامی سے آشنا ہوئی۔ ہندستان میں چار کروڑ مسلمانوں کا جو حال ہے وہ کسی تفصیل و توضیح کا محتاج نہیں ہے، رہا پاکستان کا معاملہ تو اگر کام یابی و نا کامی کے دینی تصور کو سامنے نہ بھی رکھا جائے جس کے لحاظ سے تنہا پاکستان کا قیام کوئی خوش آئند بات نہیں ہوسکتی جب تک کہ واقعی وہاں اسلامی نظام حکومت قائم نہ ہو کیوں کہ اسلام کے نقطہ نظر سے اصل کام یابی یہی ہے، خالص دنیوی نقطہ نظر سے بھی ہم قیام پاکستان کو کسی طرح بھی کام یابی کا ہم معنی قرار نہیں دے سکتے جب کہ جن خطرات و مصائب سے نجات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا مطالبہ کیا گیاتھا، وہ پہلے کی طرح یا اس سے بھی زیادہ اب بھی پاکستان کے رہنے والوں کو جیسا کہ خود ان کے اعلانات و بیانات سے ظاہر ہے گھیرے ہوئے ہیں اور یہ تو ظاہر ہی بات ہے کہ ان کے جسم کا نصف کے قریب حصہ خود ان کے بہ قول انھی خطرات کے منھ میں ہے، اگر یہی کام یابی ہے تو پھر آخر نا کامی کس چیز کا نام ہے۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 88)
کیا قیامِ پاکستان سے ہندوستانی مسلمانوں کو تحفظ ملا؟
پورے ملک میں پاکستان کی تحریک تو یہ کہہ کر چلائی گئی تھی کہ اس کے نتیجے میں تمام مسلمانوں کو تحفظ ملے گا۔ لیکن ہندوستانی مسلمان قیامِ پاکستان کے نتیجے میں اور زیادہ غیر محفوظ ہوگئے۔ مولانا ابواللیثؒ لکھتے ہیں:
پاکستان جن خطرات سے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا، وہ خطرات کچھ زیادہ شدت کے ساتھ ہندی مسلمانوں کو اب بھی درپیش ہیں اور خود پاکستان کے باشندے بھی پاکستان میں رہتے ہوئے ان سے محفوظ نہیں ہیں، اور قیام پاکستان سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر فضا میں منتشر ہوگئی ہیں۔ نہ پاکستان ہندی مسلمانوں کو اپنے یہاں جگہ دینے کے لیے تیار ہے اور نہ کبھی کبھی زبانی ہم دردی کرنے کے سوا، جو ان کے لیے اور زیادہ مصیبتوں کا باعث ہے، وہ مشکلات و مصائب میں ان کی کوئی مدد کر سکتا ہے۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد، ص 148)
پاکستان کا وجود ہی نہیں بلکہ اس کے بعد پاکستان کے رویے بھی ہندوستانی مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہے۔ مولانا ابواللیث ؒلکھتے ہیں:
غرض دینی اور دنیوی دونوں پہلوؤں سے مسلمانوں کی وہ تمام امیدیں خاک میں مل گئیں جو قیام پاکستان سے وابستہ تھیں۔ اس سے اگر ہندی مسلمانوں کوئی فائدہ پہنچا ہےیا پہنچ رہا ہے توہ صرف یہ ہے کہ یہاں کے مسلمان پہلے تحریکِ پاکستان میں اپنی سابقہ شرکت کے جرم میں اور اب اس کے ساتھ تعلق رکھنے کے خیالی اندیشے سے ملک کی اکثریت کی نگاہ میں خار بن کر کھٹک رہے ہیں اور حکومت اور عوام دونوں کی نگاہ میں سخت مشکوک اور نا قابلِ اعتبار ہیں۔ یا پھر یہ فائدہ پہنچ رہا ہے کہ یہاں کے مسلمان ہزاروں منتوں اور خوشامدوں سے یہاں کے حالات کو کچھ اپنے لیے سازگار بناتے ہیں کہ دفعتاً پاکستان اپنے کسی قول یا فعل کے ذریعے یہاں کی اکثریت کو مشتعل و غضب ناک بنا دیتا ہے، جس کا نزلہ ان پر گرتا ہے اور اس طرح وہ، اندرو باہر،دونوں طرف سے مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 149)
اس تحریک کی طرف سے سرزد ہونے والی بڑی غلطیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کے نتائج بتاتے ہوئے مولانا ابواللیث ؒلکھتے ہیں:
یہاں کی غیر مسلم آبادی خود بھی قوم پرستی کے کچھ کم رجحانات نہیں رکھتی تھی، اس پر مسلمانوں کے قوم پرستانہ طرز عمل نے گویا آگ پر تیل کا کام دیا، اور پھر وہ سب کچھ ہوا، جس کے تصور سے بھی ایک معقولیت پسند انسان کو گھن آتی ہے، ہندو مسلم کش مکش کی انتہا یہ ہوگئی کہ ملک کو مجبورا دو حصوں میں تقسیم ہونا پڑا، یہ تقسیم فطری طور پر غیر مسلموں کے لیے ایک تکلیف دہ چیز تھی، اس لیے اس کے رد عمل میں مسلمانوں کے ساتھ ان کی نفرت اور زیادہ ہوگئی اور چوں کہ نا عاقبت اندیش مسلم لیڈروں نے نتائج پر دھیان دیے بغیر تحریک پاکستان میں ان مسلمانوں کو بھی شریک کر لیا تھا، جو ہندستان میں بستے ہیں اور جن کو بہ ہر حال ہندستان ہی میں رہنا تھا، اس لیے پاکستانی مسلمانوں کے حصے کی نفرت بھی انہی کو بھگتنی پڑی، بلکہ غریب اسلام بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا، کیوں کہ قومی تحریک کو طاقت ور بنانے کے لیے اس کا نام بھی جا و بے جا استعمال کیا گیا تھا۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 323)
ہندوستانی مسلمانوں کا وطن ہندوستان ہے
جماعت اسلامی ہند نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ وہ اس ملک میں پورے اعتماد کے ساتھ رہیں۔ وہ اس ملک کے حقیقی باشندے ہیں اور ملک کی تقسیم سے ان کی اس اصولی اور آئینی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ مولانا ابواللیثؒ پر زور انداز میں رقم کرتے ہیں:
عقل و دیانت اور دنیا کے ہر قانون کی رو سے ہندستان مسلمانوں کا ویسا ہی وطن ہے اور اس پر ان کو اسی طرح کے حقوق حاصل ہیں جس طرح یہاں کے دوسرے باشندوں کو حاصل ہیں، ان کے ان حقوق کو کسی منطق و استدلال کی رو سے رد نہیں کیا جاسکتا اور آئین ہند میں ان کے لیے جو مساویانہ حقوق تسلیم کیے گئے ہیں وہ کچھ اکثریت کا صدقہ نہیں ہیں بلکہ وہ ان کے جائز حقوق ہیں جن کو تسلیم کیا جانا ہی چاہیے تھا۔ ہندستان میں مسلمان کچھ اب نہیں آئے ہیں بلکہ وہ صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور اس ملک کی ہر طرح کی ترقیوں میں ان کازبردست ہاتھ رہا ہے اس لیے اس کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ انھیں اپنی محنت و مشقت اور قابلیت کے بہ قدر اس ملک میں رہنے سہنے اور اس کے وسائل سے مستفید ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ اور باتوں کو کوئی نظر انداز بھی کر سکتا ہے لیکن یہ بات کس طرح نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ اس ملک کو انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزاد کرانے میں مسلمانوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ہندوؤں کی قربانیوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ سب قربانیوں کو چھوڑ یے صرف جلیا نوالہ باغ اور بازار قصہ خوانی کی جو تاریخ ان کے گرم گرم خون سے لکھی گئی ہے کیا وہ آسانی کے ساتھ بھلائی جاسکتی ہے؟ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 180)
مولانا ابواللیثؒ نے واضح لفظوں میں اس حقیقت کو بیان کیا کہ ملک کی تقسیم علاقائی بنیادوں پر عمل میں آئی ہے نہ کہ قوم و مذہب کی بنیاد پر۔ اس لیے مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی شہریت طے نہیں کی جاسکتی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
جو لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے پاکستان قائم کردیا گیا ہے اس لیے یہاں ان کا کوئی حق نہیں ہے وہ بھی اپنے اس قول کے ذریعے محض اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں کیوں کہ ہر شخص جانتا ہے اور ملک کے لیڈر برابر یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ تقسیم ملک کے مطالبہ کی بنیاد جو کچھ بھی رہی ہو لیکن ملک کی تقسیم علاقائی بنیادوں پر عمل میں آئی ہے نہ کہ قوم و مذہب کی بنیاد پر۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک کی اقلیتیں اس ملک کی باشندہ ہیں اور وہ اس پر بنیادی حقوق رکھتی ہیں اس لیے پاکستان اہل پاکستان کا ہے یا ان لوگوں کا جو وہاں جا کر بود و باش اختیار کرنا چاہیں لیکن جو لوگ ہندستان میں رہتے ہیں اور رہنا چاہتے ہیں وہ اپنے وطن میں رہنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ ان کو محض پاکستان قائم ہو جانے کی بنا پر ان کے اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 181)
ہجرت کے بے محل جذبات
ملک کی تقسیم کے نتیجے میں ہندوستان سے عملا تو کچھ ہی لوگ پاکستان نقل مکانی کرگئے، لیکن ہجرت کے نام پر پاکستان کی طرف نقل مکانی کا غلغلہ پورے ملک میں تھا۔ بعض لوگ عواقب و نتائج سے آنکھیں بند کرکےاسے دینی واجب قرار دے رہے تھے۔ لوگ حیرت وتذبذب کا شکار تھے۔ ایسے میں جماعت اسلامی ہند نے مہماتی انداز میں لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انھیں جذبات میں آکر ترکِ وطن کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیثؒ نے ماہنامہ زندگی میں مضمون لکھ کر ہندوستان میں مقیم رہنے کی شرعی حیثیت واضح فرمائی۔ ہندوستان کے اکابر علمائے کرام نے اس مضمون کی کھل کر تائید کی۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 176)
مولانا ابواللیثؒ نے متعدد مضامین لکھ کر مختلف پہلوؤں سےان محرکات کی کم زوری کو واضح کیا جو ترکِ وطن کا سبب بن سکتے تھے۔
ہندوستان کے لیے یکسو ہو جائیں
جماعت اسلامی ہند نے ہندوستانی مسلمانوں کو پیغام دیاکہ وہ پاکستان جانے کا خیال دل سے نکال دیں اور اس ملک کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ مولانا ابواللیث علیہ الرحمة کے الفاظ ہیں:
ان حالات میں ہمارا خیال یہ ہے کہ ہندستان کے عام مسلمانوں کو پاکستان جانے کا خیال چھوڑ کر مضبوطی اور دل جمعی کے ساتھ یہاں رہنے کا فیصلہ کرنا چاہیے اور یہاں کے حالات کو سازگار بنانے کی پوری جدوجہد کرنی چاہیے جس کے لیے مواقع بہ ہر حال مفقود نہیں ہیں تا آں کہ خدا نکرده واقعی عمومی ہجرت کے دینی تقاضے پیدا نہ ہو جائیں۔ اس وقت یقیناً ان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہوگا بلکہ یہ ضروری ہو جائے گا اور اس موقع پر کسی زحمت و مشقت یا فائدہ و نقصان کا خیال کرنا بھی نا جائز ہو جائے گا۔ لیکن یہ وقت ابھی نہیں آیا ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ اگر مسلمان اپنے فرض کو پہچانیں اور عزم و ہمت سے کام لیں تو ان شاء اللہ یہ وقت کبھی نہیں آئے گا۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 196)
تقسیم کے فوراً بعد ہی جماعت اسلامی ہند نے اپنے ذمے تین کام لیے:
اول یہ کہ ہجرت، انتقال آبادی، تبادلہ آبادی وغیرہ کے متعلق ایسے صحیح خیالات مسلمانوں میں شائع کیے جائیں جن سے ان میں صبرواستقلال کی شان پیدا ہوسکے۔
دوم یہ کہ ان کے اضطراب اور بے چینی کو دور کیا جائے اور ان کے خوف و ہراس کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
سوم یہ کہ اپنے رفقا کو ان کے فرائض یاد دلا کر ان میں استقامت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ (روداد اجتماع رام پور۔ ص 80)
الحمد للہ،جماعت اسلامی ہند کی ان کوششوں سے صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔مختلف مقامات سے اچھے اثرات کی رپورٹیں موصول ہوئیں۔ (روداد اجتماع رام پور۔ ص 91)
پاکستان سے متعلق اندیشے
پاکستان قوم پرستی کی تحریک کا نتیجہ تھا اس لیے اس بات کا قوی اندیشہ تھا کہ ہندوستان میں نمو پاتی قوم پرستی کی لہروں اور پاکستان سے نمودار ہونے والی قوم پرستی کی لہروں کا تصادم ہندوستان کے حالات کو مسلمانوں کے لیے سازگار نہیں ہونے دے گا۔ جماعت اسلامی ہند اپنے اس اندیشے کا اظہار کرتی رہی اور اس بات کی دعوت دیتی رہی کہ پاکستان کو قوم پرستی کے نشے سے نکل کر خالص اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی ہند کا یہ موقف تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار بدل سکتی ہے اور ان کے لیے ملک کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں اگر ہندوستانی مسلمانوں کے علاوہ خودپاکستان کی طرف سے ذمے دارانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ مولانا ابواللیث ؒلکھتے ہیں:
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان اپنے وجود یا اپنے طرز عمل کے ذریعے قومی کش مکش کے باقی رہنے کا ایک بڑا سبب بن سکتا ہے، کیوں کہ بد قسمتی سے پاکستان جس غرض کے لیے حاصل کیا گیا تھا تا حال وہ غرض پوری نہیں ہو سکی ہے۔ یعنی عملاً وہ ایک اصولی اسلامی اسٹیٹ کی بہ جائے اب تک ایک قومی اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس سے بہت سی ایسی حرکتیں قوم پرستانہ نقطہ نظر کے تحت سرزد ہوسکتی ہیں جو دوسری قوموں کے لیے قوم پرستانہ نقطہ نظر سے قابل شکایت ہوں اور اس کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ ہندستان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کے لیے پاکستان کا وجود ہی ایک نا قابل برداشت صدمہ ہے جس کا غصہ وہ یہاں کے مسلمانوں پر نکالنا اپنے لیے ہر طرح جائز سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد تو ان سے بھی زیادہ ہے جو کسی وقتی غصہ کے وقت پاکستان کے کسی فعل کا انتقام یہاں کے مسلمانوں سے لینے لگتے ہیں یا اس رد عمل کی ہمت افزائی کرتے اور اس کو پسند کرتے ہیں۔
لیکن حالات کی جو رفتار ہے اس میں اگر پاکستان یا خود ہندستانی مسلمانوں کی حماقتوں نے کوئی روڑا نہ اٹکایا تو آپ یقین رکھیں کہ یہ حالت زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتی۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 160)
پاکستان سے بے جا وابستگی سے اجتناب کریں
ہندوستانی مسلمان کی دو حیثیتیں ہیں، وہ مسلمان کی حیثیت میں پوری اسلامی امت کا حصہ ہے اور ہندوستانی کی حیثیت میں ہندوستان سے وابستہ ہے۔ لیکن خاص پاکستان سے وابستگی ان دونوں شقوں میں نہیں آتی تھی، بلکہ وہ نتیجہ تھی قوم پرستی کی تحریک سے متاثر ہونے کا جو قیامِ پاکستان کا محرک بنی تھی۔ ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کرلینے کے بعد ایسی کسی وابستگی کے لیے کوئی جواز نہیں رہ گیا تھا۔
جماعت اسلامی ہند نے ہندوستانی مسلمانوں کو سمجھایا کہ وہ ہندوستان کی تعمیر میں حصہ لیں اور پاکستان کے مسائل میں دل چسپی لینے کا غلط وطیرہ اختیار نہ کریں۔ مولانا ابواللیثؒ لکھتے ہیں:
‘‘ہندستان میں رہتے ہوئے یہاں کے مسائل سے زیادہ پاکستان کے مسائل سے دل چسپی لینا بھی شک و بدگمانی کا موجب ہو سکتا ہے اور ہے اس لیے اس سے بھی حتی الوسع اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام کے ساتھ قلبی لگاؤ رکھنا اور فکری حیثیت سے اس کے مسائل سے دل چسپی لینا، ایک بالکل قدرتی بات ہے کیوں کہ اسلام وہ مذہب ہے جس نے اپنی ملت کی بنیاد قوم و ملک کی حد بندیوں پر نہیں بلکہ وحدت افکار پر رکھی ہے اور اسی رشتے کو اس نے ہر رشتے سے زیادہ مضبوط اور سچا رشتہ قرار دیا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ عالم اسلام کے ساتھ اس حد تک تعلق رکھنا، نہ عقلی حیثیت سے غلط ہے اور نہ یہ کسی آئین و ضابطہ کے خلاف ہے بلکہ اس کو نا پسند کرنا انتہائی درجہ تک کی تنگ نظری و تنگ ظرفی ہے، جس کا کوئی عقل مند انسان اس زمانہ میں تصور نہیں کر سکتا لیکن یہ بات دوسری ہے کہ ہم ہندستان میں رہتے ہوئے یہاں کے مسائل سے تو کوئی سروکار نہ رکھیں البتہ شب و روز پاکستان یا کسی دوسرے ملک اور اس کے مخصوص مسائل سے دل چسپی لیتے ہوئے ان پر بحث و مذاکرہ میں اپنا وقت ضائع کریں جس سے حقیقتا نہ اس ملک کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ بحث کرنے والوں ہی کو۔ ہم ایسے ہی تعلق کو غلط سمجھتے ہیں اور اس سے مسلمانوں کو اجتناب کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ جب تک ہندستان و پاکستان کے تعلقات شک و بدگمانی پر مبنی ہیں، پاکستان سے ہمیں معمولی تعلق کے سلسلے میں بھی حتی الوسع احتیاط سے کام لینا چاہیے۔’’(مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 348)
ملک دشمنی کے الزام سے خود کو بچائیں
آزاد ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے وطن کے تئیں کبھی ملک دشمنی کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے اس طرح کے الزامات کے گھیرے میں رہے۔ حالات کی حساسیت کا تقاضا تھا کہ مسلمانوں کا رویہ شدید احتیاط پر قائم رہے۔
جماعت اسلامی ہندنے پرزور اپیل کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ملک دشمنی سے اتنا دور رہنا چاہیے کہ ان کے کسی عمل سے ملک دشمنی کی بو تک نہ آئے۔ مولانا ابواللیثؒ لکھتے ہیں:
وقوع یا امکان سے بحث نہیں لیکن ایک اصولی بات کی حیثیت سے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندستان میں رہتے ہوئے ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو واقعتا ملک دشمنی پر محمول کیا جاسکے، یہ اس حیثیت سے بھی غلط ہے کہ ہندستان میں جو مسلمان رہتے ہیں ان کا ملک کے ساتھ گویا ایک طرح سے معاہدہ امن ہو چکا ہے اس کے نبذ“ (فسخ) کے بغیر ان کے لیے اس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہوگی اور یہ اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ ایک مسلمان کا رویہ ہمیشہ مکر وفریب اور بد عہدی اور کذب وغیرہ سے پاک ہونا چاہیے، ملک میں رہتے ہوئے اور وفاداری کے اعلان واظہار کے ساتھ ملک دشمنی کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 349)
ملک کے تئیں احساسِ ذمہ داری کا ثبوت دیں
ملک کی تقسیم کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی ضرورت یہ تھی کہ ان کے اندر وطن کے تئیں احساسِ ذمہ داری کو جگایا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ملک تقسیم ہوجانے کے بعد بھی قوم پرستی کے جراثیم باقی رہیں اور وہ ملک کے تئیں تقاضوں سے غافل رکھیں اور ایسابھی نہ ہو کہ قوم پرستی کی جگہ وطن پرستی لے لے۔
جماعت اسلامی ہند نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ بھی سمجھایا کہ انھیں ملک و وطن کے تئیں احساسِ ذمہ داری کو اختیار کرنا ہے۔ مولانا ابواللیثؒ لکھتے ہیں:
مسلمان اپنے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنا جو کچھ بھی تشخص و امتیاز رکھتے ہوں لیکن بہ ہر حال وہ ہندستان کے باشندے ہیں اور اس حیثیت سے ان پر بہت کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کو ادا کیے بغیر وہ ہندستان میں اپنے لیے کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن اس وقت حالت یہ ہے کہ جس طرح مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے تقاضوں کے سلسلے میں غفلت یا کج روی کا ثبوت پیش کرتے ہیں اسی طرح ان سے ہندستانی ہونے کے تقاضوں کے سلسلے میں بھی طرح طرح کی کوتاہیاں سرزد ہو رہی ہیں۔ (مسلمانان ہند آزادی کے بعد ص 354)
جماعت اسلامی ہندہندوستانی مسلمانوں کو مسلسل یہ یاد دلاتی رہی ہے کہ انھیں ملک کی تعمیر میں اہم رول ادا کرنا ہے۔ ایمرجنسی کی قید و بند سے باہر آنے کے فوری بعد مرکزی مجلس شوری کے اجلاس میں ملک کے مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلانے کے لیے قرار داد جاری کی گئی جس میں کہا گیا:
مجلس شوری مسلمانانِ ہند کو خاص طور سے یاد دلاتی ہے کہ خیرامت کی حیثیت سے اپنے ملک کی تعمیر نو میں حصہ لینا ہے۔ انھیں ان بنیادی اقدار کو نشو و نما دینا ہے جو سماج کی صالح اور دیر پا تعمیر کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ ان کے پاس اللہ کا دین موجود ہے جو انسانیت کے سارے مسائل کا حل ہے ان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنی زندگیوں کو اس دین کے سانچے میں ڈھالیں۔ دوسری طرف عام بندگان خدا کو اس دین سے واقف کرائیں۔ تیسری طرف اس کی روشنی میں ان مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں جن سے ملک اس وقت دو چار ہے اپنا رول پوری طرح ادا کریں اور حق و انصاف کو قائم کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش صرف کریں۔ (روداد مجلس شوری جماعت اسلامی ہند جلد دوم ص 156)
جنگ کے حالات اور احساسِ ذمہ داری
ملک کے تئیں احساسِ ذمہ داری کا ایک اہم موقع جنگ کے حالات ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے ایسے ہر موقع پر ملک کے مفاد کی حفاظت کی فکر کی اور اس حوالے سے بہترین نمونے پیش کیے۔ اس حوالے سے دو مثالیں پیش کرنا کافی ہوگا۔
ہند چین جنگ اور جماعت اسلامی ہند کا موقف
1962ء میں چین نے ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی، اس موقع پر امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابو اللیث صاحبؒ نے بیان دیا :
‘‘ہندوستان پر چین کا تازہ جارحانہ حملہ ہر طرح مذمت کا مستحق ہے۔ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ چین نے ہندوستان کی امن پسندی اور صلح جوئی کی کوئی قدر نہیں کی اور جیسا کہ کمیونزم کا خاصہ ہے، مکر وفریب سے کام لیتے ہوئے ایک طرف تو مصالحت کے لیے نامہ و پیام کرتا رہا اور دوسری طرف چپکے چپکے حملہ کے لیے تیاریاں بھی کرتا رہا اور دفعتًا کسی معقول وجہ کے بغیر اس نے نیفا اور لداخ میں جارحانہ کارروائیاں بڑے پیمانہ پر شروع کر دی ہیں۔ اس صورت حال پر ہندوستان کے ہر باشندے کا انتہائی تشویش اور اضطراب میں مبتلا ہو جانا ایک بالکل قدرتی بات ہے۔ چین کی یہ جارحانہ کارروائیاں ملک کی عزت و خودداری کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جس کا ملک کے شایان شان جواب دینا ضروری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ حکومت ہند نے چینی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور ملک کی عزت و ناموس اور اس کی آزادی کو ہر قیمت پر محفوظ رکھنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اس ضروری کام میں حکومت کی ہر طرح مدد کرنا ہندوستان کے ہر شہری کا ایک ضروری فرض ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس موقع پر مسلمانان ہند اپنے فرض کی ادائیگی میں کسی سے پیچھے نہ رہیں گے۔ مسلمانوں کو حکومت یا اکثریت سے شکایات ہو سکتی ہیں اور ہیں لیکن اس وقت جتناسوال ملک کی عزت و ناموس اور آزادی کے تحفظ کا ہے کسی اور کا نہیں۔ اور مسلمانوں کو اس موقع پر خاص طور سے یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہندوستان کی سرحدوں پر اشتراکیت کی پیش قدمی، جمہوریت اور اخلاقی اور روحانی قدروں کے لیے بھی ایک زبردست خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کو ہر حال میں دور کرنے کی کوشش کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔
مولانا نے مزید کہا: میں عام باشندگان ملک اور خاص کر مسلمانانِ ہند کو اس طرف متوجہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ چینی جارحیت کے مقابلہ کے لیے جہاں ہر طرح کے مادی وسائل و ذرائع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ وہیں اس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مادہ پرستی کے غلبہ واستیلا کی بنا پر ملک جس اخلاقی ابتری اور کردار کے انحطاط کا شکار ہو چکا ہے اس کی اصلاح و تدارک کی بھی فکر کی جائے اور ان سماجی سرگرمیوں پر بھی نظر ثانی کی جائے جن کے باعث کردار کی پختگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں کہ لڑائی میدان جنگ میں ہی جیتی نہیں جاتی بلکہ اس کے فیصلہ کا اصل مدار قوم کے اخلاق و کردار پر ہے۔” (28 اکتوبر 1962ء)
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند مغربی بنگال عبدالفتاح صاحب اس وقت بے بنیاد الزامات کی بنا پر جیل میں بند تھے، انھوں نے وہاں سے مرکز جماعت کو خط لکھا جو دعوت اخبار میں شائع ہوا، اس میں انھوں نے لکھا:
’’میں امید کرتا ہوں کہ اس نازک اور سنگین موقع پر جماعت اسلامی ہند بھی اپنا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ادا کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہے گی اور اپنی پوری طاقت اور وسائل و ذرائع کے ساتھ ملک و مذہب کی حفاظت کے لیے حکومت اور ملک کی دفاعی کوششوں اور کاموں کی مکمل تائید وحمایت کرے گی۔ نیز اپنی تمام تنظیمی شاحوں اور افراد جماعت کے ذریعہ ملک کے گوشہ گوشہ میں عام لوگوں کو مورال (Moral) کو اونچا کرنے اور ان کے جذبہ دفاع کو ابھارنے کی پوری کوشش کرے گی۔ اور خاص طور سے مسلمانوں کو آمادہ کرے گی کہ پورے جوش وخروش کے ساتھ ملک کے دفاع میں حصہ لیں۔‘‘ (دعوت: 16نومبر1962ء)
اسی دوران جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے اجلاس میں بھی اس حوالے سے قرار داد جاری کی گئی جس میں کہا گیا:
چین کا حملہ ایک کھلی ہوئی جارحیت ہے جس کی ہر انصاف پسند شخص کو مذمت کرنی چاہیے اور مجلس کو اس بات پر خاص طور سے نہایت افسوس ہے کہ ہندوستان سرحدی جھگڑوں کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کی جو پیہم کوشش کرتا رہا ہے، چین نے اس کی کوئی قدر نہیں کی اور ہندوستان کی امن پسندی سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہوئے بڑے پیمانے پر حملہ کر دیا۔ جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں قرار دیا جا سکتا کہ وہ جھگڑوں کو طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔
مجلس کو اس پر اطمینان ہوا کہ حکومت اس جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اپنے غصب شدہ علاقوں کو ہر قیمت پر واپس لینے کے لیے پوری طرح آمادہ ہے اور اس کے لیے ہر طرح کی ضروری کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ مجلس کے نزدیک اس کام میں حکومت کی مدد کرنا ہر ہندوستانی کا ایک ضروری فریضہ ہے اور مجلس کو یہ یقین ہے کہ جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ (مرکزی مجلس شوری کی قرار دادیں، ص 24، 25)
ہند پاک جنگ اور جماعت اسلامی ہند کا موقف
1965ء کی ہند پاک جنگ کے موقع پر جماعت کے ارکان و کارکنان کی گرفتاریاں ہوئیں، اس کے باوجود مرکز جماعت اسلامی ہند کی طرف سے رفقاء کو ہدایت کی گئی کہ ارباب حکومت کی زیادتی کے باوجود ملکی خدمات میں حصہ لیجیے۔
ہدایات میں کہا گیا کہ یہ گرفتاریاں ہمارے اپنے خیال کے مطابق خواہ کتنی ہی غلط اور بے محل کیوں نہ ہوں لیکن جنگ کی وجہ سے جو ہیجانی کیفیت رونما ہو چکی ہے اس کے لحاظ سے وہ تعجب انگیز ہرگز نہیں ہیں۔ اس لیے انھیں نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔
مزید یہ بھی کہا گیا کہ اس موقع پر شاید اس سے کوئی خاص فائدہ نہ پہنچ سکے کہ ان بے جا گرفتاریوں پر احتجاج یا شکوہ شکایت کی جائے اس لیے اس کے بجائے امن وامان کے قیام اور فرقہ وارانہ اتحاد وہم آہنگی اور شہری دفاعی کوششوں، ہوم گارڈ وغیرہ میں سرگرمی سے حصہ لیں۔ اور ان کاموں کے انجام دینے کے سلسلے میں مقامی ذمہ داران حکومت اور دیگر مقامی جماعتوں کے ذمہ داروں سے ربط وتعلق قائم کریں۔ ارباب حکومت کا طرز عمل ہمارے ساتھ خواہ کچھ بھی ہو اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہمیں اپنا دینی وملکی فرض انجام دینا ہے۔ (محمد یوسف، قیم جماعت اسلامی ہند، دعوت:16ستمبر 1965)
امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابو اللیث صاحبؒ نے اپنے ایک بیان میں تمام جماعتی شاخوں اور مقامی رفقائے جماعت کو ہدایت کی کہ ملک کی موجودہ نازک صورت حال میں اپنی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہو جائیں، جو ان سنگین حالات نے اہل ملک کے ساتھ خود ان کے اوپر بھی ڈال دی ہیں۔ موصوف نے مرکز کے سابقہ اعلانات کا حوالہ دیتے ہوئے رفقاء کو خاص طور سے ہدایت کی کہ شہری امن و امان کے قیام اور وقتی حالات سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے جو کمیٹیاں قائم ہو رہی ہیں۔ ان میں ہمارے رفقاء پوری سرگرمی سے حصہ لے کر اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے لیے مقامی ذمہ داران حکومت سے بھی ربط قائم کریں۔ ریڈ کر اس کی طرف سے کپڑے اور کمبل وغیرہ کے لیے جو اپیل کی گئی ہے اس میں بھی پوری طرح حصہ لیں۔ محترم امیر جماعت نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بر قرار رکھنے اور نازک حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں میں حوصلہ مندی، مستقل مزاجی، فرض شناسی، خود اعتمادی اور جرأت و پامردی کے جذبات پیدا کرنے اور ناجائز نفع خوری اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ کی روک تھام کے لیے مؤثر جدوجہد کرنے اور اپنے کو خطرات میں ڈال کر مظلوموں اور مصیبت زدوں کو امداد پہنچانے کی طرف بھی رفقاء کو متوجہ کیا ہے۔ آخر میں موصوف نے رفقاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ خود بھی بارگاہ الہی میں دعا کریں (اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی طرف متوجہ کریں) کہ جنگ کے بادل جلد چھٹ جائیں اور امن و امان بحال ہو۔ آمین (دعوت: 11 ستمبر 1965)
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جماعت اسلامی ہند نے متعدد قرار دادوں اور بیانات میں دونوں ملکوں میں صلح و مصالحت، پر امن مذاکرات اور بہتر تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری (مارچ 1966) نے اعلان تاشقند کا خیر مقدم کرتے ہوئے درج ذیل قرار داد منظور کی:
جماعت اسلامی ہند اس اصول پر یقین رکھتی ہے کہ قوموں اور ملکوں کے باہمی تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت، خیر سگالی اور انصاف پسندی پر قائم ہوں اور اگر ان کے درمیان کوئی اختلاف یا نزاع پیدا ہو ہی جائے تو اسے پرامن ذرائع سے طے کرنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے اور جنگ کی نوبت نہ آنے دینا چاہیے مجلس شوری اپنے اس احساس کا بھی اظہار کرتی ہے کہ سائنس اور ٹکنا لوجی کی ترقیوں نے جنگ کو اتنا ہول ناک اور تباہ کن بنا دیا ہے کہ امن پسند دنیا اس کے نام سے بھی لرزہ براندام رہتی ہے اور اس سے جو تیا ہیاں رونما ہوتی ہیں ان سے فریقین میں سے کوئی بھی خواہ وہ فاتح ہی کیوں نہ ہو محفوظ نہیں رہ سکتا۔
جماعت اسلامی کی مجلس شوری اپنے اسی احساس کے تحت اعلان تاشقند کا خیر مقدم کرتی ہے اور توقع رکھتی ہے کہ دونوں حکومتیں صدق دل سے اس پر عمل کریں گی۔
مجلس شوری اس حقیقت کے پاس ولحاظ کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں پڑوسی ملک ہیں جن کے مابین متعدد روابط ہیں۔ ان کے مفادات بھی بہت کچھ مشترک ہیں ان کے باہمی تعلقات کی خرابی دونوں ہی کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ اعلان تاشقند نے اختلافی مسائل کو پرامن ذرائع سے طے کرنے کا فیصلہ کر کے تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کا دروازہ کھول دیا ہے جس سے امید ہے دونوں ملک پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔(مرکزی مجلس شوری کی قرار دادیں، ص 345، 346)
اسی طرح مئی 1990 میں مرکزی مجلس شوری نے درج ذیل قرار داد منظور کی:
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری اپنے اس احساس کا اظہار کرتی ہے کہ ہندو ستان اور پاکستان کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف پردپیگنڈہ جاری رکھنا نہایت خطر ناک مسائل پیدا کر سکتا ہے اور خدا نخواستہ باہمی تصادم کی نوبت آسکتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ترقی پذیر پڑوسی ملک ہیں۔ اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور داخلی بحران اور باہمی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ مجلس شوریٰ اس بات کا بھی احساس دلانا ضروری سمجھتی ہے کہ ان دونوں ملکوں کی تعمیر و ترقی کا راز باہمی تصادم اور کش مکش میں نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ خوش گوار تعلقات اور تعاون کی بہترین صورت اختیار کرنے میں ہے۔ وہ دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ حالات کو کشیدگی سے پاک اور معمول پر لانے کی طرف فی الفور توجہ کریں اور اپنے اختلافات کو کسی غیر ضروری تاخیر کے بغیر پر امن گفت وشنید سے رفع کریں۔ (مرکزی مجلس شوری کی قرار دادیں، ص 363)
جماعت اسلامی ہند کا ذمے دارانہ رویہ
دسمبر 1983 میں پاکستان میں اسلامک کونسل کی جانب سے اسلام ٹوڈے کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ دعوت نامہ ملنے پر اس میں ہندوستان سے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث ؒبھی شریک ہوئے۔ ساتھ میں ریڈینس ویکلی کے مدیر امین الحسن رضوی اور دعوت کے ایڈیٹر محفوظ الرحمان صاحبان بھی بحیثیت مدعو صحافی شریک ہوئے۔
اس کانفرنس میں امیر جماعت نے اپنی تقریر میں کہا :
ہمارے ملک میں جمہوریت نافذ ہے اور ہمیں اظہارِ خیال کی آزادی حاصل ہے۔ ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلام کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ اور آبادی کے تمام حصوں کو اسلام سے روشناس کرانے کے لیے ہم کئی طرح کے کام کررہے ہیں۔
اس کانفرنس میں قراردادیں منظور کی گئیں، جن میں افغانستان، القدس اور فلسطین، ایران عراق جنگ، شام، فلپائن، جموں وکشمیر، ایری ٹیریا، قبرص، یوگنڈا، وغیرہ میں موجود صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور عملی اقدامات کی اپیل کی گئی۔ جموں وکشمیر کے سلسلے میں قرار داد کے الفاظ تھے: 1947ء میں تقسیم ہند کے منصوبہ میں جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کو ایک ناقابل تنسیخ حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔ جس کی توثیق بعد میں سلامتی کونسل اور اس کے دوسرے اداروں کی قرار دادوں میں بھی کی گئی تھی۔ یہ کانفرنس اس (حق خود ارادیت) مسلسل خلاف ورزی پر گہری تشویش ظاہر کرتی ہے۔ کانفرنس مسلم عوام اور مسلم حکومتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ کشمیری عوام کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت کریں۔
اس موقع پر امیر جماعت اور ان کے ساتھیوں نے اپنا اختلافی موقف درج کرایا جو حسب ذیل تھا:
ہم ہندوستان کے شرکائے کانفرنس افغانستان فلسطین اور فلپائن کے مسلمانوں کی اس جدوجہد کی پوری تائید و حمایت کرتے ہیں جو وہ کرتے آئے ہیں اور جو وہ اپنی آزادی اور اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے کررہے ہیں۔ نیز ہم دنیا ہر خطہ کے ان تمام لوگوں کے ساتھ اظہار ہم دردی کرتے ہیں جو ظلم و زیادتی کے شکار ہیں۔ خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، البتہ جہاں تک مسئلہ کشمیر کو اس کانفرنس میں زیر بحث لانے کا تعلق ہے، ہمارا خیال ہے کہ شملہ معاہدہ کی موجودگی میں اس طرح کے فورموں میں اس مسئلہ کو زیر بحث لانا مناسب نہ ہوگا بلکہ اندیشہ ہے کہ یہ بات اس معاہدہ کے روبہ عمل آنے میں رکاوٹ کا موجب ہوگی۔ اگر شرکائے کانفرنس ہمارے اس خیال سے اتفاق نہ کرسکیں تو براہ کرم ہمارا یہ اختلاف کارروائی میں درج کرلیا جائے۔ (مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کا دورہ پاکستان، ص 22)
اس موقع پر مولانا ابواللیثؒ کا ایک انٹرویو پاکستان کے اخبارات (جسارت، نوائے وقت وغیرہ) میں شائع ہوا۔ جسارت میں اس کی رپورٹنگ حسب ذیل تھی:
راولپنڈی: امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابوللیث نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قریبی اور خوشگوار تعلقات استوار ہونے چاہئیں اور یہ کام اخبارات زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اخبارات پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے اخبارات اس مقصد کو سامنے رکھیں کہ دونوں پڑوسی ملکوں کو امن و سکون سے رہنا چاہیے۔ یہی دونوں کے حق میں مفید ہے۔ نمائندہ جسارت سے ایک خصوصی ملاقات میں انھوں نے کہا کہ بھارت کے مسلمان مشکلات کے با وجود ہمت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ہمارے لیے غیر ضروری ہمدردی کا اظہار بعض اوقات نقصان دہ ثابت ہو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میری استدعا یہ ہے کہ آپ ہمارے لیے صرف دعا کریں۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حکمراں پاکستان کو حقیقت تسلم کرتے ہیں لیکن مغربی سیاست کی برائی یہ ہے کہ انتخابات میں کام یابی کے لیے مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں، مولانا ابواللیث نے کہا کہ بھارت کے مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ وہ پاکستان نہیں جا سکیں گے اور انھیں قیامِ پاکستان کا خمیازہ بھگتنا ہوگا لیکن جس عظیم خواہش کے لیےیہ سب کچھ ہوا تھا، اس کے بہت زیادہ اثرات آپ کے معاشرہ میں نظر نہیں آتے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا فسادات بھارت میں ضرور ہوتے ہیں اور ان کا علم بھی عام لوگوں کو ہونا چاہیے تاہم اس سلسلے میں کوئی اطلاع مبالغہ کے ساتھ شائع نہ کی جائے۔ (مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کا دورہ پاکستان، ص 30)
مولانا ابواللیثؒ کے اس سفر کے بعد دو متضاد رویے سامنے آئے۔ ایک طرف اخبار مشرق کلکتہ 27 دسمبر 1983 میں اس پر سخت تنقید کی گئی کہ مولانا نے غیر ضروری احتیاط سے کام لیا۔ دوسری جانب دائیں بازو کے اخبار آرگنائزر 22 جنوری 1984 میں جماعت اسلامی ہند پر یہ غلط الزام لگایا گیا کہ اس نے کشمیر سے متعلق قرارداد کی حمایت کی۔(دیکھیں: مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ کا دورہ پاکستان)
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جماعت اسلامی ہند نے کشمیر میں ہونے والے سرکاری مظالم کے خلاف متعدد بار قراردادیں منظور کیں اور حکومت کو مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کی طرف متوجہ کیا۔
مشرقی پاکستان کا مسئلہ اور جماعت اسلامی ہند کا موقف
1971ء میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے حالات خراب ہوئے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری (اگست 1971ء)نے تفصیلی قرار دادیں منظور کیں۔ جس میں ہندوستان اور پاکستان پر پڑنے والے اثرات کا ذکر کرکے دونوں ملکوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی گئیں۔ قرار داد کا درج ذیل اقتباس ملک کے تئیں جماعت اسلامی ہندکے احساسِ ذمہ داری کو بخوبی واضح کرتا ہے:
اس ٹریجڈی کے نتیجہ میں دو ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں جنھوں نے پورے بر صغیر ہند و پاک کو ایک زبر دست بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک طرف تو ہندوستان میں کئی ملین پاکستانی شہریوں نے پناہ لی ہے، جس نے ملک میں طرح طرح کے مسائل کھڑے کر دیے ہیں، دوسری طرف پاکستان میں جمہوریت کے قیام کی جو امیدیں پیدا ہوگئی تھیں وہ معرض خطر میں پڑی ہیں۔
جہاں تک ہمارا اور ہمارے ملک کا تعلق ہےسب سے اہم مسئلہ پناہ گزینوں کا ہے جن کی خدمت اور کفالت ہمارا انسانی فریضہ بن گئی ہے اس سلسلے میں حکومت اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہے اور بین الاقوامی برادری بھی اس کا ہاتھ بٹارہی ہے لیکن اس ذمہ داری کی ادائیگی میں تمام شہریوں اور سماجی اداروں کو بھی فراخ دلانہ حصہ لینا چاہیے جماعت اسلامی ہند اس سلسلے میں اپنا تعاون بہت پہلے پیش کرچکی ہے اوربحالاتِ موجود ہ جو کچھ ممکن ہے کررہی ہے لیکن ظاہر ہے کہ موجودہ صورت حال مستقل قائم نہیں رہ سکتی اس لیے ہماری خواہش ہے کہ جلد از جلد ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ یہ پناہ گزیں جان ومال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے ساتھ اپنے وطن واپس جاسکیں۔
وطن عزیز قائدانہ کردار ادا کرے
وطن کے تئیں احساسِ ذمہ داری کے تحت جماعت اسلامی ہند نے ہمیشہ اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ خطے میں امن امان قائم کرنے اور خوش حالی لانےکے عمل میں ہندوستان کا رول قائدانہ نوعیت کا ہو۔ بطور مثا ل جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کی ایک قرار داد (اجلاس 1981ء) میں خطے میں بڑھتے ہوئے بڑی جنگ کے اندیشوں کے حوالے سے کہا گیا :
دنیا کے اسی علاقے میں ہمارا ملک ہندوستان بھی واقع ہے۔ جس کی سرحدیں جنوبی ایشیا سے جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ اس خطے کا ایک بڑا اور اہم ملک ہے۔ اس پر خود اپنے مفاد کی طرف سے بھی اور انسانیتِ عامہ کی طرف سے بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پر خطر معاملات کے بارے میں بے فکر اور غیر جانب دار نہ رہے بلکہ اس بات کی پوری کوشش کرے کہ بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنا کھیل نہ کھیل سکیں جس کی تدبیر صرف یہ ہے کہ وہ اس پورے علاقے میں قائدانہ رول انجام دیتے ہوئے اس علاقے کے ممالک کو بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھے اور ان کے اندر بقائے باہم کے اصولوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔۔۔
جماعت اسلامی ہند چاہتی ہے کہ آج کے حالات میں مسلمانانِ ہند کو بھر پور خود اعتمادی کے ساتھ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا یہ ملک ہر بیرونی مداخلت سے آزاد رہے اور اس کا کردار اتنا صاف اور بے داغ ہو کہ پڑوسی ممالک ہمیں اپنے خیر خواہ کی حیثیت سے جانیں پہچانیں۔ مسلمانان ہند اگر چہ سیاسی طور پر کوئی مضبوط وحدت نہیں لیکن اصولی طور پر وہ ایک بڑی اکائی ہیں اور ان کی عین خواہش ہے کہ اپنی حکومت کی ہر آئینی کوشش میں اپنا بھر پور تعاون دیں۔ شوری توقع کرتی ہے کہ حکومت ان کی خواہش کی قدرکرےگی۔ (مرکزی مجلس شوری کی قرار دادیں، ص 368)
یہ ایک سرسری جائزہ اور چند مثالیں ہیں جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اقامتِ دین کی علم بردار جماعت اسلامی ہند اول روز سے ملک عزیز کے تئیں احساسِ ذمہ داری سے سرشار رہی ہے اور اس نے پوری بے لوثی کے ساتھ ہر موقع پر اپنے رفقا اور تمام مسلمانانِ ہند کے اندر ملک سے محبت اور ملک کے تئیں احساس ذمے داری کو بیدار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2025